Surat Younus

Surah: 10

Verse: 88

سورة يونس

وَ قَالَ مُوۡسٰی رَبَّنَاۤ اِنَّکَ اٰتَیۡتَ فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَاَہٗ زِیۡنَۃً وَّ اَمۡوَالًا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۙ رَبَّنَا لِیُضِلُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِکَ ۚ رَبَّنَا اطۡمِسۡ عَلٰۤی اَمۡوَالِہِمۡ وَ اشۡدُدۡ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَلَا یُؤۡمِنُوۡا حَتّٰی یَرَوُا الۡعَذَابَ الۡاَلِیۡمَ ﴿۸۸﴾

And Moses said, "Our Lord, indeed You have given Pharaoh and his establishment splendor and wealth in the worldly life, our Lord, that they may lead [men] astray from Your way. Our Lord, obliterate their wealth and harden their hearts so that they will not believe until they see the painful punishment."

اور موسیٰ ( علیہ السلام ) نے عرض کیا کہ اے ہمارے رب! تو نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مال دنیاوی زندگی میں دیئے اے ہمارے رب! ( اسی واسطے دیئے ہیں کہ ) وہ تیری راہ سے گمراہ کریں ۔ اے ہمارے رب! انکے مالوں کو نیست و نابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کردے سو یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Musa supplicated against Fir`awn and His Chiefs Allah mentioned what Musa said when he prayed against Fir`awn and his chiefs after they refused to accept the truth. They continued to go astray and be haughty and arrogant. وَقَالَ مُوسَى رَبَّنَا إِنَّكَ اتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلهُ زِينَةً ... And Musa said: "Our Lord! You have indeed bestowed on Fir`awn and his chiefs splendor (and pleasure of this worldly life). ... وَأَمْوَالاً ... and wealth, (plentiful and abundant). Allah's statement, ... فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّواْ عَن سَبِيلِكَ ... in the life of this world, Our Lord! That they may lead men astray from Your path. was read with the word "Liyadillu" and "Liyudillu." The first is with a Fathah over the Ya, meaning that; "You have given them that while You know they would not believe in what You have sent me with to them. You did that so they would gradually be drawn away from the truth." As Allah said: لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ that We may test them thereby. (20:131) and (72:17) Others read the word with a Dammah over the Ya. (i.e. Liyudillu) This makes the Ayah mean: "You have given them that so whoever You willed from among Your creatures will be tried. Those whom You wish to misguide would think that You have given them that because You loved them and You cared about them." ... رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَى أَمْوَالِهِمْ ... "Our Lord! Destroy their wealth," Ibn Abbas and Mujahid said: "They asked Allah to destroy their wealth." Ad-Dahhak, Abu Al-Aliyah and Ar-Rabi`a bin Anas said: "Allah made their wealth into engraved stones as it was before." About Allah's statement, ... وَاشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ ... and harden their hearts. Ibn Abbas said, "Harden their hearts means put a seal on them." ... فَلَ يُوْمِنُواْ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الاَلِيمَ so that they will not believe until they see the painful torment. This prayer was from Musa because he was angry for the sake of Allah and His religion. He prayed against Fir`awn and his chiefs when he was certain that there was no good in them. Similarly, Nuh prayed and said: وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لاَ تَذَرْ عَلَى الاٌّرْضِ مِنَ الْكَـفِرِينَ دَيَّاراً إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّواْ عِبَادَكَ وَلاَ يَلِدُواْ إِلاَّ فَاجِراً كَفَّاراً My Lord! Leave not one of the disbelievers on the earth! If You leave them, they will mislead Your servants, and they will beget none but wicked disbelievers. (71:26-27) Harun said "Amin" to his brother's prayer. And Allah answered Musa's prayer.

فرعون کا تکبر اور موسیٰ علیہ السلام کی بد دعا جب فرعون اور فرعونیوں کا تکبر ، تجبر ، تعصب بڑھتا ہی گیا ۔ ظلم و ستم بےرحمی اور جفا کاری انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ کے صابر نبیوں نے ان کے لیے بد دعا کی کہ یا اللہ تو نے انہیں دنیا کی زینت و مال خوب خوب دیا اور تو بخوبی جانتا ہے کہ وہ تیرے حکم کے مطابق مال خرچ نہیں کرتے ۔ یہ صرف تیری طرف سے انہیں ڈھیل اور مہلت ہے ۔ یہ مطلب تو ہے جب لیضلِّوا پڑھا جائے جو ایک قرأت ہے اور جب لِیُضِلُّوا پڑھیں تو مطلب یہ ہے کہ یہ اس لئے کہ وہ اوروں کو گمراہ کریں جن کی گمراہی تیری چاہت میں ہے ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ یہی لوگ اللہ کے محبوب ہیں ورنہ اتنی دولت مندی اور اس قدر عیش و عشرت انہیں کیوں نصیب ہوتا ہے؟ اب ہمای دعا ہے کہ ان کے یہ مال تو غارت اور تباہ کر دے ۔ چنانچہ ان کے تمام مال اسی طرح پتھر بن گئے ۔ سونا چاندی ہی نہیں بلکہ کھیتیاں تک پتھر کی ہوگئیں حضرت محمد بن کعب اس سورہ یونس کی تلاوت امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے کر رہے تھے جب اس آیت تک پہنچے تو خلیفۃالمسلمین نے سوال کیا کہ یہ طمس کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا ان کے مال پتھر بنا دیئے گئے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا صندوقچہ منگوا کر اس میں سے سفید چنا نکال کر دکھایا جو پتھر بن گیا تھا ۔ اور دعا کی کہ پروردگار ان کے دل سخت کر دے ان پر مہر لگادے کہ انہیں عذاب دیکھنے تک ایمان لانا نصیب نہ ہو ۔ یہ بد دعا صرف دینی حمیت اور دینی دل سوزی کی وجہ سے تھی یہ غصہ اللہ اور اس کے دین کی خاطر تھا ۔ جب دیکھ لیا اور مایوسی کی حد آگئی حضرت نوح علیہ السلام کی دعا ہے کہ الٰہی زمین پر کسی کافر کو زندہ نہ چھوڑ ورنہ اورں کو بھی بہکائیں گے اور جو نسل ان کی ہوگی وہ بھی انہیں جیسی بے ایمان بدکار ہوگی ۔ جناب باری نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون دونوں بھائیوں کی یہ دعا قبول فرمائی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام دعا کرتے جاتے تھے اور حضرت ہارون علیہ السلام آمین کہتے جاتے تھے ۔ اسی وقت وحی آئی کہ ہماری یہ دعا مقبول ہو گئی سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ آمین کا کہنا بمنزلہ دعا کرنے کے ہے کیونکہ دعا کرنے والے صرف حضرت موسیٰ تھے آمین کہنے والے حضرت ہارون تھے لیکن اللہ نے دعا کی نسبت دونوں کی طرف کی پس مقتدی کے آمین کہہ لینے سے گویا فاتحہ کا پڑھ لینے والا ہے ۔ پس اب تم دونوں بھائی میرے حکم پر مضبوطی سے جم جاؤ ۔ جو میں کہوں بجا لاؤ ۔ اسی دعا کے بعد فرعون چالیس ماہ زندہ رہا کوئی کہتا ہے چالیس دن ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

88۔ 1 جب موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ فرعون اور اس کی قوم پر وعظ نصیحت کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا اور اس طرح معجزات دیکھ کر بھی ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تو پھر ان کے حق میں بد دعا فرمائی۔ جسے اللہ نے یہاں نقل فرمایا ہے۔ 88۔ 2 یعنی اگر یہ ایمان لائیں بھی تو عذاب دیکھنے کے بعد لائیں، جو ان کے لئے نفع بخش نہیں ہوگا۔ یہاں ذہن میں یہ اشکال نہیں آنا چاہیے کہ پیغمبر تو ہدایت کی دعا کرتے ہیں نہ کہ ہلاکت کی بد دعا۔ اس لئے کہ دعوت و تبلیغ اور ہر طرح سے تمام حجت کے بعد، جب یہ واضح ہوجائے کہ اب ایمان لانے کی کوئی امید باقی نہیں رہی، تو پھر آخری چارہ کار یہی رہ جاتا ہے کہ اس قوم کے معاملے کو اللہ کے سپرد کردیا جائے، یہ گو اللہ کی مشیت ہی ہوتی ہے جو بےاختیار پیغمبر کی زبان پر جاری ہوجاتی ہے جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) نے بھی ساڑھے نو سو سال تبلیغ کرنے کے بعد بالآخر اپنی قوم کے بارے بد دعا فرمائی۔ " رب لاتذر علی الارض من الکافرین دیارا : اے رب زمین پر ایک کافر کو بھی بسا نہ رہنے دے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٨] جماعتی نظم ونسق کے ساتھ ساتھ دشمن کی طاقت کو کمزور بنانے کے لئے وسائل سوچنا اور اس کے لئے دعا بھی ضروری ہے :۔ کسی دشمن سے مقابلہ کے لیے دو گونہ اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے ایک یہ کہ اپنی جماعت کو مربوط منظم اور طاقتور بنایا جائے دوسرے یہ کہ جہاں تک ممکن ہو دشمن کی جماعت کو کمزور بنایا جائے اب موسیٰ (علیہ السلام) کی مٹھی بھر جماعت کے مقابلہ میں فرعون جیسا جابر اور خود سر بادشاہ تھا جو مال و دولت اور شان و شوکت کی فراوانی کے علاوہ جملہ اسباب و وسائل پر قابض بھی تھا اور انہی وجوہات کی بنا پر وہ سیدنا موسیٰ کی دعوت کے کام میں سدراہ بنا ہوا تھا کیونکہ وہ خوب جانتا تھا کہ اگر موسیٰ کی دعوت کو فروغ حاصل ہوگیا تو اس کا اقتدار خطرہ میں پڑجائے گا لہذا وہ اس دعوت کو روکنے میں اپنا ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہا تھا اور ظاہر ہے کہ جو شخص دعوت حق کی مخالفت میں اس حد تک جا پہنچے اس کے خود ایمان لانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہذا موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی مقدور بھر کوششوں کے ساتھ ساتھ اللہ سے یہ دعا بھی کی کہ چونکہ دعوت حق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ فرعون اور اس کے درباریوں کا شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور مال و دولت کی فراوانی ہے اور یہی چیزیں ایک دنیا دار کی نظر میں زندگی کی کامیابی کا منتہائے مقصود ہیں لہذا اے ہمارے پروردگار ! ان لوگوں کے مال و دولت اور وسائل کو تباہ و برباد کر دے تاکہ یہ لوگ کم از کم دوسرے لوگوں کی راہ تو نہ روکیں، ان کے اپنے دل تو اس قابل ہی نہیں رہے کہ وہ ایمان لے آئیں الا یہ کہ کوئی سخت عذاب اپنے آپ پر نازل ہوتا دیکھ لیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ مُوْسٰى رَبَّنَآ اِنَّكَ اٰتَيْتَ ۔۔ : پے در پے معجزات دیکھنے اور مختلف عذابوں کے نزول پر ایمان لانے اور آزادی دینے کے وعدوں کے باوجود جب فرعون اور اس کے ساتھی کفر اور ظلم سے کسی صورت باز نہ آئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے تنگ آکر ان کے حق میں بددعا کی۔ رَبَّنَا لِيُضِلُّوْا عَنْ سَبِيْــلِكَ : ” لِیُضِلُّوْا “ میں لام عاقبت اور انجام کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ اس اعتبار سے آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ اے ہمارے پروردگار ! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں زینت و اموال عطا فرمائے، جس کا انجام یہ ہوا کہ وہ تیرا شکر ادا کرنے کے بجائے اس دولت کے بل بوتے پر لوگوں کو تیری راہ سے گمراہ کرنے لگے۔ یہ معنی سیبویہ اور خلیل نے بیان کیا ہے۔ بعض مفسرین نے ” لِیُضِلُّوْا “ کے لام کو تعلیل کا بھی بتایا ہے، جس کا معنی ” تاکہ “ ہے، یعنی تو نے انھیں دنیا کا مال و دولت اور اس کی زینت اس لیے دی ہے کہ تو اس کے ذریعے سے انھیں فتنے اور آزمائش میں ڈالے اور یہ مال و دولت تو نے انھیں دی ہی اس لیے ہے کہ یہ فتنے میں پڑ کر خود بھی گمراہ ہوں اور شیطان کی طرح دوسرے لوگوں کو بھی تیری راہ سے گمراہ کرتے پھریں۔ یہ معنی ابن جریر طبری نے کیا ہے اور دلیل میں سورة جن کی یہ آیت پیش کی ہے : (لَاَسْقَيْنٰهُمْ مَّاۗءً غَدَقًا 16؀ۙلِّنَفْتِنَهُمْ فِيْهِ ) [ الجن : ١٦، ١٧ ] ” تو ہم انھیں ضرور بہت وافر پانی پلاتے۔ تاکہ ہم اس میں ان کی آزمائش کریں۔ “ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓي اَمْوَالِهِمْ ۔۔ : پروردگار ! ان کا ظلم اب حد سے بڑھ گیا ہے، اس لیے تیرے حضور درخواست ہے کہ تو ان کے مالوں کو مٹا دے، جن کے زور پر یہ تیری راہ سے گمراہ کرتے ہیں اور ایمان لانے کے وعدوں کی انھوں نے اتنی بار خلاف ورزی کی ہے کہ ان کی سزا یہی ہے کہ تو انھیں ایمان کی توفیق سے محروم کر دے اور ان کے دلوں پر ایسی گرہ لگا کہ یہ عذاب الیم دیکھنے تک ایمان نہ لاسکیں، جس کے دیکھنے کے بعد ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جیسے اولوالعزم پیغمبر نے یہ بد دعا اللہ تعالیٰ کے کسی اشارے کے بعد کی ہے کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کی قسمت میں ایمان نہیں، جیسا کہ نوح (علیہ السلام) کو جب اللہ تعالیٰ نے صاف بتادیا کہ آپ کی قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے ان کے بعد مزید کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا (دیکھیے ہود : ٣٦) تو انھوں نے ان کے خلاف وہ زبردست بددعا کی جو سورة نوح میں مذکور ہے۔ یا جب آل فرعون نے تمام معجزات دیکھ کر کہا کہ تو ہمارے پاس خواہ کوئی بھی نشانی لے آئے ہم ہرگز تم دونوں پر ایمان نہیں لائیں گے (دیکھیے اعراف : ١٣٢) تو موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) نے ان کے ایمان سے مایوس ہو کر یہ بددعا کی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mentioned in the second verse (88), there is a curse which Sayyidna Musa (علیہ السلام) invoked after having lost all hopes of reforming the peo¬ple of the Pharaoh. At its beginning, he submitted before his Lord that He had given the Pharaoh and his group glamour and riches in their worldly life (mines of gold, silver and precious stones in Egypt and Ethiopia - al-Qurtubi). As a result, they misled people from His way. Because, common-people, when they looked at their bulging affluence, they started doubting - had they been in error, why would they have been so blessed? Again, because common-people were unable to see through the reality that material affluence without good deeds cannot be the sign of a person being right and true. It was only after having been disappointed with his efforts to correct the people of the Pharaoh, and having realized the danger it posed for other people who were be¬ing misled by the glamour and wealth of the Pharaoh&s group that he invoked the curse: رَ‌بَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ (Our Lord, obliterate their riches). According to the statement of Sayyidna Qatadah (رض) ، such was the effect of this invocation that all gold, precious coins, stones, land produce belonging to Pharaoh&s people were transformed into bland rocks. In a bag found during the period of the pious Khalifah Sayyidna ` Umar ibn ` Abd al-` Aziz (رح) ، there were things dating back to the time of the Pharaoh. Seen in it, there were eggs and almonds of solid rock. Leading commentators say that Allah Ta` ala had turned all fruits, vegetables and grains they had into rocks. This is among the nine ayat (signs or miracles) mentioned in the Qur&an as in: وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ رَ‌بَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ (and We gave Musa [ Moses ] nine clear signs - 17:101). The second curse invoked by Sayyidna Musa علیہ السلام for them appears in the words: وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَ‌وُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ (and harden their hearts, so that [ they are deprived of the very ability to receive any good and ] they may not come to believe until they witness the painful punishment - 88). The invocation of this curse obviously appears to be something far out as coming through the speech of an apostle or prophet, because the sole mission of a prophet&s life is nothing but to invite people to believe and act right and make efforts towards that end. But, in terms of the hard facts of the situation here, Sayyidna Musa (علیہ السلام) has already made whatever efforts he could. He was to-tally disappointed. Now he wanted that they better learn through the punishment for their deeds. In doing so, it was probable that these people, once they see the punishment coming, may make a confession and declare that they now believed, whereby the punishment could stand warded off. Therefore, what became the cause of this invocation from him was his hatred for kufr (disbelief, infidelity). This is similar to what happened to the Pharaoh. When he started to announce his belief at the time he was drowning, the angel, Jibra&il shut his mouth lest Divine mercy turns to him and he stands delivered from the pun¬ishment.

دوسری آیت میں قوم فرعون کی اصلاح سے مایوس ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بد دعا کا ذکر ہے جس کے شروع میں انہوں نے حق تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ عرض کیا ہے کہ آپ نے قوم فرعون کو زینت دنیا کے ساز و سامان اور مال و دولت بہت عطا فرما رکھا ہے، مصر سے لے کر ارض حبشہ تک سونے چاندی اور زبرجد و زمرد یاقوت وغیرہ جواہرات کی کانیں عطا فرما رکھی ہیں ( قرطبی) جس کا اثر یہ ہے کہ وہ لوگوں کو تیرے راستہ سے گمراہ کرتے ہیں، کیونکہ عام لوگ ان کے ظاہری ساز و سامان اور عیش و راحت کو دیکھ کر اس شک میں پڑجاتے ہیں کہ اگر یہ گمراہی پر ہوتے تو ان کو اللہ تعالیٰ کی یہ نعمتیں کیوں ملتیں، کیونکہ عام لوگوں کی نظریں اس حقیقت تک نہیں پہنچتیں کہ دنیا کا فروغ بغیر نیک عمل کے کسی انسان کے حق پر ہونے کی علامت نہیں ہوسکتی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم فرعون کی اصلاح سے مایوس ہونے کے بعد ان کے مال و دولت سے دوسروں کی گمراہی کا خطرہ محسوس کرکے بد دعا کی (آیت) رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓي اَمْوَالِهِمْ یعنی اے میرے پروردگار ان کے اموال کی صورت بدل کر مسخ و بیکار کردے۔ حضرت قتادہ کا بیان کہ اس دعا کا اثر یہ ظاہر ہوا کہ قوم فرعون کے تمام زر و جواہرات اور نقد سکے اور باغوں کھیتوں کی سب پیداوار پتھروں کی شکل میں تبدیل ہوگئے، حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں ایک تھلیہ پایا گیا جس میں فرعون کے زمانہ کی چیزیں تھیں ان میں انڈے اور بادام بھی دیکھے گئے جو بالکل پتھر تھے۔ ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام پھلوں، ترکاریوں اور غلہ کو پتھر بنادیا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کی ان نو آیات ( معجزات) میں سے ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے، (آیت) وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ ۔ دوسری بد دعا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے لئے یہ کی، (آیت) وَاشْدُدْ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ فَلَا يُؤ ْمِنُوْا حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ ، یعنی اے پروردگار ان کے دلوں کو ایسا سخت کردے کہ ان میں ایمان اور کسی خیر کی صلاحیت ہی نہ رہے تاکہ وہ عذاب الیم آنے سے پہلے ایمان نہ لاسکیں۔ یہ بد دعا بظاہر ایک رسول و پیغمبر کی زبان سے بہت بعید معلوم ہوتی ہے کیونکہ پیغمبر کا وظیفہ زندگی ہی یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو ایمان عمل صالح کی طرف دعوت دیں اور اس کے لئے تدبیریں کریں۔ مگر یہاں واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ساری تدبیریں کرنے کے بعد ان کی اصلاح سے مایوس ہوچکے تھے اور اب چاہتے تھے کہ یہ اپنے اعمال کی سزا دیکھیں، اس میں یہ احتمال تھا کہ کہیں یہ لوگ عذاب آتا دیکھ کر ایمان کا اقرار نہ کرلیں اور اس طرح عذاب ٹل جائے، اس لئے کفر سے بغض و نفرت اس دعا کا سبب بنی، جیسے فرعون غرق ہونے کے وقت ایمان کا اقرار کرنے لگا تو جبریل امین نے اس کا منہ بند کردیا کہ کہیں رحمت الہٰی متوجہ ہو کر یہ عذاب سے نہ بچ جائے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بد دعا درحقیقت بد دعا نہ ہو بلکہ ایسی ہو جیسے شیطان پر لعنت کہ وہ تو بنص قرآن خود ہی ملعون ہے پھر اس پر لعنت کرنے کا منشا اس کے سوا نہیں کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت مسلط کردی ہم بھی اس پر لعنت کرتے ہیں اس صورت میں مطلب اس کا یہ ہوگا کہ ان کے دلوں کا سخت اور ناقابل ایمان و اصلاح ہونا من جانب اللہ مقرر ہوچکا تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بصورت بد دعا اس کا اظہار فرمایا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ مُوْسٰى رَبَّنَآ اِنَّكَ اٰتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَاَہٗ زِيْنَۃً وَّاَمْوَالًا فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝ ٠ ۙ رَبَّنَا لِيُضِلُّوْا عَنْ سَبِيْــلِكَ۝ ٠ ۚ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓي اَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْا حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ۝ ٨٨ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ ( ضل)إِضْلَالُ والإِضْلَالُ ضربان : أحدهما : أن يكون سببه الضَّلَالُ ، وذلک علی وجهين : إمّا بأن يَضِلَّ عنک الشیءُ کقولک : أَضْلَلْتُ البعیرَ ، أي : ضَلَّ عنّي، وإمّا أن تحکم بِضَلَالِهِ ، والضَّلَالُ في هذين سبب الإِضْلَالِ. والضّرب الثاني : أن يكون الإِضْلَالُ سببا لِلضَّلَالِ ، وهو أن يزيّن للإنسان الباطل ليضلّ کقوله : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 113] ، أي يتحرّون أفعالا يقصدون بها أن تَضِلَّ ، فلا يحصل من فعلهم ذلك إلّا ما فيه ضَلَالُ أنفسِهِم، وقال عن الشیطان : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] ، وقال في الشّيطان : وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] ، وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 60] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص/ 26] ، وإِضْلَالُ اللهِ تعالیٰ للإنسان علی أحد وجهين : أحدهما أن يكون سببُهُ الضَّلَالَ ، وهو أن يَضِلَّ الإنسانُ فيحكم اللہ عليه بذلک في الدّنيا، ويعدل به عن طریق الجنّة إلى النار في الآخرة، وذلک إِضْلَالٌ هو حقٌّ وعدلٌ ، فالحکم علی الضَّالِّ بضَلَالِهِ والعدول به عن طریق الجنّة إلى النار عدل وحقّ. والثاني من إِضْلَالِ اللهِ : هو أنّ اللہ تعالیٰ وضع جبلّة الإنسان علی هيئة إذا راعی طریقا، محمودا کان أو مذموما، ألفه واستطابه ولزمه، وتعذّر صرفه وانصرافه عنه، ويصير ذلک کالطّبع الذي يأبى علی الناقل، ولذلک قيل : العادة طبع ثان «2» . وهذه القوّة في الإنسان فعل إلهيّ ، وإذا کان کذلک۔ وقد ذکر في غير هذا الموضع أنّ كلّ شيء يكون سببا في وقوع فعل۔ صحّ نسبة ذلک الفعل إليه، فصحّ أن ينسب ضلال العبد إلى اللہ من هذا الوجه، فيقال : أَضَلَّهُ اللهُ لا علی الوجه الذي يتصوّره الجهلة، ولما قلناه جعل الإِضْلَالَ المنسوب إلى نفسه للکافر والفاسق دون المؤمن، بل نفی عن نفسه إِضْلَالَ المؤمنِ فقال : وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة/ 115] ، فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد/ 4- 5] ، وقال في الکافروالفاسق : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد/ 8] ، وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة/ 26] ، كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر/ 74] ، وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم/ 27] ، وعلی هذا النّحو تقلیب الأفئدة في قوله : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام/ 110] ، والختم علی القلب في قوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وزیادة المرض في قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] . الاضلال ( یعنی دوسرے کو گمراہ کرنے ) کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا سبب خود اپنی ضلالت ہو یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) ایک یہ کہ کوئی چیز ضائع ہوجائے مثلا کہاجاتا ہے اضللت البعیر ۔ میرا اونٹ کھو گیا ۔ (2) دوم کہ دوسرے پر ضلالت کا حکم لگانا ان دونوں صورتوں میں اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کی پہلی کے برعکس ہے یعنی اضلال بذاتہ ضلالۃ کا سبب بنے اسی طرح پر کہ کسی انسان کو گمراہ کرنے کے لئے باطل اس کے سامنے پر فریب اور جاذب انداز میں پیش کیا جائے جیسے فرمایا : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 113] ، ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کرچکی تھی اور یہ اپنے سوا کسی کو بہکا نہیں سکتے۔ یعنی وہ اپنے اعمال سے تجھے گمراہ کرنے کی کوشش میں ہیں مگر وہ اپنے اس کردار سے خود ہی گمراہ ہو رہے ہیں ۔ اور شیطان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا ۔ اور شیطان کے بارے میں فرمایا : ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا ۔ وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 60] اور شیطان تو چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے ۔ وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے رستے سے بھٹکادے گی ۔ اللہ تعالیٰ کے انسان کو گمراہ کرنے کی دو صورتیں ہی ہوسکتی ہیں ( 1 ) ایک یہ کہ اس کا سبب انسان کی خود اپنی ضلالت ہو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف اضلال کی نسبت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب انسان از خود گمرہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں اس پر گمراہی کا حکم ثبت ہوجاتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخرت کے دن اسے جنت کے راستہ سے ہٹا کر دوزخ کے راستہ پر ڈال دیا جائے گا ۔ ( 2 ) اور اللہ تعالٰ کی طرف اضلال کی نسببت کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے انسان کی جبلت ہی کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب انسان کسی اچھے یا برے راستہ کو اختیار کرلیتا ہے تو اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے اور آخر کا اس پر اتنی مضبوطی سے جم جاتا ہے کہ اس راہ سے ہٹا نایا اس کا خود اسے چھوڑ دینا دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اعمال اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں اسی اعتبار سے کہا گیا ہے کہ عادت طبعہ ثانیہ ہے ۔ پھر جب انسان کی اس قسم کی فطرت اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اور دوسرے مقام پر ہم بیان کرچکے ہیں کہ فعل کی نسبت اس کے سبب کی طرف بھی ہوسکتی ہے لہذا اضلال کی نسبت اللہ تعالیٰ کیطرف بھی ہوسکتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہکر دیا ور نہ باری تعالیٰ کے گمراہ کر نیکے وہ معنی نہیں ہیں جو عوام جہلاء سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی طرف گمراہ کرنے کینسبت اسی جگہ کی ہے جہاں کافر اور فاسق لوگ مراد ہیں نہ کہ مومن بلکہ حق تعالیٰ نے مومنین کو گمراہ کرنے کی اپنی ذات سے نفی فرمائی ہے چناچہ ارشاد ہے ۔ وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة/ 115] اور خدا ایسا نہیں ہے کہ کسی قومکو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کردے ۔ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد/ 4- 5] ان کے عملوں کر ہر گز ضائع نہ کریگا بلکہ ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا ۔ اور کافر اور فاسق لوگوں کے متعلق فرمایا : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد/ 8] ان کے لئے ہلاکت ہے اور وہ ان کے اعمال کو برباد کردیگا : وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة/ 26] اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو ۔ كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر/ 74] اسی طرح خدا کافررں کو گمراہ کرتا ہے ۔ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم/ 27] اور خدا بےانصافوں کو گمراہ کردیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام/ 110] اور ہم ان کے دلوں کو الٹ دیں گے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے انکے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ان کے دلوں میں ( کفر کا ) مرض تھا خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ میں دلوں کے پھیر دینے اور ان پر مہر لگا دینے اور ان کی مرض میں اضافہ کردینے سے بھی یہی معنی مراد ہیں ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ طمس الطَّمْسُ : إزالةُ الأثرِ بالمحو . قال تعالی: فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ [ المرسلات/ 8] ، رَبَّنَا اطْمِسْ عَلى أَمْوالِهِمْ [يونس/ 88] ، أي : أزل صورتها، وَلَوْ نَشاءُ لَطَمَسْنا عَلى أَعْيُنِهِمْ [يس/ 66] ، أي : أزلنا ضوأها وصورتها كما يُطْمَسُ الأثرُ ، وقوله : مِنْ قَبْلِ أَنْ نَطْمِسَ وُجُوهاً [ النساء/ 47] ، منهم من قال : عنی ذلک في الدّنيا، وهو أن يصير علی وجوههم الشّعر فتصیر صورهم کصورة القردة والکلاب «3» ، ومنهم من قال : ذلك هو في الآخرة إشارة إلى ما قال : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق/ 10] ، وهو أن تصیر عيونهم في قفاهم، وقیل : معناه يردّهم عن الهداية إلى الضّلالة کقوله : وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ [ الجاثية/ 23] ، وقیل : عنی بالوجوه الأعيان والرّؤساء، ومعناه : نجعل رؤساء هم أذنابا، وذلک أعظم سبب البوار . ( ط م س ) الطمس کے معنی کسی چیز کا نام ونشان مٹادینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ [ المرسلات/ 8] جب ستاروں کی روشنی جاتی رہے گی ۔ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلى أَمْوالِهِمْ [يونس/ 88] اے پروردگار ان کے مال و دولت کو تباہ وبرباد کردے یعنی ان کا نامونشان مٹادے ۔ وَلَوْ نَشاءُ لَطَمَسْنا عَلى أَعْيُنِهِمْ [يس/ 66] اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھوں کو مٹا کر اندھا کردیں ۔ یعنی آنکھوں کی روشنی سلب کرلیں اور انکار نشان مٹادیں جس طرح کہ کسی کو مٹادیا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَطْمِسَ وُجُوهاً [ النساء/ 47] قبل اس کے کہ ہم ان کے چہروں کو بگاڑ کر ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ دنیا ان کے چہروں کو بگاڑنا مراد ہے مثلا ان کے چہروں پر بال اگادیں ۔ ان کی صورتیں بندروں اور کتوں جیسی کردی جائیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ آخرت میں ہوگا جس کی طرف کہ آیت : ۔ وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق/ 10] اور جس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائیگا میں اشارہ پایا جاتا ہے اور چہروں کو مٹانے کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان کی آنکھیں گدی پر پر لگادی جائیں اور یاہدایت سے گمراہی کی طرف لوٹا دینا مراد ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ [ الجاثية/ 23] اور باوجود جاننے بوجھنے کے ( گمراہ ہورہا ہے نہ تو خدا نے بھی اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگادی ۔ بعض نے کہا ہے کہ وجوہ سے قوم کے اعیان اکابر مراد اور معنی یہ ہیں کہ ہم بڑے بڑے سر داروں کو رعیت اور محکوم بنادیں اس سے بڑھ کر اور کونسی ہلاکت ہوسکتی ہے ۔ شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے ربنا لیضلو ا عن سبیلک ۔ اے رب کیا ! کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگوں کو تیرا راہ سے بھٹکائیں ۔ اس کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ اس میں وارد حرف لام ، لام عاقبت ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے۔۔۔۔ فالتقطہ ال فرعون لیکون لھم عدوا ً او حزنا سے آل فرعون نے اٹھا لیا تا کہ وہ ان کا دشمن اور انکے لیے غم کا سبب بنے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ لئلا یضلوا عن سبیلک تا کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے نہ بھٹکائیں ۔ حرف لا یہاں محذوف ہے جس طرح اس قول باری میں محذوف ہے ممن ترضون من الشھداء ان تضل احدی ھما یعنی لئلا تضل تا کہ گمراہ نہ ہوجائے ۔ اس طرح یہق ول باری ان تقولوا یوم القیامۃ انا کنا عن ھذا غافلین یعنی لئلا تقولوا تا کہ تم یہ نہ کہو اسی طرح یہ قول باری ہے یبین اللہ لکم ان تضلوا اس کے معنی ہیں ۔ لئلا تضلوا تاکہ تم گمراہ نہ ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ ) ان کے پاس طاقت ہے اقتدار ہے اختیار ہے دولت ہے جاہ وحشم ہے۔ لوگ ان کے رعب و دبدبے کے خوف اور مال و دولت کے لالچ سے گمراہ ہو رہے ہیں۔ پروردگار ! کیا تو نے انہیں یہ سب کچھ اس لیے دے رکھا ہے کہ وہ تیرے بندوں کو تیرے سیدھے راستے سے گمراہ کریں ؟ (فَلاَ یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ ) اور جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو پھر ان کا ایمان انہیں کچھ فائدہ نہیں دے گا کیونکہ اس وقت کا ایمان اللہ کے ہاں معتبر نہیں ہے۔ یہ حضرت موسیٰ کی آل فرعون سے بیزاری کی آخری حد ہے۔ اگرچہ نبی ایک ایک فرد کے لیے ایمان کا خواہش مند ہوتا ہے ‘ مگر فرعون اور اس کے سردار اہل ایمان کو ستانے اور اذیتیں دینے میں اس حد تک آگے جا چکے تھے کہ حضرت موسیٰ خود اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہے ہیں کہ اے اللہ ! اب ان لوگوں کے دلوں کو سخت کر دے ‘ ان کے دلوں پر مہریں لگا دے ‘ تاکہ تیرا عذاب آنے تک انہیں ایمان نصیب ہی نہ ہو۔ اس لیے کہ جو کچھ انہوں نے اللہ اور اہل ایمان کی دشمنی میں کیا ہے اس کی سزا انہیں مل جائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

86. These verses are related to the early period of Moses' (peace be on him) mission whereas the prayer itself probably belongs to his last days in Egypt. The intervening period spans several years, the detailed events of which have not been mentioned here. At other places in the Qur'an, however, there are references to the events that took place in that intervening period. 87. This alludes to the pomp and splendour and the glamour of cultural refinement because of which people had become enamoured of them and their life-style, and which had created in the former an irrepressible urge to ape the ways of the latter. 88. This refers to the abundance of material resources which are available to the unbelievers to execute their plans, whereas the believers, insofar as they lack those resources, are forced to defer the execution of their plans. 89. This prayer, as we have pointed out earlier (see n. 86 above), was made by the Prophet Moses (peace be on him) during his very last days in Egypt. Moses resorted to this prayer when, although Pharaoh and his nobles had witnessed a series of signs betokening the truth, and even though Moses (peace be on him) had made the truth all too patently clear to them, they still obdurately persisted in their hostility to it. Moses' prayer that God may 'obliterate their riches and harden their hearts' is a prayer that Prophets are wont to make at a time when they are faced with opposition like that mentioned above. The prayer is substantially in accord with God 's own judgement against those who obdurately oppose the truth - that they may never be enabled to have faith.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :86 اوپر کی آیات حضرت موسی علیہ السلام کی دعوت کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہیں ۔ اور یہ دعا زمانہ قیام مصر کے بالکل آخری زمانے کی ہے ۔ بیچ میں کئی برس کا طویل فاصلہ ہے جس کی تفصیلات کو یہاں نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ دوسرے مقامات پر قرآن میں اس بیچ کے دور کا بھی مفصل حال بیان ہوا ہے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :87 یعنی ٹھاٹھ ، شان وشوکت اور تمدن وتہذیب کی وہ خوش نمائی جس کی وجہ سے دنیا ان پر اور ان کے طور طریقوں پر ریجھتی ہے اور ہر شخص کا دل چاہتا ہے کہ ویسا ہی بن جائے جیسے وہ ہیں ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :88 یعنی ذرائع اور وسائل جن کی فراوانی کی وجہ سے وہ اپنی تدبیروں کو عمل میں لانے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں رکھتے ہیں اور جن کے فقدان کی وجہ سے اہل حق اپنی تدبیروں کو عمل میں لانے سے عاجز رہ جاتے ہیں ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :89 جیسا کہ ابھی ہم بتا چکے ہیں ، یہ دعا حضرت موسی علیہ السلام نے زمانہ قیام مصر کے بالکل آخری زمانے میں کی تھی ، اور اس وقت کی تھی جب پے در پے نشانات دیکھ لینے اور دین کی حجت پوری ہوجانے کے بعد بھی فرعون اور اس کے اعان سلطنت حق کی دشمنی پر انتہائی ہٹ دھرمی کے ساتھ جمے رہے ۔ ایسے موقع پر پیغمبر جو بددعا کرتا ہے وہ ٹھیک ٹھیک وہی ہوتی ہے جو کفر پر اصرار کرنے والوں کے بارے میں خود اللہ تعالی کا فیصلہ ہے ، یعنی یہ کہ پھر انہیں ایمان کی توفیق نہ بخشی جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

35: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تبلیغ کرتے ہوئے مدت گذر چکی تھی جس کے بعد نہ صرف وہ مایوس ہوچکے تھے، بلکہ فرعون نے جو مظالم ڈھائے تھے، وہ اتنے انسانیت سوز تھے کہ کوئی انصاف پسند انسان اس کو سزا کے بغیر چھوڑ دینا پسند نہیں کرسکتا تھا۔ نیز شاید ان کو وحی سے یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ فرعون کی قسمت میں ایمان نہیں ہے، اس لیے انہوں نے آخر میں یہ بد دعا فرمائی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٨۔ فرعون کے ہلاک ہونے سے پہلے اس کی اور اس کے ساتھیوں کی سرکشی پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو غصہ آیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خیال کیا کہ ان لوگوں کی سرکشی کا بڑا سبب ان کا مال و متاع ہے کہ مالداری اور عیش و آرام کے غرور میں یہ لوگ خود بھی نصیحت نہیں سنتے اور اوروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس غصہ کے خیال میں دعا مانگی اور حضرت ہارون آمین کہتے گئے دعاء کا حاصل یہ ہے کہ یا اللہ ان لوگوں کو تو نے مال و متاع جو دیا ہے وہ ان سے چھین لے کس لئے کہ ان کا یہ مال ان کے خود گمراہ ہونے اور اوروں کو گمراہ کرنے کا سبب ہے اور اس مال کے چھین لینے کے بعد ان کو ایسا فاقہ مست بنادے کہ بغیر مال کے بھی ان کا وہی غرور اور سرکشی باقی رہے اور اس غرو اور سرکشی کے سبب سے جھٹ پٹ ان پر تیرا عذاب نازل ہو خدا کی پناہ نبی کی بددعا تھی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی تمام خزانے اور کھیت پتھر ہوگئے۔ چناچہ عمر بن عبد العزیز نے اس زمانہ کا کچھ روپیہ اور غلہ بہم پہنچایا تھا بالکل پتھر کا تھا اس بددعا کے ایک چلہ کے بعد پھر فرعون ہلاک ہوگیا اس بددعا کے اثر میں اس طرح کی سخت وبا مصر میں پھیلی کہ قبطی بدحواس ہوگئے مصلحت الٰہی سے بنی اسرائیل کا محلہ جو الگ بس گیا تھا اس محلہ کو اللہ تعالیٰ نے اس وبا سے محفوظ رکھا۔ پہلے سے بنی اسرائیل کو تیار رہنے کا حکم تھا اس لئے سفر کا حکم ہوتے ہی رات کو مصر سے نکلے قلزم دریا تک پہنچے تھے کہ فرعون نے کئی لاکھ فوج سے پیچھا کیا۔ آخر بنی اسرائیل کو تو قلزم نے اللہ کے حکم سے راستہ دیا اور فرعون مع اپنی فوج کے غرق ہوگیا زیادہ تفصیل اس قصہ کی سورة شعراء میں آوے گی عین عذاب کے وقت کا ایمان اور ایسے وقت کی توبہ قبول نہیں اس واسطے غوطہ کھانے کے بعد فرعون نے جو ایمان کا اقرار کیا وہ نامقبول ہوا۔ بنی اسرائیل کے جی میں فرعون کے اس طرح کی بےکسی سے مرنے کا یقین بنی اسرائیل کو نہ آتا تھا ان کے یقین دلانے کیلئے اللہ کے حکم سے پانی نے فرعون کی لاش کو ایک کنارہ پر پھینک دیا پھر سب کو فرعون کی لاش دیکھ کر اس کے مرنے کا یقین ہوگیا۔ چناچہ یہ ذکر آگے آتا ہے معتبر سند سے مسند امام احمد اور ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے جو روایت ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا کہ غوطے کھاتے کھاتے فرعون نے جو ایمان لانے کا اقرار کیا تو حضرت جبرئیل نے فرعون کے منہ میں قلزم سے مٹی لے کر بھر دی جس سے فرعون فوراً مرگیا۔ ١ ؎ اس حدیث پر امام فخر الدین رازی نے یہ اعتراض کیا ہے کہ نیک کام سے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے فرعون کو روکا اس کا سبب کیا ہے مفسرین نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ حکم { فلم یک ینفعھم ایمانھم لما راوا باسنا۔ (٤: ٥٤)} سے اس وقت کا ایمان فرعون کا مقبول نہیں تھا اس لئے فرعون کا اس وقت کا ایمان کا اقرار ایک فعل عبث تھا اور فعل عبث سے روکنا ہر حکیم کا کام ہے کوئی اعتراض کا محل نہیں ہے رہی یہ بات کہ شریعت موسوی میں بھی { فلم یک ینفعھم ایمانھم لما راؤ باسنا } کا حکم تھا یا نہیں اس کا جواب یہ ہے کہ خود حضرت موسیٰ کی اس بددعا { فلا یؤمنوا حتی یروا العذاب الالیم } سے ثابت ہے کہ شریعت موسوی میں بھی یہ حکم تھا کیوں کہ شریعت موسوی میں اگر یہ حکم نہ ہوتا تو حضرت موسیٰ یہ بدعا کیوں کرتے کہ فرعون اور اس کے سرکش ساتھیوں کو ایمان نصیب بھی ہو تو عذاب کے آجانے کے وقت ہوتا کہ ان کا ایمان ان کو کچھ فائدہ نہب خشے صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عام لوگوں کو عام عذاب سے پہلے اور خاص خاص ہر ایک شخص کو خاص اپنی موت سے پہلے جو نیک عمل کرنا ہو وہ کر لیوے۔ ٢ ؎ صحیح بخاری و مسلم میں عبادہ بن الصامت (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا موت کے وقت اللہ کے فرشتے اچھے لوگوں کو مغفرت کی اور بد لوگوں کو عذاب کی خبر سنا دیتے ہیں۔ ٣ ؎ یہ حدیثیں ( فلا یؤمنوا حتی یروا العذاب الالیم) کی گویا تفسیر ہیں جس کا حل یہ ہے کہ نافرمان لوگوں کا ایمان اس وقت تک کا مقبول ہے کہ عام عذاب اور عام موت کے سبب سے عام نافرمانوں کو یا خاص موت کے سبب سے کسی خاص نافرمان شخص کو موت کے فرشتے نظر نہ آنے لگیں کیوں کہ جب فرشتے نظر آنے لگے اور نافرمان لوگوں کو ان فرشتوں نے عذاب آخرت کی خبر سنادی تو اس عذاب سے مجبور ہو کر ایسے تنگ وقت پر کسی نافرمان شخص کا فرمانبرداری کا اقرار داخل فرمانبرداری ہے نہ یہ اقرار ان لوگوں کو کچھ مفید ہوسکتا ہے اسی واسطے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے حق میں یہ بددعا کی کہ مجبوری کے وقت سے پہلے ان لوگوں کو ایمان لانا نصیب نہ ہو۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ٤٣٠ ج ٢۔ ٢ ؎ مشکوۃ ص ٤٦٠ باب الانذار والتحذیر فصل اول۔ ٣ ؎ صحیح بخاری ص ٩٦٣ ج ٢ باب من احب لقاء اللہ احب اللہ لقاء ہ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:88) اطمس۔ امر واحد مذکر ھاضر۔ تو مٹا دے طمس سے محو کرنا۔ مٹا دینا۔ اطمس علی اموالہم۔ ان کے مال تباہ کردے۔ ان کے مال غارت کردے۔ جیسے قرآن میں ہے واذا النجوم طمست۔ جب تارے مٹا دئیے جائیں گے۔ یا ولو نشاء لطمسنا علی اعینھم (36:66) اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھوں کی روشنی کو مٹا دیں۔ اشدد۔ امر واحد مذکر۔ تو سخت کردے۔ شد سے (باب نصر۔ ضرب) تو (ان کے دلوں پر) مہر لگا دے۔ ترجمہ آیۃ :۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے ہمارے پروردگار ! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو اس دنیوی زندگی میں سامان آرائش اور مال و دولت دے رکھے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار کیا یہ اس لئے دے رکھے ہیں کہ وہ (لوگوں کو) تیری راہ سے گمراہ کرتے پھریں۔ (ربنا اطمس ۔۔ علی قلوبھم جملہ دعائیہ ہے کافروں کے لئے بددعا ہے) اے ہمارے پروردگار ان کے اموال کو تباہ کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے۔ (ان پر مہریں لگا دے) ۔ (فلا یؤمنوا ۔۔ الیم جواب دعا ہے) تاکہ جب تک وہ عذاب دردناک نہ دیکھ لیں وہ ایمان نہ لائیں۔ (یعنی ایمان کی دولت اب ان کو آسانی سے میسر نہ آسکے بلکہ اس سے پیشتر وہ کئے کی خاطر خواہ سزا بصورت عذاب الیم چکھ نہ لیں)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ ” لیضلوا “ میں لام عاقبت اور انجام کو ظاہر کرنے کے ہے۔ اس اعتبار سے آیت کا مطلب یہ ہوگا ” اے اللہ ان لوگوں کو دنیا کی دولت اور حکومت تو تو نے اس لئے دی تھی کہ اسے نیکی کی راہ میں صرف کریں اور شکر بجا لائیں مگر نتیجہ یہ ہوا کہ ان بدبختوں نے اسے لوگوں کو بہکانے اور گمراہ کرنے میں صرف کیا۔ (قرطبی۔ شوکانی) ۔ 2 ۔ یہ بددعا حضرت موسیٰ نے اس وقت کی جب وہ سمجھاتے سمجھاتے مایوس ہوگئے اور انہیں یقین ہوگیا کہ اب فرعون اور اس کے سردار ایمان لانے والے نہیں جیسا کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) نے آخر تنگ آکر اپنی قوم کے حق میں بددعا کی تھی۔ (شوکانی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ اور ان کی قوم پر فرعون کے مظالم کی انتہا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ظالموں کے لیے بددعا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) طویل عرصہ تک فرعون اور آل فرعون کو سمجھاتے رہے۔ اس دوران یکے بعد دیگرے آل فرعون پر طوفان، ٹڈی، جوئیں، مینڈک اور ہر چیز خون آلودہ ہوجانے کے عذاب آئے مگر یہ اس قدر بد ترین اور ظالم لوگ تھے۔ کہ بار بار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کیے ہوئے عہد توڑتے اور ہر بار ظلم کے نئے سے نئے انداز اختیار کرلیتے۔ اس طرح ظلم کا دور جب طویل سے طویل تر ہوا۔ صاحب ایمان لوگوں کی ہمتیں جواب دینے لگیں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور انتہائی بےبسی کے عالم میں نہایت عاجزانہ انداز میں التجا کی کہ اے رب ذوالجلال ! ظالموں نے تیری توحید کے ماننے والوں پر ظلم کی انتہا کردی ہے اگر اب ظالموں کی گرفت نہ ہوئی۔ الٰہی تیرے مظلوم بندے اور بندیاں ڈگمگاجائیں گے اس لیے میری فریاد کو قبول فرما۔ الٰہی تو نے فرعون اور اس کے بڑے لوگوں کو دنیا کا مال اور جاہ و جلال اس لیے دیا ہے۔ کہ یہ تیری اطاعت گزاری کریں۔ مگر انہوں نے ان چیزوں کو تیری راہ کی طرف آنے والوں کے لیے رکاوٹ بنا دیا ہے۔ اے ہمارے رب ان کے جاہ و جلال اور مال اسباب کو تہس نہس کردے اور ان کے دل اتنے سخت ہوجائیں کہ تیرا عذاب دیکھنے کے باوجود انہیں ایمان لانے کی توفیق نصیب نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی آہ وزاری کو قبول فرمایا اور حکم دیا اے موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) اب اس بات پر پکے رہنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ہمارا عذاب آئے تو ان کے لیے نجات کی دعا کرنے لگو۔ اس کا دوسرا معنی ہے کہ آپ کی بددعا قبول ہوئی لیکن عذاب آنے تک تم اپنی ڈیوٹی ادا کرتے جاؤ۔ یہاں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بدعا ذاتی انتقام کے لیے نہیں بلکہ بدعا اس لیے کی تھی کہ فرعون اور اس کے ساتھی لوگوں کی ہدایت کے راستے میں رکاوٹ بن چکے تھے۔ قرآن مجید کے الفاظ سے معلوم ہورہا ہے کہ دعا تو حضرت موسیٰ نے کی لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے قبولیت کا شرف بخشتے ہوئے فرمایا کہ میں نے تم دونوں کی دعا قبول کرلی ہے جس کا مفسرین نے یہ مفہوم متعین کیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دعا کرتے تھے اور جناب ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے تھے۔ مسائل ١۔ مال اور دنیا کی زیب و زیبائش دین سے دوری کا سبب بن جاتے ہیں۔ ٢۔ ظالموں کے لیے بددعا کی جاسکتی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعا قبول فرماتا ہے۔ ٤۔ مشکلات کے باوجود آدمی کو دین پر قائم رہنا چاہیے۔ ٥۔ بےعلم لوگوں کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ظالموں کو انبیاء ( علیہ السلام) کی بددعائیں : ١۔ اے ہمارے پروردگار ! ان کے اموال کو نابود کردے اور ان کے دلوں کو سخت فرما۔ (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا) ۔ (یونس : ٨٨) ٢۔ نوح نے بدعا کی کہ الٰہی زمین پر ایک بھی کافر نہ چھوڑیے۔ (نوح : ٢٦) ٣۔ اے اللہ ! فساد کرنے والی قوم کے مقابلہ میں میری مدد فرما۔ (العنکبوت : ٣٠) ٤۔ اے ہمارے رب ! تو ہمارے درمیان اور ہماری قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے (حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بد دعا) ۔ (الاعراف : ٨٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وقال موسیٰ ربنا انک اتیت فرعون وملاہ زینۃ اور موسیٰ نے کہا : اے ہمارے مالک ! تو نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان آرائش عطا فرمایا ہے۔ زینت سے مراد اسباب زینت ‘ لباس ‘ زیور ‘ فرش فرنیچر ‘ استعمال کا سامان ‘ سواریاں ‘ نوکر چاکر اور خدمتگار وغیرہ۔ واموالا فی الحیوۃ الدنیا ربنا لیضلوا عن سبیلک اور بہت مال دنیوی زندگی میں ‘ اے ہمارے رب ! (اس کا نتیجہ یہ ہے) کہ وہ تیرے راستے سے بہکا دیں۔ لِیُضِلُّوْا میں لام عاقبت ہے (یعنی وہ لام جو نتیجہ پر داخل ہوتا ہے اور لام سے پہلے کا کلام بعد والے کلام کا سبب ہوتا ہے) مطلب یہ کہ تیرے دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ گمراہ اور گمراہ کن ہوگئے۔ جیسا دوسری آیت میں آیا ہے : فَالْتَقَطَہٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَکُوْنَ لَھُمْ عُدُوًّا وَّحَزَنًا فرعون کے آدمیوں نے موسیٰ کو پا لیا کہ موسیٰ (نتیجہ میں) ان کے دشمن اور ان کے حزن کا سبب ہوجائیں۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ لام بمعنی کَےْ ہے (تاکہ) یعنی تو نے یہ سارا مال و متاع دے کر ان کو ڈھیل دی ہے تاکہ وہ گمراہی پر جمے رہیں۔ یا یوں کہا جائے کہ چونکہ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے خداداد مال و متاع اور جاہ و حشم کو گمراہی کا ذریعہ بنا رکھا تھا تو گویا ان کو دیا ہی گیا اسلئے تھا کہ وہ گمراہ ہوجائیں اور دوسروں کو بہکائیں۔ اظہار عجز اور شدت زاری کیلئے رَبَّنَا کو بطور تاکید دوبارہ ذکر کیا۔ شیخ ابو منصور ماتریدی نے فرمایا کہ اللہ جانتا تھا کہ کافر دوسرے لوگوں کو اللہ کے راستے سے بہکائیں گے ‘ اسلئے ان کو دنیا کا مال و متاع عطا فرما دیا تاکہ وہ اس کے راستے سے لوگوں کو بہکائیں (گویا مال دینے کی غرض ہی یہ تھی کہ وہ گمراہ ہوں اور گمراہ کریں) جیسا دوسری آیت میں آیا ہے : اِنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ لِیَزْدَادُوْآ اِثْمًا ہم ان کو ڈھیل دیتے ہیں تاکہ گناہوں میں ترقی کریں۔ اس صورت میں یہ آیت معتزلہ کے مسلک کے خلاف ایک واضح شہادت ہوجائے گی۔ معتزلہ کہتے ہیں کہ بندوں کیلئے جو امر زیادہ نفع بخش ہو ‘ اس کا کرنا اللہ پر واجب ہے (غیر مفید اور ضرررساں کام اللہ نہیں کرتا ‘ بندہ خود اس کی تخلیق کرتا ہے) ۔ بیضاوی نے لکھا : رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ (الگ جملہ انشائیہ ہے ‘ اس) میں لِیُضِلُّوْا امر کا صیغہ ہے اور کافروں کیلئے بددعا ہے۔ ربنا اطمس علی اموالھم اے ہمارے رب ! ان کے مالوں کو (تباہ کر کے) مٹا دے (مجاہد) ۔ بعض اہل علم نے کہا : طْمَسْ سے مراد ہے صورت مسخ کردینا ‘ ہیئت بگاڑ دینا۔ قتادہ کا قول ہے کہ ان کا سارا مال ‘ کھیتیاں اور جواہر پتھر بنا دئیے گئے۔ نقوش اور شکل وہی تھی جو اصلی چیزوں کی تھی مگر سب چیزیں پتھر کی ہوگئیں تھیں اور پھٹ کر کسی کے دو اور کسی کے تین ٹکڑے ہوگئے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک تھیلا منگوایا ‘ اس میں فرعون والوں کی کچھ باقی ماندہ چیزیں تھیں۔ انڈا نکالا تو وہ بھی شگافتہ اور اخروٹ نکالا تو وہ بھی پھٹا ہوا اور سب چیزیں پتھر کی۔ سدی نے کہا : اللہ تعالیٰ نے ان کے سب مال ‘ درخت ‘ پھل ‘ آٹا ‘ کھانا پتھرکا کردیا تھا۔ یہ معجزہ بھی حضرت موسیٰ کے نو معجزات میں سے ایک تھا۔ واشد علی قلوبھم اور ان کے دلوں پر سخت بند باندھ دے۔ یعنی ان کے دلوں کو سخت کر دے ‘ ان پر مہر لگا دے کہ ایمان کیلئے ان میں نرمی ہی پیدا نہ ہو۔ حضرت موسیٰ نے مایوس ہو کر ان کیلئے یہ بددعا کی تھی ‘ ورنہ حضرت موسیٰ کو تو اسلئے بھیجا گیا تھا کہ وہ ایمان کی طرف بلائیں (نہ یہ کہ انکار پر قائم رکھنے کی دعا کریں) ۔ ایک شبہ : جب حضرت موسیٰ کو معلوم تھا کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے تو پھر بددعا کرنا بےسود تھا۔ ازالہ : بددعا کی وجہ شاید یہ ہو کہ ایمان کی فطرت اللہ کے دشمنوں سے اللہ کیلئے نفرت کرتی ہے (اور بغض و نفرت کا تقاضا ہے کہ بددعا کی جائے بشرطیکہ نفرت ذاتی نہ ہو ‘ لوجہ اللہ ہو) یا حضرت موسیٰ کو بددعا کرنے کا حکم دیا گیا ہوگا اور اس کی تعمیل میں آپ نے بددعا کی۔ مثلاً تم یہ جانتے ہو کہ ابلیس پر اللہ کی لعنت ہے ‘ لیکن اللہ نے فرمایا ہے : اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْْہُ عَدُوًّا شیطان تمہارا دشمن ہے ‘ تم اس کو دشمن سمجھو۔ تم اس حکم کی تعمیل میں شیطان پر لعنت کرتے ہو۔ فلا یؤمنوا حتی یروا العذاب الالیم۔ پھر وہ ایمان نہ لائیں یہاں تک کہ (مرنے کے بعد) دردناک عذاب کا مشاہدہ کرلیں (سدی) ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

103: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے معجزات ظاہرہ اور دلائل قاہرہ سے دعوت توحید کو واضح اور الم نشرح کردیا مگر قوم جحود و انکار اور ضد وعناد پر مصر رہی اور وہ ان کے ایمان سے مایوس ہوگئے تو اب ان کے لیے بد دعا کی اور بد دعا کرنے کی وجوہات بھی بیان کردیں کہ اے اللہ تو نے ان کو دنیوی مال و متاع اور شان و شوکت عطا کی ہے اور وہ حب مال وجاہ کی وجہ سے تیری توحید کو نہیں مانتے۔ اے اللہ جن اموال کی وجہ سے وہ مغرور ہیں ان کو تباہ و برباد کردے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دے کہ وہ ایمان کی طرف راغب نہ ہو سکیں کیونکہ اب تیری سنت جاریہ کے مطابق وہ اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ ان کے دلوں پر مہر جباریت لگا دی جائے اور ان سے توفیق ایمان سلب کرلی جائے۔ “ اي اجعلھا قاسیة و اطبع علیھا حتی لاتنشرح للایمان کما ھو قضیة شانھم ” (روح ج 11 ص 173) ۔ “ رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا ” میں “ رَبَّنَا ” کا اعادہ بعد عہد کی وجہ سے ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

88 اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یوں دعا کی اے ہمارے پروردگار تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیوی زندگی میں بہت کچھ سامان آرائش وزینت اور طرح طرح کے اموال اس واسطے دئیے کہ وہ آپ کی راہ سے لوگوں کو بےراہ کریں۔ بس اب ہمارے پروردگار ان کے مالوں کو نیست و نابود اور ملیا میٹ کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کردے یہ لوگ اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک تیرا دردناک عذاب نہ دیکھ لیں یعنی اس زینت اور دولت کا انجام یہ ہوا کہ لوگوں کو تیری راہ سے گمراہ کردیا۔ بہر حال جو کچھ مصلحت تھی وہ پوری ہوگئی اب ان کے مالوں کو تو مٹا ڈال اور دلوں کو اور زیادہ سخت کردے تاکہ یہ ہلاکت کے زیادہ مستحق ہوجائیں اور ان کا کفر بڑھتا رہے یہاں تک کہ دردناک اور فیصلہ کن عذاب آجائے۔ حضرت شاہ صاب (رح) فرماتے ہیں ایمان کی ان سے امید نہ تھی مگر جب کچھ افٓت پڑتی تو جھوٹی زبان سے کہتے کہ اب ہم مانیں گے اس میں خدا کا عذاب تھم جاتا کام فیصل نہ ہوتا اس واسطے مانگا کہ یہ جھوٹا ایمان نہ لا دیں دل اس کا سخت رہے تاکہ عذاب پڑچکے اور کا فیصل ہو 12