Surat ul Tabbatt

Surah: 111

Verse: 2

سورة التبت

مَاۤ اَغۡنٰی عَنۡہُ مَالُہٗ وَ مَا کَسَبَ ؕ﴿۲﴾

His wealth will not avail him or that which he gained.

نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

His wealth and his children (Kasab) will not benefit him! Ibn Abbas and others have said, وَمَا كَسَبَ and his children (Kasab) will not benefit him! "Kasab means his children." A similar statement has been reported from Aishah, Mujahid, Ata', Al-Hasan and Ibn Sirin. It has been mentioned from Ibn Masud that when the Messenger of Allah called his people to faith, Abu Lahab said, "Even if what my nephew says is true, I will ransom myself (i.e., save myself) from the painful torment on the Day of Judgement with my wealth and my children." Thus, Allah revealed, مَأ أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ (His wealth and his children will not benefit him!) Then Allah says, سَيَصْلَى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 کمائی میں اس کی رئیسانہ حثییت اور جاہ ومنصب اور اس کی اولاد بھی شامل ہے یعنی جب اللہ کی گرفت آئی تو کوئی چیز اس کے کام نہ آئی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] ابو لہب کا جنگ بدر میں شامل نہ ہونے کا منصوبہ :۔ مال کی ہوس اور بخل مل کر ایک تیسری صفت پیدا کرتے ہیں اور وہ ہے بزدلی۔ جب جنگ بدر کے لیے بھرتی کا اعلان عام ہوا تو ابو لہب اس سے فرار کی راہیں سوچنے لگا۔ ایک شخص سے اس نے چار ہزار درہم قرضہ لینا تھا جس کے ملنے کی اسے کوئی توقع نہ تھی۔ کیونکہ وہ شخص مفلس تھا۔ ابو لہب نے اس سے سودابازی کی کہ اگر وہ اس کی جگہ جنگ بدر میں شریک ہوجائے تو وہ اس سے اپنے قرض کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ اس طرح ابو لہب نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ ڈوبے ہوئے قرضہ کی وصولی بھی ہوگئی اور جنگ سے بچاؤ کا مقصد بھی حاصل ہوگیا۔ جنگ بدر میں قریشیوں کی شکست فاش کی خبر سن کر اسے اتنا صدمہ ہوا کہ بیمار پڑگیا۔ ذلت کی موت :۔ ساتویں دن یہ بیماری چیچک کی شکل اختیار کرگئی تو اسے اپنی ساری عمر کی کمائی برباد ہوتی نظر آنے لگی کیونکہ اب اسے اپنی موت کا یقین ہوچکا تھا۔ چھوت کی وجہ سے اس کے بیٹوں نے اس کے ساتھ کھانا پینا بھی چھوڑ دیا۔ بالآخر وہ نہایت بےکسی کی موت مرا۔ مرنے کے بعد بھی اس کا کوئی بیٹا اس کے قریب نہ گیا۔ تین دن تک اس کی لاش بےگوروکفن گلتی سڑتی رہی۔ پھر جب لوگوں نے اس کے بیٹوں کو طعنے دینے شروع کیے تو انہوں نے ایک حبشی کو کچھ معاوضہ دیا کہ وہ ایک گڑھا کھود کر اس میں لاش کو دھکیل دے اور اوپر سے مٹی ڈال دے۔ یا پتھر وغیرہ دور سے پھینک کر لاش کو چھپا دے۔ واضح رہے کہ اس آیت میں ماکَسَبَ سے مراد اس کی اولاد ہے جیسا کہ احادیث صریحہ سے ثابت ہے۔ اس طرح اللہ کا یہ قول پورا ہوا کہ نہ اس کا مال کام آیا نہ اولاد۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ما اغنی عنہ مالہ وما کسب :” نہ اس کے کام اس کا مال آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا “ کمائی سے مفسرین نے اس کے بیٹے مراد لئے ہیں، علاوہ ازیں اس نے اپنے خیال میں جو اعمال نیکی سمجھ کر کئے تھے وہ اس کے کسی کام نہ آئے صحیح بخاری میں ہے :(قال عروۃ وثوبیہ مولاۃ لابی لھب و کان ابولھب اعتقھا فارضعت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، فلما مات ابولھب اریۃ بعض اھلہ بشر حیبۃ (بشر خیبۃ) قال لہ ماذا لقیث، قال ابولھب ، لم الق بعدکم غیر (لم الق بعدکم خیراً غیر) انی سقیت فی ھذہ بعتاقتی ثوبیۃ) (بخاری، النکاح ، باب : زوامھاتکم الاتی ارضعنکم):(٥١٠١)” عروہ نے کہا کہ ثوبیہ ابولہب کی لونڈی تھی جسے ابولہب نے آزاد کیا تھا، پھر اس نے بنی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دودھ پلایا۔ جب ابولہب فوت ہوا تو اس کے گھر والوں میں سے کسی کو خواب میں ابو لہب بہت بری حالت میں دکھایا گیا، اس نے اس سے پوچھا :” تم کس چیز کو ملے ؟ “ ابولہب نے کہا :” میں تمہارے بعد (کسی خیر کو) نہیں ملا سوائے اس کے کہ میں اپنی اس (انگلی اور انگوٹھے کی درمیانی جگہ) سے پلایا گیا ہوں، میرے ثوبیہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے۔ “ فتح الباری میں ہے کہ سہیلی نے ذکر کیا کہ عباس (رض) عنہمانے فرمایا :” جب ابولہب فوت ہوا تو میں نے اسے ایک سال بعد خواب میں بہت بری حالت میں دیکھا تو اس نے کہا :” میں تمہارے بعد کسی راحت کو نہیں ملا مگر اتنا ہے کہ ہر سوموار کو میرا عذاب ہلکا کردیا جاتا ہے۔ “ کہا :” اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوموار کے دن پیدا ہوئے تھے اور ثوبیہ نے ابولہب کو آپ کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی تو اس نے اسے آزاد کردیا۔ “ (فتح الباری) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا میلاد منانے والے حضرات نے اس سے دلیل پکڑی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یوم میلاد منانا جائز ہے۔ ان حضرت ا نے خیال نہیں فرمایا کہ یہ عباس (رض) عنہماکا خوب ہے جو اس وقت ابھی کافر تھے، مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اب ایک طرف اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ نہ ابولہب کا مال اس کے کام آیا اور نہ جو اس نے کمایا اور ایک طرف ایک شخص کے زمانہ کفر کا خواب ہے کہ ثویبہ کا آزاد کرنا اس کے کام آیا۔ یہ بات مسلم ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خواب شریعت میں حجت ہے کیونکہ وہ وحی الٰہی ہے، نبی کے سوا کسی مسلمان کا خواب بھی حجت نہیں، چہ جائے کہ کسی غیر مسلم کا خواب شرعی دلیل بنایا جائے، جب کہ وہ خواب صریح طور پر قرآن مجید کے خلاف ہے، کیونکہ قرآن نے ابولہب کے ہاتھوں کا نام لے کر ان کے ہلاک ہونے کی وعید سنائی۔ پھر ان حضرات نے یہ بھی خیال نہیں فرمایا کہ میلاد منانے کی اگر کوئی اصل ہوتی تو اس نیکی سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خلفائے راشدین ، صحابہ کرام اور اہل بیت ہر سال محروم نہ رہتے۔ رہی یہ بات کہ بخاری (رح) نے اپنی صحیح میں اسے کیوں ذکر فرمایا ہے ؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اسے ” کتاب النکاح “ میں ذکر فرمایا ہے اور ان کا مقصد اس سے یہ ثابت کرنا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابولہب کی لونڈی ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا اور اسی نے ابوسلمہ (رض) عنہماکو بھی دودھ پلایا تھا، اس لئے ابوسلمہ (رض) کی بٹی سے نکاح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے جائز نہ تھا، کیونکہ وہ آپ کی رضاعی بھیجتی تھی۔ بخاری (رح) نے اسے میلاد منانے کے لئے پیش نہیں کیا اور نہ ہی کوئی صاحب عقل کسی غیرمسلم کے خواب سے شریعت اخذ کرتا ہے، خصوصاً جب وہ صاف قرآن مجید کے خلاف بھی ہو۔ قرآن کی اس صریح آیت کی رو سے ابولہب کو ثوبیہ لونڈی کا آزاد کردینا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَآ اَغْنٰى عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا كَسَبَ۝ ٢ ۭ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ غنی( فایدة) أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة/ 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد/ 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران/ 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

باپ کو بیٹے کے قصاص میں قتل نہ کیا جائے قول باری ہے (مااغنی عنہ مالہ وما کسب اس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا وہ اس کے کسی کام نہ آیا) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ (ماکسب) سے اس کی اولاد مراد ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اس کی اولاد کو کسب خبیث کا نام دیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ کہ آپ نے فرمایا (ان افضل مااکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ۔ انسان جو کچھ کھاتا ہے اس میں افضل ترین کھانا وہ ہے جسے وہ اپنے ہاتھوں کی کمائی سے حاصل کرے، انسان کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے) ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس ارشاد کی مثال آپ کا یہ ارشاد ہے (انت ومالک لا بیک تو تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے) یہ بات کسی شخص کے اپنے بیٹے کی لونڈی کی ام ولد بنالینے کی صحت پر دلالت کرتی ہے۔ اس بارے میں باپ کے قول کی تصدیق کی جائے گی اور وہ لونڈی اس کی ام ولد بن جائے گی۔ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ باپ کو بیٹے کے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیٹے کو اس کی کمائی قرار دیا ہے جس طرح آقا سے غلام کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔ کیونکہ غلام اس کی کمائی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(2 ۔ 5) یہ دنیاوی مال و اولاد آخرت میں اس کے کچھ کام نہیں آیا اور وہ آخرت میں دہکتی ہوئی آگ میں ڈالا جائے گا اور اس کی بیوی ام جمیلہ بنت حارث بھی جو مسلمانوں اور کافروں میں چغلیاں لگایا کرتی تھیں یا یہ کہ جو خار دار لکڑیاں لا کر حضور کے اور مسلمانوں کے راستہ میں ڈال دیا کرتی تھی۔ دوزخ میں پہنچ کر اس کی گردن میں لوہے کی زنجیریں ہوں گی یا یہ کہ اس کی گردن میں ایک بل دی ہوئی رسی تھی جس سے گلا گھٹ کر وہ مرگئی۔ شان نزول : سورة اللہب امام بخاری نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوہ صفا پر چڑھ کر آواز دی چناچہ آپ کے پاس قریش جمع ہوگئے آپ نے فرمایا کہ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ دشمن صبح یا شام پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری تصدیق کرو گے سب نے کہا بیشک تب آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں سخت عذاب سے ڈرانے والا ہوں اس پر ابولہب نے کہا آپ کا ناس ہو کیا اسی لیے آپ نے ہمیں جمع کیا ہے تب یہ پوری سورت نازل ہوئی۔ اور ابن جریر نے اسرائیل کے طریق سے یزید بن زید سے روایت کیا ہے کہ ابولہب کی بیوی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستہ میں کانٹے ڈالتی تھی اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابن المنذر نے عکرمہ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 Abu Lahab was a stingy, materialistic man. Ibn Jarir has stated that once in the pre-Islamic days he was accused of having stolen two golden deer from the treasury of the Ka'bah. Though later the deer were recovered from another person, the fact that he was accused of stealing indicates the opinion the people of Makkah held of him. About his riches Qadi Rashid bin Zubair writes in his Adh-Dhakha'ir wat-Tuhaf. He was one of the four richest men of the Quraish, who owned one qintar (about 260 oz) of gold each. His love of wealth can be judged from the fact that when on the occasion of the battle of Badr the fate of his religion was going to be decided for ever, and all the Quraish chiefs had personally gone to fight, he sent `As bin Hisham to fight on his own behalf, telling him: This is in lieu of the debt of four thousand dirhams that you owe to me. Thus. he contrived a plan to realize his debt, for 'As had become bankrupt and there was no hope of the recovery of the debt from him. Some conunentators have taken ma kasaba in the meaning of the earning, i.r. the benefits that accrued to him from his wealth were his kasab(earning) , and some other commentators have taken it to imply children, for the Holy Prophet (upon whom be peace) has said that a man's son also is his kasab(earning) . (Abu Da'ud, Ibn Abi Hatim) . Both these meanings fully correspond to the fate met by Abu Lahab. For when he was afflicted with the malignant pustule, his wealth availed him nothing, and his children also left him alone to die a miserable, wretched death. They did not even bury him honourably. Thus, within a few years the people witnessed how the prophecy which had been made in this Surah about Abu Lahab was literally fulfilled.

سورة اللھب حاشیہ نمبر : 2 ابو لہب سخت بخیل اور زرپرست آدمی تھا ۔ ابن اثیر کا بیان ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ایک مرتبہ اس پر یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ اس نے کعبہ کے خزانے میں سے سونے کے دو ہرن چرا لیے ہیں ۔ اگرچہ بعد میں وہ ہرن ایک اور شخص کے پاس سے برآمد ہوئے ، لیکن بجائے خود یہ بات کہ اس پر یہ الزام لگایا گیا ، یہ ظاہر کرتی ہے کہ مکہ کے لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے ۔ اس کی مالداری کے متعلق قاضی رشید بن زبیر اپنی کتاب الذخائر والحف میں لکھتے ہیں کہ وہ قریش کے ان چار آدمیوں میں سے ایک تھا جو ایک قنطار سونے کے مالک تھے ( قنطار دو سو اوقیہ کا اور ایک اوقیہ سوا تین تولہ کا ہوتا ہے ) اس کی زرپرستی کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر جبکہ اس کے مذہب کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا تھا ، قریش کے تمام سردار لڑنے کے لیے گئے ، مگر اس نے عاص بن ہشام کو اپنی طرف سے لڑنے کے لیے بھیج دیا اور کہا کہ یہ اس چار ہزار درہم قرض کا بدل ہے جو میرا تم پر آتا ہے ۔ اس طرح اس نے اپنا قرض وصول کرنے کی بھی ایک ترکیب نکال لی ، کیونکہ عاص دیوالیہ ہوچکا تھا اور اس سے رقم ملنے کی کوئی امید نہ تھی ۔ مَا كَسَبَ کو بعض مفسرین نے کمائی کے معنی میں لیا ہے ، یعنی اپنے مال سے جو منافع اس نے حاصل کیے وہ اس کا کسب تھے ۔ اور بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد اولاد لی ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آدمی کا بیٹا بھی اس کا کسب ہے ( ابو داؤد ۔ ابن ابی حاتم ) یہ دونوں معنی ابو لہب کے انجام سے مناسبت رکھتے ہیں ۔ کیونکہ جب وہ عدسہ کے مرض میں مبتلا ہوا تو اس کا مال بھی اس کے کسی کام نہ آیا اور اس کی اولاد نے بھی اسے بےکسی کی موت مرنے کے لیے چھوڑ دیا ۔ اس کا جنازہ تک عزت کے ساتھ اٹھانے کی اس اولاد کو توفیق نہ ہوئی ۔ اس طرح چند ہی سال کے اندر لوگوں نے اس پیشینگوئی کو پورا ہوتے دیکھ لیا جو ابولہب کے متعلق اس سورہ میں کی گئی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(111:2) ما اغنی عنہ مالہ وما کسب : ما نافیہ۔ اغنی فعل ۔ عنہ متعلق بہ فعل۔ مالہ اس کا فاعل (معطوف علیہ) واؤ عاطفہ ما موصولہ کسب اس کا صلہ۔ موصول و صلہ مل کر (معطوف) اغنی عنہ کذا۔ کسی چیز کا کافی ہونا۔ فائدہ بخشنا۔ ما اغنی عنہ مالہ نہ تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا۔ اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ما اغنی عنی مالیہ (69:28) میرا مال میرے کچھ بھی کام نہ آیا۔ کہتے ہیں :۔ ھذا ما یغنی عنک شیئا۔ یہ تجھے کوئی فائدہ نہ دیگا۔ اغنی ماضی کا صیغہ ماضی واحد مذکر غائب۔ اغناء (افعال) مصدر سے وہ کام آیا۔ اس نے غنی بنادیا۔ اس نے دولت دی۔ غنی مالدار اغنیاء جمع مالدار لوگ۔ کسب ماضی واحد مذکر غائب۔ کسب (باب ضرب) مصدر۔ بمعنی مال کمانا۔ کمائی کرنا۔ یہاں آیت ہذا میں وما کسب (اور جو اس نے کمایا) سے مراد اولاد ہے یعنی نہ ہی اس کی اولاد اس کے کام آئی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی اس کی کوئی چیز اسے تباہی سے نہ بچا سکی۔ ” مال “ سے مراد اس کا جمع کردہ مال ہے اور ” کمائی “ سے مراد اولاد، عزت و درجات وغریہ یا مال سے مراد اس کا موروثی مال ہے اور کمائی سے مراد اس کا اپنا کمایا ہوا مال۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَ مَا كَسَبَؕ٠٠٢﴾ (ابو لہب کو اس کے مال نے اور جو کچھ اس نے کمایا اس نے کچھ فائدہ نہ دیا) ۔ ابو لہب کثیر المال تھا تجارت کے منافع سے مالا مال تھا اور اولاد بھی اس کی خاصی تعداد میں تھی۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے ﴿مَا كَسَبَ﴾ سے اولاد مراد ہے کیونکہ حدیث شریف میں وارد ہے۔ ان اولادکم من کسبکم یعنی انسان کی اولاد اس کے کسب میں سے ہے (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٢٤٢) ۔ لہٰذا آیت کریمہ کا مطلب یہ ہوا کہ ابو لہب کو اس کے مال نے اور اس کی اولاد نے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچایا دنیا میں بھی بدحالی کے ساتھ مرا اور آخرت میں تو دوزخ میں جانا ہی ہے۔ معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کو ایمان کی دعوت دی اور یہ فرمایا کہ اپنی جانوں کو دوزخ سے چھڑا لو۔ اس پر ابو لہب نے کہا کہ اگر وہ بات صحیح ہے جو میرا بھتیجا بتارہا ہے (کہ ایمان نہ لائے تو عذاب میں مبتلا ہوں گے) تو میں اپنی جان کے بدلہ میں اپنا مال اور اولاد دے کر چھوٹ جاؤں گا اس پر اللہ تعالیٰ شانہ نے آیت کریمہ ﴿ مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَ مَا كَسَبؕا ٠٠٢﴾ نازل فرمائی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” ما اغنی “ اس کا مالک اور اس کا جاہ و حشم اس کو خدا کے عذاب سے نہ بچا سکا۔ ماکسب، دنیوی عز و جاہ یا اعمال مشرکانہ غیر اللہ کی دعا و پکار وغیرہ۔ سیصلی نارا، یہ تخویف اخری ہے۔ دنیا میں ابو لہب کیلئے ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں اسے بھڑکتی آگ میں داخل کیا جائے گا۔ ” وامراتہ “ یہ ” یصلی “ کی ضمیر مستتر پر معطوف ہے۔ حمالۃ الحطب، منصوب علی الذم ہے، یہ چغلی کھانے اور بدگوئی کرنے سے کنایہ ہے یا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ باہر سے خاردار لکڑیاں اٹھا کر لاتی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستے میں بچھا دیتی تھی۔ (من الکبیر والروح والقرطبی) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی کچھ اس کے کام آئی۔ یہ شاید اس کا جواب ہے جو اس نے کہا تھا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سچی ہوئی تو میں اپنے مال کا فدیہ دے کر اس مفروضہ عذاب سے بچ جائوں گا ماکسب سے مراد یا تو مال کے متعلقات ہیں یعنی مال کانفع وغیرہ یا مراد اہل قرابت ہیں یا اس کی اولاد مراد ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے وان اولاد کم من کسبکم مطلب یہ ہے کہ نہ مال اس کو نفع دے گا نہ اس کی اولاد۔