Surat ul Feel

Surah: 105

Verse: 2

سورة الفيل

اَلَمۡ یَجۡعَلۡ کَیۡدَہُمۡ فِیۡ تَضۡلِیۡلٍ ۙ﴿۲﴾

Did He not make their plan into misguidance?

کیا ان کے مکر کو بے کار نہیں کر دیا؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْراً أَبَابِيلَ تَرْمِيهِم بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّيلٍ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولِ Have you not seen how your Lord dealt with the Owners of the Elephant? Did He not make their plot go astray? And He sent against them birds, in flocks (Ababil). Striking them with stones of Sijjil. And He made them like `Asf, Ma'kul. لاإِيلَـفِ قُرَيْشٍ إِيلَـفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَأءِ وَالصَّيْفِ فَلْيَعْبُدُواْ رَبَّ هَـذَا الْبَيْتِ الَّذِى أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَءَامَنَهُم مِّنْ خوْفٍ For the Ilaf of the Quraysh, their Ilaf caravans, in winter and in summer. So, let them worship the Lord of this House, Who has fed them against hunger, and has made them safe from fear. (106:1-4) meaning, that Allah would not alter their situation because Allah wanted good for them if they accepted Him. Ibn Hisham said, "Al-Ababil are the groups, as the Arabs do not speak of just one (bird)." He also said, "As for As-Sijjil, Yunus An-Nahwi and Abu Ubaydah have informed me that according to the Arabs, it means something hard and solid." He then said, "Some of the commentators have mentioned that it is actually two Persian words that the Arabs have made into one word. The two words are Sanj and Jil, Sanj meaning stones, and Jil meaning clay. The rocks are of these two types: stone and clay." He continued saying, "Al-`Asf are the leaves of the crops that are not gathered. One of them is called `Asfah." This is the end of what he mentioned. وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یعنی وہ خانہ کعبہ ڈھانے کا ارادہ لے کر آئے تھا، اس میں اس کو ناکام کردیا۔۔ استفہام تقریری ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] ابرہہ کے مقاصد کیا تھے ؟ کَیْدَ بمعنی چال یا خفیہ تدبیر۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو علی الاعلان دن دہاڑے کعبہ پر حملہ کرنے آیا تھا اور برملا کہتا تھا کہ میں کعبہ پر حملہ کرنے آیا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عربوں نے ہمارے کلیسا کی توہین کی ہے تو اس میں اس کی چال یا خفیہ تدبیر کیا تھی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی خفیہ تدبیر یہ تھی کہ کعبہ کی تخریب کے بعد اہل عرب کی توجہ اپنے کلیسا کی طرف مبذول کرے۔ اور اس سے اس کا مقصد مذہبی فوائد کا حصول نہیں تھا بلکہ وہ تمام تر تجارتی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتا تھا جو کعبہ کی وجہ سے قریش مکہ کو حاصل تھے۔ [٣] تَضْلِیْلٍ ۔ ضَلّ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ جس غرض کے لیے کوئی کام کیا جائے وہ مقصد حاصل نہ ہو اور وہ کام بالکل بےنتیجہ اور بےکار ثابت ہو۔ اس کی مزید تشریح سورة والضحیٰ کی آیت ( وَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَهَدٰى ۝۠) 93 ۔ الضحی :7) کے حاشیہ میں دیکھیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(الم یجعل کیدھم فی تضلیل :” تضلیل “ کا لفظی معنی گمراہ کرنا ہے، یعنی ان کی تدبیر اس طرف نہیں جانے دی جس طرف وہ لے جانا چاہتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں ان کی تدبیر سیدھی نہیں پڑنے دی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَہُمْ فِيْ تَضْلِيْلٍ۝ ٢ ۙ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ كيد الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] ( ک ی د ) الکید ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» «1» وقال بعض الحکماء : کو ننا مصیبین من وجه وکوننا ضَالِّينَ من وجوه كثيرة، فإنّ الاستقامة والصّواب يجري مجری المقرطس من المرمی، وما عداه من الجوانب کلّها ضَلَالٌ. ولما قلنا روي عن بعض الصالحین أنه رأى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في منامه فقال : يا رسول اللہ يروی لنا أنّك قلت : «شيّبتني سورة هود وأخواتها فما الذي شيّبک منها ؟ فقال : قوله : فَاسْتَقِمْ كَما أُمِرْتَ» والضَّلَالُ من وجه آخر ضربان : ضَلَالٌ في العلوم النّظريّة، کا لضَّلَالِ في معرفة اللہ ووحدانيّته، ومعرفة النّبوّة، ونحوهما المشار إليهما بقوله : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 136] . وضَلَالٌ في العلوم العمليّة، کمعرفة الأحكام الشّرعيّة التي هي العبادات، والضَّلَالُ البعیدُ إشارةٌ إلى ما هو کفر کقوله علی ما تقدّم من قوله : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ [ النساء/ 136] ، وقوله : إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 167] ، وکقوله : فِي الْعَذابِ وَالضَّلالِ الْبَعِيدِ [ سبأ/ 8] ، أي : في عقوبة الضَّلَالِ البعیدِ ، وعلی ذلک قوله : إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلالٍ كَبِيرٍ [ الملک/ 9] ، قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيراً وَضَلُّوا عَنْ سَواءِ السَّبِيلِ [ المائدة/ 77] ، وقوله : أَإِذا ضَلَلْنا فِي الْأَرْضِ [ السجدة/ 10] ، كناية عن الموت واستحالة البدن . وقوله : وَلَا الضَّالِّينَ [ الفاتحة/ 7] ، فقد قيل : عني بِالضَّالِّينَ النّصاری «1» . وقوله : فِي كِتابٍ لا يَضِلُّ رَبِّي وَلا يَنْسى[ طه/ 52] ، أي : لا يَضِلُّ عن ربّي، ولا يَضِلُّ ربّي عنه : أي : لا يغفله، وقوله : أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ [ الفیل/ 2] ، أي : في باطل وإِضْلَالٍ لأنفسهم . ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ حکماء نے کہا ہے کہ صحت دراستی کی راہ تو صرف ایک ہی ہے مگر گمراہی کے متعدد راستے ہیں کیونکہ استقامت اور صواب کی مثال تیر کے ٹھیک نشانہ پر بیٹھ جانے کی ہے اور صحیح نشانہ کے علاوہ ہر جہت کا نام ضلالت ہے ۔ ہمارے اس قول کی تائید بعض صالحین کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے آنحضرت کو خواب میں دیکھا اور عرض کی یارسول للہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جناب کے اس فرمان کے کیا معنی ہیں (12) شیبتنی سورة ھود واخواتھا کہ سورة ہود اور اس کی ہم مثل دوسری سورتوں نے مجھے بوڑھا کردیا ہے ۔ تو آنحضرت نے فرمایا سورة ھود کی جس آیت نے مجھے بوڑھا کردیا : فَاسْتَقِمْ كَما أُمِرْتَ» «2»ہے یعنی اے پیغمبر ٹھیک اسی طرح سیدھے رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے ۔ ایک دوسرے اعتبار سے ضلالۃ کی دو قسمیں ہیں (1) علوم نظریہ تو حید و نبوات وغیرہما کی معرفت میں غلطی کرنا چناچہ آیت کریمہ : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 136 اور جو شخص خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور روز قیامت سے انکار کرے وہ رستے سے بھٹک کر دور جاپڑا ۔ میں اس قسم کی گمراہی کو ضلالا بعیدا کہا گیا ہے ۔ (2) علوم عملیہ میں ضلالۃ ہے جس کے معنی ہیں احکام شرعیہ یعنی عبادات ( اور معاملات ) کی معرفت میں غلطی کرنا اور آیت مذکورہ میں ضلالا بعید اسے اس کے کفر ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت کے ابتداء ومن یکفر اور آیت :إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 167] جن لوگوں نے کفر کیا اور دوسروں کو خدا کے رستے سے روکا وہ رستے سے بھٹک کر دور جا پڑے سے معلوم ہوتا ہے ۔ اور آیت فِي الْعَذابِ وَالضَّلالِ الْبَعِيدِ [ سبأ/ 8] میں بھی معنی مراد ہیں اور فی کے معنی یہ ہیں کہ اس گمراہی کی سزا میں گرفتارہوں گے اور یہی معنی آیت : إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلالٍ كَبِيرٍ [ الملک/ 9] میں مراد ہیں ۔ نیز فرمایا : قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيراً وَضَلُّوا عَنْ سَواءِ السَّبِيلِ [ المائدة/ 77] جو ( خود بھی ) پہلے گمراہ ہوئے اور بھی اکثروں کو گمراہ کیا اور سیدھی راہ سے بھٹک کئے ۔ اور آیت کریمہ : أَإِذا ضَلَلْنا فِي الْأَرْضِ [ السجدة/ 10] کے معنی یہ ہیں ک جب مرنے کے بعد مٹی میں مل کر ضائع ہوجائیں گے اور آیت : وَلَا الضَّالِّينَ [ الفاتحة/ 7] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ اس سے نصارٰی مراد ہیں ۔ اور آیت لا يَضِلُّ رَبِّي وَلا يَنْسى[ طه/ 52] کے معنی ہیں : ہیں یعنی میرے پروردگار کو کوئی چیز غافل نہیں کرتی اور آیت : أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ [ الفیل/ 2] کیا ان کی تدبیر کو ضائع نہیں کیا ( گیا) میں فی تضلیل کے معنی ضائع کردینا اور غلط راہ لگا دینا کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢{ اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَہُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ ۔ } ” کیا اس نے ان کی تمام تدبیروں کو بےکار اور غیر موثر نہیں کردیا ؟ “ اَبرہہ کی اس لشکر کشی کا مقصد انہدامِ کعبہ کے علاوہ عرب میں عیسائیت پھیلانا اور اس تجارت پر قبضہ کرنا بھی تھا جو بلاد مشرق اور رومی مقبوضات کے درمیان عربوں کے ذریعے ہوتی تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 The word kayd is used for a secret plan meant to harm somebody. The question is, what was secret in this case? Sixty thousand troops together with several elephants had openly come from Yaman to Makkah, and they had kept no secret that they had come to destroy the Ka`bah. Therefore, there was nothing secret about this plan. However, what was secret was the motive of the Abyssinians. They by destroying the Ka`bah, crushing down the Quraish and intimidating the Arabians, wanted to take control of the trade route that led from south Arabia to Syria and Egypt. This motive they kept hidden, and instead proclaimed their intent that they wanted to destroy the Ka`bah., the principal House of Arab worship, in retaliation for the pollution of their cathedral by the Arabs. 4 Literally, fi tadlil means: "led their plan astray", but idiomatically leading a plan astray means bringing it to nought and rendering it fruitless. At one place in the Qur'an, it has been said: "But the disbelievers' plot (kayd) ended' in vain." (AI-Mu'min: 25) , At another: "And that Allah does not lead to success the plan (kayd) of deceivers." (Yusuf: 52) . The Arabians described Imra' ul-Qais by the epithet of "al-malik ad-dalil " (the king who lost and wasted) , for he had lost the kingdom left by his father.

سورة الفیل حاشیہ نمبر : 3 اصل میں لفظ کید استعمال کیا گیا ہے جو کسی شخص کو نقصان پہنچانے کے لیے خفیہ تدبیر کے معنی میں بولا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہاں خفیہ کیا چیز تھی؟ ساٹھ ہزار کا لشکر کئی ہاتھی لیے ہوئے علانیہ یمن سے مکہ آیا تھا ، اور اس نے یہ بات چھپا کر نہیں رکھی تھی کہ وہ کعبہ کو ڈھانے آیا ہے ۔ اس لیے یہ تدبیر تو خفیہ نہ تھی ۔ البتہ جو بات خفیہ تھی وہ حبشیوں کی یہ غرض تھی کہ وہ کعبہ کو ڈھا کر قریش کو کچل کر ، اور تمام اہل عرب کو مرعوب کر کے تجارت کا وہ راستہ عربوں سے چھین لینا چاہتے تھے جو جنوب عرب سے شام و مصر کی طرف جاتا تھا ۔ اس غرض کو انہوں نے چھپا رکھا تھا اور ظاہر یہ کیا تھا کہ ان کے کلیسا کی جو بے حرمتی عربوں نے کی ہے اس کا بدلہ وہ ان کا معبد ڈھا کر لینا چاہتے ہیں ۔ سورة الفیل حاشیہ نمبر : 4 اصل الفاظ ہیں فِيْ تَضْلِيْلٍ ۔ یعنی ان کی تدبیر کو اس نے گمراہی میں ڈال دیا لیکن محاورے میں کسی تدبیر کو گمراہ کرنے کا مطلب اسے ضائع کردینا اور اسے اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام کردینا ہے ، جیسے ہم اردو زبان میں کہتے ہیں فلاں شخص کا کوئی داؤں نہ چل سکا ، یا اس کا کوئی تیر نشانے پر نہ بیٹھا ۔ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے وَمَا كَيْدُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ مگر کافروں کی چال اکارت ہی ہوگئی ( المومن ، 25 ) اور دوسری جگہ ارشاد ہوا وَاَنَّ اللّٰهَ لَايَهْدِيْ كَيْدَ الْخَاۗىِٕنِيْنَ اور یہ کہ اللہ خائنوں کی چال کو کامیابی کی راہ پر نہیں لگاتا ( یوسف ، 52 ) اہل عرب امرؤ القیس کو الملک الضلیل ضائع کرنے والا بادشاہ کہتے تھے ، کیونکہ اس نے اپنے باپ سے پائی ہوئی بادشاہی کو کھو دیا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(105:2) الم یجعل کیدھم فی تضلیل : ترکیب مطابق آیت نمبر 1 (استفہام تقریری) کیدھم مضاف مضاف الیہ ۔ کید مصدر و اسم مصدر۔ بری۔ تدبیر۔ مکر چال، فریب، داؤں، چالاکی۔ اور یہ لفظ حسن تدبیر کے معنوں میں بھی آیا ہے۔ مثلا واملی لہم ان کیدی متین (7:183) اور میں انہیں مہلت دیئے جاتا ہوں میری تدبیر بڑی مضبوط ہے تضلیل : بروزن (تفعیل) مصدر سے۔ بےراہ کرنا۔ غلط کرنا۔ کسی تدبیر کا نا کام ہوجانا۔ کسی کوشش کا بار آور نہ ہونا۔ کسی جدوجہد کا اکارت جانا۔ ترجمہ ہوگا :۔ کیا اس نے ان کے مکروفریب کو (یا بری تدبیروں کو) ناکام نہیں بنادیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد کا فقرہ بھی سوالیہ ہے لیکن استفہام تقریری ہے ، یعنی ایسا سوال جس کا جواب اثبات میں ہوتا ہے۔ الم یجعل ........................ تضلیل (2:105) ” کیا اس نے ان کی تدبیر کو اکارت نہیں کردیا “۔ یعنی ان کے مکرو تدبیر کو اس طرح بےراہ نہیں کردیا کہ وہ نشانے پر نہ لگے اور اپنی منزل تک نہ پہنچے۔ اسی طرح جس طرح ایک انسان راہ گم کردے اور منزل مقصود تک نہ پہنچ سکے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ قریش کو یاد دلاتا ہے کہ اس نے ان افعام و احسان کیا۔ ان کی حمایت کی اور اس گھر کو بچایا اور اس وقت بچایا جب وہ خود ابرہہ کے لشکر جرار کا سامنا کرنے سے قاصر تھے۔ شاید کہ وہ شرم کریں اور اس ذات باری کا انکار نہ کریں۔ جس نے ان کی مدد نہایت کمزوری اور عاجزی کی حالت میں کی تھی۔ ان کا کردار اس وقت بعینہ اسی طرح کا ہے جس طرح ابرہہ کا تھا۔ وہ مکہ کے مٹھی بھر مسلمان کو اپنے غرور اور قوت کے بل بوتے پر روندڈالنا چاہتے تھے۔ ان کو چاہئے کہ ذرا اس زور آور کا حال یاد کرلیں جس نے بیت اللہ پر چڑھائی کی تھی اور اس کی حرمت کو پامال کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ اللہ یہ طاقت رکھتا ہے کہ جس طرح اس نے بیت اللہ کو بچایا ، اسی طرح اس کی دعوت کو لے کر چلنے والی حزب اللہ کو بھی بچائے۔ سوال یہ ہے کہ اللہ نے پھر ان کی مکاری کو کس طرح گمراہ اور خطا کردیا ، تو اس کی تصویر کشی بھی قرآن کریم نہایت خوبصورت انداز میں کرتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” الم یجعل “ استفہام تقریری ہے۔ ہم نے ان کی تدبیر بےکار کردی۔ وہ تو خانہ کعبہ کو ڈھانے کیلئے آئے تھے مگر ہم نے ان کو نہ صرف نکام کردیا بلکہ دنیوی عذاب سے ان کو تہس نہس کردیا۔ وارسل علیہم طیرا۔ ابابیل، طیرا سے حال ہے اور وہ ابالۃ کی جمع ہے۔ بمعنی جماعۃً ۔ اللہ تعالیٰ پرندوں کو ٹولیوں کی صورت میں مختلف سمتوں سے ان پر بھیجا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) کیا اس نے ہاتھی والوں کی تمام چالیں اور تمام دائوں غلط ، بےکار اور ضائع نہیں کردیئے۔ یعنی آئے تھے کعبے کی بےحرمتی کرنے اور خود تباہ برباد ہوگئے۔