Surat un Naas

Mankind

Surah: 114

Verses: 6

Ruku: 1

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تعارف سورة الفلق۔ سورة الناس بسم اللہ الرحمن الرحیم سورة الفلق سورت نمبر 113 رکوع 1 آیات 5 الفاظ و کلمات 23 حروف 73 مقام نزول مدینہ منورہ سورة الناس سورت نمبر 114 رکوع 1 آیات 6 الفاظ و کلمات 20 حروف 81 مقام نزول مدینہ منورہ سورة الفلق اور سورة الناس جو دونوں ایک ہی واقعہ کے سلسلہ میں نازل کی گئی ہیں اس لئے بعض اکابر نے ان دونوں سورتوں کو ایک ہی کہا ہے۔ بہرحال واقعہ اور مضمون کے لحاظ سے ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں سورتیں ایک ہی نہر کی دو شاخیں ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ان سورتوں کے پس منظر میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے اس میں متعدد روایتیں ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے۔ اہل کتاب میں سے یہودی شروع ہی سے اسلام دشمنی اور دین اسلام کو مٹانے کی کوشش اور سازش سے باز نہ آتے تھے۔ ان کی کوشش یہی ہوتی کہ وہ خود سامنے نہ آئیں اور دوسروں کو اپنا آلہ کار بنائیں۔ چناچہ ایک مرتبہ چند یہودی مدینہ منورہ آئے۔ اس زمانہ میں لبید ابن عصم اور اس کی بہنیں جادوٹونے اور تعویذ گنڈوں میں مشہور تھیں۔ یہودیوں نے لبید ابن اعصم کو کچھ رقم دے کر کہا کہ اگر تم (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی ایسا زبردست جادو کردو جس سے یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہمارے راستے سے ہٹ جائیں تو ہم تمہیں اور بھی مال دیں گے۔ لبید اس کے لئے تیار ہوگیا۔ اس نے ایک ایسے خادم سے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لگا رہتا تھا اس سے کنگھے کا ایک ٹکڑا جس میں آپ کے لگے ہوئے سر کے چند بال بھی تھے حاصل کرلیا۔ اس نے کنگھے اور سر کے بالوں پر جادو کیا اور ایک تانت کے دھاگے میں گیارہ گرہیں لگائیں اور ایک نر کھجور کے گابھے میں رکھ کر بنی زریق یا بنی زروان کے ایک اندھے کنویں کی تہہ میں ایک پتھر کے نیچے دبادیا۔ چونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برابر اللہ کی حفاظت میں تھے اس لئے اس جادو کا کوئی شدید اثر تو نہ ہوا۔ البتہ آپ نے خود یہ اثر محسوس کیا کہ آپ اندر ہی اندر گھلتے جا رہے ہیں۔ دوسرا اثر یہ ہوا کہ جیسے خسی وقت میں بخار کی کیفیت میں طبیعت اکھڑی اکھڑی سی ہوجاتی ہے اسی طرح آپ کو خود محسوس ہونے لگا کہ آپ کی طبیعت ناساز ہے۔ آج آپ سے قریب تر تھے یہاں تک کہ آپ کی مزاج شناس محبوب بیوی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بھی آپ کی ان کیفیات کو محسوس نہ کرسکیں۔ کبھی آپ کے سر میں درد یا عجیب سی بےچینی سی ہوجاتی تھی۔ ایک دن جب کہ آپ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے ہاں موجود تھے زیادہ بےچینی محسوس کرکے بار بار دعائیں کررہے تھے کہ آپ کو ہلکی سی نیند آگئی اور آپ کچھ دیر بعد اٹھ بیٹھے فرمایا عائشہ ! میں نے اپنے رب سے پوچھا تو اللہ نے مجھے اس تکلیف کی وجہ بتا دی ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسے حی مجھے اونگھ آئی تو دو فرشتے انسانی شکل میں آئیّایک سرہانے بیٹھ گیا دوسرا پاؤں کی طرف۔ ایک نے پوچھا ان کو کیا ہوگیا ؟ دوسرے نے کہا ان پر جادو کیا گیا ہے۔ لبید ابن اعصم نے کنگھی اور بالوں کو ایک نر کھجور کے خوشے میں غلاف کے اندر چھپا کر بنی زردان کے کنویں میں پتھر کے نیچے دبایا ہوا ہے۔ چناچہ اس کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کرام (رض) کے ساتھ جن میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت عمار ابن یاسر، حضرت زبیر تھے لے کر ذردان کے کنویں پر پہنچے جس میں جادو کی گئی تمام چیزیں موجود تھیں۔ ان کو باہر نکالا۔ تانت میں گیارہ گرہیں تھیں۔ موم کا ایک ایسا پتلا تھا جس میں گیارہ سوئیاں چبھوئی گئی تھیں۔ اس وقت اللہ نے سورة الفلق اور سورة الناس نازل فرمائیں۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا کہ آپ ان جادو کی چیزوں پر ان دو سورتوں کی گیارہ آیات کی تلاوت کرتے جائیں۔ ہر آیت پر ایک گرہ کھولتے جائیں اور ایک سوئی نکالتے جائیں۔ چناچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ جب ساری گرہیں کھول دی گئیں اور سوئیاں بھی نکال کر پھینک دی گئیں تو آپ کو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی بہت بڑا بوجھ تھا یا کسی چیز میں آپ بندھے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھول دی گئی ہوں۔ سب کو معلوم ہوگیا تھا کہ انصار کے ایک قبیلے بنی زریق کے لبید ابن اعصم اور اس کی بہنوں نے یہ حرکت کی ہے۔ بعض صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں نہ لبید کو قتل کردیا جائے تاکہ وہ آئندہ کسی کے ساتھ اس قسم کی حرکت نہ کرسکے۔ آپ نے بڑا سادہ سا جواب دیا کہ اللہ نے مجھے شفا عطا فرما دی ہیّ اب میں نہیں چاہتا کہ اپنی ذات کے لئے دوسرے لوگوں کو بھڑکاؤں اور اس طرح آپ نے لبید ابن اعصم اور اسکی جادوگر بہنوں کو معاف کردیا اور ان سے کسی قسم کا انتقام یا بدلہ نہیں لیا۔ سورة الفلق اور سورة الناس کی آیات کے متعلق چند باتیں عرض ہیں۔ ٭ ان دونوں سورتوں میں گیارہ آیات ہیں۔ سورة الفلق کی آیات کا تعلق دنیاوی چیزوں سے ہے جن میں پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مخلوق کے شر سے، رات کے چھ جانے والے اندھیرے سے، گرھوں میں پھونک مار کر جادو کرنے والیوں اور حسد کرنے والے کے شر سے۔ سورة الناس میں انسانوں کے پروردگار، سب لوگوں کے بادشاہ اور تمام انسانوں کے معبور کی پناہ میں آجانے کی ترغیب دی گئی ہے فرمایا گیا ہے کہ دلوں میں وسوسہ ڈالنے والوں کے شر سے اور وسوسے ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والے انسان اور جنات کی برائیوں سے پناہ صرف اللہ ہی کے پاس مل سکتی ہے۔ ٭ ان دونوں سورتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانوں کو ہر حال میں صرف اللہ ہی سے پناہ مانگنا چاہیے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب آدمی کسی چیز سے خسی طرح کا ڈر یا خوف محسوس کرتا ہے تو وہ کسی طرح اس سے نکلنے کے لئے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اس سے بچ جانا چاہتا ہے۔ چناچہ کفار قریش اللہ کے سوا ہر چیز کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ جنات، بت ، دیوی، دیوتاؤں کو اپنی پناہ کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ سورة الجن میں فرمایا گیا کہ ” یہ لوگ انسانوں میں سے اور کچھ لوگ جنات سے پناہ طلب کرتے تھے “۔ اسی طرح کفار قریشی جب کبھی رات کے وقت کسی سنسان وادی میں پڑائو ڈالتے تھے تو کہتے ” ہم اس وادی کے رب (یعنی وہ جن جو اس وادی پر حکومر کتا ہے) اس کی پناہ مانگتے ہیں “۔ اس کے لئے کچھ کھانے اور خوشبوؤں کی دھنی بھی دیا کرتے تھے ۔ غرضیکہ غیر اللہ سے پناہ مانگنا اور اپنے سائے سے بھی لرزنا یہ ان کا مزاج بن گیا تھا۔ موجودہ دور میں بھی ” ہیلوون “ انگریزوں کا وہ تہوار ہے جس میں ان کا خیال ہے کہ ہر سال کی 31 اکتوبر کو تمام روحیں دنیا میں آتی ہیں۔ ان سے بچنے کے لئے دنیا کی ترقی یافتہ اور روشن خیالی کا دعویٰ کرنے والی قوموں کا یہ عالم ہوتا ہے کہ پوری قوم اپنے جسم پر اس طرح مختلف رنگ پینٹ کرکے اس رات پوری قوم بھوتوں کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو دنیا بھر کے بھوت انہیں چٹ کر جائیں گے۔ ہندوستان میں برگد کے درخت، تلسی کے پودوں کو وہ اپنا محافظ سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے تمام وہموں اور پناہ کے غلط تصورات سے نجات دینے کے لئے بتا دیا کہ پناہ صرف اللہ رب العالمین کی مانگی جائے اس کے علاوہ کسی سے پناہ نہ مانگی جائیّ اب ایک مومن صرف ایک اللہ ہی کی پناہ مانگتا ہے۔ اس کے سوا کسی کی پناہ کا وہ کوئی صتور نہیں کرتا۔ ٭ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کا اثر ہوجانا قطعی طور پر ثابت ہے۔ محدثین نے اس کثرت سے اور مختلف سندوں سے روایات کے بعد اس واقعہ کو ثابت کیا ہے کہ اس کے مضمون سے انکا رکی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ جادو کا اثر محض طبیعت کی گرانی تک محدود تھا شریعت کے احکامات میں کسی طرح کے اثرات ظاہر نہیں ہوئے۔ جب حضرت جبرئیل نے اس کا علاج بتا دیا تو وہ اثر بھی جاتا رہا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة النّاس کا تعارف النّاس بھی مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ یہ ایک رکوع پر مشتمل ہے جس میں چھ آیات ہیں اور اسے قرآن کی آخری سورت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان دو سورتوں کو معوّذتین کا نام دیا گیا ہے جس کا معنی ہے کہ یہ وہ سورتیں ہیں کہ جن کے ذریعے اپنے رب سے مخلوق کی شر سے پناہ مانگنی چاہیے۔ یہ اتنا اہم کام ہے کہ اس کے لیے یہ سورت بھی ” قل “ کے لفظ سے شروع کی گئی ہے۔ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اپنے رب سے جن اور انسانوں کی شر سے پناہ مانگا کریں۔ مطلب یہ ہے جو شریر جنوں اور انسانوں کی شر سے بچا لیا گیا وہی ہدایت والا ہے اور وہی دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوگا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس سورت میں پناہ مانگنے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ انسانوں کے پروردگار ، انسانوں کے بادشاہ ، اور انسانوں کے الٰہ کی پناہ گاہ میں پناہ لینے کے اعلان کا حکم ہے اور جس چیز سے پناہ مانگنے کا حکم ہے وہ بار بار وسوسہ ڈالنے والے شیطان کا شر ہے ، جو لوگوں کے دلوں تک جا پہنچتا ہے اور وہاں وسوسہ اندازی کا کام کرتا ہے اور جو جنوں سے بھی ہے اور انسانوں سے بھی ہے۔ یہاں رب تعالیٰ کی جن صفات کا ذکر کیا گیا ہے یعنی رب ، بادشاہ ، الٰہ اور معبود ، یہ وہ صفات ہیں جو بالعموم ثر کا دفعیہ کرتی ہیں اور دفعیہ اس شیطان کے شر سے کیا جاتا ہے جو دلوں میں وسوسہ اندازی کرتا ہے۔ اور بار بار چھپ کر آتا ہے۔ صفت رب کے معنی ہیں ، مربی ، نگہبان ، حامی ، ہدایت دینے والا۔ ملک کی صفت کے معنی ہیں حاکم متصرف ، مقتدر۔ الٰہ کے معنی ہیں بلندوبرتر ، حاوی اور مقتدر اعلیٰ ۔ یہ وہ صفات ہیں جن میں شر سے بچانے کا عنصر شامل ہے ، وہ شر جو دلوں تک خفیہ انداز سے پہنچ جاتا ہے۔ اور انسان کے بس میں یہ بات نہیں ہوتی کہ وہ اس خفیہ طور پر درآنے والے شرکا دفاع کرسکے۔ اللہ تو سب چیزوں کی پرورش کرنے والا ہے۔ سب کا مالک ہے ، سب کا حاکم ہے لیکن یہاں ان صفات کی نسبت الناس کی طرف کرنے کا مقصد یہ ہے کے انسان یہ احساس کریں کہ اللہ کا مقام پناہ اور مقام حفاظت ان کے قریب ہے۔ اور یہ اللہ کا بہت بڑا کرم ہے کہ وہ اپنے حبیب اور اس کی امت کو اس طرف متوجہ کرتا ہے اور اپنے حظیرہ میں پناہ لینے کی دعوت دیتا ہے۔ اور اس دعوت میں اپنی صفات کی یاد دہانی بھی کراتا ہے کہ شیطان کی بعض ایسی خفیہ کاروائیاں بھی ہیں جن کا دفعا تم رب ، الٰہ اور بادشاہ عالمین کی مدد کے سوا نہیں کرسکتے۔ اس لئے کہ شیطان ایسے مقام سے حملہ آور ہوتا ہے۔ جس کا تمہیں شعور ہی نہیں ہوتا اور وہ ایسی راہ سے آتا ہے جس راہ سے اس کے آنے کا خیال تک نہیں ہوتا۔ وسوسہ کے معنی نہایت خفیہ آزار کے ہیں۔ خنوس کے معنی ہیں واپس ہوکر چھپ جانے کے ہیں اور خناس وہ ہوتا ہے جو یہ عمل ازروئے فطرت بہت زیادہ کرتا ہے۔ اس ایٓت میں پہلی صفت کو عمومی انداز دیا گیا ہے۔ الوسواس الخناس (4:114) ” جو وسوسہ ڈالتا ہے اور جو بار بار پلٹ کر آتا ہے “۔ البتہ وسواس اور خناس کے کام کو متعین کردیا گیا ہے ۔ الذی ........................ الناس (5:114) ” جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالات ہے “۔ اور اس کے بعد اس کی حقیقت کو بھی کھول دیا گیا ہے۔ من الجنة والناس (6:114) ” وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے “۔ یہ ترتیب گفتگو انسان کو بےحد چوکنا کردیتی ہے۔ انسان فوراً متنبہ اور متوجہ ہوجاتا ہے تاکہ وہ معلوم کرے کہ یہ خطرناک کام کرنے والا کون ہے۔ (کیونکہ آغاز کلام میں اسے عمومی انداز میں بیان کیا گیا ہے) ۔ اور یہ اپنے اس خطرناک کام کو کس طرح انجام دیتا ہے۔ تاکہ وہ اس کی مسلسل نگرانی کرے اور اس کے دفاع میں جدوجہد کرے۔ جب نفس انسانی ، اس بیداری اور تجسس پر برانگیختہ ہونے کے بعد معلوم کرلیتا ہے کہ یہ وسوسہ اندازی کرنے والا لوگوں کے دلوں میں گھس کر وسوسہ اندازی کرتا ہے اور یہ کام وہ نہایت خفیہ انداز میں اور غیر محسوس طریقے سے کرتا ہے اور پھر جب نفس سے یہ معلوم کرلیتا ہے کہ یہ جنات میں بھی ہے جو ایک خفیہ مخلوق ہے اور یہ انسانوں میں سے بھی ہے جو نہایت خفیہ انداز میں جنوں کی طرح وسوسہ اندازی کرتے ہیں ، جس طرح شیطان کرتا ہے۔ تو نفس انسانی اس عمل کی مدافعت کے لئے تیار ہوجاتا ہے کیونکہ وہ انسان کی کمین گاہ ، اس کے مقام حملہ ، اور اس کے اندر حملہ کو اچھی طرح جان چکا ہوتا ہے۔ جناتی مخلوق کس طرح حملہ آور ہوتی ہے اور وسوسہ اندازی کرتی ہے۔ اس کے طریقہ کا مرکو تو ہم اچھی طرح نہیں جانتے۔ البتہ نفس انسانی پر اس کے آثا اور عملی زندگی میں اس کے نتائج کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ آدم وابلیس کی کشمکش بہت قدیم ہے۔ اور انسانیت کے خلاف اس جنگ کا اعلان تو شیطان نے پہلے سے کر کھا ہے اور یہ اس داعیہ شر کی وجہ سے ہے جو خود اس کی تخلیق میں موجود ہے یعنی تکبر ، حسد اور انسان کے خلاف دشمنی کی وجہ سے۔ اس سلسلے میں اس نے اللہ سے یہ کام کرنے کی مہلت بھی قدیم سے مانگ رکھی ہے اور اسے دے دی گئی ہے اور یہ اجازت اللہ نے اس حکمت کی بنا پر دی ہے جسے صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن انسان کو بھی اللہ نے اس معرکہ میں ، مقابلہ کرنے کے لئے تیار کیا ہے ، اسے بےیارومددگار نہیں چھوڑا۔ اسے ایمان کی ڈھال فراہم کی گئی ، اسے ذکر الٰہی کا اسلحہ دیا گیا ہے اور اللہ کی پناہ گاہوں میں داخل ہونے کے لئے مضبوط قلعے دیئے گئے ہیں۔ اگر انسان اپنی ڈھال ، اپنا اسلحہ اور اپنے قلعوں کو نظر انداز کر کدے تو یہ اس کی اپنی کوتاہی ہوگی اور وہ خود اس کے نتائج کا ذمہ دار ہوگا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے : فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شیطان انسان کے قلب پر چھا جاتا ہے۔ جب ابن آدم کو یاد کرتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور جب وہ غافل ہوتا ہے تو پھر وسوسہ اندازی کرتا ہے۔ (بخاری) رہے انسان تو ان کی وسوسہ اندازیوں کے بارے میں ہم بہت کچھ جانتے ہیں اور ان کی بعض کاروائیاں تو ایسی ہیں کہ جو شیطان کی وسوسہ اندازی سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ انسان کے ایک برے ساتھی ہی کو لیجئے۔ یہ اپنے رفیق کے دل میں غفلت کے وقت شرارت کا ایک ذرہ اتار دیتا ہے ، اسے خیال بھی نہیں ہوتا کہ یہ کہاں سے حملہ آور ہوا ، یہ بےچارہ اس حملے کا دفاع بھی نہیں کرسکتا کیونکہ دوست تو محفوظ ومامون ہے۔ ہر بر اسر اقتدار شخص کے ساتھ کچھ شیطان حاشیہ نشین لگ جاتے ہیں۔ اور اسے پہار وجبار بنادیتے ہیں ، پھر اس سے فساد فی الارض کراتے ہیں اور وہ نسلوں اور فصلوں کو برباد کرنے چلا جاتا ہے۔ کان پھرنے والے چغل خور لوگ جو نہایت چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں اور نہایت خوبصورت انداز گفتگو ہوتا ہے ان کا۔ یوں لگتا ہے کہ موصوف تو صریح حق گو آدمی ہیں اور اس کی باتوں میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور وہ لوگ جو شہوات کا سازو سامان فروخت کرتے ہیں ، جو انسانی جبلت کی راہوں سے حملہ آور ہوتے ہیں اور اس قدر شدید اور پرکشش طریقے سے کام کرتے ہیں کہ صرف قلب کی بیداری ہی اس حملے کا دفاع کرسکتی ہے اور صرف اللہ کی معانت اور مدد ہی بچا سکتی ہے۔ آج وسیوں خفیہ وسوسہ انداز ، اپنے دام تزویر پھیلائے انسانیت کی راہ میں بیٹھے ہیں۔ یہ نہایت خفیہ طریقوں سے ، نفس انسانی کی خفیہ ترین راہوں سے ، جن کو وہ اچھی طرح جانتے ہیں ، حملہ آور ہوتے ہیں ، یہ لوگ جنسی شیطان سے زیادہ خفیہ انداز میں کام کرتے ہیں۔ اور نہایت خفیہ اور غیر محسوس طریقے سے نفس انسانی کے اندر گھس کر وسوسہ ڈالتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان ضعیف ہے اور وہ ان عیاروں کی ان چالوں کا دفعیہ نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ ان کو خبردار کرتا ہے ، ان کو مسلح کرتا ہے ، ان کو ڈھال اور قلعے فراہم کرتا ہے کہ وہ اس خوفناک جنگ میں مقابلہ کرسکیں۔ یہاں ایک بات قابل توجہ ہے اور اس وسوسہ ڈالنے کی ایک صفت نہایت بامعنی بتائی گئی ہے کہ وہ ” الخناس “ ہے۔ اس لفظ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ خفیہ طور پر چھپ کر بیٹھتا ہے۔ اور جونہی کوئی موقعہ ملتا ہے۔ خفیہ اندا زمین گھس کر وسوسہ اندازی کرتا ہے لیکن یہ لفظ دوسری طرف سے یہ تاثر بھی دیتا ہے کہ یہ نہایت بودے کردار کا مالک ہے۔ اگر دیکھیں کہ شخص چوکنا ہے ، اور بیدار ہے ، تو یہ چھپ جاتا ہے اور یہ انسانوں میں سے ہو یاجنوں میں سے۔ جب کوئی اس کے مقابلے میں آئے تو یہ جہاں سے آتا ہے ادھر بھاگ جاتا ہے اور چھپ جاتا ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا اچھی مثال دی ہے اور کیا ہی خوب تصویر کشی ہے۔ فاذکر اللہ اللہ خنس واذا غفل وسوس ” جب آدمی اللہ کو یاد کرے تو یہ چھپ جاتا ہے اور جب غافل ہو کر وسوسہ اندازی کرتا ہے “۔ یہ نکتہ انسان کو ایک گونہ قوت فراہم کرتا ہے کہ وہ جرات سے اس خناس کا مقابلہ کرسکے۔ یہ خناس ہے ، چھپ کر بھاگتا بھی ہے۔ اور جب کوئی مومن ہتھیار لے کر آتا ہے تو یہ مقابلہ نہیں کرسکتا۔ لیکن دوسری جانب حقیقت واقعہ یہ ہے کہ آدم وابلیس کا معرکہ ایک طیل معرکہ ہے جو اس دینا میں ختم نہ ہوگا۔ شیطان قیامت تک چھپ کر اور موقعہ تلاش کرکے حملہ آور ہوتا رہے گا۔ اس لئے اس کے مقابلے میں مسلسل بیداری ضروری ہے۔ صرف ایک دفعہ بیدار ہونا کافی نہیں۔ یہ جنگ جاری ہے اور قرآن نے اس کی مختلف مقامات پر نہایت ہی خوبصورت تصویر کشی کی ہے اور سورة اسراء (61 تا 65) میں عجیب تر ہے۔ واذ قلنا للملئکة ................................ بربک وکیلا (61:17 تا 65) ” اور یاد کرو جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو ، تو سب نے سجدہ کیا ، مگر ابلیس نے نہ کیا ، اس نے کہا :” کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تونے مٹی سے بنایا ہے “۔ پھر وہ بولا دیکھئے تو سہی کیا یہ اس قابل تھا کہ تونے اسے مجھ پر فضیلت دی ؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دے تو میں اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کرڈالوں۔ پس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے “۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اچھا تو جا ، ان میں سے بھی تیری پیروی کریں ، تجھ سمیت ان سب کے لئے جہنم ہی بھرپور جزاء ہے۔ تو جس جس کو اپنی دعوت سے پھسلا سکتا ہے ، پھسلالے۔ ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھالا ، مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا۔ اور ان کو وعدوں کے جال میں پھانس۔ اور شیان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں .... یقینا میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہوگا اور توکل کے لئے تیرا رب کافی ہے “۔ اس معرکے کی یہ تصویر کشی اور اس کے یہ محرکات ، خواہ براہ راست شیطان کی طرف ہو یا اس کے کارندوں کی طرف سے ہو ، انسان کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس میں انسان کمزور اور مغلوب نہیں ہے۔ انسان کو رب ، اس کا بادشاہ اور اس کا حاکم ومبعود پوری مخلوق پر حاوی ہے۔ اس نے اگرچہ ابلیس کو اجازت دے دی ہے کہ وہ ابن آدم کے خلاف یہ جنگ جاری رکھے ، لیکن یہ شیطان بھی اللہ کے کنٹرول میں ہے۔ اللہ نے اسے صری ان لوگوں پر غلبہ کا اختیار دیا ہے جو اپنے رب ، اپنے بادشاہ اور اپنے معبود سے غافل ہیں لیکن جن لوگوں کے دلوں میں اللہ کی یاد زندہ رہتی ہے وہ شیطان اور اس کے ریشہ دوانیوں سے بچے رہتے ہیں۔ خیر اور بھلائی کو دراصل اس وقت کا سہارا حاصل ہے جس کے سوا قوت کا اور کئی سرچشمہ نہیں ہے۔ بھلائی کی پشت پر وہ حقیقت ہے جس کے سوا کئی اور حقیقت نہیں ہے۔ بھلائی کی پشت پر رب ، بادشاہ اور الٰہ العالمین کی قوت کا سہارا ہے اور شر کی پشت پر خفیہ طور پر وسوسے ڈالنے والا ڈرپوک شیطان ہے جو چھپ کر کام کرتا ہے۔ سامنا نہیں کرسکتا اور اللہ کے صحیح بندے جو اللہ کی پناہ میں ہوتے ہیں ان کے مقابلے میں وہ شکست کھاتا ہے۔ وہ حقیقت جس پر خیر قائم ہے اور وہ چیز جس کے سہارے شہر قائم ہے یہ اس کی بہترین تصویر کشی ہے اور خیر وشر کا یہ بہترین تصور ہے۔ پھر انسان کی ہمت بندھانے اور شر کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ تصور خیروشر کا بہترین تصور ہے۔ اور انسان کو قوت اعتماد اور اطمینان سے بھر دیتا ہے۔ خدا کا شکر ہے آغاز میں بھی اور آخر میں بھی اسی پر انسان کو اعتماد کرنا چاہئے اور وہی ہے جو توفیق دینے والا ہے۔ وہی ہے جس سے مدد طلب کرنا چاہئے اور وہی ہے جو مدد کرتا ہے۔ ٭٭٭٭٭

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi