Surat Hood

Surah: 11

Verse: 20

سورة هود

اُولٰٓئِکَ لَمۡ یَکُوۡنُوۡا مُعۡجِزِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا کَانَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ اَوۡلِیَآءَ ۘ یُضٰعَفُ لَہُمُ الۡعَذَابُ ؕ مَا کَانُوۡا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ السَّمۡعَ وَ مَا کَانُوۡا یُبۡصِرُوۡنَ ﴿۲۰﴾

Those were not causing failure [to Allah ] on earth, nor did they have besides Allah any protectors. For them the punishment will be multiplied. They were not able to hear, nor did they see.

نہ یہ لوگ دنیا میں اللہ کو ہراسکے اور نہ ان کا کوئی حمائتی اللہ کے سوا ہوا ، ان کے لئے عذاب دگنا کیا جائے گا نہ یہ سننے کی طاقت رکھتے تھے اور نہ دیکھتے ہی تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أُولَـيِكَ لَمْ يَكُونُواْ مُعْجِزِينَ فِي الاَرْضِ وَمَا كَانَ لَهُم مِّن دُونِ اللّهِ مِنْ أَوْلِيَاء ... By no means will they escape on earth, nor have they protectors besides Allah! This means that these disbelievers are under the power of Allah and His force. They are in His grasp and are subject to His authority. He is Most Able to exact vengeance against them in this life before the coming of the Hereafter. This is like Allah's statement, إِنَّمَا يُوَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الاَبْصَـرُ but He gives them respite up to a Day when the eyes will stare in horror. (14:42) In the Two Sahihs it is recorded that the Prophet said, إِنَّ اللهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْه Verily Allah gives respite to the oppressor until He seizes him, then he will not be able to escape Him. For this reason Allah says, ... يُضَاعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ ... Their torment will be doubled! This means that the torment will be doubled upon them, because Allah gave them hearing, vision and hearts, but these things did not benefit them. Rather, they were deaf from hearing the truth and blinded away from following it. This is just as Allah has mentioned concerning them when they enter into the Hellfire. Allah says, وَقَالُواْ لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِى أَصْحَـبِ السَّعِيرِ And they will say: "Had we but listened or used our intelligence, we would not have been among the dwellers of the blazing Fire!" (67:10) Allah also says, الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّواْ عَن سَبِيلِ اللَّهِ زِدْنَـهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ Those who disbelieved and hinder (men) from the path of Allah, for them We will add torment to the torment. (16:88) ... مَا كَانُواْ يَسْتَطِيعُونَ السَّمْعَ وَمَا كَانُواْ يُبْصِرُونَ They could not bear to listen and they used not to see (the truth). For this reason they will be punished for every command that they abandoned and every prohibition that they indulged in. Then Allah continues by saying,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 یعنی ان کا حق سے اعراض اور بغض اس انتہا تک پہنچا ہوا تھا کہ یہ اسے سننے اور دیکھنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے تھے یا یہ مطلب ہے کہ اللہ نے ان کو کان اور آنکھیں تو دی تھیں لیکن انہوں نے ان سے کوئی بات نہ سنی اور نہ دیکھی۔ گویا ' ( فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَآ اَبْصَارُهُمْ وَلَآ اَفْــِٕدَتُهُمْ مِّنْ شَيْءٍ ) 46 ۔ الاحقاف :26) نہ ان کے کانوں نے انھیں کوئی فائدہ پہنچایا، نہ ان کی آنکھوں اور دلوں نے ' کیونکہ وہ حق سننے سے بہرے اور حق دیکھنے سے اندھے بنے رہے، جس طرح کہ وہ جہنم میں داخل ہوتے ہوئے کہیں گے ( لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْٓ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ 10 ؀) 67 ۔ الملک :10) ' اگر ہم سنتے اور عقل سے کام لیتے تو آج جہنم میں نہ جاتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤ ٢] اللہ کے ذمہ جھوٹ لگانے پر سخت ترین عذاب کیوں ہوگا :۔ یعنی اگر اللہ چاہتا تو دنیا میں ہی ان کو سزا دے کر تباہ و برباد کرسکتا تھا اور یہ لوگ اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتے تھے اور آج قیامت کے دن بھی ان کا کوئی حامی و ناصر نہیں ہوگا اور انھیں دگنا عذاب اس لیے دیا جائے گا کہ ایک تو خود گمراہ ہوئے دوسرے یہی گمراہی کی میراث اپنی اولاد کے لیے اور دوسرے پیروکاروں کے لیے چھوڑ گئے۔ جن کے عذاب سے حصہ رسدی ان کے کھاتے میں بھی جمع ہوتا رہا۔ [٥ ٢] دگنے عذاب کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک تو خود وہ سیدھی راہ دیکھنے کی کوشش ہی نہ کرتے تھے اور دوسرے اس لیے کہ اگر انھیں کوئی سیدھی راہ بتلانے کی کوشش کرتا تو اس کی بات سننا بھی انھیں گوارا نہ تھی بلکہ اس کے درپے آزار ہوجاتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اُولٰۗىِٕكَ لَمْ يَكُوْنُوْا مُعْجِزِيْنَ ۔۔ : یعنی یہ لوگ کبھی بھی اللہ کو عاجز کرکے اس کی گرفت سے بھاگ نہیں سکتے۔ وہ جب پکڑنا چاہے گا، اس زمین پر بھی پکڑ لے گا اور آخرت کا تو کہنا ہی کیا ہے۔ پھر اللہ کے سوا کبھی کوئی ان کا مددگار نہیں ہوگا جو انھیں اللہ کے عذاب اور پکڑ سے چھڑا سکے۔ يُضٰعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ : ایک اپنے گمراہ ہونے کا عذاب، دوسرا لوگوں کو اللہ کی راہ سے روک کر گمراہ کرنے کا عذاب۔ دیکھیے سورة اعراف (٣٧، ٣٨) اور عنکبوت (١٢، ١٣) ۔ مَا كَانُوْا يَسْتَطِيْعُوْنَ السَّمْعَ وَمَا كَانُوْا يُبْصِرُوْنَ : یعنی کان اور آنکھیں رکھنے کے باوجود حق سنتے یا دیکھتے نہیں تھے۔ دیکھیے سورة اعراف (١٧٩) اور ایک معنی یہ ہے کہ انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اتنا بغض تھا کہ وہ آپ کی بات سن سکتے تھے نہ وہ آپ کو دیکھنا گوارا کرتے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ لَمْ يَكُوْنُوْا مُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ وَمَا كَانَ لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ اَوْلِيَاۗءَ۝ ٠ ۘ يُضٰعَفُ لَہُمُ الْعَذَابُ۝ ٠ۭ مَا كَانُوْا يَسْتَطِيْعُوْنَ السَّمْعَ وَمَا كَانُوْا يُبْصِرُوْنَ۝ ٢٠ عجز عَجُزُ الإنسانِ : مُؤَخَّرُهُ ، وبه شُبِّهَ مُؤَخَّرُ غيرِهِ. قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] ، والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال تعالی: أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة/ 31] ، وأَعْجَزْتُ فلاناً وعَجَّزْتُهُ وعَاجَزْتُهُ : جعلته عَاجِزاً. قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] ، وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری/ 31] ، وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج/ 51] ، وقرئ : معجزین فَمُعَاجِزِينَ قيل : معناه ظانّين ومقدّرين أنهم يُعْجِزُونَنَا، لأنهم حسبوا أن لا بعث ولا نشور فيكون ثواب و عقاب، وهذا في المعنی کقوله : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت/ 4] ، و «مُعَجِّزِينَ» : يَنسُبُون إلى العَجْزِ مَن تَبِعَ النبيَّ صلّى اللہ عليه وسلم، وذلک نحو : جهّلته وفسّقته، أي : نسبته إلى ذلك . وقیل معناه : مثبّطين، أي : يثبّطون الناس عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کقوله : الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 45] ، وَالعَجُوزُ سمّيت لِعَجْزِهَا في كثير من الأمور . قال تعالی: إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات/ 135] ، وقال : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود/ 72] . ( ع ج ز ) عجز الانسان عجز الانسان ۔ انسان کا پچھلا حصہ تشبیہ کے طور ہر چیز کے پچھلے حصہ کو عجز کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] جیسے کھجوروں کے کھو کھلے تنے ۔ عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة/ 31] اے ہے مجھ سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ میں ۔۔۔۔ ۔ اعجزت فلانا وعجزتہ وعاجزتہ کے معنی کسی کو عاجز کردینے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔ وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری/ 31] اور تم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے ۔ وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج/ 51] اور جہنوں نے ہماری آیتوں میں کوشش کی کہ ہمیں ہرادیں گے ۔ ایک قرات میں معجزین ہے معاجزین کی صورت میں اس کے معنی ہوں گے وہ یہ زعم کرتے ہیں کہ ہمیں بےبس کردیں گے کیونکہ وہ یہ گمان کرچکے ہیں کہ حشر ونشر نہیں ہے کہ اعمال پر جذا وسزا مر تب ہو لہذا یہ باعتبار معنی آیت کریمہ : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت/ 4] کیا وہ لوگ جو برے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ۔ کے مترادف ہوگا اور اگر معجزین پڑھا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرت کے متبعین کیطرف عجز کی نسبت کرتے ہیں جیسے جھلتہ وفسقتہ کے معنی کسی کی طرف جہالت یا فسق کی نسبت کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک معجزین بمعنی مثبطین ہے یعنی لوگوں کو آنحضرت کی اتباع سے روکتے ہیں جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 45] جو خدا کی راہ سے روکتے ( ہیں ) اور بڑھیا کو عجوز اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ بھی اکثر امور سے عاجز ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات/ 135] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی ۔ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود/ 72] اے ہے میرے بچہ ہوگا اور میں تو بڑھیا ہوں ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ ضعف ( دوگنا) ضِّعْفُ هو من الألفاظ المتضایفة التي يقتضي وجود أحدهما وجود الآخر، کالنّصف والزّوج، وهو تركّب قدرین متساويين، ويختصّ بالعدد، فإذا قيل : أَضْعَفْتُ الشیءَ ، وضَعَّفْتُهُ ، وضَاعَفْتُهُ : ضممت إليه مثله فصاعدا . قال بعضهم : ضَاعَفْتُ أبلغ من ضَعَّفْتُ ولهذا قرأ أكثرهم : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ، وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] ( ض ع ف ) الضعف الضعف ۔ یہ اسمائے متضایقہ سے ہے یعنی وہ الفاظ جو اپنے مفہوم ومعنی کے تحقیق میں ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں جیسے نصف وزوج اور ضعف ( دوگنا) کے معنی ہیں ایک چیز کے ساتھ اس کے مثل کامل جانا اور یہ اسم عدد کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور اضعفت الشئی وضعتہ وضاعفتہ کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کردینا بعض نے کہا ہے کہ ضاعفت ( مفاعلۃ ) میں ضعفت ( تفعیل ) سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ان کو دگنی سزادی جائے گی ۔ اور آیت : ۔ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] اور اگر نیکی ( رکی ) ہوگی تو اس کو دو چند کر دیگا ۔ میں یضاعف ( مفاعلۃ پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیکیوں کے دس گناہ ہونے کی طرف اشارہ ہے الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠) یہ لوگ کسی مقام پر اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکتے اور عذاب الہی سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی انہیں بچا نہیں سکتا ایسے سرداروں کو دوہری سزا ہوگی۔ یہ لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بغض کی وجہ سے آپ کے کلام کو سن نہ سکتے تھے یا یہ کہ آپ کے کلام کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے اور نہ دشمنی کی غرض سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دیکھتے تھے یا یہ کہ بغض کی وجہ سے آپ کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ یہ امراء وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو برباد کربیٹھے نہ ان کو جنت میں اہل و عیال ملیں گے اور نہ محلات اور نہ شان شوکت بلکہ ان کے علاوہ دوسرے مومنین ان نعمتوں کے وارث ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ (اُولٰۗىِٕكَ لَمْ يَكُوْنُوْا مُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ ) یہ لوگ اللہ کے قابو سے باہر نہیں ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کو ہرگز شکست نہیں دے سکتے۔ (مَا کَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْعَ وَمَا کَانُوْا یُبْصِرُوْنَ ) وہ بالکل اندھے اور بہرے ہوگئے تھے۔ سورة البقرۃ میں ایسے لوگوں کی کیفیت اس طرح بیان کی گئی ہے : (صُمٌّم بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ ) ۔ حق کے لیے ان لوگوں کے اسی رویہ کی وجہ سے ان کا عذاب بڑھایا جاتا رہے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24. This, again, refers to what will happen in the Next Life. 25. They will suffer punishment for being in error and for misleading others and leaving behind a legacy of error and misguidance for coming generations. (See Towards Understanding the Qur'an, vol. Ill, al-A'raf, n. 30, pp. 23-6 -Ed.)

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :24 یہ پھر عالم آخرت کا بیان ہے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :25 ایک عذاب خود گمراہ ہو نے کا ۔ دوسرا عذاب دوسروں کو گمراہ کرنے اور بعد کی نسلوں کے لیے گمراہی کی میراث چھوڑ جانے کا ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ اعراف ، حاشیہ نمبر ۳۰ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: ایک عذاب خود ان کے کفر کا، اور دوسرا اس بات کا کہ وہ دوسروں کو حق کے راستے سے روکتے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:20) معجزین۔ عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا۔ یا اس کا حاصل ہونا ایسے وقت میں جب کہ اس کا وقت نکل چکا ہو۔ لیکن عام طور پر یہ لفظ کسی کام کے ل کرنے سے رہ جانے کے بولا جاتا ہے قرآن میں آیا ہے وما انتم بمعجزین فی الارض (42:31) اور تم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے۔ یعنی جسے وہ چاہے وہ کرنے سے تم اسے قاصر نہیں کرسکتے۔ یضاعف۔ مضارع مجہول واحد مذکر غائب۔ مضعفۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ بڑھا دیا جائے گا۔ دوگنا کردیا جائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ ان کے پیغمبر یا فرشتے جو عمل لکھتے ہیں اور علما جنہوں نے اللہ کے احکام کی تبلیغ کی۔ یہ سب گواہ کفار کے متعلق اعلان کریں گے کہ یہی لوگ ہیں جو اپنے پروردگار سے جھوٹی باتیں منسوب کرتے تھے جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے (ابن کثیر۔ کبیر) امام رازی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی تو سب کی ہوگی مگر ان کو رسوا کرنے کے لئے پیش کیا جائے گا۔ (کبیر) ۔ 3 ۔ جو انہیں اللہ کے عذاب اور پکڑ سے بچا سکے۔ (کبیر) ۔ 4 ۔ یعنی اللہ پر بہتان باندھا۔ ان کو کیسے معلو ہوا کہ فلاں فلاں بت یا بزرگ ان کو بچالیں گے ؟ نہ غیب کی انہوں نے سنیں نہ غیب دیکھا۔ (وقریبا من ھذافی الروح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ ایک اپنے کافر ہونے کی ایک دوسروں کو کافر بنانے کی کوشش کرنے کی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آخرت کا انکار کرنے اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے لوگوں کی دنیا میں حیثیت اور آخرت میں ان کا انجام۔ آخرت کا انکار کرنے والے دنیا میں تو حقائق کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد دوبارہ نہیں اٹھایا جانا۔ لیکن قیامت کے دن جی اٹھنے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہونے سے انکار نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اٹھائے گا اور انھیں اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ یہ اپنی پیشی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو بےبس نہیں کرسکتے۔ انسان جب اللہ کی ذات کا منکر اور آخرت کا انکاری ہوجائے تو پھر اس کے گناہ اپنی ذات تک محدود نہیں رہتے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور آخرت کے انکار کی وجہ سے وہ اس حد تک باغی بن جاتا ہے کہ اس کی ذات اور اس کے کام لوگوں کے لیے اللہ کے راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اور ایسے لوگ منفی فکر اور خودسری کی وجہ سے سرعام انبیاء سے مطالبہ کرتے تھے کہ اگر ہم واقعی مجرم ہیں تو ہماری گرفت کیوں نہیں ہوتی۔ ان کی ہرزہ سرائی کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ انہیں ڈھیل دینا اللہ تعالیٰ کی حکمت کے عین مطابق ہے۔ ورنہ یہ اور ان کے پیرو مرشد اللہ کے سامنے دم نہیں مار سکتے۔ دنیا میں انہیں مہلت دینے کا یہ معنی نہیں کہ قیامت کے دن بھی یونہی چھوٹ جائیں گے، بلکہ انہیں اور ان کی وجہ سے جو لوگ گمراہ ہوئے انہیں دوگنا عذاب دیا جائے گا۔ جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سننے کے لیے کان دیے اور دیکھنے کے لیے آنکھیں عطا فرمائیں۔ لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ اور گم ہوگیا ان سے جو تھے وہ وہ افترا باندھتے ہی کی عطا کردہ صلاحیتوں سے حقیقی فائدہ نہ اٹھایا۔ مرید غلط پیروں کی وجہ سے اور ور کر اپنے لیڈروں کے پیچھے اندھے اور بہرے ہونے کی وجہ سے پیروں کی وجہ سے ان کے مرید گمراہ ہوئے اور پھر دوسروں کو گمراہ کرتے رہے۔ اس بنا پر یہ لوگ اپنے اور دوسروں کے گناہوں کے ذمہ دار ٹھہرے۔ جس وجہ سے انہیں دوگنا عذاب ہوگا۔ لہٰذا یہ لوگ نقصان میں ہونگے اور آخرت کا نقصان ناقابل تلافی اور سب سے بڑا نقصان ہے۔ بلاشبہ ایسے لوگ بھاری اور نہ ختم ہونے والا نشان پائیں گے۔ اس وقت پیر اپنے مرید اور لیڈر اپنے ور کروں کے کچھ کام نہیں آئیں گے۔ بلکہ جہنم کا عذاب دیکھ کر اس قدر حواس باختہ ہوں گے کہ دنیا کے تعلقات اور دعوے سب بھول جائیں گے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی بھی عاجز نہیں کرسکتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ ٣۔ گمراہی کے ذمہ دار لوگوں کو دوگنا عذاب دیا جائے گا۔ ٤۔ اللہ کی آیات کا انکار کرنے والے خسارہ پائیں گے۔ ٥۔ قیامت کے دن معبودان باطل نظر نہیں آئیں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا : ١۔ اللہ کے مقابلہ میں ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ (ہود : ٢٠) ٢۔ تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہے۔ (البقرۃ : ١٠٧) ٣۔ اللہ کے سوا کوئی ایسا نہیں جو تمہاری مدد کرسکے۔ (البقرۃ : ١٢٠) ٤۔ اللہ کے سوا کوئی ولی اور بچانے والا نہیں ہے۔ (الرعد : ٣٧) ٥۔ اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔ (العنکبوت : ٢٢) ٦۔ اللہ کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہے۔ (الشوریٰ : ٣١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(اولئک) یہ لوگ جو خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اور جو اللہ کے نزدیک قابل ملامت اور لعنت ہیں۔ اُولٰۗىِٕكَ لَمْ يَكُوْنُوْا مُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ " ان کی یہ تمام تدبیریں اللہ کو عاجز کرنے والی نہیں ہیں۔ لہذا اللہ جس وقت بھی چاہے ان پر اپنا عذاب نازل کرسکتا ہے اور خود اس دنیا میں بھی " وَمَا كَانَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِيَاۗءَ " نہ اللہ کے مقابلے میں ان کا کوئی حامی تھا " جو ان کو اللہ سے بچا سکتا یا اللہ کے مقابلے میں ان کی نصرت کرسکتا۔ لیکن اللہ نے ان لوگوں کو اخروی عذاب کے لیے یہاں مہلت دے دی ہے تاکہ وہاں ان کو دنیا اور آخرت دونوں کا عذاب دیا جائے۔ يُضٰعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ " انہیں اب دہرا عذاب دیا جائے گا " اس لیے کہ انہوں نے دنیا میں اپنی ان صلاحیتوں سے کام نہ لیا جن کے ذریعے وہ حقیقت کا ادراک کرسکتے تھے۔ انہوں نے زبردستی اپنی آنکھوں کو بند رکھا۔ وہ اس طرح تھے جیسے وہ نہ سن سکتے ہوں اور نہ دیکھ سکتے ہوں۔ مَا كَانُوْا يَسْتَطِيْعُوْنَ السَّمْعَ وَمَا كَانُوْا يُبْصِرُوْنَ " وہ نہ کسی کی سن سکتے تھے اور نہ خود ہی انہیں کچھ سوجھتا تھا "

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (اُولٰٓءِکَ لَمْ یَکُوْنُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ ) (یہ لوگ زمین میں اللہ کو عاجز کرنے والے نہ تھے) کہ کہیں جا کر چھپ جاتے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر ہوجاتے اور موت سے بچ جاتے جب دنیا میں اللہ کو عاجز کر کے کہیں نہیں جاسکتے تھے تو آخرت میں کیسے چھوٹ کر جاسکتے ہیں۔ جہاں حساب کے لئے جمع کئے جائیں گے۔ (وَمَا کَانَ لَھُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ) (اور ان لوگوں کے لئے اللہ کے سوا کوئی بھی مددگار نہیں ہوگا) جن لوگوں کو سفارشی سمجھا تھا وہ کچھ بھی فائدہ نہ پہنچا سکے۔ (یُضٰعَفُ لَھُمُ الْعَذَابُ ) (ان کے لئے دوہرا عذاب کردیا جائے گا) ایک عذاب ان کے اپنے کفر کا اور دوسرا عذاب دوسروں کو ایمان سے روکنے کا اور کفر پر جمائے رکھنے کا (مَاکَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْعَ ) (یہ لوگ سن نہیں سکتے تھے) یعنی حق سے دور بھاگتے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں سننے کو اس قدر مکر وہ جانتے تھے کہ گویا اپنی قوت سامعہ ہی ختم کرچکے تھے۔ (وَمَا کَانُوْا یُبْصِرُوْنَ ) (اور دیکھ نہیں پاتے تھے) یعنی اللہ کی معرفت کی نشانیاں جو خود ان کے اندر موجود ہیں اور جو دوسری مخلوق میں ہیں ان سے قصداً اور ارادۃً اندھے بن جاتے تھے (ان کی ضد اور عناد اور حق سے دور بھاگنے کی کوشش نے انہیں ایمان قبول نہ کرنے دیا)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24: دنیا میں انہیں فوراً اس لیے نہیں پکڑا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی دسترس سے باہر تھے یا اللہ سے ورے ان کا کوئی کارساز اور نگہبان تھا بلکہ یہ تاخیر اللہ کی حکمت بالغہ پر مبنی تھی۔ یُضٰعَف لَھُمُ الْعَذَابُ اب آخرت میں انہیں دوگنا عذاب دیا جائے گا دنیا میں وہ حق بات کو سننے کے لیے تیار نہ تھے اور نہ زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے واضح نشانات میں غور وفکر کرتے تھے۔ مَاکَانُوْا یَفْتَرُوْنَ جن معبودان باطلہ کو انہوں نے خدا کے یہاں سفارشی سمجھ رکھا تھا قیامت کے دن وہ سب غائب ہوں گے اور کوئی ان کے کام نہیں آئے گا۔ (وَ ضَلَّ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ) من الالھۃ و شفاع تھا (روح ج 12 ص 33) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

20 یہ لوگ تمام روئے زمین پر کہیں بھاگ کر خدا کو تھکا نہیں سکتے اور عاجز نہیں کرسکتے اور نہ ان کا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حمایتی اور مددگار ہوا ان لوگوں کو دوسروں کے مقابلے میں دوگنی سزا دی جائے گی یہ لوگ تعصب کی وجہ سے نہ حق بات سن سکتے ہیں نہ بغض وعناد کی وجہ سے راہ حق کو دیکھ سکتے تھے یعنی جتنی شرارت زیادہ اتنا ہی عذاب زیادہ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اللہ پر جھوٹ بولنا کہاں سے لائے غیب سے سن آتے تھے نہ غیب کو دیکھتے تھے 12