Surat ul Aadiyaat

The Chargers

Surah: 100

Verses: 11

Ruku: 1

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تعارف : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں کی قسم کھائی ہے جو اپنے مالک کے ایک اشارے پر ہانپتے، فراٹے بھرتے اور سرپٹ دوڑتے ہیں۔ جب اس کا مالک پتھریلی زمین پر تیز دوڑاتا ہے تو ان کے ٹاپوں سے چنگاریاں سی اڑتی نظر آتی ہیں۔ سویرا کسی دشمن پر حملہ کرنا ہو تو وہ صبح ہی صبح چھاپے مارنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ پھر وہ پورے میدان جنگ کو گردوغبار سے ڈھانپ دیتے ہیں۔ وہ تیزی سے دشمن کے لشکروں کی اندرونی صفوں میں جاگھستے ہیں اور وہ اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے۔ فرمایا کہ گھوڑا جو بےزبان جانور ہے جب اس کا مالک اسے دانہ اور گھاس کھلاتا اور پانی پلاتا ہے، اس کے رہنے کی جگہ بناتا ہے تو وہ جانور اپنے مالک کے احسان کو پہچانتا ہے اور ہر وقت اس کی خدمت اور اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ حالانہ گھوڑے کے مالک نے نہ تو اس گھوڑے کو پیدا کیا، نہ گھاس، دانے اور پانی کو اس نے پیدا کیا وہ مالک محض یہ چیزیں اس تک پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے مگر اس جانور کا حال یہ ہے کہ اپنے کھلانے پلانے والے کو اپنا محسن سمجھتا ہے۔ دوڑانے سے دوڑتا ہے، سموں سے چنگاریاں اڑاتا ہے، صبح ہو یا شام وہ ہر وقت اپنے مالک کی اطاعت و فرماں بردار کے لیے تیار رہتا ہے۔ میدان جنگ میں اس کے دوڑنے سے گردوغبار کے بادل چھا جاتے ہیں۔ اس کی وفاداری کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر دشمن کی صفوں کے بیچ میں گھس جاتا ہے اور اپنے مالک کی حفاظت کرتا ہے۔ فرمایا کہ ایک جانور کو ذرا سے دانے پانی کیا تنی قدر ہے وہ ہر وقت مالک کے سامنے سرجھکائے حکم کا منتظر رہتا ہے لیکن انسان کس قدر ناشکرا ہے اسے اللہ نے پیدا کیا، زندگی گزارنے کی ہر چیز عطا کی، زمین و آسمان، چاند ، سورج ، ستارے، نباتات، جمادات اور حیوانات کو اس کی خدمات میں لگادیا۔ اس کو عقل و شور اور فہم و فراست عطا کی ، ذرہ ذرہ کو اس کے تابع کردیا، اس کی ہدایت کے لیے اس نے پیغمبروں وار کتابوں کو بھیجا مگر اس کا یہ حال ہے کہ دنیا کی ذراسی دولت کی محبت میں ہو اس طرح غرق ہوجاتا ہے کہ اپنے خالق ومالک کو بھول جاتا ہے۔ نافرمانی اور ناشکری پر اس کا اپنا وجود ہی گواہ بن جاتا ہے لیکن وہ نہیں سوچتا کہ دنیا کے یہ اسباب کب تک استعمال کرے گا۔ یہ مال و دولت اس کے کب تک کام آئیں گے۔ موت کے ساتھ ہی یہ تمام چیزیں اس سے چھوٹ جائیں گی اور قبر میں کوئی چیز اس کے ساتھ نہ جائے گی۔ فرمایا کہ اس کے بعد انسان کو اس کی قبر سے اٹھایا جائیگا۔ میدان حشر میں اس کا اعمال نامہ اس کے حوالے کردیا جائے گا پھر اس کو ہوش آئے گا کہ وہ اپنے جن کرتوتوں کو دنیا سے چھپایا کرتا تھا ان تمام باتوں سے اس کا رب پہلے ہی واقف تھا۔ پھر اس وقت اس کا شرمندہ ہونا اس کے کسی کام نہ آئے گا۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورة العادیات میں بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے پروردگار کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آخرت میں ہر طرح کی رسوائیوں اور ذلتوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة العادیات کا تعارف یہ سورت اپنے نام سے شروع ہوتی ہے اس کا ایک رکوع ہے جو گیارہ آیات پر مشتمل ہے اس کے نزول کے بارے میں صحابہ کرام (رض) میں اختلاف پایا جاتا تھا تاہم حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اور دیگر صحابہ (رض) کا خیال ہے کہ یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں مجاہدین کے گھوڑوں کی قسم اٹھا کر جہاد کی فضیلت کی طرف اشارہ کیا ہے اور واضح فرمایا ہے کہ انسان مال کی محبت میں بڑا سخت ہے حالانکہ مال نے ہمیشہ نہیں رہنا اور بالآخر انسان نے قبر میں جانا ہے اور پھر اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة العدیت ایک نظر میں اس سورت کا سیاق کلام نہایت سریع الحرکت جھلکیوں کے انداز میں چلتا ہے۔ انداز نہایت سخت اور نہایت موثر ہے جس طرح کوئی ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف کودتا ہے یا چھلانگ لگاتا ہے ، نہایت ہلکے انداز میں ، تیزی کے ساتھ اور آگے بڑھتے ہوئے۔ یہاں تک کہ یہ جھلکیاں آخر تک پہنچ جاتی ہیں۔ آخری فقروں میں الفاظ ، معانی ، موضوع اور اثرات تھم کر پرسکون ہوجاتے ہیں ، جس طرح گھوڑا دوڑ میں مقابلہ جیت کر دوڑنے والا آخر کار پرسکون ہوجاتا ہے۔ ذرا غور سے دیکھئے اس منظر کو ، صبح سویرے کا وقت ہے۔ گھوڑے جنگجو سواروں کو لیے ہوئے تیزی سے دوڑ رہے ہیں اور ہانپ رہے ہیں۔ ان کی ٹاپوں سے چنگاریاں اٹھ رہی ہیں ، غبارھویں کی طرح آسمانوں تک اڑرہا ہے۔ وہ دیکھو یہ سوار دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔ دشمن کو حملے کی توقع نہیں ، دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ، جس کا منہ جدھر ہے ادھر بھاگ رہا ہے۔ اس عجیب منظر کے کرداروں کی قسم کھاتے ہوئے ، نفس انسانی کی ایک جھلک ، کہ یہ سخت منکر اور کافر ہے ، اور اس کے ساتھ ساتھ دولت کا پجاری ہے۔ اور اس کے بعد ایک دوسرا منظرزمین اور قبرستان پھٹ رہے ہیں اور لوگ ان میں سے چیونٹیوں کی طرح باہر نکل رہے ہیں ، پھر انسانی دل و دماغ پھٹ رہے ہیں اور ان میں پوشیدہ تمام راز اگلے جارہے ہیں۔ سورت کے آخر میں منظر یہ ہے کہ گردوغبار چھٹ جاتا ہے ۔ انکار وجود اور حرص وبخل ختم ہوجاتے ہیں۔ لوگ تمام کے تمام قبروں سے نکل کر جمع ہوجاتے ہیں۔ اور سب کے سب اللہ کے سامنے کھڑے ہیں۔ اور آخری انجام یہ ہے۔ ان ربھم .................... لخبیر (11:100) ” یقینا ان کا رب ان سے اس دن خوب باخبر ہے “۔ الفاظ کے ترنم میں بھی سختی ، خشونت اور کرختگی ہے۔ اور یہ اس شور وشغف کی فضا سے ہم آہنگ ہے جو قبروں کی اکھاڑ اور لوگوں کے خروج سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ اس فضا سے بھی متناسب ہے جس میں دلوں سے خفیہ راز بری شدت سے نکالے جارہے ہیں۔ پھر انکار وہٹ دھرمی اور بخل اور دولت پرستی کی فضا سے بھی ہم آہنگ ہے۔ ان سب درشت معانی کی تصاویر کو سجانے کے لئے جو فریم تجویز ہوا ہے وہ قبروں سے نکلنے کے ہائے وہو ، اور ایسے تیز رفتار گھوڑسواروں کے شور سے تیار ہوا ہے جن کے کھروں کی ٹکر سے چنگاریاں اٹھ رہی ہیں اور علی الصبح دشمن پر حملہ آور ہوتے ہیں ، جو گردوغبار اڑاتے ہیں ، جو دشمن کے اندر جاگھستے ہیں اور دشمن کی توقع ہی نہیں ہوتی ، غرض ان سخت وکرخت معانی کے لئے یہ مناسب فریم ہے۔ گو فریم تصویر سے لی گئی ہے اور تصویر فریم کے کرخت میٹریل سے بنی ہے۔ (التصویر الغنی فی القرآن)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi