تعارف : اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے ”……“ یعنی اللہ نے سب سے پہلا گھر جو تمام انسانوں (کی ہدایت کے لئے) وجع کیا ہے وہ ہے جو مکہ میں ہے۔ برکتوں والا اور تمام اہل جہان کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ نے سب سے پہلا گھر تعمیر کیا بلکہ وضع فرمایا یعنی اللہ نے اپنے گھر کے لئے سب سے پہلے جس جگہ کو تجویز فرمایا تھا وہ ہے جو بکہ میں واقع ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کرنے سے پہلے ہی ایک ایسی جگہ کو تجویز اور منتخب فرما لیا تھا جہاں اس کی رحمتوں کا نزول اور مرکز ہوگا۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب اللہ نے اس دنیا کو پیدا کیا تو یہ زمین ایک کھولتے ہوئے پانی کی طرح تھی۔ اللہ نے اس پر بارشیں برسائیں۔ زمین ٹھندی ہونا شروع ہوگئی۔ سب سے پہلے زمین کو جو حصہ ابھر کر ظاہر ہوا وہ ایک چٹان نما جگہ تھی۔ عربی میں ابھری ہوئی جگہ کو کعب کہا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے اس کو کعبہ کا نام دیا گیا جہاں آج بیت اللہ شریف ہے اس کا ابتداء میں ” بکہ “ نام تھا جو بعد میں کثرت استعمال سے ” مکہ “ ہوگیا۔ اب یہی شہر قیامت تک ساری دنیا کی ہدایت و رہنمائی کا مرکز ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) و حوا (علیہ السلام) کو جنت سے دنیا میں بھیجا تو انہوں نے فرشتوں کی مدد سے بیت اللہ کی جگہ کو پتھروں کے ذریعہ ایک کمرے کی شکل دیدی جو بعد میں تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کا قبلہ قرار پایا۔ اسی جگہ کو حج بیت اللہ کے لئے مخصوص کیا گیا۔ طوفان نوح جس میں زبرست طوفانی لہروں سے ہر چیز ٹوٹ پھٹ گئی تھی بیت اللہ کی دیواریں بھی گر گئی تھیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے اللہ کے حخم سے دوبارہ اسیجگہ پر اللہ کے گھر کی تعمیر کی جس پر مختلف زمانوں میں کچھ نہ کچھ تعمیراتی اضافہ ہوتا رہا۔ جب اس شہر مقدس و محترم میں اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت با سعادت ہوئی تو اس وقت بھی حج کے لئے اس گھر کا طواف کیا جاتا تھا اور روحانی عظمتوں کامرکز تصور کیا جاتا تھا۔ کفار مکہ جن کو اس بات پر بھی بڑا غرور تھا کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں انہوں نے اپنی جہالت و نادانی میں اللہ کے گھر کو تین سو ساٹھ بتوں اور طرح طرح کی رسموں سے آلودہ کیا ہوا تھا۔ مگر شاید یہ دین ابراہیمی کی برکت تھی کہ جب ایک مرتبہ بیت اللہ کی عمارت کی تعمیر کا ارادہ کیا گیا تو بات کا اعلان کیا گیا کہ ہر شخص اس بیت اللہ کی تعمیر میں صرف وہی رقم لگائے جو بالکل حلال اور پاکیزہ ہو۔ چنانہچ جب اس رقم کو جمع کیا گیا تو وہ اتنی نہیں تھی جس سے اس پوری عمارت کو تعمیر کیا جاسکتا۔ بیت اللہ کا ایک حصہ چھوڑ دیا گیا اور اس کا نام ” حطی کعبہ “ رکھا گیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعلان نبوت سے پہلے بیت اللہ کی جب تعمیر کی گئی اور حطی کعبہ کی جگہ کو چھوڑ دیا گیا تو بعد میں آپ نے بھی اس جگہ تعمیر نہیں فرمائی۔ اب قیامت تک حطیم کعبہ کی جگہ اسی طرح رہے گی۔ اس سے امت کو یہ سعادت نصیب ہوگئی کہ جو آدمی بھی حطیم کعبہ میں نماز پڑھتا ہے تو گویا وہ بیت اللہ کے اندر ہی نماز ادا کرتا ہے۔ بیت اللہ اور حطیم کعبہ کی تعریف اور ابتدائی تعارف سے معلوم ہوا کہ بیت اللہ شریف کو ابتدائے کائنات سے یہ عزت و شرف حاصل ہے اور وہ ہر اہل ایمان کے لئے روحانی ترقیات کا مرکز رہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک رہے گا۔ اس کو مٹانے والے مٹ جائیں گے لیکن اللہ کے اس گھر کی عمارت اور اس کی عظمت میں کبھی کمی نہ آئے گی۔ حبش کی حکومت کے ایک گورنر ابرھ نے جب بیت اللہ کی عظمت کو کم کرنے اور مٹانے کیلئے ایک زبرست لشکر اور ہاتھیوں کے ساتھ بیت اللہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے چھوٹے چھوٹے پرندوں کو بھیج کر جب ابرھہ کی فوج پر کنکر برسائے تو پوری فوج اور اس کے ہاتھی کھائے ہوئے بھوسے کی طرح ہوگئے۔ اس چھوٹی سے سورت میں گویا اللہ تعالیٰ نے کفار قریش کو اس بات سے آگاہ فرمایا ہے کہ کفار قریش اپنی چھوٹی چھوٹی سرداریوں اور معمولی سے مال و دولت پر نہ اترائیں۔ اگر انہوں نے بیت اللہ کو بتوں اور گندی رسموں سے پاک نہ کیا اور اللہ کے آخری نبی و رسول حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن اطاعت و محبت سے وابستگی اختیار نہ کی تو پھر وہ اپنے برے انجام پر غور کرسکتے ہیں۔
سورة الفیل کا تعارف اس کا نام اس کی پہلی آیت کے آخر میں ذکر ہوا ہے اس کی پانچ آیات ہیں جو ایک چھوٹے سے رکوع پر مشتمل ہیں یہ سورت مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی۔ اس میں ابرہہ اور اس کی فوج کی ہلاکت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں ہر باغی شخص کے لیے ایک انتباہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہلاک کرنا چاہے تو وہ چھوٹے چھوٹے پرندوں سے بڑی سے بڑی فوج کو ہلاک کرسکتا ہے۔
سورة الفیل ایک نظر میں اس سورت میں ایک ایسے واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، جو جزیرة العرب میں بہت مشہور تھا۔ یہ واقعہ ولادت نبوی سے قبل پیش آیا تھا ، اور اس سے یہ بات عیاں ہوگئی تھی کہ اس خطہ مبارکہ پر اللہ کا کس قدر کرم ہے اور یہ کہ اللہ کا کس قدر کرم ہے اور یہ کہ اللہ نے اسے منزل نور اور مہبط ہدایت اور آخری وحی کے مرکز کے لئے منتخب کرلیا ہے ، اور یہ علاقہ جدیدنظریہ کا گہوارہ قرار دیا ہے اور یہ کہ یہ نقطہ آغاز ہے جہاں سے یہ جدید عقیدہ پوری دنیا میں جاہلیت کا پیچھا کرنے والا تھا۔ اور اس طرح اللہ کے منشا اور ہدایت کے مطابق دنیا میں ہدایت ، حق اور بھلائی نے ثوبت وقرار پکڑنا تھا۔ اس حادثہ کے بارے میں جو متعدد روایات وارد ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ یمن کے حبشی حاکم ابرہہ نے یمن میں ایک کنیسہ بنایا ، یہ اس وقت کی بات ہے جب ابرہہ نے یمن کو فتح کرلیا اور یہاں سے ایرانیوں کو نکال دیا۔ یہ کیئسہ اس نے حبشہ کے بادشاہ کے نام سے بنوایا اور اس میں برتری اور عظمت کے تمام اسباب فراہم کیے۔ مقصد یہ تھا کہ تمام عرب بشمول اہل یمن واہل شمال خانہ کعبہ کا جو بےحد احترام کرتے تھے اور ان کو اس سے جو بےحدمحبت تھی ، ان کو بیت اللہ سے موڑ کر اس نئے گرجا کا گرویدہ بنادیا جائے ، اس نے شاہ حبشہ سے اپنی اس پالیسی کی منظور بھی لی۔ لیکن عربوں کے دل سے اپنے مقدس مقام خانہ کعبہ کی محبت نہ نکلی کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ وہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کی اولاد سے ہیں اور انہوں نے اس گھر کو تعمیر کیا ہے اور یہ ان کی شناخت ہے کیونکہ عرب نسب اور قوم پر بہت فخر کرتے تھے۔ اور عربوں کے عقائد اور نظریات ، ان کی نظر میں انہی کمزوریوں کے باوجود ان کو اہل کتاب کے معتقدات اور نظریات سے بہتر نظر آتے تھے کیونکہ اہل کتاب کے نظریات بھی اصل حقیقت سے بہت دور ہوگئے تھے۔ جب ابرہہ نے دیکھا کہ لوگ خانہ کعبہ سے اس کے بنائے ہوئے کنیسہ کی طرف نہیں لوٹ رہے ہیں تو اس نے فیصلہ کیا کہ خانہ کعبہ کو منہدم کردیاجائے ۔ اس نے ایک ہزار لشکر تیار کیا جس کے آگے ہاتھیوں کا دستہ تھا اور ان کے آگے پھر ایک بڑا ہاتھی تھا جو ان کے نزدیک جنگ میں بہت مشہور تھا۔ عربوں کو ابرہہ کے ارادے کی اطلاع ہوگئی اور وہ اس بات سے بہت پریشان ہوئے کہ اب ان کا یہ مقدس گھر گرادیاجائے گا۔ اہل یمن کے روساء اور بادشاہوں میں سے ایک شخص دونفرنے اپنی قوم کو بلایا۔ پورے بلاد عرب میں سے جن لوگوں نے اس کو دعوت پر لبیک کہا۔ ان کے ساتھ ابرہہ سے لڑا لیکن وہ شکست کھا گیا اور ابرہہ نے اسے گرفتار کرلیا۔ اس کے بعد ابرہہ کا راستہنفیل ابن حبیب خشعمی نے روکا ، جس کے ساتھ دو قبیلے تھے اور تمام دوسرے عرب قبائل نے بھی ایک بڑی تعداد میں اس کا ساتھ دیا۔ ابرہہ نے ان کو بھی شکست دی اور نفیل مذکورکو قیدی بنالیا۔ نفیل اس بات پر راضی ہوگیا کہ وہ عرب کے علاقوں میں ابرہہ کے لئے گائیڈ کا کام کرے گا۔ جب یہ طائف پہنچا تو ثقیف کے کچھ لوگ اس سے ملے اور انہوں نے کہا کہ جس گھر کو وہ گرانے نکلا ہے وہ طائف میں نہیں ہے۔ وہ تو مکہ میں ہے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ انہوں نے لات بت کے لئے جو گھر بنایا تھا ، اس کا منہ اس سے موڑ دیں۔ انہوں نے اس کو خانہ کعبہ تک پہنچنے کے لئے گائیڈ دیئے۔ جب ابرہہ مکہ اور طائف کے درمیان مقام مغمس تک پہنچا تو اس نے اپنے جرنیلوں میں سے ایک جرنیل کو مکہ بھیجا تو اس نے پورے تہامہ کے علاقے سے مال مویشی پکڑ کر ابرہہ کے پاس بھیجے۔ جن میں قریش کے مال مویشی بھی تھے۔ اور عبدالمطلب ابن ہاشم کے دو صد اونٹ بھی تھے۔ عبدالمطلب اس زمانے میں قریش کے سردار تھے۔ چناچہ قریش کنانہ ، عذیل اور دوسرے قبائل جو خانہ کعبہ کے اردگرد تھے ، نے ارادہ کیا کہ ابرہہ کے ساتھ لڑیں۔ انہوں نے جب جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ وہ ابرہہ کے ساتھ نہیں لڑسکتے۔ تو انہوں نے آخر کار لڑنے کا ارادہ ترک کردیا۔ ابرہہ نے اپنا ایک ایلچی مکہ بھیجا تاکہ ، یہاں کے سردار کو مل کر یہ کہہ دے کہ وہ لوگوں کے ساتھ لڑنے کے لئے نہیں آیا۔ اس کا مقصد صرف اس گھر کو ڈھانا ہے۔ اگر وہ اس کی راہ نہ روکیں تو اسے ان کے خون بہانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ابرہہ نے اپنے ایلچی کو ہدایات دیں کہ اگر مکہ کا سردار لڑنا نہیں چاہتا تو اسے ساتھ لے آئے۔ اس موضوع پر جب عبدالمطلب نے اپنے لوگوں سے بات چیت کی تو ان سے کہا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے اور نہ جنگ کی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کا گھر ہے اور اللہ کے دوست ابراہیم خلیل اللہ کا گھر ہے۔ اگر اللہ اس کا دفاع کرے تو یہ اس کا گھر اور حرم ہے۔ اور اگر اللہ ابرہہ کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ اس کو گرادے تو اس کی رضا۔ ہم تو دفاع کی قوت نہیں رکھتے “۔ اس مشورے کے بعد عبدالمطلب ابرہہ کے ایلچی کے ساتھ چلے گئے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ عبدالمطلب تمام لوگوں میں نہایت خوش شکل ، رعب دار اور پروقار شخص تھے۔ جب ابرہہ نے انہیں دیکھا تو ان کا بڑا احترام کیا۔ اور یہ پسند نہ کیا کہ انہیں تخت سے نیچے بٹھائیں۔ اور یہ بھی اس نے مناسب نہ سمجھا کہ تخت کے اوپر وہ اس کے مساوی بیٹھیں ۔ چناچہ ابرہہ اپنے تخت سے اترا تو فرش پر بیٹھا اور عبدالمطلب کو بھی ساتھ بٹھایا۔ اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ” اسے کہو تم کیا چاہتے ہو ؟ “ تو انہوں نے جواب دیا ” میرا مطالبہ یہ ہے کہ بادشاہ دو سو اونٹ دے دے جو میری ملکیت ہیں “۔ جب عبدالمطلب نے یہ کہا تو ابرہہ نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اسے یوں کہو : ” جب میں نے تمہیں دیکھا تو تمہاری شخصیت سے میں بہت متاثر ہوا۔ لیکن جب تم نے میرے ساتھ بات کی تو میں سمجھتا ہوں کہ تم کچھ بھی نہیں ہو۔ کیا تم مجھ سے صرف دو سوانٹوں کے بارے میں بات کرتے ہو ؟ اور اس گھر کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہتے۔ جو تمہارا دینی مرکز ، تمہارے باپ کا دینی مرکز ہے اور میں اسے گرانے کے لئے آیا ہوں “۔ اس پر عبدالمطلب نے کہا : ” میں تو ان دو سو اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا مالک موجود ہے اور وہ عنقریب اس کا دفاع کرلے گا “۔ اس پر ابرہہ نے کہا ” وہ میرا مقابلہ نہیں کرسکتا “۔ عبدالمطلب نے کہا تم جانو اور تمہارا کام۔ اس کے بعد ابرہہ نے عبدالمطلب کے اونٹ لوٹا دیئے۔ عبدالمطلب مکہ واپس ہوئے ، بات چیت کے بارے میں لوگوں کو مطلع کیا اور حکم دیا کہ شہر کو خالی کردو اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر پناہ لے لو۔ اس کے بعد عبدالمطلب اٹھے اور قریش کے کچھ دوسرے لوگ بھی اس کے ساتھ ہولیے۔ عبدامطلب نے خانہ کعبہ کا کنڈا پکڑا اور اس کے ساتھ کچھ دوسرے لوگ کھڑے ہوگئے ، وہ اللہ سے زاری کرنے لگے ، اس کی مدد کے طلبگار ہوئے اور روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے اس موقعہ پر یہ اشعار پڑھے۔ لاھم ان العبد یمنع رحلہ فامنع رحالک لا یغلبن صلیھم ومحاطم ابدا بحالک ان کنت تارکھم وقبلتنا فامر ما بدا لک ”(1) اے اللہ ہر بندہ اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے ، تو اپنے گھر کی حفاظت فرما۔ (2) ان کو صلیب اور ان کی تدبیر تیری تدبیر پر غالب نہ آئے۔ (3) اگر تو ان کو ہمارے قبلے کو اپنے اپنے حال پر چھوڑتا ہے تو بھی جس طرح چاہے حکم دے “۔ ابرہہ نے اپنی فوج اور ہاتھی کو اپنی منزل کی طرف بڑھایا ، مکہ کے قریب آکر ہاتھی بیٹھ گیا اور مکہ کے اندر داخل نہ ہوا۔ انہوں نے بےحد کوشش کی کہ ہاتھی کو مکہ میں داخل کریں مگر وہ کامیاب نہ ہوئے۔ اور یہ بات حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول سے بھی ثابت ہے جب حضور کی اونٹنی قصواء مکہ مکہ کے باہر آکر بیٹھ گئی۔ تو لوگوں نے کہا کہ قصواء بگڑ گئی ۔ حضور نے فرمایا کہ قصواء بگڑ کر نہیں بیٹھ گئی اور نہ یہ اس کی عادت ہے ، لیکن اسے اس ذات نے روک دیا ہے جس نے ہاتھی کو روکا تھا “۔ (بخاری) اور صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن فرمایا ” اللہ نے مکہ سے ہاتھی کو روکا اور اپنے رسول اور اہل ایمان کو اس پر مسلط کردیا۔ اور آج مکہ کا احترام اسی طرح لوٹ آیا جس طرح کل وہ محترم تھا۔ یاد رہے کہ یہ بات ہر سننے والا غائب تک پہنچادے “۔ لہٰذا یہ ایک مستند بات ہے کہ اصحاب فیل کے دن اللہ نے ہاتھی کو مکہ سے روک دیا تھا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ اللہ نے اس لشکر اور اس کے قائدین کو ہلاک کردیا۔ اس لشکر پر غول کے غول پرندے بھیجے گئے یہ پرندے ان پر کیچڑ سے بنی ہوئی کنکریاں پھینکتے تھے اور اس کے نتیجے میں اس لشکر کی حالت یہ ہوگئی جس طرح درختوں کے خشک پتے ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں جس کی تفصیل قرآن نے بیان کی ہے۔ ابرہہ کا جسم بھی متاثر ہوا۔ یہ لوگ اسے اٹھا کرلے گئے۔ اس کا پورا پورا گررہا تھا۔ اسے صنعا تک پہنچایا گیا۔ اور جس طرح روایات میں آتا ہے کہ اس کی موت یوں ہوئی کہ اس کا سینہ شق ہوا اور اس کا دل اس سے باہر نکل آیا۔ روایات میں ان پرندوں کے غولوں کے بارے میں اختلاف ہے کہ ان کی شکل کیسی تھی ، حجم کیا تھا ، ان پتھروں کا حکم کیسا تھا ، ان کی نوعیت اور اثرات کیسے تھے جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے ۔ اس سال مکہ اور خسرہ کی وبا بھی پھوٹی۔ وہ لوگ جو یہ میلان رکھتے ہیں کہ خوارق عادت واقعات اور معجزات کے دائرے کو تنگ کردیں اور واقعات کو اللہ کے ان قوانین کے اندر اندر دیکھا جائے جو اللہ نے جاری کیے ہیں اور جو مالوف ہیں ، یہ خیال کرتے ہیں اور زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ یہ واقعہ چیچک اور خسرے کی وجہ سے پیش آیا۔ الایہ کہ لفظ ” طیر “ کا اطلاق عربی میں ہر اڑنے والی چیز ہوتا ہے جس میں مکھی مچھر شامل ہیں جو جراثیم کو ادھر ادھر منتقل کرتے ہیں۔ امام مفتی محمد عبدہ پارہ عم کی تفسیر فرماتے ہیں : ” اگلے روز لشکر میں چیچک اور خسرہ کی وبا پھوٹ پڑی۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ چیچک کی یہ پہلی وبا تھا۔ یعقوب ابن عتبہ کا قول ہے کہ چیچک کی وبا سب سے پہلے اسی سال پھیلی اور خسرہ بھی اسی سال دیکھا گیا۔ اس وبا نے ان کے اجسام پر انوکھے اثرات ڈالے۔ لوگوں کے جسموں سے گوشت کٹ کر گرنے لگا جب یہ واقعات شروع ہوئے تو لشکر میں خوف وہراس پھیل گیا۔ لوگ بھاگنے لگے۔ اس بیماری کا اثر ابرہہ پر بھی ہوا۔ اس کے جسم کا گوشت بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرنے لگا۔ یہاں تک کہ سینہ تک پھٹ گی اور صنعا پہنچ کر مر گیا “۔ ” اس پر روایات متفق ہیں اور اس کا ماننا چاہیے۔ سورت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیچک اور خسرہ ان پرندوں کی وجہ سے پھیلا جو لشکروں کی صورت میں غول در غول ہوا میں اڑکر آتے اور لشکر پر برستے ؟ “ ” یہ اعتقاد کیا جاسکتا ہے کہ یہ پرندے مچھر اور مکھی کے جنس سے تھے جن کی وجہ سے جراثیم پھیلتے ہیں۔ اور سنگریزے اس خشک مٹی کے ہوں گے جسے ہوائیں اڑاتی ہیں۔ اور جانوروں ، پرندوں اور مچھروں اور مکھیوں کے ذریعہ ادھر ادھر منتقل ہوتے ہیں۔ یہ زہریلا غبار انسانوں کے جساموں میں داخل ہوجاتا ہے اور اس سے پھوڑے اور زخم پیدا ہوجاتے ہیں۔ بدن خراب ہوجاتا ہے اور گوشت کٹ کر گرتا ہے۔ یہ پرندے ، مکھی اور مچھر اللہ کے لشکروں میں سے ہیں اور نہی کے ذریعہ اللہ کئی لوگوں کو ہلاک وبرباد کرتا ہے۔ یہ چھوٹے سے جانور جن کو جرثومہ اور جراثیم کہا جاتا ہے ، یہ بھی اللہ کے لشکر ہیں۔ اور ان لشکروں کی تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے۔ باغیوں اور سرکشوں کو ہلاک کرنے کے لئے اللہ کی قدرت اس پر موقوف نہیں ہے کہ وہ پرندے بڑے بڑے ہوں ، پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرح یا یہ کہ وہ عنقا کی طرح عجیب و غریب پرندے ہوں یا ان کے مخصوص رنگ ہوں۔ نہ اللہ کی قوت سنگریزوں کے سائز پر موقوف ہے۔ اور نہ ان تفصیلات پر کہ جسم پر ان کے اثرات کس طرح نمودار ہوئے۔ کیونکہ ہر شے دراصل اللہ کی فوج کی حیثیت رکھتی ہے۔ وفی کل شیء لہ ایة ۔۔ تدل علی انہ واحمد ” اور ہر چیز میں اللہ کے نشانات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ وہی وحدہ لاشریک ہے “۔ اس کائنات کے تمام قوانین اللہ کے مطیع فرمان ہیں۔ چنانچہو اللہ نے اس سرکش انسان کی سرزنش کے لئے ایسے پرندے بھیجے ، جنہوں نے اس تک خسرے اور چیچک کے جراثیم پہنچادیئے ، وہ ہلاک ہوا ، اس کی فوتج تتر بتر ہوگئی۔ یہ لوگ مکہ میں داخل نہ ہوسکے اور اہل مکہ پر یہ اللہ کا خاص فضل وکرم تھا ، جو ان کی بت پرستی کے باوجود ان پر کیا گیا۔ اور یہ کام اللہ نے اپنے گھر کی حفاظت کے لئے کیا اور یہ بات تمہید تھی رسول آخر الزمان کی آمد کے لئے تاکہ وہ آئیں اور اپنے آخری دین سے اس گھر کو مزید مستحکم کردیں۔ اس طرح اللہ نے بیت اللہ کے مخالفین پر عذاب نازل کیا جو بغیر کسی جواز کے اس کو ڈھانے کے لئے آئے تھے اور انہیں تباہ کردیا “۔ اس سورة کی تفسیر میں یہی بات قابل اعتماد ہے اور اگر اس کے خلاف کوئی صحیح روایت بھی ہو تو اس کی تاویل کرنا چاہئے۔ تاویل کے بغیر قبول کرنا درست نہ ہوگا۔ کیا یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ نہیں ہے کہ جو سرکش ہاتھی جیسے قوی الجثہ حیوان کا سہارا لیتا ہے ، اسے اللہ ایک چھوٹے سے حیوان جرثومے کے ذریعہ جیو صرف خوردبین سے نظر آتا ہے ، تباہ وبرباد کردے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دانش مند انسان کے لئے یہ عظیم تر معجزہ ہے اور عجیب و غریب ہے “۔ ان آیات کی تفسیر میں دو انتہائی آراء اختیار کی گئی ہیں ، ایک یہ جس امام عبدہ کہتے کہ یہ خسرے کی اور چیچک کی وبا تھی جس کے جراثیم پرندوں کے پاﺅں کے ساتھ اٹی ہوئی مٹی کے ذریعہ پھیلے اور دوسری یہ کہ جس طرح روایات میں آتا ہے کہ پرندے جو پتھر پھینکتے تھے وہ بذات خود لوگوں کے سروں اور جسموں کو جلادیتے تھے ، یہ پتھر جسموں کے اندر داخل ہوکر ان کو ریزہ ریزہ کردیتے تھے اور اس طرح کردیتے تھے جس طرح خشک پتھروں کے ٹکڑے ہوتے ہیں جس طرح کھایا ہوا بھوسہ ہوتا ہے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان میں سے کون سی صورت زیادہ اللہ کی قدرت پر دلالت کرتی ہے یا اس واقعہ کی تفسیر کے لئے کون سی بہتر ہے۔ دونوں کا امکان بہرحال ہے۔ اور اس بات کا امکان ہے کہ اللہ کسی قسم کو اس ذریعہ سے ہلاک کرے جو معلوم ومالوف ہو یا کسی ایسے ذریعہ سے ہلاک کرے جو ہمارے حد ادراک سے ماوراء ہو اور ہم ابھی اسے جان نہ سکے ہوں۔ اللہ کی سنت فقط یہ نہیں ہے جسے لوگ جانتے ہوں اور اس کے جاری رہنے کے وہ عادی ہوں۔ جبکہ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ انسان ابھی تک سنن الٰہیہ کے بالکل ایک معمولی حصے کو معلوم کرسکا ہے اور اس کا علم اس کی طاقت کی حدود کے اندر ہے اور جس قدر سنن الٰہیہ کو انسان نے اپنے طویل تجربات اور اس کے نتیجے میں آنے والی معلومات ومدرکات کے ذریعہ معلوم کیا ہے جن باتوں کو لوگ معجزات کہتے ہیں وہ بھی درصال اللہ کے جاری کردہ قوانین ہیں ، یہ عجیب اور خارق عادت اور معجزہ صرف انسان کو نظراتٓے ہیں۔ انسانی محدود علم کے مطابق وہ معجزہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایسے خوارق کا ذکر پڑھ کر ہم نہ کوئی تردد کرتے ہیں اور نہ فضول تاویلات کرتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ روایات صحیح ہوں اور نصوص وروایات میں ایسی بات ہو جو معجزہنظرآتی ہو اور لوگوں کے مالوف اور عادی طریقے کے برعکس ہو اور معجزہ ہو۔ نیز یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ اگر کوئی واقعہ انسانی مشاہدات کے مطابق ہو تو وہ کم اعجازی شان رکھتا ہے بمقابلہ اس واقعہ کے جو انسانی مشاہدے اور مالوف طریقے کے خلاف ہو ، اور خارق عادت ہو۔ کیونکہ وہ سنن الٰہیہ جو معروف ومشاہد ہیں ، وہ بھی انسانی قدرت کے مقابلے میں معجزانہ شان رکھتی ہیں۔ سورج کا طلوع و غروب ہر دن ہمارے مشاہدے میں ہے۔ اور ہم اس کے عادی ہیں لیکن یہ نظام اپنی جگہ ایک معجزہ ہے۔ ایک بچہ کی پیدائش نہایت ہی روٹین کی بات ہے۔ ہر وقت بچے پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن بچے کی ولادت ایک بڑا معجزہ ہے۔ اگر کوئی چاہے تو اس کا تجربہ کرلے۔ اور پرندوں کا اس لشکر پر مسلط کیا جانا ، چاہے وہ جو بھی پرندہ ہو ، اور ان کے ذریعہ ایسے جراثیم اس لشکر کی طرف منتقل کیا جانا جن سے چیچک اور خسرہ کی وباہ پھوٹ پڑے اور یہ جراثیم ایک مخصوص وقت میں مخصوص جگہ پر پیدا کرنا جس پر ایک لشکر حملے کے لئے تیار ہو۔ اس انداز کا واقعہ بھی ایک معجزہ ہے بلکہ یہ معجزہ اپنے اندر کئی معجزات رکھتا ہے اور اس سے اللہ کی تقدیر اور اس کی قدرت کی وسعت معلوم ہوتی ہے۔ یہ معجزہ اس شکل کے معجزے سے کم نہیں جس میں کچھ نصوص پرندے ، مخصوص شکل کے پتھر اٹھائے ہوئے غول درغول آئیں ، ایک مقررہ وقت میں لشکر پر حملہ آور ہوں اور وہ پتھر اس لشکر کے جسم میں معجزانہ نتائج پیدا کردیں۔ اگر حقیقت بین نظر سے دیکھا جائے تو دونوں صورتیں معجزانہ ہیں اور دونوں برابر کا اعجاز رکھتی ہیں۔ جہاں تک اس مخصوص واقعہ کا تعلق ہے تو ہماری رائے یہ ہے کہ یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو معمول کے مطابق نہیں ہے بلکہ خارق العادت اور غیر مالوف ہے۔ اللہ نے غیر معمولی قسم کے پرندے بھیجے جو ابابیل تھے۔ روایات میں ان کا حجم اور شکل اور صفات بھی بتائی گئی ہیں ، لیکن ضروری نہیں ہے ایسی تمام روایات کو قبول کیا جائے۔ کیونکہ ایسے مقامات پر مبالغہ کیا جاتا ہے اور بات کو خوفناک بتایا جاتا ہے۔ بہرحال یہ پرندے غیر معمولی پتھر اٹھائے ہوئے تھے اور یہ جسموں پر غیر معمولی اثرات ڈالتے تھے۔ ہم اس واقعہ میں اس کے غیر معمولی ہونے کی طرف اس لئے مائل نہیں ہیں کہ اس صورت سے اللہ کی قدرت پر کچھ زیادہ روشنی پڑتی ہے یا حقیقت واقعہ میں کوئی عظمت پیدا ہوتی ہے بلکہ اس لئے کہ اس سورت کی فضا ، واقعہ کے حالات میں یہ تفسیر زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس طرح اس گھر کی دھاک دلوں میں بٹھانا چاہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کی حفاظت اس لئے کرنا چاہتا تھا کہ یہ انسانوں کے لئے امن اور پناہ کی جگہ تھی اور اس کی اس حیثیت پر حرف نہ آئے۔ اور اس لئے بھی کہ نبی آخرالزمان آنے والے تھے اور وہ اس دنیا کو ایک نئی نظریاتی سوسائٹی اور ایک نیا نظریہ دینے والے تھے اور اللہ کو منظور یہ تھا کہ یہ نیا عقیدہ مکہ سے آزادی کے ساتھ ترقی کرے اور نہایت آزادانہ فضا میں یہاں سے پھیلے اور کوئی خارجی قوت اس پراثرانداز نہ ہو ، اور یہاں کوئی ایسی بین الاقوامی قوت نہ ہو کہ وہ اس نئے عقیدے کو اس کے سرچشمے کے اندر ہی دبا دے اور گھیر لے۔ اور اس لئے کہ یہ واقعہ سب لوگوں کے اور سب نسلوں کے لئے عبرت خیز ہو ، اور قریش کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد ، یہ بتایا جائے کہ دیکھو تم پر اس گھر کی وجہ سے اللہ کے کیا کیا احسانات ہوئے اور یہ کہ اس گھر کا نگراں اللہ ہے ، اس کی حرمت لازمی ہے اور اس واقعہ سے عبرت پکڑو۔ ان حالات میں مناسب یہی ہے کہ یہ واقعہ غیر معمولی ہو اور اس کے تمام اجزاء اور تمام عناصر غیر معمولی ہوں ، فضا بھی غیر معمولی ہو تو ہمارے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ بتکلف اسے ایک معمولی واقعہ کی شکل میں پیش کریں۔ روایات میں اس واقعہ کے نتیجے میں جو اثرات بتائے گئے ہیں ، وہ اثرات بالعموم چیچک اور خسرے کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوتے۔ اس واقعہ میں فوج اور اس کے کمانڈر کے اجسام ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ اور ان کے پورے پورے گر گئے۔ اور سینہ پھٹ کر دل باہر آگئے۔ یہ واقعات چیچک اور خسرے کی بیماری میں کب ہوتے ہیں اور خود سورت بتاتی ہے کہ اس واقعہ کے اثرات غیر معمولی تھے۔ فجعلھم ................ ماکول (5:105) ” ان کو جانوروں کے کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا “۔ اس میں اس واقعہ کے غیر معمولی ہونے کی طرف براہ راست اشارہ ہے۔ عکرمہ کی روایت اور یعقوب ابن عتبہ نے جو بیان کیا وہ اس بارے میں منصوص نہیں ہے کہ ابرہہ کی فوج یا وہ چیچک یا خسرے سے ہلاک ہوا ، ان روایات میں صرف یہ بات صراحت سے کہی گئی ہے۔ کہ اسی سال عرب میں چیچک اور خسرہ کی وبا پہلی مرتبہ پھیلی۔ ان کے اقوال میں اس طرف اشارہ تک نہیں ہے کہ ابرہہ یا اس کا لشکر اس وبا میں مبتلا ہوا۔ اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ پرندے اور مچھر ان جراثیم کو صرف ابرہہ اور اس کے لشکر کی طرف منتقل کررہے تھے اور یہ جراثیم عرب کے باشندوں پر اثر نہ ڈالتے تھے تو یہ بات بذات خود ایک خارق عادت معجزہ بن جاتی ہے۔ اگر اس تاویل کے بعد بھی صورت معجزہ ہی کی رہ جاتی ہے تو پھر اس معجزے کو ایک معمولی اور مالوف واقعہ کی شکل دینے کے تکلف کی ضرورت کیا ہے۔ محض اس لئے کہ یہ لوگوں کے فہم کے اندر آجائے۔ حالانکہ واقعہ کا ماحول اور پس منظر یہ تقاضا کرتا ہے کہ یہ معجزہ ہو۔ ہم ان حالات اور محرکات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں جن کا دباﺅ اس عقلی مکتب فکر پر تھا ، جس کے صدر نشین ایک دور میں استاد محمد عبدہ تھے۔ ان محرکات کی وجہ سے اس مکتب فکر نے قرآن مجید کی تفسیر میں اور اسلامی تاریخ کی تعبیر میں خارق عادت واقعات اور معجزات کے دائرے کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ ان حضرات کی کوشش یہ تھی کہ ان معجزات اور واقعات کو ان قوانین قدرت کے مطابق بتایاجائے جو اس کائنات میں جاری ہیں۔ اس دور میں عامتہ المسلمین کے ذہنوں پر عجیب و غریب خرافات چھائے ہوئے تھے اور کتب تفسیر اور اسلامی تاریخ اسرائیلی خرافات سے بھری پڑی تھی ، اور یہ دور ایسا تھا کہ اس میں سائنس اور جید اکتشافات کا فتنہ اپنے عروج پر تھا اور لوگ دین کی اساسیات میں بھی شک کرنے لگے تھے اور فتنہ تشکیک اپنے عروج پر تھا۔ اس مکتبہ فکر کی پالیسی یہ تھی کہ دین کو عقل کے مطابق بنا کر عوام الناس میں دین پر اعتماد از سر نو بحال کیا جائے۔ اس لئے ان لوگوں نے بڑی کوشش کی کہ دین کو خرافات سے پاک کیا جائے۔ پھر ان لوگوں نے مسلمانوں کے اندر ایک ایسی فکر پیدا کی جس کے نتیجے میں مسلمان اس کائنات میں جاری وساری سنن الٰہیہ کو بھی سمجھنے لگے اور یہ بھی سمجھنے لگے کہ یہ سنن الٰہیہ اٹل ہیں۔ اور جس طرح انسانی حرکات و سکنات ان سنن الٰہیہ کے تابع ہیں اسی طرح اس کائنات کے عظیم الجثہ کر ات کی حرکات بھی انہیں قوانین کے مطابق ہیں۔ اور یہ فہم اور شعور قرآن کریم کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ پورے قرآن میں لوگوں کو بار بار اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ ان قوانین فطرت پر غور کریں جو اس پوری کائنات میں جاری وساری ہیں اور اٹل ہیں۔ ان کے اندر تسلسل ہے اور تمام مفرد اور بکھرے ہوئے واقعات ان سنن کے مطابق ہیں۔ اگرچہ اس مدرسہ فکر پر ایک طرف سے خرافات کا دباﺅ تھا ، دوسری طرف سے سائنسی خرافات کا دباﺅ تھا ، لیکن اس دو طرفہ دباﺅ کی وجہ سے یہ مدرسہ بھی توازن قائم نہ رکھ سکا اور اس کے اوپر کچھ برے اثرات بھی پڑے۔ یہ مدرسہ بہت محتاط ہوگیا اور انہوں نے یہ قرار دیا کہ وہ سنن الٰہیہ جن کو انسانوں نے سمجھ لیا وہ کلی ہیں اور ان کے اندر استثناء ممکن نہیں ہے۔ چناچہ استاد محمد عبدہ ، ان کے شاگرد استاد سید رشید رضا اور استاد شیخ عبدالقادر مغربی کی تفاسیر میں عام روش یہ اختیار کی گئی کہ جس قدر معجزات وخورارق عادت قرآن میں مذکور تھے ان کی ایسی تاویلات اور تعبیرات کی گئیں کہ وہ سائنس اور عقل انسانی کے مطابق ہوجائیں اور ایسے واقعات ہوجائیں جو معمول کے مطابق ہوتے ہیں اور انہوں نے بعض معجزات کی ایسی تفسیر کرنے کی کوشش کی کہ وہ معقول بن جائیں ۔ غرض انہوں نے تمام غیبی حقائق سے مکمل اجتناب کیا اور اس سلسلے میں سخت احتیاط سے کام کیا۔ ہم اس بات کو بھی سمجھتے ہیں کہ اس مکتب فکر نے کن عوامل کے تحت یہ روش اختیار کی اور اس کی قدر بھی کرتے ہیں۔ لیکن ہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس مکتب فکر نے مبالغے سے کام لیا اور قرآن کریم کے ایک دوسرے اٹل فیصلے کو نظر انداز کردیا کہ اللہ کی مشیت بےقید ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور اللہ کی قدرت ان قوانین پر بھی حاوی ہے جو خود اللہ نے اس کائنات میں جاری کیے۔ اللہ کی مشیت کی یہ بےقیدی اور یہ آزادی اس بات کی نفی کرتی ہے کہ عقل کوئی آخری حاکم اور سپریم جج ہے اور عقل کی معقولات ہی آخری معیار ہیں۔ اگر کوئی بات ان معقولات کے خلاف ہے تو وہ قابل استرداد ہے اور اس کی تاویل ضروری ہے جیسا کہ ان حضرات کی تفاسیر اس روش سے اٹی پڑی ہیں۔ نیز اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ اللہ کی سنن صرف ان سنن تک محدود نہیں ہیں جن کو تمہاری عقل نے ادراک کرلیا ہے۔ جن سنن الٰہیہ کو انسان نے سمجھا ہے وہ قوانین قدرت کا نہایت ہی معمولی حصہ ہیں ۔ اللہ کے قوانین قدرت جو ہمیں معلوم ہیں اور جو معلوم نہیں (معجزات) دونوں دراصل اللہ کی قدرت پر دال ہیں اور اللہ کے نظام قضا وقدر کی دقت اور شمول پر دلیل ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نہایت احتیاط سے کام لیں اور خرافات اور قصے کہانیوں کی نفی بھی اعتدال سے کریں۔ کسی خاص معاشرے میں پائے جانے والے مروج افکار سے متاثر نہ ہوں اور نہ کسی دور میں مروج اور قبول عام رکھنے والے افکار کو بےسوچے سمجھے قبول کریں۔ اس قسم کی قرآنی آیات کی تفسیر کے لئے ایک محفوظ اصول وانداز ہے ۔ مناسب ہے کہ یہاں اس کی وضاحت کردی جائے۔ وہ یہ کہ ہمیں کسی آیت پر اس طرح غور نہیں کرنا چاہئے کہ ہم پہلے اپنے ذہنوں میں کچھ اصول طے کرلیں ، کچھ عوامی سوچوں کو قبول کرلیں اور ان موضوعات پر اپنے طور پر فیصلے کرلیں اور پھر آیات میں تاویل کریں بلکہ ہماری روش یہ ہونی چاہئے کہ ہم خالی الذین ہوکر قرآنی آیات سے نتائج اخذ کریں۔ ان آیات سے ایمان اور عقیدہ اخذ کریں اور ان آیات سے اپنی فکر اور اپنی سوچ اور اپنا ادراک اخذ کریں۔ اگر ان آیات میں کوئی بات طے شدہ ہو تو اسے طے شدہ سمجھیں ۔ یہ اس لئے کہ جس چیز کو ہم عقل انسانی سمجھتے ہیں اور قرآنی اور تاریخی اور کائناتی واقعات کو اس کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں یہ تو انسان کے محدود تجربات کا نتیجہ ہے اور نہایت غیر یقینی چیز ہے۔ یہ عقل اگرچہ ایک مطلق قوت ہے اور یہ انفرادی واقعات وتجربات کے اندر محدود نہیں ہے۔ بلکہ عقل ان انفرادی واقعات سے ماوراء ایک مجرد حقیقت ہے لیکن یہ مجرد عقل بھی بہرحال ہمارے محدود وجود کے اندر کی حقیقت ہے اور ہمارا وجود محدود اور مقید ہے۔ اصل وجود باری تعالیٰ کا ہے جو غیر محدود اور لاانتہا ہے۔ اور یہ قرآن اس اصل وجود کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ لہٰذا اصل حاکم وجود مطلق اور اس کا قرآن ہے۔ اور قرآن جو فیصلے کردے ہمارا مقام یہ ہے کہ ہم اپنے فیصلے اور اپنے عقلی فیصلے قرآن سے اخذ کریں۔ اس لئے یوں کہنا درست نہیں ہے کہ اس نص کا مفہوم عقل سے متصادم ہے لہٰذا اس کی تاویل ضروری ہے۔ اور اس قسم کی عبارات اس مکتب فکر کے لوگوں کے کلام میں بہت سی ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ہم ہر وہم اور ہر کہانی اور تمام خرافات کے سامنے سپرانداز ہوجائیں۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ عقل قرآن کے فیصلوں کو پرکھنے کے لئے معیار نہیں ہے۔ جب قرآن کریم کا مفہوم اور اس کی تعبیر واضح اور سدھی ہو ، تو پھر یہ آیت ہی فیصلہ کرے گی کہ ہماری عقل اس کو کس طرح سے اخذ کرے اور کس طرح ہم اس آیت کی روشنی میں اپنے تصورات کے اصول وضع کریں اور ہمارا علم الکلام اس کی روشنی میں کس طرح وضع ہو ، اور پھر تمام کائناتی حقائق کے بارے میں قرآنی منطق اور قرآنی طرز استدلال کو کس طرح متعین کیا جائے۔ اب ہم سورة فیل اور اس میں بیان کردہ قصے کے مدلولات کی طرف آتے ہیں۔