اس سورت کی فضلیت میں ایک حدیث وارد ہوئی ہے ۔ کہ اپنے ماتحتوں کو سورہ یوسف سکھاؤ ۔ جو مسلمان اسے پڑھے یا اسے اپنے گھر والوں کو سکھائے یا اپنے ماتحت لوگوں کو سکھائے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ سکرات موت آسان کرتا ہے اور اسے اتنی قوت بخشتا ہے کہ وہ کسی مسلمان سے حسد نہ کرے ۔ لیکن اس کی سند بہت ہی ضعیف ہے ۔ اس کا ایک متابع ابن عساکر میں ہے لیکن اس کی بھی تمام سندیں منکر ہیں امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب دلائل النبوۃ میں ہے کہ جب یہودیوں نے یہ سورت سنی تو وہ مسلمان ہوگئے ۔ کیونکہ انکے ہاں بھی یہ واقعہ اسی طرح بیان تھا ۔ یہ روایت کلبی کی ابو صالح سے اور ان کی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے ہے ۔
سورة یُوْسُف زمانہ نزول اور اجزائے مضمون : اس سورے کے مضمون سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ بھی زمانہ قیام مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ قریش کے لوگ اس مسئلے پر غور کر رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیں یا جلا وطن کریں یا قید کر دیں ۔ اس زمانہ میں بعض کفار مکہ نے ( غالبا یہودیوں کے اشارے پر ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لینے کے لیے آپ سے سوال کیا کہ بنی اسرائیل کے مصر جانے کا کیا سبب ہوا ۔ چونکہ اہل عرب اس قصہ سے ناواقف تھے ، اس کا نام و نشان تک ان کے ہاں کی روایات میں نہ پایا جاتا تھا ، اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بھی اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سنا گیا تھا ، اس لیے انہیں توقع تھی کہ آپ یا تو اس کا مفصل جواب نہ دے سکیں گے ، یا اس وقت ٹال مٹول کر نے کے بعد کسی یہودیی سے پوچھنے کی کوشش کریں گے ، اور اس طرح آپ کا بھرم کھل جائیگا ۔ لیکن اس امتحان میں انہیں الٹی منہ کی کھانی پڑی ۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ فورا اسی وقت یوسف علیہ السلام کا یہ پورا قصہ آپ کی زبان پر جاری کر دیا ، بلکہ برآں اس قصے کو قریش کے اس معاملہ پر چسپاں بھی کر دیا جو وہ برادران یوسف کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر رہے تھے ۔ مقاصد نزول : اس طرح یہ قصہ دو اہم مقاصد کے لیے نازل فرمایا گیا تھا : ایک یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ثبوت ، اور وہ بھی مخالفین کا اپنا منہ مانگا ثبوت بہم پہنچایا جائے ، اور ان کے خود تجویز کردہ امتحان میں یہ ثابت کر دیا جائے کہ آپ سنی سنائی باتیں بیان نہیں کرتے بلکہ فی الواقع آپ کو وحی کے ذریعہ سے علم حاصل ہوتا ہے ۔ اس مقصد کو آیات ۳ ، ۷ میں بھی صاف صاف واضح کر دیا گیا ہے اور آیات ١۰۲ - ١۰۳ میں بھی پورے زور کے ساتھ اس کی تصریح کی گئی ہے ۔ دوسرے یہ کہ سرداران قریش اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اس وقت جو معاملہ چل رہا تھا اس پر برادران یوسف اور یوسف علیہ السلام کے قصے کو چسپاں کرتے ہوئے قریش والوں کو بتایا جائے کہ آج تم اپنے بھائی کے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہو جو یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے ساتھ کیا تھا ۔ مگر جس طرح وہ خدا کی مشیت سے لڑنے میں کامیاب نہ ہوئے اور آخرکار اسی بھائی کے قدموں میں آرہے جس کو انہوں نے کبھی انتہائی بے رحمی کے ساتھ کنویں میں پھینکا تھا ، اسی طرح تمہاری زور آزمائی بھی خدائی تدبیر کے مقابلے میں کامیاب نہ ہو سکے گی اور ایک دن تمہیں بھی اپنے اسی بھائی سے رحم و کرم کی بھیک مانگنی پڑے گی جسے آج تم مٹا دینے پر تلے ہوئے ہو ۔ یہ مقصد بھی سورہ کے آغاز میں صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے ۔ چنانچہ فرمایا لَقَدْکَانَ فِیْ یُوْسُفَ وَاِخوَتِہۤ١اٰیٰتٌ لِّلسَّاۤئِلِینَ ۔ ” یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں ان پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں“ ۔ حقیقت یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کے قصے کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے معاملے پر چسپاں کر کے قرآن مجید نے گویا ایک صریح پیش گوئی کر دی تھی جسے آئندہ دس سال کے واقعات نے حرف بحرف صحیح ثابت کر کے دکھا دیا ۔ اس سورہ کے نزول پر ڈیڑھ دو سال ہی گزرے ہوں گے کہ قریش والوں نے برادران یوسف کی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی اور آپ کو مجبورا ان سے جان بچا کر مکہ سے نکلنا پڑا ۔ پھر ان کی توقعات کے بالکل خلاف آپ کو بھی جلا وطنی میں ویسا ہی عروج و اقترار نصیب ہوا جیسا یوسف علیہ السلام کو ہوا تھا ۔ پھر فتح مکہ کے موقع پر ٹھیک ٹھیک وہی کچھ پیش آیا جو مصر کے پایہ تخت میں یوسف علیہ السلام کے سامنے ان کے بھائیوں کی آخری حضوری کے موقع پر پیش آیا تھا ۔ وہاں جب برادران یوسف علیہ السلام انتہائی عجز و درماندگی کی حالت میں ان کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تَصَدَّقْ عَلَینَا ط اِنَّ اللہَ یَجزِی المُتَصَدِّقِینَ ، ” ہم پر صدقہ کیجیئے ، اللہ صدقہ کرنے والوں کو نیک جزا دیتا ہے“ ، تو یوسف علیہ السلام نے انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود انہیں معاف کر دیا اور فرمایا لَا تَثرِیبَ عَلَیکُمُاالیَومَ ، یَغفِرُ اللہُ لَکُم وَھُوَ اَرحَمُ الرّٰحِمِینَ ” آج تم پر کوئی گرفت نہیں ، اللہ تمہیں معاف کرے ، وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے“ ۔ اسی طرح جب یہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شکست خوردہ قریش سرنگوں کھڑے ہوئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ایک ایک ظلم کا بدلہ لینے پر قادر تھے تو آپ نے ان سے پوچھا ” تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں گا ؟ “ انہوں نے عرض کیا اخ کریم و ابن اخ کریم ”آپ ایک عالی ظرف بھائی ہیں ، اور ایک عالی ظرف بھائی کے بیٹے ہیں“ ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فانی اقول لکم کما قال یوسف لاخوتہ ، لا تثرب علیکم الیوم ، اذھبوا فانتم الطلقاء ” میں تمہیں وہی جواب دیتا ہوں جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو دیا تھا کہ آج تم پر کوئی گرفت نہیں ، جاؤ تمہیں معاف کیا“ ۔ مباحث و مسائل : یہ دو پہلو تو اس سورہ میں مقصدی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لیکن اس قصے کو بھی قرآن مجید محض قصہ گوئی و تاریخ نگاری کے طور پر بیان نہیں کرتا بلکہ اپنے قاعدے کے مطابق وہ اسے اپنی اصل دعوت کی تبلیغ میں استعمال کرتا ہے ۔ وہ اس پوری داستان میں یہ بات نمایاں کر کے دکھاتا ہے کہ حضرت ابراہیم ، حضرت اسحاق ، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام کا دین وہی تھا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور اسی چیز کی طرف وہ بھی دعوت دیتے تھے جس کی طرف آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم دے رہے ہیں ۔ پھر وہ ایک طرف حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہما السلام کے کردار اور دوسری طرف برادران یوسف ، قافلہ تجار ، عزیز مصر ، اس کی بیوی ، بیگمات مصر اور حکام مصر کے کردار ایک دوسرے کے مقابلہ میں رکھ دیتا ہے اور محض اپنے انداز بیان سے سامعین و ناظرین کے سامنے یہ خاموش سوال پیش کرتا ہے کہ دیکھو ، ایک نمونے کے کردار تو وہ ہیں جو اسلام ، یعنی خدا کی بندگی اور حساب آخرت کے یقین سے پیدا ہوتے ہیں ، اور دوسرے نمونے کے کردار وہ ہیں جو کفر و جاہلیت اور دنیا پرستی اور خدا و آخرت سے بے نیازی کے سانچوں میں ڈھل کر تیار ہوتے ہیں ۔ اب تم خود اپنے ضمیر سے پوچھو کہ وہ ان میں سے کس نمونے کو پسند کرتا ہے ۔ پھر اس قصے سے قرآن حکیم ایک اور گہری حقیقت بھی انسان کے ذہن نشین کرتا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کام کرنا چاہتا ہے وہ بہرحال پورا ہو کر رہتا ہے ۔ انسان اپنی تدبیروں سے اس کے منصوبوں کو روکنے اور بدلنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ بلکہ بسا اوقات انسان ایک کام اپنے منصوبے کی خاطر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے ٹھیک نشانے پر تیر مار دیا مگر نتیجہ میں ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے اسی کے ہاتھوں سے وہ کام لے لیا جو اس کے منصوبے کے خلاف اور اللہ کے منصوبے کے عین مطابق تھا ۔ یوسف علیہ السلام کے بھائی جب ان کو کنویں میں پھینک رہے تھے تو ان کا گمان تھا کہ ہم نے اپنی راہ کے کانٹے کو ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا ۔ مگر فی الواقع انہوں نے یوسف علیہ السلام کو اس بام عروج کی پہلی سیڑھی پر اپنے ہاتھوں لاکھڑا کیا جس پر اللہ ان کو پہنچانا چاہتا تھا اور اپنی اس حرکت سے انہوں نے خود اپنے لیے اگر کچھ کمایا تو بس یہ کہ یوسف علیہ السلام کے بام عروج پر پہنچنے کے بعد بجائے اس کے کہ وہ عزت کے ساتھ اپنے بھائی کی ملاقات کو جاتے انہیں ندامت و شرمساری کے ساتھ اسی بھائی کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا ۔ عزیز مصر کی بیوی یوسف علیہ السلام کو قید خانے بھجوا کر اپنے نزدیک تو ان سے انتقام لے رہی تھی ، مگر فی الواقع اس نے ان کے لیے تخت سلطنت پر پہنچنے کا راستہ صاف کیا اور اپنی اس تدبیر سے خود اپنے لیے اس کے سوا کچھ نہ کمایا کہ وقت آنے پر فرمانروائے ملک کی مربیہ کہلانے کے بجائے اس کو علی الاعلان اپنی خیانت کے اعتراف کی شرمندگی اٹھانی پڑی ۔ یہ محض دوچار مستثنٰی واقعات نہیں ہیں بلکہ تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جو اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ اللہ جسے اٹھانا چاہتا ہے ، ساری دنیا مل کر بھی اس کو نہیں گرا سکتی ۔ بلکہ دنیا جس تدبیر کو اس کے گرانے کی نہایت کارگر اور یقینی تدبیر سمجھ کر اختیار کرتی ہے ، اللہ اسی تدبیر میں سے اس کے اٹھنے کی صورتیں نکال دیتا ہے ، اور ان لوگوں کے حصے میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں آتا جنہوں نے اسے گرانا چاہا تھا ۔ اور اسی طرح اس کے برعکس ، خدا جسے گرانا چاہتا ہے اسے کوئی تدبیر سنبھال نہیں سکتی ، بلکہ سنبھالنے کی ساری تدبیریں الٹی پڑتی ہیں ، اور ایسی تدبیریں کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے ۔ اس حقیقت حال کو اگر کوئی سمجھ لے تو اسے پہلا سبق تو یہ ملے گا کہ انسان کو اپنے مقاصد اور اپنی تدابیر ، دونوں میں ان حدود سے تجاوز نہ کرنا چاہیے جو قانون الہٰی میں اس کے لیے مقرر کر دی گئی ہیں ۔ کامیابی و ناکامی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ لیکن جو شخص پاک مقصد کے لیے سیدھی سیدھی جائز تدبیر کرے گا وہ اگر ناکام بھی ہوا تو بہرحال ذلت و رسوائی سے دوچار نہ ہوگا ۔ اور جو شخص ناپاک مقصد کے لیے ٹیڑھی تدبیریں کرے گا وہ آخرت میں تو یقینا رسوا ہوگا ہی مگر دنیا میں بھی اس کے لیے رسوائی کا خطرہ کچھ کم نہیں ہے ۔ دوسرا اہم سبق اس سے توکل علی اللہ اور تفویض الی اللہ کا ملتا ہے ۔ جو لوگ حق اور صداقت کے لیے سعی کر رہے ہوں اور دنیا انہیں ہٹا دینے پر تلی ہوئی ہو وہ اگر اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں تو انہیں اس سے غیر معمولی تسکین حاصل ہوگی ، اور مخالف طاقتوں کی بظاہر نہایت خوفناک تدبیروں کو دیکھ کر وہ قطعا ہراساں نہ ہوں گے ، بلکہ نتائج کو اللہ پر چھوڑتے ہوئے اپنا اخلاقی فرض انجام دیے چلے چائیں گے ۔ مگر سب سے بڑا سبق جو اس قصے سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک مرد مومن اگر حقیقی اسلامی سیرت رکھتا ہو اور حکمت سے بھی بہرہ یاب ہو ، تو وہ محض اپنے اخلاق کے زور سے ایک پورے ملک کو فتح کر سکتا ہے ۔ یوسف علیہ السلام کو دیکھیے ۔ ١۷ برس کی عمر ، تن تنہا ، بے سروسامان ، اجنبی ملک اور پھر کمزوری کی انتہا یہ کہ غلام بنا کر بیچے گئے ہیں ۔ تاریخ کے اس دور میں غلاموں کی جو حیثیت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ اس پر مزید یہ کہ ایک شدید اخلاقی جرم کا الزام لگا کر انہیں جیل بھیج دیا گیا جس کی میعاد سزا بھی کوئی نہ تھی ۔ اس حالت تک گرا دیے جانے کے بعد وہ محض اپنے ایمان اور اخلاق کے بل پر اٹھتے ہیں اور بالآخر پورے ملک کو مسخر کرلیتے ہیں ۔ تاریخی و جغرافیائی حالات : اس قصے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مختصرا اس کے متعلق کچھ تاریخی و جغرافی معلومات بھی ناظرین کے پیش نظر رہیں: حضرت یوسف علیہ السلام ، حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے ، حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پرپوتے تھے ۔ بائیبل کے بیان کے مطابق ( جس کی تائید قرآن کے اشارات سے بھی ہوتی ہے ) حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے چار بیویوں سےتھے ، حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے چھوٹے بھائی بنیامین ایک بیوی سے ، اور باقی دس دوسری بیویوں سے ۔ فلسطین میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی جائے قیام حبرون ( موجودہ الخیل ) کی وادی میں تھی جہاں حضرت اسحاق علیہ السلام اور ان سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام رہا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی کچھ زمین سکم ( موجودہ نابلس ) میں تھی ۔ بائیبل کے علماء کی تحقیق اگر درست مانی جائے تو حضرت یوسف علیہ السلام کی پیدائش سن ١۹۰٦قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں ہوئی اور سن ١۸۹۰ ق م کے قریب زمانے میں وہ واقعہ پیش آیا جس سے اس قصہ کی ابتدا ہوئی ہے ، یعنی خواب دیکھنا اور پھر کنوئیں میں پھینکا جانا ۔ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کی عمر سترہ برس کی تھی ۔ جس کنویں میں وہ پھینکے گئے وہ بائیبل اور تلمود کی روایات کے مطابق سکم کے شمال میں دُوتَن ( موجودہ دُثان ) کے قریب واقع تھا ، اور جس قافلے نے انہیں کنویں سے نکالا وہ جلعاد ( شرق اردن ) سے آرہا تھا اور مصر کی طرف عازم تھا ۔ ( جلعاد کے کھنڈر اب بھی دریائے اردن کے مشرق میں وادی الیابس کے کنارے واقع ہیں ) ۔ مصر پر اس زمانے میں پندرہویں خاندان کی حکومت تھی جو مصری تاریخ میں چرواہے بادشاہوں ( Hyksos Kings ) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یہ لوگ عربی النسل تھے اور فلسطین و شام سے مصر جاکر ۲ ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ زمانہ میں سلطنت مصر پر قابض ہوگئے تھے ۔ عرب مؤرخین اور مفسرین قرآن نے ان کے لیے ”عمالیق “ کا نام استعمال کیا ہے جو مصریات کی موجودہ تحقیقات سے ٹھیک مطابقت رکھتا ہے ۔ مصر میں یہ لوگ اجنبی حملہ آور کی حیثیت رکھتے تھے اور ملک کی خانگی نزاعات کے سبب سے انہیں وہاں اپنی بادشاہی قائم کرنے کا موقع مل گیا تھا ۔ یہی سبب ہوا کہ ان کی حکومت میں حضرت یوسف علیہ السلام کو عروج حاصل کرنے کا موقع ملا اور پھر بنی اسرائیل وہاں ہاتھوں ہاتھ لیے گئے ، ملک کے بہترین زرخیز علاقے میں آباد کیے گئے اور ان کو وہاں بڑا اثر و رسوخ حاصل ہوا ، کیونکہ وہ ان غیر ملکی حکمرانوں کے ہم جنس تھے ۔ پندرھویں صدی قبل مسیح کے اواخر تک یہ لوگ مصر پر قابض رہے اور ان کے زمانے میں ملک کا سارا اقتدار عملا بنی اسرائیل کے ہاتھ میں رہا ۔ اسی دور کی طرف سورة مائدہ آیت ۲۰ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ اِذ جَعَلَ فِیکُم اَنبِیَآءَ وَجَعَلَکُم مُّلُوکاً اس کے بعد ملک میں ایک زبردست قوم پرستانہ تحریک اٹھی جس نے بِکسُوس اقتدار کا تختہ الٹ دیا ۔ اڑہائی لاکھ کی تعداد میں عمالقہ ملک سے نکال دیے گئے ۔ ایک نہایت متعصب قبطی النسل خاندان برسر اقتدار آگیا اور اس نے عمالقہ کے زمانے کی یادگاروں کو چن چن کر مٹا دیا اور بنی اسرائیل پر ان مظالم کا سلسلہ شروع کیا جن کا ذکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں آتا ہے ۔ مصری تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان چرواہے بادشاہوں نے مصری دیوتاؤں کو تسلیم نہیں کیا تھا ، بلکہ اپنےدیوتا شام سے اپنے ساتھ لائے تھے اور ان کی کوشش یہ تھی کہ مصر میں ان کا مذہب رائج ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید حضرت یوسف علیہ السلام کے ہم عصر بادشاہ کو ”فرعون“ کے نام سے یاد نہیں کرتا ۔ کیونکہ ”فرعون“ مصر کی مذہبی اصطلاح تھی اور یہ لوگ مصری مذہب کے قائل نہ تھے ۔ لیکن بائیبل میں غلطی سے اس کو بھی ”فرعون“ ہی کا نام دیا گیا ہے ۔ شاید اس کے مرتَب کرنے والے سمجھتے ہوں گے کہ مصر کے سب بادشاہ ”فراعنہ“ ہی تھے ۔ موجودہ زمانہ کے محققین ، جنہوں نے بائیبل اور مصری تاریخ کا تقابل کیا ہے ، عام رائے یہ رکھتے ہیں کہ چرواہے بادشاہوں میں سے جس فرمانروا کا نام مصری تاریخ میں اپوفیس ( Apophis ) ملتا ہے ، وہی حضرت یوسف علیہ السلام کا ہم عصر تھا ۔ مصر کا دارالسلطنت اس زمانہ میں ممفِس ( منف ) تھا جس کے کھنڈر قاہرہ کے جنوب میں ١٤ میل کے فاصلے پر پائے جاتے ہیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام ١۷ ، ١۸ سال کی عمر میں وہاں پہنچے ۔ دو تین سال عزیز مصر کے گھر رہے ۔ آٹھ نو سال جیل میں گزارے ۔ ۳۰ سال کی عمر میں ملک کے فرمانروا ہوے اور ۸۰ سال تک بلا شرکت غیرے تمام مملکت مصر پر حکومت کرتے رہے ۔ اپنی حکومت کے نویں یا دسویں سال انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے پورے خاندان کے ساتھ فلسطین سے مصر بلا لیا اور اس علاقے میں آباد کیا جو دمیاط اور قاہرہ کے درمیان واقع ہے ۔ بائیبل میں اس علاقے کا نام جشن یا گوشن بتایا گیا ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے تک یہ لوگ اسی علاقے میں آباد رہے ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک سو دس سال کی عمر میں وفات پائی اور انتقال کے وقت بنی اسرائیل کو وصیت کی کہ جب تم اس ملک سے نکلو تو میری ہڈیاں اپنے ساتھ لے کر جانا ۔ یوسف علیہ السلام کے قصے کی جو تفصیلات بائیبل اور تَلمُود میں بیان کی گئی ہیں ان سے قرآن کا بیان بہت کچھ مختلف ہے ، مگر قصے کو اہم اجزاء میں تینوں متفق ہیں ۔ ہم اپنے حواشی میں حسب ضرورت ان اختلافات کو واضح کرتے جائیں گے ۔
سورۃ یوسف تعارف یہ سورت بھی مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی۔ بعض روایات میں ہے کہ کچھ یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کروایا تھا کہ بنو اسرائیل کے لوگ جو فلسطین کے باشندے تھے، مصر میں جاکر کیوں آباد ہوئے؟ ان لوگوں کا خیال تھا کہ آپ کے پاس چونکہ بنو اسرائیل کی تاریخ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس لیے آپ اس سوال کا جواب نہیں دے پائیں گے، اور اس طرح آپ کے خلاف یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل جائے گا کہ آپ (معاذ اللہ) سچے نبی نہیں ہیں۔ اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ پوری سورۃ یوسف نازل فرما دی جس میں پوری تفصیل اور وضاحت کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے۔ دراصل بنو اسرائیل کے جد امجد حضرت یعقوب (علیہ السلام) تھے، انہی کا دوسرا نام اسرائیل بھی تھا۔ ان کے بارہ صاحبزادے تھے، انہی کی نسل سے بنو اسرائیل کے بارہ قبیلے پیدا ہوئے۔ اس سورت میں بتایا گیا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنے صاحبزادوں کے ساتھ فلسطین میں مقیم تھے جن میں حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائی بنیامین بھی شامل تھے۔ ان دونوں کے سوتیلے بھائیوں نے سازش کر کے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ایک کنویں میں ڈال دیا، جہاں سے ایک قافلے نے انہیں اٹھا کر مصر کے ایک سردار کے ہاتھ بیچ دیا، شروع میں وہ غلامی کی زندگی گزارتے رہے، لیکن اس واقعے کے تحت جس کی تفصیل اس سورت میں آرہی ہے، اس سرداری کی بیوی زلیخا نے انہیں گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ مصر کے بادشاہ کے ایک خواب کی صحیح تعبیر دینے پر بادشاہ ان پر مہربان ہوا، اور انہیں نہ صرف جیل سے نکال کر باعزت بری کردیا، بلکہ انہیں اپنا وزیر خزانہ مقرر کیا، اور بعد میں حکومت کے سارے اختیارات انہی کو سونپ دیے۔ اس کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین کو فلسطین سے مصر بلوا لیا۔ اس طرح بنو اسرائیل فلسطین سے مصر منتقل ہوگئے۔ سورۃ یوسف کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا پورا واقعہ ایک ہی تسلسل میں تفصیل کے ساتھ زکر کیا گیا ہے، اور تقریبا پوری سورت اسی کے لیے وقف ہے، اور یہ واقعہ کسی اور سورت میں نہیں آیا۔ اس واقعے کو اتنی تفصیل کے ساتھ بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے ان کافروں پر ایک حجت قائم فرما دی ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے تھے۔ یہ بات ان پر بھی واضح تھی کہ اس واقعے کا علم ہونے کا آپ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا، لہذا یہ تفصیل آپ کو وحی کے علاوہ کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کو کفار مکہ کی طرف سے جن تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، ان کے پیش نظراس واقعے میں آپ کے لیے تسلی کا بھی بڑا سامان تھا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائیوں کی سازش کے نتیجے میں بڑے سخت حالات سے گزرے، لیکن آخر کار اللہ تعالیٰ نے انہی کو عزت، شوکت اور سربلندی عطا فرمائی، اور جن لوگوں نے انہیں تکلیفوں کا نشانہ بنایا تھا، ان سب کو ان کے آگے جھکنا پڑا۔ اسی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اگرچہ مکہ مکرمہ میں تکلیفیں اٹھانی پڑ رہی ہیں، لیکن آخر کار یہ سازشی لوگ آپ ہی کے سامنے جھکیں گے، اور حق غالب ہو کر رہے گا۔ اس کے علاوہ بھی اس واقعے میں مسلمانوں کے لیے بہت سے سبق ہیں، اور شاید اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو بہترین قصہ قرار دیا ہے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورة یوسف نمبر 12 رکوع 12 آیات 111 الفاظ و کلمات 1808 حروف 7411 مقام نزول مکہ مکرمہ ایک مرتبہ کفار مکہ نے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روز بروز ترقی سے جل کر خاک ہوئے جا رہے تھے انہوں نے یہودیوں سے یہ کہا کہ کوئی ایسی بات بتاؤ جو ہم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھیں اور وہ جواب نہ دے سکیں ۔ اس طرح ہمیں ان کا مذاق اڑانے اور نعوذ باللہ جھوٹا ثابت کرنے میں آسانی رہے گی۔ یہودیوں نے کہا کہ ان سے یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ اور ان کے اہل خاندان کے فلسطین سے مصر آنے کی وجہ پوچھئے۔ اگر جواب نہ دے سکیں تو وہ نبی نہیں ہیں ان کا خیال یہ تھا کہ چونکہ مکہ والے اس واقعہ سے قطعات ناواقف ہیں تو وہ اس کا جواب نہ دے سکیں گے۔ چناچہ کفار مکہ نے آپ سے پوچھا کہ (١) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بتائیے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) جن کا لقب اسرائیل تھا ان کے اور ان کے اہل خاندان کے فلسطین سے مصر آنے کی وجہ کیا تھی (٢) ان کا دوسرا سوال یہ تھا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعات زندگی کیا ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کے سوالات کے جواب میں نہ صرف اس سورت کی نازل کیا بلکہ عبرت و نصیحت کے لاتعداد پہلوؤں کے علاوہ دو باتوں کی طرف خاص طور پر اشارہ کیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت یوسف پر جو حالات گذرے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی وہی حالات گذر رہے ہیں دوسری بات یہ کہ جس طرح حضرت یوسف کے بھائیوں کو ان کے قدموں پر جھکنا پڑا تھا اسی طرح حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بھی کفار مکہ کو ذلت کے ساتھ جھکنا پڑے گا بعد کے حالات نے ان باتوں کو سچ کر دکھایا۔ اگر غور کیا جائے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں بےانتہا مماثلت اور مشابہت پائی جاتی ہے۔ (١) حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے ان سے حسد اور بغض کرتے ہوئے ان کو قتل کرنے یا والد سے دور کرنے کی سازش کی۔ اسی طرح کی تدبیریں اور سازشیں کفار مکہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیں۔ (٢) برادران یوسف نے اپنے بھائی کو طرح طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائیں اور ان کو ذلیل کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے نہایت صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام پر ظلم و ستم کی انتہا کردی گئی اور مکہ کی سر زمین کو ان کے لئے تنگ کردیا گیا لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام نے نہایت صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہرہ فرمایا۔ ٣) برادران یوسف نے حضرت یوسف کو ایک اندھے کنوئیں میں ڈال دیا تھا تاکہ وہ مر جائیں یا آنے جانے والا کوئی قافلہ ان کو اپنے ساتھ لے جائے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت یوسف تین دن تک اس اندھے کنوئیں میں رہے جہاں اللہ نے ان کی دست گیری فرمائی اور ایک گذرنے والے قافلے نے آپ کو نکالا اور اللہ نے ان کو مصر پہنچا دیا۔ اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف بھی سازش کی گئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تین دن تک غار ثور میں چھپے رہے۔ ٤) جس طرح برادران یوسف کو حضرت یوسف کے قدموں پر جھکنا پڑا اسی طرح کفار مکہ کو بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے جھکنا پڑا۔ (٥) جس طرح حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں کو معاف کردیا تھا اسی طرح فتح مکہ کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنے جانی دشمنوں کو معاف فرما دیا تھا۔ ٦) جس طرح حضرت یوسف کو اپنے وطن سے دور ہو کر عروج و ترقی نصیب ہوئی۔ اس طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنا وطن مکہ چھوڑنے کے بعد دنیاوی عروج و اقتدار ملا۔ غرضیکہ حضرت یوسف اور نیب کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں بےانتہا مناسبت اور مشابہت ہے۔ بقیہ تفصیل زیر مطالعہ تفسیر میں ملاحظہ کیجیے۔ ٭… حضرت یوسف (علیہ السلام) حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے پوتے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پڑپوتے ہیں۔ ٭ حضرت یوسف کی والدہ کا نام راحیل بنت لابان تھا۔ ٭ حضرت یوسف کا انتقال ایک سو دس سال کی عمر میں مصر میں ہوا۔ ٭ ان کی وصیت تھی کہ ان کو ان کے انتقال کے بعد مصر میں دفن نہ کیا جائے۔ جب اللہ کا وعدہ پورا ہو کر فلسطین پر حکومت الٰہی قائم ہوجائے تو ان کو فلسطین میں دفن کیا جائے۔ ٭ حضرت موسیٰ کے زمانہ میں ان کے جسم کو نکال کر فلسطین میں لے جا کر دفن کیا گیا۔ ٭ بلاطہ (فلسطین) کے علاقے نابلس کے ایک گاؤں میں دفن کیا۔ ٭… قرآن کریم میں حضرت یوسف کا نام چھبیس مرتبہ آیا ہے چوبیس مرتبہ سورة یوسف میں، ایک مرتبہ سورة الانعام میں اور ایک مرتبہ سورة مومن میں آیا ہے۔ ٭… قرآن کریم میں حضرت یوسف کے واقعہ کو احسن القصص یعنی واقعات میں بہترین واقعہ فرمایا گیا ہے۔ ٭… حضرت یوسف کے واقعہ سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ اگر ایک مرد مومن اسلامی سیرت و کردار، حکمت و دانائی اور بہترین اخلاق کا پیکر ہو تو وہ تنہا شخص پورے ملک کو فتح کرسکتا ہے اور ناممکن کو ممکن بنانے کی قدرت رکھتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم تعارف سورة یوسف اس سورة مبارکہ کی ابتدا میں یہ فرما کر قرآن مجید کا تعارف کروایا گیا ہے کہ قرآن مجید ایسی کتاب ہے جو اپنا مدعا اور مفہوم کھلے انداز میں بیان کرتی ہے۔ جس کی تفسیر نہ بھی کی جائے تو انسان کی ہدایت کے لیے قرآن مجید کا متن ہی کافی ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے عربی زبان میں نازل فرمایا تاکہ لوگ اس پر غور و خوض کریں۔ بالخصوص عربی جاننے والوں کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ اس سورة میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ، تاریخ اور واقعات کو نہایت ہی احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے اور یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ نزول قرآن سے پہلے اے پیغمبر آپ بھی یوسف (علیہ السلام) کی سیرت، تاریخ اور واقعات سے بیخبر تھے۔ جن لوگوں نے یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے بارے میں آپ سے استفسار کیا ہے۔ اگر وہ عقل سے کام لیں تو ان کے لیے اس واقعہ میں بہت ہی سامان عبرت ہے۔ اس واقعہ کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ یوسف (علیہ السلام) نے بچپن کی عمر میں خواب دیکھا۔ جس میں گیارہ ستارے اور شمس و قمر انہیں سجدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ خواب اپنے والد گرامی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سامنے بیان کیا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے رویہ کے پیش نظر یوسف (علیہ السلام) کو فرمایا کہ یہ خواب اپنے بھائیوں سے ذکر نہ کرنا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حسد میں آکر آپ کے خلاف کوئی سازش کریں۔ ساتھ ہی خواب کی تعبیر کی طرف اشارہ فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو نبوت عطا فرمانے کے ساتھ بالخصوص خوابوں کی تعبیر کا علم عنایت فرمائے۔ چناچہ وہی ہوا جس کا خدشہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ظاہر کیا تھا۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے ایک سازش کے تحت حضرت یوسف (علیہ السلام) کو حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے اجازت لے کر اپنے ساتھ لیا اور انہیں کنویں میں پھینک ڈالا۔ ایک راہگیر قافلے نے انہیں کنویں سے نکالا اور مصر کے بازار میں بیچ دیا۔ انہیں عزیز مصر نے خریدا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اس کے گھر میں جوان ہوئے اور عزیز مصر کی بیوی نے انہیں بدکاری کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جیل کی کال کوٹھڑی میں جانا گوارا کرلیا مگر اپنی چادر عفت پر داغ نہ آنے دیا۔ ایک مدت کے بعد وقت کے بادشاہ کو ایک ایسا خواب آیا جس کی تعبیر مصر کے ارباب فکر و دانش بتلانے سے قاصر رہے۔ تب قید سے رہا پانے والے بادشاہ کا ایک ملازم جو قید میں حضرت یوسف کے ساتھ رہا تھا۔ اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی سیرت اور صلاحیت سے بادشاہ کو آگاہ کیا۔ بادشاہ سے اجازت لے کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچ کر خواب کی تعبیر پوچھی۔ جس سے بادشاہ کو یقین ہوگیا کہ میرے خواب کی یہی تعبیر ہے۔ خواب کی تعبیر جان کر بادشاہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے یوسف (علیہ السلام) کو قید سے بلوا کر وزیر خزانہ بنایا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بہترین منصوبہ بندی سے ملک مصر کو معاشی بحران سے نکالا۔ اس دوران ملحقہ علاقوں میں بھی قحط پڑا۔ جس کے نتیجے میں ان کے بھائی غلہ لینے کے لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ جن سے غلہ کی درخواست کر رہے ہیں وہ ان کا بھائی ہے۔ دوسری مرتبہ آئے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی سجھائی ہوئی تدبیر کے مطابق اپنے حقیقی بھائی بنیامین کو اپنے پاس رکھ لیا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو بھائیوں کے سامنے ظاہر کیا جس سے ان کے بھائیوں نے ان سے معذرت کی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے انہیں معاف فرماتے ہوئے انہیں اپنی قمیص عنایت کی اور کہا کہ اسے والد محترم کے چہرے پر رکھنا، انھوں نے ایسا ہی کیا جس سے یعقوب (علیہ السلام) کی بینائی لوٹ آئی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین اور بھائیوں کو اپنے پاس بلوایا جب ان کے والدین اور بھائی ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے اس زمانے کی روایت کے مطابق یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ کیا۔ اسی دوران حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والد سے عرض کی والد محترم ! یہ اسی خواب کی تعبیر ہے جو بچپن میں میں نے آپ کے حضور عرض کیا تھا۔ اس واقعہ میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ اگر انسان صبر و حوصلہ کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرے اور اپنے دامن کو گناہ کی آلودگی سے محفوظ رکھے تو کسی کا حسد اور سازش آدمی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ اس پر واضح اشارہ ہے کہ اے اہل مکہ تمہیں بھی یہ دن ضرور دیکھنا پڑے گا کہ تم بھی ایک دن جھکو گے اور اپنے مظالم پر محمد کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے معافی کے خواستگار ہو گے۔ اللہ کی شان ٹھیک تھوڑے عرصہ کے بعد فتح مکہ کے موقعہ پر کائنات عالم نے یہ منظر دیکھا کہ مکہ کے بڑے بڑے سردار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معافی کے خواستگار ہوئے اور آپ نے ان الفاظ سے انہیں معاف فرما کر یہ ثابت کیا کہ انبیاء کردار اور اخلاق کے حوالے سے ہمیشہ منفرد انسان ہوتے ہیں۔ ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہودیوں کے علماء کا ایک گروہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ تورات کے قاری تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورة یوسف کی تلاوت فرما رہے تھے انھوں نے اسے توراۃ کے مطابق پایا جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل ہوئی تھی۔ ان علماء نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو کس نے سکھلایا ہے ؟ آپ نے فرمایا میرے اللہ نے مجھے سکھلایا ہے۔ علماء کی جماعت نے تعجب کیا جب آپ سے اس بات کو سنا وہ یہودیوں کی طرف واپس آئے اور انھیں کہا کیا تم جانتے ہو اللہ کی قسم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کو اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح تورات نازل کی گئی تو کچھ لوگ ان کے ساتھ مل کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو انھوں نے آپ کے اوصاف کو پہچان لیا اور مہر نبوت جو آپ کے کندھوں کے درمیان تھی اسے دیکھا اور آپ کو سورة یوسف کی قراءت کرتے ہوئے سنا۔ انھوں نے تعجب کیا اور کہا آپ کو کس نے سکھلایا ؟ آپ نے فرمایا مجھے اللہ نے سکھلایا اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (یوسف اور اس کے بھائیوں کے واقعہ میں سوال کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں) جو ان کے معاملے کے متعلق سوال کرتا ہے یا ان کے متعلق جاننا چاہتا ہے تو اس وقت قبیلے کے وہ لوگ مسلمان ہوگئے۔ “ [ رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ ]
فی ظلال القرآن پارہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١٢ سورة یوسف آیات ١۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٥٣ سورة یوسف ایک نظر میں یہ مکی سورت ہے اور یہ سورت ہود کے بعد نازل ہوئی ۔ یہ اس مچکل دور میں نازل ہوئ جس کے بارے میں ہم سورت یونس اور سورت ہود کے دیباچے میں تفصیلی بحث کرچکے ہہین تحریک اسلامی بےپناہ مشکلات سے دوچارتھی ۔ یہ عام الحزن کا زمانہ تھا ، حضرت ابوطالب فوت ہوچکے تھے ، حضرت خدیجہ (رض) فوت ہوچکی تھیں۔ یہ دونوں شخصیات حضور صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم کی ذات اور تحریک اسلامی کے لئے بےحد مدد گار اور سہارا تھیں۔ لیکن اس دور کے قدرے بعد بیعت عقبہ اولٰی اور ثانیہ کے وقعات پیش آئے جن میں حضور صلی اللہ علیہ الہٰ وسلم کے لئے اور اسلامی تحریک کے لئے ان مشکلات سے نکل جانے کی راہ فراہم ہوئی۔ اور ہجرت الی المدینہ کے اسباب پیدا ہوئے ۔ بہرحال یہ سورتوں میں سے ایک ہے جو اس مشکل دور میں نازل ہوئیں جبکہ حضور صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم اور آپ کے مٹھی بھر ساتھیوں کے لئے مکہ کی فضاحددرجہ ناساز گار تھی۔ یہ پوری سورت مکی ہے لیکن ” مصحف امیری “ میں یہ ہے کہ آیت ٤ ، ٣ ، ٢ ، ١ مدنی ہیں ۔ یہ بات قرین قیاس نہیں ہے اس لئے کہ پہلی تین آیات یہ ہیں : الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ (١)إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (٢) نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ (٣)إِذْ قَالَ يُوسُفُ لأبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ (٤) ” ا ، ل ، ر۔ یہ اس کتاب کی آیات ہیں جو اپنامدعا صاف صاف بیان کرتی ہے۔ ہم نے اسے نازل کیا ہے ، قرآن بناکر ، عربی زبان میں تاکہ تم اسے اچھی طرح سمجھ سکو ، اے محمد ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کرکے بہترین پیرائے میں واقعات وحقائق تم سے بیان کرتے ہیں ورنہ اس سے پہلے تو تم بالکل بیخبر تھے “۔ ذرا بھی غور کیا جائے تو یہ آیات بعد میں آنے والی آیات کے لئے نہایت ہی قدرتی تمہید ہیں جن میں قصہ یوسف (علیہ السلام) کے واقعات بیان کیے گئے ہیں ۔ ان کے بعد جو آیت آتی ہے وہ یہ ہے : إِذْ قَالَ يُوسُفُ لأبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ (٤) ” جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا ، ” اباجان ، میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند ہیں اور وہ مجھے سجدہ کرتے ہیں “۔ اور اس کے بعد قصہ شروع ہوجاتا ہے اور آخر تک چلتا رہتا ہے ۔ لہذا پہلی تین آیات میں جو یہ آیا ہے کہ ” اے محمد ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کرکے بہترین پیرائے میں واقعات وحقائق تم سے بیان کرتے ہیں ورنہ اس سے پہلے تم بالکل بیخبر تھے “ یہ اس پورے قصے کی ایک قدرتی تمہید ہے۔ پہلی آیت میں تین حرف ہیں : ا ، ل ، ر ۔ اور یہ کہ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں ، یہ کہ اللہ نے اسے عربی زبان میں قرآن بناکر نازل کیا ہے ، یہ بھی مکہ والوں سے خطاب ہے جو یہ الزام لگاتے تھے ، کہ ایک عجمی شخص آپ کو پڑھاتا ہے اور پھر یہ کہ قرآن وحی من جانب اللہ اور اس کی دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم قرآنی تصورات سے اس پورے عرصے میں آگاہ نہ تھے ، نہ آپ نے کبھی ان خیالات کا اظہار کیا تھا۔ پھر قرآن کریم کا یہ آغاز اس سورت کے اختتام سے بھی ہم آہنگ ہے ، اختتام یوں ہوا : ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ (١٠٢) ” یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو تم پر وحی کررہے ہیں ، ورنہ تم اس وقت موجود نہ تھے جب یوسف کے بھائیوں نے آپس میں اتفاق کرکے سازش کی تھی “۔ چناچہ اس قصے کے آغاز اور انتہاء میں یہ ایک ناقابل جدائی ربط ہے ۔ ظاہر ہے کہ قصے کی تمہید اور اس پر آخری سبق اور تبصر کو ایک ساتھ ہی نازل ہونا چاہئے۔ رہی ساتویں آیت تو اگر اسے عبارت سے نکال دیا جائے تو عبارت درست ہی نہیں ہوتی ۔ لہذا یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ سورت مکہ میں نازل ہوئی اور یہ آیت اس میں نہ ہو اور مدنیہ میں اس کا اضافہ ہوا ہو۔ ذرا پوری عبارت پر غورفرمائیں : لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ (٧)إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَى أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ (٨) ” حقیقت یہ ہے کہ یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں ان پوچھنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں ۔ یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا ” یہ یوسف اور اس کا بھائی دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں ، حالانکہ ہم پورا جتھا ہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے اباجان بالکل بہک گئے ہیں “ ۔ اس پوری عبارت پر غور سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں آیات یکبار اتری ہیں اور سیاق کلام اسی طرح مربوط پڑھا جاسکتا ہے۔ پھر پوری سورت ایک ہی ٹکڑا ہے اور اس کا انداز بھی واضح طور ہر مکی ہے۔ موضوع اور مضمون کے اعتبار سے بھی انداز گفتگو کے اعتبار سے بھی اور اپنی فضا اور اثرات کے اعتبار سے بھی۔ بلکہ اس پوری سورت میں ان حالات کی ایک صاف صاف جھلک نظر آتی ہے۔ جن میں یہ سورت نازل ہوئی تھی ۔ تحریک اسلامی کے لئے یہ نہایت ہی مشکل دور تھا۔ اس دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم بہت ہی وحشت ، غربت اور تنہائی محسوس کرتے تھے۔ اہل قریش نے حضور صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم سے بائیکاٹ بھی کر رکھا تھا اور عام الحزن کے بعد کے دور میں جماعت مسلمہ نہایت ہی دشوار وقت سے گزر رہی تھی چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان حالات میں حضور صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم پر ایک شریف بھائی کا قصہ نازل فرمایا یعنی یوسف ابن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہم السلام) اجمعین کا حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بھی ایسی ہی مشکلات سے دوچار ہوناپڑا اور ان کے خلاف بھی خود ان کے بھائیوں نے ایسی ہی سازشیں کیں ۔ ان کو کنویں میں ڈالا گیا ، اور جب کنویں کے خوف وہراس سے نجات ملی تو مال کی طرح انہیں فروخت کیا گیا اور انہوں نے غلامی کا دور دیکھا اور ہاتھوں ہاتھ بکے آپ والدین ، بھائیوں اور خاندان کی حمایت اور ہمدردی سے محروم رہے ۔ اس کے بعد آپ کے خلاف عزیز مصر کی بیوی اور مصری عورتوں کی سازشیں سامنے آئیں اور اس سے قبل انہوں نے آپ کو ورغلانے کی پوری پوری کوشش بھی کی ۔ پھر عزیز مصر کے گھر کی آرام دہ زندگی کے بعد آپ کو جیل کے شب وروز بھی دیکھنے پڑے۔ اس کے بعد آپ پر وہ عظیم آزمائش بھی آئی کہ آہ کو ہر قسم کا اقتدار عطا کردیا گیا۔ وہ لوگوں کے بارے میں فیصلے کرنے لگے اور پوری مملکت کا معاشی نظام آپ کے ہاتھ میں آگیا اور آپ خزانوں کے مالک اور اطراف کی اقوام کی راشن بندی کردی گئی اور آپ اختیارات کا سرچشمہ بن گئے۔ اب اس کے بعد وہ آزمائش کہ آپ کے سامنے وہ بھائی آتے ہیں جنہوں نے آپ کو اندھے کنویں میں پھینکا تھا۔ اور بظاہر وہی آپ کی ان تمام مشکلات کے ذمہ دار تھے۔ اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان تمام مشکلات کو نہایت ہی صبر سے انگیز کیا۔ اور یوں پوری مشگلات کے درمیان وہ دعوت اسلامی کا کام مسلسل کرتے رہے ۔ اور ان مشکلات اور آزمائشوں سے گزرتے جاتے ہیں اور فتح پاتے ہیں اور پھر جب آپ کا خاندان آپ کے ساتھ اٹھتا ہے اور پھر وہ لمحہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خواب کی تعبیر واضح طور پر سامنے آتی ہے ۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے ہیں اور چاند وسورج ہیں اور انہیں سجدہ کر رہے ہیں ۔ یہ وقت حضرت یوسف کے لئے نہایت ہی مسرت کا وقت ہے۔ اور اس میں وہ اللہ کی طرف پوری طرح رخ کیے ہوئے ہیں اور وہ اس دنیاوی مرتبے اور مقام سے پوری طرح برتر اور بالا ہیں۔ اس مقام پر قرآن کریم نے واقعات کا نقشہ یوں کھنیچا ہے : (:12 ۔ 99 تا 101) ” پھر جب یہ لوگ یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے ، تو اس نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور (اپنے سب کہنے والوں سے ) کہا ، ” چلو اب شہر میں چلو ، اللہ نے چاہا تو امن وچین سے رہو گے “ ۔۔۔۔۔ (شہر میں داخل ہونے کے بعد ) اس نے اپنے والدین کو اٹھاکر اپنے پاس تخت پر بٹھایا اور سب اس کے آگے بےاختیار سجدے میں جھک گئے ، یوسف نے کہا ” اباجان یہ تعبیر ہے ، میرے اس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا۔ میرے رب نے اسے حقیقت بنادیا ۔ اس کا احسان ہے کہ اسنے مجھے قیدخانے سے نکالا ، اور آپ لوگوں کو صحرا سے بلاکر مجھ سے ملایا حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال چکا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرا رب غیرمحسوس تدبیروں سے اپنی مشیت پوی کرتا ہے ، بیشک وہ علیم و حکیم ہے ، اے میرے رب تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھایا ۔ زمین و آسمان کے بنانے والے ، تو ہی دنیا وآخرت میں میرا سرپرست ہے ، میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجام کا رمجھے صالحین کے ساتھ ملا “۔ یہ تھی حضرت کی آخری دعا ۔ یہ دعا ان حالات میں وہ کرتے ہیں کہ وہ پوری طرح اقتدار پر فائز ہیں۔ عیش اور آرام کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں اور پورے خاندان میں اطمینان کی زندگی بسر کررہے ہیں دعاہ ہے کہ اللہ ان کو ایک مسلم کی طرح مارے اور مرنے کے بعد صالحین کی رفاقت دے۔ یہ ہے ان کی آخری آرزو ابتلاؤں اور مصیبتوں کے بعد ، طویل صبر اور مشقت جھیلنے کے بعد عظیم کامیابی کے حالات میں۔ جن حالات مین یہ قصہ وارد ہوا ہے اور اس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حالات جس تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ، اور جس انداز سے پھر اس قصے کے واقعات پر تبصرے ہوئے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ مسلمانوں کی تسلی اور تشفی کے لئے نازل ہوا ہے ۔ کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم اور جماعت مسلمہ اس وقت جن حالات سے گزر رہے تھے وہ ایسے ہی تھے کچھ لوگ ہجرت پر مجبور تھے ، کچھ پر مظالم ہورہے تھے ، ان کو تسلی اور اطمینان اس بات کا دیا جارہا ہے کہ جس طرح یوسف بےبس تھے ، ان کو اقتدار اعلیٰ ملا ، اسی طرح کے حالات تمہارے لئے بھی ہوسکتے ہیں۔ بلکہ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ تم لوگوں کو بھی مکہ سے نکل کر کسی دوسرے علاقے کی طرف منتقل ہوناہو گا ۔ اور پھر اس دوسرے مرکز سے تمہین عروج نصیب ہوگا ، اگرچہ بظاہر یہ خروج اور ہجرت حالات سے مجبور ہوکر عمل میں آئے گی ۔ بعینہ اسی طرح جس طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے والد کی سرپرستی سے نکالے گئے اور مختلف مشکلات سے دوچار ہوئے اور بعد میں ان کو اللہ کی تائید حاصل ہوئی اور ان کو زمین کے اندر اقتدار اعلیٰ مل گیا۔ (: ١٢۔ ٢١) ” اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے اس زمین میں قدم جماتے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے اک انتظام کیا ، اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں “۔ یہ عمل اس وقت شروع ہوگیا تھا جب انہوں نے مصر میں عزیز مصر کے گھر قدم رکھناشروع کردئیے تھے۔ اگرچہ اس وقت وہ ایک نوجوان تھے اور غلاموں کی طرح فروخت ہورہے تھے۔ اور جو چیز اس وقت میری سوچ پر حاوی ہے ، میں اسے محسوس کررہا ہوں لیکن بیان نہیں کرسکتا ، وہ مخصوص تبصرہ ہے جو اس کے بعد آیا ہے۔ (١٢۔ ١٠٩ تا ١١١) ” اے محمد ، تم پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے اور انہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے اور انہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں۔ ہھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان قوموں کا نجام انہیں نظر آجاتا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں ، یقیناً آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے اور زیادہ بہتر ہے جنہوں نے تقوی ٰ کی اختیار کی ۔ کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے ۔۔۔ یہاں تک کہ جب پیغمبروں لوگوں سے مایوس ہوگئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا ، تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی ۔ جب ایسا موقعہ آجاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں ۔ بچالیتے ہیں اور مجرموں پر سے ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جاسکتا۔۔۔۔ اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل وہوش رکھنے والوں کے لئے عبرت ہے ۔ یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جارہا ہے ۔ یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں انہی کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت و رحمت ہے “۔ اس تبصرے میں اس سنت الٰہیہ کی طرف اشارہ ہے کہ جب رسول مایوس ہوجاتے ہیں پھر سنت الٰہیہ اپنا کام کرتی ہے ، جس طرح حضرت یوسف اپنی طویل مشکلات میں مایوس ہوئے ۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ مشکلات کے بعد آسانی آجاتی ہے اور انسان پھر اپنا مقصد پالیتا ہے ۔ یہ وہ اشارات ہیں جن تک صرف مومن دل کو رسائی حاصل ہوتی ہے ، جبکہ یہ مومن ایسے ہی مشکل حالات میں زندگی بسر کررہا ہوتا ہے ۔ ایسے حالات سے عملاً دو چار ہوکر نفس مومنہ قرآن کریم کا اصل ذائقہ چکھ سکتا ہے اور اس پر نہایت ہی باریک تلمیحات اور گہرے اشارات لقاء ہوتے ہیں۔ یہ سورت بعض منفرد خصوصیات کی حامل بھی ہے وہ یہ کہ اس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا قصہ بھی پور موجود ہے ۔ کیونکہ قرآن کریم میں قصص کا اسلوب یہ ہے کہ موضوع سخن کے لحاظ سے کسی قصے کا جو حصہ موزوں اور مناسب ہوتا ہے ، صرف اس حصے کو لایا جاتا ہے لیکن قصہ یوسف کا معاملہ دیگر قصص کے برعکس ہے ۔ یہاں تک سورت ہود میں جو قصص پورے بھی آئے وہ بھی اجمالاً دیئے گئے ہیں لیکن قصہ یوسف مناسب حدتک طویل بھی ہے ، مکمل بھی اور ایک ہی سورت میں بھی ۔ اور یہ خصوصیت قرآن کے دوسرے قصص سے ممتاز ہے۔ اس قصے کی جو نوعیت تھی اس کے ساتھ مناسب یہی تھا کہ پورا قصہ ہی دے دیا جائے اور پوری طرح اس کی تمام کڑیاں یکجا کرکے لائی جائیں ۔ یوسف (علیہ السلام) کے خواب سے یہ قصہ شروع ہوتا ہے اور اس کی انتہا اس خواب کی تاویل پر ہوتی ہے ۔ کیونکہ قصے کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ ایک ہی جگہ ہونا چاہئے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کے کچھ حصے ایک جگہ ہوں اور کچھ دوسری جگہ دوسرے موضوع گفتگو کے ساتھ ہوں۔ اس مخصوص نوعیت کی وجہ سے اس پورے قصے کو ایک ہی جگہ لایا گیا۔ اور اس طرح وہ مقصد بھی پوری طرح بیان کردیا گیا ہے جس کے لئے یہ قصہ بیان ہوا اور اس سے جو نتائج اخذ کیے جانے تھے وہ بھی اخذ ہوئے ، اس بارے میں ہمیں عنقریب قدرے مفصل بات کرنی ہوگی جس سے معلوم ہوگا کہ قرآن مجید کا ایک منفرد طرز ادا ہے ۔ وباللہ التوفیق ! حضرت یوسف (علیہ السلام) کا قصہ جس طرح اسے قرآن کریم میں لایا گیا ہے وہ اسلام کے منہاج قصہ گوئی کی ایک خوبصورت مثال ہے ۔ اس قصے میں انسان کے نفسیاتی میلانات ، انسانی نظریات اور اسلام کے طرز تربیت اور اسلامی تحریک کے مقاصد کی وضاحت کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں قصص لانے کا انداز عموماً ایک ہی ہے ، لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصے کا ایک مخصوص انداز ہے اپنے طرز ادا کے اعتبار سے بھی اور فنی خوبیوں کے اعتبار سے بھی۔ یہ قصہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کردار کے ہر پہلو کو سامنے لاتا ہے ، ان کی زندگی کے ہر پہلو کو اجاگر کرتا ہے کیونکہ آپ ہی اس قصے کے ہیرو اور اصل کردار ہیں۔ زندگی کے ہر موڑ پر ان کا رد عمل پیش کیا جاتا ہے اور پھر ان پر جو ابتلاء آئے ہیں وہ پوری طرح دکھائے جاتے ہیں ۔ ان پر جو ابتلاء آئے ، اپنی نوعیت اور اپنی حقیقت کے اعتبار سے مختلف تھے۔ مشکلات کا ابتلاء بھی اور خوشحالی کا ابتلاء بھی ہے ۔ شہوت کے فتنے کا بھی اور حکومت کے اقتدار کا بھی ابتلاء ہے۔ غرض مختلف مواقف اور مختلف شخصیات کے مقابلے مین ان کی سوچ اور ان کے مأثرات اس قصے میں موجود ہیں۔ یہ ہیرو فی الحقیقت ان تمام ابتلاؤں میں ایک خالص مومن کی طرح سرخرو ہوکر نکلتا ہے اور اللہ کے سامنے دست بدعا ہو کر کھڑا ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے اس سے قبل کہہ دیا۔ اس قصے مرکزی کردار کے علاوہ دوسرے کرداروں کی تفصیلات بھی اس میں دی گئی ہیں۔ ہر کردار کیے خدوخال ، اس کی اہمیت کے مطابق دیئے گئے ہیں ، دیکھنے والے کے مقام سے کسی کو دور رکھا گیا ہے ، اور کسی پر زیادہ روشنی ڈالی گئی ہے ۔ یہ قصہ انسانی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو مختلف کرداروں کی صورت میں نہایت ہی حقیقت نگاری کی شکل میں پیش کرتا ہے ۔ اس میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) بطور ایک صابر مطمئن نبی اور ٹوٹ کر اپنے بچوں کے ساتھ محبت کرنے والے انسان کی صورت میں نظر آتے ہیں جن کا عالم بالا کے ساتھ ہر وقت رابطہ قائم ہے ۔ دوسرا نمونہ اور کردار حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا ہے جن کے دلوں میں غیرت ، حسد اور کینہ پروری کے جذبات موجزن ہیں ۔ وہ سازشوں میں لگے ہوئے ہیں اور جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور آثار جرم کا سامنا کرتے ہیں اور اس میں وہ کبھی سخت تعجب اور حیرانی میں مبتلا ہوتے ہیں اور کبھی شرمندہ ہوکر ناکام ہوتے ہیں۔ ان میں سے بھی ایک شخص جو ممتاز کردار رکھتا ہے اس کی شخصیت اور امتیازی خصوصیات کو بھی قلم بند کردیا جاتا ہے اور قصے کے مختلف مراحل میں اس کا کردار امتیازی نظر آتا ہے ۔ پھر اس میں عزیز مصر کی بیوی کا بھی ایک کردار سامنے آتا ہے ، یہ اپنی نسوانی خواہشات میں اندھی نظر آتی ہے ۔ مصر معاشرے کے بادشاہوں کے حرم کا یہ ایک اعلیٰ نمونہ ہے اور اس کے ذاتی خدوخال بھی اس کے کردار سے اچھی طرح واضح ہیں۔ یہ مصر کے اعلیٰ طبقے کی خواتین کا نمونہ ہے ۔ اس قصے میں اس وقت کے معاشرے اور اس میں عورتوں کی سرگرمیوں اور سوچ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ورغلانے کی تد ابیر کرتی ہیں اور عزیز مصر کی بیوی سب عورتوں کی موجودگی میں کس طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) کو برملا دھمکی دیتی ہے اور پھر کس طرح وہ سازشیں کر کے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جیل تک پہنچا دیتی ہے ۔ اس میں ایک کردار بادشاہ کا بھی ہے جو پس پردہ ہے جو عزیز مصر کی طرح اسٹیج سے دور رہی رہتا ہے ۔ غرض اس قصے میں جو کردار بھی سامنے آتے ہیں وہ اپنی سچی اور واقعی تصویر پیش کرتے ہیں ، جو لوگ بھی مختلف مواقف ، مختلف حالات میں اسٹیج پر آتے ہیں وہ اپنے حقیقی اور قدرتی خدوخال کے ساتھ آتے ہیں۔ غرض مختلف حالات ، اور مختلف مناظر میں یہ قصہ اپنے اندر ایک حقیقی واقفیت رکھتا ہے اور یہ اسلام کی فنی طرز ادا کی ایک معیاری اور ممتاز مثال ہے ۔ یعنی کسی واقعہ کے محض حقیقی واقعات پر اکتفاء کرنا ، گہری سچائی کو پیش کرنا اور اس کے ساتھ قصے کو مزین کرنا اور ہر مرحلے میں حقیقی اور واقفیت پسندی سے کام لینا ۔ تمام تاثرات کو ظاہر کرنا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس گندگی سے بچنا جو واقفیت اور حقیقت پسندی کے نام سے آج کل ہمارے لٹریچر میں عام ہے۔ اس قصے میں انسان کی کمزوری کے مراحل بھی آتے ہیں ، مثلاً جنسی کمزوری لیکن ایسے مواقع کو بھی اس قصے میں بغیر لگی لپٹی رکھے بغیر نہایت ہی حقیقت پسندی کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے ، ایسے مواقع پر نفس انسانی کی جو کیفیات ہوتی ہیں ، ان کو نظر انداز نہیں کیا گیا لیکن بیسویں صدی کی جاہلیت جس طرح سفلی جذبات کو ان کیفیات کے ذریعے ابھارتی ہے اور اس کو حقیقت پسندی کا نام دیا جاتا ہے اس سے پوری طرح اجتناب کیا جاتا ہے۔ غرض یہ قصہ طرز ادا کی واقفیت پسندی کے ساتھ ساتھ اور مختلف کرداروں کی موجودگی کے باوجود اپنے ماحول کو مکمل طور پر پاک وصاف رکھتا ہے۔ اس قصے میں جو کردار آتے ہیں مناسب ہے کہ ان پر ذرا تفصیل سے روشنی ڈالیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی ۔۔۔ ان کے دلوں میں حسد اور کینے کی آگ آہستہ آہستہ سلگ رہی ہے ۔ یہاں تک کہ ان کے دلوں میں اس ہولناک جرم کے ارتکاب کا کوئی خوف نہیں رہتا۔ یہ جرم ان کے نزدیک اب گھناؤنا ، عظیم اور مکروہ نہیں رہتا ۔ اس کے بعد وہ اس جرم کے ارتکاب کے لئے ایک شرعی جواز بھی ڈھونڈلیتے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ ایک دینی گھرانے کے فرزند تھے۔ حضرت یعقوت (علیہ السلام) کے بیٹے اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے پوتے ، چناچہ یہاں ان کی حقیقی ذہنیت کو قلم بند کیا گیا ہے ۔ ان کا دینی رنگ ، ان کی فکر ، ان کا شعور اور ان کا رسم و رواج ایک ہی فقرے میں قلم بند کردئیے جاتے ہیں۔ وہ جرم کرنا بھی چاہتے ہیں اور نیک رہنا اور اچھا انجام بھی چاہتے ہیں ، ذرا ملاحظہ فرمائیں : لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ (٧)إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَى أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ (٨) اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا مِنْ بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ (٩) قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ لا تَقْتُلُوا يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّيَّارَةِ إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ (١٠) قَالُوا يَا أَبَانَا مَا لَكَ لا تَأْمَنَّا عَلَى يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ (١١) أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا يَرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (١٢) قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَنْ تَذْهَبُوا بِهِ وَأَخَافُ أَنْ يَأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنْتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ (١٣) قَالُوا لَئِنْ أَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذًا لَخَاسِرُونَ (١٤) فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَنْ يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِأَمْرِهِمْ هَذَا وَهُمْ لا يَشْعُرُونَ (١٥) وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ (١٦) قَالُوا يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ (١٧) وَجَاءُوا عَلَى قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ (١٨) ” حقیقت یہ ہے کہ یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں پوچھنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا ” یہ یوسف اور اس کا بھائی ، دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں ، حالانکہ ہم ایک پورا اج تھا ہیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ابا جان ، بالکل ہی بہک گئے ہیں۔ چلو یوسف (علیہ السلام) کو قتل کردو یا اسے کہیں پھینک دو تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہارے ہی طرف ہوجائے ۔ یہ کام کرلینے کے بعد پھر نیک بن کر رہنا “ اس پر ان میں سے ایک بولا ” یوسف کو قتل نہ کرو ، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اسے کسی اندھے کنویں میں ڈال دو ۔ کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا “۔ اس قرار داد پر انہوں نے اپنے باپ سے کہا ” ابّا جان کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے معاملے میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیرخواہ ہیں۔ کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے ، کچھ چرچگ لے گا اور کھیل کود سے بھی دل بہلائے گا ۔ ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں ۔ باپ نے کہا ” تمہارا اسے لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے اور مجھ کو اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ پھاڑ کھائے جبکہ تم اس سے غافل ہو “۔ انہوں نے جواب دیا ” اگر ہمارے ہوتے اسے بھیریئے نے کھالیا جبکہ ہم ایک جتھا ہیں تو ہم بڑے نکمے ہوں گے “ اس اصرار کے ساتھ جب وہ اسے لے گئے ، انہوں نے طے کرلیا کہ اسے ایک اندے کنویں میں چھوڑ دیں تو ہم نے یوسف کو وحی کی کہ ” ایک وقت آئے گا جب تو ان لوگوں کو ان کی یہ حرکت جتائے گا ۔ یہ اپنے فعل کے نتائج سے بیخبر ہیں “۔ شام کو دہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے اور کہا ” اباجان ، ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے لگ گئے تھے اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑ یا آکر اسے کھا گیا ۔ آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے اگرچہ ہم سچے ہی ہوں “ ۔ اور وہ یوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگا کرلے آئے تھے۔ یہ سن کر ان کے باپ نے کہا ” بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لئے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا۔ اچھا صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا جو بات تم بتا رہے ہو ، اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جاسکتی ہے “ اس پورے قصے میں ان کا فردار ایک ہی جیسا ہے ، ان بھائیوں میں سے ایک کا موقف قدرے مختلف ہے اور وہ آغاز قصہ سے آخر تک دوسروں سے مختلف ہے ۔ اب یہ کنعان سے مصر جاتے ہیں اور یوسف کے مطالبے ہر اس کے بھائی کو دوبارہ مصر لے کر جاتے ہیں تاکہ یہ سالہ خشک سالی میں مصر سے گندم خرید کر لائیں ۔ اللہ تعالیٰ حضرت یوسف کو یہ تدبیر سمجھاتا ہے کہ وہ ان کے سامان میں پیمانہ رکھ کر اپنے بھائی کو روک لیں ۔ اس بہانے سے کہ اس کے سامان سے پیمابہ برآمد ہوا۔ یہ لوگ تو حقیقت سے بیخبر ہیں لیکن اس موقعے پر ان کا پرانا کینہ جاگ اٹھتا ہے ۔ کہتے ہیں : قَالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ قَالَ أَنْتُمْ شَرٌّ مَكَانًا وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ (٧٧) ” بھائیوں نے کہا ” یہ چوری کرے تو کچھ تعجب کی بات بھی ہے ، اس سے پہلے اس کا بھائی (یوسف ) بھی چوری کرچکا ہے “۔ یوسف ان کی یہ بات سن کر پی گیا ، حقیقت ان پر نہ کھولی ، بس اتنا کہہ کر رہ گیا ” بڑے ہی برے ہو تم لوگ جو الزام تم لگا رہے ہو اس کی حقیقت خدا خوب جانتا ہے “۔ اور جب یہ لوگ اپنے بوڑھے باپ کو ایک دوسرے صدمے سے دوچار کرتے ہیں تو ان لوگوں کا کردار وہی ہے ۔ جب یہ دیکھتے ہیں کہ اس بوڑھے کے دل کے اندر یوسف کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے تو ان کا پرانا کینہ پھٹ پڑتا ہے ، اور وہ اپنے بوڑھے باپ کا لحاظ کیے بغیر یہ ریمارکس پاس کرتے ہیں۔ قَالُوا تَاللَّهِ تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ حَتَّى تَكُونَ حَرَضًا أَوْ تَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينَ (٨٥) ” پھر وہ ان کی طرف سے منہ پھیر کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا ” ہائے یوسف “۔ وہ دل ہی دل میں غم سے گھٹا جارہا تھا اور اس کی آنکھیں سفید پڑگئی تھیں۔ بیٹوں نے کہا ” خدارا ! آپ تو ابھی یوسف ہی کو یاد کیے جاتے ہیں ۔ نوبت یہ آگئی ہے کہ اس کے غم میں اپنے آپ کو گھلادیں گے یا اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے “۔ اور جب آخری منظر سامنے آتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنی قمیص اپنے باپ کی طرف ارسال کرتے ہیں جب وہ اپنا اور تعارف کرچکتے ہیں تو انہوں نے جب دیکھا کہ ان کے باپ حضرت یوسف کی خوشبو سونگھ رہے ہیں تو انہیں حضرت یعقوب (علیہ السلام) حضرت یوسف کے درمیان پائے جانے والا یہ باطنی تعلق بھی ناگوار گزرتا ہے ۔ اس وقت بھی یہ لوگ اپنے کینہ پر قابو نہیں پاتے اور حضرت یعقوب کو ملامت کرتے ہیں۔ وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّي لأجِدُ رِيحَ يُوسُفَ لَوْلا أَنْ تُفَنِّدُونِ (٩٤) قَالُوا تَاللَّهِ إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ (٩٥) ” جب یہ قافلہ روانہ ہوا تو ان کے باپ نے کہا ، ” میں یوسف کی خوشبو محسوس کررہا ہوں ، تم لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے میں سٹھیا گیا۔ گھر کے لوگ بولے ، ” خدا کی قسم آپ ابھی تک اپنے اس پرانے خبط پڑے ہوئے ہیں “۔ عزیزمصر کی بیوی : اس کا کاسہ جسم شہوت سے لبریز ہے اور قریب ہے کہ جھلک جائے ، یہ اندھی شہوت ہے ، عورتوں کی قدرتی شرم وحیا کا پردہ اس نے چاک کرلیا ہے۔ ذاتی عزت اور مقام ومرتبے کا خیال بھی اس نے پس پشت ڈال دیا ہے ۔ اسے نہ اپنے معاشرتی مقام ومرتبے کا خیال ہے اور نہ خاندانی شرمندگی کی کوئی پروا ہے بلکہ اپنے اس ذلیل مقصد کے حصول کے لئے وہ تمام نسوانی سازشیں بروئے کار لاتی ہے جو عموماًعورتوں کا وطیرہ ہوتی ہیں۔ اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے میں مکاری ، اس پر الزام کے لگنے کی وجہ سے خاندان پر جو بدنامی آنی ہے اس سے بچنے کے لئے سازش کرتی ہے اور پھر اپنے آپ کو سزا سے بچا کر ایک بےگناہ شخص کے لئے سزا بھی جلدی سے تجویز کردیتی ہے ۔ یہ دوسری عورتوں کی کمزوریاں سے بی خوب واقف ہے ۔ جس طرح وہ اپنی کمزوریوں سے واقف ہے اس لئے یہ ایک گہری سازش کے ذریعے اپنی ہم محفل عورتون کو بھی ننگا کردیتی ہے ۔ اور جب وہ سب ننگی ہوجاتی ہیں تو یہ برملا اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ اس شخص کو میری خواہش پوری کرنا ہوگی ۔ اب یہ عورت جامہ حیا چاک کردیتی ہے اور اب اس کے لئے نہ شرم وحیا مانع ہے نہ اس کا مقام و مرتبہ کسی چیز سے مانع ہے جبکہ یہ اب محض ایک عورت ہی ہے ۔ باوجود اس کے کہ قرآن مجید اس عور کی واقعی تصویر کھنیچتا ہے ، خصوصاً ایک مخصوص شہوانی حالت میں جس میں ذرا اسی بےاحتیاطی بھی کلام کے معیار کو گرا سکتی ہے۔ لیکن قرآن کا یہ طرز ادا نہایت ہی معیاری اور اسلامی فن وادب کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے ۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ نازک ترین مراحل میں بھی اسلام یہ چاہتا ہے کہ طرز ادا پاک وصاف ہو اور اس میں کوئی فحاشی نہ ہو۔ اگرچہ ایسا مفہوم اور مقام زیر بحث ہو جس میں انسان نفسیاتی اور جسمانی لحاظ سے ننگا ہو اور جسمانی وشہوانی حالت اپنے اعلیٰ درجے میں ہو۔ ایسے مقامات اور حالات کو آج کل جدید اہل فن عریانی اور فحاشی اور گندے انداز میں قلم بند کرتے ہیں اور پھر انہیں واقفیت اور فطرت کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔ بہر حال جاہلیت جدیدہ کی یہ گندگی ہے اور اسلام واقفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی پاکیزہ فن پیش کرتا ہے ۔ ذراملاحظہ قرآنی فن۔ وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِنْ مِصْرَ لامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَى أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الأرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِنْ تَأْوِيلِ الأحَادِيثِ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ (٢١) وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (٢٢) وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الأبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ (٢٣) وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلا أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ (٢٤) وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلا أَنْ يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (٢٥) قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَا إِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (٢٦) وَإِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصَّادِقِينَ (٢٧) فَلَمَّا رَأَى قَمِيصَهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِنْ كَيْدِكُنَّ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ (٢٨) يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا وَاسْتَغْفِرِي لِذَنْبِكِ إِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ (٢٩) وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَةُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَنْ نَفْسِهِ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلالٍ مُبِينٍ (٣٠) فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلا مَلَكٌ كَرِيمٌ (٣١) قَالَتْ فَذَلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ وَلَقَدْ رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ وَلَئِنْ لَمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِنَ الصَّاغِرِينَ (٣٢) قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ وَإِلا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجَاهِلِينَ (٣٣) فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (٣٤) ” مصر کے جس شخص نے اسے خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا ” اس کو اچھی طرح رکھنا ، بعید نہیں ہے کہ یہ ہمارے لئے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنالیں گے “۔ اس طرح ہم نے یوسف کے لئے اس سرزمین میں قدم جمانے کی صورت نکالی اور اسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا۔ اللہ اپنے کام کرکے رہتا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ، اور جب وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچا تو ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم عطا کیا۔ اس طرح ہم نیک لوگوں کو جزا دیتے ہیں۔۔۔۔۔ جس عورت کے گھر میں وہ تھا وہ اس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے بند کر کے بولی ” آجا “۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا ” خدا کی پناہ میرے رب نے مجھے اچھی منزلت بخشی ہے ، ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے “۔ وہ اس کی طرف بڑھی اور یوسف بھی اس کی طربڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا ۔ ایسا ہوا ، تاکہ ہم اس سے بدی اور بےحیائی کو دور کردیں۔ درحقیقت وہ ہمارے چنے ہوئے نبدوں میں سے تھا۔ آخر کار یوسف (علیہ السلام) اور وہ آگے پیچھے دروازے کی طرف بھاگے اور اسنے پیچھے سے یوسف (علیہ السلام) کی قمیص کے کر پھاڑ دی ۔ دروازے پر دونوں نے اس کے شوہر کو موجود پایا۔ اسے دیکھتے ہی عورت کہنے لگی ، ” کیا سزا ہے اس شخص کی جو تیرے گھر والی پر نیت خراب کرے ؟ اس کے سوا اور کیا سزا ہوسکتی ہے کہ وہ قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیا جائے “۔ یوسف نے کہا ، ” یہی مجھے پھانسی کی کوشش کررہی تھی “۔ اس عورت کے اپنے کنبے والوں میں سے ایک شخص نے شہادت پیش کی کہ ” اگر یوسف (علیہ السلام) کی قمیص اگے سے پھٹی ہو تو عورت سچی ہے اور وہ جھوٹا ، اگر اس کی قیمص پیچھے سے پھٹی ہو تو عورت جھوٹی اور یہ سچا ا “۔ جب شوہر نے دیکھا کہ یوسف کی قیمص پیچھے سے پھٹی ہوئی ہے تو اس نے کہا ” یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں۔ واقعی بڑی غضب کی ہوتی ہیں تمہاری چالیں۔ یوسف اس معاملے سے درگزر کر اور اے عورت تو اپنے قصور کی معافی مانگ تو ہی اصل میں خطار کار ہے “۔۔۔ شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ ” عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے ، محبت نے اسے بو قابو کررکھا ہے ، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کررہی ہے “۔ اس نے جو ان کی یہ مکارانہ باتیں سنیں تو ان بلاوا بھیج دیا اور ان کے لئے تکیہ وار مجلس آراستہ کی اور ضیافت میں ایک کے آگے چھری رکھ دی (پھر عین اس وقت جب پھل کاٹ کر کھارہی تھیں) اس نے یوسف کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ۔ جب ان عورتوں کی نگاہ اس پر پری تو وہ دنگ رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور بےساختہ پکار اٹھیں ، “ ماشاء اللہ یہ شخص انسان نہیں ہے ، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے “۔ عزیز کی بیوی نے کہا ” دیکھ لیا ، یہ ہے شخص جس کے معاملے میں تم مجھ پر باتیں بناتی ہو ، بیشک میں نے اسے رجھانے کی کوشش کی تھی ، مگر یہ بچ نکلا ۔ اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت سے چاہتی ہیں ۔ اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے رفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں شمار ہوں گا۔۔۔ اس کے رب نے اس کی دعاقبول کی اور ان عورتوں کی چالیں اس سے رفع کردیں ۔ بیشک وہی ہے جو سب کچھ سنتا اور سب کچھ جانتا ہے “۔ اب حضرت یوسف ان عورتوں کی مکاریوں اور عزیز مصر کی بیوی کی وجہ سے جیل میں چلے جاتے ہیں ، ایک بار پھر اس عورت کا کردار سامنے آتا ہے ، بادشاہ ایک خواب دیکھتا ہے ، اس موقع پر وہ شخص جو جیل میں تھا اور رہا ہوگیا تھا ، اسے یاد آجاتا ہے کہ جیل میں خوابوں کی تعبیربتانے والا شخص موجود ہے۔ اس شخص نے بادشاہ کو تفصیلات بتائیں ، بادشاہ نے یوسف (علیہ السلام) کو طلب فرمایا۔ تو انہوں نے رہا ہونے سے اس وقت تک انکار کردیا جب تک اس الزام کی تحقیقات نہیں ہوجاتی جس کی وجہ سے وہ جیل گئے ۔ بادشاہ نے ان عورتوں کو بلایا ۔ ان میں زلیخا بھی موجود ہے ۔ اب عورتیں عمر رسیدہ ہیں اور حوادث زمانہ نے ان کو بالغ نظر اور سنجیدہ کردیا ہے ۔ اور اس عرصے میں یہ عورتیں ظاہر ہے کہ حضرت یوسف کی ایمانی قوت سے بھی متاثر ہوگئی تھیں۔ وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ (٥٠) قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدْتُنَّ يُوسُفَ عَنْ نَفْسِهِ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَالَتِ امْرَأَةُ الْعَزِيزِ الآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ (٥١) ذَلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَيْبِ وَأَنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي كَيْدَ الْخَائِنِينَ (٥٢) وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لأمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ (٥٣) ” اور بادشاہ نے کہا کہ اسے میرے پاس لاؤ ، مگر جب شاہی فرستادہ یوسف کے پاس پہنچا تو اس نے کہا ” اپنے رب (آقا) کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے کاٹ لیے تھے ؟ میرا رب تو ان کی مکاری سے واقف ہی ہے “۔ اس پر بادشاہ نے ان عورتوں سے دریافت کیا ” تمہارا کیا تجربہ ہے اس وقت کا جب تم نے یوسف کو رجہانے کی کوشش کی تھی “ سب نے یک زبان ہوکر کہا ” حاشا اللہ ہم نے تو اس میں بدی کا شائبہ تک نہ پایا۔ عزیز کی بیوی بول اٹھی ، ” اب حق کھل چکا ہے ، وہ میں ہی تھی جس نے اسے پھسلانے کی کوشش کی تھی ، بیشک وہ بالکل سچا ہے “۔ (یوسف (علیہ السلام) نے کہا) اس سے میری غرض صرف یہ تھی کہ یہ جان لے کہ میں نے درپردہ اس کی خیانت نہیں کی تھی ، اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں ان کی چالون کو اللہ کامیابی کی راہ پر نہیں ڈالتا ۔ میں کچھ اپنے نفس کی برأت نہیں کررہا ہوں ، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو ، بیشک میرا رب بڑا غفورورحیم ہے “۔ ” حضرت یوسف (علیہ السلام) :۔ اس قصے میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا بھی ایک کردار دیا گیا ہے ، یہ ایک انسان ہیں لیکن بندہ صالح ہیں۔ قرآن کریم نے حضرت یوسف کی انسانیت پر ایک لمحے کے لئے بھی کوئی طمع کاری نہیں کی ۔ وہ انسان ہیں مگر ایک نبوت کے گھرانے کے پروردہ ہیں ۔ دینی ماحول کے تربیت یافتہ ، ان سب باتوں کے باوجود ان کی انسانیت کے بیان میں مکمل واقفیت سے کام لیا گیا ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ ان کی انسانیت معصومیت الٰہیہ کے دھاگے سے بندھی ہوئی تھی ورنہ غلطی کا امکان تھا۔ وہ عورتوں کی مکاریوں کے مقابلے میں اپنی کمزوری کا احساس رکھتے ہیں ، کہ ایک اونچا معاشرہ ہے ، باغ درباغ اور محلات ہیں ، شاہی بیگمات میں گھرے ہوئے ہیں ۔ اس لئے وہ یہاں سے نکلنا چاہتے ہیں اگرچہ جیل ہو۔ غرض بحیثیت انسان حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قرآن مجید حقیقی تصویر کھینچتا ہے ۔ لیکن اس واقفیت میں مغربی تہذیب کی قصہ گوئی کی گندگی نہیں ہے جسے وہ واقفیت کا نام دیتے ہیں ، بلکہ یہ فطرت سلیمہ کی حقیقت پسندی ہے ؟ عزیزمصر : ان کا بھی ایک خاص مزاج ہے ، امیرانہ کبریائی کے ساتھ یہ نخوت و غرور میں بھی مبتلا ہے ، ظاہری رکھ رکھاؤ اور معاملات کی پردہ داری اور ہر چیز کو راز میں رکھنا اس وقت کے معاشرے کی اپر کلاس کی خصوصیات اس میں موجود ہیں۔ فَلَمَّا رَأَى قَمِيصَهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِنْ كَيْدِكُنَّ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ (٢٨) يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا وَاسْتَغْفِرِي لِذَنْبِكِ إِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ (٢٩) ” جب شوہرنے دیکھا کہ یوسف (علیہ السلام) کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہوئی ہے تو اس نے کہا ” یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں ، واقعی بڑی غضب کی ہوتی ہیں تمہاری چالیں ۔ یوسف (علیہ السلام) اس معاملے سے درگزر کر اور اے عورت تو اپنے قصور کی معافی مانگ تو ہی اصل میں خطار کا رہے “۔ مصر کی عورتیں :۔ ان عورتوں میں اس معاشرے کے مکمل رنگ ڈھنگ موجود ہیں ۔ یہ عزیز کی بیوی اور اسکے غلام کے ساتھ اس کی محبت کے بارے میں ہر طرف چہ میگوئیاں کررہی ہیں ، کہ یہ عورت اپنے نوجوان غلام کے ساتھ تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے اور اس کی محبت میں اندھی ہوگئی ہے ، ان کی ان چہ میگ