Surat ul Qariya

Surah: 101

Verse: 1

سورة القارعة

اَلۡقَارِعَۃُ ۙ﴿۱﴾

The Striking Calamity -

کھڑ کھڑا دینے والی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says: الْقَارِعَةُ مَا الْقَارِعَةُ

اعمال کا ترازو: قارعہ بھی قیامت کا ایک نامہے جیسے حآقہ طآمہ صآخہ غاشیہ وغیرہ اس کی بڑائی اور ہولناکی کے بیان کے لیے سوال ہوتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے؟ اس کا علم بغیر میرے بتائے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا پھر خود بتاتا ہے کہ اس دن لوگ منتشر اور پراگندہ حیران و پریشان ادھر ادھر گھوم رہے ہوں گے جس طرح پروانے ہوتے ہیں اور جگہ فرمایا ہے کانھم جراد منتشر گویا وہ ٹڈیاں ہیں پھیلی ہوئیں پھر فرمایا پہاڑوں کا یہ حال ہو گا کہ وہ دھنی ہوئی اون کی طرح ادھر ادھر اڑتے نظر آئیں گے پھر فرماتا ہے اس دن ہر نیک و بد کا انجام ظاہر ہو جائیگا نیکوں پر چھا گئیں بھلائیوں کا پلڑا ہلکا ہو گا وہ جہنمی ہو جائیگا وہ منہ کے بل اوندھا جہنم میں گرا دیا جائیگا ام سے مراد دماغ ہے یعنی سر کے بل ہاویہ میں جائیگا اور یہ بھی معن یہیں کہ فرشتے جہنم میں اسے کے سر پر عذابوں کی بارش برسائیں گے اور یہ بھی مطلب ہے کہ اس کا اصلی ٹھکانا وہ جگہ جہاں اس کے لیے قرار گاہ مقرر کیا گیا ہے وہ جہنم ہے ھاویہ جہنم کا نام ہے اسی لیے اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں نہیں معلوم کہ ہاویہ کیا ہے؟ اب میں بتاتا ہوں کہ وہ شعلے مارتی بھڑکتی ہوئی آگ ہے حضرت اشعث بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ مومن کی موت کے بعد اس کی روح کو ایمانداروں کی روحوں کی طرف لے جاتے ہیں اور فرتے ان سے کہتے ہیں کہ اپنے بھائی کی دلجوئی اور تسکین کرو یہ دنیا کے رنج و غم میں مبتلا تھا اب وہ نیک روحیں اس سے پوچھتی ہیں کہ فلاں کا کیا حال ہے وہ کہتا ہے کہ وہ تو مر چکا تمہارے پاس نہیں آیا تو یہ سمجھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں پھونکہ اسے وہ تو اپنی ماں ہاویہ میں پہنچا ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں یہ بیان خوب سبط سے ہے اور ہم نے بھی اسے کتاب صفتہ النار میں وارد کیا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل و کرم سے اس آگ جہنم سے نجات دے آمین! پھر فرماتا ہے کہ وہ سخت تیز حرارت والی آگ ہے بڑے شعلے مارنے والی جھلسا دینے والی ۔ رسول اللہ صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں تمہاری یہ آگ تو اس کا سترھواں حصہ ہے لوگوں نے کہا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہلاکت کو تو یہی کافی ہے آپ نے فرمایا ہاں لیکن آتش دوزخ تو اس سے انہتر حصے تیز ہے صحیح بخاری میں یہ حدیث ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ ہر ایک حصہ اس آگ جیسا ہے مسند احمد میں بھی یہ روایت موجود ہے مسند کی ایک حدیث میں اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ یہ آگ باوجود اس آگ کا ستھواں حصہ ہونے کے بھی دو مرتبہ سمندر کے پانی میں بجھا کر بھیجی گئی ہے اگر یہ نہ ہوتا تو اس سے بھی نفع نہ اٹھا سکتے اور حدیث میں ہے یہ آگ سوواں حصہ ہے طبرانی میں ہے جانتے ہو کہ تمہاری اس آگ اور جہنم کی آگ کے درمیان کیا نسبت ہے؟ تمہاری اس آگ کے دھوئیں سے بھی ستر حصہ زیادہ سیاہ خود وہ آگ ہے ترمذی اور ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ جہنم کی آگ ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سرخ ہوئی پھر ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سفید ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سیاہ ہو گئی پس اب وہ سخت سیاہ اور بالکل اندھیرے والی ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ سب سے ہلکے عذاب والا جہنمی وہ ہے جس کے پیروں میں آگ کی دو جوتیاں ہونگی جس سے اس کا دماغ کھدبدا رہا ہو گا بخاری و مسلم میں ہے کہ آگ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ اے اللہ میرا ایک حصہ دوسرے کو کھائے جا رہا ہے تو پروردگار نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی ایک جاڑے میں ایک گرمی میں پس ست جاڑا جو تم پاتے ہو یہ اس کا سرد سانس ہے اور سخت گرمی جو پڑتی ہے یہ اس کے گرم سانس کا اثر ہے اور حدیث میں ہے کہ جب گرمی شدت کی پڑے تو نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو گرمی کی سخت یجہنم کے جوش کی وجہ سے ہے الحمد اللہ سورہ قارعہ کی تفسیر ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] الْقَارِعَۃُ ۔ قرع بمعنی ایک چیز کو دوسری چیز پر اس طرح مارنا کہ آواز پیدا ہو اور قَرَعَ الْبَاب بمعنی اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور قارِعَۃٌ بمعنی کھڑکھڑانے والی اور ابن الفارس کے نزدیک ہر وہ چیز جو انسان پر شدت کے ساتھ نازل ہو وہ قارِعَۃٌ ہے (مقاییس اللغۃ) یعنی کوئی عظیم حادثہ یا بھاری آفت جو انسان کو گھبراہٹ میں ڈال دے اور اس سے مراد قیامت ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(القارعۃ :” فرع یفرع قرعاً ) (ف) شدت کے ساتھ دروازہ کھکھٹانا۔” القارعۃ “ ” الطآمۃ، الصآختہ ، الحآقۃ، الغاشیۃ “ اور ” الواقعۃ “ کی طرح قیامت کا ایک نام ہے، کیونکہ صدور کی آواز کانوں اور دلوں بلکہ ہر چیز کے ساتھ شدت سے ٹکرائے گئی، حتیٰ کہ اس آواز کی وجہ سے زمین اور پہاڑ بھی ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے، جیسا کہ فرمایا :(وحیلت الارض والجبال فدکتا دکتہ واحدۃ) (الحاقۃ : ١٣)” اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھایا جائے، پس دونوں ٹکرا دیئے جائیں گے، ایک بار ٹکرا دینا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Human Deeds, Good or Bad, will be Weighed This Surah mentions the weighing of human deeds. He whose scales are heavy will be led to Paradise, and he whose scales are light will be led to Hell. Please see Ma’ ariful Qur&an, Vol. 3/ pp 539-547, for a full and complete analysis of the Weighing of human deeds. The analysis also allays the doubts raised against the concept of weighing of deeds. We have also explained there that it appears from reconciliation of conflicting narrations and Qur&anic verses that the weighing on Plain of Resurrection will take place twice. The first weighing will be to separate the believers from the non-believers. Anyone whose Book of Deeds is put on the scale and contains the belief (&Iman) will be heavy, and the scale of anyone whose Ledger of Deeds does not contain &Iman will be light. At this stage, the believers will be separated from the non-believers. Weighing on the second time will be to distinguish between good and evil deeds of the believers. The reference, in the present Surah, is probably to the first weighing in which the scale of every believer will be heavy regardless of his other deeds, while the scale of an unbeliever will be light, even though he might have performed some good acts. It is explained in Mazhari that the Holy Qur&an generally contrasts the unbelievers and righteous believers, when speaking of retribution [ reward or punishment ], because the latter are the perfect believers. As for the believers who have performed righteous as well as unrighteous deeds, the Qur&an is generally silent on the issue. However, the principle may be noted that on the Day of Judgment human deeds will not be counted, but weighed. Fewer good deeds with high degree of faith and sincerity, and in accordance with Sunnah will be heavier than many good deeds - prayers, fasting, charity and pilgrimage with lesser degree of faith and sincerity, or not completely in accordance with Sunnah. Al-Hamdullah The Commentary on Surah al-Qari’ ah Ends here

خلاصہ تفسیر وہ کھڑ کھڑانے والی، چیز کیسی ہے وہ کھڑکھڑانے والی چیز اور آپ کو کچھ معلوم ہے کیسی کچھ ہی وہ کھڑکھڑانے والی چیز (مراد قیامت ہے جو دلوں کو گھبراہٹ سے اور انوں کو سخت آوازوں سے کھڑکھڑائے گی اور یہ اس روز ہوگا) جس روز آدمی پریشان پروانوں کی طرح ہوجاویں گے (پروانوں سے تشبیہ چند چیزوں کی وجہ سے دی گئی، ایک کثرت سے ہونا کہ سارے اولین و آخرین انسان ایک میدان میں جمع ہوجاویں گے، دوسرے کمزور ہونا کہ سب انسان اس وقت کمزوری میں پروانے جیسے ضعیف و عاجز ہوں گے یہ دونوں وصف تو تمام اہل محشر انسانوں میں عام ہوں گے، تیسرے بیتاب اور بےچین ادھر ادھر پھرنا جو پروانوں میں مشاہدہ کیا جاتا ہے یہ صورت خاص مومنین میں نہیں ہوگی وہ اپنی قبروں سے مطمئن اٹھیں گے) اور پہاڑ دھنکی ہوئی رنگین اون کی طرح ہوجاویں گے (عہن رنگین اون کو کہا جاتا ہے، پہاڑوں کے رنگ چونکہ مختلف ہیں وہ سب اڑتے پھریں گے جن کی مثال اس اون کی ہوگی جس میں مختلف رنگ کے بال ملے ہوئے ہوں اس روز اعمال انسانی تولے جائینگے) پھر جس شخص کا پلہ (ایمان کا) بھاری ہوگا (یعنی جو مومن ہوگا) وہ تو خاصر خواہ آرام میں ہوگا (یعنی نجات پاکر جنت میں جائے گا) اور جس شخص کا پلہ (ایمان کا) ہلکا ہوگا (یعنی کافر) اس کا ٹھکانا ہاویہ ہوگا اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ وہ (٢ اویہ) کیا چیز ہے (وہ) ایک دہکتی ہوئی آگ ہے۔ معارف ومسائل اس سورت میں اعمال کے وزن ہونے اور ان کے ہلکے بھاری ہونے پر دوزخ یا جنت ملنے کا ذکر ہے۔ وزن اعمال کی پوری تحقیق اور شبہات کا جواب سورة اعراف کے شروع میں گزر چکا ہے (معارف جلد سوم ص 526 تا 532) وہاں دیکھ لیا جائے اس میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ روایات حدیث اور آیات کی تطبیق سے معلوم ہوتا ہے کہ وزن اعمال غالباً دو مرتبہ ہوگا، ایک مرتبہ کے وزن سے مومن اور کافر کا امتیاز کردیا جائے گا ہر مومن کا پلہ بھاری اور کافر کا ہلکا رہے گا، پھر مؤمنین میں اعمال حسنہ اور سیسہ کا امتیاز کرنے کے لئے دوسرا وزن ہوگا، اس سورت میں بظاہر وہ پہلا وزن مراد ہے جس میں ہر مومن کا پلہ ایمان کی وجہ سے بھاری رہے گا خواہ اس کا عمل کیسا بھی ہو اور کافر کا پلہ ایمان نہ ہونے کے سبب ہلکا رہے گا خواہ اس نے کچھ نیک کام بھی کئے ہوں۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ قرآن کریم میں عام طور پر جزا و سزا میں تقابل کفار کا مؤمنین صالحین کیساتھ کیا گیا کہ اصلی مؤمنین کا ملین وہی ہیں، باقی رہے وہ مومنین جنہوں نے اعمال صالحہ اور سیسہ مخلوط کئے ہیں قرآن میں عام طور پر ان سے سکوت کیا گیا اور ان سب آیات میں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یا مت میں انسانوں کے اعمال تو لے جائیں گے گنے نہیں جائیں گے اور عمل کا وزن بقدر اخلاص اور مطابقت سنت کے بڑھتا ہے جس شخص کے عمل میں اخلاص بھی کامل ہو اور سنت کی مطابقت بھی مکمل ہو اگرچہ اس کے عمل تعداد میں کم ہوں اس کا وزن بہ نسبت اس شخص کے بڑھ جائے گا جس نے تعداد میں تو نماز روزے، صدقہ خیرات، حج عمرے بہت کئے مگر اخلاص میں کمی رہی یا سنت کی مطابقت میں کمی رہی۔ واللہ اعلم تمت سورة القارعہ بحمد اللہ تعالیٰ

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْقَارِعَۃُ۝ ١ ۙمَا الْقَارِعَۃُ۝ ٢ ۚوَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْقَارِعَۃُ۝ ٣ قرع القَرْعُ : ضرب شيء علی شيء، ومنه : قَرَعْتُهُ بِالْمِقْرَعَةِ. قال تعالی: كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعادٌ بِالْقارِعَةِ [ الحاقة/ 4] ، الْقارِعَةُ مَا الْقارِعَةُ [ القارعة/ 1-2 ] ( ق ر ع ) القرع ( ف ) کے اصل معنی ایک چیز کو دوسری چیز ہر مارنے کے ہیں اسی سے قرعیتہ بالمقر عۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی کورے سے سر زنش کرنے کے ہیں اور قیامت کے حادثہ کو قارعۃ کہا گیا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعادٌ بِالْقارِعَةِ [ الحاقة/ 4]( وہی ) کھڑ کھڑا نے والی ( جس کو ثمود اور عاد ( دونوں نے جھٹلا یا ۔ الْقارِعَةُ مَا الْقارِعَةُ [ القارعة/ 1- 2] کھڑ کھڑانے والی کیا ہے ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ دری الدّراية : المعرفة المدرکة بضرب من الحیل، يقال : دَرَيْتُهُ ، ودَرَيْتُ به، دِرْيَةً ، نحو : فطنة، وشعرة، وادَّرَيْتُ قال الشاعر : وماذا يدّري الشّعراء منّي ... وقد جاوزت رأس الأربعین والدَّرِيَّة : لما يتعلّم عليه الطّعن، وللناقة التي ينصبها الصائد ليأنس بها الصّيد، فيستتر من ورائها فيرميه، والمِدْرَى: لقرن الشاة، لکونها دافعة به عن نفسها، وعنه استعیر المُدْرَى لما يصلح به الشّعر، قال تعالی: لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق/ 1] ، وقال : وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 111] ، وقال : ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری/ 52] ، وكلّ موضع ذکر في القرآن وما أَدْراكَ ، فقد عقّب ببیانه نحو وما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة/ 10- 11] ، وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر/ 2- 3] ، وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة/ 3] ، ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار/ 18] ، وقوله : قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس/ 16] ، من قولهم : دریت، ولو کان من درأت لقیل : ولا أدرأتكموه . وكلّ موضع ذکر فيه : وَما يُدْرِيكَ لم يعقّبه بذلک، نحو : وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس/ 30] ، وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری/ 17] ، والدّراية لا تستعمل في اللہ تعالی، وقول الشاعر : لا همّ لا أدري وأنت الدّاري فمن تعجرف أجلاف العرب ( د ر ی ) الدرایۃ اس معرفت کو کہتے ہیں جو کسی قسم کے حیلہ یا تدبیر سے حاصل کی جائے اور یہ دریتہ ودریت بہ دریۃ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ( یعنی اس کا تعدیہ باء کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ اور باء کے بغیر بھی جیسا کہ فطنت وشعرت ہے اور ادریت بمعنی دریت آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ع اور شعراء مجھے کیسے ہو کہ دے سکتے ہیں جب کہ میں چالیس سے تجاوز کرچکاہوں قرآن میں ہے ۔ لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق/ 1] تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے کے بعد کوئی ( رجعت کی سبیلی پیدا کردے ۔ وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 111] اور میں نہیں جانتا شاید وہ تمہارے لئے آزمائش ہو ۔ ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری/ 52] تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں وما ادراک آیا ہے وہاں بعد میں اس کا بیان بھی لایا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة/ 10- 11] اور تم کیا سمجھتے کہ ہاویہ ) کیا ہے ؟ ( وہ ) دھکتی ہوئی آگ ہے ۔ وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر/ 2- 3] اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ۔ وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة/ 3] اور تم کو کیا معلوم ہے کہ سچ مچ ہونے والی کیا چیز ہے ؟ ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار/ 18] اور تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس/ 16] یہ بھی ) کہہ و کہ اگر خدا چاہتا تو ( نہ تو ) میں ہی یہ کتاب ) تم کو پڑھکر سناتا اور نہ وہی تمہیں اس سے واقف کرتا ۔ میں سے ہے کیونکہ اگر درآت سے ہوتا تو کہا جاتا ۔ اور جہاں کہیں قران میں وما يُدْرِيكَآیا ہے اس کے بعد اس بیان مذکور نہیں ہے ( جیسے فرمایا ) وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس/ 30] اور تم کو کیا خبر شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا ہے ۔ وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری/ 17] اور تم کیا خبر شاید قیامت قریب ہی آپہنچی ہو یہی وجہ ہے کہ درایۃ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال نہیں ہوتا اور شاعر کا قول ع اے اللہ ہی نہیں جانتا اور تو خوب جانتا ہے میں جو اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوا ہے بےسمجھ اور اجڈ بدر دکا قول ہے ( لہذا حجت نہیں ہوسکتا ) الدریۃ ( 1 ) ایک قسم کا حلقہ جس پر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی ہے ۔ ( 2 ) وہ اونٹنی جسے شکار کو مانوس کرنے کے لئے کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ اور شکار اسکی اوٹ میں بیٹھ جاتا ہے تاکہ شکا کرسکے ۔ المدوی ( 1 ) بکری کا سینگ کیونکہ وہ اس کے ذریعہ مدافعت کرتی ہے اسی سے استعارہ کنگھی یا بار یک سینگ کو مدری کہا جاتا ہے جس سے عورتیں اپنے بال درست کرتی ہیں ۔ مطعن کی طرح مد سر کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بہت بڑے نیزہ باز کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ عنبر میں زکوۃ نہیں ہے وہ ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(1 ۔ 5) قیامت کیسی کچھ قیامت ہے اور کیوں کہ دلوں کو ہلا دے گی اس لیے اس کو قارعہ بولا گیا جس روز آدمی پریشان پروانوں کی طرح ہوجائیں گے اور پہاڑ دھنکی ہوئی رنگین روئی کی طرح ہوجائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 "Qari'ah " literally means the "striking one" . Qar `is to strike one thing upon another so severely as to produce a noise. In view of this literal meaning, the word qari'ah is used for a dreadful disaster and a great calamity. At another place in the Qur'an this word has been used for a great affliction befalling a nation. In Surah Ar-Ra`d 31, it has been said: "As for the disbelievers, because of their misdeeds, one affliction or the other dces not cease to visit them every now and then." But, here the word al-Qari'ah has been for the Resurrection and in Surah AI-Haaqqah too the Resurrection has been described by this very epithet (v.4) . One should remember that here the whole Hereafter, from the first stage of Resurrection to the last stage of judgement and meting out of rewards and punishments, is being depicted together.

سورة القارعہ حاشیہ نمبر : 1 اصل میں لفظ قارعہ استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ٹھونکنے والی قرع کے معنی کسی چیز کو کسی چیز پر زور سے مارنے کے ہیں جس سے سخت آواز نکلے ۔ اس لغوی معنی کی مناسبت سے قارعہ کا لفظ ہولناک حادثے اور بڑی بھاری آفت کے لیے بولا جاتا ہے ۔ مثلا عرب کہتے ہیں قرعتہم القارعہ یعنی فلاں قبیلے یا قوم کے لوگوں پر سخت آفت آگئی ہے ۔ قرآن مجید میں بھی ایک جگہ یہ لفظ کسی قوم پر بڑی مصیبت نازل ہونے کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ سورہ رعد میں ہے وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا تُصِيْبُهُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَةٌ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان پر ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئہ نہ کوئی آفت نازل ہوتی رہتی ہے ( آیت 31 ) لیکن یہاں القارعہ کا لفظ قیامت کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور سورہ الحاقہ میں بھی قیامت کو اسی نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔ ( آیت 4 ) اس مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہاں قیامت کے پہلے مرحلے سے لے کر عذاب و ثواب کے آخری مرحلے تک پورے عالم آخرت کا یکجا ذکر ہورہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ١١۔ قارعہ سخت آواز کو کہتے ہیں صور کی آواز اس دن بہت سخت ہوگی اس لئے قیامت کا نام قارعہ رکھا گیا ہے بعض مفسروں نے امہ ھاویہ کے معنی یہ لکھے ہیں کہ ام دماغ کو کہتے ہیں اس لئے حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ دوزخی لوگ میں سر کے بل ڈالے جائیں گے لیکن صحیح معنی یہ ہیں کہ ھاویہ دوزخ کا نام ہے اور جس طرح بچہ کا ٹھکانا بچہ کی ماں ہوتی ہے اسی طرح دوزخ کی آگ کی گرمی ایک کم ستر حصے دنیا کی آگ سے بڑھ کر ہے اور تین ہزار برس تک دوزخ کی آگ دہکائی گئی ہے ١ ؎۔ اسی واسطے دوزخ کی آگ کو فقط آگ نہیں فرمایا دہکتی آگ فرمایا ہے جن لوگوں کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہوں گی۔ ان لوگوں کا ذکر اس سورة میں نہیں ہے حضرت عبد اللہ بن عباس اور اکثر سلف کا قول ہے کہ سورة اعراف میں اہل اعراف جن لوگوں کو فرمایا وہ یہی لوگ ہوں گے اور آخر کو یہ لوگ بھی بغیر دوزخ میں جانے کے جنت میں داخل ہوں گے۔ تفسر ابن مردویہ میں حضرت جابر (رض) کی مرفوع حدیث بھی اس باب میں ہے لیکن اس میں کسی قدر ضعف ہے۔ قیامت کے دن کس چیز کا وزن کیا جائے گا اگرچہ اس میں سلف کا اختلاف ہے لیکن نامہ اعمال کے تولے جانے کا قول صحیح معلوم ہوتا ہے حشر کے دن لوگ بدحواسی سے ایک پر ایک گریں گے اس لئے ان کی مثال یہاں پتنگوں کی اور سورة قمر میں ٹڈیوں کی فرمائی۔ (١ ؎ جامع ترمذی۔ ابواب صفۃ جھنم ص ٩٦ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة القارعہ۔ آیات ١ تا ١١۔ اسرار ومعارف۔ وہ روز حشر کو کھڑاکھڑا کر رکھ دے گا سارے نظاموں کو ختم کردے گا اور ہر شے آپس میں ٹکرا کر برباد ہوجائے گی اور پھر جب دوسرانفخہ ہوگاتوٹڈی دل کی طرح جمع ہونے لگیں گے جب ہر طرف چٹیل میدان ہوگا اور پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی طرح اڑچکے ہوں گے اور سب نشیب و فراز برابر ہوچکے ہوں گے تب اعمال کو تولاجائے گا یعنی محض شمار نہ کیا جائے گا بلکہ اعمال کا وزن ہوگا جو خلوص قلب سے عمل میں پیدا ہوتا ہے تو جس کا وزن بھاری ہوا یعنی خطا سے نیکی کا پلڑا زیادہ وزنی نکلا تو وہ موج کرے گا اور جس کا وزن کم پڑا اور برائیاں زیادہ ہوں گی مراد کافر ہے کہ نیکی کرے بھی تو اللہ اور آخرت کے لیے نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ تو اس کا ایمان ہی نہیں لہذا بےوزن ہوں گی تو اس کاٹھکانہ جہنم ہے اور جہنم کے بارے میں تو معلوم ہے کہ وہ سخت دہکتی ہوئی آگ ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : القارعۃ۔ کھڑکھڑانے والی۔ کالفراش المبثوث۔ جیسے بکھرے پرندے۔ کالعھن المنفوش۔ جیسے دھنکی ہوئی اون۔ ثقلت۔ بھاری ہوئے۔ موازین۔ وزن۔ عیشۃ راضیۃ۔ من پسند عیش و آرام۔ خفت۔ ہلکے ہوئے۔ امہ۔ اس کا ٹھکانا۔ نارحامیۃ ۔ دھکتی آگ تشریح : قارعہ کے معنی عظیم ، ہولناک حادثہ اور بڑی آفت ومصیبت کے آتے ہیں۔ قارعہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ کائنات کا یہ عظیم اور ہیت ناک حادثہ جب پیش آئے گا تو سارا نظام کائنات درہم برہم ہوکررہ جائے گا۔ زمین و آسمان، چاند، سورج، ستارے، انسان اور جن اور ساری مخلوق سب کے سب اس عظیم اور اچانک حادثہ میں ختم ہوجائیں گے۔ جب صور پھونکا جائے گا اور زمین زبردست جھٹکے اور زلزلوں سے ہلنا شروع وہگی تو ہر شخص ایک دوسرے پر اس طرح گرتے پڑتے دوڑ رہے ہوں گے جس طرح چھوٹے چھوٹے پروانے کسی روشنی کو دیکھ کر ایک دوسرے پر گرتے پڑتے نظر آتے ہیں۔ زبردست اور مضبوط پہاڑ رنگ برنگ کے اون کی طرح اور دھنکی ہوئی روئی کی طرح اڑتے پھریں گے۔ اس طرح زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر مخلوق پر فنا کی کیفیات طاری کردی جائیں گی۔ دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو اللہ کی ساری مخلوق زندہ ہوجائیگی۔ اب ایک نئی زمین اور ایک نیا آسمان ہوگا یہ میدان حشر ہوگا جس میں ابتدائے کائنات سے قیامت تک آنے والے تمام لوگ حاضر کردئیے جائیں گے۔ ہر شخص کے ساتھ اس کے اعمال کی جزا کے لیے اللہ کی عدالت قائم کی ہوگی۔ میزان عدل رکھ دی جائے گی۔ یہ میزان عدل ( انصاف کی ترازو) ایسی ہوگی جس میں چیزیں نہیں بلکہ انسان یا عمال اور اس کے خلوص کو تولا جائے گا۔ جس کے اعمال ایمان پر مضبوطی اور خلوص اور عمل صالح کی وجہ سے وزن دار اور بھاری ہوں گے اس کو راحتوں اور آرام و سکون کے لیے ایسی جنت میں د اخل کیا جائے گا جو اس کی امیدوں اور تمناؤں سے بھی زیادہ خوبصورت، حسین اور پرسکون ہوگی لیکن جن لوگوں کے اعمال بےوزن اور ہلکے ہوں گے جو زندگی بھر کفر و شرک اور ناشکری میں مبتلا رہے ہوں گے ان کو ” ھاویہ “ میں جھونک دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے وہ ” ھاویہ “ کیا ہوگی ؟ فرمایا وہ آگ سے بھرپور خندق ہوگی جس میں انہیں اوپر سے اس کے اندر پھینکا جائے گا۔ وزن دار اور ہلکے اعمال کے ہوں گے اس کے لیے ہمیں قرآن کریم سے جو رہنمائی ملتی ہے وہ یہ ہے کہ قیامت کے دن انسانی اعمال کا وزن بندے کے ایمان، خلوص اور حق وصداقت پر چلنے کی وجہ سے پیدا ہوگا جو لوگ زندگی بھر بھٹکتے رہنے کے باوجود اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہونے کو تیار نہ تھے اپنے آپ کو صحیح اور دوسروں کو غلط سمجھتے رہے وہ اس دن شدید نقصان اٹھائیں گے اور ان کے اعمال بےوزن ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے۔ ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو رکھ دیں گے۔ کسی کے ساتھ بےانصافی نہ ہوگی اور اگر کسی کارائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا وہ ہم اس سے کے سامنے لے آئیں گے اور حساب لینے کے لیے تو ہم ہی کافی ہیں۔ (سورۃ الانبیاء آیت نمبر 47) ایک جگہ ارشاد فرمایا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کہہ دیجیے کہ کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے کون لوگ ہوں گے ؟ وہ لوگ جن کی کوششیں دنیا کی زندگی ہی میں ضائع ہوگئیں جو یہ سمجھتے رہے کہ وہ جو کام کرر ہیں بہت اچھے کام ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیات کا اور اس کے ملنے سے انکار کیا تھا۔ ان کا کیا کرایا سب برباد ہوجائے گا اور قیامت کے دن ہم ان کو کوئی وزن نہ دیں گے۔ جہنم (ان کے اعمال کا) بدلہ ہے جس کے لیے انہوں نے کفر کیا تھا۔ میری نشانیوں کا انکار کیا تھا اور میرے رسولوں کا مذاق اڑایا تھا۔ (سورۃ الکہف آیت نمبر 104 تا 105) خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں ہر چیز کا وزن اس کے ظاہر کے اعتبار سے ہوتا ہے جب کہ قیامت کے دن یہ دیکھا جائے گا کہ کون شخص ایمان کے ساتھ پرخلوص عمل صالح لے کر آیا ہے۔ جو عمل ایمان و اخلاص سے خالی ہوگا وہ دنیا والوں کی نظر میں کتنا بھی خوبصورت اور وزن دار ہو اللہ کے ہاں وہ بےوزن ہی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت میں ہر طرح کی رسوائیوں اور اعمال کی بےوزنی سے محفوظ فرمائے۔ آمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : العادیات اس فرمان پر ختم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بھی ہر کسی کے اعمال سے باخبر ہوگا۔ القارعہ میں قیامت کی حولناکیوں کا ذکر کرنے کے بعد واضح فرمایا ہے کہ نیک لوگ عیش کی زندگی میں ہوں گے اور برے لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دئیے جائیں گے۔ عربوں کے ہاں جب زور کے ساتھ دروازہ کھٹکھٹایا جائے تو وہ اس کے لیے ” قرع الباب “ کے الفاظ بولتے ہیں کہ اس نے زور کے ساتھ دروازہ کھٹکھٹایا۔ اسرافیل کے پہلی دفعہ صورپھونکنے کے بعد جو آواز پیدا ہوگی وہ اس قدر تیز اور دھماکہ خیز ہوگی کہ اس کی وجہ سے ہر چیز آپس میں ٹکر اکر ختم ہوجائے گی۔ سیارے آپس میں ٹکرا جائیں گے اور پہاڑ ٹکرا کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ پہاڑوں کے ٹکرانے سے یوں آوازیں نکلیں گی جس طرح توپ کا گولہ چلنے سے آوازنکلتی ہے، پہاڑ اس طرح ریت بن کر اڑ رہے ہوں گے جس طرح فضا میں دھنی ہوئی رنگ دار روئی اڑتی ہے، پہاڑوں سے اڑنے والے ذرات کو اس لیے دھنی ہوئی رنگ دار روئی سے تشبیہ دی ہے کہ شدید گرمی میں اڑنے والا گرد و غبار دور سے سرخ دکھائی دیتا ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے بتلا یا ہے : (وَ مِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیْضٌ وَّ حَمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَ غَرَابِیْبُ سُوْدٌ) (فاطر : ٢٧) ” اور پہاڑوں میں بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں۔ جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ “ قیامت کی سختی اور گرمی کی وجہ سے لوگ اس طرح حواس باختہ اور پراگندہ ہوں گے جس طرح پتنگے روشنی پر بکھرے ہوتے ہیں، اس کے بعد لوگوں کو محشر کے میدان میں جمع کرکے ان کے اعمال کا وزن کیا جائے گا۔ جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوا وہ عیش کی زندگی میں ہوگا اور جس کے گناہوں کا پلڑا بھاری ہوا اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہے۔ آپ کیا جانیں کہ ہاویہ کیا ہے ؟ عربی زبان میں ہاویہ آگ کی گہری خندق کو کہا جاتا ہے۔ جہنم میں آگ کی بڑی بڑی گہری خندقیں ہوں گی، ان میں ان لوگوں کو پھینکا جائے گا جن کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا۔ رب ذوالجلال نے قیامت کی ہولناکیوں اور جہنم کی آگ سے ڈرانے کے لیے یہ الفاظ دو بار استعمال کیے ہیں کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کیا جانیں کہ ” اَلْقَارِعَۃُ “ اور ” ہَاوِیَۃٌ“ کیا ہیں ؟ یہ اسلوب اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا شخص اس بات کا احساس کرے کہ جب اللہ کا رسول قیامت کی کھٹکھٹاہٹ اور جہنم کی آگ کی شدت کو نہیں جانتے تو میں کون ہوتا ہوں جو اس سے لاپرواہ ہوجاؤں۔ یہاں جہنم کی آگ کے لیے ” اُمُّہٗ ہَاوِیَۃٌ“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ جس طرح ماں اپنے بچے کو گود میں لیتی ہے کہ وہ گر نہ پائے۔ جہنم کی آگ بھی اس طرح مجرموں کو اپنی لپیٹ میں لے گی کہ مجرم کی جان چھوٹنے نہیں پائے گی۔ (وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ اِِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا۔ اِِنَّہَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا) (الفرقان : ٦٥، ٦٦) ” اور نیک لوگ دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے جہنم کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔ وہ رہنے اور ٹھرنے کی بدترین جگہ ہے۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) ( رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جہنم کی آگ کو ایک ہزار سال تک بھڑکا یا گیا یہاں تک کہ وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک جلایا گیا تو وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک جلایا گیا یہاں تک کہ وہ سیاہ ہوگئی اب اس کا رنگ سیاہ ہے۔ “ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِّنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً ا مِّنَ نَّارِ جَھَنَّمَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْھِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَّتِسْعِیْنَ جُزْءً ا کُلُّھُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار وأنھا مخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں یقیناً اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہاری یہ آگ جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔ عرض کیا گیا کہ اللہ کے رسول ! جلانے کے لیے یہی آگ کافی تھی۔ آپ نے فرمایا اس آگ سے وہ انہتر حصے زیادہ گرم ہے ان میں سے ہر حصے کی گرمی دنیا کی آگ کے برابر ہے۔ “ مسائل ١۔ قیامت کی کھٹکھٹاہٹ کا کوئی شخص اندازہ نہیں کرسکتا۔ ٢۔ جس کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا اس کے لیے ہاویہ ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی طرح ہوں گے۔ ٤۔ قیامت کے دن پہاڑ دھنی ہوئی رنگین اون کی طرح اڑیں گے۔ ٥۔ قیامت کے دن جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوا وہ عیش کی زندگی بسر کرے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن اعمال کا وزن کیا جائے گا : ١۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اپنے اعمال کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔ (النحل : ٢٥) ٢۔ قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور ہوگا۔ (الاعراف : ٨) ٤۔ قیامت کے دن ہم عدل کا میزان قائم کریں گے۔ (الانبیاء : ٤٧) ٥۔ جس کی نیکیوں کا وزن زیادہ ہوا وہ عیش و عشرت میں ہوگا۔ (المومنون : ١٠٢) ٦۔ جس کی نیکیوں کا وزن کم ہوا اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہے۔ (القارعہ : ٨، ٩) ٧۔ قیامت کے دن چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی سامنے آجائے گی اور چھوٹی سے چھوٹی برائی بھی مجرم کے سامنے ہوگی۔ (الزلزال : ٧، ٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بات کا آغاز ایک منفرد لفظ سے ہوتا ہے القارعہ۔ گویا یہ ایک گولہ ہے جو آکر گرتا ہے اس کی کوئی صفت یا کوئی خبر سیاق کلام میں نہیں ہے۔ یہ اس لئے تاکہ یہ لفظ اپنی آواز ، اپنے اثر اور اپنی شدت سے فضا میں ایک گونج پیدا کردے ، جس کا ایک طویل اشارہ ہے۔ اس کے فوراً بعد پھر ایک سوال آتا ہے : ما القارعة (2:101) ” کیا ہے وہ کھٹکھٹانے والی ؟ “ گویا وہ ایک نامعلوم ، پوشیدہ اور خوفناک بات ہے جو کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ اس کے بعد پھر ایک سوال کے ذریعہ پہلے سوال کا جواب دیا جاتا ہے کہ تم نہیں جانتے کہ وہ کیا ہے ؟ وما ادرک ................ القارعة (3:101) ” تم کیا جانو کہ وہ عظیم حادثہ کیا ہے ؟ “ یہ اس قدر عظیم حادثہ ہوگا کہ تمہارے قیاس وادراک کے دائرہ سے باہر ہے۔ تمہارا تصور اسے نہیں چھوسکتا۔ اب اس عظیم حادثہ کے کچھ واقعات بتاکر اس کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے۔ اس کی تعریف اور حقیقت بیان نہیں کی جاتی۔ کیونکہ اس کی حقیقت کا ادراک ممکن ہی نہیں ہے جیسا کہ پہلے کہہ دیا گیا اور واقعات یہ ہیں :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہ سورة القارعة کا ترجمہ ہے، القارعیہ قرع یقرع اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کا ترجمہ ہے کھڑکھڑانے والی چیز، جب قیامت قائم ہوگی تو لوگ اپنے اپنے مشغولوں میں کاروباری دھندوں میں لگے ہوں گے۔ کوئی سور ہا ہوگا، کوئی جاگ رہا ہوگا وہ بغتة یعنی اچانک آجائے گی۔ ساری زمین میں جو زندہ لوگ ہوں گے اور زمین کے اندر جو مردے ہوں گے سب ہی کو کھڑا کر دے گی، ذہنوں میں اس کی اہمیت بڑھانے کے لیے اول فرمایا : ﴿اَلْقَارِعَةُۙ٠٠١﴾ (کھڑکھڑانے والی) اس میں بظاہر خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے اور حقیقت میں سب انسان اس کی مخاطب ہیں۔ قیامت کی کھڑکھڑاہٹ بیان کرتے ہوئے انسانوں کے اور پہاڑوں کے بعض حالات بیان فرمائے ارشاد فرمایا ﴿ يَوْمَ يَكُوْنُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِۙ٠٠٤ ﴾ یعنی قیامت کا ایسا ہولناک منظر ہوگا کہ انسان حیرانی اور پریشانی کی وجہ سے ایسے بکھرے ہوئے نظر آئیں گے جیسے پروانے روشنی کے آس پاس منتشر نظر آتے ہیں، ان میں کوئی ٹھہراو اور جماؤ نہیں ہوتا، یہاں سورة القارعہ میں ﴿ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِۙ٠٠٤ ﴾ اور سورة القمر میں ﴿جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌۙ٠٠٧﴾ اور پہاڑ جو زمین پر سب سے بڑی اور بوجھل اور بھاری چیز سمجھے جاتے ہیں قیامت کے دن ان کا یہ حال ہوگا کہ وہ اون کی طرح اڑتے ہوئے پھریں گے۔ اور اون بھی وہ جسے کسی دھننے والے نے دھن دیا ہو، جب پہاڑوں کا یہ حال ہوگا تو زمین پر بسنے والی دوسری مخلوق کا کیا حال ہوگا اسی کو سورة الواقعہ میں فرمایا ﴿وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّاۙ٠٠٥ فَكَانَتْ هَبَآءً مُّنْۢبَثًّاۙ٠٠٦﴾ (اور پہاڑ ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے وہ پھیلا ہوا غبار بن جائیں گے) اور سورة التکویر میں فرمایا ہے ﴿وَ اِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ۪ۙ٠٠٣﴾ (اور جبکہ پہاڑوں کو چلا دیا جائے گا) ۔ لفظ العھن رنگین اون کے لیے بولا جاتا ہے یہ قید احترازی نہیں ہے بلکہ پہاڑوں کے حسب حال یہ لفظ لایا گیا ہے کیونکہ وہ عموماً رنگین ہوتے ہیں اور یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ اون جانوروں کے پشتوں سے کاٹ کر حاصل کیا جاتا ہے اور وہ عموماً کالے یا لال یا کتھئی رنگ کے ہوتے ہیں اس لیے جانب مشبہ بہ کی حالت کے مطابق لفظ العھن (رنگین اون) لایا گیا انسانوں اور پہاڑوں کی حالت بیان کرنے کے بعد (جو قیامت کے دن ہوگی) میدان حشر میں حاضر ہونے والوں کے حساب کتاب اور حساب کتاب کے نتائج کا تذکرہ فرمایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” القارعۃ “ یہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ واتفقوا علی ان القارعۃ اسم من اسماء القیامۃ (کبیر) قیامت کے دن نفخ صور کی شدید آواز کے علاوہ اجرام علویہ اور سفلیہ کے تصادم سے بھی نہایت ہولناک شور بپا ہوگا اس لیے اسے القارعۃ کہا گیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) وہ کھڑ کھڑادینے والا حادثہ۔