اس سورت میں بھی ان قوموں کا تذکرہ ہے جو آیات الہی اور پیغمبروں کی تکذیب کر کے عذاب الہی کا نشانہ بنیں اور تاریخ کے صفحات سے یا تو حرف غلط کی طرح مٹ گئیں یا اوراق تاریخ پر عبرت کا نمونہ بنی موجود ہیں۔ اسی لیے حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ کیا بات ہے آپ بوڑھے سے نظر آتے ہیں ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے سورة ہود، واقعہ، عم یتسآءلون، اور اذالشمس کورت وغیرہ نے بوڑھا کردیا ہے۔ (ترمذی) 1۔ 1 یعنی الفاظ و نظم کے اعتبار سے اتنی محکم اور پختہ ہیں کہ ان کی ترکیب اور معنی میں کوئی خلل نہیں۔ 1۔ 2 پھر اس میں احکام و شرائع، مواعظ و قصص، عقائد و ایمانیات اور آداب و اخلاق جس طرح وضاحت اور تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں، پچھلی کتابوں میں اس کی نظیر نہیں آئی۔ 1۔ 3 یعنی اپنے اقوال میں حکیم ہے، اس لئے اس کی طرف سے نازل کردہ باتیں حکمت سے خالی نہیں اور وہ خبر رکھنے والا بھی ہے۔ یعنی تمام معاملات اور ان کے انجام سے باخبر ہے۔ اس لئے اس کی باتوں پر عمل کرنے سے ہی انسان برے انجام سے بچ سکتا ہے۔
سورة ہود الرا دیکھیے سورة بقرہ کی پہلی آیت۔ اس سورت میں توحید کی دعوت، انبیاء کی اس دعوت کے دوران میں عزیمت اور ان پر گزرنے والے حالات و واقعات، انھیں جھٹلانے والوں کا بدترین انجام اور ان پر آنے والے عذابوں کے تذکرے اور اہل ایمان کی نجات اور ان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر ہے۔ چونکہ اس میں انذار (ڈرانے) کا پہلو غالب ہے اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس کا بہت اثر ہوا، چناچہ عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے عرض کیا : ( یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! قَدْ شِبْتَ ، قَالَ شَیَّبَتْنِیْ ھُوْدٌ وَالْوَاقِعَۃُ وَالْمُرْسَلاَتُ وَ (عَمَّ يَتَسَاۗءَلُوْنَ ) وَ (اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ) [ ترمذی، التفسیر، باب ومن سورة الواقعۃ : ٣٢٩٧۔ السلسلۃ الصحیحۃ : ٩٥٥ ] ” یا رسول اللہ ! آپ بوڑھے ہوگئے۔ “ فرمایا : ” مجھے ہود، واقعہ، مرسلات، عم یتساء لون اور تکویر نے بوڑھا کردیا۔ “ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ : یہاں قرآن کریم کی چار صفات بیان ہوئی ہیں، پہلی یہ کہ یہ قرآن (پڑھا جانے والا مجموعہ) کتاب (لکھا ہوا مجموعہ) بھی ہے، دوسری یہ کہ اس کی آیات محکم یعنی خوب پختہ، مضبوط اور اٹل نازل کی گئی ہیں، جن میں کوئی عیب یا کمی نہیں اور نہ وہ (مجموعی اعتبار سے) منسوخ ہیں، نہ منسوخ ہوں گی اور نہ اس کے مقابلے میں کوئی کتاب لائی جاسکتی ہے، خواہ ساری مخلوق جمع ہوجائے، ایسی محکم آیات والی کتاب صرف یہ ہے۔ ثُمَّ فُصِّلَتْ : تیسری یہ کہ اس کی آیات ایسی واضح ہیں اور کھول کر بیان کی گئی ہیں کہ کسی آیت کے مفہوم میں ابہام یا پیچیدگی نہیں ہے، پھر ساری کتاب مختلف سورتوں اور آیتوں میں تقسیم ہے۔ ہر آیت جدا جدا ہے، اپنی جگہ مستقل، ایک بیحد خوبصورت ہار کی طرح جو رنگا رنگ مضامین توحید، آخرت، نبوت، قصص کے موتیوں سے پرویا ہوا ہے اور وہ نہایت مناسب فاصلے، ترتیب اور حسن سے اپنی اپنی جگہ جگمگا رہے ہیں، پھر نزول میں بھی آیات اور سورتیں ضرورت کے مطابق الگ الگ نازل کی گئی ہیں۔ ” فصلت “ میں یہ سب باتیں آجاتی ہیں۔ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ : چوتھی یہ کہ یہ کسی انسان، فرشتے، جن یا کسی بھی مخلوق کی تصنیف نہیں، بلکہ اس ذات پاک کا کلام ہے جو حکیم ہے۔ حکیم کا ایک معنی پختہ و محکم بنانے والا ہے، جس کی بنائی ہوئی ہر چیز نہایت محکم، پختہ اور مضبوط ہے، فرمایا : (صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْٓ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ) [ النمل : ٨٨ ] ” اس اللہ کی کاری گری سے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ “ یعنی پہاڑ اور ان کا قیامت کو بادلوں کی طرح چلنا اس اللہ کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ جب اس کی مخلوق کا یہ حال ہے تو اس کے کلام کے محکم ہونے کی کوئی حد ہوگی ؟ حکیم کا دوسرا معنی حکمت، یعنی دانائی والا ہے، یعنی اس کی تمام آیات کمال حکمت اور دانائی سے پُر ہیں، خبیر یعنی ان کو اتارنے والا ہر چیز سے پوری طرح باخبر ہے۔
سورۃ ہود تعارف یہ سورت بھی مکی ہے، اور اس کے مضامین پچھلی سورت کے مضامین سے ملتے جلتے ہیں، البتہ سورۃ یونس میں جن پیغمبروں کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان ہوئے تھے، اس سورت میں انہیں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، خاص طور پر حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت شعیب، اور حضرت لوط علیہم السلام کے واقعات زیادہ تفصیل سے انتہائی بلیغ اور موثر اسلوب میں بیان فرمائے گئے ہیں۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی بڑی بڑی زور آور قوموں کو تباہ کرچکی ہے، اور جب انسان اس نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے قہر اور عذاب کا مستحق ہوجائے تو چاہے وہ کتنے بڑے پیغمبر سے قریبی رشتہ رکھتا ہو، اس کا یہ رشتہ اسے عذاب الہی سے نہیں بچا سکتا، جیسا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کو نہیں بچا سکا۔ اس سورت میں عذاب الہی کے واقعات اتنے موثر انداز میں بیان ہوئے ہیں اور دین پر استقامت کا حکم اتنی تاکید سے فرمایا گیا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے سورۃ ہود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے، ان سورتوں میں جو تنبیہ کی گئی ہے اس کی بنا پر آپ کو اپنی امت کے بارے میں بھی یہ خوف لگا ہوا تھا کہ کہیں وہ بھی اپنی نافرمانی کی وجہ سے اسی طرح کے کسی عذاب کا شکار نہ ہوجائے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم ٭… سورة ھود میں سات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے حالات، واقعات اور ان کی امتوں کی سرکشی و نافرمانی اور ان پر سخت ترین عذاب اور سزاؤں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ٭… جب نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ڈاڑھی مبارک میں چند سفید بال آگئے تو ایک دن حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ بوڑھے ہوگئے ہیں۔ آپ نے فرمایا سورة ھود اور اس جیسی چند سورتوں نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔ بعض روایات میں سورة ھود کے ساتھ سورة واقعہ ، سورة مرسلات ، سورة نبا اور سورة تکویر کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ ٭… اس سورت میں چند باتوں کا خصا طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔ (١) قرآن کریم ایک معجزہ ہے۔ (٢) توحید و رسالت پر ایمان لا کر دونوں جہانوں کی بھلائی حاصل کی جائے۔ (٣) اللہ کی شان رزاقیت کیا ہے۔ (٤) زمین و آسمان اور عرش الٰہی کی پیدائش کا حال ۔ (٥) انسان کی جلد بازی اور ناشکری (٦) کفار کی طرف سے آپ کی دل شکنی اور اللہ کی طرف سے تسلی۔ (٧) قرآن کریم کا دنیا بھر کے لئے چیلنج (٨) دنیا کے طلب گار، آخرت سے بےزار اور دوسری طرف اہل ایمان کی فکر آخرت اور ان کی فضیلت اور دونوں کا انجام۔ (٩) مسلمانوں کو اپنے کام میں لگنے اور کفار سے کنارہ کشی کا حکم (١٠) اللہ ہی عالم الغیب ہے وہ ہر انسان کی ہر کیفیت اور ضرورت کا پوری طرح علم رکھتا ہے۔ (١١) فرمایا گیا کہ وہ کفار اگر دین اسلام کی سچائیوں کو مانتے ہیں تو ان کے حق میں بہتر ہے لیکن اگر وہ نہیں مانتے تو ان کو دنیا میں ذلت اور آخرت کی ناکامی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ قوم عاد : ٭… قوم عاد سر زمین عرب کی طاقت و ترقی یافتہ اور مال و دولت اور خوش حالی کے لحاظ سے زبردست اور مضبوط قوم تھی لیکن اللہ کی نافرمانیوں، سرکشیوں اور بت پرستیوں نے اس قوم کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ اس قوم کی اصلاح کے لئے حضرت ھود عل یہ السلام کو مبعوث کان گیا۔ انہوں نے نہایت خیرخ واہی سے اس قوم کو سمجھایا لیکن جسمانی طاقت و قوت ، مملکت کی ہیبت سورئہ ھود میں سات انبیاء کرام کے حالات واقعات اور ان کی امت کی نافرمانی و سرکشی کو بیان کیا گیا ہے۔ حضرت نوح ، حضرت ھود، حضرت ابراہیم، حضرت صالح، حضرت شعیب، حضرت لوط اور حضرت موسیٰ ۔ سورئہ ھود قرآن کریم کی گیارہویں سورت ہے اس میں کفار و مشرکین اور ان کے مددگاروں کے لئے یہ چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر وہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود گھڑ لیا ہے تو فرمایا کہ وہ خود اور ساری دنیا کی مدد لے کر اس جیسی دس سورتیں ہی بنا کرلے آئیں۔ جب اس چیلنج کا جواب نہیں دیا گیا تو فرمایا کہ اس جیسی ایک سورت ہی بنا کرلے آئو۔ قرآن کریم کا یہ چیلنج آج بھی ہے مگر نہ پہلے جواب دیا گیا نہ آج اس کا جواب دینے کی ہمت ہے۔ کیونکہ قرآن کریم ایک معجزہ ہے۔ و جلال، مال و دولت کی کثرت نے ان کو اتنا مغرور و متکبر بنا دیا تھا کہ وہ کہتے کہ ہم سے طاقتور کوئی ہے تو بتائو لیکن جب اللہ کا فیصلہ آیا تو وہ پوری قوم مٹی کا ڈھیر بن کر رہ گئی۔ ان کی طاقت و قوت، مال و دولت اور اونچی عمارتیں ان کے کام نہ آسکیں ۔ قوم عاد کی بت پرستی : ٭… قوم عاد قوم نوح کی طرح ود، سواع، یغوث، یعقو اور نسر کو اپنا معبود مانتے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس سے رویات ہے کہ ایک بت کا نام صمود تھا اور ایک کا نام ہتیار تھا (البدایہ اولنھایہ جلد ١) اور فصلہ آگیا : آخر کار اس بدنصیب قوم پر عذاب مسلط کردیا گیا۔ ایک ہولناک عذاب نے ان کو آگھیرا۔ سات راتوں اور آٹھ دنوں تک مسلسل تیز و تند ہواؤں کے ایسے زبردست طوفان آئے جس نے ان کو، ان کی آبادیوں کو، ان کی طاقت و قوت کے گھمنڈ کو، غرور وتکبر کو اور مضبوط جسم و جان کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اس قوم کو اس طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا کہ ان کا مٹنا بھی ایک ضرب المثل بن گیا ۔ ٭… قرآن میں حضرت ھود کا سات جگہ ذکر آیا ہے۔ ٭… قرآن میں قوم عاد کا نو مرتبہ ذکر آیا ہے۔ ٭… قوم عاد کا زمانہ دو ہزار سال قبل مسیح ہے۔ ٭… قوم عاد کا مرکزی مقام احقاف تھا۔ ٭… قوم عاد یمن کا دارالحکومت تھا۔ ٭… قوم عادبت پرست اور بت ساز تھی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم تعارف سورة ھود اس سورة مبارکہ میں حضرت ھود (علیہ السلام) کا ذکر قدرے تفصیل کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اس سورت کا نام سورة ھود رکھا گیا۔ اس کا نزول مکہ معظمہ میں ہوا۔ یہ سورت (١٢٣) آیات پر مشتمل ہے۔ اس میں قرآن مجید کا تعارف کروانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دی گئی ہے۔ اللہ کی توحید کی دعوت دینے کے ساتھ لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر وہ توبہ استغفار کا راستہ اختیار کریں تو انہیں دنیا میں بھی عزت و عظمت عطا کی جائے گی۔ جو لوگ توبہ استغفار کا راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں تو انہیں قیامت کے دن کی ہولناکیوں کے بارے میں متنبہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رزاق ہونے کے دلائل دیے ہیں۔ ساتھ ہی شکوہ کیا ہے کہ انسان کو تکلیف پہنچے تو اپنے رب سے مایوسی کا اظہار کرتا ہے۔ اگر اسے فضل و کرم سے نوازا جائے تو وہ فخر و غرور کا اظہار کرتا ہے اس کے بعد۔ قرآن مجید کے بارے میں چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر تم اس کو من جانب من اللہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو قرآن مجید کی کسی دس سورتوں کے مقابلے میں ان جیسی سورتیں بنا کر لاؤ۔ اگر تم یہ چیلنج قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تو تمہیں کھلے دل کے ساتھ اعتراف کرنا چاہیے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اس سورت کے تیسرے اور چوتھے رکوع میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی بےمثال جدوجہد کا تذکرہ کرنے کے بعد ان کی قوم کا انجام ذکر کیا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد حضرت ھود کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے بھی اپنی قوم کو یہ بات ارشاد فرمائی تھی کہ اگر تم توبہ استغفار کا راستہ اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں معاشی طور پر مستحکم فرمائے گا۔ لیکن ان کی قوم نے اپنے رب کے حضور توبہ استغفار کرنے کی بجائے سرکشی اور نافرمانی کا راستہ اختیار کیا۔ جس کے نتیجہ میں اس قوم پر اللہ کی پھٹکار نازل ہوئی اور اسے نیست و نابود کردیا گیا۔ قوم ھود کے بعد حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کا انجام بیان کیا گیا ہے۔ قوم صالح کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس فرشتوں کی آمد، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ان سے خوفزدہ ہونا ملائکہ کا خوشخبری دینا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹا اور پوتا عنایت فرمائیں گے۔ ان سے فارغ ہونے کے بعد ملائکہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس جاتے ہیں۔ لوط (علیہ السلام) کی قوم ہم جنسی کے جرم میں ملوث تھی۔ ملائکہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس خوبصورت لڑکوں کی شکل میں آئے۔ قوم نے مہمانوں کے ساتھ بدکرداری کا ارادہ کیا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے ملائکہ نے پوری بستی کو اٹھا کر آسمان کے قریب لے جا کر زمین پردے مارا اور ان پر پتھروں کی بارش برسائی۔ قوم لوط کی تباہی کے تذکرہ کے بعد حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے کردار کا بیان کیا ہے۔ جو لین دین اور ماپ تول میں خیانت کی مرتکب ہونے کے ساتھ شرک میں مبتلا تھی۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انھیں منع کیا تو قوم نے طعنہ دیا کہ اے شعیب تیری نمازیں تجھے یہی کچھ سکھاتی ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریقہ کو چھوڑ دیں۔ جب قوم باز نہ آئی تو چیخ نے آلیا جس کی وجہ سے وہ صبح کے وقت اپنے گھروں میں اوندھے منہ تباہی کے گھاٹ اتر گئے۔ سورة ھود کا اختتام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کے بیان پر ہوا۔ ارشاد فرمایا کہ اے لوگو ! انجام کار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر تم دنیا و آخرت میں اچھا انجام چاہتے ہو تو پھر ایک اللہ کی عبادت کرو اور اسی کی ذات پر بھروسہ کرو۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بیخبر نہیں ہے۔ وہ تمہارے احوال سے لمحہ لمحہ آگاہ رہتا ہے۔ ( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ أَبُوْ بَکْرِ الصِّدِیْقِ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا شَیْبَکَ ؟ قَالَ سُوْرَۃُ ہُوْدٍ وَالْوَاقِعَۃِ وَالْمُرْسَلاَتِ وَ عَمَّ یَتَسَاءَ لُوْنَ وَ إِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ ) [ المستد رک للحاکم ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی۔ اللہ کے محبوب پیغمبر آپ کو کس چیز نے بوڑھا کردیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے سورة ھود، الواقعۃ، المرسلات، عما یتساء لون، اذا الشمس کورت نے بوڑھا کردیا ہے۔ “