Surat ut Takasur

Surah: 102

Verse: 2

سورة التكاثر

حَتّٰی زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَ ؕ﴿۲﴾

Until you visit the graveyards.

یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The mutual increase diverts you, Until you visit the graves. The Result of Loving the World and Heedlessness of the Hereafter Allah says that all are preoccupied by love of the world, its delights and its adornments, and this distracts you from seeking the Hereafter and desiring it. This delays you until death comes to you and you visit the graves, thus becoming its inhabit... ants. In Sahih Al-Bukhari, it is recorded in the Book of Ar-Riqaq (Narrations that soften the Heart) from Anas bin Malik, who reported that Ubayy bin Ka`b said, "We used to think that this was a part of the Qur'an until the Ayah was revealed which says; أَلْهَـكُمُ التَّكَّاثُرُ (The mutual increase diverts you." He was referring to the Hadith in which the Prophet said, لَوْ كَانَ لاِبْنِ ادَمَ وَادٍ مِنْ ذَهَب If the Son of Adam had a valley of gold, he would desire another like it... Imam Ahmad recorded from Abdullah bin Ash-Shikhkhir that he said, "I came to the Messenger of Allah while he was saying, أَلْهَـكُمُ التَّكَّاثُرُ (The mutual increase diverts you." He was referring to the Hadith in which the Prophet said, If the Son of Adam had a valley of gold, he would desire another like it... Imam Ahmad recorded from `Abdullah bin Ash-Shikhkhir that he said, "I came to the Messenger of Allah while he was saying, أَلْهَـكُمُ التَّكَّاثُرُ (The mutual increase diverts you.) يَقُولُ ابْنُ ادَمَ مَالِي مَالِي وَهَلْ لَكَ مِنْ مَالِكَ إِلاَّ مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَـيْتَ أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ The Son of Adam says, "My wealth, my wealth." But do you get anything (of benefit) from your wealth except for that which you ate and you finished it, or that which you clothed yourself with and you wore it out, or that which you gave as charity and you have spent it" Muslim, At-Tirmidhi and An-Nasa'i also recorded this Hadith. Muslim recorded in his Sahih from Abu Hurayrah that the Messenger of Allah said, يَقُولُ الْعَبْدُ مَالِي مَالِي وَإِنَّمَا لَهُ مِنْ مَالِهِ ثَلَإثٌ مَا أَكَلَ فَأَفْنَى أَوْ لَبِسَ فَأَبْلَى أَوْ تَصَدَّقَ فَأَمْضَى وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَذَاهِبٌ وَتَارِكُهُ لِلنَّاس The servant says "My wealth, my wealth." Yet he only gets three (benefits) from his wealth: - that which he eats and finishes, - that which he eats and finishes, - that which he wears until it is worn out, or that which he gives in charity and it is spent. Everything else other than that will go away and leave him for the people.) Muslim was alone in recording this Hadith. Al-Bukhari recorded from Anas bin Malik that the Messenger of Allah said, يَتْبَعُ الْمَيِّتَ ثَلَثَةٌ فَيَرْجِعُ اثْنَانِ وَيَبْقَى مَعَهُ وَاحِدٌ يَتْبَعُهُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَعَمَلُهُ فَيَرْجِعُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَيَبْقَى عَمَلُه Three things follow the deceased person, and two of them return while one remains behind with him. The things which follow him are his family, his wealth and his deeds. His family and his wealth return while his deeds remain. This Hadith has also been recorded by Muslim, At-Tirmidhi and An-Nasa'i. Imam Ahmad recorded from Anas that the Prophet said, يَهْرَمُ ابْنُ ادَمَ وَيَبْقَى مِنْهُ اثْنَتَانِ الْحِرْصُ وَالاَْمَل The Son of Adam becomes old with senility, but yet two things remain with him: greed and hope. Both of them (Al-Bukhari and Muslim) recorded this Hadith in the Two Sahihs. The Threat of seeing Hell and being questioned about the Delights كَلَّ سَوْفَ تَعْلَمُونَ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 اس کا مطلب ہے کہ حصول کی خاطر محنت کرتے کرتے تمہیں موت آگئی اور تم قبروں میں جا پہنچے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] انہیں چیزوں کے حصول میں انسان اپنی پوری زندگی کھپا دیتا ہے اور ان چیزوں سے اہم تر چیزوں سے اس کی توجہ ہٹی رہتی ہے اور وہ اہم تر چیزیں یہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی یاد، اخلاقی حدود وقیود کی پابندی، حقداروں کے حقوق کی ادائیگی اور اپنی عاقبت کی فکر۔ ایسی باتوں سے غافل رہ کر وہ مرغوبات نفس کے حصول میں ہی...  پڑا رہتا ہے تاآنکہ اسے موت آجاتی ہے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ ایک دفعہ دو قبیلے اپنے اپنے جتھے کی کثرت تعداد پر فخر کر رہے تھے۔ جب گننے پر ایک قبیلہ کے آدمی دوسرے سے کم نکلے تو شکست خوردہ قبیلہ کہنے لگا کہ ہمارے اتنے آدمی فلاں لڑائی میں مارے جاچکے ہیں۔ بیشک چل کر قبریں شمار کرلو۔ وہاں پتہ لگے گا کہ ہماری جمعیت تم سے کتنی زیادہ ہے اور ہم میں کیسے کیسے نامور گزر چکے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ قبریں شمار کرنے لگے۔ ان کی اس جہالت پر متنبہ کرنے کے لیے یہ سورت نازل ہوئی۔ اس روایت کی صحت کے متعلق تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے تاہم یہ ایک پہلو سے اس مضمون کی خوب وضاحت کرتی ہے۔ البتہ اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث صحیح اور قابل احتجاج ہے : عبداللہ بن شخیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور وہ یہ سورت پڑھ رہے تھے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ابن آدم کہتا ہے کہ یہ میرا مال ہے۔ یہ میرا مال ہے۔ حالانکہ تیرا مال صرف وہی ہے جو تو نے صدقہ کردیا اور جاری کیا، یا کھالیا اور فنا کردیا یا پہن لیا اور پرانا کردیا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

حتی زرتم المقابر :” زرتم “” زار یزور زیارۃ “ (ن) (ملنے کے لئے جانا) سے ماضی معلوم ہے۔ ” المقابر “” مقبرۃ “ کی جمع ہے جو ” قبر یقبر قبراً “ (ن) (دفن کرنا) سے اسم ظرف ہے، دفن کی جگہیں، قبرستان۔ ’ زرتم التکابر “ (قبرستان جا دیکھے) کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری موت آگئی، یعنی موت آنے تک یہ غفلت طاری رہی، بلکہ...  جیسے جیسے موت قریب آتی گئی غفلت کا یہ نشہ بڑھتا گیا۔ رسول اللہ نے فرمایا :(یکبر ابن آدم و یکبر معہ اثنان حب المال و طول العمر) (بخاری، الرفاق، باب من یلغ ستین سنۃ…:(٦٣٢١)” آدمی بڑا ہوتا جاتا ہے اور اس کے ساتھ دو چیزیں بڑی ہوتی جاتی ہیں، مال کی محبت اور لمبی عمر کی محبت۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

حَتَّىٰ زُرْ‌تُمُ الْمَقَابِرَ‌Verse [ 2] (until you reach the graves.) Here the words &reaching the graves& mean &to die and be buried in the graves&, as the following Prophetic Hadith bears testimony to this interpretation. Referring to verse [ 2] of this Surah, the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: حَتّٰی یِأتیکُم الموت |"until death overtakes you|" [ Ibn Kath... ir, from by Ibn Abi Hatim ]. The verse thus implies that many people are engrossed in acquiring worldly goods and racing each other in wealth and children etc. and remain neglectful of the Hereafter till death comes upon them, and then they are seized by the divine punishment. Sayyidna ` Abdullah Ibn Shikhkhir (رض) reports that one day he visited the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) while the latter was reciting Surah At-Takathur and was saying: یقُول ابن اٰدم مالی مالی و ھل لک من مالک الَّا ما اکلت فافنیت او لبست فابلیت اوتصدّقت فامضیت، وفی روایۃ لمسلم وما سویٰ ذلک فذاھب و تارکہ للناس |"The Son of Adam says: &My wealth, my wealth.& But you do not reap any benefit from your wealth except for that which you ate and you finished it, or that which you clothed yourself with and you wore it out, or that which you gave as charity and you have spent it.|" And in a narration by Muslim: |"Everything else other than that will go away, and he will leave it for other people. (i.e. inheritors) |" [ Ibn Kathlr and Qurtubi as transmitted by Muslim, Tirmidhl and Ahmad ]. Imam Bukhari records from Sayyidna Anas (رض) عنہ that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: لو کان لابن آدم وادیاً من ذھب لا حبّ ان یکون لہ وادیان ولن یملاء فاہ اِلَّا التراب و یتوب اللہ علٰی من تاب۔ |"If the Son of &Adam has a valley of gold, he would love to have two valleys, and nothing but the dust of grave will fill his mouth. And Allah accepts the repentance of him who turns to Him in penitence.|" Sayyidna &Ubayy Ibn Ka` b (رض) ، referring to the Tradition quoted above, says, |"We used to think that this was a part of the Qur&an until the first verse of Surah At-Takathur was revealed.|" It seems that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) recited the verse and interpreted it in his own words. As a result, some of the Companions were under the impression that the Prophetic words were part of the Qur&an. Later on, when the Surah was recited in its entirety, it did not contain the Prophetic words. This made them realize that the Prophetic words were actually of explanatory nature, and not part of the Qur&an.  Show more

حتی زرتم المقابر، یہاں زیارت مقابر سے مراد مر کر قبر میں پہنچنا ہے جیسا کہ حدیث مرفوع میں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حتی زرتم المقابر کی تفسیر میں فرمایا حتی یاتیکم الموت (ابن کثیر بروایت ابن ابی حاتم) اس لئے مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ تم لوگوں کو مال و دولت کی بہتات یا مال و اولاد اور ... قبیلہ و نسب پر تفاخر غفلت میں ڈالے رہتی ہے اپنے انجام اور آخرت کے حساب کی کوئی فکر نہیں کرتے یہاں تک کہ اسی حال میں تمہیں موت آجاتی ہے اور وہاں عذاب میں پکڑے جاتے ہو یہ خطاب بظاہر عام انسانوں کو ہے جو مال و اولاد کی محبت یا دوسروں پر اپنی برتری اور تفاخر میں ایسے مست رہتے ہیں کہ اپنے انجام کو سوچنے کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی۔ حضرت عبداللہ ابن شخیرہ فرماتے ہیں کہ میں ایک روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچا تو آپ الہاکم التکاثر پڑھ رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے کہ آدمی کہتا ہے کہ میرا مال میرا مال حالانکہ اس میں تیرا حصہ تو اتنا ہی ہے جس کو تو نے کھا کر فنا کردیا یا پہن کر بوسیدہ کردیا یا صدقہ کر کے اپنے آگے بھیج دیا اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والا ہے تو اس کو لوگوں کے لئے چھوڑنے والا ہے۔ امام بخاری نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر آدم زادے کے لئے ایک وادی (دامن کوہ) سونے سے بھری ہوئی موجود ہو تو (وہ اس پر قناعت نہیں کرے گا بلکہ) چاہیگا کہ ایسی دو وادیاں ہوجاویں اور اس کے منہ کو تو (قبر کی) مٹی کے سوا کوئی چیز بھر نہیں سکتی اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرتا ہے اس شخص کی جو اس کی طرف رجوع ہو۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ ہم حدیث کے الفاظ مذکورہ کو قرآن سمجھا کرتے تھے یہاں تک کہ سورة الہاکم التکاثر نازل ہوئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے الہاکم التکاثر پڑھ کر مذکورہ الفاظ اس کی تفسیر و تشریح کے طور پر پڑھے تھے اس سے بعض حصابہ کو شبہ ہوگیا کہ یہ بھی قرآن ہی کے الفاظ ہیں بعد میں جب پوری سورة الہاکم التکاثر سامنے آئی تو اس میں یہ الفاظ نہیں تھے اس سے حقیقت واضح ہوگئی کہ یہ الفاظ تفسیر کے تھے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ۝ ٢ ۭ حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفع... ل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ ( زرتم) ، فيه إعلال بالحذف لمناسبة البناء علی السکون، وضمّت الزاي للدلالة علی أصل الألف الواوي وزنه فلتم . قبر القَبْرُ : مقرّ الميّت، ومصدر قَبَرْتُهُ : جعلته في القَبْرِ ، وأَقْبَرْتُهُ : جعلت له مکانا يُقْبَرُ فيه . نحو : أسقیته : جعلت له ما يسقی منه . قال تعالی: ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ [ عبس/ 21] ، قيل : معناه ألهم كيف يدفن، والْمَقْبَرَةُ والْمِقْبَرَةُ موضع الْقُبُورِ ، وجمعها : مَقَابِرُ. قال : حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ [ التکاثر/ 2] ، كناية عن الموت . وقوله : إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُورِ [ العادیات/ 9] ، إشارة إلى حال البعث . وقیل : إشارة إلى حين كشف السّرائر، فإنّ أحوال الإنسان ما دام في الدّنيا مستورة كأنّها مَقْبُورَةٌ ، فتکون القبور علی طریق الاستعارة، وقیل : معناه إذا زالت الجهالة بالموت، فكأنّ الکافر والجاهل ما دام في الدّنيا فهو مَقْبُورٌ ، فإذا مات فقد أنشر وأخرج من قبره . أي : من جهالته، وذلک حسبما روي : ( الإنسان نائم فإذا مات انتبه) «2» وإلى هذا المعنی أشار بقوله : وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [ فاطر/ 22] ، أي : الذین هم في حکم الأموات . ( ق ب ر ) القبر کے معنی میت کو دفن کرنے جگہ کے ہیں اگر یہ قبرتہ ( ضرب ونصر ) کا مصدر ہو تو اس کے میت کو قبر میں دفن کر نیکے ہوتے ہیں ۔ اوراقبرتہ کے معنی کیس کیلئے قبر مہیا کرنے کے ہیں تاکہ اسے دفن کیا جائے جیسے اسقینہ کے معنی پینے کے لئے پانی مہیا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ [ عبس/ 21] پھر اس کو موت دی ۔ پھر قبر میں دفن کرایا ۔ بعض نے اقبرہ کے معنی یہ کئے ہیں کہ اسے الہام کردیا کہ کس طرح میت کو دفن کیا جائے ۔ المقبرۃ والمقبرۃ ( قبر ستان ) جمع مقابر قرآن میں سے : ۔ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ [ التکاثر/ 2] یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں ۔ یہ موت سے کنایہ ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُورِ [ العادیات/ 9] کہ جو مردے قبروں میں ہیں وہ باہر نکال لئے جائیں گے ۔ میں حیات بعد الممات یعنی موت کے بعد زندہ ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ دلوں کے اسرار ظاہر کردینے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جب تک انسان دنیا میں رہتا ہے اس کے بھید مستور رہتے ہیں گویا قبر میں مدفون ہیں تو یہاں قبور سے مجازا دل مراد ہیں بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جب موت کی وجہ سے جہالت کا پردہ اٹھ جائے گا گو یا کا فر اور جاہل جب تک دنیا میں رہتے ہیں جہالت کی قبروں میں مدفون رہتے ہیں چونکہ مرنے کے بعد وہ جہالت دور ہوجاتی ہے ۔ تو گویا وہ قبر جہالت سے دوبارہ زندہ کر کے نکالے گئے ہیں ۔ جیسا کہ مروی ہے الانسان نائم اذا مات کہ انسان دنیامیں سویا رہتا ہے جب موت آکر دستک دیتی ہے تو اس کی آنکھیں کھلتی ہیں اور اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [ فاطر/ 22] اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے ۔ یعنی جو لوگ جہالت کے گڑھے میں گرنے کی وجہ سے مردوں کے حکم میں ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢{ حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ۔ } ” یہاں تک کہ تم قبروں کو پہنچ جاتے ہو۔ “ یعنی انسان اپنی ساری عمر اسی تگ و دو میں کھپا دیتا ہے اور مرتے دم تک یہ فکر اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ انسان کی حرص و ہوس کے پیمانے کو صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے (١) ۔ سورة الحدید کی آیت ٢٠ میں انسانی زندگی کے جن مرا... حل کا ذکر ہوا ہے ان میں آخری مرحلہ تکاثر فی الاموال والاولاد کا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آخری عمر میں انسان کی یہ حرص مزید بڑھ جاتی ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 That is, "You expend your whole Iife in the same craze and endeavour, until the time comes when you must die and leave the world ."

سورة التکاثر حاشیہ نمبر : 2 یعنی تم اپنی ساری عمر اسی کوشش میں کھپا دیتے ہو اور مرتے دم تک یہ فکر تمہارا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(102:2) حتی زرتم المقابر : حتی انتہاء غایت کے لئے ہے۔ یہاں تک کہ ۔ زرتم۔ ماضی جمع مذکر حاضر زیارۃ (باب نصر) مصدر سے۔ تم نے دیکھا۔ تم نے جا زیارت کی۔ المقابر۔ جمع مقبرۃ کی، قبریں۔ یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی مرتے دم تک اس حرص و طمع میں پھنسے رہے کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کی فرصت نہ ملی۔ اسی مضمون کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے :” مگر آدمی کے پاس مال کی بھری ہوئی ایک وادی ہو تو وہ چاہتا ہے کہ دوسری وادی اور ہو اور اگر اس کے پاس دو وادیاں ہوں تو ... وہ چاہتا ہے تیسری وادی اور ہو سچ یہ ہے کہ) آدمی کے پیٹ کو صرف (قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے اور اللہ جس پر چاہتا ہے نظر کرم فرماتا ہے۔ “ (جامع صغیر لیستوطی بحوالہ صحیحین ترمذی مسند امام احمد من انس) ایک اور حدیث میں آپ کا اشراد ہے ” میت کے پیچھے تین چیزیں جاتی ہیں دو چیزیں واپس آجاتی ہیں اور ایک چیز اس کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کے پیچھے اس کے گھر والے جاتے ہیں اور اس کا مال اور اس کا عمل گھر والے اور مال واپس آجاتے ہیں اور عمل اس کے ساتھ رہتا ہے (ابن کثیر بحوالہ صحیحین ترمذی نسائی عن انس)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔ اس کے بھی دو مطلب ہیں ایک تو یہ کہ موت آگئی اور تم قبرستان جا پہنچے یا یہ ہے کہ زندوں کی مردم شماری کرتے کرتے قبر میں جا کر گننے لگے اور قبرستان جا پہنچے۔ کہتے ہیں عرب کے دو مشہور قبیلوں بنوعبدمناف اور بنو سہم بن عمرو میں باہمی منافست تھی اور دونوں اپنے کارناموں...  پر اور اپنی تعداد پر فخر کیا کرتے تھے چناچہ مرم شماری کی نوبت پہنچی اور بنو سہم بن عمرو کی تعداد کم ہوگئی انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمارے لوگ لڑائیوں میں بہت مارے گئے ہیں اس وجہ سے ہماری تعداد کم ہوگئی۔ لہٰذا ہماری قبریں بھی شمار کرو چناچہ دونوں فریق قبرستان پہنچ گئے اور قبریں شمار کرنے سے بنو سہم کے لوگ کچھ زیادہ ہوگئے اس پر یہ سورت نازل ہوئی کہ تم کو باہمی تکاثر نے ایسا مشغول کیا کہ تم قبرستان جاپہنچے۔ اور پہلی تفسیر یوں ہے کہ تم کو حب جاہ و مال اور ظاہری زینت نے اس قدر غافل کیا کہ تم مرگئے اور قبر میں چلے گئے اور عذاب سے بچنے اور ایسے عمل اختیار کرنے پر جو عذاب سے نجات دلائیں تم کو غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملا آگے اس پر ردع اور جھڑکی فرمائی۔  Show more