Surat ul Qariya

The Calamity

Surah: 101

Verses: 11

Ruku: 1

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تعارف : قیامت اور آخرت پر ایمان و یقین دین اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے جسے دلوں میں جمانے اور بٹھانے کے لیے قرآن کریم میں جگہ جگہ اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سورت میں قیامت اور آخرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ وہ اچانک ایک زبردست اور ہولناک حادثہ ہوگا۔ اس دن کی شدت کو ذہنوں میں بٹھانے کے لیے سوالیہ انداز اختیار کرتے ہوئے پوچھا ہے کیا آپ کو معلوم ہے وہ عظیم حادثہ کیا ہوگا ؟ جواب عنایت فرمایا کہ وہ ایسا ہولناک حادثہ ہوگا جب لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ایک دوسرے پر گرتے پڑتے ہوں گے۔ وہ عظیم الشان پہاڑ جن کی وجہ سے زمین اپنے تو ازن کو قائم رکھے ہوئے ہے وہ پہاڑ رنگ برنگ کی دھنکی ہوئی اون کی طرح فضاؤں میں اڑتے پھریں گے۔ ظاہر ہے کہ جب زمین بےوزن ہوجائے گی تو اس پر ہر چیز اور بڑی سے بڑی بلڈنگیں بھی تنکوں کی طرح ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جائیں گی۔ جو اہل ایمان ہوں گے وہ نہایت اطمینان و سکون سے اپنی قبروں سے اٹھیں گے اور کفار و مشرکین پر زبردست گھبراہٹ طاری ہوگی۔ اس کے بعد میدان حشر قائم کیا جائیگا۔ جو لوگ ابتداء سے قیامت تک پیدا ہوئے اور مرگئے ان کو دوبارہ پیدا کیا جائے گا پھر اس میدان میں ” میزان عدل “ قائم کی جائے گی تاکہ ہر شخص کے ساتھ اس کے اعمال کے مطابق عدل و انصاف کیا جاسکے۔ ہر ایک کے اعمال کو اس ترازہ پر تول کر دیکھا جائے گا۔ جس کے اعمال میں اخلاص کی برکت سے وزن ہوگا اس کو من پسند جنت کی راحتوں میں داخل کیا جائے گا۔ اور جن لوگوں کے اعمال بےوزن اور ہلکے ہوں گے ان کو آگے سے بھرے گڑھے یعنی جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اصل میں ہمیشہ سے دنیا میں ماپ تول کا رواج رہا ہے۔ پہلے صرف ترازو اور بٹے ہوئے ہوتے تھے جن کے ذریعہ چیزوں کو تولا جاتا تھا۔ پھر سائنسی ترقی کا دور آیا تو اس میں ہوا، بارش، پانی، سردی، گرمی ، برف تک تولنے کے آلات ایجاد کئے گئے لیکن اللہ کی میزان عدل یعنی انصاف کی ترازو میں ایمان و کفر، اچھے برے اخلاق، ثواب اور گناہ، شہیدوں کا لہو اور علماء کی لکھنے والی روشنائی تک کو تول کر دیکھا جائے گا۔ اس سلسلہ میں قرآن کریم اور احادیث میں بہت سی تفصیلات اور ارشاد فرمائی گئی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ! ہم قیامت کے دن میزان عدل (انصاف کی ترازو) قائم کریں گے ۔ اس لیے کسی پر ادنی سا بھی ظلم نہ ہوگا۔ جو بھلائی اور برائی رائی کے دانے کے برابر بھی ہوگی وہ بھی میزان عدل میں رکھی جائے گی اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور حساب لینے کے لیے تو ہم ہی کافی ہیں۔ فرمایا ! جس کی نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگا وہ من پسند عیش و آرام میں ہوگا اور جس کی نیکیوں کا پلہ ہلکا ہوگا تو اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ (القارعہ) حضرت ابوذر غفاری (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمہیں ایسے کام بتاتا ہوں جن پر عمل کرنا انسان کے لیے کچھ بھاری نہیں ہے لیکن میزان عدل میں وہ سب سے بھاری ہوں گے ایک حسن اخلاق اور دوسرے زیادہ تر خاموش رہنا یعنی بلاضرورت کوئی کلام نہ کرنا۔ (ابودائود۔ ترمذی) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن علماء ( کے قلم) کی روشنائی جس سے انہوں نے علم دین اور احکام دین لکھے تھے ان کو اور شہیدوں کے لہو کو تولا جائے گا تو علماء کی روشنائی کا وزن شہیدوں کے خون کے وزن سے بڑھ جائے گا۔ (امام ذہبی) حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص حاضر ہوگا جب اس کا نامہ اعمال سامنے آئے گا تو وہ نیک اعمال کم پاکر گھبرا جائے گا۔ اچانک ایک چیز بادل کی طرح اٹھ کر آئے گی اور اس کے نیک اعمال کے پہلے میں گرجائے گی اس کو بتایا جائے گا کہ یہ تیرے ان اعمال کا ثمرہ ہے جو تو دنیا میں لوگوں کو دین کے احکام و مسائل بتاتا اور سکھاتا تھا۔ یہ تیری تعلیم کا سلسلہ جب آگے چلا تو جس شخص نے اس پر عمل کیا ان سب کے اعمال میں تیرا حصہ بھی لگایا گیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اللہ کے خوف سے روتا ہے تو اس کا عمل تو لانہ جائے گا بلکہ اس کا ایک آنسو جہنم کی بڑی سے بڑی آگ کو بجھانے کے لے کافی ہوگا۔ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان کے میزان عدل میں سب سے پہلے جو عمل رکھا جائے گا وہ ہوگا جو اس نے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کا عمل کیا ہوگا۔ (عبرانی) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے میدان حشر کی ” میزان عدل “ میں سے زیادہ وزن دار چیز کلمہ طیبہ ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ ہوگا۔ میزان کے جس پلے میں یہ کلمہ آگیا وہ سب سے بھاری ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں اور رحمن کو بہت محبوب ہیں مگر میزان عدل میں بہت بھاری ہوں گے۔ وہ دو کلمے یہ ہیں۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ ۔ (بخاری شریف)

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة القارعہ کا تعارف یہ سورت اپنے نام سے شروع ہوتی ہے اس کی گیارہ آیات ہیں جو ایک رکوع پر مشتمل ہیں یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس میں قیامت کا ایک منظر پیش کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ اس دن پہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑ رہے ہوں گے اور لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی طرح منتشر ہوں گے۔ اس دن جس کے اعمال بھاری ہوئے وہ عیش کی زندگی میں ہوگا اور جس کے وزن ہلکے ہوئے وہ دھکتی ہوئی آگ میں جھونکا جائے گا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة القارعة ایک نظر میں القارعہ کے معنی ہیں کھٹکھٹانے والی یعنی قیامت ، الطامہ ، الصاخہ ، الحاقہ ، الغاشیہ سب قیامت کے صفاتی معنی ہیں۔ القارعة قیامت کو اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ اپنی ہولناکیوں سے انسانی قلوب کو جھنجھوڑدے گی اور خوفزدہ کردے گی۔ یہ پوری سورت ایک ہی خوفناک منظر پر مشتمل ہے۔ اس کا مفہوم ، اس کے واقعات اور اس کا انجام سب کے سب کھٹکھٹانے والے ہیں۔ یہ قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر ہے۔ اس منظر میں انسان اپنی کثرت کے باوجود نہایت ہی چھوٹے اور حقیر نظر آتے ہیں۔ ان کو اس میں۔ کالفراش المبثوث (4:101) بکھرے ہوئے پروانوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ اس طرح اڑتے ہیں ، اس طرح بکھرے پڑے ہیں اور سب کے سب موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں جس طرح پروانے اڑاڑ کر چراغ پر مرتے اور جلتے ہیں اور پھر ادھر ادھر بکھرے پڑے ہوتے ہیں۔ اور اپنے اوپر کوئی قابو نہیں رکھتے۔ نہ ان کے نزدیک اس ہلاکت کا کوئی مقصد ہے ، اور نہ وہ کوئی مقصد اپنے پیش نظر رکھتے ہیں اور نہایت ہی مضبوط اور اونچے پہاڑ اس طرح ہلکے اڑتے نظر آتے ہیں جس طرح دھنی ہوئی اون۔ جسے ہوا کے جھونکے ادھر سے ادھر اڑاتے پھرتے ہیں ، یہاں تک کہ ایک سانس بھی ان کو اڑا لیتی ہے۔ معانی کی جو تصویر اس فریم میں سجائی گئی ہے۔ اسے القارعہ کا نام دینا نہایت ہی موزوں ہے۔ یہ لفظ اپنی سخت آواز ، اپنے حروف کی سختی کیوجہ سے پہاڑوں اور انسانی دلوں کو کھٹکھٹانے کے مفہوم کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہے اور انسانی قلب و شعور پر اس کے نہایت ہی اچھے اثرات پڑتے ہیں اور انسان آگے حساب و کتاب کے منظر کو دیکھنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi