Surat ul Feel

Surah: 105

Verse: 5

سورة الفيل

فَجَعَلَہُمۡ کَعَصۡفٍ مَّاۡکُوۡلٍ ٪﴿۵﴾  30

And He made them like eaten straw.

پس انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And He made them like `Asf, Ma'kul. Sa`id bin Jubayr said, "This means straw, which the common people call Habbur." In a report from Sa`id he said, "The leaves of wheat." He also said, "Al-`Asf is straw, and Al-Ma'kul refers to the fodder that is cut for animals." Al-Hasan Al-Basri said the same thing. Ibn `Abbas said, "Al-`Asf is the shell of the grain, just like the covering of wheat." Ibn Zayd said, "Al-`Asf are the leaves of vegetation and produce. When the cattle eat it they defecate it out and it becomes dung." The meaning of this is that Allah destroyed them, annihilated them and repelled them in their plan and their anger. They did not achieve any good. He made a mass destruction of them, and not one of them returned (to their land) to relate what happened except that he was wounded. This is just like what happened to their king, Abrahah. For indeed he was split open, exposing his heart when he reached his land of San`a'. He informed the people of what happened to them and then he died. His son Yaksum became the king after him, and then Yaksum's brother, Masruq bin Abrahah succeeded him. Then Sayf bin Dhi Yazan Al-Himyari went to Kisra (the king of Persia) and sought his help against the Abyssinians. Therefore, Kisra dispatched some of his army with Sayf Al-Himyari to fight with him against the Abyssinians. Thus, Allah returned their kingdom to them (i.e., the Arabs of Yemen) along with all the sovereignty their fathers possessed. Then large delegations of Arabs came to him (Sayf Al-Himyari) to congratulate him for their victory. We have mentioned previously in the Tafsir of Surah Al-Fath that when the Messenger of Allah approached the mountain pass that would lead him to the Quraysh on the Day of Al-Hudaybiyyah, his she-camel knelt down. Then the people attempted to make her get up but she refused. So, the people said, "Al-Qaswa' has become stubborn." The Prophet replied, مَا خَلَاَتِ الْقَصْوَاءُ وَمَا ذَاكَ لَهَا بِخُلُقٍ وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيل Al-Qaswa' has not become stubborn, for that is not part of her character. Rather, she has been stopped by He Who restrained the Elephant (of Abrahah). Then he said, وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَا يَسْأَلُونِّي الْيَوْمَ خُطَّةً يُعَظِّمُونَ فِيهَا حُرُمَاتِ اللهِ إِلاَّ أَجَبْتُهُمْ إِلَيْهَا I swear by He in Whose Hand is my soul, they (the Quraysh) will not ask me for any matter (of the treaty) in which the sacred things of Allah are honored except that I will agree with them on it. Then he beckoned the she-camel to rise and she stood up. This Hadith is of those that Al-Bukhari was alone in recording. It has been recorded in the Two Sahihs that on the Day of the conquest of Makkah, the Messenger of Allah said, إِنَّ اللهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِيلَ وَسَلَّطَ عَلَيْهَا رَسُولَهُ وَالْمُوْمِنِينَ وَإِنَّهُ قَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالاَْمْسِ أَلاَ فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَايِب Verily, Allah restrained the Elephant from Makkah, and He has given His Messenger and the believers authority over it. And indeed its sacredness has returned just as it was sacred yesterday. So, let those who are present inform those who are absent. This is the end of the Tafsir of Surah Al-Fil, and all praise and thanks are due to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یعنی ان کے اجزائے جسم اس طرح بکھر گئے جیسے کھائی ہوئی بھوسی ہوتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] عَصْفٌ بمعنی غلہ کے دانہ کے اوپر کے پردے اور چھلکے نیز توڑی اور بھوسہ وغیرہ جو مویشیوں کے لیے چارہ کا کام دیتا ہے۔ اور عَصْفٍ مَاکُولٍ سے مراد یا تو چارے کا وہ حصہ یا ڈنٹھل ہیں جو جانور چرنے کے بعد آخری حصہ چھوڑ دیتے ہیں۔ یا چارے کا وہ حصہ ہے جو جانور کھاتے وقت یا جگالی کرتے وقت منہ سے نیچے گرا دیتے ہیں۔ گویا اس عذاب کے بعد ہاتھی والوں کی لاشوں کی حالت بھی سخت بگڑ گئی تھی۔ جو لوگ قرآن میں مذکور معجزات کی مادی تاویل کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں وہ اس معجزہ کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ چناچہ دور حاضر میں پرویز صاحب نے اپنی تفسیر مفہوم القرآن میں اس کی آخری تین آیات کا ترجمہ یا مفہوم یوں بیان فرمایا ہے : (انہوں (یعنی اصحاب الفیل) نے پہاڑ کے دوسری طرف ایک غیر مانوس خفیہ راستہ اختیار کیا تھا تاکہ وہ تم پر اچانک حملہ کردیں لیکن چیلوں اور گدھوں کے جھنڈ (جو عام طور پر لشکر کے ساتھ ساتھ اڑتے چلے جاتے ہیں، کیونکہ انہیں فطری طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بہت سی لاشیں کھانے کو ملیں گی) ان کے سروں پر منڈلاتے ہوئے آگئے اور اس طرح تم نے دور سے بھانپ لیا کہ پہاڑ کے پیچھے کوئی لشکر آرہا ہے (یوں ان کی خفیہ تدبیر طشت ازبام ہوگئی) چناچہ تم نے ان پر پتھراؤ کیا۔ اور اس طرح اس لشکر کو کھائے ہوئے بھس کی طرح کردیا۔ (یعنی ان کا کچومر نکال دیا۔ ) (مفہوم القرآن ص ١٤٨٤) خ پرویزی تاویل اور اس کا جواب :۔ اب دیکھیے پرویز صاحب کا بیان کردہ مفہوم درج ذیل وجوہ کی بنا پر باطل ہے۔ ١۔ آپ کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ && چیلوں اور گدھوں کے جھنڈ عام طو پر لشکر کے ساتھ ساتھ اڑتے چلے جاتے ہیں تاکہ انہیں بہت سی لاشیں کھانے کو ملیں && دور نبوی میں بیشمار جنگیں ہوئیں تو کیا کسی اور موقع پر بھی چیلوں اور گدھوں کے لشکر کے اوپر منڈلائے تھے ؟ دور نبوی کے علاوہ اور کسی بھی جنگ کے موقعہ پر کہیں اوپر چیلیں اور گدھ کبھی نہیں منڈلائے۔ لہذا یہ پرویز صاحب کی گپ ہے۔ ٢۔ سجیل کا معنی پہاڑوں کے پتھر نہیں۔ بلکہ مٹی ملے کنکر ہیں اور یہ فارسی لفظ سنگ گل سے معرب ہے۔ ٣۔ ایسے کنکر یا کنکریاں پہاڑوں کے اوپر نہیں ہوتیں۔ نہ ہی ایسی کنکریوں سے کسی ایسے لشکر جرار کو ہلاک کیا جاسکتا ہے جس میں ہاتھی بھی ہوں۔ ٤۔ تَرْمِیْ واحد مونث غائب کا صیغہ پرندوں کی جماعت کے لیے استعمال ہوا ہے لیکن آپ نے اس کا ترجمہ && تم نے ان پر پتھراؤ کیا && بیان فرمایا۔ یہ تَرْمُوْنَ کا ترجمہ ہے۔ ترمی کا نہیں ہوسکتا۔ ٥۔ علاوہ ازیں تاریخ سے بھی ایسی کوئی شہادت نہیں مل سکتی کہ اہل مکہ اصحاب الفیل کے مقابلے کے لیے نکلے ہوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فجعلھم کعصف ماکول :” عصف “ اناج کے دانوں سے جو چھلکا اترتا ہے، بھوسا، توڑی۔” ماکول “ ” اکل یا کل اکلا “ (ن) سے اسم مفعول ہے، کھایا ہوا، کھائے ہوئے بھس سے مراد جانور کی لید ہے، کیونکہ جانور بھس کھا کر لید کرتا ہے اور پھر وہ خشک ہو کر ادھر اھدر بکھر جاتی ہے۔ سنگریزوں کے عذاب سے ان کے اعضا کے بکھر جانے کو اس کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ (طبری) اللہ تعالیٰ کے استعمال میں اعلیٰ درجے کی شائستگی اختیار فرماتے ہیں، اس مفہوم کو ” لید “ کے بجائے ” کھائے ہوئے بھس “ کے الفاظ میں ادا کیا ہے، اس سے ان کی زبوں حلای بھی نمایاں ہو رہی ہے۔ (قاسمی بحوالہ شہاب) یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ جانوروں کے کھانے کے بعد جو بھوسا بچ جاتا ہے اسے وہ پاؤں میں روند دیتے ہیں اور وہ ادھر ادھر بکھر جاتا ہے، وہ اس بھوسے کی طرح ہوگئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse [ 105:5] فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ (And thus He turned them into an eaten-up chaff.) The word ` asf means &chaff, straw, husk or bran&. Usually the ` asf is scattered and when it is eaten or devoured by animals, it does not remain in the same state. This is what happened to Abrahah and his army. Conclusion The miraculous event of the &People of the Elephant& enhanced in the hearts of the entire Arabian society the love, respect and honor of the Quraish. When Arabia witnessed that Allah has, on their behalf, miraculously destroyed their enemy, they were convinced that the Quraish are men of God, and custodians of the Sacred House of Allah [ Qurtubi ]. That is why they were respected and protected wherever they went; although other caravans in Arabia had to fear attacks from highway robbers, the Quraish travelled untouched and enjoyed high social status. As a result, they could freely and safely carry out their commercial activities in the neighboring states, and enjoy economic prosperity. The Surah that follows refers to these journeys and invites the Quraish to be thankful to Allah and worship Him alone for providing them with all of their needs. Al-hamdulillah The Commentary on Surah Al-Fil Ends here

فجعلھم کعصف ماکول عصف، بھوسہ کو کہتے ہیں اول تو خود بھوسہ ہی منتشر تنکے ہوتے ہیں، پھر جبکہ اس کو کیک جانور نے چبا بھی لیا ہو تو تنکے بھی اپنے حال پر نہیں رہتے۔ ابرہہ کے لشکر میں جس پر یہ کنکر پڑی ہے اس کا یہی حال ہوگیا ہے۔ اصحاب فیل کے اس عجیب و غریب واقعہ نے پورے عرب کے دلوں میں قریش کی عظمت بڑھا دی اور سب ماننے لگے کہ یہ لوگ اللہ والے ہیں ان کی طرف سے خود حق تعالیٰ جل شانہ نے ان کے دشمن کو ہلاک کردیا (قرطبی) اسی عظمت کا یہ اثر تھا کہ قریش مکہ مختلف ملکوں کا سفر بغرض تجارت کرتے تھے اور راستہ میں کوئی ان کو نقصان نہ پہنچاتا حالانکہ اس وقت دوسروں کے لئے کوئی سفر ایسے خطرات سے خالی نہیں تھا۔ قریش کے انہی سفروں کا ذکر آگے اگلی سورت سورة قریش میں کر کے ان کو شکر نعمت کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ تمت سورة الفیل بحمد اللہ تعالیٰ

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَجَــعَلَہُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ۝ ٥ ۧ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ عصف العَصْفُ والعَصِيفَةُ : الذي يُعْصَفُ من الزّرعِ ، ويقال لحطام النّبت المتکسّر : عَصْفٌ. قال تعالی: وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ [ الرحمن/ 12] ، كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ [ الفیل/ 5] ، ورِيحٌ عاصِفٌ [يونس/ 22] ، وعَاصِفَةٌ ومُعْصِفَةٌ: تَكْسِرُ الشیءَ فتجعله كَعَصْفٍ ، وعَصَفَتْ بهم الرّيحُ تشبيها بذلک . ( ع ص ف ) العصف واعصیفتہ کھیتی کے پتے جو کاٹ لئے جاتے ہیں نیز خشک نباتات جو ٹوٹ کر چور چور ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ [ الرحمن/ 12] اور اناج چھلکے کے اندر ہوتا ہے ۔ ، كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ [ الفیل/ 5] جیسے کھا یا ہوا بھس ہو ۔ ورِيحٌ عاصِفٌ [يونس/ 22] ریح عاصف وعاصفتہ ومعصفتہ تند ہوا جو ہر چیز کو توڑ کر بھس کی طرح بنادے اور مجازا عصفت بھم الریح کے معنی ہیں وہ ہلاک اور برباد ہوگئے ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥{ فَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ ۔ } ” پھر اس نے کردیا ان کو کھائے ہوئے بھس کی طرح۔ “ یعنی اس پورے لشکر کی حالت اس چارے یا ُ بھس کی طرح ہوگئی جسے جانوروں نے کھا کر چھوڑ دیا ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7 The word asfas used in the original has already occurred in verse 12 of Surah Ar-Rahman above: dhul-'asf war-raihan: "and corn with husk as well as grain". This shows that asf means the outer covering of seeds, which the farmer throws away after the grain has been separated from it. Then the animals eat it, and some of it falls down in the chewing and some is trampled under the hoofs.

سورة الفیل حاشیہ نمبر : 7 اصل الفاظ ہیں كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ ، عصف کا لفظ سورہ رحمان آیت 12 میں آیا ہے ۔ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ اور غلہ بھوسے اور دانے والا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ عصف کے معنی اس چھلکے کے ہیں جو غلے کے دانوں پر ہوتا ہے اور جسے کسان دانے نکال کر پھینک دیتے ہیں ، پھر جانور اسے کھاتے بھی ہیں ، اور کچھ ان کے چبانے کے دوران میں گرتا بھی جاتا ہے ، اور کچھ ان کے پاؤں تلے روندا بھی جاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(105:5) فجعلہم کعصف ماکول۔ ف سببیہ ہے۔ جعلہم میں ضمیر فاعل واحد مذکر غائب رب کی طرف راجع ہے۔ اور ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب اصحب الفیل کے لئے ہے ک تشبیہ کا ہے۔ العصف۔ حضرت ابن عباس کے قول کے مطابق وہ چھلکا ہے جو گیہوں کے دانہ پر ہوتا ہے۔ سورة الرحمن میں بھی اسی معنی میں آیا ہے :۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔ والحب ذوالعصف والریحان (55:12) اور (اس میں) اناج ہے جس پر بھس ہوتا ہے۔ ما کول : اسم مفعول واحد مذکر اکل (باب نصر) مصدر سے ۔ کھایا ہوا۔ عصف کی صفت ہے۔ پس بنا ڈالا ان کو کھایا ہوا بھوسہ

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) پھر خدائے تعالیٰ نے ان کو ایسا کردیا جیسے بھس کا پس خوردہ ۔ یعنی ناند میں پڑا ہوا بھوسا جس کو گائے یا بھینس کھالے اور اس کا جو حصہ باقی رہ جائے غرض گھاس ہو یا بھوسا ہو جس کو چوپائے کھا کر خراب کردیں یعنی پراگندہ ، قبیح، متبذل، بدنما اور چورا چورا ہوجانے میں تشبیہہ ہے کہ ان کے جوڑ جوڑ الگ کردیئے گئے اور ان کا چورا چورا کردیا گیا جو لوگ بچے وہ کھجلی اور چیچک میں مبتلا ہوئے اور رینجھ رینجھ کر مرے۔ اس سورت میں علاوہ احسان کے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم اور آپ کی تکریم سے ڈرانا ہے لوگوں کو کہ وہ نافرمانی کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈریں۔