Surat ul Kausar

Abundance

Surah: 108

Verses: 3

Ruku: 1

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تعارف : عرب دستور کے مطابق اپنی اولاد خاص طور پر بڑے بیٹے کے نا پر ” کنیت “ رکھنے میں بڑ افخر محسوس کرتے تھے جیسے ابو طالب، ابو لہب، ابو جہل وغیرہ۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاجزادے حضرت قاسم اور دوسرے صاجزادے حضرت عبد اللہ کا انتقال ہوگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صرف چار...  بیٹیاں حضرت زینب (رض) ، حضرت رقیہ (رض) ، حضرت ام کلثوم (رض) اور حضرت فاطمہ (رض) رہ گئیں تو قریش سرداروں نے آپ کو ” ابتر “ کہنا شروع کردیا یعنی اولاد سے محروم۔ جس کے کوئی بیٹا نہ ہو۔ یہ طعنے دینے میں اگر ابوجہل، ابو لہب، کعب ابن اشرف یہودی اور عقبہ ابن ابی معیط وغیرہ کے علاوہ بہت سے لوگ تھے لیکن عاص ابن وائل کے سامنے جب آپ کا ذکر کیا جاتا وہ لوگوں سے کہا کرتا تھا کہ ان کی بات چھوڑو۔ اب کوئی فکر کی بات نہیں ہے وہ تو (نعوذ باللہ) ابتر ہیں۔ یعنی جب ان کا انتقال ہوجائے گا تو ان کی نسل نہ چلے گی اور کوئی ان کا نام لیوا تک نہ رہے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک طرف تو اولاد نرینہ کے انتقال پر رنجیدہ تھے دوسری طرف کفار قریش کے طعنون نے آپ کو اور رنجیدہ کردیا تھا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے تین آیتوں پر مشتمل ” سورة کوثر “ نازل فرما کر آپ کو تسلی دی اور فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے آپ کو خیر کثیر یعنی نہر کوثر، میدان حشر میں حوض کوثر، قرآن کریم اور اطاعت گزار جماعت صحابہ (رض) وغیرہ عطا کی ہے اور آپ کے ذکر کو قیامت تک کے لئے بلند کیا ہے۔ اس طرح آپ کی روحانی اور جسمانی اولاد آپ کا نام روشن رکھے گی۔ فرمایا کہ آپ کو ابتر کہنے والے خود دنیا سے اس طرح بےنام و نشان ہوجائیں گے کہ کوئی ان کا نام لیوا تک نہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا ہے کہ آپ دین اسلام کی سربلندی کے مقصد اور مشن کو جاری رکھنے کے لئے نمازیں پڑھئے اور قربانی پیش کرتے رہیے کیونکہ نماز جیسی عظیم عبادت اور جانی، مالی قربانیوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کی بدخواہی کرنے والا، عداوت اور دشمنی رکھنے والا ور جو عیب لگا رہا ہے اور آپ کی توہین کر رہا ہے وہ ” ابتر “ یعنی بےنام و نشان ہوجائے گا۔ آپ کو اللہ نے ” خیر کثیر “ عطا فرمائی ہے۔ خاص طور پر جنت کی نہر کوثر جو نہایت حسین و خوبصرت ہوگی وہ عطا کردی گئی ہے (شب معراج آپ نے اس نہر کو دیکھا بھی ہے) ۔ اور فرمایا کہمیدان حشر میں جہاں لوگ پیاس سے تڑپ رہے ہوں گے آپ کو ایسا حوض کوثر عطا کیا جائے گا جس میں پانی تو جنت کی نہر کوثر سے لایا جائے گا اور جو اس پانی کو پی لے گا جنت میں داخل ہونے تک اس کو کبھی پیاس نہ لگے گی۔ امام بخاری (رض) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے ” کوثر وہ خیر کثیر ہے جو اللہ نے آپ کو عطا فرمائی ہے یعنی وہ دنیا اور آخرت دونوں کے اعتبار سے خیر کثیر ہے “۔ حوض کوثر جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کو میدان حشر میں سیراب کرے گی اس میں پانی جنت کی نہر کوثر سے لایا جائے گا ۔ بہت سے لوگوں کو اس حوض کوثر سے روک دیا جائے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی بارگاہ میں عرض کریں گے الٰہی ! یہ تو میرے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا تھا۔ علماء نے فرمایا ہے کہ حوض کوثر سے ان لوگوں کو ہٹا دیا جائے گا جو آپ کے بعد اسلام سے پھرگئے تھے اور اپنی منافقانہ روش سے اہل ایمان کو دھوکا دیتے رہے تھے۔ آپ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ان کی منافقت کھل کر سب کے سامنے آگئی۔ یہ اسی بات کی ان کو سزا دی جائے گی۔ قریشی سردار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی اور مخالفت میں اس قدر پتھر دل ہوچکے تھے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹوں حضرت قاسم اور حضرت عبد اللہ کے انتقال پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے بجائے طعن اور طنز کے تیز چلانے سے باز نہیں آرہے تھے۔ قلبی شفاوت، بےرحمی اور رسول دشمنی کی بھی ایک حد ہوتی ہے لیکن ان کا یہ حال تھا کہ جب آپ کے دونوں بیٹوں کا انتقال ہوگیا اور آپ نے انتہا رنجیدہ تھے اس وقت بھی وہ اظہار ہمدردی کے بجائے طنز کے تیز چلا رہے تھے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سب سے بڑے صاجزادے حضرت قاسم تھے (جن کی وجہ سے عرب کے لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابو قاسم کہا کرتے تھے) ۔ ان سے چھوٹی حضرت زینت (رض) تھیں پھر حضرت عبد اللہ تھے۔ ان تین اولاد کے بعد حضرت ام کلثوم (رض) ، حضرت رقیہ (رض) اور حضرت فاطمہ (رض) تھیں۔ ان میں سے حضرت قاسم کا انتقال ہوا پھر حضرت عبد اللہ نے وفات فرمائی۔ اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صرف چار بیٹیاں رہ گئیں۔ اس پر عاص ابن وائل نے کہا کہ ان کی نسل ختم ہوگئی۔ اب وہ ابتر ہیں یعنی ان کی جڑیں کٹ گئی ہیں۔ بعض روایات میں عاص ابن وائل کے یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہہ اب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابتر ہیں ان کے کوئی بیٹا نہیں ہے جو ان کا قائم مقام بنے گا جب وہ مر جائیں گے تو دنیا سے ان کا نام مٹ جائے گا اور ان سے ہمارا پیچھا چھوٹ جائے گا۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ یہی بات حضرت عبداللہ کی وفات پر ابوجہل نے بھی کہی تھی۔ جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاجزادے کا انتقال ہوا تو آپ کے حقیقی چچا ابو لہب جس کا گھر آپ کے گھر کے برابر تھا دوڑا ہوا مشرکین کے پاس گیا اور ان کو یہ خوش خبری سنائی کہ آج رات محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بےاولاد ہوچکے ہیں۔ ایک قریشی سردار عاص ابن وائل سہمی کے سامنے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کیا جاتا تو وہ کہ تاکہ ان کی بات چھوڑو وہ تو ایک ابتر (شخص ہیں جن کی جڑ کٹ چکی ہے) کیونکہ ان کے پاس کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے کل ان کا کوئی نام لیوا بھی نہ رہے گا۔ اسی طرح عقبہ ابن ابی معطی بھی اسی طرح کی باتیں کیا کرتا تھا۔ یہ اس قدر دل دہلان دینے والی صورتحال تھی کہ ایک طرف تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اولاد کا شدید صدمہ تھا اور دوسری طرف سراران قریش ہمدردی کرنے کے بجائے طنز کرتے ہوئے مذاق اڑا رہے تھے اور ان کا دل شکن حالات میں وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو طرح طرح کے طعنے دے رہے تھے اور ستار ہے تھے۔ آپ بہت زیادہ رنجیدہ اور فکر مند تھے۔ حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان موجود تھے۔ اتنے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کچھ اونگھ سی طاری ہوگئی۔ کچھ دیر کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسکراتے ہوئے اپنے سرمبارک کو اٹھایا تو اس وقت موجود کچھ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کس بات پر مسکرا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ نے میرے اوپر ایک سورت نازل کی ہے۔ پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم پرھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة کوثر کی تلاوت فرمائی۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) سے پوچھا کہ جانتے ہو کوثر کیا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں۔ آپو نے فرمایا کہ وہ ایک نہر ہے جو میرے رب نے مجھے عطا فرمائی ہے۔ (مسلم۔ مسند احمد، بیقہی) ۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان نبوت فرمایا اور کفار کی مخالفتوں نے شدت اختیار کرلی اور پوری قوم دشمنی پر تل گئی تھی، ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے، ہر طرف سے مخالفتوں کے طوفان اٹھ رہے تھے اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ان تک پیغام پہنچا رہے تھے تو دور دور تک کسی کامیابی کے آثار بھی نہیں تھے اسی دوران آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اولاد کا شدید صدمہ پہنچا۔ اس وقت اپنے اور غیر ہمدردی کرنے کے بجائے ایسی دل شکن باتیں کررہے تھے جس سے دل چھلنی ہوجاتا ہے۔   Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة الکوثر کا تعارف یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی اس کی تین آیات ہیں جسے ایک رکوع قرار دیا گیا ہے اس کا نام الکوثر ہے جو اس کی پہلی آیت میں موجود ہے۔ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حوض کوثر اور دنیا و آخرت کی خیر کثیر کی خوشخبری دے کر یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ کو نماز پڑھتے رہنا چاہیے اور قربا... نی دینی چاہیے اس کا صلہ یہ ہوگا کہ آپ کا دشمن بےنام ونشان ہوجائے گا۔   Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة الکوثر ایک نظر میں یہ سورت خالص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے متعلق ہے جس طرح سورت الضحیٰ اور سورة الشرح آپ کے لئے تھی۔ یہ سورة آپ کا غبار خاطر دور کرتی ہے اور یہ پیشن گوئی کرتی ہے کہ آپ کو خیرکثیر دیا گیا ہے اور آپ کے دشمنوں کو اس میں دھمکی دی گئی ہے کہ ان کی جڑ کاٹ دی گئی ... ہے ، لہٰذا آپ کو چاہئے کہ اپنے رب کا شکر ادا کریں۔ چناچہ یہ سورت ابتدائی دور میں دعوت اور داعی کی زندگی کی ایک جھلک ریکارڈ کرتی ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ہر طرف سے سازشیں کی جارہی ہیں اور آپ کو اذیت دی جارہی ہے اور آپ کی دعوت کا راستہ روکا جارہا ہے اور اس دور میں اللہ اپنے بندے پر جس طرح مہربان اور اہل ایمان کے مٹھی بھر دستے پر جس طرح مہربان تھا اس کی تصویر کشی بھی کی گئی ہے ۔ چناچہ اس سورت میں آپ کو اطمینان دلایا جاتا ہے ، اور آپ سے روشن مستقبل کا وعدہ کیا جاتا ہے اور آپ کے دشمن کے بارے میں تاریک مستقبل کی پیشن گوئی کی جاتی ہے کہ ان کی جڑ کٹنے والی ہے۔ وہ ہدایت ، خیر اور ایمان کی حقیقت کو ایک طرف رکھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس میں کثرت ، برکت اور دوام اور پھیلاﺅ ہے۔ اور دوسری جانب گمراہی ، شرک اور کفر کو رکھا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ان کی قسمت میں قلت ، خسارہ اور جڑ کٹنا لکھا ہوا ہے۔ اگرچہ غافل لوگ اس کے برعکس سوچتے ہیں۔   Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi