Surat Hood

Surah: 11

Verse: 53

سورة هود

قَالُوۡا یٰہُوۡدُ مَا جِئۡتَنَا بِبَیِّنَۃٍ وَّ مَا نَحۡنُ بِتَارِکِیۡۤ اٰلِہَتِنَا عَنۡ قَوۡلِکَ وَ مَا نَحۡنُ لَکَ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۳﴾

They said, "O Hud, you have not brought us clear evidence, and we are not ones to leave our gods on your say-so. Nor are we believers in you.

انہوں نے کہا اے ہود! تو ہمارے پاس کوئی دلیل تو لایا نہیں اور ہم صرف تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں اور نہ ہم تجھ پر ایمان لانے والے ہیں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Conversation between (the People of) `Ad and Hud Allah, the Exalted, informs that they said to their Prophet, قَالُواْ يَا هُودُ مَا جِيْتَنَا بِبَيِّنَةٍ ... They said: "O Hud! No evidence have you brought us. This means that they claimed that Hud had not brought them any proof or evidence for what he claimed. ... وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِي الِهَتِنَا عَن...  قَوْلِكَ ... and we shall not leave our gods for your (mere) saying! They were saying how could his mere statement, "Leave these gods," be sufficient proof for them to leave their idols! ... وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُوْمِنِينَ and we are not believers in you. This means that they did not believe what he was saying was true.   Show more

قوم ہود کے مطالبات قوم ہود نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت سن کر جواب دیا کہ آپ جس چیز کی طرف ہمیں بلا رہے ہیں اس کی کوئی دلیل و حجت تو ہمارے پاس آپ لائے نہیں ۔ اور یہ ہم کرنے سے رہے کہ آپ کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دو اور ہم چھوڑ ہی دیں ۔ نہ وہ آپ کو سچا ماننے والے ہیں نہ آپ پر ایمان ... لانے والے ۔ بلکہ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ چونکہ تو ہمیں ہمارے ان معبودوں کی عبادت سے روک رہا ہے اور انہیں عیب لگاتا ہے ۔ اس لیے جھنجھلا کر ان میں سے کسی کی مار تجھ پر پڑی ہے تیری عقل چل گئی ہے ۔ یہ سن کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہی ہے تو سنو میں نہ صرف تمہیں ہی بلکہ اللہ کو بھی گواہ کر کے اعلان کرتا ہوں کہ میں اللہ کے سوا جس جس کی عبات ہو رہی ہے سب سے بری اور بیزار ہوں اب تم ہی نہیں بلکہ اپنے ساتھ اوروں کو بھی بلا لو اور اپنے ان سب جھوٹے معبودوں کو بھی ملا لو اور تم سے جو ہو سکے مجھے نقصان پہنچا دو ۔ مجھے کوئی مہلت نہ لینے دو ۔ نہ مجھ پر کوئی ترس کھاؤ ۔ جو نقصان تمہارے بس میں ہو مجھے پہنچانے میں کمی نہ کرو ۔ میرا توکل ذات رب پر ہے وہ میرا اور تمہارا سب کا مالک ہے ناممکن کہ اس کی منشاء بغیر میرا بگاڑ کوئی بھی کر سکے ۔ دنیا بھر کے جاندار اس کے قبضے میں اور اس کی ملکیت میں ہیں ۔ کوئی نہیں جو اس کے حکم سے باہر اس کی باشاہی سے الگ ہو ۔ وہ ظالم نہیں جو تمہارے منصوبے پورے ہو نے دے وہ صحیح راستے پر ہے ۔ بندوں کی چوٹیاں اس کے ہاتھ میں ہیں ، مومن پر وہ اس سے بھی زیادہ مہربان ہے جو مہربانی ماں باپ کو اولاد پر ہوتی ہے وہ کریم ہے اس کے کرم کی کوئی حد نہیں ۔ اسی وجہ سے بعض لوگ بہک جاتے ہیں اور غافل ہو جاتے ہیں ۔ حضرت ہود علیہ السلام کے اس فرمان پر دوبارہ غور کیجئے کہ آپ نے عادیوں کے لیے اپنے اس قول میں توحید ربانی کی بہت سے دلیلیں بیان کردیں ۔ بتا دیا کہ جب اللہ کے سوا کوئی نفع نقصان نہیں پہنچا سکتا جب اس کے سوا کسی چیز پر کسی کا قبضہ نہیں تو پھر وہی ایک مستحق عبادت ٹھہرا ۔ اور جن کی عبادت تم اس کے سوا کر رہے ہو وہ سب باطل ٹھہرے ۔ اللہ ان سے پاک ہے ملک تصرف قبضہ اختیار اسی کا ہے سب اسی کی ماتحتی میں ہیں ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

53۔ 1 ایک نبی دلائل وبراہین کی پوری قوت اپنے ساتھ رکھتا ہے لیکن شپرہ چشموں کو وہ نظر نہیں آتے قوم ہود (علیہ السلام) نے بھی اسی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم بغیر دلیل کے محض تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو کس طرح چھوڑیں ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٠] ویسے تو ہر نبی کو ایسے واضح دلائل دیئے جاتے ہیں جو ایمان لانے والوں کی تسلی اور تشفی کے لیے کافی ہوتے ہیں مگر ہٹ دھرم لوگ عموماً کسی ایسے حسی معجزے کے طالب ہوتے ہیں جو ان کی گردنیں پکڑ کر انھیں ایمان لانے پر مجبور کر دے اور وہ اس وقت تک ایمان لانے کو تیار نہیں، ہوتے جب تک ایسا معجزہ دیکھ نہ لی... ں۔ حالانکہ اس وقت ایمان لانے کا کچھ فائدہ بھی نہیں ہوتا اور ایسا معجزہ پیش کرنا ویسے بھی مشیئت الٰہی کے خلاف ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یہاں تک ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا اور اس مختصر سی تقریر میں تین دفعہ انھیں ” اے میری قوم “ کہہ کر پکارا، تاکہ شاید قرابت کے واسطے ہی سے ان کے دلوں تک رسائی حاصل کرسکیں۔ کیونکہ ہود (علیہ السلام) اسی قبیلے کے فرد ہو کر انھی کی بدخواہی نہیں کرسکتے تھے۔ قَالُوْا يٰ... هُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ ۔۔ : یہ بات یقینی ہے کہ ہر پیغمبر اللہ کی طرف سے ایسے واضح دلائل اور یقینی آیات اور نشانیاں لے کر آتا ہے کہ سننے اور دیکھنے والوں کو اس کے نبی ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا، مگر یہ سب کچھ انھی کے لیے کار آمد ہوتا ہے جو دل کے کانوں اور آنکھوں سے سنتے اور دیکھتے ہیں۔ لیکن جب کوئی شخص یا قوم ضد اور عناد کی وجہ سے یہ طے کرلے کہ ہم نے ماننا ہی نہیں تو انھیں لاکھ دلیل سامنے ہونے کے باوجود ایک بھی نظر نہیں آتی اور ان کی حالت وہ ہوجاتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ (٦، ٧) میں بیان فرمائی ہے ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا يٰہُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَۃٍ وَّمَا نَحْنُ بِتَارِكِيْٓ اٰلِہَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِيْنَ۝ ٥٣ هود الْهَوْدُ : الرّجوع برفق، ومنه : التَّهْوِيدُ ، وهومشي کالدّبيب، وصار الْهَوْدُ في التّعارف التّوبة . قال تعالی: إِنَّا هُدْنا إِلَيْكَ [ الأعراف/ 156] أي : تبن... ا، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام . ( ھ و د ) الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرن ا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے . : إِنَّا هُدْنا إِلَيْكَ [ الأعراف/ 156] ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔ بَيِّنَة والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . ( ب ی ن ) البَيِّنَة کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ ترك تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] ( ت ر ک) ترک الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] والقَوْلُ يستعمل علی أوجه : أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو جملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا . الثاني : يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا . الثالث : للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة . الرابع : في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . ( ق و ل ) القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔ ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفه ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) ( 4 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٣) اور ان کے قوم نے کہا آپ نے اپنے دعوے پر ہمارے سامنے کوئی دلیل تو پیش نہیں کی اور ہم صرف آپ کے کہنے سے تو اپنے بتوں کی عبادت کو چھوڑنے والے نہیں اور ہم کسی طرح آپ کی رسالت کا یقین کرنے والے نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣ (قَالُوْا يٰهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ ) یعنی آپ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو اس کے ثبوت کے طور پر آپ کے پاس کوئی کھلی نشانی سند یا معجزہ نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

58. The unbelievers contended that Hud (peace be on him) had no clear evidence to prove that it is God Who had designated him to communicate a message, and that his teachings were true.

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :58 یعنی ایسی کوئی کھلی علامت یا ایسی کوئی واضح دلیل جس سے ہم غیر مشتبہ طور پر معلوم کرلیں کہ اللہ نے تجھے بھیجا ہے اور جو بات تو پیش کر رہا ہے وہ حق ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

31: روشن دلیل سے ان کی مراد ان کے فرمائشی معجزات تھے۔ عقلی اور نقلی دلائل تو حضرت ہود (علیہ السلام) نے ہر قسم کے پیش کردئیے تھے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ ہم جس معجزے کی فرمائش کرتے جائیں وہ ہمیں دکھاتے جاؤ۔ ظاہر ہے کہ پیغمبر کرشمے دکھانے کے لیے وقف نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ان کی یہ فرمائشیں پوری نہ ہوئیں ت... و انہوں کہہ دیا کہ تم کوئی روشن دلیل ہی ہمارے پاس نہیں لائے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٣۔ یہ ہود (علیہ السلام) کی قوم عاد کا جواب ہے جب ہود (علیہ السلام) نے ان کو نصیحت کی کہ تم بتوں کا پوجنا چھوڑ دو اور خدا سے استغفار کرو اور آئندہ کے واسطے توبہ کرلو خدا تمہارے رزق میں اور اولاد میں ترقی کرے گا۔ تو ان لوگوں نے یہ جواب دیا کہ تم کوئی سند لے کر خدا کی طرف سے نہیں آئے ہو جو خواہ مخواہ ... ہم تم پر ایمان لے آئیں اور صرف تمہارے کہنے سے اپنے ان معبودوں کو چھوڑ دیں اور صاف انکار کردیا کہ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے۔ ہود (علیہ السلام) کو بھی خدا کی طرف سے عجیب و غریب معجزے ملے تھے قوم عاد نے یہاں پر فقط مخالفت کی راہ سے یہ بات کہی تھی کہ تم کوئی سند لے کر نہیں آئے ہو۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث گزر چکی ہے کہ علم الٰہی میں جو شخص دوزخی ٹھہر چکا ہے وہ دنیا میں آن کر ویسے ہی کام کرتا ہے۔ ١ ؎ قوم ہود کے اس سرکشی کے جواب کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ لوگ علم الٰہی میں دوزخی ٹھہر چکے تھے اس لئے ان کو یہ سرکشی کا جواب اچھا معلوم ہوا۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٧٣٨ ج ٢ تفسیر سورة واللیل اذا یغشی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:53) تار کی۔ تارک کی جمع بحالت نصب و جر مضاف الہتنا (مضاف مضاف الیہ) مضاف الیہ۔ تار کی اصل میں تارکین تھا۔ ن بوجہ اضافت کے حذف ہوگیا۔ (ہم) اپنے خداؤں کو چھوڑنے والے (نہیں) یعنی نہیں چھوڑیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد کا ردعمل۔ غور فرمائیں کہ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور توبہ و استغفار کی دعوت دی۔ لیکن قوم نے اس کا کس قدر الٹا جواب دیا۔ قوم کہنے لگی کہ اے ھود ! تو ہمارے پاس ٹھوس اور واضح دلائل نہیں لایا۔ تیری بےبنیاد باتوں پر ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ... نے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی تجھ پر ایمان لائیں گے۔ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارے معبودوں کی مخالفت کی وجہ سے کچھ معبودوں کی تجھ پر مار پڑگئی ہے۔ جس کی وجہ سے تو الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے فرمایا تم جو کچھ چاہو کہو۔ لیکن میں اس بات پر اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ سچ اور حق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق اور حاجت روا، مشکل کشا نہیں۔ گواہ رہو کہ جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو میں ان سے نفرت اور برأت کا اعلان کرتا ہوں۔ جہاں تک تمہاری اس بات کا تعلق ہے کہ مجھے تمہارے معبودوں نے کچھ کردیا ہے، اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اور تمہارے الٰہ اکٹھے ہو کر جو اقدام میرے خلاف کرنا چاہتے ہو کرو۔ میں تم سے ایک لمحہ بھی مہلت مانگنے کے تیار نہیں ہوں۔ یاد رہے کہ یہ بھی مشرکین کی شروع سے عادت ہے کہ وہ اپنے باطل عقیدہ کو سچ ثابت کرنے کے لیے نہ صرف اپنے معبودوں کے متعلق جھوٹے دعوے اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ بلکہ وہ توحید کی دعوت دینے والوں کو یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ اگر تم نے ہمارے حاجت روا اور مشکل کشاؤں کی توہین جاری رکھی تو وہ تمہارا قلع قمع کردیں گے۔ اگر کسی مواحد کو کوئی ناگہانی مشکل آن پڑے یا کوئی نقصان ہوجائے تو مشرکین یہ کہنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے کہ یہ سب کچھ ہمارے بزرگوں کا کیا دھرا ہے۔ ایسا ہی دعویٰ حضرت ھود (علیہ السلام) کے مخالفوں نے کیا تھا حالانکہ ہر دور میں یہ مثالیں موجود رہی ہیں کہ مشرکین جن کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں وہ اپنے اور کسی دوسرے کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ مسائل ١۔ قوم عاد نے نبی کے سمجھانے کے باوجود معبود ان باطل کو نہ چھوڑا۔ ٢۔ حضرت ھود (علیہ السلام) پر ان کی قوم ایمان نہ لائی۔ ٣۔ حضرت ھود (علیہ السلام) کی قوم سمجھتی تھی کہ حضرت ھود (علیہ السلام) کو ان کے دیوتاؤں نے مشکل میں مبتلا کیا ہے۔ ٤۔ انبیاء ( علیہ السلام) کا ہمیشہ اللہ کی ذات پر بھروسہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) کا اپنی اقوام کو چیلنج : ١۔ حضرت ھود نے اپنی قوم سے کہا اللہ کے علاوہ تم سارے کے سارے جو کرسکتے ہو میرے خلاف کرگزرو۔ (ھود : ٥٥) ٢۔ اللہ کے سوا کسی کو نہ پکارو نہ وہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان۔ (یونس : ١٠٦) ٣۔ اللہ کے سوا کوئی ذرہ بھر بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے۔ (الانبیاء : ٦٦) ٤۔ اے نبی ! اعلان کردیں کہ میں اپنے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں ہوں۔ (الاعراف : ١٨٨) ٥۔ کیا تم ایسوں کو معبود مانتے ہو جو تمہارے نفع نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (الرعد : ١٦) ٦۔ کیا تم ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (المائدۃ : ٧٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

50: قوم نے انتہائی ضد وعناد سے پیغام توحید کا انکار کیا اور الٹا حضرت ہود (علیہ السلام) پر طعن کرنے لگے۔ عَنْ قَوْلِکَ میں عن سببیہ ہے۔ قوم نے کہا اے ہود ! تم اپنے دعوے پر کوئی دلیل تو لائے نہیں اس لیے صرف تمہارے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے اور نہ تم پر ہی ایمان لانے کو تیار ہیں۔ قوم ن... ے فرط عناد و جہالت سے یہ جواب دیا تھا ورنہ توحید کے دلائل واضحہ اور اور آیات باہرہ ان کے سامنے پیش کی جاچکی تھیں۔ انما قالوہ لفرط عنادھم او لشدۃ عمائھم عن الحق و عدم نظرھم فی الایت الخ (روح ج 12 ص 81) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

53 قوم کے لوگوں نے ہود (علیہ السلام) کی تقریر سن کر جواب دیا اے ہود (علیہ السلام) تو نے ہمارے سامنے توحید اور اپنی رسالت پر کوئی دلیل تو پیش نہیں کی اور ہم فقط تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں ہیں اور نہ تجھ پر ایمان لانے والے ہیں یعنی انہوں نے عناداً کہا کہ دلیل تو کوئی تیرے پاس ہے نہی... ں اب فقط تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کی عبادت نہ تو ترک کریں گے اور نہ تیرے رسول ہونے کو مانیں گے۔  Show more