Commentary In the verses appearing above, it has been confirmed that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is a Messenger of Allah and an answer has been given to those who engineer doubts about it. At the beginning, in the first three verses (9-11), an instinctively bad human habit has been mentioned with an instruction to Muslims that they should stay away from it. That man is naturally fickle-minded and haste-prone, and that he tends to be consumed by his immediate condition and puts all concerns of the past and future out of his mind, has been described in the first two verses (9, 10). It has been said: If We let man taste a blessing and then take it back, he loses courage and hope and turns ungrateful. And if We let him taste a blessing after he has suffered from some hardship, he forgets all about his suffering and starts bragging and boasting. In other words, man is given to hurry things, takes the present as everything, does not bother to refer to the past or show concern for the future, therefore, a suffering after a blessing makes him lose hope and slide into ungratefulness. He never thinks that Allah who blessed him first could bless him again. Similarly, if one gets comfort after suffer¬ing, then he, rather than recall his past suffering, turn to Allah and be grateful to Him, starts waxing more proud and arrogant. In that state, he forgets his past and goes about thinking that Allah&s blessings were his right, he has to have these, and that he remains under the impres¬sion that this was how he would continue for the rest of his life. So heedless he becomes that it just does not occur to him that the way the days of suffering did not continue any more, the same thing could hap-pen to the days of comfort and they too could vanish. Such is the state of human worship of the present and so tragic is the penchant for forgetting the past and the present that a power-hungry man would not even blink to raise the edifice of his power on the blood and dust of another man of power. Always looking up, he would never look down to recall that this had been the fate of the man of power before him. Sad ends and ill fates make no effect on him for power in the present tastes good. When people start worshipping the present and elect to remain drunk with the state they are in, that is high time for Books of Allah and His Messengers to come. When they do, they bring the lesson-oriented events of the past into sharp focus for heedless man to see things in this perspective and have a little concern for what would happen to them in the future. The lesson they teach is: Ponder over the changing conditions of the universe you are in and get to know the power working behind these - great sermonizers from the Lord! A perfect believer, in fact, a perfect human being is one who is able to perceive the hidden Power behind every change, revolution, sorrow and comfort, ignore their transitory phases, dismiss their material causes as the sole explanation. The mark of an intelligent person is that he looks at the originator or causer of causes more than he would look at causes, and it is with Him alone that he would relate to as firmly as possible.
خلاصہ تفسیر اور اگر ہم انسان کو اپنی مہربانی کا مزا چکھا کر اس سے چھین لیتے، ہیں تو وہ ناامید اور ناشکرا ہوجاتا ہے اور اگر اس کو کسی تکلیف کے بعد جو کہ اس پر واقع ہوئی ہو کسی نعمت کا مزا چکھاویں تو ( ایسا اتراتا ہے کہ) کہنے لگتا ہے کہ میرا سب دکھ درد رخصت ہوا ( اب کبھی نہ ہوگا پس) وہ اترانے لگتا ہے شیخی بگھارنے لگتا ہے مگر جو لوگ مستقل مزاج ہیں اور نیک کام کرتے ہیں ( مراد اس سے مؤمنین ہیں کہ ان میں کم وبیش یہ خصائل ہوتے ہیں سو) وہ ایسے نہیں ہوتے ( بلکہ زوال نعمت کے وقت صبر سے کام لیتے ہیں اور عطاء نعمت کے وقت شکر و اطاعت بجا لاتے ہیں پس) ایسے لوگوں کے لئے بڑی مغفرت اور بڑا اجر ہے ( خلاصہ یہ ہے کہ بجز مؤمنین کے اکثر آدمی ایسے ہی ہیں کہ ذرا سی دیر میں نڈر ہوجاویں ذرا سی دیر میں ناامید ہوجاویں اس لئے یہ لوگ تاخیر عذاب کے سبب بےخوف اور منکر ہوگئے، یہ لوگ جو انکار و استہزاء سے پیش آتے ہیں) سو شاید آپ ( تنگ ہوکر) ان احکام میں سے جو کہ آپ کے پاس وحی کے ذریعہ بھیجے جاتے ہیں بعض کو ( یعنی تبلیغ کو) چھوڑ دینا چاہتے ہیں ( یعنی کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ تبلیغ ترک کردیں سو ظاہر ہے کہ ایسا ارادہ تو آپ کر نہیں سکتے پھر تنگ ہونے سے کیا فائدہ) اور آپ کا دل اس بات سے تنگ ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ( اگر یہ نبی ہیں تو) ان پر کوئی خرانہ کیوں نہیں نازل ہوا یا ان کے ہمراہ کوئی فرشتہ ( جو ہم سے بھی بولتا چالتا) کیوں نہیں آیا ( یعنی ایسے معجزات کیوں نہیں دیئے گئے سو ایسی باتوں سے آپ تنگ نہ ہوجئے کیونکہ) آپ تو ( ان کفار کے اعتبار سے) صرف ڈرانے والے ہیں ( یعنی پیغمبر ہیں جس کے لئے دراصل کسی بھی معجزے کی ضرورت نہیں) اور پورا اختیار رکھنے والا ہر شئے پر ( تو) صرف اللہ ہی ہے ( آپ نہیں ہیں، جب یہ بات ہے تو ان معجزات کا ظاہر کرنا آپ کے اختیار سے باہر ہے پھر اس کی فکر اور اس فکر سے تنگی کیوں ہو اور چونکہ پیغمبر کے لئے مطلق معجزہ کی ضرورت ہے اور آپ کا بڑا معجزہ قرآن ہے تو اس کو نہ ماننے کی کیا وجہ) کیا ( اس کی نسبت) یوں کہتے ہیں کہ ( نعوذ باللہ) آپ نے اس کو ( اپنی طرف سے) خود بنا لیا ہے، آپ جواب میں فرما دیجئے کہ ( اگر یہ میرا بنایا ہوا ہے) تو ( اچھا) تم بھی اس جیسی دس سورتیں (جو تمہاری) بنائی ہوئی ( ہوں) لے آؤ اور ( اپنی مدد کے لئے) جن جن غیر اللہ کو بلا سکو بلا لو اگر تم سچے ہو پھر یہ کفار اگر تم لوگوں کا ( یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مؤمنین کا یہ) کہنا ( کہ اس کی مثل بنا لاؤ نہ کرسکیں تو تم ( ان سے کہہ دو کہ اب تو) یقین کرلو کہ یہ قرآن اللہ ہی کے علم ( اور قدرت) سے اترا ہے ( اس میں اور کسی کے نہ علم کا دخل ہے اور نہ قدرت کا) اور یہ ( بھی یقین کرلو) کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں ( کیونکہ معبود خدائی کی صفات میں کامل ہوتا ہے پھر اگر اور کوئی ہوتا تو اس کو قدرت بھی پوری ہوتی اور اس قدرت سے وہ تم لوگوں کی مدد کرتا کہ تم اس کی مثل لے آتے کیونکہ موقع تحقیق دین کا اس کو مقتضی تھا پس اس کے مثل بنانے سے ان کے عاجز ہونے سے رسالت اور توحید دونوں ثابت ہوگئے جب دونوں ثابت ہوگئے) تو اب بھی مسلمان ہوتے ہو ( یا نہیں ) ۔ معارف و مسائل آیات مذکورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی تصدیق اور اس میں شبہات نکالنے والوں کا جواب مذکور ہے، اور اس کے شروع یعنی پہلی تین آیتوں میں انسان کی ایک طبعی عادت قبیحہ کا ذکر اور مسلمانوں کو اس سے بچنے کی ہدایت ہے۔ پہلی دو آیتوں میں فطری طور پر انسان کا غیر مستقل مزاج، جلدی پسند ہونا اور موجودہ حالت میں کھپ کر ماضی و مستقبل کو بھلا دینا بیان فرمایا ہے، ارشاد ہے کہ اگر ہم انسان کو کوئی نعمت چکھاتے ہیں اور پھر اس سے واپس لے لیتے ہیں تو وہ بڑا ہمت ہار، ناامید اور ناشکرا بن جاتا ہے، اور اگر اس کو کسی تکلیف کے بعد جو اس کو پیش آئی ہو کسی نعمت کا مزا چکھا دیں تو کہنے لگتا ہے کہ میرا سب دکھ درد رخصت ہوا اور وہ اترانے اور شیخی بگھارنے لگتا ہے۔ مطلب یہ کہ انسان فطرتا عاجل پسند اور موجودہ حالت کو سب کچھ سمجھنے کا عادی ہوتا ہے اگلے پچھلے حالات و واقعات میں غور و فکر اور ان کو یاد رکھنے کا خوگر نہیں ہوتا اسی لئے نعمت کے بعد تکلیف آجائے تو رحمت سے ناامید ہو کر ناشکری کرنے لگتا ہے، یہ خیال نہیں کرتا کہ جس ذات حق نے پہلے نعمت دی تھی وہ پھر بھی دے سکتا ہے، اسی طرح اگر اس کو تکلیف و مصیبت کے بعد کوئی راحت و نعمت مل جائے تو بجائے اس کے کہ پچھلی حالت میں غور کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوتا اس کا شکر کرتا، اور زیادہ اکڑنے اترانے لگتا ہے، اور پچھلی حالت کو بھول کر یوں سمجھنے لگتا ہے کہ یہ نعمت تو میرا حق ہے مجھے ملنا ہی چاہئے اور میں ہمیشہ اسی طرح رہوں گا، غافل یہ خیال نہیں کرتا کہ جس طرح پہلی حالت باقی نہیں رہی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ نعمت و راحت کی حالت بھی باقی نہ رہے۔ چنان نماند چنین نیزہم نخواہد ماند انسان کی موجود پرستی اور ماضی و مستقبل کو بھول جانے کا یہ عالم ہے کہ ایک صاحب اقتدار کے خاک و خون پر دوسرا شخص اپنے اقتدار کی بنیاد استوار کرتا ہے اور کبھی نیچے کی طرف نظر نہیں کرتا کہ اس سے پہلا صاحب اقتدار بھی اسی طرح رہا کرتا تھا، اس کے انجام سے بیخبر ہو کر نشہ اقتدار کے مزے لیتا ہے۔ اسی موجود پرستی اور حال مستی کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کی کتابیں اور رسول آتے ہیں جو انسان کو ماضی کے عبرتناک واقعات یاد دلا کر مستقبل کی فکر سامنے کرد یتے ہیں اور یہ سبق سکھاتے ہیں کہ کائنات کے بدلتے ہوئے حالات و تغیرات میں غور کرو کہ کونسی طاقت ان کے پردے میں کام کر رہی ہے، بقول حضرت شیخ الہند انقلابات جہاں واعظ رب ہیں دیکھو ہر تغیر سے صدا آتی ہے فافہم، فافہم مؤ من کامل بلکہ انسان کامل وہی ہے جو ہر تغیر و انقلاب اور ہر رنج و راحت میں دست قدرت کی مستور طاقت کا مشاہدہ کرے، آنی فانی راحت و رنج اور اس کے صرف مادی اسباب پر دل نہ لگائے عقلمند کا کام یہ ہے کہ اسباب سے زیادہ مسبب الاسباب کی طرف نظر کرے، اسی سے اپنا رشتہ مضبوط باندھے۔