Surat ul Maoon
Surah: 107
Verse: 1
سورة الماعون
اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یُکَذِّبُ بِالدِّیۡنِ ؕ﴿۱﴾
Have you seen the one who denies the Recompense?
کیا تو نے ( اسے بھی ) دیکھا جو ( روز ) جزا کو جھٹلاتا ہے؟
اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یُکَذِّبُ بِالدِّیۡنِ ؕ﴿۱﴾
Have you seen the one who denies the Recompense?
کیا تو نے ( اسے بھی ) دیکھا جو ( روز ) جزا کو جھٹلاتا ہے؟
Allah says, أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ "O Muhammad! Have you seen the one who denies the Din" Here the word Din means the Hereafter, the Recompense and the Final Reward. فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ
نماز میں غفلت اور یتیموں سے نفرت: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم نے اس شخص کو دیکھا جو قیامت کے دن کو جو جزا سزا کا دن ہے جھٹلاتا ہے یتیم پر ظلم و ستم کرتا ہے اس کا حق مارتا ہے اس کے ساتھ سلوک و احسان نہیں کرتا مسکینوں کو خود تو کیا دیتا دوسروں کو بھی اس کار خیر پر آمادہ نہیں کرتا جیسے اور جگہ ہے ( كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِيْمَ 17ۙ ) 89- الفجر:17 ) یعنی جو برائی تمھیں پہنتی ہے وہ تمھارے اعمال کا نتیجہ ہے کہ نہ تم یتیموں کی عزت کرتے ہو نہ مسکینوں کو کھانا دینے کی رغبت دلاتے ہو یعنی اس فققیر کو جو اتنا نہیں پاتا کہ اسے کافی ہو پھر فرمان ہوتا ہے کہ غفلت برتنے والے نمازیوں کے لیے ویل ہے یعنی ان منافقوں کے لیے جو لوگوں کے سامنے نماز ادا کریں ورنہ ہضم کر جائیں یہی معنی حضرت ابن عباس کے کیے ہیں اور یہ بھی معنی ہیں کہ مقرر کردہ وقت ٹال دیتے ہیں جیسے کہ مسروق اور ابو الضحی کہتے ہیں حضرت عاء بن دینا فرماتے ہیں اللہ کا شکر ہے کہ فرمان باری میں عن صلوتھم ہے فی صلوتھم نہیں یعنی نمازوں سے غفلت کرتے ہیں فرمایا نمازوں میں غفلت برتتے ہیں نہیں فرمایا اسی طرح یہ الف ظشامل ہے ایسے نمازی کو بھی جو ہمیشہ نماز کو آخری وقت ادا کرے یا عموماً آخری وقت پڑھے یا ارکان و شروط کی پوری رعایت نہ کرے یا خشو و خضو اور تدبر و غروفکر نہ کرے لفظ قرآن ان میں سے ہر ایک کو شامل ہے یہ سب باتیں جس میں ہوں وہ تو پورا پورا بدنصیب ہے اور جس میں جتنی ہوں اتنا ہی وہ ویل ہے اور نفاق عملی کا حقو دار ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں یہ نماز منافق کی ہے یہ نماز منافق کی ہے یہ نماز منافق کی ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہے جب وہ غروب ہونے کے قریب پہنچے اور شیطان اپنے سینگ اس میں ملا لے تو کھڑا ہو اور مرغ کی طرح چار ٹھونگیں مار لے جس میں اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرے یہاں مراد عصر کی نماز ہے ججو صلوہ وسطی ہے جیسے کہ حدیث کے لفظوں سے ثابت ہے یہ شخص مکروہ وقت میں کھڑا ہوتا اور کوے کی طرح چونچیں مار لیتا ہے جس میں اطمینان ارکان بھی نہیں ہوتا نہ خشو و خضوع ہوتا ہے بلکہ ذکر اللہ بھی بہت ہی کم ہوتا ہے اور کیا عجب کہ یہ نماز محض دکھاوے کی نماز ہو تو پڑھی نہ پڑھی یکاں ہے انہی منافقین کے بارے میں اور جگہ ارشاد ہے ( اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا ١٤٢ۡۙ ) 4- النسآء:142 ) یعنی منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ انہیں یہ جب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو تھکے ہارے بادل ناخواستہ صرف لوگوں کے دکھاو کے لیے نماز گذارتے ہیں اللہ کی یاد بہت ہی کم کرتے ہیں یہاں بھی فرمایا یہ ریا کاری کرتے ہیں لوگوں میں نمازی بنتے ہیں طبرانی کی حدیث میں ہے ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس کی آگ اس قدر تیز ہے کہ اور آگ جہنم کی ہر دن اس سے چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے یہ ویل اس امت کے ریاکار علماء کے لیے ہے اور ریاکاری کے طور پر صدقہ خیرات کرنے والوں کے لیے ہے اور ریا کاری کے طور پر حج کرنے والوں کے لیے ہے اور ریا کاری کے طور پر جہاد کرنے والوں کے لیے ہے مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص دوسروں کو سنانے کے لیے کوئی نیک کام کرے اللہ تعالیٰ بھی لوگوں کو سنا کر عذاب کریگا اور اسے ذلیل و حقیر کریگا ہاں اس موقعہ پر یہ یاد رہے کہ اگر کسی شخص نے بالکل نیک نیتی سے کوئی اچھا کام کیا اور لوگوں کو اس کی خبر ہو گئی اس پر سے بھی خوشی ہوئی تو یہ ریا کاری نہیں اس کی دلیل مسند ابو یعلی موصلی کی یہ حدیث ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکار نبوی میں ذکر کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو تنہا نوافل پڑھتا ہوں لیکن اچانک کوئی آ جاتا ہے تو ذرا مجھ بھی یہ اچھا معلوم ہونے لگتا ہے آپ نے فرمایا تجھے دو اجر ملیں گے ایک اجر پوشیدگی کا اور دوسرا ظاہر کرنے کا حضرت ابن المبارک فرمایا کرتے تھے یہ حدیث ریا کاروں کے لیے بھی اچھی چیز ہے یہ حدیث بروئے اسنا غریب ہے لیکن اسی معنی کی حدیث اور سند سے بھی مروی ہے ابن جریر کی ایک بہت ہی ضعیف سند والی حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت اتری تو حضور صلی اللہ علہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ اکبر یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ تم میں سے ہر شخص کو مثل تمام دنیا کے دیا جائے اس سے مراد وہ شخص ہے کہ نماز پڑھے تو اس کی بھلائی سے اسے کچھ سروکار نہ ہو اور نہ پڑھے تو اللہ کا خوف اسے نہ ہو اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو اس کے وقت سے موخر کرتے ہیں اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ سرے سے پڑھتے ہی نہیں دوسرے معنی یہ ہیں کہ شرعی وقت نکال دیتے ہیں پھر پڑھتے ہیں یہ معنی بھی ہیں کہ اول وقت میں ادا نہیں کرتے ایک موقوف روایت میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ تنگ وقت کر ڈالتے ہیں زیادہ صحیح موقوف روایت ہی ہے امام بیہقی بھی فرماتے ہیں کہ مرفوع توضعیف ہے ہاں موقوف صحیح ہے امام حاکم کا قول بھی یہی ہے پس جس طرح یہ لوگ عبادت رب میں سست ہیں اسی طرح لوگوں کے حقوق بھی ادا نہیں کرتے یہاں تک کہ برتنے کی کمی قیمت چیزیں لوگوں کو اس لیے بھی نہیں دتے کہ وہ اپنا کام نکال لیں اور پھر وہ چیز جوں کی توں واپس کر دیں پس ان خسیس لوگوں سے یہ کہاں بن آئے کہ وہ زکوٰۃ ادا کریں یا اور نیکی کے کام کریں حضرت علی سے ماعون کا مطلب ادائیگی زکوٰۃ بھی مروی ہے اور حضرت ابن عمر سے بھی اور دیگر حضرات مفسرین معتبرین سے بھی امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی نماز میں ریا کاری ہے اور مال کے صدقہ میں ہاتھ روکنا ہے حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں یہ منافق لوگ ہیں نماز تو چونکہ ظاہر ہے پڑھنی پڑتی ہے اور زکوٰۃ چونکہ پوشیدہ ہے اس لیے اسے ادا نہیں کرتے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ماعون ہر وہ چیز ہے جو لوگ آپس میں ایک دوسرے سے مانگ لیا کرتے ہیں جیسے کدال پھاوڑا دیگچی ڈول وغیرہ ۔ دوسری روایت میں ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں اور روایت میں ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہم اس کی تفسیر یہی کرتے تھے نسائی کی حدیث میں ہے ہر نیکی چیز صدقہ ہے ڈول اور ہنڈیا یا پتیلی مانگے پر دینے کو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ماعون سے تعبیر کرتے تھے غرض اس کے معنی زکوٰۃ نہ دینے کے اطاعت نہ کرنے کے مانگی چیز نہ دینے کے ہیں چھوٹی چھوٹی بےجان چیزیں کوئی دو گھڑی کے لیے مانگنے آئے اس سے ان کا انکار کر دینا مثلا چھلنی ڈول سوئی سل بٹا کدال پھائوڑا پتیلی دیگچی وغیرہ ایک غریب حدیث میں ہے کہ قبیلہ نمیر کے وفد نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمیں خاص حکم کیا ہوتا ہے آپنے فرمایا ماعون سے منع کرنا انہوں نے پوچھا ماعون کیا ؟ فرمایا پتھر لوہا پانی انہوں نے پوچھا لوہے سے مراد کونسا لوہا ہے؟ فرمایا یہی تمہاری تانبے کی پتیلیاں اور کدال وغیرہ پوچھا پتھر سے کیا مراد ؟ فرمایا یہی دیگچی وغیرہ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے بلکہ مرفوع ہونا منکر ہے اور اس کی اسناد میں وہ راوی ہیں جو مشہور نہیں علی نمیری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے سنا ہے آپ نے فرمایا مسلمان کا مسلمان بھائی ہے جب ملے سلام کرے جب سلام کرے تو بہتر جواب دے اور ماعون کا انکار نہ کرے میں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ماعون کیا ؟ فرمایا پتھر لوہ اور اسی جیسی اور چیزیں واللہ اعلم الحمد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کے احسان اور رحم سے اس سورت کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔
1۔ 1 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے اور استفہام سے مقصد اظہار تعجب ہے۔ رؤیت معرفت کے مفہوم میں ہے اور دین سے مراد آخرت کا حساب اور جزا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ کلام میں حذف ہے۔ اصل عبادت ہے " کیا تو نے اس شخص کو پہچانا جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے ؟ آیا وہ اپنی اس بات میں صحیح یا غلط۔
[١] دین کے چار معنی :۔ دین کا لفظ چار معنوں میں آتا ہے۔ (١) اللہ تعالیٰ کی کامل اور مکمل حاکمیت (٢) انسان کی مکمل عبودیت اور بندگی (٣) قانون جزا و سزا (٤) قانون جزا و سزا کے نفاذ کی قدرت۔ کفار مکہ ان چاروں باتوں کے منکر تھے۔ وہ صرف ایک اللہ ہی کو الٰہ نہیں مانتے تھے بلکہ اپنی عبادت میں دوسرے معبودوں کو بھی شریک کرتے تھے۔ اللہ کے قانون جزا و سزا کے بھی منکر تھے اور آخرت کے بھی۔ اس آیت میں اگرچہ بظاہر خطاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے لیکن تبصرہ کفار مکہ پر ہے کہ انکار آخرت نے ان میں کون سی معاشرتی اور اخلاقی برائیاں پیدا کردی تھیں۔
(ارء یت الذی یکذب بالدین…:”’ ع یدع دعا “ (ن) دھکے دیتا۔” کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جو جزا کو جھٹلاتا ہے…“ یہ اولاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب ہے، اس کے بعد ہر شخص اس کا مخطاب ہے۔ ان آیات میں قیامت کے دن اعمال کی جزا کو جھٹلانے کی وجہ سے کسی شخص میں جو سنگ دلی اور شقاوت پیدا ہوتی یہ اس کا ذکر فرمایا ہے۔ اس کے سامنے چونکہ دنیا ہی سب کچھ ہوتی ہے، اس لئے اسے کسی یتیم سے ہمدرید اور مسکین کی غم خواری پر کسی فائدے کی توقع ہوتی ہے نہ ان کے حقوق غصب کرنے پر کسی باز پرس اور سزا کا خوف ہوتا ہے، لہٰذا وہ ان بےبس لوگوں کے معالمے میں نہایت بےرحم ہوتا ہے۔ یتیم اپنے باپ کی وراثت مانگے یا اپنا کوئی اور حق وہ اسے دھکے مار کر باہر نکال دیتا ہے۔ مسکین پر رحم کرتے ہوئے اسے خود کھانا کھلانا تو دور کی بات ہے وہ کسی دوسرے کو اس کیلئے کہنے پر بھی تیار نہیں ہوتا۔ یتیموں اور مسکینوں سے ہمدردی صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو جزا و سزا پر ایمان رکھتا ہو۔
The love of the world causes nations to lose faith and consign Allah to oblivion This Surah denounces some of the evil actions of the pagans and the hypocrites, and it holds out a threat of destruction to those who commit them. If these evil actions are committed by believers, who do not reject the true faith, they are still heinous and gravely sinful, but the threat of chastisement made in this surah does not apply to them. Therefore, verse [ 107:1] أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ (Have you not seen him who denies the Requital?), as a preamble, makes plain that the person who performs these evil deeds is one who cries lies to the Doom, and thus the warning of punishment mentioned in this Surah is for those who deny the religion and the Day of Judgment. The verse contains a subtle indication that the moral sins condemned in this Surah are far too inconceivable from a believer; only a non-believer or hypocrite would commit them. The morally bad and sinful deeds mentioned here are: [ 1] oppressing and insulting the orphan, and being unkind to them; [ 2] despite the means, failing to feed the poor or failing to urge others to feed them; [ 3] praying [ in public only, not in private ] only to show the people; and [ 4] failing to pay the Zakah [ obligatory alms ]. These actions are intrinsically bad and gravely sinful, but their commission in the wake of kufr [ disbelief ] and takdhib [ rejection ] are even more aggravating, because they attract eternal perdition, which in this Surah is described as wail [ heavy affliction or calamity or disaster or destruction ]. Verses [ 107:4-6] فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ﴿٤﴾ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ﴿٥﴾ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ (So woe to those performers of salah who are neglectful of their salah, who [ do good only to ] show off.) These verses describe the characteristics of the hypocrites who used to perform the prayers only to make a display of them to the people and prove that their claim of being sincere Muslims is true. As they do not believe in the obligatory nature of the prayers, they are not regular at them, and they do not observe the prescribed times, but offer them carelessly at the eleventh hour or completely out of time. They perform them only when they must to make a display of them, otherwise they have no place in their lives. The preposition &an (translated above as &of) in the prepositional phrase عَن صَلَاتِھِم |"[ neglectful ] of their salah|" is significant. It indicates that they [ the hypocrites ] are neglectful of the very concept of salah. This does not refer to the unintentional errors, slips and mistakes that Muslims make in their prayers. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) also made this type of unintentional mistakes in his prayers. The warning of Hell by the expression of wail does not apply to such mistakes. If that was the case, the prepositional phrase would have been fi salatihim [ in their prayers ] instead of [&an salatihim [ neglectful of their prayers ]. Verse [ 107:7] وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ (And refuse [ to give even ] small gifts.) The word min literally means any small or petty thing& and idiomatically it refers to &small household articles of common use such as axe, hoe, cooking pot which at the time of need neighbors borrow from one another&. Anyone who is unwilling to lend such small items is morally a very miserly and mean person. However, in the current verse the word ma’ un is taken in the sense of Zakah [ obligatory alms ] because it is a little amount out of much wealth - only 2-½% out of the entire wealth. Majority of the commentators - like Sayyidna ` Ali, Ibn ` Umar, Hasan Basri, Qatadah, Dahhak (رض) and others - hold the view that ma` un implies Zakah. [ Mazhari ]. The threat of wail (torment of Hell) can only be for failure to fulfill one&s legal obligation. Giving small items to help out one&s fellow human beings is a humanitarian and philanthropic gesture that carries much reward in the Hereafter, but it is not an obligation at all, the violation of which could lead to eternal perdition. Traditions reporting that ma’ un refers to pots and pans, and other household items of daily use are to show that if a person is reluctant to part with such small items, how will he have the heart to part with 2-½% of his wealth? The Traditions purport to say that these people are so narrow-minded that they are not willing to make the least bit of selfless sacrifice for the welfare and wellbeing of others. They are morally mean, low and miserly in the extreme. Therefore, they do not pay their legal alms. Thus the threat of punishment in Hell-fire is not on account of failure to do one&s neighborly acts of kindness, but for failure to pay the legal alms and perhaps for their extreme niggardliness. Al-Hamdulillah The Commentary on Surah Al-Ma’ un Ends here
خلاصہ تفسیر کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جو روز جزاء کو جھٹلاتا ہے سو (آپ اس کا حال سننا چاہیں تو سنئیے کہ) وہ شخص وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور محتاج کو کھانا دینے کی (دوسروں کو بھی) ترغیب نہیں دیتا (یعنی وہ ایسا سنگدل ہے کہ خود وہ کسی غریب کو کیا دیتا دوسروں کو بھی اس پر آمادہ نہیں کرتا۔ اور جب بندوں کا حق ضائع کرنا ایسا برا ہے تو خالق کا حق ضائع کرنا تو اور زیادہ برا ہے) سو (اس سے ثابت ہوا کہ) ایسے نمازیوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو اپنی نماز کو بھلا بیٹھتے ہیں (یعنی ترک کردیتے ہیں) جو ایسے ہیں کہ (جب نماز پڑھتے ہیں تو) ریا کاری کرتے ہیں اور زکوٰة بالکل نہیں دیتے (کیونکہ زکوٰة کے لئے شرعاً یہ ضروری نہیں کہ سب کے سامنے ظاہر کر کے دے اسلئے اس کو بالکل نہ دینے سے بھی کوئی اعتراض نہیں کرسکتا بخلاف نماز کے وہ جماعت کے ساتھ علانیہ ادا کی جاتی ہے اس کو بالکل چھوڑدے تو سب پر نفاق ظاہر ہوجاوے اس لئے نماز کو محض دکھلاوے کے لئے پڑھ لیتا ہے) معارف ومسائل اس سورة میں کفار و منافقین کے بعض افعال قبیحہ مذمومہ کا ذکر اور ان پر جہنم کی وعید ہے، یہ افعال اگر کسی مومن سے سرزد ہوں جو تکذیب نہیں کرتا وہ بھی اگرچہ شرعاً مذموم اور سخت گناہ ہیں مگر وعید مذکور ان پر نہیں ہے اسی لئے ان افعال و اعمال سے پہلے ذکر اس شخص کا فرمایا ہے جو دین اور قیامت کا منکر ہے اس کی تکذیب کرتا ہے اس میں اشارہ اس طرف ضرور ہے کہ یہ اعمال جن کا ذکر آگے رہا ہے مومن کی شان سے بعید ہیں وہ کوئی منکر کافر ہی کرسکتا ہے، وہ اعمال قبیحہ جنا کا اس جگہ ذکر اس سورة میں فرمایا ہے یہ ہیں، یتیم کے ساتھ بدسلوکی اور اس کی توہین۔ مسکین محتاج کر باوجود قدرت کے کھانا نہ دینا اور دوسروں کو اس کی ترغیب نہ دینا، نماز پڑھنے میں ریا کاری کرنا، زکوٰة ادا نہ کرنا یہ سب افعال اپنی ذات میں بھی بہت مذموم اور سخت گناہ ہیں اور جب کفر و تکذیب کے نتیجہ میں یہ افعال سرزد ہوں تو انکا وبال دائمی جہنم ہے جیسا کہ اس سورة میں اس کو ویل کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے۔ فویل للمصلین، الذین ھم عن صلاتھم ساھون الذین ھم یرآنءون یہ حال منافقین کا بیان فرمایا ہے جو لوگوں کو دکھلانے اور اپنے دعوائے اسلام کو ثابت کرنے کے لئے نماز تو پڑھتے ہیں مگر چونکہ وہ نماز کی فرضیت ہی کے معتقد نہیں اس لئے نہ اوقات کی پابندی کرتے ہیں نہ اصل نماز کی، جہاں دکھلانے کا موقع ہوا پڑھ لی، ورنہ ترک کردی عن صلاتھم میں لفظ عن کا مفہوم یہی ہے کہ اصل نماز ہی سے بےپروائی اختیار کرے جو منافقین کی عادت ہے اور نماز کے اندر کچھ سہو و نسیان ہوجانا جس سے کوئی مسلمان یہاں تک کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی خالی نہیں، وہ اس کلمہ کی مراد نہیں ہے کیونکہ اس پر وعید ویل جہنم کی نہیں ہو سکتی، اور اگر یہ مراد ہوئی تو عن صلاتھم کے بجائے فی صلاتھم فرمایا جاتا احادیث صحیحہ میں متعدد مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز میں سہو واقع ہونا ثابت ہے ویمنعون الماعون ماعون کے اصل لفظی معنے پشئی قلیل و حقیر کے ہیں اس لئے ماعون ایسی استعمالی اشیاء کو کہا جاتا ہے جو عادة ایک دوسرے کو عاریتة دی جاتی ہیں اور جن کا باہم لین دین عام انسانیت کا تقاضا سمجھا جاتا ہے جیسے کلہاڑی پھاوڑو یا کھانے پکانے کے برتن جن کا ضرورت کے وقت پڑوسیوں سے مانگ لینا کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا اور جو اس میں دینے سے بخل کرے وہ بڑا کنجوس کمینہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر آیت مذکورہ میں لفظ ماعون سے مراد زکوة اور زکوة کو ماعون اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ مقدار کے اعتبار سے نسبتہً بہت قلیل ہے یعنی صرف چالیسویاں حصہ، حضرت علی، ابن عمر، حضرت بصری، قتادہ ضعاک، غیرہ جمہور مفسرین نے اس آیت میں ماعون کی تفسیر زکوة ہی سے کی ہے (مضہری) اور اس کے نہ دینے پر جو عذاب ویل جہنم کا مذکور ہے وہ بھی ترک فرض ہی پر ہوسکتا ہے اشیاء استعمال کا دوسروں کو دنیا بہت بڑا ثواب اور انسانیت و مروت کے لحاظ سے ضروری سہی مگر فرض و واجب نہیں جس کے روکنے پر جہنم کی وعید ہو اور بعض روایات حدیث میں جو اس جگہ ماعون کی تفسیر استعمالی اشیاء اور بترنوں سے کی گئی ہے اس کا مطلب ان لوگوں کی انتہائی خست کا اظہار ہے کہ یہ زکوة تو کیا دیتے استعملای اشیاء جن کے دینے میں اپنا کچھ خرچ نہیں ہوتا اس میں بھی کنجوسی کرے ت ہیں تو وعید صرف ان اشیاء کے نہ دینے پر نہیں بلکہ زکوة فرض کی عدم ادائیگی اور اس کے ساتھ مزید بخل شدید پر ہے واللہ اعلم۔
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ ١ ۭ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔
(1 ۔ 2) کیا آپ نے عاص بن وائل سہمی کو نہیں دیکھا جو روز جزاء (قیامت کے دن) کو جھٹلاتا ہے اور یہ وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے یا یہ کہ یتیم کا حق نہیں دیتا۔
آیت ١{ اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُـکَذِّبُ بِالدِّیْنِ ۔ } ” کیا تم نے دیکھا اس شخص کو جو جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ؟ “ جو نہ تو بعث بعد الموت کا قائل ہے اور نہ ہی آخرت کی جزا و سزا کو مانتا ہے۔ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس زندگی کے سوا ان کی کوئی اور زندگی نہیں ہے : { وَقَالُوْا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُـنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَآ اِلَّا الدَّہْرُج } (الجاثیۃ : ٢٤) ” وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہے (کوئی اور زندگی ) سوائے ہماری دنیا کی زندگی کے ‘ ہم خود ہی مرتے ہیں اور خود ہی جیتے ہیں اور ہمیں نہیں ہلاک کرتا مگر زمانہ “۔ آخرت کے احتساب کا انکار کر کے انسان دراصل جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی پابندیوں سے آزاد ہوجاتا ہے اور اس کا کردار ع ” بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست “ کے فلسفے کا چلتا پھرتا اشتہار بن کر رہ جاتا ہے۔
1 The words "have you seen", apparently, are directed to the Holy Prophet (upon whom be peace) , but the Qur'anic style is that on such occasions it generally addresses every intelligent and thinking person. And "seeing" means seeing with the eyes, for what has been described in the succeeding verses can be seen by every seer with his eyes, as well as knowing, understanding and considering something deeply. If the word ara'aita is taken in the second meaning, the verse would mean: "Do you know the kind of man who belies the rewards and punishments." Or: "Have you considered the state of the person who belies the Judgment? 2 The word ad-din as Qur'anic term is used for the rewards and punishments of the Hereafter as .well as for the religion of Islam. But the theme that . follows is more relevant to the first meaning, although the second meaning also is not out of the context: Ibn 'Abbas has preferred the second meaning, while a majority of the commentators have preferred the first. In case the first meaning is taken, the theme of the Surah would mean that denial of the Hereafter produces such and such a character in man; in case the second meaning is taken, the object of the Surah would be to highlight the moral importance of Islam, to stress that Islam aims at producing an altogether different character in its adherents from that found in its deniers. 3 The style shows that the object of asking this question at the outset is not to ask whether he has seen the person or not, but to invite the listener to consider as to what kind of character is' produced in man when he denies the judgement of the Hereafter, and to urge him to know the kind of the people who belie this creed so that he tries to understand the moral significance of belief in the Hereafter.
سورة الماعون حاشیہ نمبر : 1 تم نے دیکھا کا خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر قرآن کا انداز بیان یہ ہے کہ ایسے مواقع پر وہ عموما ہر صاحب عقل اور سوچنے سمجھنے والے شخص کو مخاطب کرتا ہے ۔ اور دیکھنے کا مطلب آنکھوں سے دیکھنا بھی ہے ، کیونکہ آگے لوگوں کا جو حال بیان کیا گیا ہے وہ ہر دیکھنے والا اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے ، اور اس کا مطلب جاننا ، سمجھنا اور غور کرنا بھی ہے ۔ عربی کی طرح اردو میں بھی دیکھنے کا لفظ اس دوسرے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ مثلا ہم کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا ہوں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں جانتا ہوں یا مجھے خبر ہے ۔ یا مثلا ہم کہتے ہیں کہ ذرا یہ بھی تو دیکھو اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ذرا اس بات پر بھی غور کرو ۔ پس اگر لفظ اَرَءَيْتَ کو اس دوسرے معنی میں لیا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ جانتے ہو وہ کیسا شخص ہے جو جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ؟ یا تم نے غور کیا اس شخص کے حال پر جو جزائے اعمال کی تکذیب کرتا ہے ؟ سورة الماعون حاشیہ نمبر : 2 اصل میں يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ فرمایا گیا ہے ۔ الدین کا لفظ قرآن کی اصطلاح میں آخرت کی جوائے اعمال کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور دین اسلام کے لیے بھی ۔ لیکن جو مضمون آگے بیان ہوا ہے اس کے ساتھ پہلے معنی ہی زیادہ مناسبت رکھتے ہیں ۔ اگرچہ دوسرے معنی بھی سلسلہ کلام سے غیر مطابق نہیں ہیں ۔ ابن عباس نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے ، اور اکثر مفسرین پہلے معنی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اگر پہلی معنی لیے جائیں تو پوری سورۃ کے مضمون کا مطلب یہ ہوگا کہ آخرت کے انکار کا عقیدہ انسان میں یہ سیرت و کردار پیدا کرتا ہے ۔ اور دوسرے معنی لیے جائیں تو پوری سورۃ کا مدعا دینا سلام کی اخلاقی اہمیت واضح کرنا قرار پائے گا ۔ یعنی کلام کا مقصد یہ ہوگا کہ اسلام اس کے برعکس سیرت و کردار پیدا کرنا چاہتا ہے جو اس دین کا انکار کرنے والوں میں پائی جاتی ہے ۔ سورة الماعون حاشیہ نمبر : 3 انداز کلام سے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اس سوال سے بات کا آغاز کرنے کا مقصد یہ پوچھنا نہیں ہے کہ تم نے اس شخص کو دیکھا ہے یا نہیں ، بلکہ سامع کو اس بات پر غور کرنے کی دعوت دینا ہے کہ آخرت کی جازا و سزا کا انکار آدم میں کس قسم کا کردار پیدا کرتا ہے ، اور اسے یہ جاننے کا خواہشمند بنانا ہے کہ اس عقیدے کو جھٹلانے والے کیسے لوگ ہوتے ہیں تاکہ وہ ایمان بالآخرۃ کی اخلاقی اہمیت سمجھنے کی کوشش کرے ۔
١۔ ٧۔ یہ نصف سورة مکی ہے جو منکرین جزا و سزا کی شان میں ہے اور نصف مدنی ہے جو منافقوں کی شان میں ہے نماز سے بیخبر ہیں اس کا یہ مطلب ہے کہ وقت پر نماز ادا نہیں کرتے۔ چناچہ مسند ٢ ؎ ابو یعلی میں معتبر سند سے مصعب بن سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سعد بن ابی وقاص سے آیت الذین ھم عن صلاتھم ساھون کے معنی پوچھے تھے۔ سعد بن ابی وقاص (رض) نے کہا ساھون سے یہ لوگ مراد لئے گئے ہیں جو وقت کو ٹال کر نماز پڑھتے ہیں یہ سعد بن ابی وقاص کا قول بمنزلہ حدیث نبوی کے ہے۔ کیونکہ صحابہ کی یہ عادت نہ تھی کہ قرآن شریف کی تفسیر وہ اپنی راے سے کریں چناچہ اس تفسیر کے مقدمہ میں اس کا ذکر تفصیل سے گزر چکا ہے۔ ابن ماجہ صحیح ابن خزیمہ ١ ؎ وغیرہ میں معتبر سند سے ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص دنیا کے دکھاوے کے طور پر کوئی عمل کرے گا اس کا کچھ اجر خدا کی درگاہ سے ایسے شخص کو نہ ملے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر طرح کے شرک سے بیزار ہے اس سے معلوم ہوا کہ نماز پر کچھ موقوف نہیں۔ دین کا جو کام دنیا کے دکھلانے کے لئے کیا جائے گا وہ اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں ہرگز قبول نہ ہوگا۔ ماعون سے مراد روز مرہ کے برتنے کی چیزیں ہیں جیسے آگ پانی وغیرہ قیامت کے انکار کے بعد یتیم محتاج اور ہمسایہ سے بےمروتی کا ذکر نماز کے نقصان کے ذکر کے ساتھ فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ ایسے کام بھی وہی لوگ کرتے ہیں جن کو عقبیٰ کی جزا و سزا پر پورا بھروسہ نہیں ورنہ جن کو عقبیٰ کی جزا و سزا پر پورا بھروسہ ہے وہ ایسے کام ہرگز نہیں کرتے جن سے ان کو قیامت کے دن پچھتانا پڑے۔ (١ ؎ الترغیب و الترہیب۔ الترغیب فی الاخلاص و الصدق الخ ٥٨ ج ١) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٥٥ ج ٤۔ )
(107:1) ارایت : أ ھمزہ استفہامیہ ہے۔ رایت ماضی کا صیغہ واحد مذکر حاضر رؤیۃ (باب فتح) مصدر سے بمعنی تو نے دیکھا۔ ارایت (کیا تو نے دیکھا۔ بھلا تو نے دیکھا) میں الف اولیٰ بلفظ استفہام تقریر و تنبیہ کے لئے ہے محض استفہام کے لئے نہیں ہے امام راغب لکھتے ہیں :۔ ارایت۔ اخبرنی (تو مجھے بتا) کے قائم مقام ہوتا ہے اور اس پر ک داخل ہوتا ہے۔ اور ت کو تثنیہ ، جمع، تانیث میں اسی کی حالت پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اور تغیر و تبدل ک پر ہوتا ہے ت پر نہیں۔ جیسے :۔ قال ارایتک ھذا الذی (17:62) قل ارایتکم (6:4) بحر مواج میں ہے کہ :۔ یہ استفہام تقریری ہے اور روئت بمعنی علم ہے۔ کیا تجھے معلوم ہے ؟ کیا تو جانتا ہے ؟ الذی : ایک روایت میں مقاتل کا قول ہے کہ یہ آیت عاص بن وائل سہمی کے متعلق نازل ہوئی۔ بعض نے کہا ولید بن مغیرہ کے حق میں نازل ہوئی۔ ضحاک نے کہا کہ عمرو بن عامر مخزومی کے حق میں نازل ہوئی۔ حضرت ابن عباس کے نزدیک یہ آیت ایک منافق شخص کے حق میں نازل ہوئی ان تمام روایات پر الذی عہدی ہوگا۔ بعض لوگوں نے الف لام جنس کا قرار دیا ہے الذی اسم موصول۔ یکذب بالدین صلہ دونوں مل کر مفعول رایت کا۔ دین سے مراد اسلام یا روز جزاء ہے۔ بھلا تم نے اس شخص کو جانتے ہو جو روز جزاء کو جھٹلاتا ہے۔ یکذب : مضارع واحد مذکر غائب ، تکذیب (تفعیل) مصدر ۔ جھٹلانا۔
ف 3 یعنی سمجھتا ہے کہ کوئی آخرت و اخرت نہیں آئے گی اور نہ اچھے برے اعمال کا بدلہ دیا جائیگا اس لئے ہر معاملہ میں اس کا نقطہ نظر خالص دنیوی اور مادہ پرستانہ کا ہے اخلاق اور اخلاقی اقدار کی اس کی نظر میں کوئی قیمت نہیں ہے۔
سورة الماعون۔ آیات ١ تا ٧۔ اسرار ومعارف۔ آپ نے ان لوگوں کو دیکھا جو قیامت اور اسلام کا انکار کیے بیٹھے ہیں انہیں دولت دنیا نے اندھا کردیا ہے کہ اسلام کے نظام معشیت سے گھبراتے ہیں اور یتیموں اور کمزوروں کو دھکے دے کر ان کا حق دبالیتے ہیں اور محتاج وبے بس کو اس کا حق نہیں دینا چاہتے یہ صرف کافر ہی نہیں ان میں برائے نام مسلمان اور منافق بھی شامل ہیں جو بظاہر نماز ادا کرتے ہیں مگر عبادات کے اس کے نتیجے سے بیخبر ہیں کہ عبادات کا نتیجہ تو یہ ہے کہ اللہ کے احکام پر عمل کرے اور ظلم کو مٹا دے مگر یہ اس ظلم میں گرفتار ہیں دکھلاوے کو عبادت کرتے ہیں اور کسی کا حق توکیادیں گے مانگنے پر برتنے کی چیز بھی دینے کے روادار نہیں ۔
لغات القرآن۔ ارءیت۔ کیا تو نے دیکھا۔ الدین۔ انصاف کا دن۔ قیامت۔ یدع۔ دھکے دیتا ہے۔ لا یحض۔ آمادہ نہیں کرتا۔ ساھون۔ بیخبر ۔ سستی کرنے والے۔ یراء و ن۔ وہ دکھاتے ہیں۔ یمنعون ۔ وہ منع کرتے ہیں۔ الماعون۔ برتنے کی (چھوٹی چھوٹی) چیزیں۔ تشریح : چند جملوں پر مشتمل سورة الماعون میں فکر آخرت، حقوق اللہ اور حقوہ العباد کو اس قدر خوبصورتی سے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اس میں غوروفکر کرنے والا کسی کے حق میں کمی کا تصور بھی نہی کرسکتا۔ فرمایا۔ ……: کیا آپ نے دیکھا کہ کون ” الدین “ کو جھٹلاتا ہے۔ ممکن ہے اس سورت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہو یا ہر دیکھنے والی آنکھ کو اس طرف متوجہ کیا ہو کہ کیا تم نے کبھی اس بات پر غوروفکر کیا ہے کہ ” الدین “ کو جھٹلانے والوں کا مزاج کیسا بن جاتا ہے کہ وہ اپنے پرائے کسی کا خیال تک نہیں کرتے۔ علماء مفسرین نے فرمایا ہے کہ ” الدین “ سے مراد انصاف کا دن یعنی قیامت کا دن ہے۔ بعض نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد ملت اسلامیہ اور دین اسلام ہے۔ بہرحال قیامت کے دن اور ملت اسلامیہ کے سچے اصولوں کو جھٹلانے والوں کا یہی مزاج ہوسکتا ہے کہ وہ ایک غریب اور یتیم کے ساتھ حسن سلوک اور مشفقانہ برتائو کرنے کے بجائے اس کو ذلیل و خوار کرتے ہیں اور اس کو خود بھی دھکے دیتے ہیں اور ہر شخص کے سامنے اس کو اس قدر نیچا اور ذلیل کردیتے ہیں کہ ہر شخص اس کو دھکے دے کر اپنے قریب نہ بیٹھنے دے۔ ایسا شخص نہ تو خود ضرورت مندوں کی مدد کرتا ہے اور نہ دوسروں کو اس راستے پر چلنے کی تلقین کرتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مجبوروں، غریبوں اور یتیموں کے ساتھ وہ شخص سنگ دلی کا مظاہرہ کرسکتا ہے جس کو اس بات کا یقین ہی نہ ہو ہکا سے بھی ایک دن مر کر اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور لمحے لمحے کا حساب دینا ہے۔ جس کو آخرت، قیامت اور ملت اسلامیہ کے اصولوں کا لحاظ نہیں ہوتا وہی نمازوں میں سستی کاہلی کرتا ہے۔ اس کا کوئی کام اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے نہیں ہوتا بلکہ سستی شہرت اور وقت واہ واہ کے لئے ہوتا ہے تاکہ ہر شخص اس کی دریا دلی کا قائل ہوجائے۔ وہ زکوٰۃ تو کیا ادا کرے گا اپنے پڑوسیوں کو وہ معمولی چیزیں دینے سے بھی کنجوسی کرے گا جس کے دینے میں اس کا کوئی نقصان نہیں ہے یعنی وہ برتنے کی معمولی چیزوں سے بھی انکار کردے گا۔ اس سے معلو ہوا کہ آخرت پر یقین ہی سے انسان کی مزاج، عقیدہ اور ذہن میں تبدیلی آسکتی ہے۔ جس کو قیامت کا یقین ہی نہ ہو اور آخرت کی گرفت اور پکڑ کر انکار کرتا ہے اس میں انسانیت کی بھلائی اور محبت کے جذبے کے بجائے سنگ دلی کا مزاج پیدا ہوجاتا اور آخرت کی گرفت اور پکڑ کا انکار کرتا ہے اس میں انسانیت کی بھلائی اور محبت کے جذبے کے تحت کرتا ہے کہ اس کے حسن سلوک سے خود اس کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ فذلک ……: وہ یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ اصل میں جس کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ جائے وہ بچہ اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ پورا معاشرہ اور اس کا ہر فرد ایسے بچوں کے ساتھ بہترین حسن سلوک اور اچھا معاملہ کے کیونکہ ملت کا ہر فرد پوری توجہ کا حق دار ہوتا ہے۔ اگر یتیم بچوں کو ویسے ہی چھوڑ دیا جائے گا اور اس ان کے اخلاق و کردار کی نگرانی نہیں کی جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہی بچے کلپورے معاشرے کی تباہی کا سبب بن جائیں۔ لیکن اس کی فکر صرف ان لوگوں کو ہوتی ہے جنہیں اپنے دین اور اپنی ملت سے محبت ہوتی ہے جو لوگ صرف اپنی ذات ہی میں گم رہتے ہوں ان کو صرف اپنی ذات کی فکر ہوتی ہے ان کی نظر قوم کے بچوں پر نہیں ہوتی۔ ……: وہ مسکین کے کھانے پر آمادہ نہیں کرتا۔ یعنی نہ تو خود اس کو اس بات کی توفیق ہوتی ہے کہ وہ بھوکوں اور فاقہ زدہ لوگوں کی امداد و اعانت کرے نہ اپنے گھروالوں اور دوست احباب کو اس کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ وہ غریبوں اور مسکینوں کا خیال رکھیں۔ فکر آخرت سے بےنیاز یہ شخص فضولیات میں تو ہزاروں کی رقم خرچ کردے گا لیکن کسی مسکین، محتاج اور فرق فاہ سے بےحال شخص کے حال پر رحم نہیں کرے گا۔ اس کے برخلاف ہر وہ شخص جس کو اللہ و رول کے احکامات کا لحاظ ہوگا وہ خود بھی کھائے گا اور اس بات کا بھی خیال رکھے گا کہ اس کے پڑوسی یارشتہ دار میں کوئی بھوکا تو نہیں ہے۔ ………: ان لوگوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو نمازوں سے غفلت اختیار کرتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ نمازوں سے اس درجہ غفلت اختیار کرتے ہیں کہ نہ تو ان کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ کس عالی شان دربار میں حاضر ہیں۔ نہ خشوع و خضوع کا خیال رکھتے ہیں نہ وقت کی پابندی کا۔ کبھی نماز پڑھ لی کبھی نہ پڑھی۔ نماز پڑھی تو دو چار ٹھونگیں مار لیں۔ قرآن کریم اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مومن اور منافق کی نماز میں بہت فرق ہے۔ مومن کی نماز میں اللہ کی عبادت و بندگی کو پورا پورا خیال ہوتا ہے۔ وقت کے اندر وہ نماز کو ادا کرتا ہے۔ نماز کے پورے آداب اور اصولوں کی پابندی کرتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ اللہ کی تو فقی سے آج وہ اپنے اللہ کے عالی شان دربار میں حاضر ہے۔ وہ فکر آخرت کو سامنے رکھ کر نماز کو پڑھتا ہے۔ کسی طرح کی سستی، کاہلی اور دکھاوا نہیں کرتا۔ اس کے برخلاف منافق کی نماز کے لئے فرمایا گیا ہے کہ وہ جب بھی دنیا کو دکھانے کے لئے نماز پڑھتا ہے تو اس میں ذوق و شوق کے بجائے کاہلی، سستی اور اکتاہٹ کا انداز نمایاں ہوتا ہے ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ منافق آدی کا یہ حال ہوتا ہے کہ عصر کے وقت بیٹھا سورج کو دیکھتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان پہنچ جاتا ہے (یعنی سورج ڈوبنے لگتا ہے تو) تو اٹھ کر ( مرغے کی طرح) دو چار ٹھونگیں مارلیتا ہے۔ جس میں وہ اللہ کا ذکر بہت کم کرتا ہے۔ (بخاری۔ مسلم۔ مسند احم) ۔ حضرت ابن ابی وقاص (رض) سے ان کے صاجزادے حضرت مصعب ابن سعد روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا جو نماز میں غفلت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کا وقت ٹال کر پڑھتے ہیں۔ (ابن جریر۔ بیہقی) ۔ اسی طرح حضرت مصعب (رض) کی ایک دوسری روایت بھی ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے پوچھا کہ آپ نے اس آیت پر غور کیا ؟ کیا اس کا مطلب نماز کو چھوڑ دینا ہے ؟ یا اسے مراد نماز پڑھتے ہوئے آدمی کا خیال ادھر ادھر چلا جاتا ہے۔ اور کیا ہم میں سے ایسا کوئی شخص بھی ہے جس کا خیال ادھر ادھر نہ بھٹک جاتا ہو ؟ آپ نے جواب دیا کہ اس سے مراد نماز کے وقت کو ضائع کرنا اور اسے وقت سے ٹال کر پڑھنا ہے۔ (ابن جریر۔ بیہقی) ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فی صلاتھم ساھون نہی فرمایا بلکہ عن صلاتھم ساھون فرمایا۔ یعنی وہ لوگ جو نمازوں سے غفلت اختیار کتے ہیں۔ پڑھی نہ پڑھی۔ پڑھی تو وقت ٹال کر پڑھی، اوپر سے دل سے اکتاہٹ کے ساتھ پڑھی اور پھر اس نماز میں بھی پورا دھیان نماز کی طرف نہیں بلکہ اپنے وجود اور کپڑوں سے کھیلنے میں گزر جاتا ہے۔ ساھون کی وضاحت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا۔ ساھون کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اضاعۃ الوقت۔ یعنی نماز کے وقت کو ضائع کرنا۔ یا وہ منافق مراد ہیں جو نماز پڑھتے ہیں لیکن اس کی طرف توجہ نہیں دیتے اور غفلت میں مبتلا رہتے ہیں۔ نمازوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ اگر نماز جاتی رہے تو اس پر وہ ندامت تک کا اظہار نہیں کرتے۔ رکوع اور سجدوں کے آداب کا خیال نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نمازوں کو پوری طرح ادا کرنے اور ان کے آداب کا لحاظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین دکھاوا۔ ریاکاری : اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’ الذین ھم یرائون “ یعنی وہ لوگ جو ریار کاری کرتے ہیں۔ اصل میں مومن کے ہر کام میں ایک اخلاص ہوتا ہے۔ اس کے پیش نظر ایک ہی جذبہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے کام کرے جس سے اللہ راضی ہوجائے اور اس کی رضا خوشنودی حاصل ہوجائے۔ لیکن منافق کی پہچان یہ ہے کہ اس کا ہر کام دنیا کو دکھانے، نمود ونمائش اور ریار کاری کے لئے ہوتا ہے۔ دراصل دکھوے اور ریاکاری کا عمل انسان کی ذہنی اور قلبی بیماری کا دوسرا نام ہے۔ وہ ہر وقت اسی فکر میں رہتا ہے کہ لوگ اس کے حسن عمل کو دیکھیں اور اس کی تعریف کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ریاکاری کے اس بدترین جذبے سے محفوط رکھے اور ہر وہ کا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہوسکے۔ ……: وہ عام استعمال کی چیزیں جیسے نمک، مرچ، مصالحہ، دیا سلائی آگ اور کھانے پینے کی معمولی چیزیں جن کی عام طور پر ضروت پڑتی رہتی ہے ریاکاری کرنے والوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ ایسی معمولی چیزوں کے دینے سے بھی کنجوسی اور بخل کا مظاہرہ کرتے ہیں جن کے دیدینے سے اس کا کوئی خاص نقصان نہیں ہوتا۔ مثلاً پڑوس میں ایک خاتون کھانا پکار رہی ہیں۔ ان کے پاس سب کچھ ہے مگر نمک ختم ہوگیا یا مرچ مصالحہ ختم ہوگیا۔ اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ بھی نہیں ہے کہ وہ فوری طور پر منگوا سکے اس حالت میں اگر وہ ان معمولی چیزوں میں سے کسی چیز کو مانگ لے تو یہ نہ تو کوئی عیب ہے اور نہ ان چیزوں کے دینے میں کسی قسم کا نقصان ہے۔ اصل میں اللہ یہ فرما رہے ہیں کہ جس کا آخرت پر یقین کامل ہوتا ہے وہ کبھی ایسی گری ہوئی حرکتیں نہیں کرسکتا کیونکہ ہماری اخلاقی زندگی میں فکر آخرت ایک فیصلہ کن طاقت کا نام ہے۔
فہم القرآن ربط سورت : قریش کی ناشکری اور کفر و شرک کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ وہ قیامت کی جواب دہی کے عقیدہ پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ” اَلدِّیْنِ “ کا لفظ قرآن مجید نے کئی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ سیاق وسباق کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہاں ” اَلدِّیْنِ “ کا لفظ قیامت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ارشاد ہوا کہ کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو قیامت کو جھٹلاتا ہے یہ ایسا شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ یاد رہے کہ جس شخص کا قیامت پر ایمان نہیں ہوتا وہ نیکی اس جذبے کے ساتھ نہیں کرتا کہ مرنے کے بعد اسے اس کا اجر دیا جائے گا۔ ایسا شخص مال کی محبت میں دوسرے لوگوں سے سخت اور حریص ہوتا ہے وہ ایسی جگہ پر مال خرچ نہیں کرتا جہاں اسے کسی مفاد کے حصول کی توقع نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ اس شخص کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آپ ایسے شخص کے کردار کو نہیں جانتے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور دوسرے کو مسکین کو کھانا کھلانے کی تلقین نہیں کرتا۔ یہاں مسکین کو خود کھانانہ کھلانے کی بجائے دوسرے کو ترغیب نہ دینے کی بات کی گئی ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آدمی کو نہ صرف خود یتیم اور مسکین کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے بلکہ دوسروں کو بھی ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ جس معاشرے میں یتیم کو دھکے دیئے جائیں اور مسکین بھوکے پھریں وہ معاشرہ اعتقاداً یا عملاً قیامت کا منکر ہوتا ہے اور باہمی محبت سے محروم ہوجاتا ہے اس سے نفرتیں جنم لیتی ہیں، جس معاشرے میں نفرتیں ایک حد سے آگے بڑھ جائیں، وہ معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور بالآخر اس قوم کا وجود باقی نہیں رہتا۔ ایسے معاشرے اور قوم کو دنیا میں بھی اپنے کیے کی سزا ملتی ہے اور آخرت میں بھی اس سے مسؤلیّت ہوگی۔ اعتقاداً یا عملاً قیامت کی تکذیب کرنے والے شخص کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اس کے دل میں نماز پڑھنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا اگر عادتاً یا ماحول کی مجبوری سے اسے نماز پڑھنی پڑے تو وہ نماز سے بیخبر ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ عادتاً یا لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھتے ہیں اس لیے ایسے لوگ اخلاقی اعتبار سے اس قدر گرے ہوئے ہوتے ہیں کہ اپنے عزیز و اقرباء اور اڑوس پڑوس میں برتنے کے لیے معمولی چیز بھی کسی کو نہیں دیتے۔ مثلاً ماچس، نمک، مرچ، استعمال کرنے کے لیے چھری، کلہاڑی، سائیکل اور انتہائی مجبوری کے وقت اپنی گاڑی پر کسی کو سوار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔” ساھون “ کے مفسرین نے چار مفہوم ذکر کیے ہیں۔ ١۔ نماز پڑھنا مگر اکثر اوقات نماز کے مقصد سے بیخبر رہنا۔ ٢۔ وقت پر نماز ادا کرنے کی بجائے بےوقت اٹھنا اور جلدی جلدی ٹھونگے مارنا۔ ٣۔ پانچ نمازیں پڑھنے کی بجائے کچھ کو چھوڑ دینا۔ ٤۔ کلیتاً نماز کی ادائیگی سے غافل رہنا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّ النَّبِيَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَعَثَ مُعَاذًا إِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ اُدْعُھُمْ إِلٰی شَھَادَۃِ أَنْ لَّاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِيْ کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَۃً فِيْ أَمْوَالِھِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَاءِھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَاءِھِمْ ) (رواہ البخاری : کتاب الزکوٰۃ، باب وجوب الزکوٰۃ) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ (رض) کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا کہ یمن والوں کو دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یقیناً میں اللہ کا رسول ہوں اگر وہ آپ کی بات مان لیں تو انہیں بتلائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ اس کو بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اموال میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے امیروں سے لے کر ان کے غریبوں میں تقسیم کی جائے گی۔ “ (عَنِ ابْنِ الزُّبَیْرِ یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لَیْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِی یَشْبَعُ وَجَارُہُ جَاءِعٌ إِلَی جَنْبِہِ ) (رواہ البیھیقی : باب صاحِبِ الْمَالِ لاَ یَمْنَعُ الْمُضْطَرَّ فَضْلاً إِنْ کَانَ عِنْدَہُ ) ” حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا۔ وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جس نے سیر ہو کر کھایا لیکن اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھوکا رہا۔ “ (عَنْ سَہْلٍ (رض) قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیمِ فِی الْجَنَّۃِ ہَکَذَا وَأَشَار بالسَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی، وَفَرَّجَ بَیْنَہُمَا شَیْءًا) (رواہ البخاری : باب فضل من یعول یتیما) ” حضرت سہل (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ آپ نے شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا اور ان کے درمیان تھوڑا سافاصلہ رکھا۔ “ ( عَنِْ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِیّ قَالَ قَالَ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا اشْتَرَی أَحَدُکُمْ لَحْمًا فَلْیُکْثِرْ مَرَقَتَہُ فَإِنْ لَمْ یَجِدْ لَحْمًا أَصَابَ مَرَقَۃً وَہُوَ أَحَدُ اللَّحْمَیْنِ ) (رواہ الترمذی : بَابُ مَا جَاءَ فِی إِکْثَارِ مَاءِ الْمَرَقَۃِ ، ہَذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ) ” حضرت عبداللہ مزنی بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی گوشت پکائے تو اس کا شوربا زیادہ بنائے کیونکہ اگر گوشت کم ہوجائے تو شوربا میسر ہوگا اور شوربا بھی گوشت کا حصہ ہے۔ “ الدّین سے مراد : قانون (یوسف : ٧٦) ، اطاعت (الزمر : ١ تا ٣) ، نظام حکومت (المومن : ٢٦) ، دین (مذہب) (التوبہ : ٢٩) قیامت کے دن (الانفطار : ١٠ تا ١٩، الفاتحہ : ٣) مزید تفصیل کے لیے ایک مرتبہ پھر البیّنہ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل ١۔ جو شخص یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا وہ اعتقاداً یا عملاً قیامت کو جھٹلاتا ہے۔ ٢۔ ان نمازیوں کے لیے بربادی ہے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں۔ ٣۔ وہ شخص بھی برباد ہوگا جو دکھلاوے کے لیے نماز ادا کرتا ہے۔ ٤۔ اس شخص کے لیے ہلاکت ہوگی جو استعمال کے لیے معمولی چیزیں بھی ضرورت مند کو نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کو جھٹلانے والے کی سزا : ١۔ اللہ تعالیٰ کی آیات اور آخرت کو جھٹلانے والوں کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ (الاعراف : ١٤٧) ٢۔ آخرت کے منکروں کی خواہشات کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ ( الانعام : ١٥١) ٣۔ قیامت کے منکر حسرت وافسوس کا اظہار کریں گے۔ (الانعام : ٣١) (الفرقان : ١١) ٤۔ قیامت کے منکر ” اللہ “ کی رحمت سے مایوس ہوں گے۔ (العنکبوت : ٢٣) ٥۔ قیامت کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکنے والے کے لیے جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ (الحج : ٩) ٧۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والے اور قیامت کو جھٹلانے والے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ (الروم : ١٦)
یہ چھوٹی سی سورت جو صرف سات آیات پر مشتمل ہے اور آیات بھی چھوٹی چھوٹی ہیں ، ایک عظیم حقیقت پر مشتمل ہے ۔ اس کے مطالعہ سے احساس ہوتا ہے کہ یہ گویا شعائر اسلام کو بدل کر رکھ دیتی ہے اور اس پر غور کرنے سے انسان کو ایمان وکفر کا مفہوم مکمل طور پر بدلتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس سے آگے یہ سورت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اسلامی نظریہ حیات کا مزاج کیا ہے۔ اور اس میں انسانیت کے لئے کس قدر عظیم خیر اور بھلائی پوشیدہ ہے۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت کے لئے اپنا آخری مشن بھیج کر اللہ نے اس پر کتنا عظیم رحم کیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دین چندظاہری رسوم عبادات اور دینی شعائر ہی کا نام نہیں ہے۔ اس میں دینی مرام اور شعائر اور عبادات اس وقت تک مفید نہیں ہوتے جب تک ان میں خلوص نہ ہوئے اور ان کی ادائیگی صرف رضائے الٰہی کے لئے نہ ہو۔ اور جب ان کی وجہ سے قلب انسانی میں ایسے آثار پیدا نہ ہوں جو انسان کو عمل صالح پر ابھارتے ہیں اور جب تک یہ آثار ایسا طرز عمل اختیار نہ کریں جن کے ذریعہ انسانی زندگی اصلاح آخرت پذیر ہو۔ اور اس دنیا میں بھی ان کے نتیجے میں اصلاح اور ترقی نہ ہو۔ پھر یہ دین چند متفرق اجزاء اور ٹکڑوں میں بٹا ہوا دین نہیں ہے کہ انسان ان میں سے جس جزء کو چاہے لے کر نکل جائے اور جس جزء کو چاہے ترک کردے۔ یہ ایک مکمل نظام زندگی ہے اور منہاج حیات ہے۔ اس کے مراسم عبودیت اور اس کے شعائر باہم پیوست ہیں ، اس کے انفرادی فرائض اور اجتماعی احکام باہم مربوط اور معاون ہیں۔ اس کے تمام اجزاء کا مقصد ایک ہے اور وہ انسانیت کے ساتھ متعلق ہیں ، یہ کہ انسانیت کو قلبی اور روحانی تطہیر نصب ہو۔ ان کی زندگی سنور جائے ۔ لوگ باہم معاون ہوں ، ایک دوسرے کے کفیل ہوں ، اور بھلائی ، ترقی اور اصلاحات کی راہ میں ہمقدم ہوں۔ اور ان کی زندگی اللہ کی رحمتوں کا نمونہ ہو۔ انسان اپنی زبان سے کہتا ہے کہ میں مسلم ہوں ، وہ مسلمان ہے اور دین اسلام کے تمام احکام اور فیصلوں کو قبول کرتا ہے ، وہ نماز پڑھتا ہے ، نماز کے علاوہ دوسرے مراسم عبودیت بھی سرانجام دیتا ہے ، لیکن اس کے باوجود حقیقت ایمان اور دین و ایمان کی تصدیق اس سے کوسوں دور ہوتی ہے۔ اس لئے کہ حقیقت ایمان کے کچھ آثا ہوتے ہیں ، یہ آثار بتاتے ہیں کہ ایمان کی حقیقت موجود ہے ۔ جب یہ آثار نہ ہوں تو کوئی کس طرح کہہ سکتا ہے کہ ایمان کی حقیقت موجود ہے۔ اگر آثار نہ ہوں تو محض اقرار ایمان ہے اور چند ظاہری مراسم عبودیت ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ایمان کی حقیقت کسی دل میں پوری طرح بیٹھ جائے تو وہ فوراً عمل صالح کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے سورة العصر میں تفصیلات دی ہیں۔ اگر کسی کا ایمان اس اسلوب سے متحرک نہیں ہوتا تو ظاہری علامت تو یہ ہوگی کہ ایمان اصلا موجود ہی نہیں ہے۔ یہ وہ عظیم حقیقت ہے جس کو یہ سورت ایک مکمل قرار داد کی شکل میں پیش کرتی ہے۔ ارءیت الذی ................................ المسکین (1:107 تا 3) ” تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزاوسزا کو جھٹلاتا ہے ؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اکساتا “۔ آغاز ایک ایسے سوال سے ہوتا ہے کہ تمام اس کی طرف متوجہ ہوجائیں تاکہ ایسے شخص کی بابت علم حاصل کرسکیں کہ کون ہے وہ شخص جو دین کی تکذیب کرتا ہے اور اس بات کی صراحت قرآن مجید کررہا ہے کہ ایسا شخص مکذب دین ہے۔ چناچہ جواب آتا ہے۔ فذلک الذی ................................ المسکین (2:107 تا 3) ” وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اکساتا “۔ ایمان اور دین کی جو روایتی تعریف ہے اس کو دیکھتے ہوئے قرآن کی یہ صراحت بادی النظر میں انوکھی معلوم ہوسکتی ہے ، لیکن یہ اصل حقیقت ہے کہ جو شخص یتیم کو دھکے دیتا ہے وہ دراصل دین کی تکذیب کرتا ہے۔ یتیم کو دھکے دینے کا مطلب اسے ایذا دینا اور اس کی توہین کرنا ہے۔ اور ولا یحض (3:107) کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسرے لوگوں کو اس کام پر نہیں اکساتا اور مسکینوں کا خیال نہیں رکھتا۔ اگر اس نے صداقت کے ساتھ دین اسلام کو قبول کیا ہوتا اور اس کے دل میں حقیقی تصدیق ہوتی تو وہ یتیم کو دھکے نہ دیتا ، اور مساکین کو کھانے کے لئے اکسانے اور تحریک چلانے پر لوگوں کو آمادہ کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ دین کا اقرار اور تصدیق صرف ربانی فعل نہیں ہے بلکہ وہ ایک ذہنی اور قلبی انقلاب ہے جس کے نتیجے میں انسان خود بخودبنی نوع انسان پر رحم اور نیکی کرنے لگتا ہے۔ ان لوگوں پر جو امداد اور مراعات کے مستحق ہوں۔ اللہ کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ لوگ اپنی زبان سے محض چند کلمے جپتے جائیں ۔ ان کلمات کے ساتھ ساتھ اللہ کا مطالبہ کچھ اعمال کا بھی ہے جو یہ تصدیق کریں کہ ایمان موجود ہے ، ورنہ ایمان محض ایک ہوائی ذرہ ہوگا جو فضا میں ادھر ادھر اڑتا رہتا ہے۔ ان تین آیات میں اس حقیقت کو جس طرح نہایت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے اس کی مثال پورے قرآن میں نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ اسلامی نظریہ حیات کی روح ہے اور اس دین کا یہ مزاج ہے۔ ہم یہاں اسلام اور ایمان کی فقہی تعریفات اور ان کے حدود وقیود کے مباحث اور اختلافات میں داخل ہونا نہیں چاہتے۔ یہ تعریفات اس لئے کی جاتی ہیں کہ ان پر شرعی اور قانونی حقوق وفرائض کا فیصلہ کیا جاسکے۔ اس سورت میں جو بات کہی گئی ہے وہ اس حقیقت نفس الامری کا اظہار کرتی ہے جو اللہ کے ہاں معتبر ہے اور جو اللہ کے معیار کے مطابق ناپی تولی جاتی ہے۔ اللہ کے ہاں جو حقائق ہوتے ہیں وہ ان حقائق سے الگ ہوتے ہیں جن کے مطابق شرعی اور قانونی معاملات طے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس حقیقت اور اس اصول کے مطابق بعض عملی صورتوں کا ذکر کیا جاتا ہے : فویل ................................ الماعون (4:107 تا 7) ” پھر تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لئے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں ، جو ریاکاری کرتے ہیں اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں “۔ یہ ان لوگوں کے لئے بددعا ہے یا دھمکی ۔ ان لوگوں کے لئے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں۔ یہ کون ہیں ؟ وہ لوگ جو ریاکاری کرتے ہیں اور جو معمولی ضرورت کی چیزیں بھی دوسروں کو نہیں دیتے۔ یہ لوگ نماز تو پڑھتے ہیں مگر نماز کو قائم نہیں کرتے ، یہ نماز کے اندر نہیں ہوتا۔ ان کی روح نماز کی حقیقت سے بیگانہ ہوتی ہے۔ ان کی سوچ ان معانی سے دور ہوتی جو وہ پڑھتے ہیں۔ جو قرات ، جو دعائیں اور جو ثنائیں وہ پڑھتے ہیں اس سے ان کی روح دور ہوتی ہے ، گویا وہ اپنی نماز سے جسے وہ پڑھ رہے ہوں ، غافل ہوتے ہیں۔ اسے صحیح طرح ادا نہیں کرتے۔ اللہ کے ہاں مطلوب یہ ہے کہ نماز کو صحیح طرح قائم کیا جائے۔ فقط ادائیگی مطلوب نہیں ہے اور نماز قائم تب ہوتی ہے کہ اسے دینی روح اور اس کے معانی کے ساتھ پڑھاجائے اور جس میں اللہ کی ذات مستحضر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جس نماز کو وہ پڑھ رہے ہوتے ہیں ان کی زندگی میں اس نماز کے آثار پیدا نہیں ہوتے کیونکہ وہ نماز کی حرکات کے دوران غافل ہوتے ہیں۔ چناچہ یہ لوگ معمولی ضرورت کی چیز (ماعون) بھی دوسروں کو نہیں دیتے۔ دوسروں کے ساتھ کوئی امداد نیکی ، بھلائی نہیں کرتے۔ حالانکہ نماز کا تقاضا یہ ہے کہ وہ نمازی اللہ کے بندوں کے ساتھ بھلائی کرے اور ان سے معمولی ضرورت کی چیز نہ روکے۔ اس لئے جو لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں وہ دراصل حقیقی نماز نہیں ادا کررہے ہوتے۔ لہٰذا اللہ کے نزدیک حقیقی اور سچی عبادت کا معیار یہ ہے کہ ایک انسان اپنے بنی نوع انسان سے معمولی ضرورت کی اشیاء نہ روکے ۔ ان کی معاونت سے دستکش نہ ہو۔ یوں ہم دین کی ایک دوسری لانیفک حقیقت کو سامنے اپنے آپ کو کھڑا پاتے ہیں اور یہ اسلامی نظریہ حیات کا تقاضا ہے وہ یہ کہ ایک قرآنی آیت نمازیوں کو کھلی دھمکی دے رہی ہے کہ وہ ہلاکت سے دوچار ہوں گے کیونکہ وہ نماز کو صحیح طرح قائم نہیں کررہے۔ بلکہ وہ ایسی حرکات کررہے ہیں جن میں کوئی روح نہیں ہے۔ وہ ان حرکات میں اللہ کے دربار میں حاضر نہیں ہوتے۔ خالص اللہ کے نہیں ہوتے ، بلکہ محض لوگوں کے دکھاوے کے ئے وہ نماز پڑھتے ہیں ، اس لئے ان کی نماز سے وہ آثار نمودار نہیں ہوتے جو حقیقی نماز سے ہوتے ہیں ، نہ اس ان کے دل پر نماز کا اثر ہوتا ہے ، نہ ان کی عملی دنیا پر وہ اثرانداز ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ نماز ذرہ بےقیمت ہے ، ایک غبار ہے بلکہ نمازی کے لئے یہ نماز ایک وبال وہلاکت ہے۔ ان تصریحات کے بعد ہماری سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آجاتی ہے کہ اللہ لوگوں کے پاس رسول کیوں بھیجتا ہے اور لوگوں سے کیوں مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ایمان لائیں اور بندگی کریں ؟.... اس ساری جدوجہد سے اللہ کا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ وہ تو غنی بادشاہ ہے۔ اس لئے مقصود یہ ہے کہ خود انسانوں کی زندگی سنور جائے ان کی بھلائی مقصود ہے۔ ان کے قلوب پاک ہوں اور زندگی کامیاب ہو ، وہ ان کے لئے ایک ایسی ندگی چاہتا ہے جو پاکیزہ شعور اور اعلیٰ نظریات پر قائم ہو۔ جس کے اندر لوگ ایک دوسرے سے کفیل ہوں جن کی ذہنیت شریفانہ ہو ، جن کے اندر محبت اور بھائی چارہ ہو ، جن کا تصور اور طرز عمل دونوں پاک ہوں۔ اے کاش ! انسانیت اس بھلائی کو چھوڑ کر کدھر جارہی ہے۔ اس رحمت کو چھوڑ کر کہاں بھکٹ رہی ہے اور اس خوبصورت اور حسین و جمیل مقام بلند کو چھوڑ کر کن پستیوں میں گری ہوتی ہے یا کہاں وہ جاہلیت کے پیچیدہ اور تاریک راہوں میں گم گشتہ ہے حالانکہ اس کے سامنے نور ، اسلام کا نور ، مرکزی چوک میں موجود ہے۔
اوپر سورة الماعون کا ترجمہ لکھا گیا ہے۔ ماعون ایسی چیز کو کہتے ہیں جو معمولی سی چیز ہو اگر کسی کو استعمال کے لیے دے دی جائے تو دینے والے کے مال میں کوئی خاص کمی نہ آئے چونکہ اس سورت کے آخر میں ماعون سے منع کرنے والوں کی مذمت وارد ہوئی ہے اس لیے سورة الماعون کے نام سے معروف اور مشہور ہے۔ اس سورت میں چھ چیزوں کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ اولاً فرمایا ﴿ اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بالدِّيْنِؕ٠٠١﴾ اے نبی کیا آپ نے اسے دیکھا جو دین یعنی جزاء کو جھٹلاتا ہے یعنی قیامت کے دن کا اور اس بات کا انکار کرتا ہے کہ مرنے کے بعد زندہ ہوں گے اور اعمال کی جزا سزا ملے گی۔
2:۔ ” ارایت “ رویت سے رویت قلبی اور معرفت مراد ہے اور استفہام سے تعجیب و تشویق مقصود ہے۔ کیا آپ اس شخص کو جانتے ہیں جو قیامت کا انکار کرتا ہے حالانکہ قیامت کا ثبوت دلائل قاطعہ سے ہوچکا ہے اس کا حال واقعی قابل تعجب ہے۔
(1) اے پیغمبر بھلا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جو روز جزا کی تکذیب کرتا ہے۔ یعنی جزاوسزا کا منکر ہے اور سمجھتا ہے کہ انصاف نہیں ہوگا اور نہ نیکی اور بدی کا کسی دن بدلہ ملے گا اگرچہ عام مفسرین کے نزدیک یہ خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے ، بعض نے کہا ہر عاقل اور سمجھ دار انسان کو ہے بعض حضرات نے دین کے معنی ملت کے کئے ہیں یعنی ملت اسلامیہ کی تکذیب کرتا ہے اور ملت اسلامیہ کو جھٹلاتا ہے۔