Surat un Naas

Surah: 114

Verse: 1

سورة الناس

قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۙ﴿۱﴾

Say, "I seek refuge in the Lord of mankind,

آپ کہہ دیجئے! کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ میں آتا ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ

خالق ، پرورش کنندہ ، مالک ، حکمران ، معبود حقیقی اور پناہ دہندہ٭٭ اس میں اللہ تعالیٰ عزوجل کی تین صفتیں بیان ہؤی ہیں ، پالنے اور پرورش کرنے کی ، مالک اور شہنشاہ ہونے کی ، معبود اور لائق عبادت ہونے کی تمام چیزیں اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں اسی کی ملکیت میں ہیں اور اسی کی غلامی میں مشغول ہیں ، پس وہ حکم دیتا ہے کہ ان پاک اور برت رصفات والے اللہ کی پناہ میں آ جائے جو بھی پناہ اور بچاؤ کا طالب ہو ، شیطان جو انسان پر مقرر ہے اس کے وسوسوں سے وہی بچانے والا ہے ، شیطان ہر انسان کے ساتھ ہے ۔ برائیوں اور بدکاریوں کو وب زینت دار کر کے لوگوں کے سامنے وہ پیش کرتا رہتا ہے اور بہکانے میں راہ راست سے ہٹانے میں کوئ کمی نہیں کرتا ۔ اس کے شر سے وہی محفوظ رہ سکتا ہے جسے اللہ بچا لے ۔ صحیح حدیث شری میں ہے تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک شیطان ہے لوگوں نے کہا کیا آپ کے ساتھ بھی آپ نے فرمایا ہاں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی ہے پس میں سلامت رہتا ہوں وہ مجیھ صرف نیکی اور اچھائی کی بات ہی کہتا ہے ۔ بخاری مسلم کی اور حدیث میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی ایک واقعہ منقول ہے جس میں بیان ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف میں تھے تو ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے پاس رات کے وقت آئیں جب واپس جانے لگیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دے کر ٹھہرایا اور فرمایا سنو!میرے ساتھ میری بیوی صفیہ بنت حی ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) ہیں انہوں نے کہا سبحان اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس فرمان کی ضرورت ہی کیا تھی؟ آپ نے فرمایا انس ان کے خون کے جاری ہنے کی جگہ شیطان گھومتا پھرتا رہتا ہے ، مجیھ خیال ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں وہ کوئی بدگمانی نہ ڈال دے ، حافظ ابو یعلی موصلی رحمتہ اللہ نے ایک حدیث وارد کی ہے جس میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ شیطان اپنا ہاتھ انسان کے دل پر رکھے ہوئے ہے اگر یہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تب تو اس کا ہاتھ ہٹ جاتا ہے اور اگر یہ ذکر اللہ بھول جاتا ہے تو وہ اس کے دل پر پورا قبضہ کر لیتا ہے ، یہی وسو اس الحناس ہے ، یہ حدیث غریب ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گدھے پر سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے ایک صحابی آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے گدھے نے ٹھوکر کھائی تو ان کے منہ سے نکلا شیطان برباد ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں نہ کہو اس سے شیطان پھول کر بڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اپنی قوت سے گرا دیا اور جب تم بسم اللہ کہو تو و گھٹ جاتا ہے یہاں تک مکھی کے برابر ہو جاتا ہے ، اس سے ثابت ہوا کہ ذکر اللہ سے شیطان پست اور مغلوب ہو جاتا ہے اور اس کے چھوڑ دینے سے وہ بڑا ہو جاتا ہے اور غالب آ جاتا ہے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تم میں سے کوئ مسجد میں ہوتا ہے اس کے پاس شیطان آتا ہے اور اسے تھپکتا اور بہلاتا ہے جیسے کوئ شخص اپنے جانور کو بہلاتا ہو پھر اگر وہ خاموش رہا تو وہ ناک میں نکیل یا منہ میں لگام چڑھا دیتا ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰعنہ نے یہ حدیث بیان فرما کر فرمایا تم خود اسے دیکھتے ہو نکیل والا تو وہ ہے جو ایک طرف جھکا کھڑا ہوا اور اللہ کا ذکر نہ کرتا ہو اور لگام والا وہ ہے جو منہ کھولے ہوئے ہو اور اللہ کا ذکر نہ کرتا ہو ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں شیطان ابن آدم کے دل پر چنگل مارے ہوئے ہے جہاں یہ بھولا اور غفلت کی کہ اس نے وسوسے ڈالنے شروع کئے اور جہاں اس نے ذکر اللہ کیا اور یہ پیچھے ہٹا ، سلیمان فرماتے ہیں مجھ سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ شیطان راحت و رنج کے وقت انسان کے دل میں سوراخ کرنا چاہتا ہے یعنی اسے بہکانا چاہتا ہے اگر یہ اللہ کا ذکر کرے تو یہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ شیطان برائی سکھاتا ہے جاں انسان نے اسکی مان لی پھر ہٹ جاتا ہے ، پھر فرمایا جو وسوسے ڈالتا ہے لوگوں کے سینے میں ، لفظ ناس جو انسان کے معنی میں ہے اس کا اطلاق جنوں پر بھی بطور غلبہ کے آ جاتا ہے ۔ قرآن میں اور جگہ ہے برجال من الجن کہا گیا ہے تو جنات کو لفظ ناس میں داخل کر لینے میں کوئ قباحت نہیں ، غرض یہ ہے کہ شیطان جنتا کے اور انسان کے سینے میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے ۔ اس کے بعد کے جملے من الجنتہ والناس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جن کے سینوں میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے وہ جن بھی ہیں اور انسان بھی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ وسو اس ڈالنے والا خواہ کوئی جن ہو خواہ کوئی انسان جیسے اور جگہ ہے ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ۭ وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُوْنَ ١١٢؁ ) 6- الانعام:112 ) یعنی اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمنی انسانی اور جناتی شیطان بنائے ہیں ایک دوسرے کے کان میں دھوکے کی باتیں بنا سنور کر ڈالتے رہتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں آیا اور بیٹھ گیا ، آپ نے فرمایا نماز بھی پڑھی؟ میں نے کہا نہیں ۔ فرمایا کھڑے ہو جاؤ اور دو رکعت ادا کر لو ۔ میں اٹھا اور دو رکعت پڑھ کر بیٹھ گیا ۔ آپ نے فرمایا اے ابو ذر اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو انسان شیطانوں اور جن شیطانوں سے ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا انسانی شیطان بھی ہوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کیسی چیز ہے ، آپ نے ارشاد فرمایا بہترین چیز ہے ، جو چاہے کم کرے جو چاہے اس عمل کو زیادہ کرے ، میں نے پوچھا روزہ؟ فرمایا کافی ہونے والا فرض ہے اور اللہ کے پاس اجر و ثواب لا انتہا ہے ۔ میں نے پھر پوچھا صدقہ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت ہی بڑھا چڑھا کر کئی گنا کر کے بدلہ دیا جائے گا ۔ میں نے پھر عرض کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کونسا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا باوجود مال کی کمی کے صدقہ کرنا یا چپکے سیچ ھپا کر کسی مسکین فقیر کے ساتھ سلوک کرنا ، میں نے سوال کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے نبی کون تھے؟ آپ نے فرمایا حضرت آدم علیہ السلام ، میں نے پوچھا کیا وہ نبی تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ نبی تھے اور وہ بھی وہ جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی ، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسول کتنے ہوئے؟ فرمایا تین سو کچھ اوپر دس بہت بڑی جماعت اور کبھی فرمایا تین سو پندرہ ، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ان سب سے بڑی عظمت والی آیت کونسی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آیت الکرسی ( اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ ڬ لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ ٢٥٥؁ ) 2- البقرة:255 ) یہ حدیث نسائی میں بھی ہے اور ابو حاتم بن حبان کیصحیح ابن حبان میں تو دوسری سند سے دوسرے الفاظ کے ساتھ یہ حدیث بہت بڑی ہے ، فا اللہ اعلم ، مسند احمد کی ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے دل میں تو ایسے ایسے خیالات آتے ہیں کہ ان کا زبان سے نکالنا مجھ پر آسمان سے گر پڑنے سے بھی زیادہ برا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ ہی کے لئے حمد و ثناء ہے جس نے شیطان کے مکر و فریب کو وسوسے میں ہی لوٹا دیا ، یہ حدیث ابو داؤد اور نسائی میں بھی ہے ۔ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ کے احسان سے یہ تفسیر ختم ہوئی ۔ والحمد اللہ رب العالمین اللہ کے فضل و کرم سے تیسویں پارے کی تفسیر بھی ختم ہوئی اور تفسیر ابن کثیر کا ترجمہ تفسیر محمدی بالکل کامل ہو گیا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے پاک کلام کی صحیح سمجھ دے اور اس پر عمل نصیب فرمائے اور پھر قبول کرے ۔ آمین الہ الحق امین! والحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام و علی جمیع المرسلین

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

رب (پروردگار) کا مطلب ہے جو ابتدا سے ہی جب کہ انسان ابھی ماں کے پیٹ میں ہی ہوتا ہے اس کی تدبیرو اصلاح کرتا ہے، حتٰی کہ وہ بالغ عاقل ہوجاتا ہے پھر وہ یہ تدبیر چند مخصوص افراد کے لیے نہیں، بلکہ تمام انسانوں کے لیے کرتا ہے اور تمام انسانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ اپنی تمام مخلوقات کے لیے کرتا ہے، یہاں صرف انسانوں کا ذکر انسان کے اس شرف افضل کے اظہار کے لیے ہے جو تمام مخلوقات پر اس کو حاصل ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) قل اعوذ برب الناس…: پناہ کا مطلب پچھلی سورت میں گزر چکا ہے۔ آدمی جب کسی سے خطرہ محسوس کرتا ہے تو سب سے پہلے اپنے کسی مربی (پرورش کرنے والے) ، مثلاً ماں یا باپ کی پناہ لیتا ہے، ان سے چمٹ جاتا ہے، تاکہ وہ اسے بچا لیں۔ اگر وہ کمزور ہوں اور نہ بچا سکتے ہں تو بادشاہ سے بچانے کی درخواست کرتا ہے اور اس کی پناہ لیتا ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ بادشاہ اپنی قوت اور فوج کے ذریعے سے اسے بچا سکتا ہے۔ اگر نظر آرہا ہو کہ اس خطرے سے بچانا بادشاہ کے بس کی بات بھی نہیں تو پھر اس ہستی کی پناہ لیتا ہے جسے وہ غیبی قوتوں کا مالک سمجھتا اور جس کی عبادت کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دنیوی اسباب ختم ہونے کے بعد اسے اس کے علاوہ کہیں سے پناہ نہیں مل سکتی۔ اس سورت میں وسوسہ ڈلانے والے کے شر سے پناہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ کی تین صفات کے ساتھ پناہ پکڑنے کی تعلیم دی گئی ہے کہ اگر اپنے کسی پر وشر کرنے والے کی پناہ پکڑنا چاہو تو بجائے اس کے کہ کسی ایسے شخص کی پناہ پکڑو جو کسی ایک آدھ یا چند آدمیوں کی پر وشر کر رہا ہو اور حقیقت میں وہ خود محتاج ہو، تم اس کی پناہ پکڑو جو سب لوگوں کا رب اور سب کی پرورش کرنے والا ہے، جو کسی کا محاتج نہیں اور سب اس کے محتاج ہیں۔ اگر کسی صاحب قوت بادشاہ کی پناہ پکڑنا چاہو تو بجائے اس کے کہ ان بادشاہوں کی پناہ پکڑو جو فوجوں کے محتاج ہیں، جن کا اقتدار محدود اور عارضی ہے اور جن کی اپنی زندگی اور اپنا نفع و نقصان ان کے ہاتھ میں نہیں، تم اس کی پناہ پکڑو جو تمام لوگوں کا بادشاہ ہے اور اس کی قوت اور بادشاہی کسی فوج یا سالار کی محتاج نہیں اور اگر کسی ایسی ہستی کی پناہ لینا چاہو جسے غیبی قوتوں کا مالک ہونے کی وجہ سے تم عبادت کا حق دار سمجھتے ہو تو وہ صرف اور صرف ایک ہی ہے، جو تمام لوگوں کا معبود برحق ہے اور صرف وہی تمہیں ان خطرات میں پناہ دے سکتا ہے جن کے سامنے تمام مربی اور تمام بادشاہ بےبس ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ نہ کوئی غیبی قوتوں کا مالک ہے، نہ کائنات کی کسی چیز میں کسی دوسرے کا دخل ہے اور نہ کسی کا حق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ (٢) سورة فلق میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ” برب الفلق “ کے ساتھ ساری مخلوق کے شر سے عمومًا اور مخلوق میں سے تین چیزوں کے شر سے خصوصاً پناہ مانگی گئی ہے۔ یعنی اندھیری رات، گرہوں میں پھونکنے والیوں اور حاسد کے شر سے اور اس سورت میں صرف ایک چیز یعنی ہٹ ہٹ کر وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے اللہ تعالیٰ کی تین صفات کے ساتھ پناہ مانگی گئی، کیونکہ پہلی تینوں چیزیں انسان کے جسم و جان کو نقصان پہنچانے والی ہیں، جب کہ وسوسہ اس کے ایمان کو نقصان پہنچانے والا ہے اور ایمان کی حفاظت کی فکر جسم و جان سے بھی اہم ہے۔ (٣) پہلی تین آیات میں ” الناس “ کا لفظ بار بار لایا گیا ہے، حالانکہ ” برب الناس “ کے بعد والی آیات میں ” الناس “ کی ضمیر بھی لائی جاسکتی تھی۔ اس میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے (واللہ اعلم) کہ لوگوں کے وسوسے کا شراتنا خوف ناک ہے کہ بندہ بار بار اس کا حوالہ دیتا ہے کہ یا ال لہ ! لوگوں کا رب بھی تو ہے ، لوگوں کا بادشاہ بھی تو ہے اور لوگوں کا الہ بھی تو ہے، اس لئے لوگوں کے شر سے پناہ بھی تو ہی دے سکتا ہے۔ اس سورت میں ان تینوں صفات کی پناہ پکڑتے وقت ضمناً بھی بار بار لوگوں کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے، پھر ” من شر الوسواس…“ کے ساتھ صاف لفظوں میں بھی لوگوں کے وسوسے کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے۔ تفسیر قاسمی میں شیخ الاسلام ابن تیمیمہ اور شیخ ناصر سے ایک اور حکمت نقل کی گئی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پناہ مانگنے والے بھی چونکہ لوگ ہیں، اس لئے پناہ مانگتے وقت بار بار ان نسبتوں کا حوالہ دیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کے درمیان اور لوگوں کے درمیان موجود ہیں کہ یا اللہ ! تو لوگوں کا رب بھی ہے، لوگوں کا بادشاہ بھی اور لوگوں کا معبود برقح بھی، تو جب لوگوں کا سبھی کچھ تو ہی ہے تو تیرے علاوہ انہیں پناہ دینے والا اور کون ہوسکتا ہے ؟ (قاسمی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Introductory Remarks This Surah, the second of the Mu&awwadhatain, constitutes an extension of its predecessor and is in a way complementary to it, in that in Surah Al-Falaq the believers were enjoined to seek refuge with Allah against the hardships and privations of life in this world, while in the current Surah protection is sought from the trials and tribulations of the Hereafter. It was explained in Surah Al-Falaq that the word sharr could stand for &evil& or &harm& or even &that which causes harm, anguish or distress&. In the present Surah, we are to seek refuge from the evil that is the cause of all sins, namely, the whisperings and insinuations of Shaitan. As the anguish and distress of the Hereafter is most severe, the Qur&an appropriately emphasizes at the end to seek Allah&s protection against these evil powers. Verse [ 114:1] قُلْ أَعُوذُ بِرَ‌بِّ النَّاسِ Say, (I seek refuge with the Lord of mankind,) The attributive name of Allah rabb stands for &one who nurtures&, and implies that the Supreme Nurturer takes care of everything under all circumstances. In the present verse, He is referred to as &the Lord of mankind&, while in the previous Surah He was referred to as &the Lord of the daybreak&, because in the foregoing Surah the purpose was to seek protection against the outer bodily hardships and privations of life, and they are not confined to human beings. Animals also suffer bodily hardships and difficulties, unlike the Shaitanic instigations which are restricted to man, and the Jinn are subjoined to him. [ Mazhari from Baidawi ]

خلاصہ تفسیر آپ کہئے کہ میں آدمیوں کے مالک، آدمیوں کے بادشاہ، آدمیوں کے معبود کی پناہ لیتا ہوں وسوسوہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے (شیطان) کے شر سے (پیچھے ہٹنے کا مطلب یہ کہ حدیث میں ہے کہ اللہ کا نام لینے سے شیطان ہٹ جاتا ہے) جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے خواہ وہ (وسوسہ ڈالنے والا) جن ہو یا آدمی (یعنی جس طرح میں شیاطین الجن سے پناہ مانگتا ہوں، اسی طرح شیاطین الانس سے بھی پناہ مانگتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں دوسری جگہ کنات اور انسان دونوں میں شیاطین ہونے کا ذکر ہے وکذلک جعلنا لکل نبی عدواً شیطین الانس والجن) معارف ومسائل سورة فلق میں دنیوی آفات و مصائب سے پناہ مانگنے کی تعلیم ہے اور اس صورت میں اخریو آفات سے پناہ مانگنے کی تاکید ہے اور جیسا کہ لفظ شر کا مفہوم سورة فلق میں بیان کیا گیا ہے کہ آلام اور موجبات آلام دونوں کو شامل ہے اس سورت میں اس شر سے پناہ مانگی گئی ہے جو تمام گناہوں کا سبب ہے یعنی شیطان وساوس و اثرات، چونکہ آخرت کی مضرت اشد ہے اس لئے اس کی تاکید پر قرآن ختم کیا گیا۔ قل اعوذ برب الناس رب کے معنی پالنے والے اور ہر حال کی اصلاح کرنے والے کے ہیں اس جگہ رب کی اضافت ناس کی طرف کی گئی اور پہلی سورت میں فلق کی طرف وجہ یہ ہے کہ سورة فلق میں ظاہری اور جسمانی آفات سے پناہ مانگتا مقصود ہے اور وہ انسان کے ساتھ مخصوص نہیں۔ جانوروں کو بھی بدنی آفات و مصائب پہنچتے ہیں بخلاف وسوسہ شیطانی کے کہ اس کا نقصان انسان کے ساتھ مخصوص ہے اور جنات بھی اس میں بعاً شامل ہیں۔ اس لئے یہاں رب کی اضافت ناس کی طرف کی گئی۔ (مظہری عبن البیضاوی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۝ ١ ۙ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ عوذ العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال : عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ع و ذ) العوذ ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ پوری سورت مکی ہے اس میں چھ آیات اور بیس کلمات ہیں

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١{ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۔ } ” کہیے کہ میں پناہ میں آتا ہوں تمام انسانوں کے رب کی۔ “ یہاں سب سے پہلے ” رَبّ الناس “ (لوگوں کا پروردگار) کے کلمات سے اللہ تعالیٰ کا تعارف کرایا گیا ہے کہ تمہیں ایسی ذات سے پناہ مانگنے کا حکم دیا جا رہا ہے جو تمہاری جملہ ضروریات کا کفیل ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: پچھلی سورت کا حاشیہ نمبر 1 ملاحظہ فرمائیے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٦۔ یہ تین صفتیں ربوبیت بادشاہت الہیت مل کر ایسا ایک صفتوں کا مجموعہ ہے کہ دنیا کے کسی بادشاہ میں نہیں پایا جاتا اس لئے ان تنیوں صفتوں کو ایک جا کرکے ذکر فرمایا ان صفتوں کے ترتیب وار ذکر فرمانے میں یہ بھی گویا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کا رب الناس ہونا ظاہر ہے کیونکہ مثلاً ایک سال اس کی پرورش نہ ہو اور مینہ نہ برسے تو قحط پڑجاتا ہے اسی طرح اس کی بادشاہت تمام دنیا میں ظاہر ہے جس بادشاہ امیر وزیر کو ایک دم میں چاہے بیمار ڈال دے مار ڈالے کوئی اس میں کچھ دخل نہیں دے سکتا اب آدمی کو یہ سوچنا چاہئے کہ جس کی یہ صفتیں ہیں لائق عبادت بھی وہی وحدہ لاشریک ہے کسی دوسرے کو اس کی عبادت میں شریک ٹھہرانے کا حق نہیں۔ وسواس اور وسوسہ کے معنی اس ہلکی اور دبی ہوئی آواز کے ہیں جس آواز سے شیطان آدمی کے آدمی کو بہکاتا ہے خناس کے معنی پیچھے ہٹ جانے والے کے ہیں۔ صحیح ١ ؎ بخاری و مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اذان اور تکبیر کی آواز سے شیطان دور بھاگ جاتا ہے اس صحیح حدیث کے موافق خناس کا مطلب یہ ہے کہ جو وسوسہ ڈالنے کے وقت ذکر الٰہی سن کر پیچھے ہٹ جاتا اور بھاگ جاتا ہے اسی واسطے امام مفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے اس ایت کی یہی تفسیر کی ہے جو بیان کی گئی۔ صدر سے مراد یہاں دل ہے اوپر صحیح ٣ ؎ حدیث گزر چکی ہے جس طرح آدمی کے سارے جسم میں خون پھرتا ہے اسی طرح شیطان بھی آدمی کے سارے جسم میں پھرتا ہے کسی انسان کو خدا نے یہ قابو تو نہیں دیا کہ وہ شیطان کی طرح دوسرے آدمی کے جسم میں سرایت کر جائے لیکن آدمی کے بعض بد صلاح کار ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی بری صلاح سے لوگوں کے دین کا نقصان ہوجاتا ہے یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کو سورة انعام میں شیاطین الانس فرمایا : غرض اس کی بری صلاح کی برائی سے بچنے کے لئے ان سے بھی پناہ مانگنے کا ذکر اس سورة میں فرمایا کس لئے کہ ان کی بری صلاح کا اثر بھی آدمی کے دل پر شیطانی وسوسہ سے کم نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ سب دیندار مسلمانوں کو اصلی شیطان کے وسوسوں اور ان نقلی شیطانوں کی بدصلاحوں سے محفوظ رکھے۔ صحیح بخاری ٤ ؎ و مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شیطان آدمی کے دل میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ سب چیزیں تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیں لیکن یہ نہ معلوم ہوا کہ اللہ کو کس نے پیدا کیا ایسے موقع پر آدمی کو اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے تاکہ شیطان بھاگ جائے اس سے معلوم ہوا کہ وسوسہ شیطانی سے بچنے کے لئے اس سورة کا ورد بڑا وظیفہ ہے آدمی کے آخری وقت پر بھی شیطان آتا ہے اور طرح طرح کے وسوسے عین قبض روح کے وقت آدمی کے دل میں ڈالتا ہے ہر وقت کے ورد کے سبب سے اس آخری وقت میں یہ سورة اگر آدمی کی زبان پر آگئی تو انشاء اللہ شیطان کو بڑی شکست ہوگی۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب فضل التاذین ص ٨٥ ج ١۔ ) ٢ ؎ صحیح بخاری۔ تفسیر سورة الناس ص ٤٤ ج ٢۔ ٣ ؎ مشکوٰۃ شریف۔ باب الوسوسۃ۔ ص ١٨۔ ٤ ؎ صحیح بخاری۔ باب صفۃ ابلیس و جنودہ ص ٣٦٣ ج ١۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(114:1) قل اعوذ برب الناس : قل فعل امر واحد مذکر حاضر قول (باب نصر) مصدر سے ۔ تو کہہ۔ تم (یہاں کہا کرو۔ تم (یوں ) دعا کیا کرو۔ خطاب گو نبی کریم صلی اللہ علیہ ولسم سے ہے مگر آپ کے بعد ہر مومن اس کا مخاطب ہے۔ اعوذ مضارع کا صیغہ واحد متکلم عوذ (باب نصر) مصدر سے ۔ جس کے معنی دوسرے سے التجا کرنے اور اس سے متعلق ہونے اور پناہ مانگنے کے ہیں۔ میں پناہ چاہتا ہوں۔ برب الناس۔ ب جار متعلق باعوذ ہے۔ رب الناس مضاف مضاف الیہ مل کر مجرور (میں پناہ مانگتا ہوں) لوگوں کے رب (پروردگار) کی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 اگرچہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا بادشاہ اور مالک ہے لیکن انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی الوہیت کی شان سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ اس لئے اس کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ملک تصرف دنیاوی بادشاہوں کی طرح محض غلبہ اور تسلط کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ تمام لوگوں کا معبود ہونے کی وجہ سے ہے جس کی بنیاد الوہیت پر ہے اور الوہیت ہی وہ صفت ہے جو احیاء و اہاتت ایجادو اعدام وغیرہ پر تصرف کلی کی مقتضی ہے۔ لہٰذا شیطان کے شر سے بچنے کی صرف ایک ہی صورت ہوسکتی ہے کہ اسی کو الہ مان کر اس کی پناہ حاصل کرو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة الناس۔ آیات ١ تا ٦ اسرار ومعارف۔ کہہ دیجئے کہ پناہ مانگتا ہوں لوگوں کے پروردگار کی اور اس کی جو سب کا حقیقی بادشاہ ہے اور معبود برحق ہے سب کا اس سے جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے خواہ وہ وسوسہ ڈالنے والاجن ہو یا انسان کہ جنات اور انسان بھی شیطان کی پیروی کرتے کرتے شیطانی صفات میں رنگ جاتے ہیں۔ لبید بن عاصم یہودی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موئے مبارک چرا کر کنگھی کے دندانوں میں گرہ دے کر کسی پرانے کنوئیں میں پتھر کے نیچے دبادیے اور آپ علیل ہوگئے چناچہ آپ کو بذریعہ وحی اطلاع ہوگئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکلوالیے تو یہ سورتیں نازل ہوئیں ایک ایک آیت پر ایک ایک گرہ کھلتی جاتی تھی چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شفا ہو کر آپ کی وساطت سے ساری امت کو ہمیشہ کے لیے سحر اور ٹونے ٹوٹکے سے نجات اور شفا کے لیے کامل نسخہ بھی نصیب ہوگیا بعدازاں بھی جب طبع مبارک ناساز ہوتی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دونوں سورتیں پڑھ کر ہاتھ مبارک پہ دم فرماتے اور بدن مبارک پہ پھیرلیا کرتے تھے۔ الحمدللہ آج بیس رمضان المبارک ١٤١٨ ہجری بمطابق ١٩ جنوری ١٩٩٨ تفسیر اسرار التنزیل مکمل ہوئی اس پر جس قدر اللہ کا شکر ادا کروں کم ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

ملک۔ بادشاہ ۔ الہ۔ معبود۔ الوسواس۔ وسوسے ڈالنے والا۔ الخناس۔ پیچھے ہٹ جانے والا۔ من الجنۃ والناس۔ جنات میں اسے اور انسانوں میں سے۔ ترجمہ :- قل اعوذ برب الناس :- آپ کہہ کہ میں تمام لوگوں کے رب کی پناہ چاہتا ہوں۔ ملک الناس :- جو تمام لوگوں کا حقیقی بادشاہ ہے اس کی پناہ مانگتا ہوں۔ الہ الناس : تما م لوگوں کے معبود کی پناہ مانگتا ہوں۔ ان تینوں آیتوں میں اس کی وضاحت فرما دی گئی ہے کہ اس کائنات میں درحقیقت انسانوں کا پالنے والا، لوگوں پر حکمرانی کرنے والا اور لوگوں کے لئے وہ ہستی جو قابل عبادت ہے ایک اللہ ہی کی ہے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اس عظیم رب کی پناہ مانگئے۔ وہیں آپ کو اور اللہ کے ماننے والوں کو حقیقی پناہ اور فلاح نصیب ہوگی۔ من شر الواسوس الخناس : شیطان کا کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں طرح طرح کے وہم اور وسوسے پیدا کرکے اس طرح پیچھے ہٹ جاتا ہے کہ کہ کسی کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس کو شیطان نے بہکا کر کس بری راہ پر لگا دیا ہے۔ فرمایا کہ اس شیطان مردود کے شر سے اللہ کی پناہ مانگی جائے ورنہ وہ شیطان تو اسی طرح وسوسے پیدا کرکے انسان کو ایمان سے بھی محروم کرنا چاہتا ہے۔ اگر اس اللہ کی پناہ مانگ لی جائے تو جو ساری کائنات کا پروردگار اور مالک و مختار ہے تو انسان شیطانی وسوسوں سے بچ سکتا ہے۔ من الجنۃ والناس : وہ وسوسے ڈالنے والے صرف شیطان ہی نہیں ہیں بلکہ انسانوں میں سے بھی وہ ہیں جو وسوسے پیدا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شیطانی وسوسوں اور شیطان کے کارندوں کے ہر طرح کے شر سے محفوظ فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ واخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : اللہ تعالیٰ نے سورت الفلق میں اپنا تعارف رب الفلق کے نام سے کروایا ہے جس کا معنٰی ہے کہ مخلوق کو پھاڑنے کے عمل سے عدم سے وجود میں لانے والا ہے۔ سورت النّاس میں یہ بتلایا ہے کہ وہی انسانوں کا ” رب، حقیقی بادشاہ اور معبود برحق ہے اس لیے اس کی مخلوق بالخصوص جنوں اور انسانوں کی شر سے بچنے کے لیے اس کی پناہ طلب کرنی چاہیے۔ سورت النّاس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی عظیم اور بابرکت کتاب کا اختتام فرمایا ہے۔ گویا کہ یہ قرآن مجید کی آخری سورت ہے۔ سورت فاتحہ کا آغاز رب العالمین کے الفاظ سے ہوا اور قرآن مجید کا اختتام ” مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ “ پر ہوا ہے۔ یہ الفاظ استعمال فرماکر اشارہ کیا ہے کہ قرآن مجید جنوں اور انسانوں کے لیے نازل کیا گیا ہے کیونکہ مخلوقات میں جن اور انسان ہی ایسی مخلوق ہیں جنہیں احکام کا پابند بنایا گیا ہے۔ اس لیے النّاس پر قرآن مجید، فرقان حمید کا اختتام فرما کر بتایا ہے کہ تمام مخلوقات میں انسان اور جن ہی ایسی مخلوق ہیں جو سب سے اعلیٰ اور ارفع ہے بشرطیکہ یہ شیطان کی شیطنت اور اپنے نفس کی شرارت سے بچ کر رہیں۔ سورت الفلق میں پوری مخلوق میں سے ان چیزوں کی شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا جن سے انسان کو نقصان پہنچنے کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے۔ سورت النّاس میں اس سے پناہ مانگنے کا حکم ہے جو ہر وقت انسان کے ساتھ رہتا ہے اور انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورت النّاس کی پہلی تین آیات میں اپنی ان تین صفات کا ذکر کیا ہے جو اس کی ساری صفات کی ترجمان ہیں۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ جو ” رب “ مخلوق کو پیدا کرنے اور اس کی ضرورتیں پوری کرنے والا ہے اسی کو حقیقی مالک اور معبود برحق ماننا چاہیے۔ یہاں ” رب “ کی صفت کے ساتھ النّاس کا لفظ لایا گیا ہے جس میں انسانوں کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ اے لوگو ! جو تمہارا حقیقی پالنہار اور ہمیشہ ہمیش کا مالک ہے وہی تمہارا ” الٰہ “ ہے لہٰذا اس حقیقی ” الٰہ “ پر ایمان لاؤ اور اسی کا حکم مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو یہی انبیائے کرام (علیہ السلام) اور قرآن مجید کی مرکزی دعوت ہے اور اسی کے لیے ہی تمہیں پیدا کیا گیا ہے۔ (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْن) (الذاریات : ٥٦) ” میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ “ اس دعوت اور عبادت کے ساتھ شیطان جنوں اور شیطان انسانوں کو سب سے زیادہ دشمنی ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ ” رب “ کے بندوں کو اس کی عبادت اور اطاعت سے ہٹا کر دوسروں کی عبادت اور اطاعت پر لگادیا جائے۔ اس کے لیے شیطان جن اور شیطان صفت انسان ہر وقت کوشاں اور سازشیں کرتے رہتے ہیں، شیطانوں کی مذموم کوشش کا آغاز وسوسہ سے ہوتا ہے۔ وسوسہ کا معنٰی دل میں برے خیال کا پیدا ہونا ہے۔ اسی لیے شیطان کے لیے ” خَنَّاسِ “ کا لفظ استعمال کیا ہے۔” خَنَّاسِ “ کے مفسرین نے دو مفہوم بیان کیے ہیں۔ دلوں میں چھپ کر وسوسے ڈالنے والا اور بار بار پیچھے ہٹ کر آنے والایہ دونوں عادتیں شیطان کی سرشت میں شامل ہیں۔ چاہے وہ جنوں سے تعلق رکھنے والا ہو یا کسی انسان نے شیطان کا روپ دھار لیا ہو۔ یاد رہے ! کہ نسلی طور پر شیطان جنوں سے ہے۔ (الکھف : ٥٠، الحجر : ٢٧) شیطان کی شیطنت کا آغاز وسوسوں سے ہوتا ہے اور ہر برائی وسوسے سے جنم لیتی ہے، اگر انسان برے خیال پر قابو پالے تو وہ برائی سے بچ سکتا ہے، اگر برے خیال کو دل میں پنپنے کا موقع دے تو بالآخر انسان اس برائی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالنے کی مہلت دی ہے جس کا اس نے بارگاہ ایزدی میں یوں اظہار کیا تھا۔ اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان اپنے رب کی پناہ طلب کرتا رہے۔ (فصلت : ٣٦) (قَالَ اَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ قَالَ اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمْ مِّنْ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ وَ مِنْ خَلْفِہِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِہِمْ وَ عَنْ شَمَآءِلِہِمْ وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَہُمْ شٰکِرِیْنَ قَالَ اخْرُجْ مِنْہَا مَذْءُ وْمًا مَّدْحُوْرًا لَمَنْ تَبِعَکَ مِنْہُمْ لَاَمْلَءَنَّ جَہَنَّمَ مِنْکُمْ اَجْمَعِیْنَ ) (الاعراف : ١٤ تا ١٨) ” اس نے کہا مجھے اس دن تک مہلت دے جب وہ اٹھائے جائیں گے۔ فرمایا بیشک تو مہلت دیے جانے والوں سے ہے۔ اس نے کہا جس وجہ سے تو نے مجھے گمراہ کیا میں ضرور ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔ پھر میں ہر صورت ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی دائیں طرف سے اور ان کی بائیں طرف سے آؤں گا۔ تو ان میں سے اکثر کو شکر کرنے والے نہیں پائے گا۔ فرمایا اس سے نکل جا، ذلیل ہوکر، دھتکارا ہوا، بیشک ان میں سے جو تیرے پیچھے چلے گا میں تم سب سے ضرور جہنم کو بھروں گا۔ “ (عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَیْنٍ ۔ أَنَ النَّبِيَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ۔۔إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِيْ مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ ۔۔ ) (رواہ البخاری : کتاب الإعتکاف، باب زیارۃ المرأۃ زوجھا في اعتکافہ ) ” حضرت علی بن حسین (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یقیناً شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔ “ (عَنْ أَبِی سَعِیْدِنِالْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ کَبَّرَ ثُمَّ یَقُوْلُ سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلاآإِلَہَ غَیْرُکَ ثُمَّ یَقُوْلُ لاآإِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ثَلاَثًا ثُمَّ یَقُول اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا ثَلاَثًا أَعُوذ باللَّہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ ) (رواہ ابو داود : باب مَنْ رَأَی الاِسْتِفْتَاحَ بِسُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ ) ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں جب رات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیام کرتے تو اللہ اکبر کہتے پھر یہ دعاپڑھتے اے اللہ ! تو پاک ہے۔ میں تیری تعریف بیان کرتا ہوں نام تیرا بابرکت ہے اور تیری شان بلند وبالا ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ پھر تین بار ” لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللَّہُ “ کہتے پھر تین بار اللہ اکبر کہتے۔ اس کے بعد یہ پڑھتے اللہ کے نام کے ساتھ جو سننے والا اور جاننے والا ہے۔ میں شیطان مردود کے وسوسہ، تکبر، غرور اور اس کی چھیڑ چھاڑ سے پناہ طلب کرتا ہوں۔ “ (عَنْ عَآءِشَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ اِذَا اَوٰی اِلٰی فِرَاشِہٖ کُلَّ لَےْلَۃٍ جَمَعَ کَفَّےْہِ ثُمَّ نَفَثَ فِےْھِمَا فَقَرَأَ فِےْھِمَا (قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ) وَ (قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ) وَ (قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ) ثُمَّ ےَمْسَحُ بِھِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِہٖ ےَفْعَلُ ذٰالِکَ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ ۔ جَسَدِہٖ ےَبْدَأُ بِھِمَا عَلٰی رَأْسِہٖ وَوَجْھِہٖ وَمَا اَقْبَلَ مِنْ جَسَدِہٖ ےَفْعَلُ ذٰالِکَ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ ۔ ) (رواہ مسلم : باب فضل قل ھو اللہ احد) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو اپنے بستر پر سونے کے لیے جاتے تو سورة الاخلاص، الفلق اور النّاس تلاوت کرکے اپنے دونوں ہاتھوں میں پھونک کر جہاں تک ممکن ہوتا اپنے جسم پر پھیرتے۔ آغاز سر، چہرے اور جسم کے سامنے والے حصے سے کرتے ہوئے یہ عمل تین بار کرتے۔ “ سورۃ الفلق اور النّاس میں اللہ تعالیٰ نے اپنا اسم ” اللہ “ استعمال کرنے کی بجائے بار بار ” رب “ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اسم ” اللہ “ میں جلالت اور دبدبہ پایا جاتا ہے۔ ” رب “ کے لفظ میں بندے کو اپنے رب کی قربت اور شفقت کا احساس ہوتا ہے۔ اس قربت اور شفقت کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے رب سے یوں دعا کرے کہ اے میرے رب ! تو داتا ہے اور میں فقیر ہوں، تو طاقتور ہے اور میں ضعیف ہوں، تو پناہ دینے والا ہے اور میں پناہ کا طالب ہوں اس لیے میری عاجزانہ التجا ہے کہ مجھے ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھتے ہوئے اپنی مخلوق بالخصوص شیطان جنوں اور انسانوں کی شر سے محفوظ فرمائے رکھنا۔ آمین یا رب العالمین ! مسائل ١۔ آدمی کو شیطان جنوں اور انسانوں سے ہر وقت اپنے رب کی پناہ طلب کرتے رہنا چاہیے۔ ٢۔ ؁ ( علیہ السلام) ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ لوگوں کا رب، بادشاہ اور معبود برحق ہے۔ ٣۔ شیطان لوگوں کے دلوں میں باربار وسوسے ڈالتا ہے۔ ٤۔ جنوں اور انسانوں میں شیطان ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن الٰہ کا معنٰی اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت : ١۔ الٰہ کا معنٰی معبود وہ ایک ہی ہے۔ ( البقرۃ : ١٦٣) ٢۔ الٰہ کا معنٰی مشکل کشا، حاجت روا۔ ( المؤمن : ٦٥) ٣۔ اللہ تمہارا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی ہر چیز کا خالق ہے۔ (الانعام : ١٠٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا دو الٰہ نہ بناؤ الٰہ ایک ہی ہے (النحل : ٥١) ٥۔ الٰہ تمہارا ایک اللہ ہی ہے۔ (طہ : ٩٨) ٦۔ کیا اللہ کے سوا کوئی الٰہ ہے ؟ اللہ تعالیٰ شراکت داری سے پاک ہے۔ (الطور : ٤٣) ٧۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو مجھے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (ہود : ٢) ٨۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی اور شیاطین کی عبادت نہ کرو۔ (المومنون : ٢٣) ٩۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔ اور غیر اللہ کی عبادت سے روکا۔ (الاعراف : ٦٥) ١٠۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے ایک اللہ کی عبادت کے لیے بلایا اور ماسوائے اللہ کے دوسروں کی عبادت کو شیطان کی عبادت قرار دیا۔ (الاعراف : ٧٣) ١١۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا اور اس کے سوا دوسروں کی عبادت سے منع کیا۔ (ہود : ٨٤) ١٢۔ تمام امتوں کی طرف رسول بھیجے گئے اور سبھی نے ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔ (النمل : ٣٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” قل اعوذ “ گذشتہ سورت میں جن چیزوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ان کے مقابلے میں شیطان چونکہ زیادہ ضرر رساں اور سب سے بڑا دشمن ہے اس لیے گذشتہ سورت میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ذکر کی گئی۔ ” رب الفلق “ اور اس سورت میں تین صفتیں مذکور ہیں جن میں سے ہر صفت توحید کے ایک جداگانہ مرتبہ کو ظاہر کرتی ہے۔ ” رب الناس “ سب کو پیدا کرنے کے بعد ان کی درجہ بدرجہ تربیت کر کے ان کو حد کمال تک پہنچانے والا اور ہر مرتبہ تربیت میں ان کی ضروریات بہم پہنچانے والا۔ یہ توحید کا پہلا مرتبہ ہے۔ ” ملک الناس “ توحید کا دوسرا مرتبہ سب کا مالک اور بادشاہ۔ تخت سلطنت پر خود ہی مستوی ہے کسی کوئی اختیار سونپ نہیں رکھا۔ ” الہ الناس “ توحید کا تیسرا مرتبہ سب کا معبود اور کارساز، حاجات میں مصائب میں مافوق الاسباب غائبانہ دعاء اور پکار کے لائق صرف وہی ہے اور کوئی نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) اے پیغمبر ! آپ یوں کہیے میں آدمیوں کے مالک کی۔