Surat Younus

Surah: 10

Verse: 87

سورة يونس

وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰی وَ اَخِیۡہِ اَنۡ تَبَوَّاٰ لِقَوۡمِکُمَا بِمِصۡرَ بُیُوۡتًا وَّ اجۡعَلُوۡا بُیُوۡتَکُمۡ قِبۡلَۃً وَّ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۸۷﴾

And We inspired to Moses and his brother, "Settle your people in Egypt in houses and make your houses [facing the] qiblah and establish prayer and give good tidings to the believers."

اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) اور ان کے بھائی کے پاس وحی بھیجی کہ تم دونوں اپنے ان لوگوں کے لئے مصر میں گھر برقرار رکھو اور تم سب اپنے انہی گھروں کو نماز پڑھنے کی جگہ قرار دے لو اور نماز کے پابند رہو اور آپ مسلمانوں کو بشارت دے دیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They were commanded to pray inside Their Homes Allah tells; وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَن تَبَوَّءَا لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُواْ بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُواْ الصَّلَةَ وَبَشِّرِ الْمُوْمِنِينَ And We revealed to Musa and his brother (saying): "Provide dwellings for your people in Egypt, and make your dwellings as places for your worship, and perform the Salah, and give glad tidings to the believers." Allah tells us why He saved the Children of Israel from Fir`awn and his people. He tells us how he saved them. Allah commanded Musa and his brother Harun to take houses for their people in Egypt, وَاجْعَلُواْ بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً (and make your dwellings as places for your worship). Al-Awfi reported that Ibn Abbas said, while interpreting this Ayah: "The Children of Israel said to Musa, `We cannot offer our prayers in public in front of Fir`awn's people.' So Allah permitted them to pray in their houses. They were commanded to build their houses in the direction of the Qiblah." Mujahid commented, وَاجْعَلُواْ بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً (and make your dwellings as places for your worship), "When Banu Israel feared that Fir`awn might kill them in their gatherings at their temples, they were commanded to take their houses as places of worship. The houses should be facing the Qiblah and the prayer could be in secret." This was stated by Qatadah and Ad-Dahhak as well.

قوم فرعون سے بنی اسرائی کی نجات بنی اسرائیل کی فرعون اور فرعون کی قوم سے نجات پانا ، اس کی کیفیت بیان ہو رہی ہے دونوں نبیوں کو اللہ کی وحی ہوئی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر بنالو ۔ اور اپنے گھروں کو مسجدیں مقرر کر لو ۔ اور خوف کے وقت گھروں میں نماز ادا کر لیا کرو ۔ چنانچہ فرعون کی سختی بہت بڑھ گئی تھی ۔ اس لیے انہیں کثرت سے نماز ادا کرنے کا حکم ہوا ۔ یہی حکم اس امت کو ہے کہ ایمان دار و صبر اور نماز سے مدد چاہو ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک بھی یہی تھی کہ جب کوئی گھبراہٹ ہوتی فوراً نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے ۔ یہاں بھی حکم ہوتا ہے کہ اپنے گھروں کو قبلہ بنا لو ، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان مومنوں کو تم بشارت دو انہیں دار آخرت میں ثواب ملے گا اور دنیا میں ان کی تائید و نصرت ہوگی ۔ اسرائیلیوں نے اپنے نبی سے کہا تھا کہ فرعونیوں کے سامنے ہم اپنی نماز اعلان سے نہیں پڑھ سکتے تو اللہ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے گھر قبلہ رو ہو کر وہیں نماز ادا کر سکتے ہو اپنے گھر آمنے سامنے بنانے کا حکم ہو گیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

87۔ 1 اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے گھروں کو ہی مسجدیں بنا لو اور ان کا رخ اپنے قبلے (بیت المقدس) کی طرف کرلو تاکہ تمہیں عبادت کرنے کے لئے باہر عبادت خانوں غیرہ میں جانے کی ضرورت ہی نہ رہے، جہاں تمہیں فرعون کے کارندوں کے ظلم و ستم کا ڈر رہتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٧] دین کی سربلندی کے لئے جماعتی نظم ونسق اور جماعتی نظم ونسق کے لئے مساجد اور اقامت الصلوٰۃ دونوں ضروری ہیں :۔ طاغوتی اور لادینی حکومتوں میں بھی ان کی رعایا کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق مراسم و عبادات بجا لانے کی اجازت ہوا کرتی ہے اور ایسی عبادت کو اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایک ذاتی معاملہ کی حد تک محدود رکھا جاتا ہے ایسی آزادی سے حکومتوں کو کچھ نقصان بھی نہیں ہوتا اور اگر وہ اتنی آزادی بھی نہ دیں تو حکومتیں چل بھی نہیں سکتیں حکومتوں کو اعتراض صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ مذہبی لوگ سیاست میں دخل دینے لگیں اور انبیاء کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی حکومتوں سے ٹکر لینے کے لیے مسلمانوں میں جماعتی نظام پیدا کرتے ہیں اور اس تنظیم کا اولین مرکز مسجد ہوتی ہے فرعون کے زمانہ میں بھی سیدنا موسیٰ و ہارون (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے نوجوان اور کمزور ہمت بوڑھے لوگ اپنے گھروں میں نماز ادا کرتے تھے جب ان لوگوں نے کافروں سے نجات کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں پیغمبروں کی طرف وحی کی کہ اگر اللہ کی مدد چاہتے ہو تو جماعتی نظم و نسق قائم کرو، چند گھروں کو مسجد کے طور پر منتخب کرلو اور نماز باجماعت کا اہتمام کرو یہی مساجد تمہاری عبادت، تمہاری معاشرت، تمہاری معیشت اور تمہاری سیاست کے بھی مرکز ہوں گے اس طرح جب تم ایک دوسرے کے معاون و رفیق بن جاؤ گے اور خود کو ایک جماعتی نظم میں منسلک کرلو گے تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ ضرور تمہاری مدد کرے گا اور تمہاری دعاؤں کو ضرور قبول فرمائے گا اور اسی صورت میں تم کامیاب ہوسکو گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰى وَاَخِيْهِ اَنْ تَبَوَّاٰ ۔۔ : ہماری امت کی خصوصیت ہے کہ اس کے لیے پوری زمین مسجد بنادی گئی ہے۔ مسلمان کو جہاں بھی نماز کا وقت ہوجائے نماز پڑھ سکتا ہے۔ پہلی امتوں میں یہ سہولت نہ تھی، بلکہ عبادت کے لیے مقررہ مقامات ہی میں نماز پڑھنا ضروری تھا، خواہ آپ اسے مسجد کہہ لیں یا کنیسہ۔ فرعون کو بنی اسرائیل کا جمع ہونا کسی طرح برداشت نہ تھا، خصوصاً جو مقام فرعون کی ربوبیت کے انکار کا اور اکیلے اللہ کی ربوبیت اور عبادت کا نشان ہو اور ایک اللہ کے پرستار بنی اسرائیل روزانہ کئی مرتبہ وہاں جمع ہوتے ہوں۔ اس لیے ان آیات سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ فرعون نے ان کے عبادت خانوں میں جانے پر پابندی لگا دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو وحی فرمائی کہ مصر میں کچھ گھروں کو اپنی نماز کی جگہ مقرر کرلو اور اپنے گھر قبلہ رخ بنا لو۔ اس سے کسی حد تک اجتماع کا موقع بھی ملتا رہے گا، باہمی ملاقات سے محبت بھی بڑھتی رہے گی اور نماز باجماعت بھی ہوتی رہے گی اور ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی بھی۔ ایسی صورت میں بنی اسرائیل سے مسجدوں میں جانے کی پابندی اضطرار کی بنا پر ختم کردی گئی، البتہ نماز پھر بھی ہر جگہ پڑھنے کی اجازت نہیں ملی، بلکہ اپنے گھر قبلہ رخ بنا کر ان میں چھپ کر نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام گھر قبلہ رخ بنانے کا حکم ہوا مگر نماز کے لیے چند گھر مخصوص تھے، جن کا صرف مسلمانوں کو علم تھا، اگر کسی گھر کا راز فاش ہوجاتا تو دوسرا کوئی گھر مقرر کرلیا جاتا اور تمام گھروں کے قبلہ رخ ہونے کی وجہ سے کوئی دشواری پیش نہ آتی۔ دلیل اس کی ایک تو یہ ہے کہ فرمایا : (نْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوْتًا) ” بُیُوْتاً “ یعنی پوری قوم کے لیے چند گھروں کو ٹھکانا مقرر کرلو۔ دوسری یہ کہ حکم تھا : (وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ ) اور اقامت صلوٰۃ صفوں کی درستگی کے بغیر نہیں ہوتی جو جماعت کی صورت ہی میں بنتی ہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( سَوُّوْا صُفُوْفَکُمْ فَإِنَّ تَسْوِیَۃَ الصُّفُوْفِ مِنْ إِقَامَۃِ الصَّلاَۃِ ) [ بخاری، الأذان، باب إقامۃ الصف من تمام الصلاۃ : ٧٢٣، عن أنس ] ” اپنی صفیں برابر کرو، کیونکہ صفیں برابر کرنا اقامت صلاۃ کا حصہ ہے “ تیسری یہ کہ بنی اسرائیل کو بھی ہماری امت کی طرح جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم تھا (جب کوئی عذر نہ ہو) فرمایا : (وَارْکَعُوْا) [ البقرۃ : ٤٣] ” اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ “ وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ : ایسے مشکل حالات میں بھی بنی اسرائیل کو نماز کی معافی نہیں ملی، بلکہ اسے خاص طور پر قائم کرنے کا حکم ہوا، کیونکہ صبر اور نماز ہی مشکل کے وقت اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، فرمایا : (وَاسْتَعِيْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ۭ ) [ البقرۃ : ٤٥ ] ” اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو۔ “ اور نماز ہی روزانہ کئی مرتبہ بندے کا تعلق اپنے رب سے جوڑتی اور اس سے ہم کلام ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ زکوٰۃ مال ہونے کی صورت میں سال میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے، روزے بھی سال میں کچھ دن فرض ہیں، حج استطاعت کی صورت میں عمر بھر میں ایک دفعہ فرض ہے، یہ نماز ہی ہے کہ آدمی کو جب بھی کوئی مشکل پیش آئے تو وہ اس کے ذریعے سے اپنے رب سے تار جوڑ سکتا ہے اور اس کے ساتھ آدمی کو پانچ دفعہ تو ضرور ہی اپنے مالک کے حضور پیش ہو کر فریاد کرنے کا موقع ملتا ہے۔ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ : یعنی اہل ایمان کو خوش خبری دو ، اس خوش خبری کا ذکر سورة اعراف (١٢٩) میں ہے کہ تمہارے دشمنوں کی ہلاکت اور تمہاری آزادی کے دن قریب ہی ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in the verses appearing immediately above, there are some circumstantial details along with their corresponding injunctions as they relate to Sayyidna Musa and Sayyidna Harun (علیہما السلام) and the children of Isra&il and the people of the Pharaoh. The first verse (87) carries an injunction pertaining to a particular event. Banu Isra&il (the children of Isra&il) who observed the religious law of Sayyidna Musa (علیہ السلام) used to perform their prayers only in their synagogues as customary. Then, the past communities were also bound by this injunction. Their prayers were not valid if performed in their homes. The Muslim Um¬mah was the special recipient of the convenience that they could, if needed, perform their prayers everywhere as they wished. In a Hadith of Sahih Muslim, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has, out of his six sin¬gularities, given one as, ` the whole earth has been made a masjid for me.& It means that Salah performed anywhere remains valid. However, it is something else that the performing of obligatory prayers in con¬gregation only in masjids has been declared as an emphasized Sun¬nah. Then, saying nafl prayers inside homes is better. This was the usual practice of the Holy Prophet i He would say only the Fard Salah in the Masjid then go home and say his sunnahs and nafls there. As for the Banu Isra&il, they were bound to offer their prayers only in their synagogues in obedience to their religious laws. Realizing this, the Pharaoh who used to oppress them in all sorts of ways had all synagogues demolished so that they could be deprived of offering their prayers in accordance with their religious laws. Thereupon, Allah Ta` ala sent to the two prophets of Banu Isra&il, Sayyidna Musa and Harun, may peace be on them both, the injunction mentioned in verse 87. It was said there that new houses should be built in Egypt for Bani Isra&il and that their orientation should be towards the Qiblah so that prayers could be offered in those very residential houses. This tells us that the religious law of past communities demanded that prayers should be offered in houses of worship specifically built for this purpose. But it was because of a particular incident that the Bani Isra&il were temporarily allowed to offer their prayers at home and, for this purpose, they were to have houses oriented towards the Qiblah. And it can also be said that even at this time of emergency they were allowed to offer their prayers in particular houses that were oriented towards the Qiblah. Praying in common homes and public places was still not permitted even at that time. It was unlike the Muslim community that has the convenience of offering their prayers anywhere, be it a city or wilderness. (Ruh al-Ma&ani) It will be good to answer another question at this point. In this verse, the Bani Isra&il have been commanded to orient themselves towards the Qiblah. Which Qiblah is this? The Ka&bah or the Baytu &l-Maqdis? Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) says, It means the Ka&bah and the Ka&bah alone was the Qiblah of Sayyidna Musa (علیہ السلام) and his people.& (al-Qurtubi and Ruh al-Ma` ani) In fact, some religious schol¬ars say that the real Qiblah of all past prophets was no other but the Ka&bah. As for the Hadith where it is said that the Jews turn their faces towards the Sakhrah (the Rock) of Baytu &l-Maqdis during their prayers, it will be applied to the time when Sayyidna Musa left Egypt and headed towards Baytu &l-Maqdis. This is not contrary to his Qi¬blah being the Baytullah during the period of his stay in Egypt. It is also proved from this verse that the condition of facing to-wards the Qiblah was operative also during the period of past proph¬ets. Similarly, it also stands proved from authentic reports that purity (taharah) and body cover (satr al-&aurah) were conditions of Salah even in the religious laws of all past prophets. Since the very purpose of making houses Qiblah oriented was to pray in there, therefore, by giving the command: ` Establish Salah& (اَقِیمُوا الصَّلٰوۃَ ) after that, the instruction given was: If the Pharaoh stops you from making prayers in places reserved for worship, prayers do not stand dropped. Make these in your homes. At the end of the verse, Sayyidna Musa (علیہ السلام) has been asked to convey the good news to believers that their mission will be successful. They will overpower the enemy and they will go to Paradise in the Hereafter. (Ruh al-Ma` ani) It will be noted that, at the beginning of the verse, Sayyidna Musa and Harun (علیہما السلام) may peace be upon them both, were addressed in the dual form because they both were charged with the responsibility of having houses made Qiblah oriented and allowing occupants to pray in there. After that, by using the plural form which included all Bani Isra&il, command was given to establish Salah - because, this law in¬cluded all, the prophet and his community. At the end, the command to convey the good news was given particularly to Sayyidna Musa (علیہ السلام) - because, it was he, as the law-giving prophet, who had the right to give out the good news of Paradise.

خلاصہ تفسیر اور ہم نے ( اس دعا کے قبول کرنے کا سامان کیا کہ) موسیٰ ( علیہ السلام) اور ان کے بھائی ( ہارون (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی کہ تم دونوں اپنے ان لوگوں کے لئے ( بدستور) مصر میں گھر برقرار کرو ( یعنی وہ ڈر کر گھر نہ چھوڑیں ہم ان کے محافظ ہیں) اور ( نماز کے اوقات میں) تم سب اپنے انہی گھروں کو نماز پڑھنے کی جگہ قرار دے لو ( مساجد کی حاضری خوف کی وجہ سے معاف ہے) اور ( یہ ضروری ہے کہ) نماز کے پابند رہو ( تاکہ نماز کی برکت سے اللہ تعالیٰ جلدی اس مصیبت سے چھڑا دے) اور (اے موسی) آپ مسلمانوں کو بشارت دے دیں (کہ اب جلدی یہ مصیبت ختم ہوجاوے گی) اور موسیٰ ( علیہ السلام) نے ( دعا میں) عرض کیا کہ اے ہمارے رب ( ہم کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ) آپ نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان تجمل اور طرح طرح کے مال دنیوی زندگی میں اے ہماے رب اسی واسطے دیئے ہیں کہ وہ آپ کی راہ سے ( لوگوں کو) گمراہ کریں ( پس جب ہدایت ان کے مقدر میں ہے نہیں اور جو حکمت تھی وہ حاصل ہوچکی تو اب ان کے اموال اور نفوس کو کیوں باقی رکھا جاوے پس) اے ہمارے رب ان کے مالوں کو نیست نابود کر دیجئے اور ( ان کے نفوس کی ہلاکت کا سامان کردیجئے اس طرح کہ) ان کے دلوں کو ( زیادہ) سخت کردیجئے ( جس سے ہلاکت کے مستحق ہوجاویں) سو یہ ایمان نہ لانے پاویں ( بلکہ روز بروز ان کا کفر ہی بڑھتا رہے) یہاں تک کہ عذاب الیم ( کے مستحق ہو کر اس) کو دیکھ لیں ( سو اس وقت ایمان نافع نہیں ہوتا موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دعا کی اور ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے رہے۔ کذا فی الدر المنثور) حق تعالیٰ نے فرمایا کہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی ( کیونکہ آمین کہنا بھی دعا میں شریک ہونا ہے یعنی ہم ان کے اموال و نفوس اب ہلاک کرنے والے ہیں) سو تم ( اپنے منصبی کام یعنی تبلیغ پر) مستقیم رہو ( یعنی گو ہدایت ان کی تقدیر میں نہ ہو مگر تبلیغ میں تمہارا فائدہ ہے) اور ان لوگوں کی راہ نہ چلنا جن کو ( ہمارے وعدے کے سچے ہونے کا یا توقف میں حکمت ہونے کا یا تبلیغ کے ضروری ہونے کا) علم نہیں ( یعنی ہمارے وعدہ کو سچا سمجھو اور اگر ہلاکت میں دیر ہوجاوے اس میں حکمت سمجھو اور اپنے منصبی کام میں لگے رہو) اور ( جب ہم نے فرعون کو ہلاک کرنا چاہا تو موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے باہر نکال لے جائے چناچہ وہ سب کو لے کر چلے اور رستہ میں دریائے شور حائل ہوا، اور موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے اس میں راستہ ہوگیا اور) ہم نے بنی اسرائیل کو ( اس) دریا سے پار کردیا پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون مع اپنے لشکر کے ظلم اور زیادتی کے ارادہ سے ( دریا میں) چلا ( کہ دریا سے نکل کر ان سے قتل و قتال کرے لیکن وہ دریا سے پار نہ ہوسکا) یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا ( اور ملائکہ عذاب کے نظر آنے لگے) تو ( سراسیمہ ہوکر) کہنے لگا میں ایمان لاتا ہوں کہ بجز اس کے کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں میں داخل ہوتا ہوں ( سو مجھ کو اس غرق سے اور عذاب آخرت سے نجات دی جاوے فرشتہ کے ذریعہ سے) جواب دیا گیا کہ اب ایمان لاتا ہے ( جبکہ معائنہ آخرت کا شروع ہوگیا) اور ( معائنہ آخرت کے) پہلے سے سرکشی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا ( اب نجات چاہتا ہے ) ۔ معارف و مسائل آیات مذکورہ میں حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) اور بنی اسرائیل و قوم فرعون کے کچھ حالات اور ان سے متعلقہ احکام مذکور ہیں پہلی آیت میں ایک خاص واقعہ سے متعلق حکم ہے وہ یہ کہ بنی اسرائیل جو دین موسوی پر عامل تھے یہ سب عام عادت کے مطابق نمازیں صرف اپنے صومعوں ( عبادت گاہوں) میں ادا کرتے تھے، اور پچھلی امتوں کے لئے حکم بھی یہی تھا کہ ان کی نماز اپنے گھروں میں ادا نہیں ہوتی تھی، یہ خصوصی سہولت امت محمدیہ کو عطا ہوئی کہ ہر جگہ جہاں چاہیں نماز ادا کرلیں، صحیح مسلم کی ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چھ (6) خصوصیات میں سے ایک یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ میرے لئے ساری زمین کو مسجد بنادیا گیا ہے کہ نماز ہر جگہ ادا ہوجاتی ہے، یہ دوسری بات ہے کہ فرض نمازوں کا مسجدوں میں ہی ادا کرنا جماعت کے ساتھ سنت مؤ کدہ قرار دیا گیا، اور نفلی نمازوں کا گھروں میں ادا کرنا افضل ہے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل اسی پر تھا کہ مسجد میں صرف فرض نماز پڑھتے تھے، سنن اور نوافل گھر میں جا کر ادا فرماتے تھے۔ بنی اسرائیل اپنے مذہب کے مطابق اس کے پابند تھے کہ نماز صرف اپنے عبادت خانوں میں ادا کریں، فرعون جو ان کو طرح طرح کی ایذائیں دیتا اور ان پر ظلم ڈھاتا تھا، اس نے یہ دیکھ کر ان کے تمام عبادت خانوں کو مسمار کردیا تاکہ یہ اپنے مذہب کے مطابق نماز نہ پڑھ سکیں، اس پر حق تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے دونوں پیغمبروں حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کو وہ حکم دیا جو اس آیت میں مذکور ہے کہ بنی اسرائیل کیلئے مصر میں مکان نئے بنائے جائیں اور ان مکانات کا رخ قبلہ کی طرف ہو، تاکہ وہ انہیں سکونتی مکانات میں نماز ادا کرسکیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پچھلی امتوں میں اگرچہ عام حکم یہی تھا کہ نمازیں صرف عبادت خانوں میں پڑھی جائیں، لیکن اس خاص حادثہ کی وجہ سے بنی اسرائیل کے لئے اس کی عارضی اجازت دے دی گئی کہ گھروں ہی میں نماز ادا کرلیا کریں اور اپنے گھروں کا رخ قبلہ کی طرف سیدھا رکھیں، اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس ضرورت کے وقت بھی ان کو مخصوص گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی جن کا رخ قبلہ کی طرف کیا گیا تھا، عام گھروں اور عام مقامات پر نماز کی اجازت اس وقت بھی نہیں تھی، جس طرح امت محمدیہ کو شہر اور جنگل کے ہر مقام پر نماز ادا کرنے کی سہولت حاصل ہے ( روح ) ۔ یہاں یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ اس آیت میں بنی اسرائیل کو جس قبلہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد کون سا قبلہ ہے، کعبہ یا بیت المقدس ؟ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ اس سے مراد کعبہ ہے اور کعبہ ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب کا قبلہ تھا۔ ( قرطبی و روح) بلکہ بعض علماء نے فرمایا کہ تمام انبیاء سابقین کا قبلہ اصل میں کعبہ ہی تھا۔ اور جس حدیث میں یہ ارشاد ہے کہ یہود اپنی نمازوں میں صخرہ بیت المقدس کی طرف رخ کرتے ہیں اس کو اس زمانہ پر محمول کیا جائے گا جب کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر چھوڑ کر بیت المقدس کی طرف روانہ ہوئے، یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ قیام مصر کے زمانہ میں آپ کا قبلہ بیت اللہ ہی ہو۔ اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز کے لئے استقبال قبلہ کی شرط انبیاء سابقین کے زمانہ میں بھی تھی، اسی طرح طہارت اور ستر عورت کا تمام انبیاء سابقین کی شریعتوں میں شرط نماز ہونا بھی معتبر روایات سے ثابت ہے۔ گھروں کو قبلہ رخ بنانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ ان میں نمازیں ادا کی جائیں اس لئے اس کے بعد اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ کا حکم دے کر یہ ہدایت کردی گئی کہ اگر فرعون عبادت گاہوں میں نماز ادا کرنے سے روکتا ہے تو اس سے نماز ساقط نہیں ہوتی اپنے گھروں میں ادا کرو۔ آخر آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خطاب کرکے حکم دیا گیا کہ مؤمنین کو آپ خوشخبری سنا دیں کہ ان کا مقصود پورا ہوگا، دشمن پر ان کو غلبہ نصیب ہوگا اور آخرت میں جنت ملے گی۔ ( روح ) ۔ آیت کے شروع میں حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کو بصیغہ تثنیہ خطاب کیا گیا کیونکہ مکانات قبلہ رخ کرکے ان میں نماز پڑھنے کی اجازت انہیں کا کام تھا، اس کے بعد بصیغہ جمع سب بنی اسرائیل کو شامل کرکے اقامت نماز کا حکم دیا گیا کیونکہ اس حکم میں پیغمبر اور امت سب داخل ہیں، آخر میں بشارت دینے کا حکم خاص موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا گیا کیونکہ اصل صاحب شریعت نبی آپ ہی تھے، بشارت جنت دینے کا آپ ہی کو حق تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰى وَاَخِيْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوْتًا وَّاجْعَلُوْا بُيُوْتَكُمْ قِبْلَۃً وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ۝ ٠ ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٨٧ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے أخ أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف/ 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 85] ، ( اخ و ) اخ ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ } ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔{ أَخَا عَادٍ } ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ { وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا } ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ { وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ } ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ { وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا } ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔ بَوءَ أصل البَوَاء : مساواة الأجزاء في المکان، خلاف النّبو الذي هو منافاة الأجزاء . يقال : مکان بَوَاء : إذا لم يكن نابیا بنازله، وبَوَّأْتُ له مکانا : سوّيته فَتَبَوَّأَ ، وبَاءَ فلان بدم فلان يَبُوءُ به أي : ساواه، قال تعالی: وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّءا لِقَوْمِكُما بِمِصْرَ بُيُوتاً [يونس/ 87] ، وَلَقَدْ بَوَّأْنا بَنِي إِسْرائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ [يونس/ 93] ( ب و ء ) البواء ۔ کے اصل معنی کسی جگہ کے اجزا کا مساوی ( اور سازگار موافق) ہونے کے ہیں ۔ یہ نبوۃ کی ضد ہے جس کے معنی اجزاء کی ناہمواری ( ناسازگاری ) کے ہیں ۔ لہذا مکان بواء اس مقام کے کہتے ہیں ۔ جو اس جگہ پر اترنے والے کے ساز گار اور موافق ہو ۔ بوات لہ مکانا میں نے اس کے لئے جگہ کو ہموار اور درست کیا اور تبوات اس کا مطاوع ہے جس کے معنی کسی جگہ ٹھہرلے کے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ { وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا } ( سورة يونس 87) اور ہم نے موسیٰ اور اس گے بھائی کی طرف دحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لئے مصر میں گھر بناؤ ۔ مصر المِصْرُ اسم لكلّ بلد ممصور، أي : محدود، يقال : مَصَرْتُ مَصْراً. أي : بنیته، والمِصْرُ : الحدُّ ، ( م ص ر ) المصر ہر محدود شہر کو ( جس کے گرد فصیل ہو ) مصر کہتے ہیں ۔ اور مصرت مصرا دو چیزوں کے مابین حد کو کہتے ہیں بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ قِبْلَةً : في الأصل اسم للحالة التي عليها الْمُقَابِلُ نحو : الجلسة والقعدة، وفي التّعارف صار اسما للمکان الْمُقَابَلِ المتوجّهِ إليه للصلاة . نحو : فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضاها [ البقرة/ 144] القبلۃ : اصل میں بالمقابل آدمی کی حالت کو کہا جاتا ہے جیسے جلسۃ وقعدۃ اور عرف میں اس جہت کو قبلہ کہا جاتا ہے جس کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضاها [ البقرة/ 144] سو ہم تم کو ایسے قبلہ کی طرف جس کو تم پسند کرتے ہو متوجہ ہونے کا حکم دیں گے ۔ اقامت والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة/ 43] الاقامتہ ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٧۔ ٨٨) اور ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وہارون (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی کہ اپنے گھروں کے اندر مسجدیں بنا لو اور اپنی مسجدوں کو قبلہ کی طرف کرو اور پانچوں نمازوں کی پابندی کرو اور آپ مسلمانوں کو مدد اور مصیبت سے نجات اور جنت کی بشارت دے دی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے (دعا میں عرض کیا) اے ہمارے پروردگار آپ نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان تجمل اور طرح طرح کے مال، اے ہمارے پروردگار اسی واسطے دیے ہیں کہ وہ اس مال سے آپ کے بندوں کو آپ کی اطاعت اور آپ کے دین سے گمراہ کردیں، سو ان کے مالوں کو نیست ونابود کردیجیے اور ان کے دلوں کو سخت کردیجیے تاکہ یہ ایمان نہ لانے پائیں تاوقتیکہ یہ غرق ہونے کے عذاب کو نہ دیکھ لیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٧ (وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰی وَاَخِیْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا) ان گھروں میں جمع ہو کر تم لوگ اللہ کی عبادت کیا کرو۔ اسی طرح کا انتظام حضور نے بھی اپنی دعوت کے ابتدائی زمانہ میں کیا تھا جب آپ نے دار ارقم کو دعوتی اور تنظیمی سرگرمیوں کے لیے مختص فرمایا تھا۔ (وَّاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً ) فرعون کے ڈر سے وہ لوگ مسجد تو بنا نہیں سکتے تھے ‘ اس لیے انہیں حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں کو تعمیر ہی قبلہ رخ کرو تاکہ وہاں تم نمازیں پڑھا کرو۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں بھی قبلہ معینّ تھا جبکہ بیت المقدس تو ابھی بنا ہی نہیں تھا۔ بیت المقدس تو حضرت موسیٰ کے زمانے سے ایک ہزار سال بعد حضرت سلیمان نے تعمیر فرمایا تھا۔ چناچہ حضرت موسیٰ اور آپ کی قوم کا قبلہ یہی بیت اللہ تھا۔ تورات میں ان کی قربان گاہوں کے خیموں کے بارے میں تفصیل ملتی ہے کہ یہ خیمے اس طرح نصب کیے جاتے تھے کہ جب کوئی شخص قربانی پیش کرتا تھا تو اس کا رخ سیدھا قبلہ کی طرف ہوتا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

84. The Qur'an-commentators disagree about the meaning of this verse. After carefully considering the actual words of the verse and reflecting over the context in which these words were said, I have come to the conclusion that perhaps because of the oppression prevailing in Egypt, and because the faith of the Israelites had become quite weak, congregational prayer had become defunct among both the Israeli and Egyptian Muslims, The abandonment of congregational prayer was a major cause of the disintegration of their collective entity and the virtual extinction of their religious life. That is why Moses (peace be on him) was directed to re-establish congregational prayer and to construct or acquire a few houses in Egypt specifically for that purpose. The author's expression 'Egyptian Muslims' denotes those Egyptians who had embraced the faith of the Prophets, the faith of Moses (peace be on him) - Ed. The reason for such a directive is that when a group of Muslims falls prey to degeneration and dissolution, the necessary effort to revive their religious spirit and to restore their shattered integrity, if it is to conform to a truly Islamic pattern, must begin with the revival of congregational prayer. The directive to 'make your houses a direction for men to pray' suggests, in my opinion, that these prayer-houses should become pivotal points for the entire people. That the directive to 'establish Prayer' immediately follows this statement means that rather than offer Prayer at different places, they should congregate in the houses set aside for Prayer and perform it collectively. For certainly one of the implications of the expression 'to establish Prayer' which frequently occurs in the Qur'an, is its observance in congregation. 85. Moses (peace be on him) was directed to banish those feelings of despair, awe and dismay which had seized the believers. To 'give glad tidings' encompasses the whole range required by this task.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :84 اس آیت کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ اس کے الفاظ پر اور اس ماحول پر جس میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے گئے تھے غور کرنے سے میں یہ سمجھا ہوں کہ غالبا مصر میں حکومت کے تشدد سے اور خود بنی اسرائیل کے اپنے ضعف ایمانی کی وجہ سے اسرائیلی اور مصری مسلمانوں کے ہاں نماز باجماعت کا نظام ختم ہوچکا تھا ۔ اور یہ ان کے شیرازے کے بکھرنے اور ان کی دینی روح پر موت طاری ہو جانے کا ایک بہت بڑا سبب تھا ۔ اس لیے حضرت موسی علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ اس نظام کو از سر نو قائم کریں اور مصر میں چند مکان اس غرض کے لیے تعمیر یا تجویز کرلیں کہ وہاں اجتماعی نماز ادا کی جایا کرے ۔ کیونکہ ایک بگڑی ہوئی اور بکھری ہوئی مسلمان قوم میں دینی روح کو پھر سے زندہ کرنے اور اس کی منتشر طاقت کو از سر نو مجتمع کرنے کے لیے اسلامی طرز پر جو کوشش بھی کی جائے گی اس کا پہلا قدم لازما یہی ہوگا کہ اس میں نماز باجماعت کا نظام قائم کیا جائے ۔ ان مکانوں کو قبلہ ٹھیرانے کا مفہوم میرے نزدیک یہ ہے کہ ان مکانوں کو ساری قوم کے لیے مرکز اور مرجع ٹھیرایا جائے ، اور اس کے بعد ہی نماز قائم کرو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ متفرق طور پر اپنی اپنی جگہ نماز پڑھ لینے کے بجائے لوگ ان مقرر مقامات پر جمع ہو کر نماز پڑھا کریں ، کیونکہ قرآن کی اصطلاح میں اقامت صلوۃ جس چیز کا نام ہے اس کے مفہوم میں لازما نماز باجماعت بھی شامل ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :85 یعنی اہل ایمان پر مایوسی ، مرعوبیت اور پژمردگی کی جو کیفیت اس وقت چھائی ہوئی ہے اسے دور کرو ۔ انہیں پرامید بناؤ اور ان کی ہمت بندھاؤ اور ان کا حوصلہ بڑھاؤ ، بشارت دینے کے لفظ میں یہ سب معنی شامل ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

34: اس آیت میں ایک تو بنو اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ابھی وہ مصر سے ہجرت نہ کریں، بلکہ اپنے گھروں میں ہی رہیں۔ دوسری طرف بنو اسرائیل کو اصل حکم یہ تھا کہ وہ نمازیں مسجد میں ادا کیا کریں۔ گھروں میں نماز پڑھنا ان کے لیے عام حالات میں جائز نہیں تھا، لیکن چونکہ اس وقت فرعون کی طرف سے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری تھا، اس لیے اس خاص مجبوری کی حالت میں اس حکم کے ذریعے انہیں گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٧۔ جب فرعون اور اس کے ہمراہیوں پر عذاب آنے کا زمانہ قریب آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی حضرت ہارون کو بذریعہ وحی کے یہ حکم دیا کہ تم اپنی قوم سمیت ان کفار سے علیحدہ ہوجاؤ اور الگ اپنا ایک محلہ بسا لو اور گھروں کا رخ قبلہ کی طرف رکھو اس میں نماز پڑھا کرو تاکہ فرعون کے ظلم سے امن میں رہو نماز کا حکم اس واسطے ہوا تھا کہ کثرت سے نماز پڑھنے سے بلائیں دفع ہوا کرتی ہیں چناچہ مسند امام احمد اور ابوداؤد میں حذیفہ (رض) کی ایک معتبر حدیث ہے کہ جب حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی امر ایسا در پیش ہوتا جس سے آپ غمگین ہوا کرتے تو آپ نماز پڑھنے لگتے تھے ١ ؎ اس آیت کے متعلق اس بات کا مفسرین میں اختلاف ہے کہ خدا نے موسیٰ (علیہ السلام) کو گھر بنانے کا حکم دیا یا مسجد بنانے کا۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مسجد کو فرمایا ہے اور مجاہد و قتادہ (رض) وغیرہ یہ کہتے ہیں کہ گھر بنانے کا حکم ہوا ٢ ؎ کیوں کہ لوگ پہلے عبادت خانہ میں جا کر عبادت کیا کرتے تھے جب ان کو خوف ہوا کہ فرعون کے زمرہ کے آدمی ہمیں ایذا پہنچائیں گے اور قتل کر ڈالیں گے تو خدا کا یہ حکم ہوا کہ اپنا گھر قبلہ رخ بنالو وہیں نماز پڑہا کرو اس معنے کو حافظ ابو جعفر ابن جریر نے ترجیح دی ہے۔ ٣ ؎ قبلہ کے تعین میں بھی مفسروں کا اختلاف ہے بعضوں کا قول یہ ہے کہ قبلہ بیت المقدس کو فرمایا جو یہود کا قبلہ ہے اور بعضوں نے کہا ہے کہ کعبہ مراد ہے کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد جتنے لوگ ہوئے سب کا قبلہ یہی کعبہ رہا ہے علاوہ اس کے سورة بقرہ میں گزرچکا ہے کہ یہود کے قبلہ کا تورات میں اور نصاریٰ کے قبلہ کا انجیل میں ذکر نہیں ہے بلکہ دونوں گروہ کا قبلہ ان کے علماء کا ٹھہرایا ہوا ہے اس لئے آسمانی حکم کا قبلہ بیت المقدس کو نہیں کہا جاسکتا پھر موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ مومنوں کو اس کی خوشی سنادو کہ آخرت میں تمہیں اس کا اچھا اجر ملے گا کہ تم نے اللہ کے رسول کی نصیحت کو مان کر ہر طرح کی تکلیف پر صبر و توکل کا اقرار کیا۔ اور ایمان واسلام کے پابند ہوگئے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے معاذ بن جبل (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ کا حق بندوں پر شرک سے بچنے کا ہے اور اس حق کے پورا ہوجانے کے بعد اللہ کا وعدہ مغفرت کا ہے۔ ٤ ؎ یہ حدیث (و بشر المؤمنین) کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کی نصیحت کے موافق بنی اسرائیل نے توحید کا اور شریعت موسوی کے احکام کی تعمیل کا اقرار جب کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق ان کو نجات کی خوشخبری دی تورات کے نازل ہونے سے پہلے متفرق طور پر جو احکام نازل ہوئے تھے یہ ان احکام کا ذکر ہے کیوں کہ تورات فرعون کے غرق ہوجانے کے بعد نازل ہوئی ہے۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٢٨ ج ٢۔ ٢ ؎ تمام اقوال کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر ص ٤٢٩ ج ٢۔ ٣ ؎ تفسیر ابن جریر ص ١٥٣۔ ١٥٥۔ ج ١١۔ ٤ ؎ مشکوۃٰ ۔ ص ١٣۔ ١٤ کتاب الایمان۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:87) تبوا۔ مضارع تثنیہ مذکر حاضر۔ تم دونوں ٹھہراؤ۔ رم دونوں اتارو۔ تم دونوں جگہ تیار کرو۔ ، نبوء (تفعل) ۔ قبلۃ۔ کعبہ کا رخ جو نماز میں سامنے ہوتا ہے ۔ سامنے کا رخ۔ جیسے ابن قبلتک۔ تمہارا رخ کدھر کو ہے۔ جو چیز منہ کے سامنے ہو اسے بھی قبلہ کہتے ہیں۔ نماز پڑھنے والے کے سامنے کعبہ ہوتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی قبلہ کہتے ہیں۔ اصل لغت میں القبلہ المقابل آدمی کی حالت کو کہا جاتا ہے جیسے جلسۃ و قعدۃ۔ عرف میں اس جہت کو قبلہ کیا جاتا ہے جس کی طرف متوجہ ہوکر نماز پڑھی جاتی ہے۔ یہاں قبلہ سے مراد نماز کا مقام ہے فرعون نے چونکہ نماز پڑھنے کی ممانعت کردی تھی اس لئے بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں ہی کو مقام نماز بنا لو۔ اور وہاں نماز پڑھا کرو۔ اس آیۃ میں تثنیہ کی ضمیر حضرت ہارون (علیہما السلام) کی طرف راجع ہے پھر جمع کی ضمیر ہے جس میں تمام قوم شامل ہے۔ اور پھر بشر میں ضمیر واحد ہے جو حضرت موسیٰ کی طرف راجع ہے۔ لیضلوا۔ میں لام تعلیل کا ہے۔ یہ اس لئے کہ وہ گمراہ کریں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ آیت ’ واجعلو بیوتکم قبلۃ (اپنے گھروں کو قبلہ بنالو) کے مفسرین نے کئی مطلب بیان کئے ہیں ایک یہ کہ اپنے گھروں ہی کو مسجد بنا لو۔ یعنی جب فرعون کی طرف سے سکتی اور نگرانی زیادہ ہے اور تمہارے لئے مسجدوں میں آکر نماز پڑھنا ممکن نہیں تو تم گھروں ہی میں نمازیں ادا کرتے رہو۔ کہتے ہیں کہ فرعون ن ان کو مسجدیں بھی مسمار کرا دی تھیں۔ یہ حکم حالت اضطرار میں تھا۔ لہٰذا حدیث ” وجعلت لی الارض “ کے منافی نہیں ہے۔ دوم یہ کہ فرعون کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کے لئے گھروں میں بکثرت عبادت کیا کرو تاکہ اسے ظلم سے نجات ملے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کوئی مشکل معاملہ درپیش ہوتا آپو نماز پڑھتے۔ (ابو دائود) ۔ تیسرے یہ کہ گھروں کو قبلہ رخ تعمیر کرو اور ان میں خفیہ طور پر نماز پڑھا کرو۔ قبلتہ سے مراد بعض نے کعبہ لیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کعبہ کی طرف منہ کرتے ہوں۔ بعد میں یہود نے ” صخرہ “ کو قبلہ بنا لیا ہو۔ (ابن کثیر۔ روح) ۔ 7 ۔ کہ فرعون کی تباہی کے دن آیا ہی چاہتے ہیں۔ (شوکانی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 87 تا 89 اوحینا (ہم نے وحی کی) تبوا (تم دونوں ٹھکانا بنا لو، مقرر کرلو اقیموا (تم قائم کرو) زینۃ (دنیاوی زیب وزینت) سبیل (راستہ) اطمس (تباہ کر دے) اشدد (سختی کر) حتی یروا (جب تک وہ دیکھ نہ لیں) اجیبت (قبول کرلی گئی) دعوتکما (تم دونوں کی دعا استقیما (تم دونوں ثابت قدم رہنا ) لاتتبغن (تم دونوں پیروی نہ کرنا) تشریح : آیت نمبر 87 تا 89 جب سے حضرت موسیٰ نے اعلان نبوت فرما کر اللہ کے حکم سے کچھ معجزات دکھائے اس وقت سے فرعون کو ہر روز ذلت و روسائی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ، خاص طور پر فرعون کے بھرے دربار میں تمام جادوگروں کا اسلام قبول کر کے فرعون کے ظلم و ستم سے بےنیاز ہوجانا فرعون کی اتنی بڑی شکست تھی جس سے وہ ایک زخمی سانپ بن کر بنی اسرائیل کے ہر شخص کو تباہ و برباد کرنے پر تل گیا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بنی اسرائیل اور فرعون کی سلطنت کے کمزور ترین لو اس طرح اس کے مقابلے میں کھڑے ہوجائیں گے۔ اس کے بعد فرعون نے ظلم و ستم کی وہ انتہا کردی جس پر انسانیت بھی شرما کر رہ گئی۔ اس نے بنی اسرائیل کے ہر لڑکے کو پیدا ہوتے ہی ذبح کرنے کا حکم دے دیا اور لڑکیوں کو زندہ رہین دیا گیا تاکہ بنی اسرائیل کی نسل ہی ختم ہو کر رہ جائے۔ اس نے بنی اسرائیل کی تمام عباتگاہوں اور گھروں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ فرعونیوں کے ان بےپناہ مظالم کے سامنے بنی اسرائیل اتنے بےبس ہو کر رہ گئے تھے کہ ہر شخص مصر سے بھاگ جانا چاہتا تھا۔ اس مایوسی میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کی طرف وحی بھیجی کہ وہ ظلم و جبر کم قابلے میں صبر و استقامت سے جمے رہیں اور قوم کو ادھر ادھر منتشر نہ ہونے دیں۔ اپنے بکھرے ہوئے شیرازے کو اکٹھا کر کے کچھ گھروں کو عبادت کے لئے مخصوص کرلیں اور ان میں نمازوں کے نظام کو قائم کریں۔ اکٹھے ہو کر نمازیں ادا کریں تاکہ سب میں اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا ہوجائے اور اللہ پر بھروسے اور اعتماد میں اور اضافہ و ترقی ہوجائے۔ عمل کا یہی انداز ان تباہ حال بنی اسرائیل کے لئے خوش خبری سے کم نہ تھا۔ اسی لئے فرمایا کہ جب قوم اللہ پر بھروسے، عبادت ، توکل اور ایمان کی پختگی پر آجائے تو اے موسیٰ ان اہل ایمان کو ہر طرح کی کامیابیوں کی خوش خبری دیدیجیے۔ فرعون اور آل فرعن کے ظلم و ستم کو دیکھ کر حضرت موسیٰ رنجیدہ ہوگئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا الٰہی ! یہ فرعن اور اس کا ساتھ دینے والے جو دنیا کی تمام راحتوں، آرام اور دولت سے نوازے گئے ہیں ۔ ان پر ناز کرتے ہوئے انسانیت سوز مظالم کر رہے ہیں اے اللہ اگر یہ ایمان ہیں لاتے اور لوگوں کو اسی طرح گمراہ کرتے رہیں گے تو اے اللہ ! ان ظالموں کے ہاتھوں سے وہ مال و دولت چھین لے جو انسانیت پر ظلم و ستم کا ذریعہ بن رہا ہے۔ جب تک یہ ایمان نہ لائیں اس وقت تک ان پر اپنے عذاب کو مسلط کئے رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ جو اپنے پیغمبروں کی دعاؤں کو رد نہیں کرتا اس نے فرمایا کہ اے موسیٰ تمہاری دعا قبول کرلی گئی۔ اب اس ظالم قوم سے اللہ انتقام لے گا۔ فرمایا کہ اے موسیٰ آپ اور آپ کے ماننے والے ثابت قدمی سے جمے رہیں اور وہ راستہ اختیار نہ کریں جو دوسرے لاعلم لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے۔ ان آیات میں حضرت موسیٰ کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے چند اصولی باتیں ارشاد فرما دی گئی ہیں : 1) اپنے بڑوں اور رہبروں کا کہنا ماننا۔ 2) صبر و تحمل سے ہر ظلم و تم کا مقابلہ کرنا 3) تنظیم قائم کرنا۔ 4) بکھرے ہوئے شیرازے کو جمع کرنے کیلئے مسجدوں کا قائم کرنا۔ 5) نماز با جماعت کا اہتمام کرنا۔ 6) ہر حال میں اللہ پر ہی بھروسہ کرنا اسی سے مدد مانگنا۔ 7) عبادت و بندگی میں کوتاہی نہ کرنا۔ یہ وہ مضبوط ہتھیار ہیں جن سے اللہ و رسول کے دشمنوں کو شکست دینا بہت آسان ہے ۔ جس قوم میں اپنے بڑوں کا احترام نہ کیا جائے اور اپنے معاملات کے لئے تنظیم سے کام نہ لیا جائے اس وقت تک کسی کامیابی کا تصور ممکن نہیں ہے۔ ہر تحریک کی جانب تنظیم ہی ہوا کرتی ہے لیکن جب مضبوط اور مربوط تنظیم کے لے کوئی مرکز نہ ہو وہ تنظیم اپنا اثر نہیں دکھا سکتی۔ اہل ایمان کی تنظیم کے لئے مسجدیں بنانا اور ان میں عبادت و بندگی کے نظام کو قائم کرنا بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت موسیٰ کے واقعہ ہی میں غور کر لیجیے کہ ان مٹھی بھر مسلمانوں کا مقابلہ فرعون اس کے سرداروں اور حکومتی مظالم سے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ صبر و ضبط اور تنظیم سے اس کا مقابلہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب مسجدیں بنا کر ان میں نمازوں کے نظام کو قائم کیا جائے۔ یہاں تک فرمایا کہ اگر فی الحال مسجدیں قائم کرنا ممکن نہ ہو تو چند گھروں کو عبادت کر لئے مخصوص کرلیا جائے تاکہ ملت کو ایک رکھنے اور ان کو ایک مرکز سے وابستہ رکھنے کی کوشش کی جاسکے۔ دراصل مساجد ہی مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت کا بہترین ذریعہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ کے کافروں اور مشرکوں کے ظلم و ستم کے باوجود ”’ ار اقرم “ کو جو حضرت ارقم کا گھر تھا مسجد قرار دیا اور اس عبادت و بندگی کے نظام کو قائم فرمایا۔ جب آپ نے ہجرت فرمائی تو مدنیہ منورہ میں آپ نے مسجد قبا کو اپنا مرکز بنایا اور بہت تھوڑے عرصے میں مسجد نبوی کی بنیاد رکھ دی گی۔ پھر اسلام کے تمام نظام کی بنیاد مسجد کو بنا دی گیا۔ یہی مساجد ہماری عدالتیں فوجی چھائونیاں اور تمام معاملات کا مرکز تھیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ جب تک ہمارے دین کے تمام کاموں کے مرکز مساجد تھیں تو اسلام کا سیدھا سچا اور سادہ نظام اسلام کی روح کے مطابق چلتا رہا لیکن جب جین اور اس کے تمام معاملات مسجدوں سے نکل کر بلند وبالا عمارتوں اور حکومتی ایوانوں میں پہنچائے اس وقت سے رسم اذاں تو رہ گئی لیکن روح بلالی نہ رہی ” آج بھی اگر ہمیں کامیابی نصیب ہوگی تو ہمیں اسی مسجد کے نظام کی طرف لوٹنا ہوگا جس میں ہماری قوم کی زندگی اور اس کی کامیابی پوشیدہ ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ کہ یہ مصیبت ختم ہوجائے گی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جورو استبداد کے دور میں موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو خصوصی ہدایات۔ قرآن مجید حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں پر ہونے والے جو رو استبدد کا اس طرح منظر پیش کرتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے مواحد ساتھیوں پر وہ وقت بھی آیا جب ان کے لیے عبادت گاہوں کے دروازے بند کردیئے گئے۔ یہاں تک کہ ان کے لیے نماز پڑھنا بھی مشکل ہوگیا۔ اس کر بناک صورت حال میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو حکم دیں کہ اپنے گھروں کو قبلہ رخ بنا کر نماز قائم رکھیں۔ دونوں بھائیوں کو یہ بھی ارشاد ہوا کہ ایمانداروں کو یہ خوشخبری سنائیں کہ عنقریب ان کی مشکلات کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ یہاں بیوت کا لفظ دو دفعہ استعمال ہوا ہے جو بیت کی جمع ہے۔ جس کا معنی ہے گھر مفسرین نے یہ الفاظ دو دفعہ آنے کی وجہ سے دو مفہوم اخذ فرمائے ہیں۔ پہلی مرتبہ بیوت سے مراد ہے کہ کچھ گھر خفیہ طور پر منتخب کرلیے جائیں تاکہ وہاں حتی الامکان اجتماعی طور پر نماز ادا کی جائے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو اپنے اپنے گھروں میں قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کی جائے اس فرمان سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ مسلمانوں کو مشکل ترین حالات میں بھی نماز باجماعت ادا کرنا چاہیے اگر نماز اور جماعت کے تقاضے سمجھ کر پورے کیے جائیں تو اس سے بہتر انفرادی اور اجتماعی تربیت اور باہم مربوط اور منظم ہونے کا کوئی اور جامع موثر ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس سے پہلے مومنوں نے اللہ تعالیٰ سے استدعا کی تھی کہ اے ہمارے رب ہمیں کفار کے مظالم سے نجات عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کرتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو وحی فرمائی کہ اپنے ساتھیوں کو مستقبل قریب میں فرعون سے نجات پانے کی خوشخبری سنائیے۔ جہاں تک نماز باجماعت کا تعلق ہے۔ ہماری شریعت میں اس کا اس قدر اہتمام اور التزام کیا گیا ہے کہ حالت جنگ میں بھی نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نماز باجماعت کی اہمیت : (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِےَدِہٖ لَقَدْ ھَمَمْتُ اَنْ اٰمُرَ بِحَطَبٍ لَےُحْطَبَ ثُمَّ اٰمُرَبِالصَّلٰوۃِ فَےُؤَذَّنَ لَھَا ثُمَّ اٰمُرَ رَجُلًا فَےَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ اُخَالِفَ اِلٰی رِجَالٍ وَفِیْ رِوَاے َۃٍ لَّا ےَشْھَدُوْنَ الصَّلٰوۃَ فَاُحَرِّقَ عَلَےْھِمْ بُےُوْتَھُمْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِےَدِہٖ لَوْ ےَعْلَمُ اَحَدُھُمْ اَنَّہُ ےَجِدُ عَرْقًا سَمِےْنًا اَوْ مِرْمَاتَےْنِ حَسَنَتَےْنِ لَشَھِدَ الْعِشَآءَ )[ رواہ البخاری : کتاب الاذان ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں حکم دوں کہ لکڑیاں جمع کی جائیں پھر اذان کا حکم دوں کسی اور کو لوگوں کی جماعت کروانے کی ذمہ داری سونپوں پھر میں لوگوں کا محاسبہ کروں۔ دوسرے مقام پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے کہ جو لوگ جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے میں ان کے گھروں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنادوں۔ اللہ کی قسم ! اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ انہیں عشاء کی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے پر موٹی ہڈی یا دو پائے مل جائیں گے تو وہ عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کریں۔ “ حضرت عبداللہ بن مسعودنے فرمایا لوگ اس وقت ملت ابراہیم پر رہیں گے جب تک نماز باجماعت ادا کریں گے۔ (ابو داؤد : کتاب الصلوۃ) مسائل ١۔ دشمن کے خوف سے گھر میں نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ ٢۔ نماز ہر حالت میں جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہیے۔ ٣۔ مومنین کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری ہے۔ تفسیر بالقرآن نماز کے فوائد : ١۔ وہ لوگ جو کتاب اللہ پر کار بند رہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ہم ان کے اجرکو ضائع نہیں کریں گے۔ (الاعراف : ١٧٠) ٢۔ اگر لوگ توبہ کریں اور نماز قائم کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو ۔ (التوبہ : ٥) ٣۔ بیشک نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ (العنکبوت : ٤٥) ٤۔ بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور نماز قائم کی ان پر کسی قسم کا خوف نہ ہوگا۔ (البقرۃ : ٢٧٧) ٥۔ اے ایمان والو ! نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کرو یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٦۔ نمازوں کی حفاظت کرنے والے جنت کے وارث ہیں۔ (المومنون : ٩۔ ١٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واوحینا الی موسیٰ واخیہ اور ہم نے وحی بھیجی موسیٰ کے اور اس کے بھائی (ہارون) کے پاس۔ ان تبوا لقومکما بمعصر بیوتا کہ تم دونوں اپنے لوگوں کے مصر میں گھر مقرر کرلو۔ یعنی کچھ مکان مقرر کرلو کہ سکونت اور عبادت کیلئے تمام مکانوں کو چھوڑ کر مقررہ گھروں کی طرف رجوع کرو۔ بغوی نے لکھا ہے : اکثر مفسرین کا بیان ہے کہ پہلے بنی اسرائیل صرف گرجوں اور خانقاہوں میں نماز پڑھا کرتے تھے ‘ لیکن حضرت موسیٰ کی بعثت کے بعد فرعون کے حکم سے تمام عبادت خانے ڈھا دئیے گئے اور بنی اسرائیل کو وہاں نماز پڑھنے کی ممانعت ہوگئی تو اللہ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ اپنے گھروں کے اندر ہی مسجدیں بنا لو اور وہیں نماز پڑھا کرو۔ ابراہیم نخعی کا یہی قول ہے اور عکرمہ کی روایت میں حضرت ابن عباس کا بھی یہی قول آیا ہے۔ مجاہد کا بیان ہے کہ حضرت موسیٰ اور آپ کے ساتھیوں کو فرعون کی طرف سے ڈر تھا کہ جامع مسجدوں میں نماز پڑھیں گے تو فرعون پکڑوا کر سزا دے گا ‘ اسلئے اللہ کی طرف سے حکم دیا گیا کہ بنی اسرائیل اپنے گھروں میں کعبے کے رخ پر مسجدیں بنا لیں اور چھپ کر وہاں نمازیں پڑھا کریں۔ واجلعوا بیوتکم قبلۃ اور تم سب بنا لو (مقرر کردہ) گھروں کو قبلہ رخ نماز کی جگہ۔ قبلہ سے مراد ہے نماز کی جگہ جو قبلہ رخ ہو ‘ یعنی کعبہ کی چھت پر ہو۔ ابن جریح نے حضرت ابن عباس کا قول بیان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ اور آپ کے ساتھیوں کا قبلۂ عبادت کعبہ تھا۔ واقیموا الصلوۃ اور اس میں نماز قائم کرو۔ تاکہ کفار غلبہ حاصل کر کے ان کو ایذاء نہ پہنچائیں۔ وبشر المؤمنین۔ اور (اے موسیٰ ! ) تم ایمانداروں کو بشارت دے دو ۔ کہ اللہ تمہارے دشمنوں کو ہلاک کر دے گا اور تم کو ملک میں ان کا جانشین بنا دے گا ‘ اور آخرت میں تم کو جنت عطا فرمائے گا۔ شروع کلام میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ‘ دونوں کو خطاب کیا ‘ پھر ان دونوں کو مع قوم کے مخاطب بنایا کیونکہ دونوں حضرات کی کوشش اور سرداران قوم کے مشورہ سے گھروں کے اندر مسجدیں ہو سکتی تھیں اور چونکہ ہر شخص پر گھروں کے اندر نماز کی جگہ مقرر کرنا اور وہاں ادائے صلوٰۃ کرنا لازم تھا ‘ اسلئے سارے مؤمنوں کو خطاب فرمایا۔ آخر میں صرف حضرت موسیٰ کو مخاطب کیا کیونکہ آپ ہی صاحب شریعت تھے اور قوم کو بشارت دینا آپ ہی کا فریضہ تھا۔ بغوی نے لکھا ہے کہ بشر سے خطاب رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کو ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مصر میں بنی اسرائیل کا بےبس ہونا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا انہیں توکل کی تلقین فرمانا اور گھروں میں نمازیں پڑھنے کا اہتمام کرنے کا حکم دینا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل میں سے تھے اپنی قوم کی طرف بھی مبعوث ہوئے تھے جیسا کہ فرعون اور ان کی طرف بھی ان کی بعثت ہوئی تھی۔ فرعون کی قوم میں سے ایک شخص نے ایمان قبول کیا جس کا ذکر سورة مومن میں ہے اور فرعون کی بیوی بھی مسلمان ہوگئی تھی جس کا سورة تحریم میں ذکر ہے اور بعض لوگوں نے ماشطہ (فرعون کی لڑکی کی کنگھی کرنے والی) اور اس کے خزانچی اور اس کی بیوی کے مومن ہونے کا بھی ذکر کیا ہے ‘ بنی اسرائیل میں سے بھی کچھ لوگوں نے ایمان قبول کیا۔ مسلمان تو ہوگئے لیکن فرعون سے اور اس کی قوم کے سرداروں سے ڈرتے تھے کہ کہیں انہیں فتنے میں نہ ڈال دے۔ یعنی جو دین حق انہوں نے قبول کرلیا ہے اس سے ہٹا نہ دے۔ فرعون کو زمین میں اقتدار حاصل تھا۔ متکبر بھی تھا اور ظالم بھی ‘ جن لوگوں کو سزا دیتا تھا وہ بہت سخت سزا ہوتی تھی۔ ہاتھوں میں کیلیں گاڑ دیتا تھا۔ اسی لئے اسے سورة الفجر میں ذو الْاَوْتَاد فرمایا ہے۔ تکبر اور تجبر میں اتنا آگے بڑھ چکا تھا کہ اپنے بارے میں (اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی) کہتا تھا جو لوگ مومن ہوئے وہ اس سے ڈرتے رہتے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا اگر تم واقعی اللہ پر ایمان لے آئے ہو تو اللہ ہی پر بھروسہ رکھو اگر تم فرمانبردار ہو۔ ان لوگوں نے کا کہا کہ ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا پھر یوں دعا کی کہ اے اللہ ہمیں ظالموں کیلئے فتنہ نہ بنا جو ہمیں تکلیف دیں اور تختہ مشق بنائیں اور ہم پر رحم فرما اور کافر قوم سے نجات دے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ دعا کرنے والے کو اللہ پر توکل کرنا چاہئے۔ توکل ہوگا تو دعا کی قبولیت کی امید زیادہ بندھ جاتی ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ توکل دعاء کے منافی نہیں ہے۔ توکل کا معنی یہ ہے کہ اسباب عادیہ پر نظر نہ رہے اور صرف خالق الاسباب پر بھروسہ ہوجائے۔ اور دعا بھی اسی ذات پاک سے مانگی جاتی ہے جس پر بھروسہ ہے اس لئے دونوں میں کوئی منافات نہیں۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون ( علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی قوم کے لئے مصر ہی میں گھر بنائے رکھو اور گھروں ہی میں نمازیں پڑھتے رہو۔ یہ گھر ہی تمہارے لئے مسجدیں ہیں چونکہ فرعون کے ظلم کی وجہ سے باہر مسجدیں نہیں بنا سکتے تھے اور کھل کر نماز پڑھنے کا موقعہ نہ تھا اس لئے یہ حکم دیا کہ گھروں میں ہی نماز پڑھیں۔ اور نماز قائم رکھیں۔ (اس سے نماز کی اہمیت معلوم ہوئی کہ جہاں بھی ہوں مظلومیت کے جن حالات سے بھی گذر رہے ہوں نماز قائم کرنے میں سستی نہ کریں) ۔ آخر میں فرمایا (وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ) (اہل ایمان کو بشارت دے دو ) اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول فرمائے گا انہیں ظالموں سے نجات دے گا ‘ اور دشمن کے مقابلہ میں ان کی مدد فرمائے گا۔ اور ان کی مظلومیت کی جو حالت ہے اس سے نجات دے گا۔ جس کا ذکر آگے آ رہا ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

102: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت سے قبل بنی اسرائیل اپنی مسجدوں میں عبادت کرتے تھے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مبعوث ہو کر توحید کی دعوت دی تو فرعون اسرائیلیوں پر برہم ہوگیا اور ان کے تمام عبادت خانے گرا دئیے اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کو وحی بھیجی کہ اپنی قوم کو حکم دے دو وہ شہر میں اپنے کچھ گھروں کو عبادت کیلئے مخسوص کرلیں اور انہی میں عبادت بجا لائیں اور نماز قائم کریں اور ساتھ ہی ان کو فرعون سے نجات کی خوشخبری بھی سنا دیں۔ (قرطبی و مظہری) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

87 اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے بھائی ہارون (علیہ السلام) پر وحی بھیجی کہ تم دونوں قوم کے لئے مصر میں مکان تیار کر ائو اور تم اپنے انہی مکانوں اور گھروں میں نما ز کی جگہ مقرر کرلو اور نماز کی جگہ بنالو اور نماز کی پابندی رکھو اور اے موسیٰ (علیہ السلام) تم ایمان والوں کو خوشخبری سنادو یعنی جو دعا تم نے مانگی تھی اس کی قبولیت کے آثار نمایاں ہونے والے ہیں تم اپنا محلہ الگ بسا لو اور چونکہ مساجد کو فرعون نے تباہ کردیا ہے اس لئے اپنے گھروں ہی میں نماز کیلئے ایک جگہ مقرر کرلو اور وہیں نماز ادا کیا کرو اور مسلمانوں کو فرعون سے نجات کی بشارت دیدو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمہارے جہاں گھر ہیں ان کو قائم اور برقرار رکھو اور گھروں ہی کو نماز کے اوقات میں اپنے نماز پڑھنے کی جگہ قرار دے لو نماز کیلئے مساجد میں جانا معاف کیا جاتا ہے ہوسکتا ہے کہ ان وجوہ کے علاوہ کسی اور سیاسی مصلحت سے مکانوں میں رہنے یا نئے مکان بنانے کا حکم ہوا ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ جب فرعون کا ہلاک ہونا نزدیک پہنچا تو حکم ہوا کہ اپنی قوم ان میں شامل نہ رکھو اپنا محلہ جدا بسائو کہ آگے ان پر آفتیں پڑتی ہیں یہ قوم آفت میں شریک نہ ہو۔