Commentary Mentioned in the verses appearing immediately above, there are some circumstantial details along with their corresponding injunctions as they relate to Sayyidna Musa and Sayyidna Harun (علیہما السلام) and the children of Isra&il and the people of the Pharaoh. The first verse (87) carries an injunction pertaining to a particular event. Banu Isra&il (the children of Isra&il) who observed the religious law of Sayyidna Musa (علیہ السلام) used to perform their prayers only in their synagogues as customary. Then, the past communities were also bound by this injunction. Their prayers were not valid if performed in their homes. The Muslim Um¬mah was the special recipient of the convenience that they could, if needed, perform their prayers everywhere as they wished. In a Hadith of Sahih Muslim, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has, out of his six sin¬gularities, given one as, ` the whole earth has been made a masjid for me.& It means that Salah performed anywhere remains valid. However, it is something else that the performing of obligatory prayers in con¬gregation only in masjids has been declared as an emphasized Sun¬nah. Then, saying nafl prayers inside homes is better. This was the usual practice of the Holy Prophet i He would say only the Fard Salah in the Masjid then go home and say his sunnahs and nafls there. As for the Banu Isra&il, they were bound to offer their prayers only in their synagogues in obedience to their religious laws. Realizing this, the Pharaoh who used to oppress them in all sorts of ways had all synagogues demolished so that they could be deprived of offering their prayers in accordance with their religious laws. Thereupon, Allah Ta` ala sent to the two prophets of Banu Isra&il, Sayyidna Musa and Harun, may peace be on them both, the injunction mentioned in verse 87. It was said there that new houses should be built in Egypt for Bani Isra&il and that their orientation should be towards the Qiblah so that prayers could be offered in those very residential houses. This tells us that the religious law of past communities demanded that prayers should be offered in houses of worship specifically built for this purpose. But it was because of a particular incident that the Bani Isra&il were temporarily allowed to offer their prayers at home and, for this purpose, they were to have houses oriented towards the Qiblah. And it can also be said that even at this time of emergency they were allowed to offer their prayers in particular houses that were oriented towards the Qiblah. Praying in common homes and public places was still not permitted even at that time. It was unlike the Muslim community that has the convenience of offering their prayers anywhere, be it a city or wilderness. (Ruh al-Ma&ani) It will be good to answer another question at this point. In this verse, the Bani Isra&il have been commanded to orient themselves towards the Qiblah. Which Qiblah is this? The Ka&bah or the Baytu &l-Maqdis? Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) says, It means the Ka&bah and the Ka&bah alone was the Qiblah of Sayyidna Musa (علیہ السلام) and his people.& (al-Qurtubi and Ruh al-Ma` ani) In fact, some religious schol¬ars say that the real Qiblah of all past prophets was no other but the Ka&bah. As for the Hadith where it is said that the Jews turn their faces towards the Sakhrah (the Rock) of Baytu &l-Maqdis during their prayers, it will be applied to the time when Sayyidna Musa left Egypt and headed towards Baytu &l-Maqdis. This is not contrary to his Qi¬blah being the Baytullah during the period of his stay in Egypt. It is also proved from this verse that the condition of facing to-wards the Qiblah was operative also during the period of past proph¬ets. Similarly, it also stands proved from authentic reports that purity (taharah) and body cover (satr al-&aurah) were conditions of Salah even in the religious laws of all past prophets. Since the very purpose of making houses Qiblah oriented was to pray in there, therefore, by giving the command: ` Establish Salah& (اَقِیمُوا الصَّلٰوۃَ ) after that, the instruction given was: If the Pharaoh stops you from making prayers in places reserved for worship, prayers do not stand dropped. Make these in your homes. At the end of the verse, Sayyidna Musa (علیہ السلام) has been asked to convey the good news to believers that their mission will be successful. They will overpower the enemy and they will go to Paradise in the Hereafter. (Ruh al-Ma` ani) It will be noted that, at the beginning of the verse, Sayyidna Musa and Harun (علیہما السلام) may peace be upon them both, were addressed in the dual form because they both were charged with the responsibility of having houses made Qiblah oriented and allowing occupants to pray in there. After that, by using the plural form which included all Bani Isra&il, command was given to establish Salah - because, this law in¬cluded all, the prophet and his community. At the end, the command to convey the good news was given particularly to Sayyidna Musa (علیہ السلام) - because, it was he, as the law-giving prophet, who had the right to give out the good news of Paradise.
خلاصہ تفسیر اور ہم نے ( اس دعا کے قبول کرنے کا سامان کیا کہ) موسیٰ ( علیہ السلام) اور ان کے بھائی ( ہارون (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی کہ تم دونوں اپنے ان لوگوں کے لئے ( بدستور) مصر میں گھر برقرار کرو ( یعنی وہ ڈر کر گھر نہ چھوڑیں ہم ان کے محافظ ہیں) اور ( نماز کے اوقات میں) تم سب اپنے انہی گھروں کو نماز پڑھنے کی جگہ قرار دے لو ( مساجد کی حاضری خوف کی وجہ سے معاف ہے) اور ( یہ ضروری ہے کہ) نماز کے پابند رہو ( تاکہ نماز کی برکت سے اللہ تعالیٰ جلدی اس مصیبت سے چھڑا دے) اور (اے موسی) آپ مسلمانوں کو بشارت دے دیں (کہ اب جلدی یہ مصیبت ختم ہوجاوے گی) اور موسیٰ ( علیہ السلام) نے ( دعا میں) عرض کیا کہ اے ہمارے رب ( ہم کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ) آپ نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان تجمل اور طرح طرح کے مال دنیوی زندگی میں اے ہماے رب اسی واسطے دیئے ہیں کہ وہ آپ کی راہ سے ( لوگوں کو) گمراہ کریں ( پس جب ہدایت ان کے مقدر میں ہے نہیں اور جو حکمت تھی وہ حاصل ہوچکی تو اب ان کے اموال اور نفوس کو کیوں باقی رکھا جاوے پس) اے ہمارے رب ان کے مالوں کو نیست نابود کر دیجئے اور ( ان کے نفوس کی ہلاکت کا سامان کردیجئے اس طرح کہ) ان کے دلوں کو ( زیادہ) سخت کردیجئے ( جس سے ہلاکت کے مستحق ہوجاویں) سو یہ ایمان نہ لانے پاویں ( بلکہ روز بروز ان کا کفر ہی بڑھتا رہے) یہاں تک کہ عذاب الیم ( کے مستحق ہو کر اس) کو دیکھ لیں ( سو اس وقت ایمان نافع نہیں ہوتا موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دعا کی اور ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے رہے۔ کذا فی الدر المنثور) حق تعالیٰ نے فرمایا کہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی ( کیونکہ آمین کہنا بھی دعا میں شریک ہونا ہے یعنی ہم ان کے اموال و نفوس اب ہلاک کرنے والے ہیں) سو تم ( اپنے منصبی کام یعنی تبلیغ پر) مستقیم رہو ( یعنی گو ہدایت ان کی تقدیر میں نہ ہو مگر تبلیغ میں تمہارا فائدہ ہے) اور ان لوگوں کی راہ نہ چلنا جن کو ( ہمارے وعدے کے سچے ہونے کا یا توقف میں حکمت ہونے کا یا تبلیغ کے ضروری ہونے کا) علم نہیں ( یعنی ہمارے وعدہ کو سچا سمجھو اور اگر ہلاکت میں دیر ہوجاوے اس میں حکمت سمجھو اور اپنے منصبی کام میں لگے رہو) اور ( جب ہم نے فرعون کو ہلاک کرنا چاہا تو موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے باہر نکال لے جائے چناچہ وہ سب کو لے کر چلے اور رستہ میں دریائے شور حائل ہوا، اور موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے اس میں راستہ ہوگیا اور) ہم نے بنی اسرائیل کو ( اس) دریا سے پار کردیا پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون مع اپنے لشکر کے ظلم اور زیادتی کے ارادہ سے ( دریا میں) چلا ( کہ دریا سے نکل کر ان سے قتل و قتال کرے لیکن وہ دریا سے پار نہ ہوسکا) یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا ( اور ملائکہ عذاب کے نظر آنے لگے) تو ( سراسیمہ ہوکر) کہنے لگا میں ایمان لاتا ہوں کہ بجز اس کے کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں میں داخل ہوتا ہوں ( سو مجھ کو اس غرق سے اور عذاب آخرت سے نجات دی جاوے فرشتہ کے ذریعہ سے) جواب دیا گیا کہ اب ایمان لاتا ہے ( جبکہ معائنہ آخرت کا شروع ہوگیا) اور ( معائنہ آخرت کے) پہلے سے سرکشی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا ( اب نجات چاہتا ہے ) ۔ معارف و مسائل آیات مذکورہ میں حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) اور بنی اسرائیل و قوم فرعون کے کچھ حالات اور ان سے متعلقہ احکام مذکور ہیں پہلی آیت میں ایک خاص واقعہ سے متعلق حکم ہے وہ یہ کہ بنی اسرائیل جو دین موسوی پر عامل تھے یہ سب عام عادت کے مطابق نمازیں صرف اپنے صومعوں ( عبادت گاہوں) میں ادا کرتے تھے، اور پچھلی امتوں کے لئے حکم بھی یہی تھا کہ ان کی نماز اپنے گھروں میں ادا نہیں ہوتی تھی، یہ خصوصی سہولت امت محمدیہ کو عطا ہوئی کہ ہر جگہ جہاں چاہیں نماز ادا کرلیں، صحیح مسلم کی ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چھ (6) خصوصیات میں سے ایک یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ میرے لئے ساری زمین کو مسجد بنادیا گیا ہے کہ نماز ہر جگہ ادا ہوجاتی ہے، یہ دوسری بات ہے کہ فرض نمازوں کا مسجدوں میں ہی ادا کرنا جماعت کے ساتھ سنت مؤ کدہ قرار دیا گیا، اور نفلی نمازوں کا گھروں میں ادا کرنا افضل ہے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل اسی پر تھا کہ مسجد میں صرف فرض نماز پڑھتے تھے، سنن اور نوافل گھر میں جا کر ادا فرماتے تھے۔ بنی اسرائیل اپنے مذہب کے مطابق اس کے پابند تھے کہ نماز صرف اپنے عبادت خانوں میں ادا کریں، فرعون جو ان کو طرح طرح کی ایذائیں دیتا اور ان پر ظلم ڈھاتا تھا، اس نے یہ دیکھ کر ان کے تمام عبادت خانوں کو مسمار کردیا تاکہ یہ اپنے مذہب کے مطابق نماز نہ پڑھ سکیں، اس پر حق تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے دونوں پیغمبروں حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کو وہ حکم دیا جو اس آیت میں مذکور ہے کہ بنی اسرائیل کیلئے مصر میں مکان نئے بنائے جائیں اور ان مکانات کا رخ قبلہ کی طرف ہو، تاکہ وہ انہیں سکونتی مکانات میں نماز ادا کرسکیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پچھلی امتوں میں اگرچہ عام حکم یہی تھا کہ نمازیں صرف عبادت خانوں میں پڑھی جائیں، لیکن اس خاص حادثہ کی وجہ سے بنی اسرائیل کے لئے اس کی عارضی اجازت دے دی گئی کہ گھروں ہی میں نماز ادا کرلیا کریں اور اپنے گھروں کا رخ قبلہ کی طرف سیدھا رکھیں، اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس ضرورت کے وقت بھی ان کو مخصوص گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی جن کا رخ قبلہ کی طرف کیا گیا تھا، عام گھروں اور عام مقامات پر نماز کی اجازت اس وقت بھی نہیں تھی، جس طرح امت محمدیہ کو شہر اور جنگل کے ہر مقام پر نماز ادا کرنے کی سہولت حاصل ہے ( روح ) ۔ یہاں یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ اس آیت میں بنی اسرائیل کو جس قبلہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد کون سا قبلہ ہے، کعبہ یا بیت المقدس ؟ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ اس سے مراد کعبہ ہے اور کعبہ ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب کا قبلہ تھا۔ ( قرطبی و روح) بلکہ بعض علماء نے فرمایا کہ تمام انبیاء سابقین کا قبلہ اصل میں کعبہ ہی تھا۔ اور جس حدیث میں یہ ارشاد ہے کہ یہود اپنی نمازوں میں صخرہ بیت المقدس کی طرف رخ کرتے ہیں اس کو اس زمانہ پر محمول کیا جائے گا جب کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر چھوڑ کر بیت المقدس کی طرف روانہ ہوئے، یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ قیام مصر کے زمانہ میں آپ کا قبلہ بیت اللہ ہی ہو۔ اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز کے لئے استقبال قبلہ کی شرط انبیاء سابقین کے زمانہ میں بھی تھی، اسی طرح طہارت اور ستر عورت کا تمام انبیاء سابقین کی شریعتوں میں شرط نماز ہونا بھی معتبر روایات سے ثابت ہے۔ گھروں کو قبلہ رخ بنانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ ان میں نمازیں ادا کی جائیں اس لئے اس کے بعد اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ کا حکم دے کر یہ ہدایت کردی گئی کہ اگر فرعون عبادت گاہوں میں نماز ادا کرنے سے روکتا ہے تو اس سے نماز ساقط نہیں ہوتی اپنے گھروں میں ادا کرو۔ آخر آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خطاب کرکے حکم دیا گیا کہ مؤمنین کو آپ خوشخبری سنا دیں کہ ان کا مقصود پورا ہوگا، دشمن پر ان کو غلبہ نصیب ہوگا اور آخرت میں جنت ملے گی۔ ( روح ) ۔ آیت کے شروع میں حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کو بصیغہ تثنیہ خطاب کیا گیا کیونکہ مکانات قبلہ رخ کرکے ان میں نماز پڑھنے کی اجازت انہیں کا کام تھا، اس کے بعد بصیغہ جمع سب بنی اسرائیل کو شامل کرکے اقامت نماز کا حکم دیا گیا کیونکہ اس حکم میں پیغمبر اور امت سب داخل ہیں، آخر میں بشارت دینے کا حکم خاص موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا گیا کیونکہ اصل صاحب شریعت نبی آپ ہی تھے، بشارت جنت دینے کا آپ ہی کو حق تھا۔