Surat Hood

Surah: 11

Verse: 9

سورة هود

وَ لَئِنۡ اَذَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنَّا رَحۡمَۃً ثُمَّ نَزَعۡنٰہَا مِنۡہُ ۚ اِنَّہٗ لَیَئُوۡسٌ کَفُوۡرٌ ﴿۹﴾

And if We give man a taste of mercy from Us and then We withdraw it from him, indeed, he is despairing and ungrateful.

اگر ہم انسان کو اپنی کسی نعمت کا ذائقہ چکھا کر پھر اسے اس سے لے لیں تو وہ بہت ہی ناامید اور بڑا ہی نا شکرا بن جاتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The changing of Man's Attitude in Happiness and Hardship Allah says; وَلَيِنْ أَذَقْنَا الاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَيُوسٌ كَفُورٌ

انسان کا نفسیاتی تجزیہ سوائے کامل ایمان والوں کے عموماً لوگوں میں جو برائیاں ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ راحت کے بعد کی سختی پر مایوس اور محض ناامید ہو جاتے ہیں اللہ سے بد گمانی کر کے آئندہ کے لیے بھلائی کو بھول بیٹھتے ہیں گویا کہ نہ کبھی اس سے پہلے کوئی آرام اٹھایا تھا نہ اس کے بعد کسی راحت کی توقع ہے ۔ یہی حال اس کے برخلاف بھی ہے اگر سختی کے بعد آسانی ہو گئی تو کہنے لگتے ہیں کہ بس اب برا وقت ٹل گیا ۔ اپنی راحت اپنی تن آسانیوں پر مست و بےفکر ہو جاتے ہیں ۔ دوسروں کا استہزاء کرنے لگتے ہیں ۔ اکڑ فوں میں پڑ جاتے ہیں اور آئندہ کی سختی کو بالکل فراموش کر دیتے ہیں ۔ ہاں ایماندار اس بری خصلت سے محفوظ رہتے ہیں ، وہ دکھ درد میں صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں راحت و آرام میں اللہ کی فرمان برداری کرتے ہیں ۔ یہ صبر پر مغفرت اور نیکی پر ثواب پاتے ہیں ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے ۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے کہ مومن کو کوئی سختی کوئی مصیبت کوئی دکھ ، کوئی غم ایسا نہیں پہنچتا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی خطائیں معاف نہ فرماتا ہو ، یہاں تک کہ کانٹا لگنے پر بھی ۔ بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ سراسر بہتر ہے ۔ یہ راحت پاکر شکر کرتا ہے اور بھلائی سمیٹتا ہے ۔ تکلیف اٹھاکر صبر کرتا ہے ، نیکی پاتا ہے اور ایسا حال مومن کے سوا اور کسی کا نہیں ہو ۔ اسی کا بیان سورہ والعصر میں ہے ۔ یعنی عصر کے وقت کی قسم تمام انسان نقصان میں ہیں سوائے ان کے جو ایمان لائیں اور ساتھ ہی نیکیاں بھی کریں اور ایک دوسرے کو دین حق کی اور صبر کی ہدایت کرتے رہیں یہی بیان ( اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا 19؀ۙ ) 70- المعارج:19 ) میں ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 انسانوں میں عام طور پر جو مذموم صفات پائی جاتی ہیں اس میں اور اگلی آیت میں ان کا بیان ہے۔ ناامیدی کا تعلق مستقبل سے ہے اور ناشکری کا ماضی و حال سے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَىِٕنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ۔۔ : یعنی انسان میں یہ کمزوری ہے کہ کوئی رحمت صرف چکھنے کے بعد، یعنی تھوڑی سی نعمت صرف کچھ دیر کے لیے ملنے کے بعد چھن جائے تو اللہ تعالیٰ کی ساری نعمتیں اس طرح بھولتا ہے کہ آئندہ کے لیے اس کی تمام نعمتوں سے نہایت ناامید ہوجاتا ہے اور گزشتہ اور موجودہ کوئی نعمت اسے یاد ہی نہیں رہتی۔ یہی اس کی ناشکری اور نعمت کا انکار ہے۔ شوکانی نے فرمایا کہ ” اَذَقْنَا “ کے لفظ سے ادنیٰ سے ادنیٰ نعمت تھوڑی سی مدت کے لیے ملنا واضح ہو رہا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the verses appearing above, it has been confirmed that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is a Messenger of Allah and an answer has been given to those who engineer doubts about it. At the beginning, in the first three verses (9-11), an instinctively bad human habit has been mentioned with an instruction to Muslims that they should stay away from it. That man is naturally fickle-minded and haste-prone, and that he tends to be consumed by his immediate condition and puts all concerns of the past and future out of his mind, has been described in the first two verses (9, 10). It has been said: If We let man taste a blessing and then take it back, he loses courage and hope and turns ungrateful. And if We let him taste a blessing after he has suffered from some hardship, he forgets all about his suffering and starts bragging and boasting. In other words, man is given to hurry things, takes the present as everything, does not bother to refer to the past or show concern for the future, therefore, a suffering after a blessing makes him lose hope and slide into ungratefulness. He never thinks that Allah who blessed him first could bless him again. Similarly, if one gets comfort after suffer¬ing, then he, rather than recall his past suffering, turn to Allah and be grateful to Him, starts waxing more proud and arrogant. In that state, he forgets his past and goes about thinking that Allah&s blessings were his right, he has to have these, and that he remains under the impres¬sion that this was how he would continue for the rest of his life. So heedless he becomes that it just does not occur to him that the way the days of suffering did not continue any more, the same thing could hap-pen to the days of comfort and they too could vanish. Such is the state of human worship of the present and so tragic is the penchant for forgetting the past and the present that a power-hungry man would not even blink to raise the edifice of his power on the blood and dust of another man of power. Always looking up, he would never look down to recall that this had been the fate of the man of power before him. Sad ends and ill fates make no effect on him for power in the present tastes good. When people start worshipping the present and elect to remain drunk with the state they are in, that is high time for Books of Allah and His Messengers to come. When they do, they bring the lesson-oriented events of the past into sharp focus for heedless man to see things in this perspective and have a little concern for what would happen to them in the future. The lesson they teach is: Ponder over the changing conditions of the universe you are in and get to know the power working behind these - great sermonizers from the Lord! A perfect believer, in fact, a perfect human being is one who is able to perceive the hidden Power behind every change, revolution, sorrow and comfort, ignore their transitory phases, dismiss their material causes as the sole explanation. The mark of an intelligent person is that he looks at the originator or causer of causes more than he would look at causes, and it is with Him alone that he would relate to as firmly as possible.

خلاصہ تفسیر اور اگر ہم انسان کو اپنی مہربانی کا مزا چکھا کر اس سے چھین لیتے، ہیں تو وہ ناامید اور ناشکرا ہوجاتا ہے اور اگر اس کو کسی تکلیف کے بعد جو کہ اس پر واقع ہوئی ہو کسی نعمت کا مزا چکھاویں تو ( ایسا اتراتا ہے کہ) کہنے لگتا ہے کہ میرا سب دکھ درد رخصت ہوا ( اب کبھی نہ ہوگا پس) وہ اترانے لگتا ہے شیخی بگھارنے لگتا ہے مگر جو لوگ مستقل مزاج ہیں اور نیک کام کرتے ہیں ( مراد اس سے مؤمنین ہیں کہ ان میں کم وبیش یہ خصائل ہوتے ہیں سو) وہ ایسے نہیں ہوتے ( بلکہ زوال نعمت کے وقت صبر سے کام لیتے ہیں اور عطاء نعمت کے وقت شکر و اطاعت بجا لاتے ہیں پس) ایسے لوگوں کے لئے بڑی مغفرت اور بڑا اجر ہے ( خلاصہ یہ ہے کہ بجز مؤمنین کے اکثر آدمی ایسے ہی ہیں کہ ذرا سی دیر میں نڈر ہوجاویں ذرا سی دیر میں ناامید ہوجاویں اس لئے یہ لوگ تاخیر عذاب کے سبب بےخوف اور منکر ہوگئے، یہ لوگ جو انکار و استہزاء سے پیش آتے ہیں) سو شاید آپ ( تنگ ہوکر) ان احکام میں سے جو کہ آپ کے پاس وحی کے ذریعہ بھیجے جاتے ہیں بعض کو ( یعنی تبلیغ کو) چھوڑ دینا چاہتے ہیں ( یعنی کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ تبلیغ ترک کردیں سو ظاہر ہے کہ ایسا ارادہ تو آپ کر نہیں سکتے پھر تنگ ہونے سے کیا فائدہ) اور آپ کا دل اس بات سے تنگ ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ( اگر یہ نبی ہیں تو) ان پر کوئی خرانہ کیوں نہیں نازل ہوا یا ان کے ہمراہ کوئی فرشتہ ( جو ہم سے بھی بولتا چالتا) کیوں نہیں آیا ( یعنی ایسے معجزات کیوں نہیں دیئے گئے سو ایسی باتوں سے آپ تنگ نہ ہوجئے کیونکہ) آپ تو ( ان کفار کے اعتبار سے) صرف ڈرانے والے ہیں ( یعنی پیغمبر ہیں جس کے لئے دراصل کسی بھی معجزے کی ضرورت نہیں) اور پورا اختیار رکھنے والا ہر شئے پر ( تو) صرف اللہ ہی ہے ( آپ نہیں ہیں، جب یہ بات ہے تو ان معجزات کا ظاہر کرنا آپ کے اختیار سے باہر ہے پھر اس کی فکر اور اس فکر سے تنگی کیوں ہو اور چونکہ پیغمبر کے لئے مطلق معجزہ کی ضرورت ہے اور آپ کا بڑا معجزہ قرآن ہے تو اس کو نہ ماننے کی کیا وجہ) کیا ( اس کی نسبت) یوں کہتے ہیں کہ ( نعوذ باللہ) آپ نے اس کو ( اپنی طرف سے) خود بنا لیا ہے، آپ جواب میں فرما دیجئے کہ ( اگر یہ میرا بنایا ہوا ہے) تو ( اچھا) تم بھی اس جیسی دس سورتیں (جو تمہاری) بنائی ہوئی ( ہوں) لے آؤ اور ( اپنی مدد کے لئے) جن جن غیر اللہ کو بلا سکو بلا لو اگر تم سچے ہو پھر یہ کفار اگر تم لوگوں کا ( یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مؤمنین کا یہ) کہنا ( کہ اس کی مثل بنا لاؤ نہ کرسکیں تو تم ( ان سے کہہ دو کہ اب تو) یقین کرلو کہ یہ قرآن اللہ ہی کے علم ( اور قدرت) سے اترا ہے ( اس میں اور کسی کے نہ علم کا دخل ہے اور نہ قدرت کا) اور یہ ( بھی یقین کرلو) کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں ( کیونکہ معبود خدائی کی صفات میں کامل ہوتا ہے پھر اگر اور کوئی ہوتا تو اس کو قدرت بھی پوری ہوتی اور اس قدرت سے وہ تم لوگوں کی مدد کرتا کہ تم اس کی مثل لے آتے کیونکہ موقع تحقیق دین کا اس کو مقتضی تھا پس اس کے مثل بنانے سے ان کے عاجز ہونے سے رسالت اور توحید دونوں ثابت ہوگئے جب دونوں ثابت ہوگئے) تو اب بھی مسلمان ہوتے ہو ( یا نہیں ) ۔ معارف و مسائل آیات مذکورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی تصدیق اور اس میں شبہات نکالنے والوں کا جواب مذکور ہے، اور اس کے شروع یعنی پہلی تین آیتوں میں انسان کی ایک طبعی عادت قبیحہ کا ذکر اور مسلمانوں کو اس سے بچنے کی ہدایت ہے۔ پہلی دو آیتوں میں فطری طور پر انسان کا غیر مستقل مزاج، جلدی پسند ہونا اور موجودہ حالت میں کھپ کر ماضی و مستقبل کو بھلا دینا بیان فرمایا ہے، ارشاد ہے کہ اگر ہم انسان کو کوئی نعمت چکھاتے ہیں اور پھر اس سے واپس لے لیتے ہیں تو وہ بڑا ہمت ہار، ناامید اور ناشکرا بن جاتا ہے، اور اگر اس کو کسی تکلیف کے بعد جو اس کو پیش آئی ہو کسی نعمت کا مزا چکھا دیں تو کہنے لگتا ہے کہ میرا سب دکھ درد رخصت ہوا اور وہ اترانے اور شیخی بگھارنے لگتا ہے۔ مطلب یہ کہ انسان فطرتا عاجل پسند اور موجودہ حالت کو سب کچھ سمجھنے کا عادی ہوتا ہے اگلے پچھلے حالات و واقعات میں غور و فکر اور ان کو یاد رکھنے کا خوگر نہیں ہوتا اسی لئے نعمت کے بعد تکلیف آجائے تو رحمت سے ناامید ہو کر ناشکری کرنے لگتا ہے، یہ خیال نہیں کرتا کہ جس ذات حق نے پہلے نعمت دی تھی وہ پھر بھی دے سکتا ہے، اسی طرح اگر اس کو تکلیف و مصیبت کے بعد کوئی راحت و نعمت مل جائے تو بجائے اس کے کہ پچھلی حالت میں غور کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوتا اس کا شکر کرتا، اور زیادہ اکڑنے اترانے لگتا ہے، اور پچھلی حالت کو بھول کر یوں سمجھنے لگتا ہے کہ یہ نعمت تو میرا حق ہے مجھے ملنا ہی چاہئے اور میں ہمیشہ اسی طرح رہوں گا، غافل یہ خیال نہیں کرتا کہ جس طرح پہلی حالت باقی نہیں رہی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ نعمت و راحت کی حالت بھی باقی نہ رہے۔ چنان نماند چنین نیزہم نخواہد ماند انسان کی موجود پرستی اور ماضی و مستقبل کو بھول جانے کا یہ عالم ہے کہ ایک صاحب اقتدار کے خاک و خون پر دوسرا شخص اپنے اقتدار کی بنیاد استوار کرتا ہے اور کبھی نیچے کی طرف نظر نہیں کرتا کہ اس سے پہلا صاحب اقتدار بھی اسی طرح رہا کرتا تھا، اس کے انجام سے بیخبر ہو کر نشہ اقتدار کے مزے لیتا ہے۔ اسی موجود پرستی اور حال مستی کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کی کتابیں اور رسول آتے ہیں جو انسان کو ماضی کے عبرتناک واقعات یاد دلا کر مستقبل کی فکر سامنے کرد یتے ہیں اور یہ سبق سکھاتے ہیں کہ کائنات کے بدلتے ہوئے حالات و تغیرات میں غور کرو کہ کونسی طاقت ان کے پردے میں کام کر رہی ہے، بقول حضرت شیخ الہند انقلابات جہاں واعظ رب ہیں دیکھو ہر تغیر سے صدا آتی ہے فافہم، فافہم مؤ من کامل بلکہ انسان کامل وہی ہے جو ہر تغیر و انقلاب اور ہر رنج و راحت میں دست قدرت کی مستور طاقت کا مشاہدہ کرے، آنی فانی راحت و رنج اور اس کے صرف مادی اسباب پر دل نہ لگائے عقلمند کا کام یہ ہے کہ اسباب سے زیادہ مسبب الاسباب کی طرف نظر کرے، اسی سے اپنا رشتہ مضبوط باندھے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَىِٕنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَۃً ثُمَّ نَزَعْنٰہَا مِنْہُ۝ ٠ ۚ اِنَّہٗ لَيَـــُٔــوْسٌ كَفُوْرٌ۝ ٩ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) نزع نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] . وَانْتَزَعْتُ آيةً من القرآن في كذا، ونَزَعَ فلان کذا، أي : سَلَبَ. قال تعالی: تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] ، وقوله : وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات/ 1] قيل : هي الملائكة التي تَنْزِعُ الأرواح عن الأَشْباح، وقوله :إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر/ 19] وقوله : تَنْزِعُ النَّاسَ [ القمر/ 20] قيل : تقلع الناس من مقرّهم لشدَّة هبوبها . وقیل : تنزع أرواحهم من أبدانهم، والتَّنَازُعُ والمُنَازَعَةُ : المُجَاذَبَة، ويُعَبَّرُ بهما عن المخاصَمة والمُجادَلة، قال : فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء/ 59] ، فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه/ 62] ، والنَّزْعُ عن الشیء : الكَفُّ عنه . والنُّزُوعُ : الاشتیاق الشّديد، وذلک هو المُعَبَّر عنه بإِمحَال النَّفْس مع الحبیب، ونَازَعَتْنِي نفسي إلى كذا، وأَنْزَعَ القومُ : نَزَعَتْ إِبِلُهم إلى مَوَاطِنِهِمْ. أي : حَنَّتْ ، ورجل أَنْزَعُ : زَالَ عنه شَعَرُ رَأْسِهِ كأنه نُزِعَ عنه ففارَقَ ، والنَّزْعَة : المَوْضِعُ من رأسِ الأَنْزَعِ ، ويقال : امرَأَةٌ زَعْرَاء، ولا يقال نَزْعَاء، وبئر نَزُوعٌ: قریبةُ القَعْرِ يُنْزَعُ منها بالید، وشرابٌ طَيِّبُ المَنْزَعَةِ. أي : المقطَع إذا شُرِبَ كما قال تعالی: خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین/ 26] . ( ن زع ) نزع ( ن زع ) نزع اشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کمانکو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ آیت کو کسی واقعہ میں بطور مثال کے پیش کرنا ۔ نزع فلان کذا کے معنی کسی چیز کو چھین لینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات/ 1] ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نازعات سے مراد فرشتے ہیں جو روحوں کو جسموں سے کھینچتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر/ 19] ہم نے ان پر سخت منحوس دن میں آندھی چلائی وہ لوگوں کو اس طرح اکھیڑ ڈالتی تھی ۔ میں تنزع الناس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہو اپنی تیز کی وجہ سے لوگوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال باہر پھینک دیتی تھی بعض نے کہا ہے کہ لوگوں کی روحوں کو ان کے بد نوں سے کھینچ لینا مراد ہے ۔ التنازع والمنازعۃ : باہم ایک دوسرے کو کھینچا اس سے مخاصمت اور مجا دلہ یعنی باہم جھگڑا کرنا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء/ 59] اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو رجوع کرو ۔ فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه/ 62] تو وہ باہم اپنے معاملہ میں جھگڑنے لگے ۔ النزع عن الشئی کے معنی کسی چیز سے رک جانے کے ہیں اور النزوع سخت اشتیاق کو کہتے ہیں ۔ وناز عتنی نفسی الیٰ کذا : نفس کا کسی طرف کھینچ کرلے جانا کس کا اشتیاق غالب آجانا ۔ انزع القوم اونٹوں کا پانے وطن کا مشتاق ہونا رجل انزع کے معنی سر کے بال بھڑ جانا کے ہیں ۔ اور نزعۃ سر کے اس حصہ کو کہتے ہیں جہاں سے بال جھڑ جائیں ۔ اور تانیث کے لئے نزعاء کی بجائے زعراء کا لفظ استعمال ہوتا ہے بئر نزدع کم گہرا کنواں جس سے ہاتھ کے يأس اليَأْسُ : انتفاءُ الطّمعِ ، يقال : يَئِسَ واسْتَيْأَسَ مثل : عجب واستعجب، وسخر واستسخر . قال تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف/ 80] ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف/ 110] ، ( ی ء س ) یأس ( مصدرس ) کے معنی ناامید ہونیکے ہیں اور یئس ( مجرد) واستیئاس ( استفعال ) دونوں ہم معنی ہیں جیسے ۔ عجب فاستعجب وسخرو استسخر۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف/ 110] یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے ۔ كفر ( ناشکري) الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ میت 5 کفران کے متعلق فرمایا : ۔ لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩) اور اگر ہم کافر کو اپنی نعمت کا مزہ چکھا کر پھر اس سے چھین لیتے تو وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بہت ہی مایوس اور ناامید اور نعمت خداوندی کا منکر اور ناشکر ہوجاتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ ۚ اِنَّهٗ لَيَـــُٔــوْسٌ كَفُوْرٌ ) انسان بنیادی طور پر کوتاہ نظر اور ناشکرا ہے۔ کسی نعمت کامیابی یا خوشی کے بعد اگر اسے کوئی مشکل پیش آتی ہے تو اس وقت وہ بھول جاتا ہے کہ اس پر کبھی اللہ کی نظر کرم بھی تھی۔ چاہیے تو یہ کہ اچھے حالات میں انسان اللہ کا شکر ادا کرے اور جب کوئی سختی آجائے تو اس پر صبر کرے اور ساتھ ہی ساتھ دل میں اطمینان رکھے کہ ہر طرح کے حالات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اگر آج سختی ہے تو کل آسائش بھی تو تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩۔ ١١ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی ناشکری کچھ قرآن کی نعمت کی ناقدری پر منحصر نہیں ہے بلکہ ان کی ناشکری تو دنیا کی نعمتوں میں بھی ہے چناچہ ان میں سے کسی کو اللہ اپنی رحمت کا اگر نمونہ دکھاتا ہے اور اس کے رزق میں ترقی کردیتا ہے تو یہ لوگ عیش و آرام میں پڑے رہتے ہیں اور جب ان کے سر سے ذرا بھی اس رحمت کا سایہ الگ کرلیا تو پھر ان کو آئندہ کی فلاحیت کی امید نہیں رہتی اور پہلے عیش و آرام ان کے خیال سے بالکل جاتے رہتے ہیں اور اگر اللہ تکلیف کے بعد کسی کو خوش حال کردیتا ہے تو وہ بہت ہی خوش ہوتا ہے اور اپنے مال پر اس قدر اترانے لگتا ہے کہ جس کا کچھ ٹھکانا نہیں مگر جو لوگ سختی اور مصیبت کے وقت صبر کرتے ہیں اور نیک عمل کئے جاتے ہیں تو ان کے لئے اس صبر کے بدلے میں مغفرت ہے اور نیک عمل کے عوض میں جنت۔ معتبر سند سے ترمذی میں ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مومن کو جو مصیبت پہنچی ہے مثلاً کوئی تکلیف یا رنج فکر غم تو وہ اس کے گناہ کا کفارہ ہوتا ہے۔ ١ ؎ صحیح مسلم کے حوالہ سے صہیب رومی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا راحت کے وقت شکر اور تکلیف کے وقت صبر یہ ایماندار آدمی کا کام ہے۔ ٢ ؎ ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ راحت کے وقت شکر اور تکلیف کے وقت صبر فرمانبرداروں کی نشانی ہے اور راحت کے وقت ناشکری اور تکلیف کے وقت بےصبری نافرمانوں کی نشانی ہے اور تکلیف کے وقت صبر کرنے سے آدمی کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ١ ؎ الترغیب ص ٢٩٦ الترغیب نے الصبر الخ۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٥٢ باب الصبروالتوکل۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(11:9) اذقنا۔ ماضی جمع متکلم ۔ اذاقۃ سے ذوق مادہ۔ ہم چکھاتے ہیں۔ ہم نے چکھایا۔ ذوق یذوق (باب نصر) چکھنا۔ نزعنا منہ۔ ماضی جمع متکلم۔ نزع مصدر۔ ہم نے اس (رحمت کو) اس سے چھین لیا۔ نزع۔ چھیننا۔ نکال دینا۔ چھانٹ کر نکال دینا۔ یؤس۔ صیغہ صفت مشبہ۔ یاس سے۔ ناامید۔ کفور۔ ناشکرا۔ یؤس کفور۔ یائس کافر سے فعول کے وزن پر مبالغے کے صیغے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ یعنی انسان میں یہ کمزوری ہے کہ جب اسے کوئی معمولی سی مصیبت بھی پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی پچھلی تمام نعمتوں کو بھول جاتا ہے۔ یہی اس کی ناشکری ہے۔ (ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٩ تا ٢٤ اسرار و معارف عام انسان کا حال یہ ہے کہ اگر اس کے پاس اللہ کی نعمت ہو اور وہ چھن جائے یعنی مال وغیرہ میں نقصان ہوجائے یا صحت چلی جائے یا اقتدار و وقار جاتا رہے تو وہ بالکل ناامید ہوکرناشکری کرنے لگتا ہے اور کہتا پھرتا ہے کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا لیکن اگر اسی کو پھر سے وہ نعمت لوٹادی جائے بیمار کو شفا ہوجائے یا پھر مالدار ہوجائے یاجلاوطنی کے بعد پھر سے اقتدار نصیب ہوجائے تو اترانے اور اکڑنے لگتا ہے اور کہتا ہے وہ دن اب لدگئے اب میرا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور وہ طرح طرح کی شیخیاں بگھارتا ہے۔ معرفت باری کا اثر یہ وہ تصویر ہے جو ہراس انسان کی ہے جسے معرفت باری نصیب نہیں مگر جن کو معرفت کا کوئی ذرہ بھی نصیب ہوتا ہے وہ ہر حال میں صبر کرتے ہیں نقصان ہو تو اللہ کریم سے اس کی تلافی کے امیدوار رہتے ہیں اور نفع ہو تو مالک کا شکر ادا کرتے ہیں اور حداطاعت سے تجاوز نہیں کرتے اور ہر حال میں عمل صالح یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت پہ کمربستہ رہتے ہیں ۔ انسان کی نگاہ جب تک محض اسباب پر رہتی ہے اسے کوئی لمحہ سکون کا نصیب ہی نہیں ہوتا مگر جب مسبب الا سباب کی عظمت پہ نگاہ پڑتی ہے تو راحت وکلفت دونوں مزہ دینے لگتی ہیں اور ہر حال میں صبراس کا وطیرہ بن جاتا ہے صبر سے مراد ہے اپنے آپ کو روک کر رکھنا اسی لئے صبر کے ساتھ عمل صالح ارشاد ہوا کہ پوری ہمت سے اپنے آپ کو نیکی پہ کاربند رکھتے ہیں اب اگر اس مجاہدے اور محنت میں بحیثیت انسان کوئی کمی رہ جائے تو اللہ کی بخشش اسے پورا کردے گی جو ایسے ہی لوگوں کے لئے ہے اور ایسے لوگوں کے لئے بہت بڑا اجر ہے اور بہترین بدلہ ہے۔ احقاق حق ہی تردید باطل ہے مشرکین کے یہ اعتراضات کہ آپ بعض باتیں بڑی سخت کہتے ہیں جس میں ہمارے بتوں اور باپ دادا کی رسومات کی برائی بیان ہوتی ہے آپ اپنے مذہب کا پرچار تو کریں ہمارے مذہب کی تردید کیوں کرتے ہیں ، بالکل ناروا ہیں اس لئے کہ حق کو ثابت کرنے سے باطل کی تردید توضرورہوگی ۔ بیک وقت دومخالف نظریات کو تو ٹھیک نہیں کہاجاسکتا اور اصل بات یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ایسا نہیں کرتے یہ تو اللہ کی ذات ہے جو کفر کافرانہ رسومات اور معبودان باطل کی تردید فرماتی ہے۔ آپ پر تو اس کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے جس کے بیان کو تو آپ ہرگز ترک نہیں کرسکتے تو ثابت ہوا کہ کسی کی ناراضگی کے ڈر سے حق کو حق کہناترک نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی بیک وقت کفر اور اسلام دونوں خوش رہ سکتے ہیں ۔ یا آپ اس بات سے دل گرفتہ ہوں کہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان پر کوئی بہت بڑاخزانہ کیوں نہیں اترا کہ بادشاہوں کی طرح دادودہش سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتے اور اپنی بات منوالیتے یا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نازل نہ ہوا کہ لوگوں کو پکار پکار کربتاتا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں انھیں مانو ۔ تو یہ دونوں امرشان نبوت کے لئے ضروری نہ تھے کہ ایمان تودلی خلوص کے ساتھ اللہ کی عظمت اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کو قبول کرنے کا نام ہے کسی انسان کے ضمیر کو دولت سے خرید اجائے تو وہ مسلمان تھوڑی ہوگا۔ مکی زندگی میں دولت دنیا نہ تھی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکی حیات مبارکہ میں دولت دنیانہ تھی ورنہ مشرک ایسا اعتراض نہ کرتے لہٰذاشیعہ کا یہ بہتان کہ مکہ مکرمہ میں بعض لوگ دنیا کا فائدہ پانے کے لئے مسلمان ہوئے محض باطل ہے اور اگر فرشتہ بھی نازل ہوتا تو یہ نہ اسے دیکھ سکتے نہ اس کی بات سن سکتے تو کیا فائدہ یا پھر اگر وہ انسانی شکل میں آتا تو اس پر بھی یہی اعتراض ہوتا کہ تم انسان ہو تمہاری بات نہیں سنیں گے اور اگر فرشتے نظرآنے لگتے اور یہ ان کی بات سن لینے کے قابل ہوتے تو ایمان بالغیب کہاں رہا۔ پھر جب آپ کی ذات اور حیات مبارکہ اوصاف حمیدہ اور معجزات باہرہ پر یہ مان کر نہیں دے رہے تو ان سب باتوں کا کچھ بھی حاصل نہیں ۔ نیز یہ باتیں اس لحاظ سے بھی درست نہیں کہ آپ تو اللہ کے رسول ہیں اور آپ کا منصب عالی یہ ہے کہ وقت سے پیشتربرائی اور کفر پر مرتب ہونے والے نقصان سے آگاہ فرمائیں تاکہ لوگ اپنے بچاؤکاراستہ اختیار کرسکیں۔ یہ دلائل اور معجزات عطافرمانا تو اللہ کا کام ہے جو ہر بات کا ذمہ دار ہے تو انھیں چاہیئے اس ذات سے مطالبہ کرکے دیکھیں چناچہ ابوجہل نے یہ مطالبہ کیا بھی تھا کہ اگر یہ حق ہے تو ہمیں تباہ کردے اللہ نے بدر میں اس کا مطالبہ پورا فرمادیا۔ یا پھر ان کا یہ اعتراض کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خودیہ کلام گھڑلیا ہے حالانکہ یہ جانتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امی ہیں کسی مدرسے میں تشریف نہیں لے گئے ۔ چالیس برس تک کوئی ایسی بات نہیں کی پھر یکایک ایسا بےنظیر کلام جو روئے زمین کے تمام مسائل کا حل بیان فرماتا ہے مالک اور بندے کو ملاتا ہے اور علمی اور ادبی لحاظ سے بھی مثال ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیسے بیان کرنے لگ گئے۔ فرمائیے ! اگر یہ ممکن ہے تو تم میں پڑھے لکھے بھی ہیں شاعر اور ادیب بھی ہیں سب جمع ہوجاؤ بلکہ اپنے باطل معبودوں کو بھی ساتھ ملالو اور ایسی دس آیات تولکھ کرلاؤ جو ظاہری وباطنی خوبی میں اس کے ہم پلہ ہوں اور ان میں اسی کی طرح سے دوعالم کی برکات کے خزانے سمودیئے گئے ہوں ۔ اگر تمہاری بات سچی ہے تو پھر تو تمہیں بھی یہ کام کرلینا چاہیئے ۔ اور اگر تم سب اور تمہارے معبود بھی مل کر یہ کام نہیں کرسکتے ہو تو یہی اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ یہ اللہ کے علوم کے خزانے ہیں جو اس نے اپنے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائے ۔ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اللہ واحدولاشریک ہی عبادت کا مستحق ہے ۔ جس طرح کسی بھی دوسرے وصف میں اس کا کوئی شریک نہیں ہوسکتا وی سے ہی وہ معبود بھی اکیلاہی ہے لہٰذا تمہیں چاہیئے کہ سرتسلیم خم کردو اور اسلام کو قبول کرلو۔ اگر ایمان قبول نہ کروگے اور محض دنیا کی نعمتوں کے حصول میں لگے رہوگے تو سن رکھو جو اللہ کی بارگاہ چھوڑ کر محض حصول دنیا میں لگ جاتا ہے اس کے سارے کام صرف دنیا ہی کے لئے مخصوص کردیئے جاتے ہیں اور اگر وہ کوئی نیکی بھی کرے جیسے صدقہ و خیرات یا اور کوئی نیک کام تو اللہ کریم اس کا بدلہ بھی دنیاہی کی صورت دے دیتے ہیں اور انھیں دنیا میں اس میں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ مفسرین نے یہاں بہت بحث فرمائی ہے کہ یہ کافر کے حق میں ہے یا مسلمان بھی اس کی لپیٹ میں آتا ہے تو دراصل یہ کافر ہی کے لئے ہے کہ دنیا کا ارادہ کرنے سے مراد دین کو ترک کرکے دنیا کو پسند کرنا ہے لیکن اگر کوئی زبان سے اسلام کا اقرار بھی کرتا ہو مگر نیکی صرف دنیا کمانے کے لئے کرے تو وہ بھی مسلمان نہیں صرف لوگوں کی نظروں میں مسلمان ہے ۔ اسی لئے ارشاد ہوا کہ اعمال کا مدار نیات پر ہے لہٰذا کوئی دین کو چھوڑ کر صرف دنیا میں لگ جاتا ہے کہ ادیان باطلہ میں بھی ایک قدر مشترک یہ ہے کہ سب میں عبادت کا بدلہ دنیا کی نعمتوں کو مقرر کیا گیا ہے یا پھر زبانی تو اسلام کا اقرار کرتا ہے مگر دل دنیا میں اس قدراٹکا ہوا ہے کہ سجدہ بھی شہرت پانے یا مال کمانے ہی کو کرتا ہے تو وہ بھی انہی لوگوں میں شمار ہوگاہاں ! اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے دنیاکماناعیب نہیں۔ ہاں ایسے لوگوں سے اگر کوئی بھلائی کا کام بھی ہوجائے تو اس کے بدلے انھیں دنیا میں دولت یاشہرت یا اقتداریاصحت وغیرہ جس کے وہ طالب ہوں دے دی جاتی ہے لیکن ایسے لوگوں کے پاس آخرت میں اور ابدی زندگی کے لئے کچھ نہیں بچتا اور سوائے دوزخ کی آگ کے انھیں کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ دنیا تو خود تباہ ہونے والی ہے لہٰذا ان کا سب کیا دھرا بھی تباہ ہوگیا اور جس قدرمنصوبے انھوں نے باندھے تھے اور جتنی محنت کی تھی سب بربادہوگئی۔ دنیا میں دوہی تو طبقے فریق اور جماعتیں ہیں یعنی کفار ومنکرین کے مقابل مومنین ۔ تو بھلا کافرو مومن کبھی ایک سے ہوسکتے ہیں ہرگز نہیں ! اس لئے کہ مومنین کے نظریات وعقائدجن کے تابع ان کا سارا کردار ہے کی بنیاد دلائل حقہ پر ہے جو انھیں رب جلیل کی طرف سے میسر ہیں اور کفار جن کا انکارکئے بیٹھے ہیں ۔ جن میں سب سے بڑی دلیل تو خود قرآن حکیم ہے جس کی وہ تلاوت کرتے ہیں اور جو ہر اعتبار سے لاثانی ہے اور حق ہے اس میں اللہ کی ذات اور صفات کا بیان ہے عالم آخرت عالم بالا فرشتے اور جنت و دوزخ یا حساب کتاب کی بات ہے اگر یہ باتیں ایسی ہیں کہ کفار انھیں پرکھ نہیں سکتے تو اس میں گزشتہ اقوام کے حالات ہیں اور انسانی زندگی کا لائحہ عمل ہے۔ سیاسیات سائنس ہے اور طب ہے آئندہ دنیا میں ہونے والی باتوں کے بارے پیشگوئیاں ہیں ۔ یہ سب کچھ تو دیکھا جاسکتا ہے نہ کوئی اس سب کی تردید کرسکا اور نہ اس کی مثل پیش کرسکا ۔ تو اپنے شماراعجازات کے ساتھ قرآن خود اپنی حقانیت کا بہت بڑاگواہ ہے پھر اس سے قبل نازل ہونے والی آسمانی کتابیں جن میں موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہونے والی تورات بھی شامل ہے جو اپنے میں بہترین راہنمائی بھی فرماتی تھی اور اول وآخر اللہ کی رحمت تھی یعنی اسے ماننا اسے پڑھنا اور اس پر عمل عین رحمت کا حصول تھا ۔ مومن تو ان سب باتوں پہ ایمان رکھتا ہے اور کفار کی وہ بڑی بڑی جماعتیں جنہوں نے قرآن کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کیا وہ اپنے ظاہری رعب داب پر نہ رہیں بلکہ یہ یاد رکھیں کہ ان سب سے دوزخ کا وعدہ ہے اور دوزخ کی انکار کیا وہ اپنے ظاہری رعب داب پر نہ رہیں بلکہ یہ یاد رکھیں کہ ان سب سے دوزخ کا وعدہ ہے اور دوزخ کی آگ ہی ان کاٹھکانہ ہے اور اے مخاطب ! تو بھی اس میں رائی برابر شبہ نہ کر ! کہ یہ تیرے پروردگار کی طرف سے ہے اور عین حق ہے ۔ اس کی ربوبیت کا تقاضا کہ جیسے کسی کے عقائد و اعمال ہوں ویسا ان پر نتیجہ مرتب فرمائے اس لئے کفر اور کافرانہ اعمال کا یہی انجام ہے مگر اکثرلوگ اس بات پر یقین کرنے سے محروم ہیں ۔ مذاہب باطلہ ظلم عظیم ہیں اس سے بڑے ظلم کا تو کوئی تصورہی نہیں کہ کوئی اللہ پر جھوٹ باندھے یا ایسی بات اللہ کی طرف سے بتائے جو اللہ کا حکم نہ ہو چونکہ تمام مذاہب باطلہ کی بنیاد اسی بات پر ہے کہ کسی نہ کسی نام سے ایک آخری اور سب سے بڑی طاقت کو مان کر اس کی طرف سے رسومات کا اس کی پسند ہونا بیان کرتے ہیں تو ایسے لوگ ہی بہت بڑے ظالم ہیں ۔ اس وعید میں ایسے لوگ بھی آجاتے ہیں جو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے غلط فتوے دیتے ہیں ۔ ایک روزیہ سب لوگ اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہونگے اور ان کے اس کردار کے گواہ پکار کر کہہ رہے ہوں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ان گواہوں میں فرشتے زمین اور اشیاء اعضائے بدن اور خود وہ اعمال بھی مجسم ہوکرشامل ہوں گے۔ تو اے مخاطب ! خوب اچھی طرح جان لو کہ ظالموں پر تو اللہ کی لعنت ہوگی یعنی ہر طرح کی رحمت سے محروم ہوں گے کہ انھوں نے اللہ کی مخلوق کو اللہ کی راہ سے روکا اور غلط راستے پر ڈال دیا انھیں آخرت کا یقین ہی نہ تھا۔ یہ آخرت کا انکارہی کفر کا باعث بھی ہے اور غلط فتوے دینے والے اور دین میں رسومات ایجاد کرنے والے بھی اگرچہ زبان سے نہ کہیں ان کے دل میں بھی یہی انکار موجود ہوتا ہے لہٰذا یہ لوگ اپنے پر پکڑے جائیں گے کہ نہ زمین پر ہی بھاگ کرچھپ سکتے ہیں کہ جان بچالیں اور نہ اللہ کے مقابل کوئی ہستی ایسی ہے جو ان کی مدد کرسکے بلکہ انھیں تو کئی گنازیادہ عذاب ہوگا اپنا اور اپنے اعمال کا بھی اور جس قدر لوگوں کو انھوں نے گمراہ کیا ۔ ان سب کے ساتھ ان کا عذاب بھی ان پر پڑے گا ، اللہ نے سماعت بخشی مگر انھوں نے حق کونہ سنا۔ اللہ نے بصارت عطاکی مگر یہ حق کونہ دیکھ سکے انھوں نے تو اپنے آپ کو تباہ کرلیا اور جو مفروضے گھڑے تھے سب غلط ثابت ہوئے۔ ان کے مقابل ان لوگوں کو دیکھوجو ایمان لائے انھوں نے ان حقائق کو تسلیم کیا جو اللہ نے اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمائے تھے اور پوری محنت ودیانت کے ساتھ ان احکام پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہے جو اللہ کے فرمائے ہوئے تھے اور اپنے عاجزی کا اقرار کیا یعنی اپنی رائے منوانے کی بجائے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کو قبول کیا اور خود کو بندہ اور عاجزثابت کیا یہ لوگ جنت کے باسی ہیں جس میں یہ ہمیشہ رہیں گے ۔ ان دونوں قوموں کی مثال ایسے ہے جیسے ایک تو اندھی اور بہتری ہو اور دوسری کی آنکھ بھی روشن اور کان بھی سننے والے ہوں یاد رہے یہ اندھا اور بہراپن ظاہر نہیں ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ دل بجھ جائے اس میں نور ایمان نہ ہو تو انسان حق کے لئے اندھابہرا ہوجاتا ہے اور اگر نور ایمان نصیب ہوتوحق نظر بھی آتا ہے اور حق بات سنائی بھی دیتی ہے پھر اس کے ساتھ برکات نبوت جو صحبت صالحین میں بٹتی ہیں نصیب ہوں تو ان قوتوں کو چارچاندلگ جاتے ہیں اور یہ دونوں فریق کبھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ اگر انسان غورکرے تو یہ بات سمجھنامشکل نہیں ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب اور قیامت کو بھول جاتے ہیں ان کی طبیعت میں ناشکری اور فخروغرور پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ایسے آدمی کو ہم اپنی رحمت سے بہرہ ور کریں اور اس کے بعد اپنے کرم کا ہاتھ پیچھے ہٹائیں تو وہ حوصلہ کرنے کی بجائے ناشکری کا اظہار کرتا ہے۔ اگر تکلیف کے بعد اسے راحت اور خوشی عطا کریں تو وہ یہ کہتے ہوئے فخروغرور کا مظاہرہ کرتا ہے کہ میرے دکھ دور ہوگئے۔ گویا کہ اسے نعمت عطا ہو تو ناشکری کی صورت میں اور اس کا دکھ دور ہوجائے تو فخروغرور کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے۔ اس طرح اللہ اور قیامت پر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے نہ خوشی اسے اپنے رب کی طرف لاتی ہے اور نہ غم اسے اپنے رب کے قریب کرتا ہے۔ فخر اللہ تعالیٰ کی چادر ہے : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ اللَّہُ سُبْحَانَہُ اَلْکِبْرِیَآءُ رِدَآءِیْ وَالْعَظَمَۃُ إِزَارِیْ مَنْ نَازَعَنِیْ وَاحِدًا مِنْہُمَا أَلْقَیْتُہٗ فِیْ جَہَنَّمَ ) [ رواہ ابن ماجۃ : باب البراء ۃ من الکبر التواضع ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تکبر میری چادر ہے اور عظمت میرا ازار ہے جو ان میں سے کوئی ایک مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اس کو جہنم میں پھینک دوں گا۔ “ شکرو کفر کا انجام : (وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَءِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَءِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ )[ ابراہیم : ٧] ” اور جب تمہارے رب نے اعلان کیا اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا۔ اور اگر تم ناشکری کرو تو میرا عذاب بڑا سخت ہے۔ “ (اِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ أَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ )[ الزمر : ١٠] ” صبر کروگے تو اس کا بےحدوحساب اجرپاؤ گے۔ “ مومن کا کردار : (عَنْ صُہَیْبٍ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب الْمُؤْمِنُ أَمْرُہُ کُلُّہُ خَیْرٌ] ” حضرت صہیب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کا معاملہ عجب ہے بیشک اس کے تمام کاموں میں بہتری ہے۔ مومن کے سوا ایسا کسی کے لیے نہیں ہے اگر مومن کو کوئی خوش کردینے والی چیز پہنچتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے پس یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی نعمت دینے کے بعد چھین لے تو انسان ناامید اور ناشکرا ہوجاتا ہے۔ ٢۔ انسان کو تکلیف کے بعد آسائش آئے تو فخر کرنا شروع کردیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن انسانوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہوتی ہے : ١۔ اگر انسان کو اللہ رحمت دے کر چھین لے تو یہ مایوس اور ناشکرا ہوجاتا ہے۔ (ہود : ٩) ٢۔ اگر انسان پر اس کے کرتوتوں کی وجہ سے مصیبت آجائے تو ناشکرا ہوجاتا ہے۔ (الشوریٰ : ٤٨) ٣۔ بیشک انسان بڑا ہی ناانصاف اور ناشکرا ہے۔ (ابراہیم : ٣٤) ٤۔ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ (بنی اسرائیل : ١٠٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ انسانوں پر فضل فرماتا ہے لیکن ان کی اکثریت شکرادا نہیں کرتی۔ (یونس : ٦٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تفسیر آیات 9 تا 11:۔ یہ لوگ مطالبہ نزول عذاب میں بےصبری کا مظاہرہ کر رہے ہیں ، انسانی مزاج کے اس پہلو پر یہاں مزید روشنی ڈالی جا رہی ہے کہ انسان کسی حالت پر بھی ثابت قدم اور صحیح رائے قائم کرنے میں صحیح الفکر نہیں ہوتا۔ اس کی نفسیات یہ ہیں : اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کردیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے۔ اور اگر اس مصیبت کے بعد جو اس پر آئی تھی ، ہم اسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں تو وہ کہتا ہے میرے سارے دلدر پار ہوگئے ، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔ اس عیب سے پاک اگر کوئی ہیں تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکو کار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔ انسان فطرتاً جلد باز اور پر تقصیرات ہے اور ان آیات (آیات 9 تا 11) میں اس کی کیا ہی اچھی تصویر کشی کی گئی ہے۔ وہ اس قدر کوتاہ نظر ہے کہ صرف حاضر حالات ہی کو دیکھ سکتا ہے اور اپنے اوپر وہی حالات طاری کردیتا ہے جو اس کے ماحول پر چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ نہ ماضی پر غور کرنے کی تکلیف کرتا ہے اور نہ مستقبل کی فکر کرتا ہے۔ کبھی وہ اس قدر مایوس ہوجاتا ہے کہ اسے کسی بھلائی کی اور اچھے حالات کی امید نہیں رہتی۔ اور اگر اچھے دن گزرتے ہیں تو وہ تمام گزشتہ نعمتوں کا انکار کردیتا ہے۔ حالانکہ یہ تو اللہ کی جانب سے ایک انعام و اکرام تھا۔ اس کا کوئی استحقاق نہ تھا اور مشکلات کے بعد اگر اس کے اچھے دن آجائیں تو وہ آپے سے باہر ہوجاتا ہے ، غرور کرتا ہے۔ نہ وہ مشکلات بردشت کرکے اللہ کے رحم و کرم کا امیدوار ہوتا ہے اور نہ اپنی خوشی میں اعتدال اختیار کرتا ہے اور خوشیوں اور نعمتوں کے زوال کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتا ہے۔ اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِيْرٌ۔ اس عیب سے پاک اگر کوئی ہیں تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکو کار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔ یعنی انہوں نے انعامات و اکرامات پر بھی صبر کیا اور مشکلات پر بھی صبر کیا۔ مشکلات میں تو بیشتر لوگ صبر کرتے ہیں اپنی خود داری اور سفید پوشی کی وجہ سے اور اس لیے کہ ان کی کمزوری اور مشکلات کا لوگوں کو پتہ نہ لگ جائے۔ لیکن کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خوشحالی اور مالداری میں اپنے آپ کو سنبھال سکتے ہیں اور غرور اور سرکشی سے اپنے آپو کو بچا سکتے ہیں۔ تاہم جو لوگ اچھی روش بحال رکھتے ہیں ، مشکلات میں بھی اور خوشحالی میں بھی اچھے کام کرتے ہیں اور نعمتوں کا شکر کا دا کرتے ہیں یعنی وعملوا الصلحات کے پیکر ہوتے ہیں ان کے متعلق ارشاد ہے۔ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِيْرٌ۔ وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔ اس لیے کہ انہوں نے مشکلات میں صبر کیا اور خوشحالی میں انہوں نے سنجیدگی اور اعتدال سے کام لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک سنجیدہ اور مخلص اور سچا ایمان ہی انسان کو نہایت ہی مشکل حالات میں کافرانہ مایوسی سے بچاتا ہے۔ اسی طرح سچا ایمان باللہ ہی انسان کو اس کی خوشحالی اور فراوانی میں کبر و غرور سے بچاتا ہے۔ غرض قلب انسانی کو یہ سچا ایمان ہی اچھے اور برے دونوں حالات میں متوازن اور مستقیم رکھتا ہے۔ اور قلب مومن اچھی طرح بندھا ہوا ہوتا ہے۔ مشکلات اور مصائب ڈانواں ڈول نہیں ہوتا اور خوشحالی اور مالداری میں پھولتا نہیں اور یوں اہل ایمان کی دونوں حالات اچھے رہتے ہیں اور اہم مقام صرف مومنین کو ملتا ہے جس طرح حضور نے فرمایا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

نا امیدی ‘ ناشکری ‘ اترانا ‘ شیخی بگھارنا انسان کا خاص مزاج ہے ان دو آیتوں میں انسان کا مزاج اور اس کا طرز عمل بیان فرمایا کہ اگر ہم انسان کو اپنی رحمت اور مہربانی کا مزہ چکھا دیں اور پھر اس سے چھین لیں تو وہ ناامید بھی ہوجاتا ہے اور ناشکرا بھی ‘ نعمت کے چلے جانے کی وجہ سے واویلا کرتا ہے صبر کر کے آئندہ بھلائی اور خیر کی جو امید ہونی چاہئے تھی اسے بالکل ختم کردیتا ہے اور نہ صرف یہ کہ آئندہ کے لئے ناامید ہوجاتا ہے بلکہ اس سے پہلے جن نعمتوں میں تھا ان کا شکر بھی ادا نہیں کرتا اور جو موجودہ نعمتیں ہیں ان کے شکر سے بھی باز رہتا ہے انسان کے طرز عمل کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جب اسے دکھ تکلیف کے بعد نعمت مل جائے تو اس نعمت کا مزہ چکھنے کے بعد کہتا ہے کہ میرا سب دکھ درد رخصت ہوا اب تو میں نعمتوں ہی میں رہوں گا اور اپنے وہم میں یہ بات بھی نہیں لاتا کہ یہ نعمتیں چھینی جاسکتی ہیں اور رخصت ہوسکتی ہیں اللہ تعالیٰ کی ناشکری میں لگ جاتا ہے اور پھولا نہیں سماتا۔ اترانے لگتا ہے شیخی بگھارتا ہے دوسروں کے مقابلہ میں اپنے کو بڑا سمجھتا ہے ‘ یہ انسانوں کا عام مزاج ہے۔ البتہ کچھ لوگ مستثنیٰ بھی ہوتے ہیں جنہیں (اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ) میں بیان فرمایا ہے یعنی انسانوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو صبر کرتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں ‘ یہ لوگ نعمت جانے پر اور مصیبت کے آنے پر صبر کرتے ہیں اعمال صالحہ میں مشغول رہتے ہیں ‘ جن میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر بھی ہے ‘ وہ نیک اعمال میں لگے رہتے ہیں خوشحالی اور دکھ تکلیف کی حالت میں اعمال صالحہ کو نہیں چھوڑتے ‘ نہ اللہ تعالیٰ سے ناامید ہوتے ہیں نہ نعمتوں پر اتراتے ہیں نہ شیخی بگھارتے ہیں نہ دوسروں کو حقیر جانتے ہیں ‘ صبرو توکل کی شان سے متصف ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے خوشحالی کی امید رکھتے ہیں ایسے لوگوں کا انعام بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا (اُولٰٓءِکَ لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ کَبِیْرٌ) ان کے لئے عظیم مغفرت ہے اور بڑا اجر ہے جو ابدی نعمتوں کی صورت میں انہیں ملے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ یہ زجر ہے اور الانسان سے مشرک انسان مراد ہے فرمایا جب ہم مشرکوں کو انسان مراد ہے فرمایا جب ہم مشرکوں کو رحمت سے نوازتے ہیں اور دنیوی آرام و راحت اور فراخی عیش کا ان پر دروازہ کھول دیتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کے خود ساختہ معبودوں کی مہربانی ہے۔ پھر جب ہم نے کے آرام و عیش کو تکلیف اور تنگدستی سے بدل دیتے ہیں تو وہ اپنے معبودوں سے مایوس ہوجاتے ہیں اور ان کا عقیدہ ڈانواں ڈول ہوجاتا ہے اور وہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ ہمارے معبود تو کچھ نہیں کرسکتے اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کو پکارنے لگ جاتے ہیں۔ وَلَئِنْ اَذَقْنٰهُ نَعْمَاءَ الخ : لیکن جب پھر ہم اس کی تکلیف، تنگدستی اور مصیبت وگیرہ دور کر کے اسے دوبارہ راحت و عیش سے ہمکنار کردیتے ہیں تو وہ ہماری ناشکر کر کے اس انعام واکرام کو اپنے معبودوں کی طرف منسوب کر کے کہتا ہے کہ ان کی مہربانی سے مصیبتیں ٹل گئی ہیں جیسا کہ سورة زمر میں فرمایا وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌ دَعَا رَبَّهٗ مُنِیْبًا اِلَیْهِ ثُمَّ اِزَا خَوَّلَهٗ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِیَ مَا کَانَ یَدْعُوْا اِلَیْهِ مِنْ قَبْلُ وَ جَعَلَ لِلّٰهِ اَنْدَادًا (زمر رکوع 1) ۔ اسی طرح سورة حم السجدہ رکوع 6 میں فرمایا ل۔ لَا یَسْئَمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَاءِ الْخَیْرِ وَاِنْ مَسَّهٗ الشَّرُّ فَیَئُوسٌ قَنُوْطٌ وَ لَئِنْ اَذَقْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنَّا مِنْ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْہُ لَیَقُوْلَنَّ ھٰذَا لِیْ الایۃ۔ یعنی مشرک انسان اپنے معبودان باطلہ سے حاجات مانگتا ہو اتھکتا نہیں اور اگر اسی دوران میں اس پر کوئی مصیبت آجائے تو اپنے معبودوں سے نامید ہوجاتا ہے اس کے بعد اگر ہم اس کی مصیبتیں دور کر کے اسے راحت کی زندگے سے بہرہ ور کردیں تو ہمارا شکر ادا کرنے کے بجائے کہتا ہے مجھے معلوم تھا کہ اگر میں ان معبودوں کی نیازیں دوں گا تو میری مشکلیں آسان ہوجائیں گی اور مجھ پر بھلے دن آجائیں گے چناچہ ایسا ہی ہوا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

9 اور اگر ہم انسان کو اپنی کسی نعمت کا مزہ چکھائیں اور اس کو اپنی نعمت اور مہربانی سے لطف اندوز کریں پھر وہ نعمت اس سے سلب کرلیں اور چھین لیں تو وہ ناامید اور ناسپاس ہوجاتا ہے یعنی جب کوئی نعمت سلب ہوجاتی ہے تو نا امیدی اور ناشکری کا اظہار کرتا ہے۔