Surat Younus

Surah: 10

Verse: 89

سورة يونس

قَالَ قَدۡ اُجِیۡبَتۡ دَّعۡوَتُکُمَا فَاسۡتَقِیۡمَا وَ لَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِیۡلَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۸۹﴾

[ Allah ] said, "Your supplication has been answered." So remain on a right course and follow not the way of those who do not know."

حق تعالٰی نے فرمایا کہ تم دونوں کی دعا قبول کر لی گئی ، سو تم ثابت قدم رہو اور ان لوگوں کی راہ نہ چلنا جن کو علم نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا ... Allah said: "Verily, the invocation of you both is accepted. `in destroying Fir`awn's people. قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا ... Allah said: "Verily, the invocation of you both is accepted. So you both keep to the straight way, As I have answered your prayer, you should remain steadfast on My command.' Ibn Jurayj narrated that Ibn Abbas said about this Ayah: "Be steadfast and follow My command." ... فَاسْتَقِيمَا وَلاَ تَتَّبِعَأنِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ and follow not the path of those who know not."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

89۔ 1 اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اپنی بد دعا پر قائم رہنا، چاہے اس کے ظہور میں تاخیر ہوجائے۔ کیونکہ تمہاری دعا تو یقینا قبول کرلی گئی لیکن ہم اسے عملی جامہ کب پہنائیں گے ؟ یہ خالص ہماری مشیت و حکمت پر موقوف ہے۔ چناچہ بعض مفسرین نے بیان کیا کہ اس بد دعا کے چالیس سال بعد فرعون اور اس کی قوم ہلاک کی گئی اور بد دعا کے مطابق فرعون جب ڈوبنے لگا تو اس وقت اس نے ایمان لانے کا اعلان کیا، جس کا اسے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ دوسرا مطلب یہ کہ تم اپنی تبلیغ و دعوت۔ بنی اسرائیل کی ہدایت و راہنمائی اور اس کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانے کی جد و جہد جاری رکھو۔ 98۔ 2 یعنی جو لوگ اللہ کی سنت، اس کے قانون، اور اس کی مصلحتوں اور حکمتوں کو نہیں جانتے، تم ان کی طرح مت ہونا بلکہ اب انتظار اور صبر کرو، اللہ تعالیٰ اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق جلد یا بہ دیر اپنا وعدہ یعتزرون 11 یونس 10 ضرور پورا فرمائے گا۔ کیونکہ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٩] کامیابی کے لئے صبرو استقلال کی اہمیت :۔ پیغمبروں کی دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے انھیں اور مسلمانوں کی جماعت کو صبر، استقلال اور ثابت قدمی کی تلقین فرمائی اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو لوگ زندگی کی کامیابی کا منتہائے مقصود صرف دنیا کے مال و دولت اور شان و شوکت ہی کو سمجھ بیٹھے ہیں ان کی طرف مطلقاً التفات نہ کرو کیونکہ ان کا یہ نظریہ محض جہالت پر مبنی ہے اور اللہ تعالیٰ جلد ہی تمہیں ان لوگوں سے نجات دے دے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ قَدْ اُجِيْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا : یعنی یقیناً تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی۔ معلوم ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ہارون (علیہ السلام) بھی اس دعا میں شریک تھے۔ بعض اہل علم کے اقوال ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) دعا کرتے تھے اور ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے تھے، مگر یہ بات قرآن مجید سے یا حدیث سے مجھے نہیں ملی۔ فَاسْتَــقِيْمَا : اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ دعوت پر ثابت قدم رہو، بیشک تمہاری دعا قبول ہے، مگر قبولیت ظاہر ہونے میں دیر ہوسکتی ہے، اس لیے دیر کی وجہ سے دعوت میں کوتاہی نہ کرنا۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کے علم میں ہے کہ قبولیت کا اثر کب ظاہر ہوگا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اب اپنی اس بد دعا پر قائم رہنا، ایسا نہ ہو کہ میرا عذاب آنے پر ان کی سفارش کرنے لگو۔ یہ ایسے ہی ہے جس طرح نوح (علیہ السلام) نے بددعا کی تو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ سارے کافر غرق ہوں گے، مگر اب مجھ سے ان ظالموں کے (حق میں) بات نہ کرنا۔ (دیکھیے ہود : ٣٧) اللہ تعالیٰ کو نوح اور موسیٰ ( علیہ السلام) کی بددعا کے باوجود ان کے دل کی نرمی کا علم تھا، اس لیے انھیں پہلے ہی اپنی بددعا پر ثابت رہنے کی تاکید فرما دی۔ مگر نوح (علیہ السلام) پھر بھی بیٹے کے لیے سفارش کر بیٹھے اور انھیں اللہ تعالیٰ کا عتاب سننا پڑا، جس پر انھوں نے معافی مانگی۔ دیکھیے سورة ہود (٤٥ تا ٤٧) ۔ وَلَا تَتَّبِعٰۗنِّ سَبِيْلَ الَّذِيْنَ لَايَعْلَمُوْنَ : یعنی ان لوگوں کا راستہ اختیار نہ کرنا جو دعوت کے کام میں حوصلہ چھوڑ بیٹھتے ہیں، یا دعا کرتے ہی چاہتے ہیں کہ ان کا مطلب پورا ہوجائے اور اگر فوراً پورا نہ ہو تو شکایت کرنے لگتے ہیں کہ ہم نے بہت دعائیں کیں مگر پروردگار نے قبول ہی نہیں کیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یُسْتَجَابُ لِأَحَدِکُمْ مَا لَمْ یَعْجَلْ ، یَقُوْلُ دَعَوْتُ فَلَمْ یُسْتَجَبْ لِیْ ) [ بخاری، الدعوات، باب یستجاب للعبد ما لم یعجل : ٦٣٤٠۔ مسلم : ٢٧٣٥، عن أبی ہریرہ (رض) ] ” تم میں سے کسی شخص کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے جب تک وہ جلدی نہیں کرتا، یہ نہیں کہتا کہ میں نے دعا کی مگر میری دعا قبول نہیں کی گئی۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the third verse (89), it was said that the prayer of Sayyidna Musa (علیہ السلام) has been accepted. But, by taking Sayyidna Harun (علیہ السلام) as associated with the act of prayer, the actual address was made in the words: قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا (The prayer of you both has been granted). There was a reason for it. When Sayyidna Musa (علیہ السلام) السلام was making this prayer, Sayyidna Harun (علیہ السلام) kept saying Amin (Amen). This tells us that the saying of Amin آمِین (so be it) is also a part of the prayer itself. And since the masnun method of du` a or prayer given in the Holy Qur&an is that of making it in a lowered voice, the saying of آمِین Amin too in a lowered mode seems to be preferable. As for the acceptance of prayer, the information was given to the two prophets as it appears in this verse. But, even they were some-what tested in that the effect of the prayer, according to al-Baghawi, unfolded after forty years. For this reason, soon after the mention of the acceptance of their prayer in this verse, they both were given the instruction: فَاسْتَقِيمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (so stand firm, and never follow the way of those who do not know). It means that they should go on carrying the mission of calling people to the true faith and do not get embarrassed, disappointed or hasty like the ignorant when the effects of the acceptance of some prayer takes its due time.

تیسری آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس دعا کی قبولیت کو بیان فرمایا ہے مگر عنوان میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کو بھی شریک دعا قرار دے کر یہ خطاب کیا گیا (آیت) قَدْ اُجِيْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا : یعنی تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی، وجہ یہ تھی کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) یہ دعا کر رہے تھے تو حضرت ہارون آمین کہتے جاتے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ کسی دعا پر آمین کہنا بھی دعا ہی میں داخل ہے، اور چونکہ دعا کا مسنون طریقہ قرآن کریم میں آہستہ آواز سے کرنے کا بتلایا گیا ہے تو اس سے آمین کو بھی آہستہ کہنے کی ترجیح معلوم ہوتی ہے۔ اس آیت میں قبولیت دعا کی اطلاع ان دونوں پیغمبروں کو دے دیگئی، مگر تھوڑا سا امتحان ان کا بھی لیا گیا کہ قبولیت دعا کا اثر بقول بغوی چالیس سال بعد ظاہر ہوا، اسی لئے اس آیت میں قبولیت دعا کے ذکر کے ساتھ ان دونوں حضرات کو یہ بھی ہدایت کردی گئی کی (آیت) فَاسْتَــقِيْمَا وَلَا تَتَّبِعٰۗنِّ سَبِيْلَ الَّذِيْنَ لَايَعْلَمُوْنَ ، یعنی پنے کار منصبی دعوت و تبلیغ میں لگے رہیں، قبولیت دعا کا اثر دیر میں ظاہر ہو تو جاہلوں کی طرح جلد بازی نہ کریں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ قَدْ اُجِيْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَــقِيْمَا وَلَا تَتَّبِعٰۗنِّ سَبِيْلَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٨٩ جوب الجَوْبُ : قطع الجَوْبَة، وهي کا لغائط من الأرض، ثم يستعمل في قطع کلّ أرض، قال تعالی: وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر/ 9] ، ويقال : هل عندک جَائِبَة خبر ؟ وجوابُ الکلام : هو ما يقطع الجوب فيصل من فم القائل إلى سمع المستمع، لکن خصّ بما يعود من الکلام دون المبتدأ من الخطاب، قال تعالی: فَما کانَ جَوابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قالُوا [ النمل/ 56] والجواب يقال في مقابلة السؤال، والسؤال علی ضربین : طلب مقال، وجوابه المقال . وطلب نوال، وجوابه النّوال . فعلی الأول : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف/ 31] ، وعلی الثاني قوله : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس/ 89] ، أي : أعطیتما ما سألتما . ( ج و ب ) الجوب ( ج و ب ) الجوب رض ) اس کے اصل معنی جو بہ قطع کرنے کے میں اور یہ پست زمین کی طرح مین گڑھاسا ) ہوتا ہے ۔ پھر ہر طرح زمین کے قطع کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر/ 9] اور غمود کے ساتھ کیا کیا جو وادی ( قریٰ ) میں پتھر تراشتے اور مکانات بناتے تھے ۔ الجائبتہ ۔ پھیلنے والی ) محاورہ ہے ھن عندک من جایبتہ خبر ۔ کیا تمہارے پاس کوئی نشر ہونے والی خبر ہے ۔ جواب الکلام اور کسی کلام کے جواب کو بھی جواب اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ قائل کے منہ سے نکل کر فضا کو قظع کرتا ہوا سامع کے کان تک پہنچتا ہے مگر عرف میں ابتداء کلام کرنے کو جواب نہیں کہتے بلکہ کلام کے لوٹا پر جواب کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَما کانَ جَوابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قالُوا [ النمل/ 56] تو ان کی قوم کے لوگ ( بولے تو ) یہ بولے اور اس کے سوا ان کا جواب نہ تھا ۔ جواب کا لفظ سوال کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے اور سوال دو قسم پر ہے ( 1) گفتگو کا طلب کرنا اس کا جواب گفتگو ہی ہوتی ہے (2) طلب عطا یعنی خیرات طلب کرنا اس کا جواب یہ ہے کہ اسے خیرات دے دی جائے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف/ 31] خدا کی طرف سے بلانے والے کی باٹ قبول کرو ۔ اور جو شخص خدا کی طرف بلانے والے کی باٹ قبول نہ کرے ۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے فرمایا : : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس/ 89] ، کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو ہم ثابت قدم رہنا دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سداھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے قد اجیبت دعوتکما تم دونوں کی دعا قبول کی گئی ۔ دعا کی نسبت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) دونوں کی طرف سے کی گئی ہے ۔ ابو العالیہ ، عکرمہ ، محمد بن کعب اور ربیع بن موسیٰ کا قول ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دعا مانگتے اور حضرت ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے، اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے دونوں کو دعا مانگنے والے قرار دیا ۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ آمین بھی دعا ہے اور جب اس کا دعا ہونا ثابت ہوگیا تو پھر اس کا اخفاء اس کے جہر سے افضل ہوگا اس لیے کہ قول باری ہے ادعوا ربکم تضرعا ً و خفیۃ ۔ اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے پکارو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٩) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وہارون (علیہ السلام) سے فرمایا کہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی سو تم ایمان، اطاعت خداوندی اور تیلغ رسالت پر قائم رہو اور ان لوگوں کے طریقہ کو مت اختیار کرنا، جو توحید خداوندی کو نہیں سمجھتے اور ان اس کی تصدیق کرتے یعنی فرعون اور اس کی قوم۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٩ (قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا فَاسْتَقِیْمَا) ایسا نہ ہو کہ وقت آنے پر تمہارا دل پسیج جائے اور پھر دعا کرنے لگو کہ اے اللہ اب ان کو معاف فرما دے !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

90. Those who are ignorant of reality and who have no grasp of the beneficent considerations underlying God's decisions are liable to misunderstand things. Such people observe the weakness of the forces that stand for truth as against the forces of falsehood. They observe that those who seek to make the truth prevail suffer a series of reverses. By way of contrast, they observe the dazzling worldly success of those who stand for falsehood. On such occasions they fall prey to several misconceptions. They begin to suspect that perhaps God Himself wants that His rebels should continue to hold sway over the earth, that perhaps even He - Who Himself is the Truth - is not willing to support the truth in its encounter with falsehood. Under the influence of such a fallacious line of reasoning, they conclude that the struggle for establishing the hegemony of the truth is an exercise in futility. They feel, therefore, satisfied with the freedom to practise religious principles in a very narrow domain of human life; this is provided within the framework of a system of life which is based on denial of the true faith and the 'right' to violate the injunctions of God. In the present verse God has directed Moses (peace be on him) and his followers not to fall prey to such erroneous ideas. God's directive, as embodied in this verse, amounts to saying that people should patiently persist in their efforts in the face of adverse circumstances, lest they also fall prey to the same mistake as committed by those who lack knowledge and wisdom.

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :90 جو لوگ حقیقت کو نہیں جانتے اور اللہ تعالی کی مصلحتوں کو نہیں سمجھتے وہ باطل کے مقابلہ میں حق کی کمزوری ، اور اقامت حق کے لیے سعی کرنے والوں کی مسلسل ناکامیاں اور ائمہ باطل کے ٹھاٹھ اور ان کی دنیوی سرفرازیاں دیکھ کر یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ شاید اللہ تعالی کو یہی منظور ہے کہ اس کے باغی دنیا پر چھائے رہیں ، اور شاید حضرت حق خود ہی باطل کے مقابلہ میں حق کی تائید کرنا نہیں چاہتے ۔ پھر وہ نادان لوگ آخرکار اپنی بدگمانیوں کی بنا پر یہ نتیجہ نکال بیٹھتے ہیں کہ اقامت حق کی سعی لاحاصل ہے اور اب مناسب یہی ہے کہ اس ذرا سی دینداری پر راضی ہو کر بیٹھ رہا جائے جس کی اجازت کفروفسق کی سلطانی میں مل رہی ہو ۔ اس آیت میں اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو اور ان کے پیرؤوں کو اسی غلطی سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے ارشاد خداوندی کا منشا یہ ہے کہ صبر کے ساتھ انہی ناموافق حالات میں کام کیے جاؤ ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں بھی وہی غلط فہمی ہوجائے جو ایسے حالات میں جاہلوں اور نادانوں کو عموما لاحق ہو جایا کرتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٩۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے خدا سے دعا کی کہ اے رب ہمارے تو نے فرعون کو دنیا میں مال و دولت و جاہ و عزت دے رکھی ہے کیا یہ سب کچھ اس واسطے ہے کہ یہ خود بھی گمراہ رہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے تو ان کے مال و دولت کو خاک میں ملا دے اور ان کے دلوں کو اور بھی سخت کر دے تاکہ جب تک یہ عذاب کو آنکھوں سے نہ دیکھ لیویں اس وقت تک ان کے دل نرم نہ ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ تمہارے اور تمہارے بھائی ہارون (علیہ السلام) دونوں کی دعا قبول کی گئی مگر تم جلدی نہ کرو خاطر جمع رکھو اور اپنے کام پر جمے رہو۔ عکرمہ کا قول ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی تھی اور ہارون (علیہ السلام) نے آمین کہی تھی اس لئے خدا نے فرمایا کہ تم دونوں کی دعا قبول کی گئی اس سے معلوم ہوا کہ آمین کہنے والے کو بھی دعا کرنے والا ٹھہرایا جاسکتا ہے بعضے مفسروں کا قول ہے کہ اس دعا کے بعد فرعون چالیس دن تک دنیا میں رہا لیکن ابن جریج کہتے ہیں کہ چالیس برس تک رہا پھر دریائے قلزم میں ڈوب کر معہ اپنے لشکر کے ہلاک ہوا اس کا حال آگے کی آیت میں آتا ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا کا یہ اثر ہوا کہ فرعون کا سارا مال و دولت کھانے کی چیزیں تک پتھر ہوگئیں تھیں چناچہ عمر بن عبد العزیز کے پاس ایک تھیلی فرعون کے وقت کی تھی انہوں نے جب آیت کو سنا تو تھیلی منگا کر دیکھی تو اس میں سے کچھ انڈے اور چنے نکلے توڑ کر دیکھا گیا تو واقعی پتھر ہوگئے تھے صحیح مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہونے والا تھا اپنے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کے اثر میں جلدی کرنے سے منع فرمایا ہے آیت کے ٹکڑے { فاستقیما ولا تتبعآن سبیل الذین لا یعلمون } کی یہ حدیثیں گویا تفسیر ہیں کیوں کہ آیت اور حدیثوں کے ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ انتظام الٰہی میں ہر کام کا وقت دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے مقرر ہوچکا ہے اس لئے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ وقت مقررہ کے آجانے سے تمہاری دعا قبول تو ہوگی لیکن اس کا ظہور اپنے وقت مقررہ پر ہوگا۔ انجان آدمی کی طرح وقت مقررہ سے پہلے اس ظہور کی جلدی کرو نہ ظہور میں دیر ہونے کے سبب سے نبوت کے فرض منصب و عظ نصیحت میں کچھ خلل جائز رکھو کیوں کہ دعا کے اثر میں جلدی کا کرنا انتظام الٰہی کے برخلاف اور مرضی الٰہی میں ایک طرح کی بیجا مداخلت ہے اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے چناچہ وقت مقررہ پر اس وعدہ اور دعا کے اثر کا جو ظہور ہوا اس کا ذکر آگے آتا ہے۔ ١ ؎ صحیح مسل ص ٣٣٥ ج ٢ باب حجاج آدم و موسیٰ ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(10:89) استقیما۔ امر تثنیہ مذکر حاضر۔ تم دونوں ثابت قدم رہو۔ استقامت سے (باب استفعال) لاتتبعن۔ فعل نہی۔ تثنیہ مذکر حاضر۔ بانون ثقیلہ اتباع مصدر۔ (اتفعال) تم دونوں ہرگز پیروی نہ کرنا۔ تم دونوں ہرگز اتباع نہ کرنا

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) دعا کر رہے تھے اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) آمین کہہ رہے تھے۔ اس لئے دونوں کی طرف اضافت کردی۔ (شوکانی) ۔ 4 ۔ یعنی دعوت کا کام کرتے رہو۔ آخر کار تمہاری دعا کا اثر ظاہر ہو کر رہے گا۔ (شوکانی) ۔ 5 ۔ جو دعوت کے کام میں حوصلہ چھوڑ بیٹھتے ہیں یا دعا کرتے ہی یہ چاہتے ہیں کہ ان کا مطلب پورا ہوجائے اور اگر فوراً پورا نہ ہو تو شکایت کرنے لگتے ہیں کہ ہم نے بہتری دعائیں کیں مگر پروردگار نے قبول ہی نہ کی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کسی شخص کی دعات اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے جب تک وہ جلدی نہیں کرتا اور جلدی کرنا یہ ہے کہ وہ گبھرا کر کہتا ہے کہ میں نے اپنے رب سے دعا کی مگر اس نے قبول نہ کی۔ (بخاری مسلم) ۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی شتابی نہ کرو حک کی راہ دیکھو۔ “

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی جن کو ہمارے وعدہ کے سچے ہونے کا یا توقف میں حکمت ہونے کا یاتبلیغ کے ضروری ہونے کا علم نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال قد اجیبت دعوتکما اللہ نے (حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون سے) فرمایا : تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی۔ حضرت موسیٰ دعا کر رہے تھے اور حضرت ہارون آمین کہہ رہے تھے ‘ اسلئے دعا کی نسبت دونوں کی طرف کی گئی۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ کی دعا چالیس برس کے بعد قبول ہوئی تھی۔ فاستقیما پس تم قائم رہنا۔ یعنی رسالت اور دعوت پر قائم رہنا اور میرے حکم پر چلنا یہاں تک کہ ان پر عذاب آجائے گا۔ ولا تتبعٰن سبیل الذین لا یعلمون۔ اور نادانوں کے طریق کی پیروی نہ کرنا کہ نادانوں کی طرح نزول عذاب میں جلدی کرنے لگو۔ یا اللہ کے وعدہ پر پورا بھروسہ نہ رکھو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فرعون اور آل فرعون کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا ‘ فرعون کا غرق ہونا ‘ اور عبرت کیلئے اس کی نعش کا باقی رکھا جانا فرعون اور اس کی قوم مصر میں صاحب اقتدار تھے ان کے پاس اموال تھے ‘ زیب وزینت کے ساتھ رہتے تھے اور بنی اسرائیل جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں مصر جا کر آباد ہوگئے تھے وہ وہاں پر دیسی تھے اور چونکہ اہل مصر یعنی قبطیوں کی قوم میں سے نہ تھے اس لئے ان سے محنت کے کام لئے جاتے تھے بلکہ ان سے بیگاریں لیتے تھے۔ بنی اسرائیل مال کے اعتبار سے بھی بہت کمزور تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بار گاہ الٰہی میں عرض کیا کہ اے اللہ ! آپ نے ان لوگوں کو دنیاوی سازو سامان دیا ہے جو اس بات کا ذریعہ بن رہا ہے کہ وہ لوگوں کو آپ کے راستہ سے ہٹائیں اور گمراہ کریں۔ آپ ان کے مالوں کو ختم کردیجیے اور ان کے دلوں کو سخت کر دیجئے تاکہ یہ درد ناک عذاب دیکھنے تک ایمان نہ لائیں اور کفر کی سزا دنیا میں اور آخرت میں چکھ لیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دعا کرتے جاتے تھے اور حضرت ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے جاتے تھے۔ دعا کرنے والے کی دعا پر آمین کہنا بھی دعا میں شریک ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی۔ سو تم ثابت قدم رہو اور استقامت کے ساتھ کار مفوضہ انجام دیتے رہو اور جو لوگ نادان ہیں ان کی راہ کا اتباع نہ کرو (تمہاری مدد کا وعدہ تو ہے لیکن اس کے ظہور میں جو دیر لگے اس دیر سے مت گھبرانا جیسا کہ وہ لوگ گھبرا جاتے ہیں جو عادۃ اللہ کو نہیں جانتے اور جن کی اللہ کی حکمتوں پر نظر نہیں ہوتی) صاحب روح المعانی نے (فََاسْتَقِیْمَا وَلَا تَتَّبِعٰنِ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ) کی یہی تفسیر کی ہے اور حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابن جریج اور حضرت مجاہد (رض) سے نقل کیا ہے کہ چالیس سال کے بعد اس دعا کا نتیجہ ظاہر ہوا۔ فرعون اور اس کا لشکر ہلاک ہوا ‘ اور بنی اسرائیل نے ان کے شر سے نجات پائی۔ جب دعاء کی قبولیت یعنی اس کا اثر ظاہر ہونے کا وقت آیا حسب فرمان باری تعالیٰ شانہ حضرت موسیٰ اپنی قوم بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے چل دئیے اور سمندر پر پہنچ گئے۔ سمندر پر لاٹھی ماری تو سمندر ٹھہر گیا اور اس کے ٹکڑے ہوگئے یعنی اس میں راستے نکل آئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر اس میں سے گزر گئے۔ فرعون اور اس کی قوم کو یہ بھی گوارانہ ہوا کہ بنی اسرائیل کو مصر چھوڑ کر صحیح سالم جانے دیں۔ یہ لوگ سینکڑوں سال سے بنی اسرائیل پر ظلم و زیادتی کرتے آ رہے تھے ان کے چلے جانے سے متفکر ہوتے تھے کہ اب ہماری خدمت کون کرے گا ان کا تعاقب کرنے کے لئے فرعون اپنا لشکر لے کر آیا۔ یہ لوگ بنی اسرائیل کے پیچھے سمندر کے راستوں میں گھس گئے (جو اللہ نے پیدا فرما دئیے تھے) اور بنی اسرائیل کا پیچھا کیا۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے سمندر کو ملا دیا سارے راستے ختم ہوگئے اور سارا سمندر ایک ہوگیا ‘ لہٰذا فرعون اور اس کے لشکری سب اس میں ڈوب گئے جیسا کہ سورة طہ اور سورة شعراء اور سورة دخان میں بیان فرمایا ہے۔ سورة بقرہ میں بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ شانہ نے اپنا انعام یاد دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَاِذْفَرَقْنَابِکُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰکُمْ وَاَغْرَقْنَا اٰلَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ) (اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو پھاڑ دیا۔ سو ہم نے تمہیں نجات دے دی اور آل فرعون کو غرق کردیا اور حالت یہ تھی کہ تم دیکھ رہے تھے) ۔ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بولا کہ بنی اسرائیل جس ذات کے معبود ہونے پر ایمان لائے میں اسی ذات پر ایمان لاتا ہوں اور میں بھی فرمانبرداروں میں سے ہوں ‘ اس کا مقصد یہ تھا کہ ان لوگوں کے دین کو قبول کر کے میں بھی غرق ہونے سے بچ جاؤں جیسا کہ یہ لوگ بچ گئے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جب موت کے احوال نظر آنے لگیں اس وقت ایمان معتبر نہیں لہٰذا اس وقت اس کا ایمان لانا اس کے حق میں کچھ بھی مفید نہ ہوا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو یہ خطاب کیا گیا (آلْءٰنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ) (کیا اب تو ایمان لاتا ہے حالانکہ اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور تو فساد کرنے والوں میں سے ہے) روح المعانی میں لکھا ہے کہ اس بات کے کہنے والے حضرت جبرائیل یا حضرت میکائیل ( علیہ السلام) تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرعون کو یہ بھی کہا گیا (فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً ) سو آج ہم تیرے بدن کو نجات دے دیتے ہیں۔ یعنی تیری لاش کو پانی میں بہا دینے کی بجائے پانی کے اوپر تیرا دیتے ہیں تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لئے نشانی بن جائے۔ بعد میں آنے والے تجھ سے عبرت لیں اور دیکھیں کہ اللہ کے باغی کا کیا انجام ہوا۔ اور یہ بھی سمجھ لیں کہ دنیا میں کوئی شخص کیسا ہی سلطنت اور دبدبہ والا ہو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہیں بچ سکتا۔ کوئی شخص اپنی سلطنت پر گھمنڈ نہ کرے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

104: اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبول دعا کی خوشخبری سنائی گئی کہ تمہاری دعا قبول ہوچکی ہے لیکن ابھی چند دن صبر و استقامت سے کام لینا ہوگا “ وَلَا تَتَّبِعٰنِ الخ ” اللہ پر بھروسہ رکھو وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا جو لوگ اللہ تعالیٰ کے امور و احکام کی حکمتوں اور مصلحتوں سے بیخبر ہوتے ہیں وہ اللہ کے وعدوں کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرتے رہتے ہیں اور صبر و استقامت کے بجائے عجلت اور بےصبری کا اظہار کرتے ہیں اے موسیٰ و ہارون ایسے بیخبر لوگوں کی سی کوئی حرکت تم سے ہرگز سرزد نہ ہونے پائے۔ “ وَجَاوَزنَا بِبَنِیْ اِسْرَائِیْلَ الْبَحْرَ ” جب اللہ کے وعدے کے مطابق بنی اسرائیل کی نجات اور فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کا وقت آگیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر راتوں رات شہر سے روانہ ہوگئے جب فرعون کو پتہ چلا تو وہ بھی اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ان کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا۔ بنی اسرائیل جب دریا کے کنارے پہنچے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دریا میں اپنا عصا ڈالا تو اس میں بارہ راستے بن گئے اسرائیلی بخیریت پار ہوگئے ان کے پیچھے فرعون بھی مع لاؤ لشکر دریا میں گھس گیا اللہ نے پانی کو روانی کا حکم دیدیا اور فرعون مع قوم غرق ہو کر ہلاک ہوگیا۔ “ قَالَ اٰمَنْتُ الخ ” جب فرعون ڈوب رہا تھا تو اس نے اپنے ایمان کا اعلان کیا کہ میں اس اللہ پر ایمان لے آیا جس کے سوا کوئی عبادت اور پکار کے لائق نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لا چکے ہیں۔ فرعون کا ایمان عذاب میں مبتلا ہونے کے بعد تھا اس لیے قبول نہ ہوا۔ “ اٰلْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ الخ ” جب ایمان لانے اور اللہ کی عبادت وطاعت کا وقت تھا اس وقت تو نے انکار کیا اور اللہ کی نافرمانیاں کیں اور شرک پھیلا کر دنیا کو شر و فساد سے بھر دیا اس لیے اب ایمان لانے سے کیا فائدہ۔ “ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ ” یہ “ نجوة ” (اونچی جگہ) سے ماخوذ ہے یعنی آج ہم تیری لاش کو اونچی جگہ ڈالیں گے تاکہ تو باقی ماندہ لوگوں کے لیے عبرت و نصیحت کا نشان بن جائے “ نلقیک بنجوة من الارض ” (مدارک ج 2 ص 134) ۔ یہ مطلب نہیں کہ تیری لاش کو قیامت تک محفوظ رکھوں گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

89 اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم دونوں بھائیوں کی دعا قبول کرلی گئی سو تم دونوں اپنے حال پر ثابت رہو اور ان لوگوں کی راہ نہ چلنا جو حکمت خداوندی کا علم نہیں رکھتے یعنی ایسے جاہل ہیں کہ حضرت حق کی مصلحت اور اس کی حکمت کو جانتے ہی نہیں کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کی دعا پر حضرت ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے تھے اس لئے قبولیت دعا میں دونوں کو شریک کیا ثابت رہو یعنی تبلیغ کرتے رہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی شتابی نہ کرو حکم کی راہ دیکھو 12