تعارف : تیرہ سال مکہ مکرمہ میں اور دس سال تک مدینہ منورہ میں صحابہ کرام (رض) نے دین اسلام کی سربلندی اور عظمت کے لئے وہ بےمثال قرابانیاں پیش کی ہیں جن کی مثال پوری تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ ان قربانیوں کا مقصد کسی ملک پر قبضہ یا اقتدار نہ تھا بلکہ وہ اپنے جان و مال سے محض اللہ کو راضی کرنے کے لئے جدوجہد اور کاوشیں کرنا تھا۔ لیکن ایک فطری بات ہے کہ شدید ترین مشکلات اٹھانے کے بعد اگر اس کے بہتر نتیجے کی کوئی خوش خبری سنائی جائے تو انسان کو اس سے بڑی خوش ہوتی ہے ۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں شدید ترین حالات کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمادیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب اللہ کی طرف سے فتح اور کامیابی آجائے اور آپ یہ دیکھیں کہ لوگ اسلام میں گروہ کے گروہ جماعتیں کی جماعتیں داخل ہو رہی ہیں تو اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے اس کی حمد وثنا کیجئے اور دعائے استغفار کا سہارا لیجئے۔ کیونکہ اللہ اپنے بندوں بہت مہربان ہے۔ سورة النصر جو کہ سب سے آخری سورت ہے اس کے بعد ایک ایک دودو آیتیں تو نازل ہوئی مگر کوئی سورت نازل نہیں ہوئی اسی لئے علماء کرام نے فرمایا ہے کہ مکہ مکرمہ میں سب سے پہلے جو سورت نازل ہوئی وہ سورة فاتحہ ہے اور مدنی دور میں بالکل آخر میں جو سورت نازل ہوئی وہ سورة النصر ہے۔ سورة النصر نازل ہونے کے اسی دن (٨٠) بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب اعلیٰ سے جا ملے۔ بہت سی روایت وہ بھی ہیں جن میں خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے اس سورت کے ذریعہ بتادیا گیا ہے کہ آپ بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں چناچہ سورة النصر کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کثرت سے ……… پڑھا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے میرے رب نے اطلاع دی ہے کہ آپ بہت جلد اپنی امت میں ایک علامت دیکھیں گے۔ جب وہ علامت نظر آجائے تو کثرت سے استغفار کیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے وہ نشانی دیکھ لی ہے اور اس کے بعد آپ نے سورة النصر کی تلاوت فرمائی۔ (مسلم) ۔ یعنی آپ کو بتا دیا گیا تھا کہ وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے جب ساری دنیا پر مسلمانوں کو غلبہ اور اقتدار عطا کردیا جائے گا اور لوگ بڑی تعداد میں دین اسلام قبول کرلیں گے۔ اور اس طرح آپ کو وہ مشن اور مقصد پورا ہوجائے گا جس کے لئے اللہ نے آپ کو بھیجا تھا۔ یوں تو ایمان لانے والے ایمان لا ہی رہے تھے لیکن ہر جگہ پھیلی ہوئی ایک بہت بڑی تعداد تھی جو کافروں کے ظلم و ستم کی وجہ سے اپنے ایمان کا اظہار نہیں کرسکتی تھی۔ جیسے ہی مکہ فتح ہو اور کفر کی کمر توڑ کر رکھ دی گء تو پھر تمام وہ لوگ جن کے دلوں میں اسلام کی عظمت بیٹھ چکی تھی وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن اطاعت و محبت سے وابستہ ہوتے چلے گئے۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ فتح مکہ پر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے رب نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا تھا وہ پورا کردیا اور اس کے بعد آپ نے سورة النصر کی تلاوت فرمائی۔
سورة النّصر کا تعارف یہ سورت مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی اس کی تین آیات ہیں جنہیں ایک رکوع قرار دیا گیا ہے۔ اس کا نام اس کی پہلی آیت کے تیسرے لفظ میں مذکور ہے اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عظیم کامیابی کی خوشخبری سنانے کے بعد یہ فرمایا گیا کہ آپ کو اپنے رب کی تعریف کرنی چاہیے اور اس کے حضور توبہ و استغفار کرتے رہنا چاہیے۔
سورة النصر ایک نظر میں اس مختصر سورت کے دو پہلو ہیں ، ایک تو یہ ہے کہ یہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ایک خوشخبری ہے کہ آپ کو فتح نصیب ہونے والی ہے اور اس فتح کے نتیجے میں لوگ جوق در جوق آپ کے دین میں شامل ہوں گے جو اللہ کا دین ، اس لئے جب یہ موقعہ آجائے تو آپ کے لئے ہدایت یہ ہے کہ پھر آپ اللہ کی حمدوثنا کریں اور تسبیح وتہلیل کرتے رہیں اور اللہ سے بخشش طلب کریں۔ ایک تو یہ پہلو ہے دوسرا یہ ہے کہ یہ سورت اس دین اور اس نظام اور اس نظریہ حیات کے حقیقی مزاج کو واضح کرتی ہے کہ اسلامی نظریہ حیات انسانت کو آزادی ، رفعت اور کرامت اور خلوص عطا کرتا ہے اور ایک روشن مستقبل اور ایک بلندو برتر مقام عطا کرتا ہے ۔ وہ مقام جس تک وہ نہ اس نظریہ سے پہلے پہنچ سکی اور نہ بعد میں ۔ اور آئندہ بھی انسانیت کو یہ رفعت صرف اسلام کی روشنی میں نصیب ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ وہ اسلامی دعوت پر لبیک کہے۔ اس سورت کے نزول کے بارے میں متعدد روایات وارد ہیں۔ ہم ان میں سے امام احمد کی روایت کرلیتے ہیں۔ محمد ابن عدی روایت کرتے ہیں داﺅد سے ، وہ شعبی سے ، وہ مسروق سے ، وہ کہتے ہیں : حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے آخری زمانے میں۔ سبحان اللہ وبحمدہ استغفر اللہ واتوب الیہ۔ بڑی کثرت سے پڑھتے تھے۔ آپ نے فرمایا : ” میرے رب نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ تم اپنی امت میں ایک علامت پاﺅ گے اور جب وہ تم نے وہ علامت دیکھ لی تو اللہ کی تعریف کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔ اس سے طلب مغفرت کرو۔ بیشک وہ مغفرت کرنے والا ہے “۔ میں نے وہ علامت دیکھ لی ہے اور وہ یہ ہے۔ اذاء .................................... کان توابا (1:110 تا 3) ” جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہوجائے اور تم دیکھ لو کہ لوگ فوج درفوج اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اور اس سے مغفرت کی دعا مانگو ، بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے “۔ (امام مسلم از طریق داﺅد ابن ہند) امام ابن کثیر کہتے ہیں اس سورت میں فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عرب کے تمام قائل فتح مکہ کا انتظار کررہے تھے کہ فتح ہو تو وہ اسلام قبول کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حضرت محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) اپنی قوم پر غالب ہوگئے تو وہ نبی برحق ہوں گے۔ جب اللہ نے فتح مکہ نصیب کی تو شام عرب فوج درفوج دین اسلام میں داخل ہوگئے۔ دو سال نہ گزرے تھے کہ تمام جزیرة العرب نے ایمان قبول کرلیا۔ اور تمام قبائل عرب اقرار ایمان کرنے لگے۔ الحمدللہ۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں عمر ابو سلمہ کی یہ روایت نقل کی ہے۔ جب فتح مکہ ہوگیا تو تمام اقوام دوڑ کر اسلام قبول کرنے لگیں اور رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اس سے قبل ، تمام قبائل فتح مکہ کے انتظار میں تھے ، ان کا کہنا یہ تھا کہ حضرت محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) اور اس کی قوم کو ایک دوسرے کے مقابلے میں چھوڑ دو ۔ اگر وہ اپنی قوم پر غالب آگئے تو وہ نبی ہیں (بخاری) اس سورت کے ظاہری مفہوم اور عبارت کے ساتھ یہ روایت مطابقت رکھتی ہے۔ اذا جآء ........................ والفتح (1:110) ” جب اللہ کی نصرت آجائے اور فتح ہو “۔ تو اس میں کسی ایسے امر کی طرف اشارہ ہے جو آنے والا ہے۔ اور اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ جب یہ امر واقع ہوجائے تو آپ نے یہ یہ کام کرنے ہوں گے۔ ایک دوسری روایت بھی اس موضوع پر ہے جو ابن عباس (رض) ہی سے مروی ہے۔ اس روایت اور مذکورہو بالا روایت جس کو ہم نے اختیار کیا ہے ان کے درمیان تطبیق کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ امام بخاری کہتے ہیں ، کہ موسیٰ ابن اسماعیل نے بیان کیا ابوعوانہ سے ، انہوں نے ابو بشر سے ، انہوں نے سعید ابن جبیر سے ، انہوں نے ابن عباس (رض) سے وہ فرماتے ہیں حضرت عمر مجھے شیوخ بدر کے ساتھ اپنے ہاں بلایا کرتے تھے۔ بعض نے اس بات کو محسوس کیا کہ یہ حضرت عمر (رض) کے پاس ہمارے ساتھ کیوں جاتے ہیں۔ ان کی عمر کے تو ہمارے لڑکے ہیں ، تو انہوں نے کہا کہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں تم جانتے ہو۔ ایک دن حضرت عمر (رض) نے ان لوگوں کو بلایا اور مجھے بھی ان کے ساتھ بلایا۔ میں سمجھ گیا کہ آج حضرت عمر (رض) نے مجھے ان لوگوں کے ساتھ اس لئے بلایا ہے کہ انہیں دکھائیں۔ تو حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا۔ اذا جآء ........................ والفتح (1:110) کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ بعض نے کہا ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اللہ کی حمد بیان کریں ، اس سے مغفرت کی دعا کریں اس لئے کہ اس نے ہماری نصرت کی اور ہمیں فتح نصیب ہوئی اور بعض دوسرے خاموش ہوگئے اور انہوں نے کوئی بات نہ کہی۔ پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا ابن عباس تمہاری بھی یہی رائے ہے ؟ تو میں نے کہا نہیں ، تو انہوں نے فرمایا پھر تمہاری رائے کیا ہے۔ تو میں نے کہا کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ” اجل “ کا اظہار ہے۔ اللہ نے پہلے سے آپ کو بتادیا (کہ اس دنیا میں اب آپ کا وقت کم ہے) اللہ نے فرمایا۔ اذا جآء ........................ والفتح (1:110) ” جب اللہ کی مدد آگئی اور فتح ہوگی تو یہ علامت ہے آپ کی وفات کی۔ اس لئے آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کریں اور اس سے دعائے مغفرت کریں بیشک اللہ بخشش کرنے والا ہے۔ تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا میرے علم میں بھی وہی بات ہے جو تم کہتے ہو۔ (بخاری) یہ بات ہماری رائے کے ساتھ متضاد نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کی بتائی ہوئی علامت دیکھی ہو اور یہ بات سمجھ گئے ہوں کہ ان کا فریضہ ادا ہوچکا ۔ اور یہ کہ وہ عنقریب رفیق اعلیٰ کے ساتھ ملنے والے ہیں۔ یہ ہے مفہوم حضرت ابن عباس کے قول کا کہ اس میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی بات کی گئی ہے۔ ہاں ایک دوسری حدیث جسے امام بیہقی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب سورت۔ اذا جآء ........................ والفتح (1:110) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ (رض) کو بلایا اور فرمایا ” مجھے میری موت کی اطلاع دے دی گئی ہے “ تو وہ روپڑیں اور پھر ہنس پڑیں۔ اور آپ نے فرمایا مجھے حضور نے خبر دی کہ مجھے میری موت کی اطلاع دی گئی ہے تو میں روپڑی اور پھر حضور نے فرمایا ” صبر کرو تم میرے اہل و عیال میں سب سے پہلے مجھے ملوگی “۔ اس پر میں ہنس پڑی۔ اس حدیث میں اس سورت کے نزول کا وقت متعین کردیا گیا ہے۔ گویا یہ اس وقت نازل ہوئی جب علامت واقع ہوگئی تھی اور تمام عرب فوج درفوج اللہ کے دین میں داخل ہوگئے تھے۔ جب یہ سورت علامت کے مطابق نازل ہوئی تو حضور نے اس بات کو سمجھ لیا کہ اب رحلت کا وقت قریب ہے۔ مگر ہم نے جو پہلی بات کی ہے وہ زیادہ قابل اعتماد اور مضبوط ہے۔ اور آیت کی ظاہری عبارت سے بھی زیادہ قریب ہے۔ خصوصاً اگر یہ بات پیش نظر رکھی جائے کہ حضرت فاطمہ (رض) کے ہنسنے اور رونے کی حدیث کو ایک دوسرے انداز سے بھی نقل کیا گیا ہے اور اس کو یہ ترجیح دیتے ہیں۔ حضرت ام سلمہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ (رض) کو فتح کے سال بلایا اور ان کے ساتھ سرگوشی میں کوئی بات کی تو وہ روپڑیں۔ اس کے بعد آپ نے ان سے مزید کوئی بات کی تو وہ ہنس پڑیں۔ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ فوت ہوئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ سے رسول خدا نے کیا بات کی تھی کہ آپ روپڑیں اور پھر ہنس پڑیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مجھے رسول خدا نے یہ اطلاع دی کہ آپ جلد ہی فوت ہوجائیں گے تو میں روپڑیں ، اس کے بعد مجھے انہوں نے یہ اطلاع دی کہ تم جنت کی عورتوں کی سردار ہوگی ، ماسوائے مریم بنت عمران کے ، تو میں ہنس پڑی۔ یہ روایت نص قرآنی کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہے۔ اور امام احمد کی روایت کے ساتھ بھی متفق ہے۔ خلاصہ یہ کہ اللہ اور رسول خدا کے درمیان ایک علامت تھی اور وہ تھی۔ اذا جآء ........................ والفتح (1:110) اور جب فتح ہوگئی تو معلوم ہوگیا کہ حضور کی رحلت اور رفیق اعلیٰ سے ملنے کا وقت قریب آگیا ہے۔ اس وقت آپ نے یہ بات حضرت فاطمہ (رض) کے گوش گزار کی جیسا کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے روایت فرمائی۔ ان سب روایات سے ہم ایک دائمی اور مستقل نکتہ اخذ کرتے ہیں کہ اس مختصر سورت میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ انسانیت کو ایک نہایت اعلیٰ مقام تک بلند کرنا چاہتا ہے۔ وہ کیا سربلندی ہے ؟ ٭٭٭٭