Surat ul Qariya
Surah: 101
Verse: 9
سورة القارعة
فَاُمُّہٗ ہَاوِیَۃٌ ؕ﴿۹﴾
His refuge will be an abyss.
اس کا ٹھکانا ہاویہ ہے ۔
فَاُمُّہٗ ہَاوِیَۃٌ ؕ﴿۹﴾
His refuge will be an abyss.
اس کا ٹھکانا ہاویہ ہے ۔
His mother will be Hawiyah. It has been said that this means he will be falling and tumbling headfirst into the fire of Hell, and the expression `his mother' has been used to refer to his brain (as it is the mother of his head). A statement similar to this has been reported from Ibn Abbas, Ikrimah, Abu Salih and Qatadah. Qatadah said, "He will fall into the Hellfire on his head." Abu Salih made a similar statement when he said, "They will fall into the Fire on their heads." It has also been said that it means his mother that he will return to and end up with in the Hereafter will be Hawiyah, which is one of the names of the Hellfire. Ibn Jarir said, "Al-Hawiyah is only called his mother because he will have no other abode except for it." Ibn Zayd said, "Al-Hawiyah is the Fire, and it will be his mother and his abode to which he will return, and where he will be settled." Then he recited the Ayah, وَمَأْوَاهُمُ النَّار (Their abode will be the Fire.) (3:151) Ibn Abi Hatim said that it has been narrated from Qatadah that he said, "It is the Fire, and it is their abode." Thus, Allah says in explaining the meaning of Al-Hawiyah, وَمَا أَدْرَاكَ مَا هِيَهْ
9۔ 1 ہاویہ جہنم کا نام ہے اس کو ہاویہ اس لیے کہتے ہیں کہ جہنمی اس کی گہرائی میں گرے گا۔ اور اس کو ام (ماں) سے اس لیے تعبیر کیا کہ جس طرح انسان کے لیے ماں، جائے پناہ ہوتی ہے اسی طرح جہنمیوں کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ بعض کہتے ہیں کہ ام کے معنی دماغ کے ہیں۔ جہنمی، جہنم میں سرکے بل ڈالے جائیں گے۔ (ابن کثیر)
[٦] ھاویۃ : ھوی یھوی بمعنی بلندی سے زمین پر گرنا۔ اُھویۃ گہرے کنوئیں کو بھی کہتے ہیں اور گہرے گڑھے کو بھی اور ھاویۃ سے مراد جہنم کی گہرائی یا گہری جہنم بھی ہوسکتا ہے۔ اور دوزخ میں ایک گہرے گڑھے کا نام بھی۔ مطلب یہ ہے کہ جس شخص کی نیکیوں کا پلڑا اوپر اٹھ گیا، اسے جہنم کی گہرائی میں یا جہنم کے گہرے گڑھے میں پھینک دیا جائے گا اور اُمّ کا لغوی معنی ماں یعنی جس طرح بچہ کا ملجا و ماویٰ ماں اور اس کی گود ہی ہوتی ہے اسی طرح ایسے شخص کا ملجا و ماویٰ یہی ھاویہ ہی ہوگا۔ اس کے علاوہ اسے کوئی اور ٹھکانہ میسر نہ آئے گا۔
فَاُمُّہٗ ہَاوِيَۃٌ ٩ ۭ أمّ الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته . ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف/ 4] أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام/ 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک وقیل : أم الأضياف وأم المساکين کقولهم : أبو الأضياف ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید/ 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه/ 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه وکذا : هوت أمّه والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان . ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ } ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ { لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا } ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ } ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق { وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ } ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ { وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ { يَا ابْنَ أُمَّ } ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔
5 The words in the original a"re: ammu hu hawiyah: "his mother will be hawiyah. " Hawiyah is from hawa, which means to fall from a height to a depth, and bawiyah is the deep pit into which something falls. Hell has been called Hawiyah because it will be very deep and the culprits will be thrown into it from the height. As for the words, "his mother will be Hawiyah ", they mean: Just as the mother's lap is the child's abode, so Hell will be the culprits' only abode in the Hereafter.
سورة القارعہ حاشیہ نمبر : 5 اصل الفاظ ہیں اُمُّهٗ هَاوِيَةٌ اس کی ماں ھاویہ ہوگی ھاویہ ھوی سے ہے جس کے معنی اونچی جگہ سے نیچی جگہ گرنے کے ہیں ، اور ھاویہ اس گہرے گڑھے کے لیے بولا جاتا ہے جس میں کوئی چیز گرے ۔ جہنم کو ھاویہ کے نام سے اس لیے موسوم کیا گیا ہے کہ وہ بہت عمیق ہوگی اور اہل جہنم اس میں اوپر سے پھینکے جائیں گے ۔ رہا یہ ارشاد کہ اس کی ماں جہنم ہوگی ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ماں کی گود بچے کا ٹھکانا ہوتی ہے ، اسی طرح آخرت میں اہل جہنم کے لیے جہنم کے سوا کوئی ٹھکانا نہ ہوگا ۔
(101:9) فامہ ھاویۃ جملہ جواب شرط ہے ف جواب شرط میں ہے۔ امہ مضاف مضاف الیہ۔ اس کی ماں۔ اس کا ٹھکانا۔ مسکن۔ ماں کو مسکن اس لئے کہا جاتا ہے کہ اولاد کے سکون کا مقام ماں ہی ہوتی ہے۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع من ہے۔ ھاویۃ دوزخ میں ایک درجہ کا نام ہے یہ ایک نہایت ہی گہرا گڑھا ہے جس کی گہرائی خدا ہی کو معلوم ہے۔ پس اس کا ٹھکانا ھاویۃ ہوگا۔
فامہ ھاویة (9:101) ” تو اس کی ماں گہرائی کھائی ہے “۔ ماں دراصل بچے کی جائے پناہ ہوتی ہے ، تو ایسے لوگوں کی جائے پناہ جہنم کی گہری کھائی ہوگی اس لئے یہ ان کی ماں ہوئی۔ کیا ہی خوب انداز تعبیر ہے جو موقع ومقام کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے۔ یہاں عذاب کو مجمل رکھا گیا ہے تاکہ آیت مابعد میں اس کی وضاحت ایسے انداز میں کی جائے جو بہت ہی موثر ہو۔
اہل دوزخ کے لیے ﴿ فَاُمُّهٗ هَاوِيَةٌ ﴾ فرمایا یعنی ان کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا ﴿ام﴾ عربی میں ماں کو کہتے ہیں اس میں یہ بتادیا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا ذوق رکھنے والے دنیا میں گناہوں سے ہی چپکے رہتے ہیں جیسے ماں اپنے بچوں سے چمٹی رہتی ہے اسی طرح دوزخ ان سے چمٹ جائے گی لفظ ھاویہ ھویٰ یھوی سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کا معنی ہے گہرائی میں گرنے والی چیز دوزخ کی گہرائی میں تو انسان گریں گے لیکن دوزخ کو ہاویہ سے تعبیر فرمایا یہ استعمال مجازی ہے جو ظرف کے معنی میں ہے۔ حضرت عتبہ بن غزوان (رض) نے بیان فرمایا کہ ہمیں یہ بتلایا گیا ہے کہ پتھر کو دوزخ کے منہ سے اندر پھینکا جائے گا تو وہ ستر سال تک گرتا رہے گا پھر بھی اس کی آخری گہرائی کو نہ پہنچے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ٤٩٧ از مسلم)
(9) تو اس کا ٹھکانا ہادیہ ہوگا بہرحال وزن اعمال کے بعد جس کا پلہ ایمان و اخلاص کے اعتبار سے بھاری ہوگا تو وہ جنت میں چلا جائے گا جہاں من مانی زندگی اور خاطر خواہ آرام میسرہوگا اور جس کا ایمان و اخلاص کے اعتبار سے اعمال کا وزن ہلکا ہوگا یعنی دین حق کا منکر ہوگا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ یعنی جہنم کے سب سے نیچے درجے میں ہوگا جہاں زندگی کی مثل زندگی نہ ہونیکے ہے۔ بہرحال معلوم ہوا کہ عمل خواہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو اگر ایمان اور اخلاص نہ ہو تو اس کا کچھ وزن ہی نہیں آمد مال کو کہتے ہیں کیونکہ ماں کی گود اصل سکون کی چیز ہے اس لئے یہاں ترجمہ مسکن اور ٹھکانا کیا گیا ہے کیونکہ ان کا اصل مسکن ہاویہ ہے ہاویہ اتنا عمیق طبقہ ہے کہ اس کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہوسکتا اس لئے اس کے متعلق سوال فرماتے ہیں۔