تعارف : قرآن کریم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ حسنہ سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ ایمان اور حسن عمل کے ساتھ ساتھ اور اس کے رسول کی محبت اور اطاعت وہ سچی بنیاد ہے جس پر دنیا اور آخرت کی نجات کا دارومدار ہے۔ کوئی اپنا ہو یا بیگانہ، چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت جو بھی حق و صداقت اور اطاعت و محبت کے راستے کو اپنائے گا وہی کامیاب ہوگا۔ اطاعت اور محبت ان دونوں کو چولی دامن کا ساتھ ہے۔ محض اطاعت اور اس میں محبت نہ ہو تو اس کو منافقت کہتے ہیں۔ اور محض محبت ہو اور اطاعت نہ ہو تو اس کو بدعت کہتے ہیں۔ قرآن و سنت کے مطابق منافقت اور بدعت دونوں انسانوں کو جہنم کی طرف دھکیل دیتے ہیں اور کسی حال میں قبول نہیں ہیں۔ چناچہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حقیقی چچا ابو لہب اور اس کی بیوی ام جمیل دونوں اپنے بھتیجے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس قدر والہانہ محبت کرتے تھے کہ ان کو ایک پل کے لئے بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتے تھے۔ محبت کا یہ حال تھا کہ جب ایک لونڈی (ثوبیہ) نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش کی خوش خبری سنائی تو وہ خوشی سے جھوم اٹھا اور اس نے خوش خبری لانے والی لونڈی کو آزاد کردیا۔ لیکن جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوہ صفا پر قریش اور ان کے سرداروں کو آواز دے کربلایا اور یہ کہا کہ بہت جلد شیطان کا لشکر تم پر حملہ کرنے والا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک اللہ کی اطاعت و بندگی کرنے اور لکڑی ، پتھر اور مٹی سے بنائے گئے بتوں اور ان کی رسموں کو چھوڑنے کے لئے کہا تو اس آواز کی شدت سے مخالفت کرنے والا ابو لہب تھا جس نے کہا تھا ”…………“ (نعوذ باللہ) تمہارے ہاتھ ٹوٹ جائیں کیا تم نے یہی سب کچھ سنانے کیلئے ہمیں جمع کیا تھا ؟ اس نے ہاتھوں میں پتھر اٹھا کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مارنے کی دھمکی دی۔ اس کے بعد ابو لہب کا یہ حال ہوگیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاں بھی تشریف لے جاتے یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پیچھے جاتا اور لگوں سے کہتا کہ اس کی بات نہ سنو یا باپ دادا کے دین سے پھر گیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورة لہب نازل کرکے بتا دیا کہ تباہی اور بربادی تو ابو لہب اور اس کی بیوی کے لئے ہے۔ مکہ کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ابو لہب بےانتہا مال و دولت اور اولاد رکھنے کے باوجود تباہ و برباد ہو کر رہا۔ ابو لہب کی بیوی ام جمیل بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں سب سے آگے تھے۔ اس کے گلے میں ایک قیمتی ہار تھا وہ کہتی تھی کہ میں اس ہار کو فروخت کرکے اس کی رقم سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدنام کرنے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کروں گی۔ قیامت میں اللہ تعالیٰ جب ابو لہب کو جہنم کے بھڑکتے شعلوں میں جھونک دیں گے تو ام جمیل لکڑیاں جمع کرکے اس آگ کو بھڑکانے کا کام کرے گی۔ اور وہی قیمتی ہار جس پر اسے بڑا ناز تھا اس ہار کے جہنم کی آگ پر تپا کر ام جمیل کو اس سے داغا جائے گا۔ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انکار کرنے والے ابو لہب اور اس کی بیوی کو یہ وہ بھیانک انجام ہے جس کو دنیا ہی میں بتا دیا گیا کہ محض رسول سے محبت ہی کافی نہیں ہے بلکہ محبت کے ساتھ اطاعت بھی ضروری اور لازمی ہے۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والے اور آپ کی محبت و اطاعت اختیار کرنے والوں میں سب سے اول ہیں وہ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بےانتہا محبت کرتے تھے اور آپ کے ہر حکم پر عمل کرنے کے لئے بےتاب رہا کرتے تھے۔ وہ درحقیقت اطاعت و محبت کا پیکر تھے اور ان کی زندگیاں ایسی مثالی ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے بھی ان کو دین کا بنیادی ستون اور آسمان نبوت کے ستارے قرار دیا ہے۔ وہ صحابہ کرام (رض) جنہوں نے اپنے ایمان اور حسن عمل سے ساری دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا اور بہت تھوڑے عرصے میں قیصر و کسریٰ اور کفر کی سلطنوں کو الٹ کر پھینک دیا اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیا۔ صحابہ کرام (رض) وہ عظیم ہستیاں ہیں جن پر کائنات کا ذرہ ذرہ نازل کرتا ہے اور ان کی طرف نسبت کرنے میں ہر شخص ایک خاص فخر محسوس کرتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب سیدنا ابوبکر صدیق (رض) اس دنیا سے رخصت ہوئے تو مدینہ منورہ اور اسلامی سلطنت کے درودیوار رو رہے تھے۔ ہر شخص کی آنکھ آنسوؤں سے تر تھی اور نہایت عزت و احترام سے آپ (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلو دفنایا گیا۔ لیکن ابو لہب کا انتہائی بدترین انجام ہوا۔ اس کو ایک ایسی گلٹی نکلی جس کو عرب ” عدسہ “ کی بیماری کہتے تھے۔ یہ ایک ایسی بیماری تھی کہ اس سے اس کا سارا بدن گل سڑک گیا، بدبو اور تعفن کا یہ حال تھا کہ کوئی اس کے قریب تک نہ جاتا تھا حتیٰ کہ ابو لہب کی بیوی ام جمیل اور اس کے بیٹے بھی اس کمرے میں نہیں جاتے تھے جہاں وہ شدید کرب اور اذیت کی تکلیف میں مبتلا تھا۔ جب ابو لہب اسی تنہائی میں مرگیا اور کئی دن گزرنے کے بعد اس کی لاش سے اٹھنے والی بدبو نے سب کو بےحال کردیا تو حبشی بدؤں کو بلا کر ان سے ابو لہب کی لاش کو اٹھویا گیا اور کسی دور دراز کی جگہ پھنکوا دیا گیا کہ جہاں اس کے وجود کا بھی پتہ نہ تھا۔ اس طرح قرآن کریم یہ یہ پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی کہ ابو لہب تباہ و برباد ہوگیا اس کا مال اور اس کی اولاد بھی اس کے کسی کام نہ آئی۔ یہ تو دنیا میں اس کا حشر ہوا لیکن آخرت میں تو اس کو ایسی بھڑکتی آگ میں جھونک دیا جائے گا کہ جب اس کی آگ کی شدت کم ہوگی تو ابو لہب کی بیوی لکڑیاں چن چن کر اس آگ میں ڈال کر اس کو بھڑکاتی رہے گا۔ اسی بات کو سورة ابی لہب کی اس مختصر سی سورت میں بیان کرکے اس اصول کو بتادیا گیا کہ اسلام میں اصل رشتہ ایمان کا رشتہ ہے۔ دنیاوی رشتوں کا فائدہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ایمان اور عمل صالح کو اختیار کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان پر ثابت قدمی اور حسن عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
سورة اللّہب کا تعارف یہ مکی سورت ہے اس کا ایک رکوع ہے جو پانچ آیات پر مشتمل ہے اس کا نام اس کی تیسری آیت کے آخر میں آیا ہے اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی دعوت کے سب سے بڑے مخالف ابو لہب اور اس کی بیوی کی ہلاکت کی اطلاع دی گئی ہے اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ جو شخص بھی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرے گا بالآخر وہ تباہ ہوجائے گا۔
سورة اللھب ایک نظر میں ابولہب کا نام عبدالعزی ابن عبدالمطلب تھا۔ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چچا تھا۔ ” ابولہب “ کے نام سے اس لئے مشہور ہوگیا کہ وہ شعلے کی طرح سرخ چہرہ رکھتا تھا۔ یہ اور ان کی بیوی ، ام جمیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت زیادہ اذیت دیتے تھے۔ اور دعوت اسلامی کے جانی دشمن تھے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھے حسین ابن عبداللہ بن عبیداللہ ابن عباس نے بتایا ، کہتے ہیں میں ربیعہ ابن معاذ دیلمی کو یہ کہتے سنا ” میں اپنے والد کے ساتھ تھا اور جوان تھا کہ کہ ایک نوجوان شخص (رسول اللہ) کو میں دیکھ رہا تھا کہ وہ ایک ایک قبیلے کے پاس جاتے ہیں ( اور ان کے پیچھے ایک دوسرا شخص ہے جو حسین و جمیل ہے اور بڑے بڑے بالوں والا ہے اور بھینگا ہے) اور کہتے ہیں :” اے نبی فلاں میں تمہاری طرف اللہ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ میں تمہیں یہ حکم دیتا ہوں کہ صرف اللہ کی بندگی کرو ، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، میری تصدیق کرو ، اور میری حمایت ومدافعت کرو تاکہ میں اس چیز کو نافذ کرسکوں جس کے ساتھ مجھے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا “۔ یہ نوجوان جب اپنی بات سے فارغ ہوتا تو اسے کے پیچھے کھڑا یہ دوسرا شخص یہ کہتا ” اے نبی فلاں یہ شخص یہ چاہتا ہے کہ تم لات اور عزیٰ کو چھوڑ دو ، اور بنی مالک ابن اعمس کے ان دوستوں کو بھی چھوڑ دو جو تمہارے حلیف ہیں اور اس بدعت اور گمراہی کو قبول کرلو جو یہ لے کر آیا ہے۔ اس کی بات نہ سنو اور نہ اس کی اطاعت کرو “۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا یہ شخص کون ہے ؟ تو انہوں نے کہا ” یہ ان کا چچا ابولہب ہے۔ (امام احمد و امام طبرانی) یہ ایک نمونہ ہے ابولہب کی سازشوں کا جو وہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی دعوت کے خلاف کرتا رہتا تھا۔ ام جمیل ، اس کی بیوی اس سلسلے میں اس کی معاون تھی۔ ان کی مہم نہایت ظالمانہ اور شدید تھی۔ ام جمیل کا نام اروی بنت حرب ابن امیہ ہے ۔ یہ ابوسفیان کی بہن تھی۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی دعوت کے خلاف ابولہب کا یہ رویہ اول روز سے تھا۔ امام بخاری نے اپنی سند کے ساتھ ، حضرت ابن عباس (رض) کی یہ روایت نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وادی بطحا کی طرف نکلے اور ایک پہاڑ پر چڑھ گئے اور پکارا ” باصباحاہ “ اس پر قریش سب کے سب پہاڑ پر جمع ہوگئے۔ تو آپ نے ان سے پوچھا کہ بتاﺅ اگر میں تم سے کہوں کہ دشمن تم پر صبح کو حملہ کرنے والا ہے یا شام کو تو کیا تم میری بات کی تصدیق کروگے ؟ تو انہوں نے کہا :” ہاں “۔ تو آپ نے فرمایا ” سنو ! میں تمہیں ایک شدید عذاب سے ڈراتا ہوں جو تم پر آنے والا ہے۔ اس پر ابولہب نے کہا ” کیا تم نے ہمیں اس لئے جمع کیا تھا تم ہلاک ہوجاﺅ“۔ اس پر اللہ نے یہ سورت نازل کی۔ تبت یدا ............ وتب (1:111) ” ٹوٹ گئے ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ ہلاک ہو “۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ یہ اٹھا اور اپنے ہاتھ جھاڑنے لگا اور اس نے کہا ہلاکت ہو تم پر سارا دن ؟ کیا تم نے ہمیں اسی لئے جمع کیا تھا تو اللہ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ جب بنو ہاشم نے ابوطالب کی قیادت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت کا فیصلہ کیا ، اگرچہ انہوں نے آپ کے دین کو قبول نہ کیا تھا لیکن عصبیت کے اصولوں کے مطابق انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت کا فیصلہ کیا توابولہب بنوہاشم سے نکل گیا۔ اور اس نے آپ کے خلاف قریش کے ساتھ حلیفانہ معاہدہ کیا۔ اور جب انہوں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بنو ہاشم کے ساتھ مقاطعہ کیا اور اس سلسلے کی تحریر پر ابولہب نے بھی دستخط کیے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ بنو ہاشم کو قحط سے ڈرا کر اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے حوالے کردیں۔ آپ کی دو صاحبزادیاں رقیہ اور ام کلثوم ابولہب کے دو بیٹوں کی مخطوبہ تھیں۔ یہ رشتہ بعثت سے قبل ہوا تھا۔ ابولہب نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ ان کو طلاق دے دیں تاکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر خاندانی بوجھ بڑھ جائے۔ یوں ابولہب اور ان کی بیوی ام جمیل نے آپ کے خلاف شدید جنگ جاری رکھی ہوئی تھی۔ یہ دونوں دعوت اسلامی کے شدیددشمن تھے اور یہ جنگ انہوں نے اپنی پوری زندگی جاری رکھی۔ کسی وقت بھی اس میں انہوں نے کوئی رورعایت نہ کی۔ ابوجہل کا گھر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کے قریب تھا اس لئے آپ کو اذیت دینے کے مواقع بھی اس کو بہت ملتے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ ام جمیل کانٹے جمع کرتی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستے میں رکھ دیتی۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ لکڑیاں اٹھانا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف فتنے اٹھانے۔ آپ کو اذیت دینے اور آپ کے خلاف سازشیں کرنے سے استعارہ ہے۔