Surat ul Kafiroon
Surah: 109
Verse: 1
سورة الكافرون
قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الۡکٰفِرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾
Say, "O disbelievers,
آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو!
قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الۡکٰفِرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾
Say, "O disbelievers,
آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو!
The Declaration of Innocence from Shirk This Surah is the Surah of disavowal (renunciation) from the deeds of the idolators. It commands a complete disavowal of that. Allah's statement, قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ Say: O disbelievers! includes every disbeliever on the face of the earth, however, this statement is particularly directed towards the disbelievers of the Quraysh. It has been said that in their ignorance they invited the Messenger of Allah to worship their idols for a year and they would (in turn) worship his God for a year. Therefore, Allah revealed this Surah and in it He commanded His Messenger to disavow himself from their religion completely Allah said, لاَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ
مشرکین الگ اور موحدین الگ: اس سورہ مبارکہ میں مشرکین کے عمل سے بیزاری کا اعلان ہے اور اللہ کی عبادت کے اخلاص کا حکم ہے گو یہاں خطاب مکہ کے کفار قریش سے ہے لیکن دراصل روئے زمین کے تمام کافر مراد ہیں اس کی شان نزول یہ ہے کہ ان کارفوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سے کہا تھا کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں تو اگلے سال ہم بھی اللہ کی عبادت کریں گے اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ ان کے دین سے اپنی پوری بیزاری کا اعلان فرما دیں کہ میں تمہارے ان بتوں کو اور جن جن کو تم اللہ کا شریک مان رہے ہو ہرگز نہ پوجوں گا گو تم بھی میرے معبود برحق اللہ وحدہ لا شریک لہ کو نہ پوجو پس ما یہاں پر معنی میں من کے ہے پھر دوبارہ یہی فرمایا کہ میں تم جیسی عبادت نہ کروں گا تمہارے مذہب پر میں کاربند نہیں ہو سکتا نہ میں تمہارے پیچھے لگ سکتا ہوں بلکہ میں تو صرفاپنے رب کی عبادت کروں گا اور وہ بھی اس طریقے پر جو اسے پسند ہو اور جیسے وہ چاہے اسی لیے فرمایا کہ نہ تم میرے رب کے احکام کے آگے سر جھکاؤ گے نہ اس کی عبادت اس کے فرمان کے مطابق بجا لاؤ گے بلکہ تم نے تو اپنی طرف سے طریقے مقرر کر لیے ہیں جیسے اور جگہ ہے ان یتبعون الا الظن الخ یہ لوگ صرف وہم و گمان اور خواہش نفسانی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت پہنچ چکی ہے پس جناب نبی اللہ احم دمجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر طرح اپنا دامن ان سے چھڑا لیا اور صاف طور پر ان کے معبودوں سے اور ان کی عبادت کے طریقوں سے علیحدگی اور ناپسندیدگی کا اعلان فرما دیا ظاہر ہے کہ ہر عابد کا معبود ہو گا اور طریقہ عبادت ہو گا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی امت صر فاللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور طریقہ عبادت ان کا وہ ہے جو سرور رسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم فرمایا ہے اسی لیے کلمہ اخلاص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا راستہ وہی ہے جس کے بتانے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہویں جو اللہ کے پیغمبر ہیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مشرکین کے معبود بھی اللہ کے سوا غیر ہیں اور طریقہ عبادت بھی اللہ کا بتلایا ہوا نہیں اسی لیے فرمایا کہ متہارا دین تمہارے لیے میرا میرے لیے جیسے اور جگہ ہے وان کذبوک فقل لی عملی ولکم عملکم انتم بریون مما اعمل وانا بری مما تعملون یعنی اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے متہارا عمل ہے تم میرے اعمال سے الگ ہو اور میں تمہارے کاموں سے بیزار ہوں اور جگرہ فرمایا لنا اعمالنا ولکم اعمالکم ہمارے عمل ہمارے ساتھ اور تمہارے تمہارے ساتھ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے تمہارے لیے متہارا دین ہے یعنی کفر اور میرے لیے میرا دن ہے یعنی اسلام یہ لفظ اصل میں دینی تھا لیکن چونکہ اور آیتوں کا وقف نون پر ہے اس لیے اس میں بھی یا کو حذف کر دیا جیسے فھوا یھدین میں اور یسقین میں بعض مفسرین نے کہا ہے مطلب یہ ہے کہ میں اب تو تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا نہیں اور آگے کے لیے بھی تمہیں ناامید کر دیتا ہوں کہ عمر بھر میں کبھی بھی یہ کفر مجھ سے نہ ہو سکے گا اسی طرح نہ تم اب میرے اللہ کو پوجتے ہو نہ آئندہ اس کی عبادت کرو گے اس سے مراد وہ کفار ہیں جن کا ایمان نہ لانا اللہ کو معلوم تھا جیسے قرآن میں اور جگہ ہے ولیزیدن کثیرا منھم ما انزل الیک من ربک طغیانا وکفرا یعنی تیری طرف جو اترتا ہے اس سے ان میں سے اکثر تو سرکشی اور کفر میں بڑھ جاتے ہیں ابن جرری نے بعض عربی دان حضرات سے نقل کیا ہے کہ وہ مرتبہ اس جملے کا لانا صرف تاکید کے لیے ہے جیسے فان مع العسر یسرا ان معالعسر یسرا میں اور جیسے لترون الجحیم ثم لترونھا عین الیقین پس ان دونوں جملوں کو دو مرتبہ لانے کی حکمت میں یہ تین قول ہوئے ایک تو یہ کہ پہلے جملے سے مراد معبود دوسرے سے مراد طریق عبادت دوسرے یہ کہ پہلے جملے سے مراد حال دوسرے سے مراد استقبال یعنی آئندہ تیسرے یہ کہ پہلے جملے کی تاکید دوسرے جملے سے ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں ایک چوتھی توجیہ بھی ہے جسے حضرت امام ابن تیمیہ اپنی بعض تصنیفات میں قوت دیتے ہیں وہ یہ کہ پہلے تو جملہ فعلیہ ہے اور دوبارہ جملہ اسمیہ ہے تو مراد یہ ہوئی کہ نہ تو میں غیر اللہ کی عبادت کرتا ہو نہ مجھ سے کبھی بھی کوئی امید رکھ سکتا ہے یعنی واقعہ کی بھی نفی ہے اور شرعی طور پر ممکن ہونے کا بھی انکار ہے یہ قول بھی ہت اچھا ہے واللہ اعلم حضرت امام ابو عبداللہ شافعی کررحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفر ایک ہی ملت ہے اس لیے یہود نصرانی کا اور نصرانی یہود کا وارث ہوس کتا ہے جبکہ ان دونوں میں سنب یا سبب ورثے کا پایا جائے اس لیے کہ اسلام کے سوا کفر کی جتنی راہیں ہیں وہ سب باطل ہونے میں ایک ہی ہیں حضرت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے موافقین کا مذہب اس کے برخلاف ہے کہ نہ یہودی نصرانی کا وارث ہو سکتا ہے نہ نصرانی یہود کا کیونکہ حدیث ہے دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے سورہ کافرون کی تفسیر ختم ہوئی فالحمد اللہ احسانہ ۔
1۔ 1 الکفرون میں الف لام جنس کے لیے ہے لیکن بطور خاص صرف ان کافروں سے خطاب ہے جن کی بابت اللہ کو علم تھا کہ ان کا خاتمہ کفر و شرک پر ہوگا۔ کیونکہ اس سورت کے نزول کے بعد کئی مشرک مسلمان ہوئے اور انہوں نے اللہ کی عبادت کی (فتح القدیر)
(قل یھا الکفرون…: طبرانی اور تفسیر ابن ایب حاتم وغیرہ میں عبداللہ بن عباس (رض) سے جو معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دو ، اس طرح ہم اور تم مل جل کر مکہ میں رہیں، اگر تم ایسا نہیں کرتے تو ایک سال تم ہمارے بتوں کو پوجا کرلیا کرو، دوسرے سال ہم تمہارے الہ کی بندگی کرلیا کریں گے، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ اگرچہ اس شان نزول کی روایت کی سند میں ایک شخص ابوخلف عبداللہ ضعیف ہے، لیکن آیت :(قل افغیر اللہ تامرونی اعبدایھا الجھلون) (الزمر : ٦٣) (کہہ دے ! پھر کیا اللہ کے غیر کے بارے میں تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میں اس کی عبادت کروں اے جاہلو ! ) کے مضمون سے اس شان نزول کی تائید ہوتی ہے، کیونکہ قریش کی جس فرمائش کا ذکر اس شان نزول کی روایت میں ہے، آیت کے ممضون سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس قسم کی فرمئاش ضرور کی تھی۔ (احسن التفاسیر) (٢) صحیح مسلم میں جابر بن عبدا للہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طواف کی دو رکعتوں میں سورة اخلاص اور سورة کافرون پڑھیں۔ (مسلم، الحج، باب حجۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ١٢١٨) صحیح مسلم ہی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دونوں سورتیں یعنی سورة کافرون اور سورة اخلاص فجر کی دو رکعتوں (سنتوں) میں پڑھیں۔ (مسلم صلاۃ المسافرین کافرون پڑھا کرتے تھے۔ (دیکھیے ترمذی، الوتر، باب ما جاء فی ما یقرآبہ فی الوتر : ٣٦٢، وصحجہ الالبانی) (٣) سورت کا مضمون یہ ہے کہ ساری دنیا کے کافروں کو سنا دو کہ مسلمان غیر اللہ کی عبادت کسی صورت نہیں کرسکتے، اس مسئلے پر سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں۔ (٤) تکرار کی حکمت :(١) بہت سے اہل علم نے فرمایا کہ آیات میں تکرار تاکید کے لئے ہے کہ مسلمان کسی صورت بھی توحید کے متعلق کفار سے سمجھوتہ نہیں کرسکتے اور یہ کلام عرب اور قرآن مجید کا عام اسلوب ہے، جیسے فرمایا :(کلاسیعلمون ، ثم کلا سیعلموکن) (النبا : ٣، ٥)” ہرگز نہیں، عنقریب وہ جانلیں گے۔ پھر ہرگز نہیں، عنقریب وہ جان لیں گے۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فاطمہ (رض) کی موجودگی میں علی (رض) عنہماکو دوسرے نکاح کی اجازت کے متعلق فرمایا :(فلا اذن، ثم لا اذن، ثم لا اذن) (بخاری، النکاح، باب ذب الرجل عن ابنہ فی د : ٥٢٣٠” میں اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ “ اسی طرح سورة رحمان اور مرسلات میں آیات کا بار بار تکرار ہے۔ یہاں تکرار کا مقصد یہ ہے کہ یہ کبھی ممکن ہی نہیں کہ میں توحید کا راستہ چھوڑ کر شرک کا راستہ اختیار کرلوں اور نہ یہ ممکن ہے کہ تم کافر رہتے ہوئے غیر اللہ کی عبادت کو یکسر ترک کر کے ایک اللہ کی عبادت پر قانع ہوجاؤ۔ شوکانی نے تکرار تاکید کے لئے ہونے کے علاوہ دوسری توجیہات کو تکلف قرار دیا ہے۔ (٢) بخاری (رح) نے (ابوعبیدہ سے) یہ تفسیر قنل فرمائی ہے کہ آیت :(لا اعبد ماتعبدون) کا مطلب ہے کہ میں اب موجودہ وقت میں اس کی عبادت نہیں کرتا، جس کی تم کرتے ہو اور آیت :(ولا انا عابد ما عبدثم) کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ بھی جب تک میں زندہ ہوں کبھی اس کی عبادت نہیں کروں گا جس کی تم نے عبادت کی ہے۔ اسی طرح کفار کے متعلق فرمایا کہ نہ اب زمانہ حلا یمں تم اس (اکیلے اللہ) کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور نہ آئندہ زمانہ استقبال میں۔ اس پر ایک سوال ہے کہ کافروں کے متعلق کیسے فرمایا کہ وہ آئندہ ایک اللہ کی عبادت نہیں کریں آئندہ زمانہ استقبال میں۔ اس پر ایک سوال ہے کہ کافروں کے متعلق کیسے فرمایا کہ وہ آئندہ ایک اللہ کی عبادت نہیں کریں گے، ہوسکتا ہے آئندہ وہ مسلمان ہوجائیں اور فی الواقع بیشمار کافر مسلمان ہوئے بھی ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کافر رہتے ہوئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کریں، مسلمان ہوجائیں تو الگ بات ہے۔ دوسرا جو بخاری (رح) نے ذکر فرمایا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں کہ آیات سن کر ان کے کفر میں اضافہ ہی ہوتا ہے، ایمان ان ک قسمت میں نہیں جیسا کہ فرمایا :(ولیزیدن کثیراً منھم ما انزل الیک من ربک طغیاناً و کفراً ) (المائدۃ : ٦٨)” اور یقینا جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں ضرور پڑھا دے گا۔ “ بخاری (رح) کے الفاظ یہ ہیں :” وقال غیرہ :(لا اعبد ماتعبدون) الان ولا اجیبکم فیما بقی من عمری (ولا انتم عبدون ما اعبد) وھم الذی قال :(ولیزیدن کثیراً منھم ما انزل الیک من ربک طغیانًا وکفراً (المائدۃ : ٦٨)” بخاری، التفسیر، سورة (قل یایھا الکافرون) (قبل ج : ٣٩٦٨) مطلب وہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔ (٢) حافظ ابن کثیر (رح) نے اس معنی کو ترجیح دی ہے کہ پہلی دو آیت ا میں ” ما “ موصولہ ہے اور دوسری دو میں مصدریہ ۔ معنی یہ ہوگا کہ میں اس چیز کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم کرتے ہو (یعنی معبود ان باطلہ کی) اور تم اس کی عبادت نہیں کرتے جس کی میں کرتا ہوں (یعنی ایک اللہ کی) اور نہ میں وہ عبادت کرنے والا ہوں جو تم کرتے ہو (یعنی جس طرح تم تالیاں اور سیٹیاں بجا کر ذکر کرتے ہو اور کپڑے اتار کر ننگے ہو کر طواف کرتے ہو، میں اس طرح عبادت نہیں کرتا) اور نہ تم وہ عبادت کرنے والے ہو جو میں کرتا ہوں، یعنی صرف اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر عبادت کرو، تم ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ (٤) حافظ ابن تیمیمہ (رح) نے فرمایا ” لا اعبد ماتعبدون “ جملہ فعلیہ ہے، اس کا معنی ہے کہ نہ میں اس کی عبادت کرتا ہوں جس کی تم کرتے ہو اور ” ولا انا عابد ما عبدثم “ جملہ اسمیہ ہے، جس میں نفی کی تاکید زیادہ ہے، یعنی میری شان ہی نہیں اور نہ کسی وقت مجھ سے ممکن ہے کہ (رسول ہوتے ہوئے) شرک کا ارتکاب کروں۔ یعنی نہ مجھ سے یہ فعل واقع ہوا ہے اور نہ مجھ سے اس کا شرعی امکان ہے۔” ماعبدثم “ ماضی شاید اس لئے فرمایا کہ میری نبوت سے پہلے بھی تم نے جو شرک کیا اس وقت بھی وہ میرے لائق نہیں تھا، نہ میں نے اس وقت یا بعد میں کسی غیر کی پرستش کی۔ کفار کا حال دونوں جگہ جملہ اسمیہ ” ولا انتم عبدون ما اعبد “ سے بیان فرمایا، یعنی تم میں استعداد ہی نہیں اور نہ تم سے ممکن ہے کہ تم بلا شریک غیرے اللہ واحد کی پرستش کرو۔ (٥) لکم دینکم ولی دین : اس کے متعلق بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ آیت آیات جہاد سے منسوخ ہے، مگر یہ درست نہیں۔ اب بھی کسی کافر کو زبردست ی مسلمان بنانا جائز نہیں، جیسا کہ فرمایا :(لا اکراہ فی الدین) (البقرۃ : ٢٥٦)”’ ین میں زبردستی نہیں۔ “ اگر وہ کفر پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو جزیہ ادا کر کے کفر پر رہ سکتے ہیں، ہاں فیصلہ قیامت کے دن ہوگا۔ اس آیت سے ان لوگوں کے نظریے کی تردید ہوتی ہے جو اسلام، موجودہ نصرانیت، یہودیت، ہندو ازم اور تمام مذاہب کو ایک ہی حقیقت کے مختلف مظاہر قرار دے کر سب کو درست قرار دیتے ہیں۔ (٦) ” ولی دین “ اصل ” ولی دینی “ ہے، چونکہ دوسری آیات نون پر ختم ہو رہی ہیں اس لئے آخر سے ” یائ “ حذف کردی ، مگر اس پر کسرہ باقی رکھا ہے۔
Virtues and Characteristics of the Surah Sayyidah ` A&shah (رض) reports that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said that it is better to recite two surahs in the sunnah prayer of fajr, namely, the Surah Al-Kafirun and Surah Al-Ikhlas. [ Transmitted by Ibn Hisham as quoted by Mazhar ]. Ibn Kathir cites several traditions in which a large number of Companions report that they heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) often recite Surah Al-Kafiru` n and Al-Ikhlas in the sunnah prayer of fajr and maghrib. Some of the Companions requested the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to teach them some supplications to recite at the time of sleeping. He taught them to recite Surah Al-Kafirun and said that this will give them immunity from idolatry. [ Transmitted by Tirmidhi and Abu Dad ]. Sayyidna Jubair Ibn Mut&im (رض) says that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked him whether he wished to be the happiest, most prosperous and well-to-do person among his comrades when he goes out on a journey. He replied: |"Yes, Messenger of Allah, I certainly do wish that.|" The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked him to recite the last five surahs of the Qur&an starting from Surah Al-Kafirun to the end, and to start every surah with Bismillah, and to end with Bismillah. Sayyidna Jubair (رض) says that in those days he used to be distressed, miserable and man of little provisions for journeys compared to his comrades. But when he started acting upon this teaching of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، he became more prosperous than others. [ Mazhari with reference to Abu Ya` la ]. Sayyidna Ali (رض) reports that once a scorpion bit the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، so he asked for water and salt. He applied the water on the spot where the scorpion bit him, and he recited Surah Al-Kafirun, Surah Al-Falaq and Surah An-Nas. [ Mazhari ] Cause of Revelation Ibn Ishaq reports from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) that Walid Ibn Mughirah, ` As Ibn Wa&il, Aswad Ibn ` Abdul-Muttalib and Umayyah Ibn Khalaf approached the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and proposed a compromise to him to the effect that he should worship their idols for a year, and they would worship Allah for a year. [ Qurtubi ]. According to Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، as recorded in Tabarani, the pagans of Makkah proposed to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : We shall give you so much of wealth that you will become the richest man in Makkah; we shall give you whichever woman you like in marriage; we are willing to follow and obey you as our leader on condition that you do not speak ill of our gods. If you do not agree to this, then let us agree that you worship our gods for a year and we would worship your God for another year|" [ Mazhari ]. According to Abu Salih&s report, Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) narrates that the pagans of Makkah made the following proposal for compromise: |"At least touch some of our gods, we will believe in you.|" Upon this, Jibra&il (علیہ السلام) descended with Surah Al-Kafirun. This Surah is the Surah of disavowal from the actions of the pagans, and enjoins the Muslims to worship Allah alone to the exclusion of all forms of pagan worship. The Traditions cited above indicate that the pagans had made many proposals to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) not once or in a single session, but on different occasions and in different sessions in the hope that at one time or another a compromise might be reached. Therefore, there was a need to respond to all the proposals definitely and decisively, and thus frustrate their hope once and for all. All these incidents might have taken place at different times and different places. The purport of the Surah is to prevent or prohibit any such compromise. Verse [ 109:2] لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ (I do not worship that which you worship,) In this Surah, the statements are repeated. The repetition has been explained in different ways by different authorities. Bukhari explains it thus: When two identical, or near identical, expressions occur side by side, many commentators interpret one of them as happening in the present time and the other as going to happen in the future time. Thus there is no meaningless repetition. The second and the third verses refer to the present time, meaning &I do not worship at the present time what you are worshipping, nor do you worship at the present time what I am worshipping&. That is, &I believe in Oneness of Allah and worship Him only, whereas you believe in multiple gods and goddesses and worship them&. Verses [ 4 and 5] refer to the future time, meaning &neither is there a possibility that I will ever worship what you are going to worship in the future, nor will you worship what I will persist in worshipping.& In other words, &I will persist in my belief of Divine Oneness and worship of Him and you will persist in belief of multiple gods and goddesses and worship of them&. Maulana Ashraf Thanawi (رح) has preferred this interpretation in Bayan ul-Qur&an, (and the translation given above is based on it.) However, he disagrees with Bukhari’ s interpretation of the word din, which Bukhari interprets as &the religion of disbelief and the religion of Islam& respectively, in verse [ 6] لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ |"For you is your faith, and for me, my faith|" meaning the proposed compromise or peace agreement is not acceptable. I shall continue to follow my faith and you may go on following your faith, and suffer its disastrous consequences. In Bayan ul-Qur&an, however, the word din has been interpreted as jaza& or &retribution or requital&. Ibn Kathir prefers another interpretation. He expounds that the particle ma is used in two ways: [ 1] as mawsulah or relative pronoun in the sense of al-ladhi [ that which ]; and [ 2] as masdariyah transforming into infinitive the verb it governs. In this Surah, the first ma is a relative pronoun in the sense of al-ladhi, and the second ma is an infinitival particle. Thus in verses [ 2 & 3] the particle is a relative pronoun and may be paraphrased thus: &I do not worship the deities that you worship nor do you worship the One Whom I worship& and in verses [ 4 & 5] the particle is an infinitival particle and may be paraphrased thus: لَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ & I will never adopt your mode or manner of worship, nor will you adopt the manner in which I worship&. In this way, verses [ 2 & 3] show that the objects of worship are different from each other, and verses [ 4&5] show the differences in the modes of worship. In sum, &neither our objects of worship, nor our manner of worship, are commonly shared by us; they are different.& In this way, it is seen that there is no real repetition, because while the formal expressions might be identical or near identical, but deeper semantic meanings are different. The mode of worship was revealed to the Prophet by Allah and passed on to the Muslims through him. The pagan manner of worship is self-fabricated. Ibn Kathir prefers this interpretation, and says that this is the exact meaning that emanates from the credo of Islam: لا إلہ إلا اللہ محمد الرسول اللہ |"There is no object worthy of worship except Allah, Muhammad is the Messenger of Allah|". Only the mode and manner of worship sanctioned by Allah is credible, and should be followed by Muslims. Ibn Kathir adds that the concluding verse لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ (For you is your faith, and for me, my faith) yields the sense of other verses in the Qur&an, as for instance in [ 10: 41] وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ; And if they belie you, say, for me, my deeds, and for you, your deeds and in [ 28:55] لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ (For us, our deeds, and for you, your deeds). Thus the sum total of the word din, according to Ibn Kathir, refers to the &deeds of religion& and its purport would be the same as explicated in Bayan ul-Qur&an, in that each one will be requited for his own deeds. Other commentators have interpreted the two sentences in a third way. According to them, the particle is retained in both places as a relative pronoun, and in both the sentence is taken as representing present tense. They in fact maintain that the repetition of the two sentences have been used as a rhetorical device and employed by deliberate design to secure emphasis. Not every repetition is unpleasant or meaningless, even though the same idea may be reiterated by the same wording, as for instance in [ 94: 56] فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (Undoubtedly, along with hardship there is ease. Undoubtedly, along with hardship there is ease) Verse [ 6] is the repetition of verse [ 5] and is deliberately reiterated to secure emphasis, as well as to reject outright the several proposals made on different occasions. [ Ibn Kathir, Ibn Jarir ]. Peace Treaty with Unbelievers is Permissible in Some Cases but not in Others Surah Al-Kafirun dismisses out of hand the many proposals of compromise offered by the pagans and declares dissociation from them. But the Holy Qur&an itself has said in [ 8:61] وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا (And if they tilt towards peace, you tilt towards it.|" that is, enter into peace treaty with the infidels or pagans or non-Muslims. Moreover, when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) migrated to Madinah, he entered into peace treaty with the Jews. Therefore, some of the commentators have opined that Surah Al-Kafirun has been abrogated. Their basic argument pivots around the verse لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ (For you is your faith, and for me, my faith). They contend that this is apparently in conflict with the ordinances of jihad, but this is not true, because the verse does not guarantee, nor does it even permit the infidels to maintain their infidelity. It simply means what is stated in [ 28:55] لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ (For us, our deeds, and for you, your deeds), that is, as you sow, so shall you reap. In fact, the correct position held by the majority of the scholars is that this Surah is not abrogated. The proposals of compromise that were offered by the pagans at the time of the revelation of the present Surah are still prohibited, and the peace treaties allowed by 8:61 or entered into by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) are still permissible. It is necessary to understand the circumstances and conditions of the treaty and take a proper decision accordingly. In one of his Traditions, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) laid down the general principle of peace treaty with the infidels and pagans, thus: اَلاِصلحاً احَلّ حراماً او حرّم حلالاً (Every compromise is permitted except the one which turns prohibited things into lawful and lawful things into forbidden.) If the various peace proposals made by the pagans are carefully analyzed, they were all certainly and definitely purported to mix elements of pagan beliefs and practices with Islamic beliefs and practices, thus creating confusion; and in some cases they required Muslims to renounce Islam [ albeit temporarily ] and commit themselves to paganism. Surah Al-Kafirun denounces such treaties, and declares dissociation from paganism. Analyzing the peace pact with the Jews, on the other hand, it is seen clearly that it did not in any way require Muslims to denounce or renounce Islam, nor did it require them to mix elements of un-Islamic beliefs with the true faith. Islam is the religion that stands for tolerance, kindness, politeness and peace more than any other religion. However, all these ethical principles can be applied in the matters of human rights. There is no room for compromise in the matter of Divine Law or the basic tenets of Divine religion . Allah knows best! Al-hamdulillah The Commentary on Surah Al-Kafirun Ends here denounces such treaties, and declares dissociation from paganism. Analyzing the peace pact with the Jews, on the other hand, it is seen clearly that it did not in any way require Muslims to denounce or renounce Islam, nor did it require them to mix elements of un-Islamic beliefs with the true faith. Islam is the religion that stands for tolerance, kindness, politeness and peace more than any other religion. However, all these ethical principles can be applied in the matters of human rights. There is no room for compromise in the matter of Divine Law or the basic tenets of Divine religion. Allah knows best!
خلاصہ تفسیر آپ (ان کافروں سے) کہہ دیجئے کہ اے کافرو (میرا تمہارا طریقہ ایک نہیں ہوسکتا اور) نہ (قوفی الحال) میں تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا ہوں اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرتے ہو اور نہ (آئندہ استقبال میں) میں تمہارے معبودوں کی پرستش کروں گا اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرو گے (مطلب احقر کے نزدیک یہ ہے کہ میں موجد ہو کر شرک نہیں کرسکتا نہ اب نہ آئندہ، اور تم مشرک ہو کر موحد نہیں قرار دیئے جاسکتے نہ اب نہ آئندہ، یعنی توحید و شرک جمع نہیں ہو سکتے۔ ) تم کو تمہارا بدلہ ملے گا اور مجھ کو میرا بدلہ ملے گا (اس میں ان کے شرک پر وعید بھی سنا دی گئی۔ ) معارف مسائل سورت کے فضائل اور خواص :۔ حضرت صدیقہ عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ فجر کی سنتوں میں پڑھنے کے لئے دو سورتیں بہتر ہیں سورة کافرون اور سورة اخلاص (رواہ ابن ہاشم مظہری) اور تفسیر ابن کثیر میں متعدد صحابہ سے منقول ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبح کی سنتوں میں اور بعد مغرب کی سنتوں میں بکثرت یہ دو سورتیں ڑھتے ہوئے سنا ہے۔ بعض صحابہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہمیں کوئی دعا بتا دیجئے جو ہم سونے سے پہلے پڑھا کریں، آپ نے قل یا ایھا الکفرون پڑھنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ یہ شرک سے برائت ہے (رواہ الترمذی و ابوداؤد) اور حضرت جبیر بن مطلعم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ جب سفر میں جاؤ تو وہاں تم اپنے سب رفقاء سے زیادہ خوشحال با مراد رہو اور تمہارا سامان زیادہ ہوجائے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ بیشک میں ایسا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ آخر قرآن کی پانچ سورتیں سورة کافرون، سورة نصر، سورة اخلاص، سورة فلق اور سورة ناس پڑھا کر اور ہر سورة کو بسم اللہ سے شروع کرو اور بسم اللہ ہی پر ختم کرو۔ حضرت جبیر فرماتے ہیں کہ اس وقت میرا حال یہ تھا کہ سفر میں اپنے دوسروں ساتھیوں کے بالمقابل قلیل الزاد خستہ حال ہوتا تھا۔ جب سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس تعلیم پر عمل کیا میں سب سے بہتر حال میں رہنے لگا (مضہری بحوالہ ابویعلی) اور حضرت علی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچھونے کاٹ لیا تو آپ نے پای اور نمک منگایا اور یہ پانی کاٹنے کی جگہ لگاتے جاتے تھے اور قل یا ایھا الکافرون قل اعوذ برب الفلق، قل اعوذ برب الناس پڑھتے جاتے تھے۔ (مظہری) شان نزول :۔ ابن اسحاق کی روایت ابن عباس سے یہ ہے کہ ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل اور اسود بن عبدالطلب اور امیہ بن خلف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کہ آؤ ہم آپس میں اس پر صلح کرلیں کہ ایک سال آپ ہمارے بتوں کی عبادت کیا کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں (قرطبی) اور طبرانی کی روایت حضرت ابن عباس سے یہ ہے کہ کفار مکہ نے اول تو باہمی مصالحت کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سمنے یہ صورت پیش کی کہ ہم آپ کو اتنا مال دیتے ہیں کہ آپ سارے مکہ میں سب سے زیادہ ملادار ہوجائیں اور جس عورت سے آپ چاہیں آپ کا نکاح کردیں، آپ صرف اتنا کریں کہ ہمارے معبودوں کو برا نہ کہا کریں اور اگر آپ یہ بھی نہیں مانتے تو ایسا کریں کہ ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کیا کریں اور ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کیا کریں۔ (مظہری) اور ابو صالح کی روایت حضرت ابن عباس سے یہ ہے کہ کفار مکہ نے باہمی مصالحت کے لئے یہ صورت پیش کی تھی کہ آپ ہمارے بتوں میں سے بعض کو صرف ہاتھ لگا دیں تو ہم آپ کی تصدیق کرنے لگیں گے، اس پر جبرئیل امین سورة کافرون لے کر نازل ہوئے جس میں کفار کے اعمال سے برات اور خلاص اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم ہے شان نزول میں جو متعدد واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ واقعات سبھی پیش آئے ہوں اور ان سب کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی ہو جس کا حاصل ایسی مصالحت سے روکنا ہے۔ لا اعبد ماتعبدون الآیتہ اس سورة میں یہ چند کلمات مکرر آئے ہیں اس تکرار کو رفع کرنے کے لئے ایک تفسیر تو وہ ہے جس کو بخایر نے بہت سے مفسرین سے نقل کیا ہے کہ دو کلمے ایک مرتبہ زمانہ لا کے لئے اور دوسری مرتبہ زمانہ مستقبل کے متعلق آئے ہیں اس لئے کوئی تکرار نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ نہ تو بالفعل ایسا ہو رہا ہے کہ میں تمہارے معبودوں کی عبادت کروں اور تم میرے معبود کی عبادت کرو، اور نہ آئندہ ایسا ہوسکتا ہے کہ میں اپنی توحید پر تم اپنے شرک پر قائم رہتے ہئے ایک دوسرے کے معبود کی عبادت کریں۔ اسی تفسیر کو حضرت حکیم الامت نے تفسیر بیان القرآن میں اختیار فرمایا ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر میں آ چکی ہے مگر بخاری کی تفسیر میں لکم دینکم ولی دین کی تفسیر دین بمعنے مذہب اسلام و فکر سے کی ہے اور مطلب یہ قرار دیا ہے کہ مصالحت کی مجوزہ صورت قابل قبول نہیں میں تو اپنے دین پر قائم ہوں ہی تم بھی اپنے دین پر مصر ہو تو تم جانور، اس کا انجام تمہیں بھگتنا ہے اور بیان القرآن میں دین کو بمعنے جزاء قرار دیا ہے۔ دوسری تفسیر وہ ہے جس کو ابن کثیر نے اختیار فرمایا ہے کہ حرف مالغت عرب میں جیسا اسم موصول الذی کے معنی میں آتا ہے ایسا ہی کبھی مصدری معنی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے کہ وہ جس فعل پر داخل ہو اس کو بمعنے مصدر کردیتا ہے۔ اس سورت میں پہلی جگہ تو صرف ما اسم موصول الذی کے معنے میں ہے اور دوسری جگہ مامصدر یہ ہے تشریح اس کی یہ ہے کہ پہلے جمعہ لا اعبد ماتعبدون ولا انتم عبدون ما اعبد کے معنے یہ ہوئے کہ جن معبودوں کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا اور جس معبود کی میں عبادت کرتا ہوں اس کی تم نہیں کرتے اور دوسرے جملے ولا انا عابد ماعبدتم ولا انتم عبدون ما اعبد میں حرف ما مصدریہ ہے اور معنے یہ ہیں انا عابد عبادتکم ولا انتم عابدون عبادتی، یعنی ہماری اور تمہاری عبادت کے طریقے ہی الگ الگ ہیں، میں تمہارے طرز کی عبادت نہیں کرسکتا اور تم جب تک ایمان نہ لاؤ تو میرے طرز کی عبادت نہیں کرسکتے۔ اس طرح پہلے جملے میں معبودوں کا ختلاف بتلایا اور دوسرے جملے میں عبادت کے طرز و طریقہ کے اختلاف کو ظاہر کیا، حاصل یہ ہوا کہ نہ تمہارے اور ہمارے معبود میں اشتراک ہے نہ طری عبادت میں، اس طرح تکرار رفع ہوا اور طریق عبادت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کا وہ ہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی بتلایا گیا اور مشرکین کے طریقے خود ساختہ ہیں۔ ابن کثیر نے اس تفسیر کو راحج قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ کلمہ اسلام لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ سے یہی مفہوم نکلتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور طریق عبادت وہ معتبر ہے جو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطے سے ہم تک پہنچا ہے اور لکم دینکم ولی دین کی تفسیر میں ابن کثیر نے فرمایا کہ یہ جملہ ایسا ہی ہے جیسے دوسری جگہ قرآن کریم کا ارشاد ہے فان کذبوک فقل لی عملی ولکم عملکم اور دوسری جگہ ہے لنا اعمالنا ولکم اعمالکم اس کا حاصل یہ ہے کہ لفظ دین کو ابن کثیر نے بھی اعمال دین کے معنی میں لیا ہے اور پھر مقصود اس سے وہی ہوگا جو بیان القرآن میں بیان کیا گیا کہ ہر ایک کو اپنے اپنے عمل کی جزا سزا خود بھگتنی پڑے گی۔ اور بعض مفسرین نے ایک تیسری تفسیر یہ اختیار کی کہ صرف ما دونوں جگہ موصولہ ہی ہے اور حال و استقبال کا بھی فرق نہیں بلکہ یہ دو جملے فی المواقع مکرر لائے گئے ہیں مگر ہر تکرار برا نہیں ہوتا، بہت جگہ تکرار تقاضائے بلاغت ہوتا ہے جیسا کہ فان مع العسر یسراً ان مع العسر یسرا میں ہے۔ یہاں اس تکرار کا مقصد تاکید مضمون بھی ہے اور یہ بھی کہ کفار کی طرف سے چونکہ ایسی مصالحت کی پیشکش متعدد مرتبہ کی گئی تو متعدد جملوں سے اس کو رد کیا گیا (نقلہ ابن جریر۔ ابن کثیر) کفار سے معاہدہ صلح کی بعض صورتیں جائز ہیں بعض ناجائز :۔ سورة کافرون میں کفار کی طرف سے پیش کی ہوئی مصالحت کی چند صورتوں کو بالکلیہ رد کر کے اعلان برائت کیا گیا، مگر خود قرآن کریم میں یہ ارشاد بھی موجود ہے و ان جنحوا للسلم فاجنح لھا، یعنی کفار اگر صلح کی طرف جھکیں تو آپ بھی جھک جایئے (یعنی معاہدہ صلح کرلیجئے) اور مدینہ طیبہ جب آپ ہجرت کر کے تشریف لے گئے تو یہود مدینہ سے آپ کا معاہدہ صلح مشہود و معروف ہے اس لئے بعض مفسرین نے سورة کافرون کو مسنوخ کہہ دیا اور منسوخ کہنے کی بڑی وجہ آیت لکم دینکم ولی دین کو قرار دیا ہے کیونکہ بظاہر یہ احکام جہاد کے منافی ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ یہاں لکم دینکم کا یہ مطلب نہیں کہ کفار کو کفر کی اجازت یا کفر پر برقرار رکھنے کی ضمانت دے دی گئی بلکہ اس کا حاصل وہی ہے جو لنا اعمالنا ولکم اعمالک کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھگتو گے اس لئے راجح اور صحیح جمہور کے نزدیک یہ ہے کہ یہ سورت منسوخ نہیں، جس قسم کی مصالح سورة کافرون کے نزول کا سب بنی وہ جیسے اس وقت حرام تھی آج بھی حرام ہے اور جس صورت کی اجازت آیت مذکورہ میں آئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاہدہ یہود سے عملاً ظاہر ہوئی، وہ جیسے اس وقت جائز تھی آج بھی جائز ہے۔ بات صرف موقع و محل کو سمجھنے اور شرائط صلح جائز ہے بجز اس صلح کے جس کی رو سے اللہ کی حرام کی ہوئی کسی چیز کو حلال یا حلال کی ہوئی چیز کو حرام قرار دیا گیا ہو۔ اب غور کیجئے کہ کفار مکہ نے صلح کی جو صورتیں پیش کی تھیں، ان سب میں کم از کم کفر و اسلام کی حدود میں التباس یقینی ہے اور بعض صورتوں میں تو اصول اسلام کے خلاف شرک کا ارتکاب لازم آتا ہے، ایسی صلح سے سورة کافرون نے اعلان برائت کردیا اور دوسری جگہ جس صلح کو جائز قرار دیا اور معاہدہ یہود سے اس کی عملی صورت معلوم ہوئی اس میں کوئی چیز ایسی نہیں جس میں اصول اسلام کا خلاف کیا گیا ہو یا کفر و اسلام کی حدود آپس میں ملتبس ہوئی ہوں۔ اسلام سے زیادہ کوئی مذہب رواداری، حسن سلوک صلح و سلامیت کا داعی نہیں مگر صلح اپنے انسانی حقوق میں ہوتی ہے۔ خدا کے قانون اور اصول دین میں کسی صلح مصالحت کی کوئی گنجائش نہیں۔ واللہ اعلم
قُلْ يٰٓاَيُّہَا الْكٰفِرُوْنَ ١ ۙ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
(1 ۔ 6) عاص بن وائل اور ولید بن مغیرہ نے حضور سے کہا تھا کہ آپ ہمارے معبودوں کو تسلیم کرلیں تو ہم آپ کے معبود کی عبادت شروع کردیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ ان استہزاء کرنے والے کافروں سے فرما دیجیے کہ نہ تو فی الحال میں تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا ہوں اور نہ آئندہ کروں گا تمہیں تمہارا دین یعنی کفر و شرک مبارک ہو اور میرے لیے میرا دین یعنی اسلام ہے ؟ یہ آیت قتال سے منسوخ ہے کیوں کہ حضور نے پھر ان سے قتال فرمایا۔ شان نزول : قل یا ایہا الکفرون الخ طبرانی اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ قریش نے حضور کو بلایا تاکہ آپ کو بہت سا مال دے دیں کہ جس سے آپ مکہ میں سب سے مال دار ہوجائیں اور جس عورت سے آپ چاہیں آپ کی شادی کردیں مگر آپ ہمارے بتوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دیں اگر یہ نہیں کرسکتے تو ایک سال تک ہمارے معبودوں کی پرستش کریں اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دیکھتا ہوں میرے پاس میرے رب کا کیا حکم آتا ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے سورة کافرون پوری اور یہ آیت قُلْ اَفَغَیْرَ اللّٰہِ تَامرونی اعبد ایھا الجاھلون نازل فرمائی اور عبدالرزاق نے وہب سے روایت کیا ہے کہ قریش نے حضور سے کہا یہ طے کرلو کہ ایک سال ہم آپ کا دین اختیار کرلیا کریں گے اور ایک سال آپ ہمارا اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ اور ابن منذر نے اسی طرح ابوجہل سے روایت کیا ہے اور ابن ابی حاتم نے سعید بن سینا سے روایت ہے کہ ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، اسود بن عبدالمطلب اور امیہ بن خلف نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ محمد چلو جن کی ہم عبادت کرتے ہیں ان کی تم کرلو اور جس کی تم کرتے ہو اس کی ہم کرلیں دونوں اس معاملہ میں صلح کرلیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔
آیت ١{ قُلْ یٰٓــاَیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ ۔ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجیے کہ اے کافرو ! “ نوٹ کیجیے ! یہ داعیانہ طرز تخاطب نہیں ہے ‘ بلکہ لاتعلق اور علیحدہ ہونے کا انداز ہے۔ ظاہر ہے ایک داعی تو اپنے مخاطبین کو یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُکہہ کر پکارتا ہے ‘ کہ اے اللہ کے بندو ! میری بات سنو ! گویا کلمہ تخاطب میں ہی مفہوم واضح کردیا گیا کہ اگر میری تمامتر ناصحانہ کوششوں کے باوجود بھی تم لوگوں نے کفر و انکار پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو تمہارا یہ فیصلہ اور طرزعمل تمہیں مبارک ہو۔ لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے بعد اب میری اور تمہاری راہیں جدا ہوچکی ہیں۔
1 A few points in this verse are particularly noteworthy: (1) Although the Holy Prophet (upon whom be peace) has been commanded to tell this to the disbelievers plainly, the theme that follows makes it explicit that every believer should tell the disbelievers plainly what has been said in the following verses; so much so that the person who has just believed and repented of kufr is also bound to express similarly his disgust with and disapproval of the creed and rites of worship and gods of kufr. Thus, though the first addressee of the word qul (say) is the Holy Prophet (upon whom be peace) himself, the command is not restricted to him alone but it reaches every believer through him. (2) The word "kafir' is no abuse, which might have been used for the addressees of this verse, but it implies the one who refuses to believe, or is an unbeliever. As against it the word "mu min" is used for the believer. Therefore, the Holy Prophet's saying, by Allah's command, "O disbelievers, ... ', in fact, means: "O you, who have refused to believe in my apostleship and in the teachings brought by me." Likewise. when a believer uses this word, it will imply those who do not believe in the Holy Prophet Mauhmmad (upon whom be Allah's peace and blessings) , (3) The word used is "O kafirs" and not "O muslmiks"; therefore, the addressees are not only the mushriks but all those people who do not acknowledge Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) as Allah's Messenger and the teachings and guidance brought by him as the teaching and guidance given by Allah Himself, whether they be Jews, Christians, Zoroastrians or the disbelievers, polytheists and pagans of the entire world. There is no reason why this address be restricted to the pagans of Quraish or of Arabia only. (4) To address the deniers with the word "O kafirs" is just like addressing certain people as "O enemies", or "O opponents". Such an address is not, in fact, directed to the person of the addressee but it is made on the basis of their characteristic of enmity and opposition, and lasts only until they are so characterised. If one of them gives up enmity and opposition, or turns a friend and supporter, he no longer remains the addressee of this word. Likewise, the address of "O kafirs" to the people also is in view of their characteristic of kufr and not their person. This address would be perpetual for him who continues to be a kafir till death, but the one who believes will no longer be its addressee. (5) Many scholars from among the commentators have expressed the opinion that in this Surah the address of "O disbelievers" applied only to a few persons of Quraish, who were visiting the Holy Prophet (upon whom be peace) with proposals of compromise regarding religion and about whom Allah had informed His Messenger than they would not believe. They have formed this opinion for two reasons. First, that it is followed by La a `budu ma to `budun: "I do not worship him or those whom you worship" . They say that this does not apply to the Jews and Christians, for they worship AIlah. Second, that this is also followed by: wa la antum `abiduna ma a`bud "Nor are you worshippers of Him Whom 1 worship". Their reasoning is that this statement does not apply to the people who at the revelation of this Surah were disbelievers but later believed. Both these arguments are incorrect. As for these verses, their explanation that follows will show that they do not bear the meaning which has been understood from them. Here, to point out the error of the reasoning it would be enough to say that if the addressees of this Surah were only these people, why then dces this Surah still continue to be recited when they are dead and gone from the world long long ago? And what was the need of making this Surah a part of the Qur'an permanently so that the Muslims should continue to read it for ever afterwards'?
سورة الکافرون حاشیہ نمبر :1 اس آیت میں چند باتیں خاص طور پر توجہ طلب ہیں: ( ۱ ) حکم اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے کہ آپ کافروں سے یہ بات صاف صاف کہہ دیں ، لیکن آگے کا مضمون یہ بتا رہا ہے کہ ہر مومن کو وہی بات کافروں سے کہہ دینی چاہیے جو بعد کی آیات میں بیان ہوئی ہے کہ حتی کہ جو شخص کفر سے توبہ کر کے ایمان لے آیا ہو اس کے لیے بھی لازم ہے کہ دین کفر اور اس کی عبادات اور معبودوں سے اسی طرح اپنی براءت کا اظہار کردے ۔ پس لفظ قُل ( کہہ دو ) کے اولین مخاطب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ، مگر حکم حضور کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ آپ کے واسطے سے ہر مومن کو پہنچتا ہے ۔ ( ۲ ) کافر کا لفظ کوئی گالی نہیں ہے جو اس آیت کے مخاطبوں کو دی گئی ہو ، بلکہ عربی زبان میں کافر کے معنی انکار کرنے والے اور نہ ماننے والے ( Unbeliever ) کے ہیں ، اور اس کے مقابلے میں مومن کا لفظ مان لینے اور تسلیم کرلینے والے ( Believer ) کے لیے بولا جاتا ہے ، لہذا اللہ کے حکم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اے کافرو دراصل اس معنی میں ہے کہ اے وہ لوگو جنہوں نے میری رسالت اور میری لائی ہوئی تعلیم کو ماننے سے انکار کیا ہے ۔ اور اسی طرح ایک مومن جب یہ لفظ کہے گا تو اس کی مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے والے ہوں گے ۔ ( ۳ ) اے کافرو کہا ہے ، اے مشرکو نہیں کہا ، اس لیے مخاطب صرف مشرکین ہی نہیں ہیں بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کا رسول ، اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم و ہدایت کو اللہ جل شانہ کی تعلیم و ہدایت نہیں مانتے ، خواہ وہ یہود ہوں ، نصاری ہوں ، مجوسی ہوں ، یا دنیا بھر کے کفار و مشرکین اور ملاحدہ ہوں ۔ اس خطاب کو صرف قریش یا عرب کے مشرکین تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ ( ۳ ) منکرین کو اے کافرو کہہ کر خطاب کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم کچھ لوگوں کو اے دشمنو یا اے مخاطبو کہہ کر مخاطب کیں ۔ اس طرح کا خطاب دراصل مخاطبوں کی ذات سے نہیں ہوتا بلکہ ان کی صفت دشمنی اور صفت مخالفت کی بنا پر ہوتا ہے اور اسی وقت تک کے لیے ہوتا ہے جب تک ان میں یہ صفت باقی رہے ۔ اگر ان میں سے کوئی دشمنی و مخالفت چھوڑ دے ، یا دوست اور حامی بن جائے تو وہ اس خطاب کا مخاطب نہیں رہتا ۔ بالکل اسی طرح جن لوگوں کو اے کافرو کہہ کر خطاب کیا گیا ہے ، وہ بھی ان کی صفت کفر کے لحاظ سے نہ کہ ان کی ذاتی حیثیت سے ، ان میں سے جو شخص مرتے دم تک کافر رہے اس کے لیے تو یہ خطاب دائمی ہوگا ، لیکن جو شخص ایمان لے آئے وہ اس کا مخاطب نہ رہے گا ۔ ( ۵ ) مفسرین میں سے بہت سے بزرگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس سورۃ میں اے کافرو کا خطاب قریش کے صرف ان چند مخصوص لوگوں سے تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دین کے معاملے میں مصالحت کی تجویزیں لے لے کر آرہے تھے اور جن کے متلعق اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا تھا کہ یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں ۔ یہ رائے انہوں نے دو وجودہ سے قائم کی ہے ۔ ایک یہ کہ آگے لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ ( جس کی یا جن کی عبادت تم کرتے ہو اس کی یا ان کی عبادت میں نہیں کرتا ) فرمایا گیا ہے ۔ اور وہ کہتے ہیں کہ یہ قول یہود و نصاری پر صادق نہیں آتا ، کیونکہ وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ آگے یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ ( اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں ) اور ان کا استدلال یہ ہے کہ یہ قول ان لوگوں پر صادق نہیں آتا جو اس سورۃ کے نزول کے وقت کافر تھے اور بعد میں ایمان لے آئے ۔ لیکن یہ دونوں دلیلیں صحیح نہیں ہیں ۔ جہاں تک ان آیتوں کا تعلق ہے ان کی تشریح تو ہم آگے چل کر کریں گے جس سے معلوم ہوجائے گا کہ ان کا وہ مطلب نہیں ہے جو ان سے سمجھا گیا ہے ۔ یہاں اس استدلال کی غلطی واضح کرنے کے لیے صرف اتنی بات کہہ دینا کافی ہے کہ اگر اس سورہ کے مخاطب صرف وہی لوگ تھے تو ان کے مر کھپ جانے کے بعد اس سورہ کی تلاوت جاری رہنے کی آخر کیا وجہ ہے؟ اور سے مستقل طور پر قرآن میں درج کردینے کی کیا ضرورت تھی کہ قیامت تک مسلمان اسے پڑھتے رہیں؟
١۔ ٦۔ طبرانی ٣ ؎ اور تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں جو حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ ولید بن مغیرہ اور چند اور مشرکوں نے ایک دفعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم ہمارے معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دو اور اس طرح ہم اور تم مل جل کر مکہ میں رہیں کہ ایک سال تم ہمارے بتوں کی پوجا کر یا کرو ‘ ہم دوسرے سال تمہارے خدا کی بندگی کرلیا کریں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورة نازل فرمائی اگرچہ اس شان نزول کی روایت کی سند میں ایک شخص ابو حنیف عبد اللہ بن عیسیٰ ضعیف ہے لیکن آیت قل افغیر اللہ نامرونی اعبد ایھا الجاھلون کے مضمون سے اس شان نزول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ قریش کی جس فرمائش کا ذکر اس شان نزول کی روایت میں ہے آیت کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس قسم کی فرمائش ضرور کی تھی بعض مفسروں نے جہاد کی آیت سے اس آیت کو اور بعضوں نے ساری سورة کو منسوخ لکھا ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے خبر میں ناسخ اور منسوخ نہیں ہوتا کیونکہ ایک بات کی خبر دے کر پھر اس کو پلٹ ڈالنا جھوٹ کی ایک شاخ ہے ہاں ایک بات کا امر یا اس کی نہی کرکے اس امر اور نہی کو پلٹ ڈالنا ممکن ہے۔ علاوہ اس کے اس سورة میں اول سے آخر تک توحید کی تاکید اور شرک کی مذمت ہے۔ اس طرح کا مضمون قیامت تک منسوخ نہیں ہوسکتا ورنہ ساری شریعت منسوخ ہوجائے۔ صحاح ١ ؎ کی کتابوں میں جو روایتیں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح اور مغرب کی رکعتوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر قل یایھا الکفرون اور قل ھو اللہ احد پڑھا کرتے تھے کہ قل یایھا الکفرون کے پڑھنے سے پاؤ قرآن کے پڑھنے کا ثواب ملتا ہے۔ (٣ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٤٠٤ ج ٦۔ ) ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٥٩ و ٥٦٠ ج ٤۔
(109:1) قل یایھا الکفرون ۔ قل فعل امع، واحد مذکر حاضر، قول (باب نصر) مصدر۔ تو کہہ دے۔ (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) باقی ساری سورت قل کا مقولہ ہے۔ یایھا حرف نداء ہے الکفرون منادی۔ (اے کافرو) ابن حاتم نے سعید (رض) کی روایت بیان کی کی ہے کہ :۔ ولید بن مغیرہ (رض) عاص بن وائل، اسود بن عبد المطلب، امیہ بن خلف، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملے اور کہا کہ تم اس کی پوجا کرو کہ جس کو ہم پوجتے ہیں اور ہم اس کو پوجا کریں جس کو تم پوجتے ہو۔ اس تمام معاملہ میں ہم تم شریک ہوجائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورة نازل فرمائی اور اس میں خاص طور پر خطاب کافروں کی اس جماعت سے ہے۔
سورة الکافرون۔ آیات ١ تا ٦۔ اسرار ومعارف۔ کفار سے فرمادیجئے کہ میں اللہ کا رسول اور موحد ہوں تمہارے معبودوں کی عبادت نہیں کرسکتا کفار مکہ نے اس بات پر سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی تھی آپ بتوں کو برانہ کہیں تو ارشاد ہوا کہ باطل کو باطل نہ کہناگویا اسے قبول کرنا ہے لہذا مومن کفر کو قبول نہیں کرسکتا ، بہرحال غلط کو غلط ہی کہاجائے گا اور تم جب تک کافر ہو اور اپنے عقیدے اور عمل سے تائب نہیں ہوتے میرے معبود کی عبادت نہیں کرسکتے کہ اسلام سمجھوتے کا نام نہیں کہ کچھ کفر قبول کرلیاجائے اور کچھ باتیں اسلام کی ہوں بلکہ کفر کو مٹا کر اسلام نافذ ہوتا ہے لہذا ایسے سمجھوتے کی آئندہ بھی کوئی امید نہ رکھو میرے لیے میرادین ہے جس کا انجام کامیابی و کامرانی ہے اور اگر تم توبہ نہیں کرتے تو دیکھ لوگے جو تمہارے دین کا انجام ہے۔
لغات القرآن۔ لا اعبد۔ میں عبادت نہ کروں گا۔ تعبدون۔ تم (جن چیزوں کی) عبادت کرتے ہو۔ انتم۔ تم۔ دینکم۔ تمہارا دین۔ لی۔ میرے لئے۔ تشریح : اتحادو اتفاق، رواداری، ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا، صلح اور امن وسلامتی یہ وہ عادتیں اور صفتیں ہیں جنہیں اسلام میں بہت اہمیت دی گئی ہے لیکن بےبنیاد اتحاد و اتفاق کی باتیں، دنیا دکھاوے کے لئے زبانی رواداری کے نعرے، آپس میں مل جل کر رہنے اور ایک ہوجانے کی منافقانہ باتیں کسی طرح پسندیدہ نہیں ہیں۔ تمام مذاہب میں دین اسلام ہی وہ طریقہ زندگی ہے جس نے باہمی محبت، رواداری، حسن سلوک ہر انسان سے بحیثیت ہمدردی، امن و سلامتی اور صلح صفائی کی اعلیٰ ترین تعلیم دی ہے لیکن جہاں بھی اسلام کے ابدی اصولوں بدل جانے اور اس کی بنیادوں کے اکھڑ جانے کا اندیشہ ہو ” اتحاد و اتفاق “ کے نام پر ایسی کسی منافقانہ کاروائی کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ اصل میں دین اسلام کے اصولوں میں تشدد، ظلم و جبر، انتہا پسندی، دہشت گردی، اپنے خیالات کو زبردستی دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرنا اور اپنی بات کو اونچا رکھنے اور زور زبردتی کے ساتھ منوانا اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ دین اسلام ایک اصولی اور نظریاتی دین ہے اور اس بات سے ہر شخص اچھی طرح واقف ہے کہ نظریات کو مختلف طریقوں سے سمجھا یا جاتا تاکہ انسان کا ذہن و فکر اس کے قبول کرنے پر آمادہ ہوسکے۔ طاقت کے استعمال سے وقتی طور پر سروں کو جھکایا جاسکتا ہے لیکن ظلم و جبر اور طاقت کے ذریعہ دلوں کو جھکانا ممکن نہیں ہے کیونکہ دلوں کو تو حسن کردار، اعلیٰ اخلاق، محبت اور خلوص کے ساتھ ہی جھکایا جاسکتا ہے۔ چناچہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش مکہ کو قرآن کریم کی آیتوں کے ذریعہ اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ تم تمام انسانوں کی کامیابی ایک اللہ کو ماننے، فکر آخرت اور بہترین اصولوں کو اپنانے میں ہے تو سارا عرب چونک اٹھا۔ اللہ کے گھر میں تین سوساٹھ بتوں کے سامنے اپنا ماتھا رگڑنے والے، اپنی تمناؤں کے لئے ان بتوں کو اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھنے والے، رسموں کی پابندیوں اور قبیلوں کے رسم و رواج میں جکڑے ہوئے لوگوں کے لئے یہ ایک اجنبی سی آواز تھی۔ ابتداء میں تو کفار قریش نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں کو ایک جذباتی اور وقتی جذبہ سمجھ کر نظر انداز کردیا لیکن جب کفار قریش نے اس بات کو محسوس کیا کہ تحریک کی سنجیدی اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مقناطیسی شخصیت سے ہر قبیلے کے لوگ بڑی تیری سے متاثر ہو رہے ہیں اور ذہنی اور فکری اعتبار سے آپ کے قریب ہوتے جا رہے ہیں تب قریشی سرداروں کو تشویش ہوئی۔ سب نے آپس میں مشورہ کیا اور یہ طے کیا کہ اس سلسلہ میں آپ سے بات چیت کی جائے۔ کفار قریش نے یہ سمجھ کر کہ اگر یہ تحریک اسی طرح چلتی رہی تو خاندانوں اور قبیلوں کے رسم و رواج بھی برباد ہوجائیں گے اور لوگ آپس میں تقسیم ہوجائیں گے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) سے روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ قریش کے بڑے سردار ولید ابن مغیرہ، عاص ابن وائل، اسودا بن عبد المطلب، امیہ ابن خلف اور دوسرے بہت سے لوگ چند تجاویز لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تاکہ ان تجاویز پر بات چیت کی جاسکے۔ کفار قریش نے یہ تجویز پیش کی کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم آپ کو انتا مال دے دیتے ہیں جس سے آپ مال دار ہوجائیں۔ اگر آپ کسی قبیلے کی لڑکی کو پسند کرتے ہیں تو اس سے آپ کی شادی کردی جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم سب مل کر آپ کو اپنا سردار بنا لیتے ہیں اور ہم سب آپ کے پیچھے چلنے کو تیار ہیں مگر ہماری شرط یہ ہے کہ آپ ہمارے معبودوں کو برا بھلانہ کہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کرلیتے ہیں کہ آپ ایک سال ہمارے معبودوں لات اور عزی کی عبادت کرلیں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت و بندگی کرلیتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) کی روایت یہ ہے کہ قریشی سرداروں کی اس تجویز پر آپ خاموش رہے یعنی اللہ کے حکم کے منتظر رہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر سورة الکافرون نازل فرمائی جس میں فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ صاف صاف اعلان فرما دیجئے کہ دین اسلام اور کفر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ میرا دین اور تمہارا دین ایک نہیں ہوسکتا۔ میں تمہارے معبودون کی عبادت و بندگی نہیں کرتا اور نہ تم ایک اللہ کی پرستش کرتے ہو۔ میں تمہارے معبودو کے سامنے نہیں جھک سکتا اور تم میرے معبود کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں ہو۔ لہٰذا تمہارا اور میرا راستہ الگ الگ ہے۔ روایت کے تسلسل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی تجاویز متعدد ومواقع پر کفا رکی طرف سے پیش کی گئیں مگر ہر مرتبہ کفار پر اس بات کو واضح کردیا گیا کہ اتحادو اتفاق اصولوں پر ہوا کرتا ہے اپنی بنیادوں کو چھوڑ کر ہر طرح کا اتحادو اتفاق اور رواداری ایک سیاسی نعرے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ چناچہ قرآن کریم میں کئی مقامات پر اسی بات کو ارشاد فرمایا گیا ہے جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پوری امت کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت و بندگی کرنا جائز نہیں ہے۔ ارشاد ہے لوگوں کو اس کے سوا کسی بات کا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ یکسو ہو کر اپنے اللہ کے لئے خالص کرکے اسی کی عبادت و بندگی کریں۔ (سورۃ البینہ۔ آیت نمبر 5) اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم مجھ سے اس بات کی توقع رکھتے ہو کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت و بندگی کروں اے جاہلو ! تم یہ کیسی باتیں کرتے ہو۔ ( سورة زمر۔ آیت نمبر 64) کفار قریش کی طرف سے یہ بھی تجویز پیش کی گئی کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر تم ہمارے معبودوں کو چوم لو تو ہم تمہارے معبود کی عبادت کرنے کو تیار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بات کو جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ کفار یہ چاہتے ہیں کہ اگر آپ بتوں کے معاملے میں کچھ نرمی برتیں تو وہ بھی آپ کے بارے میں نرم پڑجائیں گے۔ (سورۃ القلم) ۔ خلاصہ یہ ہے کہ کفار قریش نے اتحاد و اتفاق اور رواداری کے نا پر جو تجاویز پیش کی تھیں قیامت تک آنے والی نسلوں کو بتایا جا رہا ہے کہ اسلام کا اپنا ایک مزاج ہے جس میں پیوندکاری نہیں کی جاسکتی کیونکہ اللہ کی عبادت میں کسی کو کسی طرح شریک نہیں کیا جاسکتا۔
فہم القرآن ربط سورت : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سورة الکوثر میں حوض کوثر اور خیر کثیر کی خوشخبری دی گئی جس کا صاف معنی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی قسم کی مداہنت کی ضرورت نہیں اس لیے کفار کو صاف طور پر کہہ دینا چاہیے کہ توحید اور شرک، کفر اور اسلام کبھی اکٹھے نہیں ہوسکتے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ اہل مکہ نے نبوت کے ابتدائی دور میں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر خاص توجہ نہ دی لیکن جوں ہی آپ کی دعوت کے اثرات پھیلنے لگے تو مکہ کے سردار چوکس ہوئے اور انہوں نے پوری کوشش کی کہ آپ کی دعوت آگے نہ بڑھ سکے، اس مقصد کے لیے انہوں نے آپ کے خلاف شدید پراپیگنڈہ کیا اور آپ کے ساتھیوں کو زدّ وکوب کا نشانہ بنایا۔ لیکن نوجوان طبقہ آپ کی دعوت کی طرف اس حد تک متوجہ ہوا کہ مکہ میں شاید ہی کوئی ایسا خاندان ہو جس میں دوچار نوجوان مسلمان نہ ہوئے ہوں، یہاں تک کہ ابوجہل کے دو بھانجے بھی مسلمان ہوگئے۔ (سیرت الامین : محمد رفیق ڈوگر) دعوت کی تیز رفتاری نے اہل مکہ کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ تشدد کی بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس لیے انہوں نے کئی مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مذاکرات کیے۔ ایک موقع پر آپ کے چچا ابوطالب کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی کہ اپنے بھتیجے کو سمجھائیں کہ وہ ہمارے ساتھ مصالحت کا راستہ اختیار کرے۔ جناب ابوطالب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلا کر صورت حال سے آگاہ کیا اور فرمایا کہ بھتیجے میں بوڑھا ہوگیا ہوں اس لیے اکیلا سرداران قریش کے خلاف نہیں لڑ سکتا جس کے جواب میں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَا عَمِّ لَوْ وَضَعَتِ الشَّمْسُ فِیْ یَمِیْنِیْ وَالْقَمَرُ فِیْ یَسَارِیْ مَا تَرَکْتُ ہٰذَا الْاَمْرَ حَتّٰی یُظْہِرَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی اَوْ اأہْلَکَ فِیْ طَلْبِہٖ ) (سیرت ابن اسحاق : باب مانال اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے میرے چچا ! اگر وہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند لا کر رکھ دیں پھر بھی میں اس کام سے باز نہیں آؤں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو غالب کردے یا میں اس دین کی دعوت دیتے ہوئے شہید ہوجاؤں۔ “ اہل مکہ نے ولید بن مغیرہ کے ذریعے یہ پیشکش بھی کی کہ اگر آپ دولت چاہتے ہیں تو ہم آپ کے حسب منشا دولت پیش کرتے ہیں، اگر آپ سرداری کے منصب پر فائز ہونا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو مکہ کا بالاتفاق سردار مانتے ہیں اگر آپ کسی خاندان میں شادی کے خواہش مند ہیں تو آپ کی یہ خواہش بھی پوری کردی جائے گی۔ ایک موقعہ پر انہوں نے یہ درخواست کی کہ ہم ایک سال آپ کے الٰہ کی عبادت کریں گے اور دوسرے سال آپ ہمارے الہٰوں کی عبادت کرنے کے پابند ہوں گے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی جس کا آغاز لفظِ ” قُلْ “ سے کیا گیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے دو ٹوک الفاظ میں فرما دیں کہ اے توحید خالص کا انکار کرنے والو ! میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو اور جس رب کی میں عبادت کرتا ہوں تم اس کی عبادت نہیں کرتے، میں ان کی عبادت کرنے والا نہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں لہٰذا تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے۔ وہ جِدّت پسند لوگوں نے ان الفاظ کا بالکل ہی الٹ مفہوم لیا ہے، اپنی جِدّت پسندی کی وجہ سے اس آیت کا یہ معنٰی کرتے ہیں کہ آپس میں لڑنے کی بجائے ہر کوئی اپنے اپنے دین پر رہے، اس جِدّت پسندی کو ہر دور میں مختلف الفاظ دیئے جاتے ہیں کچھ دانش ور کہتے ہیں کہ جہاں کوئی لگا ہے ٹھیک لگا ہے اسے اپنی جگہ پر لگا رہنے دو ۔ سرکاری حلقوں میں ایک عالم دین کی یہ بات بہت مقبول ہے کہ ” اپنا مذہب چھوڑو نہیں دوسروں کو چھیڑو نہیں “ اس سورت میں واضح کردیا گیا ہے کہ کفر اور اسلام، شرک اور توحید کا ملاپ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ بظاہر الفاظ کا تکرار پایا جاتا ہے لیکن عربی گرامر کے اعتبار سے ان الفاظ کا ترجمہ کیا جائے تو پہلی دو آیات میں حال اور مستقبل کے حوالے سے بات کی گئی ہے اور اس سے اگلی دو آیات میں ماضی کے حوالے سے بات ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اے لوگو ! جنہوں نے توحید خالص اور میری رسالت کا انکار کیا ہے وہ سن لیں ! کہ نہ میں نے ماضی میں تمہارے الہٰوں کی عبادت کی ہے اور نہ ہی مستقبل میں ان کی عبادت کروں گا۔ ٢۔ امام شوکانی نے اپنی تفسیر میں اس بات کو ترجیح دی ہے کہ جس طرح بعض سورتوں میں تاکید کے لیے بعض مضامین میں تکرار پایا جاتا ہے یہاں بھی تکرار کے لیے یہ بات کہی گئی ہے کہ میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اس کی عبادت کرتے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ امام موصوف ان الفاظ کی دوسری توجیہات کو تکلف سمجھتے ہیں۔ ٣۔ بخاری شریف میں ” لَا اَعْبُدُمَاتَعْبُدُوْنَ “ کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے (وَلاَ أُجِیبُکُمْ فیمَا بَقِیَ مِنْ عُمُرِ ) (باب : سورة قَلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ ) ” میں زندگی بھر تمہارے معبودوں کی عبادت نہیں کروں گا۔ “ اور ” وَلَا اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَا اَعْبُدُ “ سے مراد وہ کافر لیے گئے ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (وَ لَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا) (المائدۃ : ٦٤) ” اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں ضرور بڑھا دے گا۔ “ (صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ ) (البقرۃ : ١٨) ” بہرے، گونگے، اندھے ہیں پس وہ نہیں پلٹتے۔ “ مسائل ١۔ کفر پر پکے رہنے والوں کو کھل کر یہ کہہ دینا چاہیے کہ میں ان کی عبادت نہیں کرتا اور نہ کروں گا جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ ٢۔ اے کافرو ! تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے۔ تفسیر بالقرآن کفار اور مشرکین سے علیحدگی کا اعلان : ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اے میری قوم ! میں تمہارے شرک سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ (الانعام : ٧٨) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا ہم تم سے اور تمہارے باطل معبودوں سے بری الذمہ ہیں۔ (الممتحنہ : ٤) ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مشرکوں سے بیزاری کا اعلان کیا۔ (الانعام : ١٤) ٤۔ ھود (علیہ السلام) نے فرمایا میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی بنالو کہ میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ (ہود : ٥٤ ) ٥۔ آپ فرما دیں اللہ تعالیٰ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ (یوسف : ١٠٨ ) ٦۔ فرما دیجیے ” اللہ “ ایک ہے بیشک میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩ ) ٧۔ بیشک اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری ہیں۔ (التوبہ : ٣ )
انکار کے بعد انکار ، تاکید کے بعد تاکید اور قطعیت کے بعد قطعیت۔ نفی ، قطعیت اور تاکید کے تمام صیغے اور اسالیب اس سورت میں جمع کردیئے گئے ہیں۔ قل ” کہہ دو “۔ یہ دو ٹوک خدائی حکم ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ عقیدہ اور یہ نظریہ مامور من اللہ ہے۔ یہ اللہ وحدہ کا حکم ہے اور اس میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی ذاتی فیصلہ نہیں ہے۔ یہ اللہ کا حکم ہے اور اس حکم سے سرتابی نہیں کی جاسکتی ۔ اور نہ کوئی ایسا وجود ہے جو اللہ کے حکم کو رد کرسکے۔ قل ............ الکفرون (1:109) ” کہہ دو اے کافرو “۔ اللہ نے ان کو اس لفظ سے پکارا جس کا اطلاق ان پر حقیقی معنوں میں ہوتا ہے۔ ایک ایسی صفت سے ان کو بلایا گیا جو ان کے اندرونی الواقعہ موجود ہے۔ درحقیقت وہ کسی دین کے پیرونہ تھے اور درحقیقت وہ مومن نہ تھے ، وہ کافر تھے۔ لہٰذا تمہارے اور ان کے درمیان کوئی نکتہ اشتراک نہیں ہے۔ اس طرح سورت کے آغاز ہی سے یہ اشارہ دے دیا جتا ا ہے اور چھوٹتے ہی یہ بات واضح کردی جاتی ہے کہ ایک مسلم مومن اور کافر کے درمیان کبھی بھی اتحاد نہیں ہوسکتا۔ لااعبدما تعبدون (2:109) ” میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو “۔ میری عبادت تمہاری عبادت سے مختلف ہے اور میرا معبود تمہارے معبود سے مختلف ہے۔ ولا انتم .................... اعبد (3:109) ” نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو ، جس کی عبادت میں کرتا ہوں “۔ اس لئے کہ تمہاری عبادت میری عبادت سے مختلف ہے اور تمہارا معبود میرے معبود سوا ہے۔ ولا انا .................... ماعبدتم (4:109) ” اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی تم نے عبادت کی ہے “۔ پہ پہلے فقرے کی تاقید ہے لیکن یہ جملہ اسمیہ منفیہ کے ذریعے نفی ہے۔ جملہ اسمیہ منفیہ نہایت مضبوطی ، دوام اور تسلسل کے مفہوم میں کسی امر کی نفی کرتا ہے۔ ولا انتم .................... اعبد (5:109) ” اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں “۔ یہ دوسرے فقرے کی تاکید ہے تاکہ اس معاملے میں کوئی شک وشبہ نہ رہے۔ ظاہر ہے کہ اس قدر مکرر تاکیدات کے بعد شک و شبہ کی کوئی گنجائش بھی نہیں رہتی۔ اس کے بعد نہایت اجمالی طور پر ایک ہی فقرے میں دونوں گروہوں کے درمیان ایسی تفریق کردی جاتی ہے جس میں کوئی اتحاد نہیں رہتا۔ اس قدر اختلاف پیدا ہوجاتا ہے کہ اس کے بعد کوئی اتصال نہیں رہتا ، دونوں کے درمیان اس قدر جدائی ہوجاتی ہے کہ جس کے بعد کوئی ملاپ متصور نہیں رہتا۔ لکم دینکم ولی دین (6:109) ” تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے “۔ میں یہاں اپنے موقف پر ڈٹا ہوں اور تم اپنے موقف پر ڈٹے ہو ، دونوں کے درمیان کوئی پل نہیں ہے جس پر یہ فریق مل سکیں۔ دونوں کے درمیان مکمل جدائی ہے۔ ایک واضح امتیاز اور گہری جدائی۔ یہ مکمل جدائی ضروری بھی تھی ، تاکہ کفر واسلام کے درمیان پائے جانے والے جوہری تضاد کے خدوخال واضح تر ہوجائیں ، جن کو دیکھتے ہوئے ہر کوئی سمجھ لے کہ دونوں کے درمیان مصالحت اور کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اختیار کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ اختلاف بنیادی نظریات میں ہے۔ اصل تصور اور منہاج زندگی ، دونوں میں مختلف ہے اور طرززندگی بھی بالکل جدا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ توحید ایک مکمل نظام ہے۔ شرک ایک متضاد نظام ہے۔ ان کا باہم ملاپ ممکن ہی نہیں ۔ توحید ایک ایسا نظام اور تصور ہے جو انسان کو اس پوری کائنات کے ساتھ اللہ وحدہ لاشریک کی طرف متوجہ کرتا ہے اور اس جہت اور سمت کا تعین کردیتا ہے جہاں سے انسان نے اپنی پوری زندگی کے لئے ہدایات لینی ہے ، عقائد بھی اور قانون بھی۔ اقدار حیات اور پیمانے بھی۔ آداب اور اخلاق بھی ، غرض اس زندگی اور اس کائنات کے بارے میں مکمل فلسفہ انسان اسی جہت سے لیتا ہے اور یہ جہت جہاں سے مومن یہ سب کچھ لیتا ہے ذات باری تعالیٰ کی جہت ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شریک نہیں ہے۔ اس لئے اسلامی نظام زندگی میں زندگی کے تمام معاملات اسی اصول پر قائم ہوتے ہیں اور اس نظام میں اللہ کی ذات کے ساتھ کوئی شرک نہیں ہوتا۔ اسی طرز پر زندگی چلتی ہے۔ یہ فیصلہ کن جدائی اسلامی نقطہ نظر سے داعی کے لئے بھی ضروری ہے اور جن کو دعوت دی جارہی ہے ۔ ان کے لئے بھی ضروری ہے۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ یہ خالص اسلامی تصور حیات اور جاہلی تصور حیات آپس میں مل جاتے ہیں خصوصاً ان سوسائٹیوں میں جنہوں نے پہلے خالص اسلامی تصور کو قبول کرلیا ہوتا ہے لیکن مرور زمانہ کے ساتھ ان کے اندر انحراف پیدا ہوجاتا ہے ، اس قسم کی سوسائٹیوں کے سامنے جب خالص ایمانی دعوت پیش کی جاتی ہے اور ان کے سامنے اسلامی نظام کو سیدھے سادھے طریقے سے بغیر کسی ملاوٹ کے پیش کیا جاتا ہے تو یہ لوگ اس دعوت پر بہت سختی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے مقابلے میں ان لوگوں کا رویہ زیادہ معقول ہوتا ہے جن تک کبھی اسلامی دعوت پہنچی ہی نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ جن سوسائٹیوں نے اسلام قبول کیا ہوتا ہے اور بعد کے ادوار میں وہ منحرف ہوچکی ہوتی ہیں ، وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتی ہیں کہ وہ بھی تو ہدایت پر ہیں حالانکہ ان کے عقائد و اعمال میں صالح کے ساتھ فاسد کی ملاوٹ ہوچکی ہوتی ہے۔ ایی سوسائٹیوں میں کام کرنے والے ان داعیوں کو بھی بعض اوقات دھوکہ لگ جاتا ہے جو ایسی سوسائٹیوں کے صالح جانب کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے برے پہلو بدلنا چاہتے ہیں اور خود ایسی سوسائٹیوں کے برے پہلو سے دھوکہ کھاجاتے ہیں اور یہ ھو کہ نہایت خطرناک ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلام ، اسلام ہے اور جاہلیت جاہلیت ہے۔ ان کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ اصل طریق کار یہ ہے کہ لوگ جاہلیت سے پوری طرح نکل آئیں اور جاہلیت کے ہر رنگ سے پوری طرح نکل کر اسلام کی طرف ہجرت کرآئیں۔ اس سلسلے میں پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ داعی مکمل شعور کے ساتھ جاہلیت سے نکل کر اسلام کی طرف آجائے۔ اپنے تصورات اور نظریات کے لحاظ سے ، اپنے اعمال اور طریق کار کے لحاظ سے اور یہ جدائی ایسی ہو کہ ان دونوں کے درمیان کوئی مصالحت نہ ہو ، کوئی تہذیبی مصالحت نہ ہو اور جب کوئی پوری طرح جاہلیت سے نکل کر اسلام میں آجائے تو اس کے بعد پھر دونوں کے درمیان کوئی تعاون باقی نہیں رہتا۔ پھر یہ نہیں ہوتا کہ اسلام کی گدڑی میں کسی دوسرے کلچر کے پارچے اور پیوند لگیں ، نہ کچھ لو اور کچھ دو کا اصول چلتا ہے۔ نہ ادھر سے جھکاﺅ اور ادھر سے جھکاﺅ ہوتا ہے۔ اگرچہ جاہلیت اسلام کے روپ میں آئے اور اسلام کے عنوان سے بات کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی داعی کے لئے سب سے پہلے یہ بات ضروری ہے کہ اس زاویہ سے اس کا ذہن صاف ہو ، یہ بنیادی بات ہے۔ وہ مکمل شعور رکھتا ہو کہ وہ اس سوسائٹی سے ایک بیگانہ شخص ہے ، اس کا اپنا دین ہے اور میرا اپنا دین ہے۔ ان کا اپنا طریقہ ہے۔ میرا اپنا طریقہ ہے۔ اور وہ ایک قدم بھی ایسے لوگوں کی راہ پر نہیں چل سکتا۔ لہٰذا اس کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے ہی راستے پر چلے اور بغیر کسی مداہنت کے وہ اپنے راستے میں اس طرح ڈٹا ہوا ہو کہ اس کا ایک قدم بھی اپنی جگہ سے نہ ہے۔ غرض مکمل برات کا اعلان ضروری ہے ، مکمل جدائی ضروری ہے اور صریح اور فیصلہ کن بات ضروری ہے۔ لکم دینکم ولی دین (6:109) ” تمہارا اپنا دین ہے اور میرا اپنا دین ہے “۔ آج کے داعیان حق اس بات کے محتاج ہیں اور ان کے لئے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ وہ جاہلیت جدید کے مقابلے میں اپنی مکمل برات کا اعلان کریں اور دو ٹوی اور فیصلہ کن جائی کا اعلان کردیں۔ آج کے داعی اس شعور کے محتاج ہیں کہ وہ اچھی طرح جان لیں کہ دراصل وہ مکمل جاہلانہ اور کافرانہ معاشرے میں ازسرنو اسلام کا اجراء واحیا چاہتے ہیں اور ان کو ایسے معاشروں سے سابقہ درپیش ہے جو پہلے صحیح مسلمان تھے ۔ ان پر ایک طویل عرصہ گزر گیا۔ فقست ........................ فسقون ” ان پر بہت مدت گزر گئی اور ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہوگئے ہیں “۔ اس کے علاوہ کوئی درمیانی صورت نہیں ہے۔ نہ کچھ لو اور کچھ دو کا معاملہ ہوسکتا ہے ، نہ یہ بات ہے کہ سوسائٹی تو اسلامی ہے ، چند عیوب کی اصلاح چاہئے ، کملی تو درست ہے ایک پارچہ لگنا درکار ہے ، اصل طریقہ یہ ہے کہ اسلام کی طرف اسی طرح مکمل دعوت دی جائے جس طرح آغاز اسلام میں داعی حق نے مکمل دعوت دی تھی ، جبکہ وہ ایک جاہلی سوسائٹی کو بدل رہے تھے۔ اسلام اور جاہلیت کے درمیان مکمل جدائی اور تفریق ضروری ہے۔ یہ ہے میرا دین ، خالص اپنے عقائد ونظریات میں ، اپنی شریعت اور قانون میں ، اپنے تصورات و افکار ہیں یہ سب اللہ سے ماخوذ ہیں۔ اس میں شرک کا کوئی شائبہ اور آمیزہ نہیں ہے اور انسانی زندگی کے ہر پہلو ، انسانی طرز عمل کے ہر رخ پر۔ اس فیصلہ کن جدائی کے سوا کوئی چارہ نہیں ورنہ جاہلیت کے ساتھ التباس رہے گا۔ اسلامی کلچر میں دوسرے کلچروں کی پیوند کاری ہوگی اور جو بھی تحریک چلے گی وہ کمزور اور ضعیف بنیادوں پر ہوگی۔ اسلامی دعوت وتحریک کے لئے ضروری ہے کہ وہ جرات مندی کے ساتھ دو ٹوک اور فیصلہ کن انداز میں دی جائے اور یہی طریق کار تھا داعی اول کا۔ وہ صاف صاف کہتے تھے۔ لکم دینکم ولی دین (6:109) ” تمہارے لئے تمہارا دین ہے ۔ اور میرے لئے میرا دین ہے “۔
یہ سورة ٴ کافرون کا پورا ترجمہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے اہل مکہ مشرک تھے کعبہ معظمہ تک کے اندر بت رکھ چھوڑے تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ایمان کی دعوت دی اور شرک چھوڑنے کی تبلیغ کی تو ان کو یہ بات بہت کھلی، پہلے تو آپ سے محبت رکھتے تھے اور آپ کو صادق الامین کہتے تھے۔ جب آپ نے بت پرستی چھوڑنے کا حکم فرمایا تو سخت ترین دشمن ہوگئے اور طرح طرح کی باتیں بنانے لگے، ایک دن ایسا ہوا کہ ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل اور اسود بن المطلب اور امیہ بن خلف آپس میں مل کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے محمد آؤ ہم اور تم ساجھا کرلیں اور آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں اور ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں اس طرح سے ہمارا اور آپ کا دین مشترک ہوجائے گا، آپ کو بھی ہمارے دین میں سے کچھ حصہ مل جائے گا۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ قریش مکہ میں جو بہت سرکش لوگ تھے انہوں نے کہا اے محمد آؤ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ شانہ کے سوا کسی کی عبادت کروں، کہنے لگے کہ آپ اتنا کیجئے ہمارے بعض معبودوں کو بوسہ دے دیجئے ہم آپ کی تصدیق کرلیں گے اور ہم آپ کے معبود کی عبادت کرنے لگیں گے۔ اس پر سورة الکافرون نازل ہوئی۔ آپ مسجد الحرام تشریف لے گئے وہاں قریش کی ایک جماعت موجود تھی۔ وہیں کھڑے ہو کر آپ نے برملا بلا خوف و خطریہ سورت ان لوگوں کو سنا دی اسے سن کر یہ لوگ آپ کی طرف سے بالکل ناامید ہوگئے اور انہوں نے یہ سمجھ لیا یہ کبھی ذرا بھی نہیں جھک سکتے اور ہمارا دین قبول نہیں کرسکتے۔ (ذكرہ صاحب الروح) دوسری اور تیسری آیت بظاہر چوتھی پانچویں کے ہم معنی ہے اس لیے بعض حضرات نے بعد والی دونوں آیتوں کو پہلی دو آیتوں کی تاکید قرار دیا ہے، اور بعض حضرات نے یہ فرمایا کہ ان چاروں میں پہلی آیت چونکہ جملہ فعلیہ ہے جو وقت موجودہ میں کسی کام کے کرنے پر دلالت کرتا ہے اس لیے وہ اور اس کے بعد والا جملہ یہ بتارہا ہے کہ وقت موجودہ میں نہ میں تمہارے معبودوں کی عبادت کرتا ہوں اور نہ تم میرے معبود کی عبادت کرتے ہو، اور اس کے بعد جو ﴿ وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْۙ٠٠٤﴾ فرمایا ہے یہ جملہ اسمیہ ہے اس کی دلالت کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں لہٰذا یہ آئندہ زمانہ پر محمول ہے اور مطلب یہ ہے کہ آئندہ بھی کبھی میں تمہارے معبودوں کی عبادت کرنے والا نہیں ہوں اور تم بھی آئندہ میرے معبود کی عبادت کرنے والے نہیں ہو۔ یہاں جو یہ اشکال ہوتا ہے کہ ﴿ وَ لَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُؕ٠٠٥﴾ دو جگہ ہے۔ دونوں جگہ ایک ہی معنی ہونا چاہیے اس کا جواب یہ ہے کہ لفظی اعتبار سے تو یہی سمجھ میں آتا ہے لیکن چونکہ پہلی جگہ صیغہ مضارع کے ساتھ منسلک ہے اسی لیے اسی کے ہم معنی لیا گیا اور چونکہ تاسیس اولیٰ ہے تاکید سے اس لیے پہلی تصریح کو حال پر اور دوسری تصریح کو استقبال پر محمول کیا گیا۔ (واللہ تعالیٰ اعلم باسرار کتابہ) یہاں یہ جو اشکال پیدا ہوتا ہے اس زمانے کے کافروں میں سے بہت لوگ مسلمان ہوگئے تھے پھر یہ کیسے فرمایا کہ تم لوگ آئندہ بھی میرے معبود کی عبادت کرنے والے نہیں ہو ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کوئی شخص موحد ہوتے ہوئے مشرک نہیں ہوسکتا اور مشرک ہوتے ہوئے موحد نہیں ہوسکتا۔ مذکورہ بالا خطاب کافروں سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ جب تک تم مشرک ہو میرے معبود کی عبادت نہیں کرسکتے جو اس کے ہاں مقبول ہے۔
2:۔ ” قل یا ایہا الکفرون “۔ ماتعبدون میں ما سے معبودان باطل مراد ہیں۔ جن کی مشرکین اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے۔ ما اعبد میں ما سے معبود حقیقی مراد ہے جس کی پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خالص عبات بجا لاتے تھے فرمایا اگر اس طرح ایضاح و تفصیل اور ایسے دلائل قاطعہ کے باوجود بھی مشرکین مسئلہ توحید کو نہیں مانتے تو آپ اعلان فرما دیں اے کفار، تم اپنی راہ پر چلو، میں اپنی راہ پر چل رہا ہوں۔ تم جن باطل اور خود ساختہ معبودوں کی پوجا کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرسکتا اور نہ تم ہی اپنے ان معبودوں کی عبادت چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کو تیار ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔