Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 11

سورة يوسف

قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا مَا لَکَ لَا تَاۡمَنَّا عَلٰی یُوۡسُفَ وَ اِنَّا لَہٗ لَنٰصِحُوۡنَ ﴿۱۱﴾

They said, "O our father, why do you not entrust us with Joseph while indeed, we are to him sincere counselors?

انہوں نے کہا ابا! آخر آپ یوسف ( علیہ السلام ) کے بارے میں ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتے ہم تو اس کے خیر خواہ ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yusuf's Brothers ask for Their Father's Permission to take Yusuf with Them Allah tells; قَالُواْ يَا أَبَانَا مَا لَكَ ... They said: "O our father! Why, When Yusuf's brothers agreed to take him and throw him down the well, taking the advice of their elder brother Rubil, they went to their father Yaqub, peace be upon him. They said to him, "Why is it that you, ... لااَ تَأْمَنَّا عَلَى يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ do not trust us with Yusuf though we are indeed his well-wishers." They started executing their plan by this introductory statement, even though they really intended its opposite, out of envy towards Yusuf for being loved by his father. They said,

بڑے بھائی کی رائے پر اتفاق بڑے بھائی روبیل کے سمجھانے پر سب بھائیوں نے اس رائے پر اتفاق کر لیا کہ یوسف کو لے جائیں اور کسی غیر آباد کنویں میں ڈال آئیں ۔ یہ طے کرنے کے بعد باپ کو دھوکہ دینے اور بھائی کو پھسلا کر لے جانے اور اس پر آفت ڈھانے کے لیے سب مل کر باپ کے پاس آئے ۔ باوجود یکہ تھے بد اندیش بد خواہ برا چاہنے والے لیکن باپ کو اپنی باتوں میں پھنسانے کے لیے اور اپنی گہری سازش میں انہیں الجھانے کے لیے پہلے ہی جال بچھاتے ہیں کہ ابا جی آخر کیا بات ہے جو آپ ہمیں یوسف کے بارے میں امین نہیں جانتے ؟ ہم تو اس کے بھائی ہیں اس کی خیر خواہیاں ہم سے زیادہ کون کر سکتا ہے ۔ ؟ ( يَّرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ 12 ؀ ) 12- یوسف:12 ) کی دوسری قرآت ( آیت ترتع و نلعب ) بھی ہے ۔ باپ سے کہتے ہیں کہ بھائی یوسف کو کل ہمارے ساتھ سیر کے لیے بھیجئے ۔ ان کا جی خوش ہو گا ، دو گھڑی کھیل کود لیں گے ، ہنس بول لیں گے ، آزادی سے چل پھر لیں گے ۔ آپ بےفکر رہیے ہم سب اس کی پوری حفاظت کریں گے ۔ ہر وقت دیکھ بھال رکھیں گے ۔ آپ ہم پر اعتماد کیجئے ہم اس کے نگہبان ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس سے قبل بھی برداران یوسف (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی ہوگی اور باپ نے انکار کردیا ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] بھائیوں کا باپ سے یوسف کو ساتھ لے جانے کا مطالبہ :۔ اب سوال یہ تھا کہ وہ یوسف کو اپنے ساتھ کیسے لے جائیں تاکہ اپنی تجویز پر عمل کرسکیں۔ سیدنا یعقوب کو تو پہلے ہی معلوم تھا کہ یوسف کے حق میں ان کے بھائیوں کے دل صاف نہیں ہیں۔ اس غرض کے لیے پھر انھیں جھوٹ اور مکاری سے کام لینا پڑا۔ اپنے باپ سے عرض کیا کہ آخر ہم اس کے بھائی ہی ہیں۔ آپ اسے ہمارے ساتھ آنے جانے میں تامل کیوں کرتے ہیں ہم پر اعتماد کیجئے۔ ہم کوئی اس کے دشمن تو نہیں اور بہتر یہ ہے کہ کل جب ہم اپنے ریوڑ چرانے کے لیے ریوڑ کو جنگل کی طرف لے جائیں۔ تو آپ اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے۔ وہاں اس کا دل بہلے گا۔ جنگل کے پھل وغیرہ کھائے گا۔ وہ کچھ ہم سے مانوس ہوگا۔ ہم اس سے مانوس ہوں گے اور اس کی پوری طرح حفاظت بھی کریں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مَالَكَ لَا تَاْمَنَّا ۔۔ : اب یہ مرحلہ درپیش تھا کہ یوسف (علیہ السلام) کو ساتھ کیسے لے جائیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بھی وہ کئی بار یوسف (علیہ السلام) کو ساتھ لے جانے کی کوشش کرچکے تھے، مگر والد نے اجازت نہیں دی تھی اور یہ کہ والد کو پہلے بھی ان کے متعلق اعتبار نہ تھا کہ وہ یوسف کے خیر خواہ ہیں، یا انھیں کوئی گزند نہیں پہنچائیں گے۔ اس مرتبہ دس کے دس بھائیوں نے منت، خوشامد اور دھونس دھاندلی کا ہر حربہ استعمال کرکے یوسف (علیہ السلام) کو ساتھ لے جانے کی اجازت طلب کی۔ سب سے پہلے تو نہایت ادب اور منت کے ساتھ بات کی، ابتدا دیکھیے ” يٰٓاَبَانَا “ ” اے ہمارے باپ ! “ اس سے قریب تر رشتہ کون سا ہوگا جو درمیان میں لا کر درخواست کی جائے اور دل نرم نہ ہو، پھر ساتھ ہی دھونس دیکھیے ” آپ کو کیا ہے کہ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتماد ہی نہیں کرتے “ (گویا سارا قصور ابا جی کا ہے) ” حالانکہ بیشک ہم یقیناً اس کے خیر خواہ ہیں۔ “ ” اِنَّا “ کے ” اِنَّ “ اور ” لَنٰصِحُوْنَ “ کے لام کے ساتھ خیر خواہی کا یقین دلانا ملاحظہ فرمائیں، اہل عرب کے ہاں اس میں قسم کا مفہوم شامل ہوتا ہے۔ پھر یوسف کی مزید خیر خواہی کا ذکر ہوتا ہے کہ کبھی باہر جنگل میں جا کر اسے سیر و تفریح کا موقع ہی نہیں ملا۔ کل آپ اسے ہمارے ساتھ بھیجیں، جنگل کے پھل وغیرہ کھائے پیے گا، کھیلے کودے گا، خوش دل ہوگا۔ رہا جنگل اور صحرا میں وحشی جانوروں وغیرہ کا خطرہ تو اس کی فکر نہ کیجیے۔ ” بیشک “ ہم اس کی ” یقینا “ حفاظت کرنے والے ہیں۔ یہ وہی قسم کے مفہوم والے الفاظ ہیں جو انھوں نے اپنی خیر خواہی کا یقین دلاتے ہوئے کہے تھے کہ ” وَاِنَّا لَهٗ لَنٰصِحُوْنَ “ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کا پیشہ جنگل میں بکریاں وغیرہ چرانا تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Appearing in the fifth (111) and sixth (112) verse is the request of these brothers before their father in which they wondered why he would not trust them with Yusuf, although they wished him fully well. So, they pleaded, he should send him along with them to enjoy himself freely by eating and drinking and playing with them and that they all shall be there to take care of him. The tone of the very request made by the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) indicates that they had already made such a request earlier too which was not accepted by their father. Therefore, in the present request, they seem to have tried to assure their father with added effort and insistence.

پانچویں اور چھٹی آیت میں ہے کہ ان بھائیوں نے والد کے سامنے درخواست ان لفظوں میں پیش کردی کہ اباجان یہ کیا بات ہے کہ آپ کو یوسف کے بارے میں ہم پر اطمینان نہیں حالانکہ ہم اس کے پورے خیر خواہ اور ہمدرد ہیں کل اس کو آپ ہمارے ساتھ (سیر و تفریح کے لئے) بھیج دیجئے کہ وہ بھی آزادی کے ساتھ کھائے پیئے اور کھیلے اور ہم سب اس کی پوری حفاظت کریں گے، بھائیوں کی اس درخواست سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کبھی اس سے پہلے بھی ایسی درخواست کرچکے تھے جس کو والد بزرگوار نے قبول نہ کیا تھا اس لئے اس مرتبہ ذرا تاکید اور اصرار کے ساتھ والد کو اطمینان دلانے کی کوشش کی گئی ہے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مَالَكَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰي يُوْسُفَ وَاِنَّا لَہٗ لَنٰصِحُوْنَ۝ ١١ لاتامنا علی یوسف ۔ مضارع منفی واحد مذکر حاضر۔ تو ہم کو امین نہیں بناتا یوسف پر۔ یعنی یوسف کے بارے میں ہم پر اعتبار نہیں کرتا۔ اصل میں تامنا ( امن یامن سمع) تھا۔ نون نون میں مدغم کردیا گیا۔ نصح النُّصْحُ : تَحَرِّي فِعْلٍ أو قَوْلٍ فيه صلاحُ صاحبِهِ. قال تعالی: لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 79] وَلا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدْتُ أَنْ أَنْصَحَ لَكُمْ [هود/ 34] وهو من قولهم : نَصَحْتُ له الوُدَّ. أي : أَخْلَصْتُهُ ، ونَاصِحُ العَسَلِ : خَالِصُهُ ، أو من قولهم : نَصَحْتُ الجِلْدَ : خِطْتُه، والنَّاصِحُ : الخَيَّاطُ ، والنِّصَاحُ : الخَيْطُ ، وقوله : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم/ 8] فمِنْ أَحَدِ هذين، إِمَّا الإخلاصُ ، وإِمَّا الإِحكامُ ، ويقال : نَصُوحٌ ونَصَاحٌ نحو ذَهُوب وذَهَاب، ( ن ص ح ) النصح کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسرے کی خیر خواہی ہو قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 79] میں نے تم کو خدا کا پیغام سنادیا ۔ اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم ایسے ہو کہ خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے ۔ یہ یا تو نصحت لہ الود کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی سے خالص محبت کرنے کے ہیں اور ناصح العسل خالص شہد کو کہتے ہیں اور یا یہ نصحت الجلد سے ماخوذ ہے جس کے معنی چمڑے کو سینے کے ہیں ۔ اور ناصح کے معنی درزی اور نصاح کے معنی سلائی کا دھاگہ کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم/ 8] خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو ۔ میں نصوحا کا لفظ بھی مذکورہ دونوں محاوروں میں سے ایک سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی خالص یا محکم توبہ کے ہیں اس میں نصوح ور نصاح دو لغت ہیں جیسے ذھوب وذھاب

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١۔ ١٢) چناچہ سب نے اپنے باپ کے سامنے آکر گزارش کی اور کہا کہ ہم انکے خیرخواہ ہیں، آپ ان کو ہمارے ساتھ جنگل بھیجئے تاکہ وہ جائیں آئیں کھائیں اور کھیلیں اور ہم ان پر مشفق ومہربان ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی اس سے پہلے بھی انہیں ساتھ لے جانے کی کوشش کرچکے تھے لیکن حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے منع فرما دیا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١۔ ١٢۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا یہ قول روبیل کے اسی صلاح کی بنا پر تھا جس کا ذکر اوپر گزرا لیکن بات بنانے کے طور پر باپ سے یہ بات کہی کہ آپ ہم پر اعتبار کیوں نہی کرتے اور ہمیں یوسف کا خیر خواہ جان کر یوسف کو ہمارے ساتھ کیوں نہیں بھیجتے۔ یہ لوگ بکریاں چرانے جنگل میں جایا کرتے تھے اس لئے کہا کہ کل یوسف کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے۔ یہ وہاں جا کر کھیلے کودے گا اس کے ہاتھ پاؤں کھلیں گے اور ہم اس کے محافظ ہیں کسی قسم کا نقصان اسے نہیں پہنچے گا۔ صحیح بخاری ‘ مسلم ‘ ترمذی اور ابوداؤد میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سچ آدمی کو جنت کا راستہ بتلاتا ہے اور جھوٹ دوزخ کا ١ ؎ اس کے علاوہ سچ کی تعریف اور جھوٹ کی مذمت میں اور بہت سی صحیح حدیثیں ہیں۔ روبیل کی صلاح کے موافق یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے دل میں تو یوسف کی بدخواہی تھی لیکن بات بنانے کے طور پر انہوں نے باپ کے روبرو اپنے آپ کو یوسف کا خیر خواہ جو ظاہر کیا یہ جھوٹ میں داخل ہے جو علماء یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کی نبوت کے قائل ہیں وہ یہاں بھی وہی بات کہتے ہیں جو حسد کے بیان میں گزری۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٩٠٠ ج ٢ باب قولہ اتقواللہ کو نوامع الصادقین و مشکوۃ ص ٤١٢ باب حفظ اللسان الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

لاتامنا علی یوسف۔ مضارع منفی واحد مذکر حاضر۔ تو ہم کو امین نہیں بناتا یوسف پر۔ یعنی یوسف کے بارے میں ہم پر اعتبار نہیں کرتا۔ اصل میں تامنا (امن یامن سمع) تھا۔ نون نون میں مدغم کردیا گیا۔ لناصحون۔ ناصح کی جمع۔ خیر خواہ ۔ خیر خواہی کرنے والے۔ لام تاکید کے لئے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 11 تا 18 مالک (تجھے کیا ہوگیا) لاتامنا (تو ہم پہ اطمینان نہیں کرتا ہے) نصحون (نصیحت کرنے والے۔ خیر خواہ) ارسل (بھیج دے) غداً (کل۔ آئندہ۔ صبح ) یرتع (کھاتا ہے یا کھائے گا ) یعلب (کھیلتا ہے یا کھیلے گا) لیحزننی (البتہ مجھے رنجیدہ کرتی ہے) ان یا کلہ ، (یہ کہ وہ کھائے) الذئب (بھیڑیا) ان یجعلوہ (یہ کہ وہ اس کو ڈال دیں) عشآء (رات کے وقت) یبکون (وہ روتے ہیں یا روئیں گے ) ذھبنا (ہم چلے گئے ) نستبق (ہم دوڑ کا مقابلہ کر رہے ہیں) ترکنا (ہم نے چھوڑ دیا) عند (نزدیک) متاعنا (ہمارا اپنا سامان) دم کذب (جھوٹا خون) سولت (بنا لی ہے۔ برابر کرتی ہے) صبر جمیل (اچھا صبر) المستعان (استعانۃ) مدد مانگی جائے ۔ تصفون (تم گھڑتے ہو) تشریح آیت نمبر 11 تا 81 برادران یوسف نے یہ فیصلہ کرلینے کے بعد کہ حضرت یوسف کو راستے سے ہٹا دیا جائے تاکہ والد کی محبت میں کوئی اور شریک نہ ہو۔ حضرت یوسف کے چھوٹے بھائی بن یا مین کی کم عمری کی وجہ سے وہ مطمئن تھے اس لئے صرف حضرت یوسف کو اندھے کنوئیں میں ڈالنے کے لئے کوشاں تھے۔ ایک دن تمام بھائیوں نے اپنے والد حضرت یعقوب سے کہا کہ اے ابا جان ! ہم جب سیرو تفریح کے لئے جاتے ہیں تو اپنے بھائی یوسف کے نہ ہونے سے بڑی کمی محسوس کرتے ہیں۔ ہم اس کے خیر خواہ ہیں مگر آپ ہم پر اطمینان کا اظہار نہیں کرتے۔ آج تو ان کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے تاکہ وہ بھی ہمارے ساتھ جائیں کھیلیں کو دیں اور تفریح کا لطف اٹھائیں۔ ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ہر ممکن ان کی حفاظت کریں گے۔ ممکن ہے برادران یوسف نے ذہنی طور پر پہلے ہی سے حضرت یوسف کو بھی تیار کرلیا ہو۔ حضرت یعقوب نے فرمایا کہ یوسف کی ذرا سی جدائی بھی مجھے رنجیدہ کردیتی ہے اور پھر تمہارے ساتھ بھیجنے میں مجھے یہ اندیشہ ہے کہیں تمہاری بیخبر ی اور بےتوجہی میں یوسف کو کوئی بھیڑیا نہ کھا جائے۔ کیونکہ اس زمانہ میں جنگلوں میں بھیڑیئے زیادہ ہوتے تھے۔ بھائیوں نے کہا یہ کیسے ممکن ہے جب کہ ہم ایک جتھا ہیں قوت و طاقت میں بھی کم نہیں ہیں۔ اگر ہماری موجودگی میں یہ واقعہ ہوجائے تو یہ ہمارے لئے بڑے خسارے اور نقصان کا سودا ہوگا ۔ تھوڑی سی بحث و گفتگو کے بعد آخر کار حضرت یعقوب اس بات پر رضا مند ہوگئے کہ حضرت یوسف کو وہ اپنے ساتھ لے جائیں۔ فرمایا کہ اللہ نے حضرت یوسف کے دل میں اس بات کو جما دیا اور فرما دیا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ اے یوسف ! تم ان کو یہ سارا واقعہ سناؤ گے اور وہ تمہیں پہچان بھی نہس کیں گے۔ بھائیوں نے حضرت یوسف کو پروگرام کے مطابق ایک اندھے کنوئیں میں پھینک دیا جہاں اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی۔ رات کو روتے پیٹتے برادران یوسف اپنے والد کے پاس آئے اور کہنے لگے ابا جان ! آپ صحیح کہتے تھے، ہم کھیل کود رہے تھے اور سامان کے پاس ہم نے یوسف کو بٹھا دیا تھا۔ بھیڑیا آیا اور ان کو کھا گیا۔ ثبوت کے طور پر انہوں نے حضرت یوسف کا قمیص پیش کیا جس پر جھوٹ موٹ کا خون لگا ہوا تھا کہنے لگے ابا جان ! آپ تو ہم اطمینان کا اظہار نہیں کریں گے لیکن ہم سچ کہہ رہے ہیں یہ واقعہ اسی طرح پیش آیا ہے۔ حضرت یعقوب نے کہا کہ یہ بات تم نے خود ہی گھڑ لی ہے اور جس چیز کا تم اظہار کر رہے ہو میرا دل نہیں مانتا کہ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ اب میں اس واقعہ پر صبر ہی کرسکتا ہوں اور میں اللہ تعالیٰ سے مدد کا طلب گار ہوں۔ یہ واقعہ قرآن کریم نے نہایت مختصر لفظوں میں ارشاد فرمایا جس سے چند باتیں سامنے آتی ہیں : 1) سازشی عناصر ہمیشہ ” خیر خواہی “ کا لبادہ اوڑھ کر اپنی سازشوں پر بہت خوش ہوتے ہیں لیکن اس کارخانہ قدرت میں ہر چیز ایک لگے بندھے نظام کے تحت چل رہی ہے۔ سازشیں کرنے والے حسد کی آگ میں جلنے والے اپنی تدبیریں کرتے ہیں اور اللہ اپنی تدبیر کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی تدبیر ہی سب سے بہتر تدبیر ہوتی ہے۔ سازشی عناصر جس چیز کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں درحقیقت وہی ان کی شکست اور تباہی اور ذلت کا سامان بن جاتی ہے۔ برادران یوسف اس بات پر خوش تھے کہ ہم نے اپنی حسد کی آگ کو ٹھنڈا کرلیا اور والد کی نگاہوں سے اس کو دور کردیا جو ان کے نزدیک والد کی محبت میں رکاوٹ بن رہا تھا لیکن قدرت نے حضرت یوسف کے لئے اس سربلندی کا فیصلہ فرما لیا تھا جو ان کے تصور میں بھی نہیں تھا۔ اسی لئے فرمایا کہ اللہ نے حضرت یوسف کے دل کو جما دیا کہ اے یوسف ! تم فکر مت کرنا ان کو اپنی تدبیریں اور سازشیں کرنے دو ایک وقت آئے گا کہ تم ان بھائیوں کے سامنے اس سارے واقعہ کو بیان کریں گے اور وہ تمہیں پہچان نہ سکیں گے۔ اسی طرح کفار مکہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثاروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے تھے وہ اپنے ہر ظلم کو اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے حالانکہ قدرت کے اصول کے تحت وہ ہر روز اپنی ذلت اور شکست کی طرف قدم بڑھا رہے تھے۔ کفار مکہ کے ظلم اور زیادتیوں اور اذیتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ صحابہ کرام مکہ مکرمہ سے نکل کر حبشہ کی طرف ہجرت فرما گئے اور وہ دن بھی آگیا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی بیت اللہ کی سر زمین کو اللہ کے حکم سے چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن مکہ مکرمہ سے یہی ہجرت اہل ایمان کی اس سربلندی کا ذریعہ بن گئی جس کا کفار مکہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ کفار مکہ سمجھ رہے تھے کہ چلو اچھا ہوا ہمارے راستہ کا کانٹا نکل گیا لیکن یہی قدم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کی ترقی کا سنگ میل ثابت ہوا۔ 2) حضرت یوسف کے قمیص پر جھوٹا خون لگا کر برادران یوسف سمجھ رہے تھے کہ ہم اپنے والد کو دھوکہ دے سکیں گے۔ لیکن حضرت یعقوب سمجھ گئے یہ سب من گھڑت کہانی ہے، اس موقع پر حضرت یعقوب نے فرمایا کہ یہ کہانی تم نے اپنے دل سے گھڑ لی ہے حقیقت کچھ اور ہے۔ 3) جب کوئی مشکل یا مصیبت کا وقت آتا ہے تو انبیاء کرام (علیہ السلام) اللہ ہی کو پکارتے ہیں۔ وہ رنج و غم میں اپنے کپڑے نہیں پھاڑتے وہ کپڑوں پر جھوٹا رنگ ڈال کرو اویلا اور شور نہیں مچاتے بلکہ ان کی زبان پر ایک ہی بات ہوتی ہے کہ یہ مصیبت اللہ کی طرف سے ہے وہ ہر چیز کا مالک ہے وہ بات کی مصلحت اور بھلائی کو جانتا ہے ہم اسی سے مدد کے طلب گار ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سازش پر متفق ہونے کے بعد برادران یوسف کا اپنے باپ کی خدمت میں پیش ہو کر یوسف (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ لے جانے کا مطالبہ کرنا۔ برادران یوسف اپنے باپ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابا جان کیا وجہ ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتماد نہیں کرتے ؟ حالانکہ ہم اس کے بارے میں نہایت ہی خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہیں۔ لہٰذا ہماری درخواست ہے کہ اسے ہمارے ساتھ بھیجئے تاکہ کھلی فضا میں یوسف سیرو سیاحت اور کھیل کود میں ہمارے ساتھ شریک ہو۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اس کی پوری طرح حفاظت کریں گے۔ بیٹوں کے مطالبہ کے جواب میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس بات کا اظہار کیا کہ میں خدشہ محسوس کرتا ہوں کہ تم یوسف کو اپنے ساتھ لے جانے کے بعد غفلت کا مظاہرہ کرو اور کوئی بھیڑیا یوسف کو کھاجائے۔ باپ کے جواب میں سب کے سب کہنے لگے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے ہوتے ہوئے یوسف کو بھیڑیا کھاجائے۔ جبکہ ہم سب کے سب اکٹھے اور طاقتور ہیں۔ اگر یوسف کو ہمارے جیتے جی کوئی نقصان پہنچا تو ہم سے بڑھ کر کون نقصان پانے والا ہوگا۔ عُصْبَۃ کا معنیٰ گھوڑوں، پرندوں کا جھنڈ اور مردوں کی اس جماعت کو بھی کہا جاتا ہے جو دس افراد پر مشتمل اور ایک دوسرے کے ممدو معاون ہوں۔ قرآن مجید کے الفاظ اس حقیقت کی نقاب کشائی کر رہے ہیں کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں اپنے بیٹوں کے بارے میں یوسف (علیہ السلام) کے متعلق منفی خیالات کا احساس موجود تھا۔ اور ان کے بیٹوں کو بھی احساس تھا کہ یوسف کے بارے میں ہمارے والد ہم پر پوری طرح مطمئن نہیں ہیں۔ جس بنا پر انہوں نے مثبت کے بجائے منفی انداز اختیار کرتے ہوئے کہا اے ہمارے والد آپ یوسف کے بارے میں ہم پر کیوں اعتماد نہیں کرتے ؟ ان کے انداز گفتگو سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ انہوں نے عاجزانہ اور مؤدبانہ انداز اختیار کرنے کی بجائے دباؤ ڈالنے کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے باپ کو اطمینان دلانے اور اپنی سازش کو کامیاب کرنے کے لیے پے درپے ایسے الفاظ استعمال کیے کہ جن سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یقین آجائے اس لیے وہ بار بار کہتے ہیں کہ یقین فرمائیں کہ ہم اس کی پوری طرح حفاظت کریں گے۔ یقین دہانیوں کے باوجود حضرت یعقوب (علیہ السلام) ان پر اعتماد نہیں کرتے۔ لیکن پیغمبرانہ اور پدری اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے فقط اتنا ہی فرماتے ہیں کہ میرے بیٹو ! میں ڈرتا ہوں کہیں تمہاری غفلت کی وجہ سے یوسف کو بھیڑیا نہ کھاجائے ! مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے بظاہر ان کی حفاظت کا ذمہ لیا۔ ٢۔ یعقوب (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کے متعلق خوف کا اظہار کیا۔ ٣۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے غلط انداز میں باپ کو اطمینان دلایا۔ تفسیر بالقرآن نقصان پانے والے لوگ : ١۔ انہوں نے کہا اگر یوسف کو بھیڑیا کھا گیا تو ہم نقصان پانے والے ہوجائیں گے۔ (یوسف : ١٤) ٢۔ اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم نقصان پانے والے ہوں گے۔ (الاعراف : ٢٣) ٣۔ زمین میں فساد کرنے والے لوگ خسارہ اٹھائیں گے۔ (البقرۃ : ٢٧) ٤۔ اللہ کفار کے اعمال دنیا میں تباہ کرے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پائیں گے۔ (التوبۃ : ٦٩) ٥۔ جس نے اللہ کے سوا شیطان کو دوست بنالیا اس نے بہت نقصان پایا۔ (النساء : ١١٩) ٦۔ ان لوگوں نے نقصان پایا جنہوں نے اللہ کی ملاقات کی تکذیب کی۔ (الانعام : ٣١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب یہ لوگ اپنے باپ کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور انہیں آمادہ کر رہے ہیں کہ یوسف کو ان کے ساتھ جانے دیں۔ اب وہ باپ کو دھوکہ دے رہے ہیں ، یوسف کے خلاف سازش کر رہے ہیں ، ذرا براہ راست ان کی بات سنیں۔ اس قرار داد پر انہوں نے اپنے باپ سے کہا : ابا جان کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے معاملے میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیر خواہ ہیں۔ کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے ، کچھ چر چگ لے گا ، اور کھیل کود سے بھی دل بہلائے گا۔ ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں۔ کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے ، کچھ چر چگ لے گا ، اور کھیل کود سے بھی دل بہلائے گا۔ ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں۔ باپ نے کہا تمہارا اسے لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ پھاڑ کھائے جبکہ تم اس سے غافل ہو۔ انہوں نے جواب دیا اگر ہمارے ہوتے اسے بھیڑئیے نے کھالی تو ہم بڑے نکمے ہوں گے۔ قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مَالَكَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰي يُوْسُفَ : " کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے معاملے میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے " یہ ایک سوال ہے لیکن اس میں ایک خفیہ خباثت ، غصہ اور ناگواری بھی ہے۔ لیکن وہ باپ کو آمادہ بھی کر رہے ہیں کہ وہ ان پر اعتبار کرتے ہوئے یوسف کو ان کے حوالے کردیں ، حضرت یعقوب کی عادت یہ تھی کہ وہ یوسف کو ساتھ ہی رکھتے تھے اور جب ان کے دوسرے بیٹے کسی دور دراز کی مہم پر جاتے تھے تو درازی سفر ، مشکلات سفر اور مشقت مہم کی وجہ سے یوسف کو ساتھ جانے نہ دیتے تھے کیونکہ وہ چھوٹا اور یہ بڑے تھے۔ انہوں نے نہایت ہی مکارانہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے باپ کو یہ تاثر دیا کہ شاید وہ ہم پر یوسف کے معاملے میں اعتماد نہیں کرتے۔ حالانکہ ہمارے سب کے باپ ہیں اور یوسف بھائی ہیں۔ نہایت ہی مکارانہ انداز میں وہ بدگمانی کی نفی کر رہے ہیں۔ ذرا ان کی اس خبیث چال پر ایک بار پھر نظر ڈالیں۔ مَالَكَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰي يُوْسُفَ وَاِنَّا لَهٗ لَنٰصِحُوْنَ : " کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے معاملے میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیر خواہ ہیں "۔ ہمارے دل تو صاف ہیں۔ ان میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔ ہماری نیت صفا ہے اور ہم مخلص ہیں ، یہاں ان کی جانب سے اخلاص اور صفائی کا دعوی اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ نہایت ہی گہری چال چل رہے ہیں اور حد درجہ دھوکے باز ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بھائیوں کا حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ساتھ لے جانے کی والد سے درخواست کرنا اور ان کا اندیشہ کرنا کہ اسے بھیڑیا نہ کھاجائے ان لوگوں کا مشورہ تو ہو ہی چکا تھا کہ یوسف کو لے جانا ہے اور باپ کی نظروں سے اوجھل کرنا ہے لیکن اس کا طریقہ کیا ہو باپ تو اپنی نظروں سے دور کرنے کے لیے تیار نہیں ہمراہ لے جانے کے لیے کم از کم والد کی اجازت تو ہونی چاہئے ‘ لہٰذا والد کی خدمت میں آکر یوں کہنے لگے کہ ہم لوگ جنگل جاتے رہتے ہیں وہاں کھاتے بھی ہیں کھیلتے بھی ہیں ‘ یوسف بھی ہمارا چھوٹا بھائی ہے ہم اس کے خیر خواہ بھی ہیں اور محافظ بھی ہیں آخر کیا بات ہے آپ اسے ایک دن بھی ہمارے ساتھ نہیں بھیجتے اس کے بارے میں آپ کو ہم پر ذرا بھی اطمینان نہیں ‘ کل کو آپ اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے ہمارے ساتھ کھانے اور کھیلنے میں شریک ہوگا ‘ ان کے والد نے کہا کہ دیکھو دو باتیں ہیں جن کی وجہ سے میں اسے تمہارے ساتھ نہیں بھیجتا ہوں۔ اول تو یہ کہ تمہارا اسے ساتھ لے جانا ہی مجھ پر شاق ہے اور میرے رنج وغم کا باعث ہے اگر تم اسے لے گئے جب تک اسے واپس لے کر آؤ گے میرا دل کڑھتا ہی رہے گا اور میرے دل پر رنج و غم چھایا رہے گا ‘ اور دوسری بات یہ ہے کہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ تم اس کی طرف سے غافل ہوجاؤ ‘ تم تو بکریاں چراؤ اور تیر اندازی کرو اور کوئی بھیڑیا آکر اسے کھاجائے ‘ پہلی بات کا تو وہ کوئی جواب نہ دے سکے کیونکہ ان کی نظروں سے بیٹے کا غائب ہونا بہر حال ان کے نزدیک والد کے لیے رنج و غم کا باعث تھا اور ان کی قلبی تکلیف کا احساس ہوتے ہوئے ہی انہوں نے ان کے جدا کرنے کا فیصلہ کیا تھا البتہ دوسری بات کا انہوں نے یہ جواب دیا کہ بھلایہ ہوسکتا ہے کہ اتنی بڑی جماعت کے ہوتے ہوئے اسے بھیڑیا کھاجائے اگر ہمارے ہوتے ہوئے اسے بھیڑیا کھا گیا تو ہم بالکل ہی کسی بات کے نہ رہے اور ہم تو سب کچھ گنوا دینے والے اور ضائع کردینے والے ہوجائیں گے۔ مطلب یہ تھا کہ ہم اس کی پوری طرح حفاظت کریں گے اور حفاظت کرنے پر قدرت بھی رکھتے ہیں ہماری اتنی بڑی جماعت کے ہوتے ہوئے اسے بھیڑیا کھاجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اتنے لمبے تڑنگے قوت اور طاقت رکھنے والے جوانوں کی قوت اور جوانی کچھ بھی نہ ہوئی اور گویا بالکل ہی اپاہج بن کر رہ گئے۔ آپ ہمارے بارے میں ایسا خیال تو نہ فرمائیے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ یوسف (علیہ السلام) کو باپ سے جدا کرنے کا پروگرام بنا کر والد گرامی کی خدمت میں آئے اور کہا کہ یوسف کے بارے میں آپ ہم پر اعتماد کیوں نہیں کرتے حالانکہ وہ ہمارا عزیز بھائی ہے اور ہم اس کے خیر خواہ ہیں۔ آپ اسے ہمارے ساتھ بھیجیں باہر سیر و تفریح سے دل بہلائے گا اور ہم اس کی حفاظت کریں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 1 اس پر سب نے مل کر حضرت یوسف (علیہ السلام) سے کہا اے ہمارے باپ اس کا کیا سبب ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں آپ ہم پر اعتماد نہیں کرتے اور ہمارا اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم تو اس کے خیر خواہ ہیں یعنی آپ کے عدم اعتبار کی یہ کیفیت ہے کہ آپ اس کو ہمارے ساتھ بھی نہیں بھیجتے۔