Surat Hood

Surah: 11

Verse: 19

سورة هود

الَّذِیۡنَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ یَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا ؕ وَ ہُمۡ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ ﴿۱۹﴾

Who averted [people] from the way of Allah and sought to make it [seem] deviant while they, concerning the Hereafter, were disbelievers.

جو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کر لیتے ہیں یہی آخرت کے منکر ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا ... Those who hinder (others) from the path of Allah, and seek a crookedness therein, This means that they prevent the people from following the truth and traversing upon the path of guidance that leads to Allah, the Mighty and Sublime. In doing so they also keep the people away from Paradise itself. Allah's statement, وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا (and seek a crookedness therein), This means that they want their path to be crooked and uneven. Then, Allah's statement, ... وَهُم بِالاخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ while they are disbelievers in the Hereafter. This means that they deny the Hereafter and they reject the idea that any of its events will occur, or any of it exists at all. Concerning Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یعنی لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کے لئے، اس میں کجیاں تلاش کرتے اور لوگوں کو متنفر کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣ ٢] یعنی اللہ پر افتراء کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی لعنت ہے ان لوگوں کے ایسے ایجاد کیے ہوئے جھوٹ ہی لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے اور اس میں کجروی اختیار کرنے کا سبب بن جاتے ہیں اور جن لوگوں نے اپنی اخروی نجات کے لیے ایسے ایجاد کردہ سہارے اللہ کے ذمے لگا رکھے ہیں۔ یہ لوگ حقیقتاً آخرت کے منکر ہی ہوتے ہیں کیونکہ آخرت میں اعمال کی باز پرس کا جو تصور شریعت نے پیش کیا ہے یہ لوگ اسے قطعاً ملحوظ نہیں رکھتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الَّذِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۔۔ : یعنی اللہ کی سیدھی راہ (اسلام) میں کجی اور عیب ڈھونڈ کر لوگوں کو اس میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ ” ھُمْ “ کی ضمیر دو بار لانے کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کا انکار کرنے میں یہ لوگ اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ گویا آخرت کے اصل منکر یہی ہیں۔ ” وَيَبْغُوْنَهَا عِوَجًا “ میں لام محذوف ہے، یعنی ” یَبْغُوْنَ لَھَا عِوَجًا “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا) [ الکہف : ١ ] یا ” یَبْغُوْنَ فِیْھَا عِوَجًا “ میں ” فِیْ “ محذوف ہے، یعنی ” یَبْغُوْنَ فِیْھَا عِوَجًا “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن زمین کے متعلق فرمایا : (ۙلَّا تَرٰى فِيْهَا عِوَجًا ) [ طٰہٰ : ١٠٧ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ وَيَبْغُوْنَہَا عِوَجًا۝ ٠ ۭ وَہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ كٰفِرُوْنَ۝ ١٩ صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ عوج الْعَوْجُ : العطف عن حال الانتصاب، يقال : عُجْتُ البعیر بزمامه، وفلان ما يَعُوجُ عن شيء يهمّ به، أي : ما يرجع، والعَوَجُ يقال فيما يدرک بالبصر سهلا کالخشب المنتصب ونحوه . والعِوَجُ يقال فيما يدرک بالفکر والبصیرة كما يكون في أرض بسیط يعرف تفاوته بالبصیرة والدّين والمعاش، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، ( ع و ج ) العوج ( ن ) کے معنی کسی چیز کے سیدھا کپڑا ہونے کی حالت سے ایک طرف جھک جانا کے ہیں ۔ جیسے عجت البعیر بزمامہ میں نے اونٹ کو اس کی مہار کے ذریعہ ایک طرف مور دیا فلاں مایعوج عن شئی یھم بہ یعنی فلاں اپنے ارادے سے بار نہیں آتا ۔ العوج اس ٹیڑے پن کر کہتے ہیں جو آنکھ سے بسہولت دیکھا جا سکے جیسے کھڑی چیز میں ہوتا ہے مثلا لکڑی وغیرہ اور العوج اس ٹیڑے پن کو کہتے ہیں جو صرف عقل وبصیرت سے دیکھا جا سکے جیسے صاف میدان کو ناہمواری کو غور فکر کے بغیر اس کا ادراک نہیں ہوسکتا یامعاشرہ میں دینی اور معاشی نا ہمواریاں کہ عقل وبصیرت سے ہی ان کا ادراک ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28]( یہ ) قرآن عربی رہے ) جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ہے :

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩) جو کہ دوسروں کو بھی اللہ کے دین سے اور اللہ کی اطاعت سے روکتے ہیں اور اس میں شکوک و شبہات نکالنے کی فکر میں رہا کرتے تھے اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہونے کے بھی منکر تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَیَبْغُوْنَہَا عِوَجًا) تعلیماتِ حق اور طریق ہدایت پر خواہ مخواہ کے اعتراضات کرتے ہیں تاکہ لوگ اس راستے کو اختیار نہ کریں۔ (وَهُمْ بالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ ) یہ وہی بات ہے جو ہم سورة یونس میں بار بار پڑھ آئے ہیں : (لَاْ یَرْجُوْنَ لِقَاءَ نَا) کہ انہیں ہم سے ملاقات کی امید ہی نہیں اور ان کی اصل بیماری بھی یہی ہے کہ وہ دل سے آخرت کے منکر ہیں اور اسی وجہ سے ان کی عقلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22. This is a parenthetical statement. That is, that God's curse will be proclaimed in the Hereafter against those who are guilty of the crimes mentioned. 23. Such persons do not like the Straight Way being expounded to them. They would rather have the Straight Way rendered crooked by altering it under the influence of lust, prejudice, fancy, and superstition. It is only after the way that was once straight has been rendered crooked that they will be willing to accept it.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :22 یہ جملہ معترضہ ہے کہ جن ظالموں پر وہاں خدا کی لعنت کا اعلان ہوگا وہ وہی لوگ ہوں گے جو آج دنیا میں یہ حرکات کر رہے ہیں ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :23 یعنی وہ اس سیدھی راہ کو جو ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہے پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ یہ راہ کچھ ان کی خواہشات نفس اور ان کے جاہلانہ تعصبات اور ان کے اوہام و تخیلات کے مطابق ٹیڑھی ہو جائے تو وہ اسے قبول کریں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: یعنی دین حق کے بارے میں طرح طرح کے اعتراضات نکال کر اس کو ٹیڑھا ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٩۔ ٢٢۔ یہ آیتیں انہیں لوگوں کی شان میں ہیں جن کا ذکر اوپر کی آیت میں ہوچکا ہے کہ وہ خدا پر جھوٹ باندھتے ہیں قیامت کے دن سارے جن و انس اور ملائکہ کے روبرو رسوا ہوں گے اور ہر طرف سے یہی پکار ہوگی کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے خدا پر جھوٹ باندھا تھا یہ بڑے ظالم ہیں لعنت ہو ان پر اب فرمایا کہ آپ تو یہ لوگ گمراہ ہیں لیکن اوروں کو بھی دین حق میں داخل ہونے سے روکتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ہماری طرح دوسرے بھی گمراہ ہوجائیں یہ لوگ آخرت کے منکر ہیں کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد پھر کیسا جینا پھر فرمایا یہ لوگ دنیا میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے۔ اگر خدا ان پر عذاب کا ارادہ کرے تو یہ لوگ کہیں بھاگ کر نہیں جاسکتے اور نہ اس کی پکڑے سے بچ سکتے ہیں کیونکہ خدا کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جو ان کا حمایتی بن کر ان کو عذاب سے بچالے خدا ان سے ہر حال میں بدلہ لے سکتا ہے مگر اس نے یہ بدلہ آخرت کے دن پر اٹھا رکھا ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ جل شانہ ظالموں کو جب تک چاہتا ہے ڈھیل دیتا ہے اور جب پکڑ لیتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا۔ ١ ؎ پھر فرمایا کہ ان لوگوں کے واسطے دگنا عذاب ہے کیونکہ کان آنکھ ان کو اسی واسطے دئیے تھے کہ دیکھ کر اور سن کر سمجھیں بوجھیں اور قدرت کی نشانیوں کو مانیں مگر یہ تو اندھے اور بہرے بن گئے حق بات کی پیروی نہیں کرتے اس پر طرہ یہ کہ دوسروں کو بھی اپنے ساتھ گمراہ کرتے ہیں راہ حق سے بھٹکاتے ہیں ان لوگوں نے اپنا بڑا نقصان کیا فرمایا اس نقصان کے وقت ان کے وہ جھوٹے معبود کچھ کام نہ آئیں گے سب لا پتہ ہوں گے۔ ١ ؎ مستدرک حاکم ص ٥٤٦ ج ٢ ذکر نوح النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:19) یصدون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ صد مصدر (باب نصر) روکتے ہیں۔ یبغونھا۔ بغی سے مضارع جمع مذکر غائب ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب۔ وہ اس کو چاہتے ہیں ۔ اس کا مرجع دین الٰہی ہے جس کو سبیل اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے مطلب ہوا کہ وہ دین الٰہی کو حق سے پھرا ہوا چاہتے ہیں۔ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ مؤمنوں کو ٹیڑھے راستے پر لے جانے کے خواہش مند ہیں ۔ عوجا۔ ٹیڑھا ۔ کج۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر ان ظالموں کی بری حرکتیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) (کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے رستہ سے روکتے رہے) (وَیَبْغُوْنَھَا عِوَجًا) (اور اللہ کے راستہ کے بارے میں کجی تلاش کرتے تھے) مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے دین میں عیب نکالتے تھے اس سے خود بھی بچتے تھے اور جو لوگ اسلام قبول کرچکے ان کو بھی اس سے ہٹانا چاتے تھے (وَھُمْ بالْاٰخِرَۃِ ھُمْ کٰفِرُوْنَ ) (اور وہ آخرت کے منکر ہیں)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

19 یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی راہ سے روکا کرتے تھے اور اس تلاش اور کوشش میں رہتے تھے کہ خدا تعالیٰ کی راہ کو ٹیڑھا ثابت کردیں اور یہی ہیں جو آخرت کے بھی منکر تھے یعنی خدا پر جھوٹے جھوٹے بہتان باندھنے والوں کا قیامت میں یہ حشر ہوگا کہ سب کے روبرو ان کے کارناموں کو ظاہر کرتے ہوئے اعلان کیا جائے کہ یہ ظالم اللہ کی راہ یعنی دین اسلام سے روکتے تھے اور اس فکر میں لگے رہتے تھے کہ دین اسلام میں کجی اور شکوک و شہبات پیدا کرکے لوگوں کو اس دین کی اطاعت سے روکیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں گواہی والے آخرت میں فرشتے ہوں گے جو عمل لکھتے ہیں اور نیک بخت آدمی جن کو خبر تھی خدا پر جھوٹ بولنا کئی طرح سے ہے عمل میں غلط نقل کرنا خواب بنا لینا یا عقل سے حکم کرنا دین کی بات میں یا دعویٰ کرنا کہ کشف رکھتا ہوں یا اللہ کا مقرب ہوں 12