Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 16

سورة يوسف

وَ جَآءُوۡۤ اَبَاہُمۡ عِشَآءً یَّبۡکُوۡنَ ؕ﴿۱۶﴾

And they came to their father at night, weeping.

اور عشاء کے وقت ( وہ سب ) اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے پہنچے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yusuf's Brothers try to deceive Their Father Allah tells; وَجَاوُواْ أَبَاهُمْ عِشَاء يَبْكُونَ

بھائیوں کی واپسی اور معذرت چپ چاپ ننھے بھیا پر ، اللہ کے معصوم نبی پر ، باپ کی آنکھ کے تارے پر ظلم وستم کے کے پہاڑ توڑ کر رات ہوئے باپ کے پاس سرخ رو ہو نے اور اپنی ہمدردی ظاہر کرنے کے لیے غمزدہ ہو کر روتے ہوئے پہنچے اور اپنے ملال کا یوسف کے نہ ہو نے کا سبب یہ بیان کیا کہ ہم نے تیر اندازی اور ڈور شروع کی ۔ چھوٹے بھائی کو اسباب کے پاس چھوڑا ۔ اتفاق کی بات ہے اسی وقت بھیڑیا آگیا اور بھائی کا لقمہ بنا لیا ۔ چیڑ پھاڑ کر کھا گیا ۔ پھر باپ کو اپنی بات صحیح طور پر جچانے اور ٹھیک باور کرانے کے لیے پانی سے پہلے بند باندھتے ہیں کہ ہم اگر آپ کے نزدیک سچے ہی ہوتے تب بھی یہ واقعہ ایسا ہے کہ آپ ہمیں سچا ماننے میں تامل کرتے ۔ پھر جب کہ پہلے ہی سے آپ نے اپنا ایک کھٹکا ظاہر کیا ہو اور خلاف ظاہر واقع میں ہی اتفاقا ایسا ہی ہو بھی جائے تو ظاہر ہے کہ آپ اس وقت تو وہ ہمیں سچا مان ہی نہیں سکتے ۔ ہیں تو ہم سچے ہی لیکن آپ بھی ہم پر اعتبار نہ کرنے میں ایک حد تک حق بجانب ہیں ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہی ایسا انوکھا ہے ہم خود حیران ہیں کہ ہو کیا گیا یہ تو تھا زبانی کھیل ایک کام بھی اسی کے ساتھ کر لائے تھے یعنی بکری کے ایک بچے کو ذبح کر کے اس کے خون سے حضرت یوسف کا پیراہن داغدار کر دیا کہ بطور شہادت کے ابا کے سامنے پیش کریں گے کہ دیکھو یہ ہیں یوسف بھائی کے خون کے دھبے ان کے کرتے پر ۔ لیکن اللہ کی شان چور کے پاؤں کہاں؟ سب کچھ تو کیا لیکن کرتا پھاڑنا بھول گئے ۔ اس کے لیے باپ پر سب مکر کھل گیا ۔ لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ضبط کیا اور صاف لفظوں میں گو نہ کہا تاہم بیٹوں کو بھی پتہ چل گیا کہ ابا جی کو ہماری بات جچی نہیں فرمایا کہ تمہارے دل نے یہ تو ایک بات بنادی ہے ۔ خیر میں تو تمہاری اس مذبوحی حرکت پر صبر ہی کروں گا ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم سے اس دکھ کو ٹال دے ۔ تم جو ایک جھوٹی بات مجھ سے بیان کر رہے ہو اور ایک محال چیز پر مجھے یقین دلا رہے ہو اور اس پر میں اللہ سے مدد طلب کرتا ہوں اور اس کی مدد شامل حال رہے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو جائے گا ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ کرتا دیکھ کر آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ تعجب ہے بھیڑیا یوسف کو کھا گیا اس کا پیراہن خون آلود ہو گیا مگر کہیں سے ذرا بھی نہ پھٹا ۔ خیر میں صبر کروں گا ۔ جس میں کوئی شکایت نہ ہو نہ کوئی گھبراہٹ ہو ۔ کہتے ہیں کہ تین چیزوں کا نام صبر ہے اپنی مصیبت کا کسی سے ذکر نہ کرنا ۔ اپنے دل کا دکھڑا کسی کے سامنے نہ رونا اور ساتھ ہی اپنے نفس کا پاک نہ سمجھا ۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اس موقعہ پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس واقعہ کی پوری حدیث کو بیان کیا ہے جس میں آپ پر تہمت لگائے جانے کا ذکر ہے ۔ اس میں آپ نے فرمایا ہے واللہ میری اور تمہاری مثال حضرت یوسف کے باپ کی سی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا اب صبر ہی بہتر ہے اور تمہاری ان باتوں پر اللہ ہی سے مدد چاہی گئی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَجَاۗءُوْٓا اَبَاهُمْ عِشَاۗءً : اتنا بڑا ظلم کرنے کے بعد انھیں دن کی روشنی میں باپ کے پاس جانے کی ہمت نہیں ہوئی، کیونکہ دن کے وقت چہرے کے اثرات، جسم کا اضطراب اور زبان کا لڑکھڑانا ہی سب کچھ ظاہر کردیتا ہے۔ اس لیے وہ عشاء کے وقت باپ کے پاس آئے۔ اکثر جرائم کے وقوع اور انھیں چھپانے کا ذریعہ رات کا اندھیرا ہی بنتا ہے، اس لیے ہم سب کو حکم ہوا کہ کہو : (وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ) [ الفلق : ٣ ] ” اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے (پناہ مانگتا ہوں) ۔ “ يَّبْكُوْنَ : ” روتے ہوئے “ معلوم ہوا ہر رونے والا سچا نہیں ہوتا۔ میں نے ایک عالم کا قول پڑھا کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے رونے کے بعد سے ہمارا اعتبار رونے والوں سے اٹھ گیا ہے، اللہ جانے کون سچا رو رہا ہے اور کون جھوٹا۔ حسین (رض) کی بہن زینب (رض) نے کوفے والوں کو روتے پیٹتے ہوئے دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیوں رو رہے ہیں ؟ انھیں بتایا گیا کہ یہ لوگ حسین (رض) اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر رو رہے ہیں تو وہ بےساختہ کہنے لگیں کہ یہ لوگ ہم پر رو رہے ہیں تو ہمیں قتل کرنے والے کون ہیں ؟ (یعنی کیا وہ کوفہ سے باہر کی کوئی مخلوق تھی ؟ یہی تو قتل کرنے والے تھے) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

As in verse 16: وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ They came weeping to their father at nightfall. Hearing the sound of their crying, Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) came out and asked: what has happened? Was the flock of your goats attacked by someone? And where is Yusuf?

(آیت) وَجَاۗءُوْٓا اَبَاهُمْ عِشَاۗءً يَّبْكُوْنَ یعنی عشاء کے وقت یہ بھائی روتے ہوئے اپنے باپ کے پاس پہونچے حضرت یعقوب (علیہ السلام) ان کے رونے کی آواز سن کر باہر آئے پوچھا کیا حادثہ ہے کیا تمہاری بکریوں کے گلہ پر کسی نے حملہ کیا ہے ؟ اور یوسف کہاں ہے ؟

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَاۗءُوْٓا اَبَاہُمْ عِشَاۗءً يَّبْكُوْنَ۝ ١٦ۭ عشا العَشِيُّ من زوال الشمس إلى الصّباح . قال تعالی: إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها[ النازعات/ 46] ، والعِشَاءُ : من صلاة المغرب إلى العتمة، والعِشَاءَانِ : المغرب والعتمة «1» ، والعَشَا : ظلمةٌ تعترض في العین، ( ع ش ی ) العشی زوال آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک کا وقت قرآن میں ہے : ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْضُحاها[ النازعات 46] گویا ( دنیا میں صرف ایک شام یا صبح رہے تھے ۔ العشاء ( ممدود ) مغرب سے عشا کے وقت تک اور مغرب اور عشا کی نمازوں کو العشاء ن کہا جاتا ہے اور العشا ( توندی تاریکی جو آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے رجل اعثی جسے رتوندی کی بیمار ی ہو اس کی مؤنث عشراء آتی ہے ۔ بكي بَكَى يَبْكِي بُكًا وبُكَاءً ، فالبکاء بالمدّ : سيلان الدمع عن حزن وعویل، يقال إذا کان الصوت أغلب کالرّغاء والثغاء وسائر هذه الأبنية الموضوعة للصوت، وبالقصر يقال إذا کان الحزن أغلب، وجمع البَاكِي بَاكُون وبُكِيّ ، قال اللہ تعالی: خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيًّا [ مریم/ 58] ( ب ک ی ) بکی یبکی کا مصدر بکی وبکاء یعنی ممدود اور مقصور دونوں طرح آتا ہے اور اس کے معنی غم کے ساتھ آنسو بہانے اور رونے کے ہیں اگر آواز غالب ہو تو اسے بکاء ( ممدود ) کہا جاتا ہے جیسے ؎ رغاء وثغاء اور اس نوع کے دیگر اوزاں جو صوت کے لئے وضع کئے گئے ہیں اور اگر غم غالب ہو تو اسے بکی ( بالقصر ) کہا جاتا ہے الباکی رونے والا غم اور اندوہ سے آنسو بہانے والا اس کی جمع باکون وب کی آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيًّا [ مریم/ 58] تو سجدے میں کر پڑتے اور روتے رہتے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

ہر روتا ہوا شخص مظلوم ہی نہیں ، ظالم بھی ہوسکتا ہے قول باری ہے وجائوا اباھم عشا ئً یبکون ۔ شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے ۔ روایت کے مطابق ایک دفعہ شعبی دارالقضاء میں مقدمات کی سماعت کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص روتا ہوا آیا اور دعویٰ کیا کہ فلاں شخص نے اس پر ظلم کیا ہے۔ شعبی کے پاس موجود ایک شخص نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ شخص واقعی مظلوم ہو ۔ یہ سن کر شعبی نے کہا کہ برادران یوسف بھی خیانت کرنے اور ظلم ڈھانے کے بعد شام کے وقت اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے تھے اور جھوٹ بیان دیا تھا کہ یوسف کو بھیڑیاکھا گیا ہے۔ بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کے سانحہ پر رونے کا اظہار اپنے آپ کو خیانت کے الزام سے بری الذمہ ثابت کرنے کے لیے کیا تھا نیز رو دھو کر انہوں نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یہ احساس دلایا تھا کہ وہ بھی ان کے غم میں شریک ہیں ، نیز حضرت یعقوب (علیہ السلام) جس خو ف کا اظہار کیا تھا کہ کہیں یوسف کو بھیڑیا نہ کھاجائے اس کے متعلق بھائیوں نے اپنے جھوٹے آنسوئوں کی ذریعے باپ کو تسلی دینے کی کوشش کی تھی چناچہ باپ سے انہوں نے کہا انا ذھبنا نستبق وترکنا یوسف عند متاعنافاکلہ الذنب وما انت بمومن لنا ہمدوڑ کر مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا آ کر اسے کھا گیا آپ ہماری بات کا یقین نہیں کریں گے۔ یعنی ہم تیر اندازی کا مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے۔ ایک قول کے مطابق ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے۔ قول باری ہے وما انت بمومن لنا یعنی آپ ہمیں سچا نہیں تسلیم کریں گے، اپنی بات پکی کرنے کے لیے یہ لوگ خون لگا ہوا قمیص بھی لے آئے اور کہا کہ اس پر یوسف کا خون لگا ہوا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦۔ ١٧) ادھر وہ لوگ ظہر کے بعد یعنی شام کو اپنے باپ کے پاس یوسف (علیہ السلام) پر روتے ہوئے پہنچے اور کہنے لگے کہ ابا جان ہم تو کھیل کود اور شکار میں لگ گئے اور یوسف کو ہم نے اپنی چیزوں کی حفاظت کے لیے چھوڑ دیا، چناچہ جس چیز کا آپ کو ڈر تھا وہی ہوا اور آپ کیوں ہم پر یقین کریں گے چاہے ہم کیسے ہی سچے کیوں نہ ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٦۔ ١٨۔ ان آیتوں میں اللہ پاک نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی خبر دی کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی یوسف (علیہ السلام) کو کنوئیں میں ڈال کر گھر کو واپس آئے اور رات کے وقت اندھیرا ہوجانے پر باپ کے پاس روتے ہوئے آئے تاکہ اندھیرے میں ہماری صورتوں اور چہرے سے جھوٹ نہ ظاہر ہو اور گریہ وزاری سے زیادہ تصدیق ہمارے قول کی ہوگی باپ کے پاس پہنچ کر رو رو کر بیان کیا کہ ہم تو تیر اندازی اور دوا دوش میں رہے اور یوسف (علیہ السلام) کو اپنے سامان کے پاس بٹھا دیا تھا ہمارا دور ہونا تھا کہ بھیڑیا آکر یوسف کو کھا گیا اور اس کے ساتھ کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ آپ ہماری بات کو ہرگز یقین نہ کریں گے چاہے سچ ہی کہتے ہوں کیوں کہ باپ نے ان سے پہلے کہہ دیا تھا کہ مجھے خوف ہے کہ شاید یوسف (علیہ السلام) کو بھیڑیا کھا جائے اور تم اس سے غافل رہو آخر وہی ہوا اس لئے انہوں نے تمہید اٹھائی کہ آپ یقین نہیں کریں گے اگرچہ ہم سچ ہی بولتے ہوں اس کے بعد وہ کرتہ جو یوسف (علیہ السلام) کا لے لیا تھا اس کو بکری ذبح کر کے اس کے خون میں رنگ کر لائے تھے وہ پیش کیا تاکہ باپ کو ہماری بات کا یقین کامل ہوجائے مگر اتنا نہ سمجھے کہ باپ ہمارے خدا کے رسول ہیں کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں کیا وہ اتنا نہ سمجھیں گے کہ بھیڑیا اگر کھا گیا تو کرتہ ثابت چھوڑ گیا کہیں سے پھٹا بھی نہیں بہر حال باپ نے کرتہ دیکھتے ہی معلوم کرلیا کہ بیٹوں نے فریب کیا اور حسد کے مارے یوسف (علیہ السلام) کو مجھ سے علیحدہ کیا اس لئے یہ فرمایا کہ یہ سب محض جھوٹ ہے تمہارے دل نے یہ افترا پردازی کی ہے اب سوائے صبر کے کرنا کیا ہے اور یہی مناسب ہے کہ کوئی شکوہ و شکایت نہ ہو اور اس مصیبت پر خدا ہی سے مدد طلب کی جائے فسبق کے معنے تیر اندازی میں دوڑنے کے بھی ہیں اور آگے نکلنے کے لئے دو آدمی جو دوڑتے ہیں وہ معنی بھی ہیں۔ شریعت محمدی میں ملت ابراہمی کی اکثر باتوں کی پیروی ہے اس لئے شریعت محمدی میں بھی یہ دونوں باتیں موجود ہیں۔ چناچہ مسند امام احمد اور صحیح بخاری میں سلمۃ بن الاکوع سے روایت ہے جس میں عرب کے بعضے لوگوں کو تیر اندازی کرتے ہوئے دیکھ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے اولاد اسماعیل تیر اندازی کی ضرور مثاقی کرو تمہارے باپ اسماعیل (علیہ السلام) بھی تیر انداز ١ ؎ تھے۔ صحیح مسلم میں عقبۃ بن عامر (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (ما استطعتم من قوۃ) کی تفسیر تیر اندازی فرمائی ہے۔ ٢ ؎ آگے نکلنے کے لئے دوڑنے کی ابوداؤد و نسائی ‘ ابن ماجہ اور مسند امام احمد میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے جس میں حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ وہ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مل کر دو دفعہ دوڑے پہلی دفعہ حضرت عائشہ (رض) آگے نکل گئیں اور دوسری دفعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگے نکل گئے۔ ٣ ؎ نعمت میں ایمان کے معنے کسی بات کی صداقت کے ہیں اور شریعت میں احکام الٰہی کی صداقت کے ہیں (وما انت بمؤمن لنا) میں پہلے معنے لئے گئے ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) کی حدیث جو اوپر گزری اس کی سند میں اگرچہ بعضے علماء نے کلام کیا ہے لیکن اس حدیث کے چند طریقے ہیں جس کے سب سے ایک سند کو دوسری سند سے تقویت ہوجاتی ہے اسی واسطے ابوداؤد اور منذری دونوں نے اس حدیث کی سند پر کچھ اعتراض نہیں کیا۔ صحیح بخاری و مسلم میں انس بن مالک (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مصیبت کے پیش آتے ہی شروع شروع میں آدمی صبر کرے تو اس صبر کا بڑا اجر ہے ٤ ؎ ورنہ رفتہ رفتہ تو مصیبت کا صدمہ کم ہوجانے سے خود آدمی کو صبر آجاتا ہے۔ اس حدیث کی دوسری آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کا حال سنتے ہی شروع صدمہ کے وقت صبر جمیل فرمایا اور اللہ تعالیٰ سے مدد چاہی۔ اس لئے وقت مقررہ آنے تک اگرچہ چالیس برس کی دیر لگی پھر اللہ تعالیٰ نے یعقوب (علیہ السلام) کے صبر کا اجر انہیں دنیا میں دکھا دیا کہ ان کے بیٹے کو عزیز مصر کر کے ان سے ملایا۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٣٣٦ باب اعداد التہ انجھاد۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٣٣٦ باب اعدادالتہ الجھاد۔ ٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٨١ باب عشرۃ النسائ۔ ٤ ؎ صحیح بخاری صد ١٧٤ باب الصبرعتہ الصدمۃ الاولی۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : برادران یوسف غلطی پر غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ویران کنویں میں پھینک کر۔ برادران یوسف روتے ہوئے دانستہ تاخیر سے عشاء کے وقت گھر آئے تاکہ ان کی من گھڑت کہانی پر والد کو یقین آجائے۔ یاد رہے کہ عشاء کا وقت مغرب کے بعد اچھی طرح اندھیرا چھا جانے سے لے کر آدھی رات تک شمار ہوتا ہے۔ برادران یوسف گھر داخل ہوتے ہی ہچکیاں لیتے اور زارو قطار روتے ہوئے حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے کہتے ہیں۔ اباجان ! ہم یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ کر کھیل کود میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں بہت دور نکل گئے۔ ہمارے پیچھے بھیڑئیے نے یوسف کو کھالیا۔ یہ حقیقت ہے مگر ہمارے سچا ہونے کے باوجود آپ ہم پر یقین نہیں کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے حضرت یوسف کی خون آلود قمیص حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سامنے رکھ دی۔ جس پر کسی جانور کا خون لگا رکھا تھا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یہ صورت حال دیکھ کر صرف اتنا ہی فرمایا۔ جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس پر میں اللہ ہی سے مدد کا طلب گار ہوں۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے حضرت یوسف کو اس کے بھائیوں کے سپرد کرتے ہوئے جس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا برادران یوسف نے پورے غورو خوض کے بعد سوچا چونکہ ہمارے والد کے دل میں بھیڑئیے کا یوسف کو کھانے کے بارے میں اندیشہ پختہ ہوچکا ہے۔ اس لیے ہمیں بھی یہی بات ان کے سامنے کہنا چاہیے۔ اس کے لیے انہوں نے حضرت یوسف کی قمیص کو کسی جانور کے خون کے ساتھ آلودہ کرلیا۔ گویا کہ انہوں نے من گھڑت کہانی کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے یکے بعددیگرے چار غلط اقدام کیے۔ ١۔ بلا وجہ رات تاخیر سے گھر آنا۔ ٢۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص کو کسی جانور کے خون کے ساتھ لت پت کرنا۔ ٣۔ زار و قطار رونا اور مصنوعی ہچکیاں لینا۔ ٤۔ باپ کے خدشے کے مطابق جھوٹی کہانی بنانا۔ تحقیق و تفتیش کی تاریخ میں یہ بات بڑی مسلمہ ہے کہ واردات کرنے والے شخص سے کوئی نہ کوئی ایسی غلطی یا کوتاہی رہ جاتی ہے جس سے جرم کا سراغ لگانا آسان ہوجاتا ہے۔ جسے تفتیشی زبان میں کہا جاتا ہے کہ چور کوئی نہ کوئی نشان چھوڑجاتا ہے۔ کہانی بیان کرنے سے پہلے ہی اخلاقی دباؤ ڈالنے کے لیے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یہ کہا ہمارے سچا ہونے کے باوجود آپ ہماری بات پر یقین نہیں کریں گے۔ بعض مفسرین نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے لکھا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص پر جھوٹا خون لگانے کے وقت وہ بھول گئے تھے۔ کہ قمیص کو مخصوص انداز میں پھاڑنا بھی چاہیے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص صحیح سالم دیکھی تو وہ فرمانے لگے کہ یہ کیسا بھیڑیا تھا ؟ جس نے یوسف کو پھاڑ ڈالا مگر قمیص کو آنچ نہ آنے دی۔ ممکن ہے اس طرح ہوا ہو لیکن میرے خیال میں حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کے لیے بھائیوں کا یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ برتاؤ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سامنے تھا۔ جس بنا پر انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو ان کے سپرد کرتے ہوئے اس خدشہ کا اظہار فرمایا تھا کہ کہیں تمہاری غفلت کی وجہ سے بھیڑیا یوسف کو نقصان نہ پہنچائے۔ پھر جس انداز سے انہوں نے من گھڑت کہانی بیان کی اس سے ایک دانشور انسان کو حقیقت تک پہنچنے کے لیے کوئی خاص دشواری پیش نہیں آتی۔ کیونکہ قتل جیسا سانحہ رونما ہونے کے بعد مقتول کے قریبی اعزا و اقرباء کے رونے کا انداز اور ان کی طبیعت پر مرتب ہونے والے غم کے اثرات سے آدمی اچھی طرح اندازہ کرلیتا ہے کہ مقتول کے بارے میں رونے والے کے غم کی کیا کیفیت ہے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) تو یوسف (علیہ السلام) کے باپ اور اللہ کے عظیم پیغمبر تھے۔ انہیں بات کی تہہ تک پہنچنے میں ذرا دیر نہ لگی فوراً فرمایا کہ تمہارے دلوں نے یوسف کے ساتھ زیادتی کرنے اور جھوٹی کہانی بنانے کو آسان بنا دیا ہے۔ کیونکہ بیٹوں نے اپنی طاقت پر ناز کرتے ہوئے یہ جرم کیا تھا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے نہایت ہی دانشمندی اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوان بیٹوں سے جھگڑنا مناسب نہیں سمجھا۔ ایسی صورت حال میں اللہ تعالیٰ سے ہی مدد طلب کرنی چاہیے۔ لہٰذاحضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ” اللہ “ ہی سے مدد طلب کی۔ اس قسم کے حالات میں ایک دانشور باپ کو یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے ورنہ بدنامی کے ساتھ صورت حال اور گھمبیر ہوجایا کرتی ہے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) صبر جمیل کے ساتھ اس غم کو پی جاتے ہیں۔ صبر جمیل سے مراد ایسا صبر جس میں کسی قسم کا گلہ شکوہ نہ پایا جائے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ مَرَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِامْرَأَۃٍ تَبْکِی عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ اتَّقِی اللَّہَ وَاصْبِرِی قَالَتْ إِلَیْکَ عَنِّی، فَإِنَّکَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِیبَتِی، وَلَمْ تَعْرِفْہُ فَقِیلَ لَہَا إِنَّہُ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأَتَتْ بَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَہُ بَوَّابِینَ فَقَالَتْ لَمْ أَعْرِفْکَ فَقَالَ إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الأُولَی) [ رواہ البخاری : باب زِیَارَۃِ الْقُبُورِ ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایک ایسی عورت کے پاس سے ہوا جو قبر پر بیٹھی رو رہی تھی آپ نے فرمایا اللہ سے ڈر اور صبر اختیار کر اس نے کہا تمہیں کیا جو مصیبت مجھے پہنچی ہے وہ آپ کو نہیں اور اس نے آپ کو پہچانا نہیں تھا اسے کہا گیا کہ بیشک آپ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے تو وہ آپ کے دروازے پر آئی تو کوئی دربان نہ پایا اور عرض کرنے لگی اے اللہ کے نبی میں آپ کو پہچان نہیں سکی تھی آپ نے فرمایا صبر وہی ہوتا ہے جو صدمے کے آغاز پر کیا جائے۔ “ مسائل ١۔ مکارمجرم اکثر زیادہ رویا کرتے ہیں۔ ٢۔ صبر بہترین عمل ہے اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ تفسیر بالقرآن صبر کی فضیلت اور اجر : ١۔ صبر بہترین عمل ہے اور اللہ ہی اس پر مدد کرے گا جو تم بیان کرتے ہو۔ (یوسف : ١٨) ٢۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٣۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٤۔ صبر کرنے والوں کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد : ٢٤) ٥۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ (الفرقان : ٧٥) ٦۔ صبر کرنے والے بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ (الزمر : ١٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب ہم یوسف کو اس اندھے کنوئیں میں چھوڑ کر ذرا کنعان چلتے ہیں۔ یہ اب اللہ کی حمایت اور کفالت میں ہیں جب تک کہ اللہ ان کو وہاں سے نکال نہیں دیتا۔ اب پردہ گرتا ہے اور یہ لوگ اس قدر برا کام کرنے کے بعد اب والد کے سامنے کھڑے ہیں ذرا ملاحظہ کریں ان کی بہانہ سازی : شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے۔ اور کہا " ابا جان ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے لگ گئے تھے اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا آکر اسے کھا گیا۔ آ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم سچے ہی ہوں۔ اور وہ یوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگا کرلے غائے تھے۔ یہ سن کر ان کے باپ نے کہا " بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا۔ اچھا صبروں کروں گا اور بخوبی صبر کروں گا ، جو بات تم بنا رہے ہو ، اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جاسکتی ہے۔ ان کے دل میں کینے کی آگ جل رہی تھی اور یہ لوگ جھوٹ پر جھوٹ گھڑ رہے تھے۔ اگر ان کو اپنے اعصاب پر ذرا بھی کنٹرول ہوتا تو وہ ایسا ہرگز نہ کرتے ، وہ اس مکروہ سازش کا آغاز ہی نہ کرتے اور جب حضرت یعقوب نے ان پر اعتماد کرکے یوسف کو ان کے ساتھ رخصت کردیا تھا تو ان کو باز آجانا چاہیے تھا۔ لیکن یوسف اب ان کی برداشت سے باہر ہوگئے تھے۔ اور وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے اس سیاہ کارنامے کے سرانجام دینے کے لیے یہ بہترین موقعہ ہے۔ پھر ان کو خود حضرت یعقوب کی زبانی بھیڑئیے کا بہانہ بھی مل گیا تھا اور ان کی جلد بازی اور کچے پن کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہوں نے باپ کے اندیشے کے سوا کوئی اور بہانہ بھی نہ بنایا ، کہ کل ہی تو حضرت یعقوب اس بہانے سے انہیں ڈراتے تھے اور یہ لوگ کہتے تھے کہ ہم تو بڑا جتھا ہیں۔ اب وہی بہانہ بنا رہے ہیں۔ بظاہر یہ بہانہ تو معقول نہیں ہے کہ رات کو جس بات سے انہیں متنبہ کیا گیا تھا وہی بہانہ صبح کو وہ پیش کردیں۔ پھر ان کے سطحی پن کا اس سے زیادہ اور ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ یوسف کی قمیص پر وہ خون لگا کرلے آئے۔ اور ظاہر یہ ہے کہ یہ بالکل بادی النظر میں ایک چھوٹا سا بہانہ تھا ، لیکن انہوں نے یہ جھوٹ پیش کیا : وَجَاۗءُوْٓا اَبَاهُمْ عِشَاۗءً يَّبْكُوْنَ ۔ قَالُوْا يٰٓاَبَانَآ اِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَكَلَهُ الذِّئْبُ : شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے۔ اور کہا " ابا جان ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے لگ گئے تھے اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا آکر اسے کھا گیا۔ اور وہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ بادی النظر میں نظر آتا ہے کہ یہ بہانہ جھوٹا ہے اور مشکوک آدمی تو نظر ہی یوں اتا ہے کہ چور کی داڑھی میں تنکا : چناچہ کہتے ہیں : وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صٰدِقِيْنَ : آ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم سچے ہی ہوں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ رات کو سب بھائی روتے ہوئے گھر پہنچے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے یوں بہانہ کرنے لگے کہ ہم دوڑتے ہوئے آگے نکل گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھور گئے واپس آئے تو اسے بھیڑیا کھاچکا تھا۔ ” وَجَاءُوْا عَلیٰ قَمِیْصِہٖ الخ “۔” کَذِب “ ای مکذوب فیہ او ذی کذب اور ” بِدَمٍ “ میں باء تعدیہ کے لیے ہے۔ یعنی وہ یوسف (علیہ السلام) کی قمیص پر ایسا خون لگا کرلے آئے جو ان کا نہ تھا وہ بکری کا بچہ یا ہرن ذبح کر کے اس کے خون میں یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ لت پت کر کے لے آئے مگر ان سے یہ چوک ہوگئی کہ کرتہ پھاڑنا بھول گئے۔ (مدارک، قرطبی) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

16 تھوڑی رات گئے یوسف (علیہ السلام) کے بھائی روتے ہوئے اپنے والد کے پاس آئے یعنی یوسف کو کنویں میں ڈالنے کے بعد عشاء کے وقت یہ برادران یوسف روتے ہوئے اپنے باپ کے پاس آئے۔