Surat ul Ikhlaas

Surah: 112

Verse: 2

سورة الإخلاص

اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۚ﴿۲﴾

Allah , the Eternal Refuge.

اللہ تعالٰی بے نیاز ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah As-Samad, Ikrimah reported that Ibn Abbas said, "This means the One Who all of the creation depends upon for their needs and their requests." Ali bin Abi Talhah reported from Ibn Abbas, - "He is the Master Who is perfect in His sovereignty, - the Most Noble Who is perfect in His nobility, - the Most Magnificent Who is perfect in His magnificence, - the Most Forbearing Who is perfect in His forbearance, - the All-Knowing Who is perfect in His knowledge, and - the Most Wise Who is perfect in His wisdom. - He is the One Who is perfect in all aspects of nobility and authority. He is Allah, glory be unto Him. These attributes are not befitting anyone other than Him. He has no coequal and nothing is like Him. Glory be to Allah, the One, the Irresistible." Al-A`mash reported from Shaqiq, who said that Abu Wa'il said, " الصَّمَدُ As-Samad, is the Master Whose control is complete." Allah is Above having Children and procreating Then Allah says, لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یعنی سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] صمد کا مفہوم اور صمد اور غنی میں فرق :۔ صَمَدٌ میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں (١) کسی چیز کا ٹھوس اور مضبوط ہونا (٢) لوگ ہر طرف سے اس کی طرف قصد کریں۔ اور الصَّمَدُ ایسی ذات ہے جو خود تو مستقل اور قائم بالذات ہو۔ وہ خود کسی کی محتاج نہ ہو مگر دوسری سب مخلوق اس کی محتاج ہو۔ بےنیاز کے لیے عربی زبان میں غنی کا لفظ بھی آتا ہے اور اس کی ضد فقیر ہے۔ اور غنی وہ ہے جسے کسی دوسرے کی احتیاج نہ ہو مگر یہ لفظ صرف مال و دولت کے معاملہ میں بےنیاز ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور غنی دولت مند کو کہتے ہیں۔ یعنی کم از کم اتنا مالدار ضرور ہو کہ اسے معاش کے سلسلے میں دوسروں کی احتیاج نہ ہو جبکہ صمد کا لفظ جملہ پہلوؤں میں بےنیاز ہونے کے معنوں میں آتا ہے اور دوسرے لوگ بھی جملہ پہلوؤں میں اس کے محتاج ہوتے ہیں۔ مثلاً اللہ کھانے پینے سے بھی بےنیاز ہے اور سونے اور آرام کرنے سے بھی۔ وہ اپنی زندگی اور بقا کے لیے بھی کسی کا محتاج نہیں ہے۔ مگر باقی سب مخلوق ایک ایک چیز رزق، صحت، زندگی، شفائ، اولاد حتیٰ کہ اپنی بقا تک کے لیے بھی اللہ کی محتاج ہے۔ کوئی بھلائی کی بات ایسی نہیں جس کے لیے مخلوق اپنے خالق کی محتاج نہ ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) اللہ الصمد :” الصمد “ کی تفسیر میں سلف کے کئی اقوال ہیں، ان کا خلاصہ تین اقوال میں آجاتا ہے : (١) ” الصمد “ وہ سردار ہے جس کی طرف لوگ قصد کر کے جائیں، جس سے بڑا کوئی سردار نہ ہو۔ یہ ” صمد “ (ف، ن) (قصد کرنا) سے مشتق ہے۔ گویا ” الصمد “ بمعنی ” مصمود “ ہے۔ اکثر سلف نے یہی معنی کیا ہے۔ (٢) جو کھاتا پیتا نہ ہو۔ (٣) جس کا پیٹ نہ ہو جو کھوکھلا نہ ہو، جس سے کچھ نکلتا نہ ہو۔ اللہ پر تینوں معانی صادق آتے ہیں۔ (٢) عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب خبر پر الف لام آجائے تو کلام میں حصر پیدا ہوجاتا ہے۔ اگر ” اللہ صمد “ ہوتا تو معنی یہ تھا کہ اللہ صمد ہے۔ اب ” اللہ الصمد “ فرمایا، تو معنی یہ ہے کہ اللہ ہی ” صمد “ ہے، کوئی اور صمد نہیں۔ اس سے پہلی آیت میں ” اللہ احد “ فرمایا، جس کا معنی ہے اللہ ایک ہے۔ وہاں ” اللہ الا حد “ نہیں فرمایا کہ اللہ ہی ایک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں حصر کی ضرورت ہی نہیں تھی، کیونکہ وہ ہستی جو ایک ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے ، کسی اور کو احد کہہ ہی نہیں سکتے۔ ہر ایک کا ثانی کسی نہ کسی طرح موجود ہے، کسی اور چیز میں اس کا ثانی نہ ہو تو مخلوق ہونے میں اس کے بیشمار ثانی موجود ہیں، اس لئے اس کائنات میں ایک ہستی صرف اللہ کی ہے، اسلئے وہاں حصر کی ضرورت ہی نہیں، جبکہ صمد ہونے کے دعوے دار بیشمار ہیں، جن کے پاس لوگ اپنی ضرورتوں کے لئے جاتے ہیں۔ اسلئے فرمایا اصل صمد صرف وہ ہے، کیونکہ دوسرے لوگ کتنے بھی بڑے سردار ہوں، لوگ ان کے پاس اپنی حاجتوں کے لئے جاتے ہوں، مگر وہ خود کسی نہ کسی کے محتاج ہیں۔ یہ صرف اللہ کی ہستی ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں، باقی سب اس کے محتاج ہیں، وہ سب کو کھلاتا ہے، خود کھانے کا محتاج نہیں، جیسا کہ فرمایا : (وھو یطعم ولا یطعم) (الانعام : ١٣)” حالانکہ وہ کھلاتا ہے اور اسے نہیں کھلایا جاتا۔ “ پھر نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔” الصمد “ کے اس مفہوم کو ” بےنیاز “ کا لفظ کافی حد تک ادا کرتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse [ 112:2] اللَّـهُ الصَّمَدُ (Allah is Besought of all, needing none) The word samad bears several literal senses. Therefore, the Qur&anic exegetical scholars have assigned different meanings to this verse. Tabarani, the leading authority on Prophetic Traditions, in his kitab-us-Sunnah, has collected all the interpretations of the Divine attribute As-samad and concluded that they are all authentic, and comprehend all the attributes of our Lord that have been assigned to Him, but originally it refers to &the chief who has no superior and to whom the people turn for the fulfillment of their desires and needs; thus all people depend on him, but he does not depend on any one.& [ Ibn Kathir ].

اللہ الصمد، لفظ صمد کے بہت سے معنی ہو سکتے ہیں اسی لئے حضرات مفسرین کے اوقال اس میں بہت میں امام حدیث طبرانی نے کتاب السنہ میں ان تمام اقوال کو جمع کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ سب صحیح ہیں اور ان میں جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ سب ہمارے رب کی صفات ہیں، لیکن اصل معنی صمد کے یہ ہیں کہ جس کی طرف لوگ اپنی حاجات اور ضروریات میں رجوع کری اور جو بڑائی اور سرداری میں ایسا ہو کہ اس سے کوئی بڑا نہیں، خلاصہ یہ کہ سب اس کے محتاج ہوں وہ کسی کا محتاج نہ ہو (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَللہُ الصَّمَدُ۝ ٢ ۚ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) صمد الصَّمَدُ : السَّيِّدُ : الذي يُصْمَدُ إليه في الأمر، وصَمَدَهُ : قصد معتمدا عليه قصده، وقیل : الصَّمَدُ الذي ليس بأجوف، والذي ليس بأجوف شيئان : أحدهما لکونه أدون من الإنسان کالجمادات، والثاني أعلی منه، وهو الباري والملائكة، والقصد بقوله : اللَّهُ الصَّمَدُ [ الإخلاص/ 2] ، تنبيها أنه بخلاف من أثبتوا له الإلهيّة، وإلى نحو هذا أشار بقوله : وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ کانا يَأْكُلانِ الطَّعامَ [ المائدة/ 75] . ( ص م د) الصمد وہ سردار جس کی طرف ہر معاملہ میں رجوع کیا جائے ۔ صمد صمدہ کسی کو معتمد سمجھ کر اس کی جانب قصد کرنا ۔ بعض نے کہا ہے لہ صمد ٹھوس اور بےجوف چیز کو کہتے ہیں ۔ اور بےجوف چیزیں دوقسم پر ہیں ایک وہ جو انسان سے کم درجہ کی ہیں جیسے جمادات اور دوم وہ جو انسان سے اعلیٰ درجہ کی ہیں ، جیسے باری تعالیٰ اور فرشتے اور آیت کریمہ : اللَّهُ الصَّمَدُ [ الإخلاص/ 2] ، اللہ بےنیاز ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کو صمد کہہ کر اس حقیقت سے آگاہ کردیا ہے کہ مشرکین نے جن چیزوں کو معبود بنا رکھا ہے ۔ ذات الہیٰ ان سب کے برعکس ہے چناچہ آیت کریمہ : وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ کانا يَأْكُلانِ الطَّعامَ [ المائدة/ 75] اور ان کی والداہ ( مریم خدا کی دل اور ) سچی فرمانبردار تھیں دونوں ( انسان تھے اور ) کھانا کھاتے تھے ۔ میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرما دیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢ { اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۔ } ” اللہ سب کا مرجع ہے۔ “ صَمَد کے لغوی معنی ایسی مضبوط چٹان کے ہیں جس کو سہارا بنا کر کوئی جنگجو اپنے دشمن کے خلاف لڑتا ہے تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے ۔ بعد میں یہ لفظ اسی مفہوم میں ایسے بڑے بڑے سرداروں کے لیے بھی استعمال ہونے لگا جو لوگوں کو پناہ دیتے تھے اور جن سے لوگ اپنے مسائل کے لیے رجوع کرتے تھے۔ اس طرح اس لفظ میں مضبوط سہارے اور مرجع (جس کی طرف رجوع کیا جائے) کے معنی مستقل طور پر آگئے۔ چناچہ اَللّٰہُ الصَّمَدُ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات کا مرجع اور مضبوط سہارا ہے۔ وہ خود بخود قائم ہے ‘ اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ۔ باقی تمام مخلوقات کو اس کے سہارے کی ضرورت ہے اور تمام مخلوق کی زندگی اور ہرچیز کا وجود اسی کی بدولت ہے۔ { وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلاَّ بِمَا شَآئَج } (البقرۃ : ٢٥٥) ” اور وہ احاطہ نہیں کرسکتے اللہ کے علم میں سے کسی شے کا بھی سوائے اس کے جو وہ خود چاہے “۔ ظاہر ہے وہ الحی اور القیوم ہے ‘ یعنی خود زندہ ہے اور تمام مخلوق کو تھامے ہوئے ہے۔ باقی تمام مخلوقات کے ہر فرد کا وجود مستعار ہے اور کائنات میں جو زندہ چیزیں ہیں ان کی زندگی بھی مستعار ہے۔ جیسے ہم انسانوں کی زندگی بھی ” عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن ! “ کے مصداق اسی کی عطا کردہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4 The word used in the original is samad of which the root is smd. A look at the derivatives in Arabic from this root will show how comprehensive and vast this word is in meaning. (Lexical discussion of the meanings of the derivatives is omitted) . On the basis of these lexical meanings the explanations of the word asSamad in the verse Allah-us-Samad, which have been reported from the Companions, their immediate successors and the later scholars are given below: Hadrat 'AIi. 'Ikrimah and Ka'b Ahbar: "Samad is he who has no superior. " Hadrat 'Abdullah bin Mas`ud, Hadrat `Abdullah bin `Abbas and Abu Wail Shaqiq bin Salamah: "The chieftain whose chieftancy is perfect and of the most extraordinary kind. " Another view of Ibn 'Abbas: "Samad is he to whom the people turn when afflicted with a calamity." Still another view of his: "The chieftain who in his chieftaincy, in his nobility and glory, in his clemency and forbearance,. in his knowledge and wisdom is perfect. " Hadrat Abu Hurairah: "He who is independent of all and all others are dependent upon him. " Other views of 'Ikrimah: "He from whom nothing ever has come out, nor normally comes out:" "Who neither eats nor drinks." Views containing the same meaning have been related from Sha'bi and Muhammad bin Ka'b al-Kurazi also. Suddi: "the one to whom the people turn for obtaining the things they need and for help in hardships. " Sa'id bin Jubair: "He who is perfect in all his attributes and works." Rabi' bin Jubair: "He who is immune form every calamity." Muqatil bin Hayyan: "He who is faultless." Ibn Kaysan: "He who is exclusive in his attributes." Hasan Basri and Qatadah: "He who is ever-living and immortal." Similar views have been related from Mujahid, Ma'mar and Murrat alHamadani also. Munat al-Hamadani's another view is : "he who decides whatever he wills and does whatever he wills, without there being anyone to revise his judgement and decision." Ibrahim Nakha'i: "He to whom the people turn for fulfilment of their desires." Abu Bakr al-Anbari "There is no difference of opinion among the lexicographers that samad is the chief who has no superior and to whom the people turn for fulfilment of their desires and needs and in connection with other affairs." Similar to it is the view of Az-Zajjjaj, who says "Samad is he in whom leadership has been perfected, and to whom one turns for fulfilment of one's needs and desires." Now, Iet us consider why Allahu-Ahad has been said in the first sentence and why Allah-us-Samad in this sentence. About the word ahad we have explained above that it is exclusively used for AIIah, and for none else. That is why it has been used as ahad, in the indefinite sense. But since the word samad is used for creatures also, Allall-us-Samad has been said instead of Allah Samad, which signifies that real and true Samad is Allah alone. If a creature is samad in one sense, it may not be samad in some other sense, for it is mortal, not immortal; it is analysable and divisible, is compound, its parts can scatter away any time; some creatures are dependent upon it, and upon others it is dependent; its chieftaincy is relative and not absolute; it is superior to certain things and certain other things are superior to it; it can fulfil some desires of some creatures but it is not in the power of any creature to fulfil all the desires of all the creatures, On the contrary, Allah is perfect in His attributes of Samad in every respect; the whole world is dependent upon Hun in its needs, but He is ,not dependent upon needs; everything in the world turns to Him, consciously or unconsciously, for its survival and for fulfilment of the needs of everyone; He is immortal and Ever-living; He sustains others and is not sustained by anyone; He is Single and Unique, not compound so as to be analysable and divisible; His sovereignty prevails over entire universe and - He is Supreme in every sense. Therefore, He is not only .Samad but As-Samad, i e. the Only and One Being Who is wholly and perfectly qualified with the attribute of samad in the true sense. Then, since He is As-Samad, it is necessary that He should be Unique, One and Only, for such a being can only be One, which is not dependent upon anyone and upon whom everyone else may be dependent; two or more beings cannot be self-sufficient and fulfillers of the needs of all. Furthermore, His being As-samad also requires that He alone should be the Deity, none else, for no sensible person would worship and serve the one who had no power and authority to fulfil the needs of others.

سورة الاخلاص حاشیہ نمبر : 4 اصل میں لفظ صَمَد استعمال کیا گیا ہے جس کا مادہ ص ، م ، د ہے ۔ عربی زبان میں اس مادے سے جو الفاظ نکلے ہیں ان پر ایک نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے معانی کی وسعت کس قدر ہے: ۔ اَلصَّمدُ ۔ قصد کرنا ، بلند مقام جو بڑی ضخامت رکھتا ہو ، سطح مرتفع ، وہ آدمی جسے جنگ میں بھوک پیاس نہ لگتی ہو ، وہ سردار جس کی طرف حاجات میں رجوع کیا جاتا ہو ۔ اَلصَّمَدُ ۔ ہر چیز کا بلند حصہ ، وہ شخس جس سے بالا تر کوئی دوسرا شخص نہ ہو ، وہ سردار جس کی اطاعت کی جاتی ہو اور اس کے بغیر کسی معاملہ کا فیصلہ نہ کیا جاتا ہو ، وہ سردار جس کی طرف حاجتمند لوگ رجوع کرتے ہوں ، دائم ، بلند مرتبہ ، ٹھوس جس میں کوئی خول یا جھول نہ ہو ، اور جس سے نہ کوئی چیز نکلتی ہو نہ اس میں داخل ہوسکتی ہو ، وہ آدمی جسے جنگ میں بھوک پیاس نہ لگتی ہو ۔ اَلمُصمَدُ ۔ ٹھوس چیز جس کا کوئی جوف نہ ہو ۔ اَلمُصَمَّدُ ۔ مقصود جس کی طرف جانے کا قصد کیا جائے ، سخت چیز جس میں کوئی کمزوری نہ ہو ۔ بَیتٌ مُصَمَّدٌ ۔ وہ گھر جس کی طرف حاجات میں رجوع کیا جاتا ہو ۔ بِنَاءٌ مُّصمَدٌ ۔ بلند عمارت ۔ صَمَدَہٗ وَ صَمَدَ اِلَیہِ صَمدًا ۔ اس شخص کی طرف جانے کا قصد کیا ۔ اَصمَدَ اِلَیہِ الاَمرَ ۔ اس کے سپرد معاملہ کردیا ، اس کے آگے معاملہ پیش کردیا ، اس کے آگے معاملہ پیش کردیا ، اس کے اوپر معاملہ میں اعتماد کیا ۔ ( صحاح ، قاموس ، لسان العرب ) ان لغوی معنوں کی بنا پر آیت اَللّٰهُ الصَّمَدُ میں لفظ الصَّمَدُ کی جو تفسیریں صحابہ و تابعین اور بعد کے اہل علم سے منقول ہیں انہیں ہم ذیل میں درج کرتے ہیں: حضرت علی ، عکرمہ اور کعب احبا: صَمَد وہ ہے جس سے بالا تر کوئی نہ ہو ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عبداللہ بن عباس اور ابو وائل شقیق بن سلمہ: وہ سردار جس کی سیادت کامل ہو اور انتہا کو پہنچی ہوئی ہو ۔ ابن عباس کا دوسرا قول: صمد وہ ہے جس کی طرف لوگ کسی بلا یا مصیبت کے نازل ہونے پر مدد کے لیے رجوع کریں ۔ ان کا ایک اور قول وہ سردار جو اپنی سیادت میں ، اپنے شرف میں ، اپنی عظمت میں ، اپنے حلم اور بردباری میں ، اپنے علم میں اور اپنی حکمت میں کامل ہو حضرت ابو ہریرہ: وہ جس میں سے نہ کوئی چیز کبھی نکلی ہو نہ نکلتی ہو ۔ جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو ۔ اسی کے ہم معنی اقوال شعبی اور محمد بن کعب القرظی سے بھی منقول ہیں ۔ سدی ۔ مطلوب چیزیں حاصل کرنے کے لیے لوگ جس کا قصد کریں اور مصائب میں مدد کے لیے جس کی طرف رجوع نہ کریں ۔ سعید بن جبیر: وہ جو اپنی تمام صفات اور اعمال میں کامل ہو ۔ ربیع بن انس: وہ جس پر کوئی آفت نہ آتی ہو ۔ مقاتل بن حیان: وہ جو بے عیب ہو ۔ ابن کیسان: وہ جس کی صفت سے کوئی دوسرا متصف نہ ہو ۔ حسن بصری اور قتادہ: جو باقی رہنے والا اور لازوال ہو اسی سے ملتے جلتے اقوال مجاہد اور معمر اور مرۃ الہمدانی سے بھی منقول ہیں ۔ مرۃ الہمدانی کا ایک اور قول یہ ہے کہ وہ جو اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے فیصلہ کرے اور جو کام چاہے کرے ، اس کے حکم اور فیصلے پر نظر ثانی کرنے والا کوئی نہ ہو ۔ ابراہیم نخعی: وہ جس کی طرف لوگ اپنی حاجتوں کے لیے رجوع کریں ۔ ابوبکر الانباری: اہل لغت کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ صَمَد اس سردار کو کہتے ہیں جس سے بالا تر کوئی اور سردار نہ ہو ، اور جس کی طرف لوگ اپنی حاجات اور اپنے معاملات میں رجوع کریں ۔ اسی کے قریب الزجاج کا قول ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ صَمَد وہ ہے جس پر سرداری ختم ہوگئی ہو اور ہر ایک اپنی حاجات کے لیے جس کی طرف رجوع کرے ۔ اب غور کیجیے کہ پہلے فقرے میں اللّٰهُ اَحَدٌ کیوں کہا گیا ، اور اس فقرے میں اَللّٰهُ الصَّمَدُ کہنے کی کیا وجہ ہے ۔ لفظ اَحَدٌ کے متعلق ہم بیان کرچکے ہیں کہ وہ صرف اللہ تعالی کے لیے مخصوص ہے ، کسی اور کے لیے سرے سے مستعمل ہی نہیں ہے ، اس لیے اسے اَحَدٌ ، یعنی نکرہ کی صورت میں استعمال کیا گیا ہے ، لیکن صَمَد کا لفظ چونکہ مخلوقات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، اس لیے اللہ صمد کہنے کے بجائے اَللّٰهُ الصَّمَدُ کہا گیا ، جس کے معنی یہ ہیں کہ اصلی اور حقیقی صَمَد اللہ تعالی ہی ہے ۔ مخلوق اگر کسی حیثیت سے صمد ہو بھی تو کسی دوسری حیثیت سے وہ صمد نہیں ہے ، کیونکہ وہ فانی ہے ، لازوال نہیں ہے ، قابل تجزیہ و تقسیم ہے ، مرکب ہے ، کسی وقت اس کے اجزاء بکھر سکتے ہیں ، بعض مخلوقات اس کی محتاج ہیں تو بعض کا وہ خود محتاج ہے ، اس کی سیادت اضافی ہے نہ کہ مطلق ، کسی کے مقابلے میں وہ برتر ہے تو اس کے مقابلے میں کوئی اور برتر ہے ، بعض مخلوقات کی بعض حاجات کو وہ پورا کرسکتا ہے ، مگر سب کی تمام حاجات کو پورا کرنا کسی مخلوق کے بس میں نہیں ہے ۔ بخلاف اس کے اللہ تعالی کی صمدیت ہر حیثیت سے کامل ہے ۔ ساری دنیا اس کی محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ دنیا کی ہر اچیز اپنے وجود بقا اور اپنی حاجات و ضروریات کے لیے شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر اسی کی طرف رجوع کرتی ہے اور سب کی تمام حاجات پوری کرنے والا وہی ہے ۔ وہ غیر فانی اور لازوال ہے ۔ رزق دیتا ہے ، لیتا نہیں ہے ، مفرد ہے ، مرکب نہیں ہے کہ قابل تجزیہ و تقسیم ہو ۔ ساری کائنات پر اس کی سیادت قائم ہے اور وہ سب سے برتر ہے ۔ اس لیے وہ محض صَمَد نہیں ، بلکہ الصمد ہے ، یعنی ایک ہی ایسی ہستی جو حقیقت میں صمدیت سے بتمام و کمال متصف ہے ۔ پھر چونکہ وہ الصمد ہے اس لیے لازم آتا ہے کہ وہ یکتا اور یگانہ ہو ، کیونکہ ایسی ہستی ایک ہی ہوسکتی ہے جو کسی کی حاجتمند نہ ہو اور سب جس کے محتاج ہوں ۔ دو یا زائد ہستیاں سب سے بے نیاز اور سب کی حاجت روا نہیں ہوسکتیں ۔ نیز اس کے الصمد ہونے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہی ایک معبود ہو ، کیونکہ انسان عبادت اسی کی کرتا ہے جس کا وہ محتاج ہو ۔ اور اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہ ہو ، کیونکہ جو حاجت روائی کی طاقت اور اختیارات ہی نہ رکھتا ہو اس کی بندگی و عبادت کوئی ہوشمند آدمی نہیں کرسکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: یہ قرآنِ کریم کے لفظ ’’اَلصَّمَدُ‘‘ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس لفظ کا مفہوم بھی اُردو کے کسی ایک لفظ سے ادا نہیں ہوسکتا۔ عربی میں ’’صمد‘‘ اس کو کہتے ہیں جس سے سب لوگ اپنی مشکلات میں مدد لینے کے لئے رجوع کرتے ہوں، اور سب اُس کے محتاج ہوں۔ اور وہ خود کسی کا محتاج نہ ہو۔ عام طور سے اِختصار کے پیش نظر اس لفظ کا ترجمہ ’’بے نیاز‘‘ کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ اس کے صرف ایک پہلو کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ لیکن یہ پہلو اُس میں نہیں آتا کہ سب اُس کے محتاج ہیں۔ اس لئے یہاں ایک لفظ سے ترجمہ کرنے کے بجائے اُس کا پورا مفہوم بیان کیا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(112:2) اللہ الصمد۔ اللّٰہ مبتدائ۔ الصمد خبر۔ صمد کے لغت میں دو معنی ہیں :۔ اول :۔ قصدو ارادہ کرنے کے۔ اس تقدیر پر صمد بمعنی مصمود ہوگا۔ اس لئے کہ فعل بمعنی مفعول زبان عرب میں بکثرت مستعمل ہے۔ اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ ہر ایک کا مقصود ہے۔ ہر کوئی اس کی طرف قصد کرتا ہے۔ دوم :۔ صمد کے معنی ہیں ٹھوس کے کہ اس پر کوئی تغیر نہیں آتا۔ وہ قوی اور مستقل ہے اس تقدیر پر یہ لفظ واجب الوجود کے معنی میں ہے۔ یہ تو لغوی معنی کی تحقیق تھی۔ مگر عرف عرب میں یہ لفظ بہت سے معانی میں مستعمل ہے اس لئے مفسرین میں سے ہر ایک نے ایک ایک معنی اختیار کئے ہیں۔ (1) یہ وہ جمیع اشیاء کا جاننے والا ہے کس لئے کہ بغیر اس کے حاضت روائی کرنا ممکن نہیں ہے۔ (2) ابن مسعود کا قول ہے کہ اس کے معنی ہیں سردار کے۔ جو سب سے اعلیٰ سردار ہیں ۔ (3) اصم کہتے ہیں کہ صمد جمیع اشیاء کے خالق کو کہتے ہیں۔ (4) سدی کہتے ہیں کہ صمد اس کو کہتے ہیں کہ جو ہر کام میں مقصود اصلی ہو اور اس کی طرف فریاد لے جاتے ہوں۔ (5) حسین بن فضل کہتے ہیں کہ صمد وہ ہے کہ وہ جو چاہے کرے۔ (6) صمد : فرد کامل اور بزرگ کو کہتے ہیں۔ (7) صمد : بےنیاز۔ کہ جس کو کسی کی کسی بات میں حاجت نہ ہو۔ (8) صمد : وہ کہ جس کے اوپر کوئی بالادست نہ ہو۔ (9) صمد : قتادہ کہتے ہیں کہ وہ جو نہ کھائے نہ پئے۔ (10) صمد : وہ جو مخلوق کے فناء ہوجانے کے بد بھی باقی رہے فنا نہ ہوجائے۔ (11) صمد : وہ ہے کہ جس کو زوال نہ ہو، جیسا تھا ہمیشہ ویسا ہی رہے۔ (حسن بصری) (12) صمد : وہ ہے جو کبھی نہ مرے اور نہ کوئی اس کا وارث بنے۔ (ابی بن کعب) (13) صمد : وہ ہے جو نہ کبھی سوئے نہ بھولے۔ (یمان، ابو مالک) (14) صمد : وہ ہے کہ کوئی دوسرا اس کی صفات سے متصف نہ ہو۔ (15) صمد : وہ ہے جو بےعیب ہو۔ (مقاتل بن حیان) (16) صمد : وہ ہے کہ جس پر کوئی آفت نہ آئے۔ (ربیع بن انس) (17) صمد : وہ ہے جو اپنی جمیع صفات اور افعال میں کامل ہو۔ (سعید بن جبیر) (18) صمد : وہ ہے جو غالب رہے کبھی مغلوب نہ ہو۔ (جعفر صادق) (19) صمد : وہ ہے جو سب سے بےنیاز اور سب سے بےپرواہ ہو۔ (حضرت ابوہریرہ (رض) (20) صمد : وہ ہے جس کی کیفیت اور ریاضت کرنے سے مخلوق عاجز ہو۔ (ابوبکر وراق) (21) صمد : وہ ہے کہ جو کسی کو نظر نہ آسکے۔ (22) صمد : وہ ہے جو نہ کسی کو جنے اور نہ کسی نے اس کو جنا ہو۔ (23) صمد : وہ ہے وہ بڑا کہ جس کے اوپر کوئی بڑا نہ ہو۔ (24) صمد : وہ ہے جو زیادتی اور نقصان سے پاک ہو۔ (25) چند اور صفات قرآن مجید میں اسی سورت میں آئی ہیں :۔ (1) لم یلد : کہ اس نے کسی کو نہیں جنا۔ یعنی وہ کسی کا باپ نہیں ہے۔ (2) ولم یولد : اور وہ کسی سے پیدا بھی نہ ہوا۔ یعنی کوئی اس کا باپ نہیں۔ (3) ولم یکن لہ کفوا احد : وہ اس سے بھی پاک ہے کہ کوئی اس کا مثل اور ہمسر اور کینہ و قبیلہ ہو۔ (تفسیر حقانی سے) اللّٰہ احد کہنے کے بعد اللّٰہ الصمد اور بعد والے جملے کہنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ اللّٰہ احد کے اندر یہ تمام معانی موجود ہیں ہاں ان جملوں کو مزید تاکید کی طرح قرار دیا جاسکتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

” اَللّٰہُ الصَّمَدُ “ اللہ بےنیاز ہے اللہ تعالیٰ کی ” اَحَدْ “ کی صفت میں توحید کی تینوں اقسام پائی جاتی ہیں۔ تاہم تفصیل کے لیے الصّمد اور دوسری صفات کا ذکر کیا گیا ہے بالفاظ دیگر یہ صفات صفت ” اَحَدْ “ کی تفصیل ہیں۔ اہل زبان نے الصّمد کے بہت سے معانی ذکر کیے ہیں، تمام معانی کا خلاصہ یہ ہے۔ ١۔ الصّمد ایسی چٹان یا ذات جس کی مشکل کے وقت پناہ لی جائے۔ ٢۔ الصّمد وہ ذات جس میں کسی قسم کا خلا اور ضعف نہ ہو۔ ٣۔ الصّمد ایسی ذات جس کے وجود سے نہ کوئی چیز نکلتی ہو اور نہ کوئی چیز داخل ہوتی ہو۔ ٤۔ الصّمد سے مراد ایسا سردار جو ہر اعتبار سے کامل اور اکمل ہو اور مشکل کے وقت اس کا سہارا لیا جائے۔ ٥۔ الصّمد وہ ذات جس کے سب محتاج ہوں اور وہ کسی کی محتاج نہ ہو۔ مذکورہ بالا معانی کو سامنے رکھتے ہوئے مفسرین کی غالب اکثریت نے الصّمد کا معنٰی بےنیاز کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جو ہر اعتبار سے بےنیاز ہے۔ بےنیاز کا یہ معنٰی نہیں کہ کہ اسے اپنی مخلوق کی کوئی پرواہ نہیں بلکہ بےنیاز کا معنٰی ہے کہ وہ غنی ہے اور پوری مخلوق اس کی محتاج ہے۔ اگر ساری مخلوق مل کر بغاوت کردے تو اس کی ذات اور بادشاہت کو رائی کے دانے کے برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔ اگر ساری مخلوق اس کی تابع فرمان ہوجائے تو اس کی بادشاہت میں اضافہ نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ الصّمد ہے۔ الصّمد کا معنٰی ایسی ذات جو کسی کی محتاج نہ ہو اور باقی تمام اس کے محتاج ہوں جب وہ کسی کا محتاج نہیں اور باقی سب اس کے محتاج ہیں تو پھر عبادت بھی اسی کی کرنی چاہیے۔ جس کا صاف معنٰی ہے کہ وہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے لہٰذا اسی ایک کی عبادت کرنی چاہیے یہی توحید الوہیّت کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔ اس لیے ” اَللّٰہُ الصَّمَدُ “ میں دوسرے معبودوں کی نفی پائی جاتی ہے۔ (وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) (الانبیاء : ٢٥) ” ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری ہی بندگی کرو۔ “ (وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْہُمْ مَّنْ ہَدَی اللّٰہُ وَ مِنْہُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَۃُ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَِیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ ) (النحل : ٣٦) ” اور یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔ ان میں سے کچھ وہ تھے جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور کچھ وہ تھے جن پر گمراہی ثابت ہوگئی۔ پس زمین میں چل، پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا۔ “ (لَتَشْہَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰہِ اٰلِہَۃً اُخْرٰی قُلْ لَّآ اَشْہَدُ قُلْ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّ اِنَّنِیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ ) (الانعام : ١٩) فرما دیجیے میں یہ گواہی نہیں دیتا فرما دیجیے وہ تو صرف ایک ہی معبود ہے اور بیشک میں اس سے بری ہوں جو تم شریک ٹھہراتے ہو۔ “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اَللّٰهُ الصَّمَدُۚ٠٠٢﴾ (اردو میں اس کا ترجمہ بےنیاز کیا جاتا ہے یعنی جو محتاج نہیں) روح المعانی میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے ھو المستغنی عن کل احد المتحاج الیہ کل احد نقل کیا ہے لفظ بےنیاز اس کا آدھا ترجمہ ہے اس کے ساتھ یہ بھی کہنا چاہیے کہ جس کے سب محتاج ہیں، لفظ الصمد میں بہت بڑی معنویت ہے۔ صاحب روح المعانی نے ابن الانباری سے نقل کیا ہے کہ اہل لغت کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ الصمد کا معنی یہ ہے : انہ السید الذی لیس فوقہ احد الذی یصمد الیہ الناس فی حوائجھم وامورھم (یعنی صمد وہ سردار ہے جس سے برتر وبالا کوئی نہیں جس کی طرف لوگ اپنی حاجتوں اور تمام کاموں میں متوجہ ہوتے ہیں) ۔ اس کے بعد حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے : ھو السید الذی قد کمل فی سوددہ والشریف الذی قد کمل فی شرفہ والعظیم الذی قد کمل فی عظمتہ والحلیم الذی قد کمل فی حلمہ والعلیم الذی قد کمل فی علمہ والحکیم الذی قد کمل فی حکمتہ وھو الذی قد کمل فی انواع الشرف والسودد (یعنی صمد وہ سید ہے جس کی سرداری مکمل ہے اور وہ شریف ہے جس کا شرف کامل ہے وہ عظیم ہے جس کی عظمت کامل ہے وہ حلیم ہے جس کا حلم پورا ہے اور وہ علیم ہے جس کا علم کامل ہے وہ حکیم ہے جس کی حکمت پوری ہے اور وہ ذات ہے جو شرف اور سرداری کے تمام انواع میں کامل ہے) یہ معنی بہت اشمل و اکمل ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” اللہ الصمد “ شاہ عبدالقادر (رح) اس کا ترجمہ کرتے ہیں اللہ نرا دھار ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں، الصمد وہ ہے جس کا لوگ حاجات و مصائب میں قصد کریں اور مافوق الاسباب غائبانہ اسے پکاریں۔ عن ابن عباس قال الذی یصمد الیہ فی الحاجات (بخاری، قرطبی) ۔ الصمد وہ بےنیاز ذات جس کو کسی کی حاجت نہ ہو مگر ساری کائنات اس کی محتاج ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں اور سب اس کے محتاج ہیں اس میں ان سب لوگوں کا رد ہے جو غیر اللہ کو کسی درجہ میں مستقل مانتے ہیں جیسے ہنود کے بعض فرقے جو روح اور مادے کی قدامت کے قائل ہیں ان کا رد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ عالم کے بنانے میں روح اور مادے کا محتاج ہے اور روح اور مادہ اپنے استقلال میں اللہ تعالیٰ کے محتاج نہیں ہیں جیسا کہ اس فرقے کا دعویٰ ہے اس آیت میں ان کا بھی رد ہے جو کہتے ہیں عالم کے لئے ایک خالق کافی نہیں ہے بلکہ کئی صانع ہونے چاہیں اور عالم کے بنانے کے لئے کئی خالق ہونے کی ضرورت ہے۔