Surat ul Ikhlaas

Sincerity

Surah: 112

Verses: 4

Ruku: 1

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تعارف سورة الاخلاص بسم اللہ الرحمٰن الرحیم جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان نبوت فرمایا تو اس وقت پوری دنیا میں خاص طور پر عرب جنہیں اولاد ابراہیم ہونے پر بڑا ناز تھا عقیدہ کی گندگیوں اور بتوں کی پرستش میں مبتلا تھے۔ لکڑی ، پتھر، مٹی، سونا، چاندی اور مختلف دھاتوں سے بنائے گئے بتوں کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا بنائے بیٹھے تھے۔ نصاری یعنی عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کو اور یہودیوں نے حضرت عزیز کو اللہ کا یٹا قرار دے رکھا تھا۔ حجاز کے اکثر قبیلے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں اور جنات کو اللہ کا رشتہ دار قرار دے کر ان کو اللہ کا شریک سمجھتے۔ مجوسی یعنی آتش پرستوں کے ہاں دو معبودوں کا تصور تھا ایک خیر کا معبود دوسرا شرکا ، خیر کے معبود کو یزداں اور شر کے معبود کو اھرمن کہتے تھے۔ آریا مذہب کا یہ عقیدہ تھا کہ دنیا کی ہر چیز مادہ اور روح سے بنی ہے۔ ان کا خیال اور عقیدہ یہ تھا کہ ماہ اور روح کسی خلاق اور بنانے والے محتاج نہیں ہے۔ لہٰذا وہ کسی خالق کے قائل ہی نہ تھے۔ اتنے کروڑوں معبودوں کے پرستاروں کے سامنے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک اسے معبود کی طرف دعوت دی جس کو کسی نے دیکھا نہیں۔ نہ وہ کسی کے خیال و گمان میں آسکتا ہے۔ توحید کی اس دعوت کے نتیجے میں ان سوالات کا اٹھنا عین فطرت ہے کہ آخر وہ رب کیا ہے ؟ وہ کس طرح اس نظام کائنات کو تنہا چلا رہا ہے ؟ کون اس کا باپ اور کون اولاد اور بیوی ہے ؟ وہ اس تصور سے سخت پریشان تھے کہ اتنے سارے معبود جن سے ان کی اور ان کے باپ دادا کی امیدیں وابستہ ہیں وہ ایک بن دیکھے معبود کو کیسے اپنا خالق ومالک مان لیں ؟ یہ وہ سوالات تھے جو خاص طور پر یہودو نصاری اہل کتاب کی طرف سے اٹھائے جا رہے تھے چناچہ اس سلسلہ میں مختلف روایات بھی نقل کی گئی ہیں۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ کچھ یہودی آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے اے ابو القاسم ! اللہ نے فرشتوں کو نور سے، آدم کو مٹی کے سڑے ہوئے گارے سے، ابلیس کو آگ کے شعلے سے، آسمان کو دھوئیں سے پیدا کیا۔ اب آپ اپنے رب کے متعلق بتائیے کہ وہ کس چیز سے بنا ہوا ہے۔ اسی طرح کی ایک اور روایت حضرت عبداللہ ابن عباس سے بھی نقل کی گئی ہے کہ کعب ابن اشرف ، حی ابن اخطب وغیرہ یہودیوں کے سردار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور پوچھنے لگے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں بتائیے کہ آپ کا رب کیا ہے ؟ کس سے وہ پیدا ہوا ؟ وغیرہ وغیرہ۔ ان سوالات کے جواب میں سورة اخلاص کو نازل کیا گیا۔ (ابن ابی حاتم۔ ابن عدی۔ بیہقی) ان سب کے پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخر وہ رب کیا ہے ؟ کیسا ہے ؟ جس کی عبادت و بندگی کی طرف آپ ہمیں دعوت دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ وہ ہے جو تنہا اس کائنات کا خالق ومالک ہے۔ وہ بےنیاز ذات ہے وہ اس کے پیدا کرنے اور اس کے انتظام چلانے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ وہی ہر خیر و شر کا پیدا کرنے والا ہے۔ نہ اس کے کوئی بیٹا ہے نہ وہ کسی کا بیٹا ہے اور کوئی اس کے برابر نہیں ہے۔ سورة اخلاص کے سلسلہ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ قرآن کریم کی ایک سو چودہ سورتوں میں سے صرف دوسورتیں ایسی ہیں جن کے نام ان سورتوں میں آئے ہوئے لفظ پر نہیں رکھے گئے بلکہ معنی کی وسعت اور عظمت کے لئے اللہ کے حکم سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نام تجویز فرمائے ہیں وہ ہیں سورة فاتحہ اور سورة اخلاص ۔ ان دونوں سورتوں میں فاتحہ اور اخلاص کا لفظ موجود نہیں ہے جب کہ ایک سو بارہ سورتوں کے نام ان الفاظ پر رکھے گئے ہیں جو ان سورتوں میں استعمال کئے گئے ہیں جیسے بقرہ، ال عمران وغیرہ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة الاخلاص کا تعارف یہ سورت بھی مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اس کی چار آیات ہیں جنہیں ایک رکوع شمار کیا گیا ہے اس کا نام اس لیے الاخلاص رکھا گیا ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید خالص کا تذکرہ ہے جس کے بغیر کوئی عبادت بھی قبول نہیں ہوتی۔ سورت اخلاص کا تعارف اس مختصر سورت میں توحید خالص کو کھول کر بیان کیا گیا ہے، اختصار مگر جامع اور دوٹوک طرز بیان کی بنا پر اسے سورت اخلاص کے نام سے لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں مشرکین کے درمیان جس قدر شبہات پائے جاتے ہیں، ان کی بڑے سادہ انداز اور الفاظ میں نفی کی گئی ہے اور اسلام کے بنیادی عقیدہ توحید کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت کی عظمت و فضیلت کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احْشِدُوا فَإِنِّی سَأَقْرَأُ عَلَیْکُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ فَحَشَدَ مَنْ حَشَدَ ثُمَّ خَرَجَ نَبِیُّ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَرَأَ (قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ) ثُمَّ دَخَلَ فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ إِنِّی أُرَی ہَذَا خَبَرٌ جَاءَ ہُ مِنَ السَّمَاءِ فَذَاکَ الَّذِی أَدْخَلَہُ ثُمَّ خَرَجَ نَبِیُّ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ إِنِّی قُلْتُ لَکُمْ سَأَقْرَأُ عَلَیْکُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ أَلاَ إِنَّہَا تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ ) (رواہ مسلم : باب فضل قراء ۃ سورة قل ھو اللہ احد) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ سے فرمایا جمع ہوجاؤ میں تمہیں قرآن کا ایک تہائی حصہ سنانا چاہتا ہوں، لوگ اکٹھے ہوگئے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے نکلے اور آپ نے سورة الاخلاص کی تلاوت فرمائی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر واپس چلے گئے لوگوں نے آپس میں باتیں کرنی شروع کردیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی وحی نازل ہونے والی ہے اس وجہ سے آپ گھر چلے گئے ہیں اتنی دیر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے واپس آئے اور فرمایا کہ میں نے تمہیں کہا تھا میں تمہیں قرآن ایک تہائی حصہ سناؤں گا بیشک اللہ تعالیٰ نے سورة الاخلاص کو ہی قرآن کا ایک تہائی حصہ قرار دیے دیا ہے۔ “ (عَنْ عَاءِشَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَعَثَ رَجُلاً عَلَی سَرِیَّۃٍوَکَانَ یَقْرَأُ لأَصْحَابِہِ فِی صَلاَتِہِ فَیَخْتِمُ بِ (قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ) فَلَمَّا رَجَعُوا ذَکَرُوا ذَلِکَ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ سَلُوہُ لأَیِّ شَیْءٍ یَصْنَعُ ذَلِکَ فَسَأَلُوہُ فَقَالَ لأَنَّہَا صِفَۃُ الرَّحْمَنِ وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَقْرَأَ بِہَا فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَخْبِرُوہُ أَنَّ اللَّہَ یُحِبُّہُ ) (رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی دُعَاء النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُمَّتَہُ إِلَی تَوْحِید اللہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو کسی لشکر کا سردار بنا کر روانہ کیا۔ وہ جب نماز پڑھاتا تو اپنی قراءت سورة اخلاص پر ختم کرتا پھر جب یہ لوگ واپس آئے تو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس کا ذکر کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے ؟ لوگوں نے اس سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ اس سورت میں الرحمن کی صفات ہیں جن کو تلاوت کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔ “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة الاخلاص ایک نظر میں صحیح روایات میں آتا ہے کہ یہ مختصر سورت پورے قرآن کے ایک تہائی حصے کے برابر ہے۔ امام بخاری فرماتے ہیں : حدیث بیان کی اسماعیل نے ، مالک سے ، انہوں نے عبدالرحمن ابن عبداللہ ابن عبدالرحمن ابن صعصعہ سے ، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے ابوسعد سے ، وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کو یہ پڑھتے سنا۔ قل ھو اللہ احد (1:112) یہ اسے بار بار پڑھ رہا تھا۔ جب صبح ہوئی تو اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا تذکرہ کیا ، یہ تذکرہ کرنے والا یہ تاثر دے رہا تھا کہ یہ بہت کم ہے جو پڑھنے والا پڑھ رہا تھا ، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، یہ سورت تو ایک تہائی قرآن کے برابر ہے “۔ یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہیں ہے اس لئے کہ جس توحید کے اعلان کرنے کا حکم حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا تھا۔ قل ھواللہ احمد (1:112) ” کہہ دو کہ وہ اللہ یکتا ہے “۔ یہ عقیدہ توحید انسانی ضمیر کا بھی عقیدہ ہے یہ اس کائنات کی تفسیر بھی ہے اور یہ زندگی کا ایک نظام بھی ہے لہٰذا یہ سورت اسلامی نظام زندگی کے اہم ترین خطوط کا ایک بنیادی نقشہ پیش کرتی ہے۔ ٭٭٭٭٭

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi