Surat ut Takasur
Surah: 102
Verse: 1
سورة التكاثر
اَلۡہٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۙ﴿۱﴾
Competition in [worldly] increase diverts you
ز یادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کر دیا ۔
اَلۡہٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۙ﴿۱﴾
Competition in [worldly] increase diverts you
ز یادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کر دیا ۔
Allah Says: أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ
مال و دولت اور اعمال: ارشاد ہوتا ہے کہ دنیا کی محبت اس کے پا لینے کی کوشش نے تمہیں آخرت کی طلب اور نیک کاموں سے بےپرواہ کر دیا تم اسی دنیا کی ادھیڑ بن میں رہے کہ اچانک موت آ گئی اور تم قبروں میں پہنچ گئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اطاعت پروردگار سے تم نے دنیا کی جستجو میں پھنس کر بےرغبتی کر لی اور مرتے دم تک غفلت برتی ( ابن ابی حاتم ) حسن بصری فرماتے ہیں مال اور اولاد کی زیادتی کی ہوس میں موت کا خیال پرے پھینک دیا صحیح بخاری کتاب الرقاق میں ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہم لو کان لابن ادم واد من ذھب یعنی اگر ابن آدم کے پاس ایک جنگل بھر کرسونا ہو اسے قرآن کی آیت ہی سمجھتے رہے یہاں تک کہ الھا کم التکاثر نازل ہوئی مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں جناب رسول اللہ صلی اللہ کی خدمت میں جب آیا تو آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے آپ نے فرمایا ابن آدم کہتا رہتا ہے کہ میرا مال میرا مال حالانکہ تیرا مال صر فوہ ہے جسے تو نے کھا کر فنا کر دیا یا پہن کر پھاڑ دیا یا صدقہ دے کر باقی رکھ لیا صحیح مسلم شریف میں اتنا اور زیادہ ہے کہ اس کے سوا جو کچھ ہے اسے تو تو لوگوں کے لیے چھوڑ چھاڑ کر چل دے گا بخاری کی حدیث میں ہے میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں جن میں سے دو تو پلٹ آتی ہیں صرف ایک ساتھ رہ جاتی ہے گھر والے مال اور اعمال اہل و مال لوٹ آئے عمل ساتھ رہ گئے مسند احمد کی حدیث میں ہے ابن آدم بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن دو چیزیں اس کے ساتھ باقی رہ جاتی ہیں لالچ اور امنگ حضرت صحاک نے ایک شخص کے ہاتھ میں ایک درہم دیکھ کر پوچھا یہ درہم کس کا ہے؟ اس نے کہا میرا فرمایا تیرا تو اس وقت ہو گا کہ کسی نیک کام میں تو خرچ کر دے یا بطور شکر رب کے خرچ کرے حضرت احنف نے اس واقعہ کو بیان کر کے پھر یہ شعر پڑھا انت للمال اذا امسکتہ فاذا انفقتہ فالمال لک یعنی جب تک تو مال کو لیے بیٹھا ہے تو تو مال کی ملکیت ہے ہاں جب اسے خرچ کردے گا اس وقت مال تیری ملکیت میں ہو جائیگا ابن بریدہ فرماتے ہیں بنو حارثہ اور بنو حارث انصار کے قبیلے والے اپنے میں سے ایسوں کو پیش کرتے تھے جب زندوں کے ساتھ یہ فخر و مباہات کر چکے تو کہنے لگے آؤ قبرستان میں چلیں وہاں جا کر اپنے اپنے مردوں کی قبروں کی طرف اشارے کر کے کہنے لگے بتاؤ اس جیسا بھی تم میں کوئی گذرا ہے وہ انہیں اپنے مردوں کے ساتھ الزام دینے لگے اس پر یہ دونوں ابتدائی آیتیں اتریں کہ تم فخرو مباہات کرتے ہوئے قبرستان میں پہنچ گئے اور اپنے اپنے مردوں پر بھی فخر و غرور کرنے لگے چاہے تھا کہ یہاں آ کر عبرت حاصل کرتے اپنا مرنا اور سڑنا گلنا یاد کرتے ۔ حضرت قتادہ رحملہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لوگ اپنی زیادتی اور اپنی کثرت پر گھمنڈ کرتے تھے یہاں تک کہ ایک ایک ہو کر قبروں میں پہنچ گئے مطلب یہ ہے کہ بہتات کی چاہت نے غفلت میں ہی رکھا یہاں تک کہ مر گئے اور قبروں میں دفن ہوگئے صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک اعرابی کی بیمار پرسی کو گئے اور حسب عادت فرمایا کوئی ڈر خوف نہیں انشاء اللہ گناہوں سے پاکیزگی حاصل ہوگی تو اس نے کہا آپ اسے خوب پاکا بتلا رہے ہیں یہ تو وہ بخار ہے جو بوڑھے بڑوں پر جوش مارتا ہے اور قبر تک پہنچا کر رہتا ہے آپ نے فرمایا اچھا پھریوں ہی سہی اس حدیث میں بھی لفظ تزیرہ القبور ہے اور یہاں قرآن میں بھی زرتم المقابر ہے پس معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مر کر قبر میں دفن ہونا ہی ہے ترمذی میں ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب تک یہ آیت نہ اتری ہم عذاب قر کے بارے میں شک میں ہی ررہے یہ حدیث غریب ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس آیت کی تلاوت کی پھر کچھ دیر سوچ کر فرمانے لگے میمون! قبروں کا دیکھنا تو صرف بطور زیارت ہے اور ہر زیارت کرنے والا اپنی جگہ لوٹ جاتا ہے یعنی خواہ جنت کی طر فخواہ دوزخ کی طرف ایک اعرابی نے بھی ایک شخص کی زبانی ان دونوں آیتوں کی تلاوت سن کر یہی فرمایا تھا کہ اصل مقام اور ہی ہے پھر اللہ تعالیٰ دھمکاتے ہوئے دو دو مرتبہ فرماتا ہے کہ حقیقت حال کا علم تمہیں ابھی ہو جائیگا یہ مطلب یھ بیان کیا گیا ہے کہ پہلے مراد کفار ہیں دوبارہ مومن مراد ہیں پھر فرماتا ہے کہ اگر تم علم یقینی کے ساتھ اسے معلوم کر لیتے یعنی اگر ایسا ہوتا تو تم غفلت میں نہ پڑتے اور مرتے دم تک اپنی آخری منزل آخرت سے غافل نہ رہتے پھر جس چیز سے پہلے دھمکایا تھا اسی کا بیان کر رہا ہے کہ تم جہنم کو انہی ان آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اس کی ایک ہی جنبش کے ساتھ اور تو اور انبیاء علیہم السلام بھی ہیبت و خوف کے مارے گھٹنوں کے بل گر جائیں گے اس کی عظمت اور دہشت ہر دل پر چھائی ہوئی ہوگی جیسے کہ بہت سی احادیث میں بہ تفصیل مروی ہے پھر فرمایا کہ اس دن تم سے نعمتوں کی بازپرس ہوگی صحت امن رزق وغیرہ تمام نعمتوں کی نسبت سوال ہو گا کہ ان کا شکر کہاں تک ادا کیا ابن ابی حاتم کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ ٹھیک دوپہر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر سے چلے دیکھا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی مسجد میں آ رہے ہیں پوچھا کہ اس وقت کیسے نکلے ہو کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز نے آپ کو نکالا ہے اسی نے مجھے بھی نکالا ہے اتنے میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آ گئے ان سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سوال کیا اور آپ نے بھی یہی جواب دیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں بزرگوں سے باتیں کرنی شروع کیں پھر فرمایا کہ اگر ہمت ہو تو اس باغ تک چلے چلو کھانا پینا مل ہی جائیگا اور سائے دار جگہ بھی ہم نے کہا بہت اچھا پس آپ ہمیں لے کر ابو الہیشم انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باغ کے دروازہ پر آئے آپ نے سلام کیا اور اجازت چاہی ام ہیثم انصاریہ دروازے کے پیچھے ہی کھڑی تھیں سن رہی تھیں لیکن اونچی آواز سے جواب نہیں دیا اور اس لالچ سے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور زیادہ سلامی کی دعا کرئیں اور کئی کئی مرتبہ آپ کا سلام سنیں جب تین مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سلام کر چکے اور کوئی جواب نہ ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے دئیے اب تو حضرت ابو الہیشم کی بیوی صاحبہ دوڑیں اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کی آواز سن رہی تھی لیکن میرا ارادہ تھا کہ اللہ کرے آپ کئی کئی مرتبہ سلام کریں اس لیے میں نے اپنی آواز آپ کو نہ سنائی آپ آئیے تشریف للے چلئے آپ نے ان کے اس فعل کو اچھی نظروں سے دیکھا پھر پوچھا کہ خود ابو الہیشم کہاں ہیں مائی صاحبہ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ بھی یہیں قریب ہی پانی لینے گئے ہیں آپ تشریف لائیے انشاء اللہ آتے ہی ہوں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں رونق افروز ہوئے اتنے میں ہی حضرت ابو الہیشم بھی آ گئے بیحد خوش ہوئے آنکھوں ٹھنڈک اور دل سکون نصیب ہوا اور جلدی جلدی ایک کھجور کے درخت پر چڑھ گئے اور اچھے اچھے خوشے اتار اتار کر دینے لگے یہاں تک کہ خود آپ نے روک دیا صحابی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گدلی اور تر اور بالکل پکی اور جس طرح کی چاہیں تناول فرمائیں جب کھجوریں کھا چکے تو میٹھا پانی لائے جسے پیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے یہی وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے ابن جریر کی اسی حدیث میں ہے کہ ابو بکر عمر بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور پوچھا کہ یہاں کیسے بیٹھے ہو؟ دونوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھوک کے مارے گھر سے نکل کھڑے ہوئے ہیں فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے میں بھی اسی وجہ سے اس وقت نکلا ہوں اب آپ انہیں لے کر چلے اور ایک انصری کے گھر آئے ان کی بیوی صاحبہ مل گئیں پوچھا کہ تمہارے میاں کہاں گئے ہیں ؟ کہاں گھر کے لیے میٹھا پانی لانے گئے ہیں اتنے میں تو وہ مشک اٹھائے ہوئے آہی گئے خوش ہوگئے اور کہنے لگے مجھ جیسا خوش قسمت آج کوئی بھی نہیں جس کے گھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں مشک تو لٹکا دی اور خود جا کر کھجوروں کے تازہ تازہ خوشے لے آئے آپ نے فرمایا چن کر الگ کر کے لاتے تو جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نے چاہا کہ آپ اپنی طبیعت کے مطابق اپنی پسند سے چن لیں اور نوش فرمائیں پھر چھری ہاتھ میں اٹھائی کہ کوئی جانور ذبح کر کے گوشت پکائیں تو آپ نے فرمایا دیکھو ودھ دینے والے جانور ذبح نہ کرنا چنانچہ اس نے ذبیحہ کیا آپ نے وہیں کھانا کیا پھر فرمانے لگے دیکھو بھوکے گھر سے نکلے اور پیٹ بھرے جا رہے ہیں یہی وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہو گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد غلام حضرت ابو عسیب کا بیان ہے کہ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے آواز دی میں نکلا پھر حضور ابو بکر کو بلایا پھر حضرت عمر کو بلایا پھر کسی انصاری کے باغ میں گئے اور اس سے فرمایا لاؤ بھائی کھانے کو دو وہ انگور کے خوشے اٹھا لائے اور آپ کے سامنے رکھ دئیے آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے کھائے پھر فرمایا ٹھنڈا پانی پلواؤ وہ لائے آپ نے پیا پھر فرمانے لگے قیامت کے دن اس سے باز پرس ہوگی حضرت عمر نے وہ خوشہ اٹھا کر زمین پر دے مارا اور کہنے لگے اس کے بارے میں بھی اللہ کے ہاں پرسش ہوگی ۔ آپ نے فرمایا ہاں صرف تین چیزوں کو تو پرسش نہیں ۔ پردہ پوشی کے لائق کپڑا بھوک روکنے کے قابل ٹکڑا اور سردی گرمی میں سرچھپانے کے لیے مکان ( مسند احمد ) کی ایک اور حدیث میں ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ کر سنائی تو صحابہ کہنے لگے ہم سے کس نعمت پر سوال ہو گا ؟ کھجوریں کھا رہے ہیں اور پانی پی رہے ہیں تلواریں گردنوں میں لٹک رہی ہیں اور دشمن سر پر کھڑا ہے آپ نے فرمایا گھبراؤ نہیں عنقریب نعمتیں آ جائیں گی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم بیٹھے ہوئے تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے اور نہائے ہوئے معلوم ہوتے تھے ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تو آپ خوش و خرم نظر آتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں پھر لوگ تونگری کا ذکر کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو اس کے لیے تونگری کوئی بری چیز نہیں اور یاد رکھو متقی شخص کے لیے صحت تونگری سے بھی اچھی ہے اور خوش نفسی بھی اللہ کی نعمت ہے ( مسند احمد ) ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ترمذی شریف میں ہے نعمتوں کے سوال میں قیامت والے دن سب سے پہلے یہ کہا جائیگا کہ ہم نے تجھے صحت نہیں دی تھی اور ٹھنڈے پانی سے تجھے آسودہ نہیں کیا کرتے تھے؟ ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ اس آیت ثم لتسئلن الخ کو سنا کر صحابہ کہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو جو کی روٹی اور وہ بھی آدھا پیٹ کھا رہے ہیں تو اللہ کی طرف سے وحی آئی کہ کیا تم پیر بچانے کے لیے جوتیاں نہیں پہنتے اور کیا تم ٹھنڈے پانی نہیں پیتے؟ یہی قابل پرسش نعمتیں ہیں اور روایت میں ہے کہ امن اور صحت کے بارے میں سوال ہو گا پیٹ بھر کھانے ٹھنڈے پانی سائے دار گھروں میٹھی نیند کے بارے میں بھی سوال ہو گا ۔ شہد پینے لذتیں حاصل کرنے صبح و شام کے کھانے ، گھی شہد اور میدے کی روٹی وغیرہ غرض ان تمام نعمتوں کے بارے میں اللہ کے ہاں سوال ہو گا حضرت ابن عباس اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بدن کی صحت کانوں اور آنکھوں کی صحت کے بارے میں بھی سوال ہو گا کہ ان طاقتوں سے کیا کیا کام کیے جیسے قرآن کریم میں ہے ان اسلمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسؤلا ہر شخص سے اس کے کان اس کی آنکھ اور اس کے دل کے بارے میں بھی پوچھ ہوگی لوگ بہت ہی غفلت برت رہے ہیں صحت اور فراغت یعنی نہ تو ان کا پورا شکر ادا کرتے ہیں اور ان کی عظمت کو جانتے ہیں نہ انہیں اللہ کی مرضی کے مطابق صرف کرتے ہیں بزار میں ہے تہ بند کے سوا سائے دار دیواروں کے سوا اور روٹی کے ٹکڑے کے سوال ہر چیز کا قیامت کے دن حساب دینا پڑے گا مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے کہ اللہ عز و جل قیامت کے دن کہے گا اے ابن آدم میں نے تجھے گھوڑوں پر اور اونٹوں پر سوار کرایا عورتیں تیرے نکاح میں دیں تجھے مہلت دی کہ تو ہنسی خوشی آرام و راحت سے زندگی گزارے اب بتا کہ اس کا شکریہ کہاں ہے؟ اللہ کے فضل و کرم سے سورہ تکاثر کی تفسیر ختم ہوئی ۔ فالحمدللہ ۔
1۔ 1 الھیٰ یلھی کے معنی ہیں، غافل کردینا۔ تکاثر، زیادتی کی خواہش۔ یہ یہ عام ہے، مال، اولاد، اعوان و انصار اور خاندان و قبیلہ وغیرہ سب کو شامل ہے۔ ہر وہ چیز، جس کی کثرت انسان کو محبوب ہو اور کثرت کے حصول کی کوشش و خواش اسے اللہ کے احکام اور آخرت سے غافل کر دے۔ یہاں اللہ تعالیٰ انسان کی اس کمزوری کو بیان کر رہا ہے۔ جس میں انسانوں کی اکثریت ہر دور میں مبتلا رہی ہے۔
[١] لہو کا لغوی مفہوم :۔ الْھٰکُم : لھو کا معنی عموماً کھیل تماشا لیا جاتا ہے۔ لیکن اصل میں لہو ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اصل مقصد سے یا کسی اہم تر چیز سے ہٹائے رکھے اور اَلْھٰی کے معنی میں کسی گھٹیا کام میں مشغول رہ کر اس سے اہم تر کام سے خیال ہٹا دینا گویا الْھٰی میں توجہ ہٹا دینے کا سبب غفلت یا بھول نہیں ہوتی بلکہ دوسرے فضول کام ہوتے ہیں۔ خ تکاثر کی مختلف صورتیں :۔ تَکَاثُر کا لفظ تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (١) آدمی کوئی چیز زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ (٢) لوگ کسی چیز کے حصول میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کریں (٣) وہ ایک دوسرے پر فخر جتلائیں کہ دوسرے کے مقابلہ میں انہیں فلاں چیز کثرت سے حاصل ہے۔ رہی یہ بات کہ یہ کثرت کس چیز میں ہو ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو انسان کے نفس کو مرغوب ہو وہ اسے زیادہ سے زیادہ تعداد یا مقدار میں حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ چیزیں مال و دولت، اولاد اور بلند وبالا اور عالیشان رہائش گاہیں، منصب و اقتدار، کسی قبیلے کے افراد کی کثرت سب کچھ ہوسکتا ہے۔
(١) الھکم التکاثر :” الھی یلھی “” لھو “ سے ہے، جس کا معنی ہے ” کسی چیز کیساتھ اتنا لگاؤ اور دلچسپی جو اسے اہم چیزوں سے غافل کر دے۔ “” التکاثر “” کتثرہ “ سے باب تفاعل کا مصدر ہے، جس میں تشارک کا معین پایا جاتا ہے، یعنی ایک دوسرے سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش۔ مال و اولاد اور جاہ شرف، الغرض دنیا کی ہر چیز دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ حاصل کرنے کی حرص اور پھر حاصل ہوجانے پر دوسروں پر فخر کرنا۔ (٢) اس حرص کی حد کیا ہے ؟ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لوکان لابن ادم وادیان من مال لابتعی ثالثاً ، ولا یملا جوف ابن آدم الا التراب ، ویتوب اللہ علی من تاب)] بخاری، الرقاق، باب ما یتقی من فنتۃ المال ’: ٦٣٣٦” اگر ابن آدم کے پاس مال کی بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری وادی تلاش کرے گا اور آدم کے بیٹے کے پیٹ کو مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھتری اور اللہ اس کی طرف پلٹ آتا ہے جو واپس پلٹ آئے۔ “ سب سے زیادہ نقصان دہ حرص دو چیزوں کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ما ذنبان جائعات ارسلا فی عنم بافسدلھا من حرص المرء علی المال وا لشرف لدینہ) (ترمذی، الزھد، باب حدیث ما ذنبان جائعان …: ٢٣٨٦، وصححہ الالبانی)”’ و بھوکے بھییے جو بھیڑ بکریوں میں چھوڑ دیئے جائیں، وہ انہیں اتنا خراب نہیں کرتے جتنا آدمی کے مال اور شرف (اونچا ہونے) کی حرص اس کے دین کو خراب کرتی ہے۔ “ (٣) کس چیز سے غافل کردیا ؟ اللہ کے احکام سے، اس کے دین سے اور آخرت سے۔
Special Merit of Surah At-Takathur The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have once asked the noble Companions: Is there anyone from amongst you who has the strength to recite one thousand verses a day?|" The blessed Companions replied: |"Who can recite a thousand verses a day?|" The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"Can you not recite Surah At-Takathur?|" This implies that Surah At-Takathur equals in weight and worth to a thousand verses, thus stressing its great importance. [ Mazhari with reference to Hakim and Baihagi on the authority of Ibn Umar ]. Warning Against Materialistic Attitude Verse [ 1] أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ (You are distracted by mutual competition in amassing [ worldly benefits ].) The word takathur is derived from the root kathrah, and means &to amass much wealth&. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) and Hasan Basri (رح) have assigned this interpretation to it. Qatadah رحمۃ اللہ علیہ says that this word is also used in the sense of &taking pride in the abundance of material goods&. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) reports that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) recited this verse and explained its meaning, thus: |"Acquiring wealth but not paying out of it the obligatory dues.|" [ Qurtubi ].
خلاصہ تفسیر دو نبوی سامان پر فخر کرنا تم کو (آخرت سے) غافل کئے رکھتا ہے یہاں تک کہ تم قبرساتنوں میں پہنچ جاتے ہو (یعنی مر جاتے ہو کذافی تفسیر ابن کثیر مرفوعاً ) ہرگز نہیں (یعنی دنیوی سامان قابل فخر ہے اور نہ آخرت قابل غفلت) تم کو بہت جلد (قبر میں جاتے ہی یعنی مرتے ہی) معلوم ہوجاوے گا پھر ( ’ و بارہ تم کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ) ہرگز (یہ چیزیں قابل فخر اور توجہ کے اور آخرت قابل غفلت و انکار کے) نہیں تم کو بہت جلد (قبر سے نکلتے ہی یعنی حشر میں) معلوم ہوجاوے گا (کذافی فتح البیان مرفوعاً اور سہ بارہ پھر تم کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ) ہرگز (یہ چیزیں قابل فخر و توجہ کے اور آخرت قابل غفلت اور انکار کے) نہیں (اور) اگر تم یقینی طور پر جان لیتے (یعنی دلائل صحیحہ میں غور و توجہ سے کام لیتے اور اس کا یقین آجاتا تو کبھی اس سامان پر فخر اور آخرت ہے غفلت میں نہ پڑتے) واللہ تم لوگ ضرور دوزخ کو دیکھو پھر (کرر تاکید کے لئے کہا جاتا ہے) واللہ تم لوگ ضرور اس کو ایسا دیکھنا دیکھو گے جو کہ خود یقین ہے (کیونکہ یہ دیکھنا استدلال اور دلائل کی راہ سے نہیں ہوگا جس سے یقین حاصل ہونے میں کبھی دیر بھی لگتی ہے بلکہ یہ آنکھوں کا مشاہدہ ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اپنی آنکھوں دیکھ لینے کو عین الیقین سے تعبیر فرمایا ہے) پھر (ور بات سنو کہ) اس روز تم سب سے نعمتوں کی پوچھ ہوگی۔ (ہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا حق ایمان و اطاعت کیسا بجا لائے یا نہیں۔ ) معارف و مسائل الکم التکاثر، تکاثر کثرت سے مشتق ہے معنی ہیں کثرت کیساتھ مال و دولت جمع کرنا۔ حضرت ابن عباس اور حسن بصری نے اس لفظ کی یہی تفسیر کی ہے اور یہ لفظ بمعنے تفاخر بھی استعمال کیا جاتا ہے حضرت قتادہ کی یہی تفسیر ہے اور حضرت ابن عباس کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے الہاکم التکاثر پڑھ کر فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ مال کو ناجائز طریقوں سے حاصل کیا جائے اور مال پر جو فرائض اللہ کے عائد ہوتے ہیں انہیں خرچ نہ کریں (قرطبی)
اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ ١ ۙ لهي أَلْهاهُ كذا . أي : شغله عمّا هو أهمّ إليه . قال تعالی: أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر/ 1] ، رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور/ 37] ولیس ذلک نهيا عن التّجارة وکراهية لها، بل هو نهي عن التّهافت فيها والاشتغال عن الصّلوات والعبادات بها . الھاۃ کذا ۔ یعنی اسے فلاں چیز نے اہم کام سے مشغول کردیا ۔ قرآن میں ہے : أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر/ 1] لوگوتم کو کثرت مال وجاہ واولاد کی خواہش نے غافل کردیا ۔ رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور/ 37] یعنی ایسے لوگ جن کو خدا کے ذکر سے نہ سود اگر ی غافل کرتی ہے اور نہ خرید وفروخت ۔ اس آیت سے تجارت کی ممانعت یا کرامت بیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں پروانہ دار مشغول ہو کر نماز اور دیگر عبادات سے غافل ہونے کی مذمت کی طرف اشارہ ہے نفس تجارت کو قرآن نے فائدہ مند اور فضل الہی سے تعبیر کیا ہے ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔
(1 ۔ 2) حسب و نسب میں فخر کرنا تمہیں غافل کیے رکھتا ہے یہاں تک کہ تم لوگ قبروں میں پہنچ جاتے ہو۔ واقعہ یہ پیش آیا کہ بنی سہم و بنی عبد مناف نے آپس میں ایک دوسرے پر فخر کیا کہ کس کی تعداد زیادہ ہے تو بنی عبد مناف کی تعداد زیادہ نکلی۔ اس پر بنی سہم کہنے لگے کہ ہمیں زمانہ جاہلیت میں باغیوں نے ہلاک کردیا تھا اس لیے ہمارے مردوں اور زندگوں کو گنو چناچہ ایسا ہی ہوا تو اس صورت میں بنی سہم کی تعداد زیادہ ہوگئی تو اسی کو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس فخر کے چکر میں تم مردوں کا بھی ذکر کرنے لگتے ہو یا یہ کہ اسی میں زندگی گزار کر مرجاتے ہو۔
آیت ١{ اَلْہٰٹکُمُ التَّکَاثُرُ ۔ } ” تمہیں غافل کیے رکھا ہے بہتات کی طلب نے ! “ التکاثر کے معنی مال جمع کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے بھی ہیں اور مال و دولت کی کثرت پر فخر کرنے کے بھی۔ دولت انسان کے پاس چاہے جتنی بھی ہو اس کی طبیعت اس سے بھرتی نہیں اور وہ بدستور مزید حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔
1 The words alhakum at-takathur of the original are too vast in meaning to be fully explained in a passage Alhakmn is from lahv which originally means heedlessness, but in Arabic this word is used for every occupation which engrosses man so completely that he becomes heedless of the more important things in life. When the word alhakum is made from this root, it will mean that man has become so obsessed with some occupation that he has lost sight of everything more important than it. He is pre-occupied with it, is wholly lost in pursuit of it and this obsession has rendered him heedless of everything else in life. Takathur is from kathrat, which has throe meanings: (1) That man should strive to gain more and more of everything; (2) that the people should vie with one another for gaining more and more; and (3) that they should brag and boast of possessing greater abundance of things than others. Therefore, alhakum at-takathur would mean: " Takathur (greed for more and more) has so occupied you that its pursuit has made you heedless of every higher thing in Iife." In this sentence it has not been indicated as to abundance of what is meant in takathur, heedlessness of what is implied in alhakrun, and who are the addresses of alhakum. In the absence of such an explanation, the words become applicable in their most general and extensive meaning. Thus, takathur dces not remain restricted in meaning and application but applies to all the gains and benefits, pleasures and comforts, the passion for acquiring more and more means of power and authority, vying with others in pursuit of these and bragging and boasting of their abundance. Likewise, the addressees of alhakum also do not remain limited but the people of all ages, in their individual as well as collective capacity, become its addressees. It gives the meaning that the passion for acquiring more and more of the worldly wealth, vying with others in pursuit of it and bragging and boasting of its possession has affected individuals as well as societies. Like wise, since in alhakum at-takathur it has not been pointed out as to which people are engrossed in acquisitiveness and of what they are rendered heedless, it has also become very extensive in meaning. It means that the passion for piling up more and more has made the people heedless of everything more important than it. They have become heedless of God, of the Hereafter, of the moral bounds and moral responsibilities, of the rights of others and of their own obligations to render those rights. They are only after raising the standard of living and do not bother even if the standard of humanity be falling. They want to acquire more and more of wealth no matter how and by what means it is acquired. They desire to have more and more means of comfort and physical enjoyment and, overwhelmed by this greed, they have become wholly insensitive as to the ultimate end of this way of living. They are engaged in a race with others to acquire more and more of power, more and more of forces, more and more of weapons, and they have no idea that all this is a means of filling God`s earth with tyranny and wickedness and of destroying humanity itself. In short, takathur has many forms, which have engrossed individuals as well as societies so completely that they have become heedless of everything beyond the world, its benefits and pleasures.
سورة التکاثر حاشیہ نمبر : 1 اصل میں اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ فرمایا گیا ہے جس کے معنی میں اتنی وسعت ہے کہ ایک پوری عبارت میں بمشکل اس کو ادا کیا جاسکتا ہے ۔ الکھکم لہو سے ہے جس کے اصل معنی غفلت کے ہیں ، لیکن عربی زبان میں یہ لفظ ہر اس شغل کے لیے بولا جاتا ہے جس سے آدمی کی دلچسپی اتنی بڑھ جائے کہ وہ اس میں منہمک ہوکر دوسری اہم تر چیزوں سے غافل ہوجائے ۔ اس مادے سے جب الکاکم کا لفظ بولا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کسی لہو نے تم کو اپنے اندر ایسا مشغول کرلیا ہے کہ تمہیں کسی اور چیز کا جو اس سے اہم تر ہے ، ہوش باقی نہیں رہا ہے ۔ اسی کی دھن تم پر سوار ہے ، اسی کی فکر میں تم لگے ہوئے ہو ، اور اس انہماک نے تم کو بالکل غافل کردیا ہے ۔ تکاثر کثرت سے ہے اور اس کے تین معنی ہیں ۔ ایک یہ کہ آدمی زیادہ سے زیادہ کثرت حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔ دوسرے یہ کہ لوگ کثرت کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کریں ۔ تیسرے یہ کہ لوگ ایک دوسرے کے مقابلے میں اس بات پر فخر جتائیں کہ انہیں دوسروں سے زیادہ کثرت حاصل ہے ۔ پس اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ کے معنی ہوئے تکاثر نے تمہیں اپنے اندر ایسا مشغول کرلیا ہے کہ اس کی دھن نے تمہیں اس سے اہم تر چیزوں سے غافل کردیا ہے ۔ اس فقرے میں یہ تصریح نہیں کی گئی ہے کہ تکاثر میں کس چیز کی کثرت اور الھکم میں کس چیز سے غافل ہوجانا مراد ہے ، اور الھکم ( تم کو غافل کردیا ہے ) کے مخاطب کون لوگ ہیں ۔ اس عدم تصریح کی وجہ سے ان الفاظ کا اطلاق اپنے وسیع ترین مفہوم پر ہوجاتا ہے ، تکاثر کے معنی محدود نہیں رہتے بلکہ دنیا کے تمام فوائد و منافع ، سامان عیش ، اسباب لذت ، اور وسائل قوت و اقتدار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی سعی و جدوجہد کرنا ، ان کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ، اور ایک دوسرے کے مقابلے میں ان کی کثرت پر فخر جاتانا اس کے مفہوم میں شامل ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح الھکم کے مخاطب بھی محدود نہیں رہتے بلکہ ہر زمانے کے لوگ اپنی انفرادی حیثیت سے بھی اور اجتماعی حیثیت سے بھی اس کے مخاطب ہوجاتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوجاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دنیا حاصل کرنے ، اور اس میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے اور دوسروں کے مقابلے میں اس پر فخر جتانے کی دھن افارد پر بھی سوار ہے اور اقوام پر بھی ۔ اسی طرح اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ میں چونکہ اس امر کی صراحت نہیں کی گئی کہ تکاثر نے لوگوں کو اپنے اندر منہمک کر کے کسی چیز سے غافل کردیا ہے ، اس لیے اس کے مفہوم میں بھی بڑی وسعت پیدا ہوگئی ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کو اس تکاثر کی دھن نے ہر اس چیز سے غافل کردیا ہے جو اس کی بہ نسبت اہم تر ہے ۔ وہ خدا سے غافل ہوگئے ہیں ۔ عاقبت سے غافل ہوگئے ہیں ۔ اخلاقی حدود اور اخلاقی ذمہ داریوں سے غافل ہوگئے ہیں ۔ حق داروں کے حقوق اور ان کی ادائیگی کے معاملہ میں اپنے فرائض سے غافل ہوگئے ہیں ۔ انہیں معیار زندگی بلند کرنے کی فکر ہے ، اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ معیار آدمیت کس قدر گر رہا ہے ۔ انہیں زیادہ سے زیادہ دولت چاہیے ، اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کس ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے ۔ انہیں عیش و عشرت اور جسمانی لذتوں کے سامان زیادہ مطلوب ہیں ، اس ہوس رانی میں غرق ہوکر وہ اس بات سے بالکل غافل ہوگئے ہیں کہ اس روش کا انجام کیا ہے ۔ انہیں زیادہ سے زیادہ طاقت ، زیادہ سے زیادہ فوجیں ، زیادہ سے زیادہ ہتھیار فراہم کرنے کی فکر ہے ، اور اس معاملہ میں ان کے درمیان ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی دوڑ جارہی ہے ، اس بات کی فکر انہیں نہیں ہے کہ یہ سب کچھ خدا کی زمین کو ظلم سے بھر دینے اور انسانیت کو تباہ و برباد کردینے کا سروسامان ہے ۔ غرض تکاثر کی بے شمار صورتیں ہیں جنہوں نے اشخاص اور اقوام سب کو اپنے اندر ایسا مشغول کر رکھا ہے کہ انہیں دنیا اور اس کے فائدوں اور لذتوں سے بالا تر کسی چیز کا ہوش نہیں رہا ہے ۔
1: یعنی دُنیا سمیٹنے کی دُھن میں لگ کر تم آخرت کو بھولے ہوئے ہو۔
١۔ ٨۔ صحت بدن ‘ وقت پر غذا کا ملنا ‘ ٹھنڈے پانی کا ملنا ‘ اس طرح سب چیزیں جن پر آدمی کی زیست کا مدار ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو کام میں لاتے ہیں اور اطاعت الٰہی سے غافل ہیں اور رات دن زیادتی مال اور اولاد کی حرص ہو ہوس میں ان لوگوں کی زیست کٹتی ہے اس ساری سورة میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو متنبہ فرمایا ہے کہ آدمی کے پیچھے موت ایسی لگی ہوئی ہے کہ مرتے دم تک بھی آدمی مال اور اولاد کی ہوس میں لگا رہے تو بھی دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے سب چھوڑ جانے کی چیزیں ہیں۔ جو لوگ ان چھوڑ جانے کی چیزوں میں اس طرح مصروف رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی شکر گزاری سے غفلت کریں گے قیامت کے دن ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو کام میں لانے کی جواب دہی مشکل ہوجائے گی۔ صحیح ١ ؎ مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے دیدار الٰہی اور حساب و کتاب کی ایک بہت بڑی حدیث ہے اور اس حدیث کا ایک ٹکڑا گویا اس سورة کی تفسیر ہے۔ حاصل اس ٹکڑے کا یہ ہے کہ جو لوگ دنیا میں صاحب نعمت اور اللہ کے رو برو کھڑے ہونے اور حساب و کتاب سے غافل ہیں۔ اس طرح کے لوگوں میں سے ہر ایک شخص کا حساب و کتاب یوں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ فرمائیگا کہ اے شخص کیا میں نے تجھ کو دنیا میں عزت دار مال دار اور ہر طرح کے صاحب نعمت نہیں پیدا کیا تھا۔ جب یہ شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اقرار کرے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا جس خدا نے ان نعمتوں کو پیدا کیا تھا اس کی پیدا کی ہوئی نعمتوں کو برت کر اس خدا کی یاد بھی تو نے کچھ دل میں رکھی تھی ؟ یہ شخص جب اس سوال کا جواب پورا نہ دے سکے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا دنیا میں جس طرح سونے میری یاد کو بھلا دیا اسی طرح میں نے بھی آج اپنی رحمت سے تجھ کو محروم کردیا اور بھلا دیا۔ اگرچہ علماء ٢ ؎ مفسرین کے نزدیک مشہور قول یہی قرار پایا ہے کہ یہ سورة مکی ہے لیکن صحیح قول یہ ہے کہ یہ سورة مدنی ہے کیونکہ ترمذی ٣ ؎ میں حضرت علی (رض) کی جو روایت ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورة کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کو عذاب قبر کی تصدیق ہوئی ہے اور حضرت عائشہ کی صحیحین ١ ؎ کی حدیث یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ایک یہودیہ نے عذاب قبر کا ذکر کیا۔ اس وقت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عذاب قبر سے نجات کی دعا ہر نماز کے بعد مانگنی شروع کی اور فرمایا ہاں عذاب قبر حق ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اگر یہ سورة مکی ہوتی اور عذاب قبر کی تصدیق مکہ میں صحابہ (رض) کو اس سورة کے نازل ہونے سے ہوچکی ہوتی تو مدینہ میں عذاب قبر کا اس طرح سے نیا ذکر کیوں ہوتا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تعلیم امت کے لئے ہر نماز کے بعد نجات عذاب قبر کی دعاء مانگتے اور یہ فرماتے کہ ہاں عذاب قبر حق ہے۔ تفسیر ٢ ؎ ابن ابی حاتم میں ابن بریدہ سے روایت ہے کہ انصار کے دو قبیلوں نے کچھ حسب و نسب کے فخر کی باتیں کی تھیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورة نازل فرمائی اس شان نزول سے بھی یہ سورة مدنی معلوم ہوتی ہے کیونکہ انصار مکہ میں کہاں تھے۔ (١ ؎ صحیح مسلم۔ کتاب الزھد ص ٤٠٩ جلد ٢۔ ) (٢ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣٨٦ جلد ٦۔ ) (٣ ؎ جامع ترمذی۔ تفسیر سورة التکاثر ص ١٩٤ جلد ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخایر باب ماجاء فی عذاب القبر الخ ص ١٨٣ ج ١۔ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٤٤ ج ٤)
(102:1) الہکم التکاثر : الہی ماضی واحد مذکر غائب الہاء (افعال) مصدر سے بمعنی زیادہ ضروری چیز سے غافل رکھنا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ تم کو غفلت میں کھا۔ التکاثر : بہتات، زیادہ طلبی، دولت و جاہ، عزت و مرتبہ، مال اور اولاد کی کثرت کے لئے باہم جھگڑنا۔ بروزن تفاعل مصدر ہے۔ مال و متاع کی مزید چاہت و طلب (حرص نے) تم کو غافل کر رکھا۔ باب تفاعل کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت باہمی اشتراک بھی ہے یعنی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے تم نے مال و متاع کی مزید سے مزید طلب و سعی میں دیگر بہتر اور زیادہ ضرور امور سے غفلت برتی۔
سورة التکاثر۔ آیات ١ تا ٨۔ اسرار ومعارف۔ اے انسان تجھے کثرت مال کی ہوس نے اپنااسیر کردیا اور تو اللہ کی اطاعت بھول کرنا جائز طریقے سے مال جمع کرنے میں لگارہا یہاں تک قبر میں جاپہنچا اور یقینا وہاں پہنچ کر تو سب حال واضح ہوجائے گا بلکہ سب کچھ جان لوگے جب دوزخ کو دیکھو گے اور علم یقین حاصل ہوگا حضرت ابن عباس فرمایا کرتے کہ جو حال دیکھ کرہوتا ہے خبر سن کر وہ اثر نہیں ہوتا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو طور پر خبر دی گئی کہ آپ کی قوم گوسالہ پوجنے میں لگی ہے مگر جب خود آکر دیکھاتوبھڑک اٹھے اور الواح پھینک ماریں تو لوگوں تم بھی حشر میں جہنم کو روبرو دیکھو گے تب اللہ کریم کی سب نعمتوں کا حساب دینا ہوگا اور سب کے بارے پرسش ہوگی۔
لغات القرآن : الھا۔ بھلائے رکھا۔ غافل کئے رکھا۔ التکاثر۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کثرت نے۔ زرتم۔ تم نے دیکھ لی۔ سوف تعلمون۔ بہت جلد تم جان لو گے۔ علم الیقین۔ یقین کا علم۔ ترون۔ تم ضرور دیکھو گے۔ عین الیقین۔ آنکھ سے حاصل ہونے والا یقین۔ تسئلن۔ تم پوچھے جائو گے۔ النعیم۔ نعمتیں تشریح : آخرت کی فکر رکھتے ہوئے صبر و قناعت اختیار کرنا، اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق جائز اور حلال ذرائع سے مال و دولت حاصل کرنے کی جدوجہد کرنا۔ جس کا بنیادی مقصد اللہ کی رضا و خوشنودی، اپنے بال بچوں کی مناسب دیکھ بھال، غریب، ضرورت مند اور محتاجوں سے ہمدردی اور بھلائی کا جذبہ رکھنا جس میں فخر و غرور، حرص اور لالچ نہ ہو۔ ہر قدم پر اس بات کا خیال رکھنا کہ اللہ نے جو بھی نعمتیں دی ہیں آخرت میں ان کا حساب دینا ہے۔ ان بنیادی باتوں کا خیال رکھتے ہوئے مال و دولت حاصل کرنے کے لیے محنت و مشقت، جدوجہدا ور بھاگ دوڑ کرنا کسی طرح عبادت سے کم نہیں ہے۔ اس جدوجہد کی قطعاً ممانعت نہیں ہے۔ لیکن جن لوگوں کا مقصد زندگی صرف مال و دولت سمیٹنا، اپنی شان و شوکت کا اظہار کرنا، لوگوں پر رعب اور دھونس جمانے کے لیے اونچی اونچی بلڈنگیں بنانا، لمبی چوڑی سواریاں حاصل کرنا، حلال و حرام کی پرواہ نہ کرنا اور آخرت سے غفلت اختیار کرنا ہو اس کی سخت ممانعت ہے۔ ایسے لوگ کبھی اس بات پر غور وفکر نہیں کرتے کہ یہ تمام چیزیں اس وقت تک ان کے ساتھ ہیں جب تک موت کا فرشت ان کے سامنے آکر کھڑا نہیں ہوجاتا۔ جیسے ہی موت آئے گی یہ تمام چیزیں ان سے چھین لی جائیں گی۔ اسی بات کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ ” آدمی کہتا ہے میرا مال میرا مال۔ حالانہ تیر امال تو صرف اتنا ہے جو تنے کھا کر فنا کردیا یا پہن کر پرانا اور بوسیدہ کردیا یا صدقہ کرکے اس کو (آخرت کے لیے) آگے بھیج دیا۔ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والا ہے اور تو اس کو لوگوں کے لیے چھوڑ کرجانے والا ہے۔ “ (مسلم، ترمذی، مسند احمد) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس مال کو اپنا مال کہتا ہے درحقیقت وہ اس کا نہیں ہے بلکہ وہ اپنے وارثوں کے مال کا نگران ہے۔ آنکھ بند ہوتے ہی اس کے وارثوں میں سے ہر ایک اپنا حصہ کھینچنے کی فکر میں لگ جاتا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب کوئی مرجاتا ہے تو فرشتہ آگے آگے یہ کہتا جاتا ہے کہ تو کیا لے کر آیا ہے ؟ اور جو مرنے والے کے وارث ہیں وہ کہتے ہیں کہ تو کیا چھوڑ کر گیا ہے ؟ جو آدمی مال و دولت کے لالچ میں پڑجاتا ہے اور اسی کو مقصد زندگی بنالیتا ہے وہ جتنی بھی دولت جمع کرلیتا ہے اس پر صبر و قناعت نہیں کرتا بلکہ دن رات اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے اس کو دگنے سے دگنا کیسے کرسکتا ہوں۔ اس کی ہوس کا منہ کھلتا ہی چلا جاتا ہے۔ صرف قبر کی مٹی ہی اس کے ہوس کے منہ کو بھر سکتی ہے۔ اس بات کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ” اگر آدم زاد کے لیے سونے سے بھری ہوئی ایک وادی موجود ہو تو وہ چاہے گا کہ ایسی دو وادیاں اور ہوجائیں ( اس کی ہوس بڑھتی ہی چلی جاتی ہے) ۔ مٹی کے سوا کوئی چیز اس کے منہ کو بھر نہیں سکتی۔ لیکن اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ “ (صحیح بخاری) درحقیقت یہی تکاثر ہے جو آخرت کی ابدی زندگی سے غافل کئے رکھتا ہے یہاں تک کہ اس کو موت آجاتی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” الھکم التکاثر “ پڑھ کر ارشاد فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ مال جو ناجائز طریقوں سے حاصل کیا جائے اور اس پر جو فرائض ہیں ان پر خرچ نہ کیا جائے ۔ (قرطبی) فرمایا کہ آج تم جس عذاب جہنم کا انکار کررہے ہو نہ تو وہ جہنم دور ہے اور نہ اس دنیا سے جانے کا وقت دور ہے وہ بہت جلد آنے والا ہے۔ ہر انسان بہت جلد اس جہنم کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ کر یقین کرنے پر مجبو رہوجائے گا۔ فرمایا کہ اس کے بعد ہر شخص سے ان تمام نعمتوں کے متعلق پوچھا جائے گا جو دنیا میں اسے عطا کی گئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل تو ارشاد نہیں فرمائی کہ کن نعمتوں کے متعلق سوال ہوگا۔ البتہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص سے دیکھنے، سننے اور سوچنے کی طاقتیں جو نعمت کے طور پر عطا فرمائی گئیں ہیں ان کے بارے میں سوال بھی کیا جائے گا۔ جو لوگ ان سوالوں کے صحیح جواب دیں گے ان کے لیے جنت اور اس کی ابدی راحتیں ہوں گی اور جو اس امتحان میں فیل ہوجائیں گے ان کے لیے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہوگی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ محشر کے دن کوئی شخص اس وقت تک اپنی جگہ سے ہل نہ سکے گا جب تک وہ پانچ سوالات کے جوابات نہ دے دے۔ (1) ۔ اس نے اپنی عمر کن کاموں میں کھپائی ؟ (2) ۔ اس نے اپنی جوانی کی طاقتوں کو کن کاموں میں خرچ کیا ؟ (3) ۔ وہ مال جو اس نے کمایا وہ کس طریقے سے حاصل کیا تھا (جائز یا ناجائز طریقے پر) ؟ (4) ۔ اس نے جو مال و دولت حاصل کیا تھا اس کو کن مصارف میں خرچ کیا ؟ (5) ۔ اللہ نے جو علم اس کو دیا تھا اس نے اس پر کتنا عمل کیا تھا ؟ سورۃ التکاثر بہت چھوٹی سی سورت ہے مگر غور فکر کرنے والے جانتے ہیں کہ اللہ نے اس میں زندگی اور اس کے متعلق چند جملوں میں دنیا اور آخرت کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک اور خصوصیت بھی ہے۔ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم میں کوئی شخص اس کی قدرت و طاقت رکھتا ہے کہ ہر روز قرآن کریم کی ایک ہزار آیات پڑھا کرے ؟ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کون روزانہ ایک ہزار آیتیں پڑھ سکتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم میں کوئی الھکم التکاثر نہیں پڑھ سکتا ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص سورة تکاثر کو پڑھے گا اس کو ایک ہزار آیتیں پڑھنے کا ثواب ملے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
فہم القرآن ربط سورت : القارعہ میں بتلایا گیا ہے کہ مجرموں کو جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل کی جائے گا التّکاثر میں اس کی بنیادی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جہنمی آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ اس سورت کی ابتدا ” اَلْہٰی “ کے لفظ سے ہورہی ہے۔ عربی زبان میں ” اَلْہٰی یَلْہٰی “ کا معنٰی ہے کسی چیز کے ساتھ ایسا لگاؤ جس کی وجہ سے انسان اپنے اہم معاملات سے لاپرواہ اور غافل ہوجائے۔” التَّکَاثُرُ “ کے تین مفہوم لیے گئے ہیں۔ ١۔ زیادہ سے زیادہ مال واسباب جمع کرنا۔ ٢۔ مال کی کثرت میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا۔ ٣۔ مال و اسباب کی کثرت پر فخر و غرور کرنا۔ یاد رہے کہ دین اسلام دنیا کے اسباب اور اس کی ترقی میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتا، اسلام صرف یہ چاہتا ہے کہ لوگ دین اور دنیا کے درمیان توازن قائم کریں اگر دین اور دنیا میں مقابلہ ہو تو دین کو ترجیح دی جائے، لیکن ہر دور میں انسانوں کی اکثریت کا یہ حال رہا ہے کہ وہ مال واسباب کی محبت میں دین اور آخرت کو فراموش کردیتے ہیں۔ جس کا قرآن مجید نے اس طرح شکوہ کیا ہے۔ ” تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے یہ بات پہلے صحیفوں میں بھی کہی گئی تھی۔ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔ “ (الاعلیٰ : ١٦ تا ١٩) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں، جو لوگ ایسا کریں وہ خسارے میں رہنے والے ہیں، جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو، قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ اس وقت کہہ کہ اے میرے رب تو نے کیوں نہ مجھے تھوڑی سی مہلت اور دی کہ میں صدقہ کرتا اور صالح لوگوں میں شامل ہوجاتا۔ “ (المنافقون : ٩ تا ١١) یہی ہلاکت اور پچھتاوا ہے جس کا اس سورت میں ذکر کیا گیا ہے کہ اے لوگو ! تمہیں دنیا کے مال واسباب کے تکاثر نے ہلاک کردیا ہے، تم مرتے دم تک دنیا کے پیچھے پڑے رہتے ہو، یہاں تک کہ قبروں تک پہنچ جاتے ہو۔ انسان کی زندگی اور موت کے بعد چار مرحلے ایسے آتے ہیں جب انسان کو یقین ہوجاتا ہے کہ اس نے دنیا کی خاطر اپنے آپ کو ہلاک کرلیا ہے۔ پہلا مرحلہ انتہائی مجبوری اور بیماری کے وقت آتا ہے جب انسان لاعلاج بیماری یا کسی انتہائی مجبوری میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ دنیا کے مال واسباب اس کے کسی کام نہیں آسکے، دوسرا مرحلہ جو اس سے زیادہ یقینی ہوتا ہے وہ موت کا وقت ہے گنہگار کو پچھتاوا ہوتا ہے کہ کاش ! میں دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دیتا، تیسرا مرحلہ قبر میں شروع ہوتا ہے جب انسان کو یقینی علم ہوجاتا ہے کہ مال کی حرص نے اسے ہلاکت میں ڈال دیا ہے، چوتھا اور آخری مرحلہ وہ ہوگا جب وہ اپنی آنکھوں کے سامنے جہنم دیکھے گا تو اس کے یقین میں ذرا برابر بھی شک نہیں رہے گا۔ اس لیے اس حالت کے بارے میں ” عین الیقین “ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ مرحلہ اس وقت آئے گا جب اس سے ہر نعمت کے بارے میں جواب طلبی ہوگی اگر ناشکرا اور مجرم ثابت ہوا تو اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ یہی وہ ہلاکت ہے جس کے بارے میں ہر انسان کو متنبہ کیا گیا ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَوْ أَنَّ لِإِبْنِ آدَمَ وَادِیًا مِّنْ ذَھَبٍ أَحَبَّ أَنْ یَکُوْنَ لَہٗ وَادِیَانِ وَلَنْ یَمْلَأَ فَاہُ إِلَّا التُّرَابُ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ ) (رواہ البخاری : باب مایتقی من فتنۃ المال) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر آدم کے بیٹے کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں۔ اس کے منہ کو مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ ” اللہ “ جس پر چاہتا ہے کرم فرماتا ہے۔ “ (یعنی اسے قناعت دیتا ہے۔ ) (عَنْ مُطَرِّفَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الشِّخِّیرِ یُحَدِّثُ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کَان بالْکُوفَۃِ أَمِیرٌ قَالَ فَخَطَبَ یَوْماً فَقَالَ إِنَّ فِی إِعْطَاءِ ہَذَا الْمَالِ فِتْنَۃً وَفِی إِمْسَاکِہِ فِتْنَۃً وَبِذَلِکَ قَامَ بِہِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی خُطْبَتِہِ حَتَّی فَرَغَ ثُمَّ نَزَلَ ) (رواہ احمد : مسند عبداللہ بن الشخیر) ” مطرف بن عبداللہ بن شخیر سے روایت ہے وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی کے بارے میں بیان کرتے ہیں جو کوفہ میں امیر تھے انہوں نے ایک دن اپنے خطبے میں کہا کہ مال کے عطا کیے جانے میں بھی آزمائش ہے اور اس کے روک لیے جانے میں بھی آزمائش ہے اسی بات کو بیان کرنے کے لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر چڑھے اور اسے بیان کرنے کے بعد نیچے اتر آئے۔ “ (عَنْ مُطَرَّفٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : أَتَیْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَھُوَ یَقْرَأُ اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ قَالَ یَقُوْلُ ابْنُ اٰدَمَ ‘ مَالِیْ مَالِیْ قَالَ وَھَلْ لَکَ یَا ابْنَ اٰدَمَ إِلَّا مَا أَکَلْتَ فَأَفْنَیْتَ ‘ أَوْلَبِسْتَ فَأَبْلَیْتَ ‘ أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَیْتَ ۔ ) (رواہ مسلم : باب الزھد والرقائق) ” مطرف اپنے والد (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ اس وقت آپ سورة ” اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرْ “ تلاوت فرما رہے تھے۔ آپ نے فرمایا : ابن آدم کہتا ہے، میر امال، میرا مال آپ نے فرمایا : اے ابن آدم ! تیرا مال وہ ہے جسے تو نے کھا کر ہضم کرلیا، پہن کر بوسیدہ کردیا، جو تو نے صدقہ کیا اور اسے آخرت کے لیے آگے بھیجا۔ “ (عَنْ کَعْبِ بْنِ عِیَاضٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِنَّ لِکُلِّ أُمَّۃٍ فِتْنَۃً وَفِتْنَۃُ أُمَّتِی الْمَالُ ) (رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ أَنَّ فِتْنَۃَ ہَذِہِ الْأُ مَّۃِ فِی الْمَالِ ، قال الالبانی ھٰذاحدیث صحیح) ” حضرت کعب بن عیاض (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہر امت کے لیے ایک اجتماعی آزمائش ہوتی ہے اور میری امت کی اجتماعی آزمائش مال ہے۔ “ ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور آپ کے دونوں ساتھیوں نے بکری کا گو شت کھایا، کھجوریں تناول کیں اور پانی پیا۔ جب اچھی طرح کھا پی کر سیر ہوگئے تو رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر و عمر (رض) سے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم سے قیامت کے دن ان نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا۔ “ (رواہ مسلم : باب جَوَازِ اسْتِتْبَاعِہِ غَیْرَہُ إِلَی دَارِ مَنْ یَثِقُ بِرِضَاہُ بِذَلِکَ ) مسائل ١۔ لوگوں کو مال کی حرص نے تباہ کردیا ہے۔ ٢۔ اکثر لوگ قبر تک پہنچنے سے پہلے مال کی حرص نہیں چھوڑتے۔ ٣۔ عنقریب دنیادار لوگوں کو مال اور اپنے انجام کا پتہ چل جائے گا۔ ٤۔ عنقریب انہیں یقین ہوجائے گا کہ انہوں نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال لیا ہے۔ ٥۔ دین کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینے والے ہر صورت جہنم کو دیکھ لیں گے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر صورت اپنی نعمتوں کے بارے جواب طلبی کرے گا۔
اے حالت مدہوشی میں سرپٹ دوڑنے والو ، اے لاپرواہی کی حالت میں مال اور اولاد کی کثرت اور دنیا کے سازو سامان کی بہتات کے لئے جدوجہد کرنے والو ، تم تو ان سب چیزوں کو اسی جہاں میں چھوڑ کر جانے والے ہو ، اے دنیا کی مشغولیتوں میں دھوکہ کھانے والو ، اے مال واولاد کو چھوڑ کر جانے والو ، ایک ایسے چھوٹے سے گڑھے ، قبر میں جانے والو ، قبر میں تو نہ مال ہوگا ، نہ اولاد ہوگی اور نہ وہاں کوئی فخر ہوگا اور اظہار برتری ہوگا ، جاگو ، اور دیکھو ، غورکرو۔ الھکم .................... المقابر (2:102) ” تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ (اسی فکر میں) تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو “۔ لیکن قبر کی سیر کے بعد وہاں تمہارے لئے ایک خوفناک منظر ہے ، نہایت سخت اور زور دار انداز میں ان کے دلوں کو یوں کھڑکھڑایا جاتا ہے۔
یہ سورة التکاثر کا ترجمہ ہے لفظ تکاثر کثرت سے تفاعل کا مصدر ہے۔ یہ باب دونوں طرف سے مقابلہ کرنے کے معنی میں آتا ہے جیسے تقاتل دونوں نے آپس میں مل کر قتال کیا اور تقابل دونوں آپس میں ایک دوسرے کے سامنے آئے، یہاں پر مال کی کثرت میں مقابلہ کرنے کا تذکرہ ہے۔ اہل دنیا کا طریقہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کے لیے کوششیں کرتے ہیں اور جس کے پاس زیادہ مال ہوجائے وہ اس پر فخر کرتا ہے پھر دوسرا شخص اس کے مقابلے میں اپنے مال کی کثرت بیان کرتا ہے اور اگر بیان نہ کرے تو ذہنی مقابلہ تو رہتا ہی ہے اس کو سورة الحدید میں یوں بیان فرمایا ہے ﴿اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِيْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ ﴾ (جان لو کہ دنیا والی زندگی لعب اور لہو ہے اور سجاوٹ ہے اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں فخر کرنا ہے اور اموال و اولاد میں آپس میں اپنے کو دوسرے سے بڑھ کر بتانا ہے) ۔ مال کی طلب اور کثرت مال کی مقابلہ بازی لوگوں کو اللہ کی رضا کے کاموں کی طرف سے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے فکر مند ہونے سے غافل رکھتی ہے اسی طرح دنیا گزارتے ہوئے مر کر قبروں میں پہنچ جاتے ہیں غفلت کی زندگی گزاری تھی وہاں کے لیے کچھ کام نہ کیا تھا۔ جب وہاں کے حالات سے دوچار ہوتے ہیں تو یہ چھوڑا ہوا مال کچھ بھی فائدہ مند نہیں ہوتا اس غفلت کی زندگی کو بیان کرتے ہوئے انسانوں کی عمومی حالت بیان کی اور فرمایا ﴿ اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ٠٠١ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ٠٠٢﴾ (تم کو مال کی کثرت کی مقابلہ بازی نے غافل رکھا یہاں تک کہ تم قبروں میں چلے گئے) ۔ معالم التنزیل صفحہ (٥٢٠ ص ج ٤) میں اس موقع پر عرب کی مقابلہ بازی کا ایک قصہ بھی لکھا ہے اور وہ یہ کہ بنی عبد مناف بن قصی اور بنی سہم بن عمرو میں وہی دنیاداری والا تفاخر چلتا رہتا تھا۔ ایک دن آپس میں اپنے افراد کی تعداد میں مقابلہ ہوا دیکھو کن کے سرداروں اور اشراف کی تعداد زیادہ ہے، ہر فریق نے اپنی اپنی کثرت کا دعویٰ کیا جب شمار کیا تو بنو عبد مناف تعداد میں زیادہ نکلے، بنی سہم نے کہا کہ ہمارے مردوں کو بھی تو شمار کرو وہ بھی ہم ہی میں سے تھے، ان کے بعد قبروں کو شمار کیا تو بقدر تین گھروں کی آبادی کے بنو سہم کے چند افراد گنتی میں بڑھ گئے، اس پر اللہ تعالیٰ شانہ نے ﴿ اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ٠٠١﴾ نازل فرمائی۔ تفسیر ابن کثیر میں بھی اسی طرح مقابلہ بازی کے بعض قصے ذکر کیے ہیں اور انصار کے مقابلہ کے ذیل میں بنی حارثہ اور بنو الحارث کا نام ذکر کیا ہے۔ سبب نزول کے بارے میں جو باتیں نقل کی گئی ہیں کوئی بھی حدیث مرفوع سے ثابت نہیں اور نہ کسی صحابی کی طرف ان واقعات کے تذکرہ کو منسوب کیا اور آیت شریفہ کی تفسیر اور توضیح ان واقعات کے جاننے پر موقوف بھی نہیں ہے۔ آیت شریفہ کا جو مفہوم ذہن میں متبادر ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ تم تفاخر و تکاثر میں ایسے لگے کہ قبروں میں پہنچ گئے اس کے بعد تین مرتبہ لفظ ﴿كَلَّا ﴾ لاکر متنبہ فرمایا، یہ لفظ جھڑکنے، ڈانٹنے اور تنبیہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کا ترجمہ ” ہرگز نہیں “ کیا گیا ہے۔ فرمایا ﴿كَلَّا ﴾ (ہرگز ! یہ بات نہیں ہے کہ مالوں کا جمع کرنا اور ان کی کثرت پر مقابلہ کرنا تمہارے لیے مفید ہوگا) دنیا میں تو ہمیشہ نہیں رہنا مرنا بھی تو ہے۔ ﴿ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ٠٠٣﴾ (عنقریب ہی تم جان لو گے) مکرر فرمایا ثُمَّ كَلَّا (پھر اس بات کو خوب سمجھ لو کہ عنقریب جان لو گے) تیسری بار پھر تاکیداً فرمایا ﴿ كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْيَقِيْنِؕ٠٠٥﴾ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ جواب شرط محذوف ہے اور مطلب یوں ہے : ( لشغلکم ذلک عن التکاثر) یعنی اگر تم پوری صورت حال خوب یقین والے علم کے ساتھ جان لیتے تو یہ جو تم نے زندگی کا طریقہ بنا رکھا ہے کہ اموال جمع کرتے ہو اور اس کی کثرت پر مقابلہ کرتے ہو اس شغل میں نہ لگتے ﴿عِلْمَ الْيَقِيْنِؕ٠٠٥﴾ میں موصوف اپنی صفت کی طرف مضاف ہے اور بمعنی العلم الیقین ہے کیونکہ کبھی کبھی علم کا اطلاق غیر یقین کے لیے بھی آجاتا ہے اس کے لیے یہ لفظ لایا گیا جو ﴿ لَوْ تَعْلَمُوْنَ ﴾ کا مفعول مطلق یا مفعول بہ ہے۔
2:۔ ” الہاکم التکاثر “ التکاثر، کثرت مال اور کثرت تعداد پر فخر کرنا اور کثرت میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرنا۔ ای التبارک فی الکثرۃ والتباھی بھا بان یقول ھؤلاء نحن اکثر وھؤلاء نحن اکثر (روح ج 30 ص 223) ۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ انصار کے دو قبیلوں میں کثرت عدد کے مقابلے کی ٹھن گئی اور ہر قبیلہ اپنے افراد کی کثرت پر فخر کرنے لگا چناچہ دونوں قبیلوں نے پہلے زندہ لوگوں کو گنا جب ان کی گنتی ختم ہوئی تو قبرستان میں جا کر مردوں کو شمار کرنے لگے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ فرمایا : کثرت عدد پر فخر و مباہات نے تم کو ایسا غافل کیا کہ تم قبرستان میں جا پہنچے اور مردوں کی گنتی کرنے لگے۔ یا ” حتی زرتم المقابر “ موت سے کنایہ ہے یعنی تم اموال وافراد کی کثرت پر فخر کرتے رہو گے یہاں تک قبروں میں پہنچ جاؤ گے۔ الھاکم حرصکم علی تکثیر اموالکم عن طاعۃ ربکم حتی اتاکم الموت وانتم علی ذلک (کبیر)
(1) تم لوگوں کو زیادتی کی حرص اور کثرت تعداد پر تفاخر نے غافل کردیا اور تم کو مشغول کردیا۔ آیت کی دو طرح تفسیر کی گئی ہے ایک تو کثرت مال اور دنیوی سامان کی بہتات پر فخر کرنا اور دوسرے کثرت تعداد پر فخر کرنا کہ ہمارے قبیلے کے آدمی زیادہ ہیں اور تمہارے قبیلے کی تعداد کم ہے چاہے مردم شماری کرلو بس اس تکاثر نے تم کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے غصے سے نجات دلانے والی باتوں سے غافل کردیا اور تم کو ان چیزوں نے مسغول کردیا۔