Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 24

سورة يوسف

وَ لَقَدۡ ہَمَّتۡ بِہٖ ۚ وَ ہَمَّ بِہَا لَوۡ لَاۤ اَنۡ رَّاٰ بُرۡہَانَ رَبِّہٖ ؕ کَذٰلِکَ لِنَصۡرِفَ عَنۡہُ السُّوۡٓءَ وَ الۡفَحۡشَآءَ ؕ اِنَّہٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُخۡلَصِیۡنَ ﴿۲۴﴾

And she certainly determined [to seduce] him, and he would have inclined to her had he not seen the proof of his Lord. And thus [it was] that We should avert from him evil and immorality. Indeed, he was of Our chosen servants.

اس عورت نے یوسف کی طرف کا قصد کیا اور یوسف اس کا قصد کرتے اگر وہ اپنے پروردگار کی دلیل نہ دیکھتے یونہی ہوا کہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی دور کر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells: وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلا أَن رَّأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ ... And indeed she did desire him, and he would have inclined to her desire, had he not seen the evidence of his Lord. This is about the thoughts that cross the mind, according to Al-Baghawi who mentioned this opinion from some of the analysts. Al-Baghawi next mentioned here a Hadith that he narrated from Abdur Razzaq, from Ma`mar, from Hammam, from Abu Hurayrah, from the Messenger of Allah, يَقُولُ اللهُ تَعَالَى إِذَا هَمَّ عَبْدِي بِحَسَنَةٍ فَاكْتُبُوهَا لَهُ حَسَنَةً فَإِنْ عَمِلَهَا فَاكْتُبُوهَا لَهُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا وَإِنْ هَمَّ بِسَيِّيَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا فَاكْتُبُوهَا حَسَنَةً فَإِنَّمَا تَرَكَهَا مِنْ جَرّايِي فَإِنْ عَمِلَهَا فَاكْتُبُوهَا بِمِثْلِهَا Allah the Exalted said, `If my slave intends to perform a good deed, then record it for him as one good deed; if he performs it, then record it for him multiplied ten folds. If he intends to commit an evil act but did not commit it, then record it for him as one good deed, if he left it for My sake. But if he commits it, then write it as one evil deed.' This Hadith was also collected in the Two Sahihs using various wording, this is one of them. It was also reported that the Ayah means that; Yusuf was about to beat her. As for the evidence that Yusuf saw at that moment, there are conflicting opinions to what it was. Ibn Jarir At-Tabari said, "The correct opinion is that we should say that he saw an Ayah from among Allah's Ayat that repelled the thought that crossed his mind. This evidence might have been the image of Yaqub, or the image of an angel, or a divine statement that forbade him from doing that evil sin, etc.There are no clear proofs to support any of these statements in specific, so it should be left vague, as Allah left it. Allah's statement next, ... كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاء ... Thus it was, that We might turn away from him evil and immoral sins. means, `Just as We showed him the evidence that turned him away from that sin, We save him from all types of evil and illegal sexual activity in all his affairs,' because, ... إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ Surely, he was one of Our Mukhlasin servants. meaning, chosen, purified, designated, appointed and righteous. May Allah's peace and blessings be on him."

یوسف علیہ السلام کے تقدس کا سبب سلف کی ایک جماعت سے تو اس آیت کے بارے میں وہ مروی ہے جو ابن جریر وغیرہ لائے ہیں اور کہا گیا ہے کہ یوسف علیہ السلام کا قصد اس عورت کے ساتھ صرف نفس کا کھٹکا تھا ۔ بغوی کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عزوجل کا فرمان ہے کہ جب میرا کوئی بندہ نیکی کا ارادہ کرے تو تم اس کی نیکی لکھ لو ۔ اور جب اس نیکی کو کر گزرے تو اس جیسی دس گنی نیکی لکھ لو ۔ اور اگر کسی برائی کا ارادہ کرے اور پھر اسے نہ کرے تو اس کے لیے نیکی لکھ لو ۔ کیونکہ اس نے میری وجہ سے اس برائی کو چھوڑا ہے ۔ اور اگر اس برائی کو ہی کر گزرے تو اس کے برابر اسے لکھ لو ۔ اس حدیث کے الفاظ اور بھی کئی ایک ہیں اصل بخاری ، مسلم میں بھی ہے ۔ ایک قول ہے کہ حضرت یوسف نے اسے مارنے کا قصد کیا تھا ۔ ایک قول ہے کہ اسے بیوی بنانے کی تمنا کی تھی ۔ ایک قول ہے کہ آپ قصد کرتے اگر اگر دلیل نہ دیکھتے لیکن چونکہ دلیل دیکھ لی قصد نہیں فرمایا ۔ لیکن اس قول میں عربی زبان کی حیثیت سے کلام ہے جسے امام ابن جریر وغیرہ نے بیان فرمایا ہے ۔ یہ تو تھے اقوال قصد یوسف کے متعلق ۔ وہ دلیل جو آپ نے دیکھی اس کے متعلق بھی اقوال ملاحظہ فرمائیے ۔ کہتے ہیں اپنے والد حضرت یعقوب کو دیکھا کہ گویا وہ اپنی انگلی منہ میں ڈالے کھڑے ہیں ۔ اور حضرت یوسف کے سینے پر آپ نے ہاتھ مارا ۔ کہتے ہیں اپنے سردار کی خیالی تصویر سامنے آگئی ۔ کہتے ہیں آپ کی نظر چھت کی طرف اٹھ گئی دیکھتے ہیں کہ اس پر یہ آیت لکھی ہوئی ہے ( آیت لا تقربو الزنی انہ کان فاحشتہ و مقتا و ساء سبیلا ) خبردار زنا کے قریب بھی نہ بھٹکنا وہ بڑی بےحیائی کا اور اللہ کے غضب کا کام ہے اور وہ بڑا ہی برا راستہ ہے ۔ کہتے ہیں تین آیتیں لکھی ہوئی تھیں ایک تو ( وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ 10۝ۙ ) 82- الإنفطار:10 ) تم پر نگہبان مقرر ہیں ۔ دوسری ( وَمَا تَكُوْنُ فِيْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُوْدًا اِذْ تُفِيْضُوْنَ فِيْه 61؀ ) 10- یونس:61 ) تم جس حال میں ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے ۔ تیسری ( اَفَمَنْ هُوَ قَاۗىِٕمٌ عَلٰي كُلِّ نَفْسٍۢ 33؁ ) 13- الرعد:33 ) اللہ ہر شخص کے ہر عمل پر حاضر ناظر ہے کہتے ہیں کہ چار آیتیں لکھی پائی تین وہی جو اوپر ہیں اور ایک حرمت زنا کی جو اس سے پہلے ہے ۔ کہتے ہیں کہ کوئی آیت دیوار پر ممانعت زنا کے بارے میں لکھی ہوئی پائی ۔ کہتے ہیں ایک نشان تھا جو آپ کے ارادے سے آپ کو روک رہا تھا ۔ ممکن ہے وہ صورت یعقوب ہو ۔ اور ممکن ہے اپنے خریدنے والے کی صورت ہو ۔ اور ممکن ہے آیت قرآنی ہو کوئی ایسی صاف دلیل نہیں کہ کسی خاص ایک چیز کے فیصلے پر ہم پہنچ سکیں ۔ پس بہت ٹھیک راہ ہمارے لیے یہی ہے کہ اسے یونہی مطلق چھوڑ دیا جائے جیسے کہ اللہ کے فرمان میں بھی اطلاق ہے ( اسی طرح قصد کو بھی ) پھر فرماتا ہے ہم نے جس طرح اس وقت اسے ایک دلیل دکھا کر برائی سے بچا لیا ، اسی طرح اس کے اور کاموں میں بھی ہم اس کی مدد کرتے رہے اور اسے برائیوں اور بےحیائیوں سے محفوظ رکھتے رہے ۔ وہ تھا بھی ہمارا برگزیدہ پسندیدہ بہترین اور مخلص بندہ ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر درود و سلام نازل ہوں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ( لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ ) 12 ۔ یوسف :24) کا تعلق ماقبل یعنی وھم بھا سے نہیں بلکہ اس کا جواب محذوف ہے یعنی لولا ان راٰ برھان ربہ لفعل ماھم بہ اگر یوسف (علیہ السلام) اللہ کی دلیل نہ دیکھتے تو جس چیز کا قصد کیا تھا وہ کر گزرتے۔ یہ ترجمہ اکثر مفسرین کی تفسیر کے مطابق ہے اور جن لوگوں نے اسے لَوْ لَا کے ساتھ جوڑ کر یہ معنی بیان کئے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) نے قصد ہی نہیں کیا، ان مفسرین نے اسے عربی اسلوب کے خلاف قرار دیا ہے۔ اور یہ معنی بیان کئے ہیں کہ قصد تو یوسف (علیہ السلام) نے بھی کرلیا تھا لیکن ایک تو یہ اختیاری نہیں تھا بلکہ عزیز مصر کی بیوی کی ترغیب اور دباؤ اس میں شامل تھا۔ دوسرے یہ کہ گناہ کا قصد کرلینا عصمت کے خلاف نہیں ہے، اس پر عمل کرنا عصمت کے خلاف ہے (فتح القدیر، ابن کثیر) مگر محققین اہل تفسیر نے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) بھی اس کا قصد کرلیتے۔ اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھے ہوتے۔ یعنی انہوں نے اپنے رب کی برہان دیکھ رکھی تھی۔ اس لیے عزیز مصر کی بیوی کا قصد ہی نہیں کیا۔ بلکہ دعوت گناہ ملتے ہی پکار اٹھے معاذ اللہ۔ البتہ قصد نہ کرنے کے یہ معنی نہیں کہ نفس میں ہیجان اور تحریک ہی پیدا نہیں ہوئی۔ ہیجان اور تحریک پیدا ہوجانا الگ بات ہے۔ اور قصد کرلینا الگ بات ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر سرے سے ہیجان اور تحریک ہی پیدا نہ ہو تو ایسے شخص کا گناہ سے بچ جانا کوئی کمال نہیں۔ کمال تو تب ہی ہے کہ نفس کے اندر داعیہ اور تحریک پیدا ہو اور پھر انسان اس پر کنٹرول کرے اور گناہ سے بچ جائے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اسی کمال صبر و ضبط کا بےمثال نمونہ پیش فرمایا۔ 24۔ 2 یہاں پہلی تفسیر کے مطابق لولاء کا جواب محذوف ہے لفعل ماھم بہ یعنی اگر یوسف (علیہ السلام) رب کی برہان دیکھتے تو جو قصد کیا تھا کر گزرتے۔ یہ برہان کیا تھی ؟ اس میں مختلف اقوال ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ رب کی طرف سے کوئی ایسی چیز آپ کو دکھائی گئی کہ اسے دیکھ کر آپ نفس کے داعیئے کے دبانے اور رد کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کی اسی طرح حفاظت فرماتا ہے۔ 24۔ 3 یعنی جس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو برہان دکھا کر برائی یا اس کے ارادے سے بچا لیا، اسی طرح ہم نے اسے ہر معاملے میں برائی اور بےحیائی کی باتوں سے دور رکھنے کا اہتمام کیا۔ کیونکہ وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤] عصمت انبیاء کا مفہوم :۔ جب زلیخا نے اس دعوت میں اپنے آپ کو ناکام پایا اور اس میں اپنی مزید خفت محسوس کی تو اس نے اس بدکاری کے کام کو سرانجام دینے کا تہیہ کرلیا اور خود یوسف تک پہنچ کر دست درازی شروع کردی۔ اس آڑے وقت میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف کی خاص رہنمائی فرمائی اور ان کی نگہداشت فرمائی۔ اس وقت اللہ نے سیدنا یوسف کو کون سی دلیل یا برہان دکھائی تھی وہ وہی ہے جس کا سابقہ آیات میں ذکر ہوچکا ہے۔ یعنی سیدنا یوسف اپنے سابقہ جواب اور عزم پر ہی ڈٹے رہے۔ اس طرح اللہ نے انھیں اس بدفعلی کے ارتکاب سے محفوظ رکھا۔ یہیں سے عصمت انبیاء کی حقیقت معلوم ہوجاتی ہے یعنی وہ بھی بشر ہی ہوتے ہیں اور بشری تقاضوں سے مجبور ہو کر گناہ کا ارتکاب ان سے بھی ہوسکتا ہے۔ مگر اللہ انھیں ایسے کاموں سے بچائے رکھتا ہے اور ان سے کوئی چھوٹی موٹی لغزش ہو بھی جائے تو بذریعہ وحی ان کی اصلاح کردی جاتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ ۚ وَهَمَّ بِهَا : عزیز کی بیوی کا یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ ارادۂ بدی تو ” لام “ اور ” قَدْ “ سے (جو دونوں تحقیق کے لیے بمعنی قسم آتے ہیں) بلکہ سارے واقعہ ہی سے ظاہر ہے، البتہ یوسف (علیہ السلام) نے ارادہ کیا یا نہیں، اس میں مفسرین کی مختلف آراء ہیں۔ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ جس طرح روزہ دار کو ٹھنڈا پانی دیکھ کر اس کی رغبت ہوتی ہے مگر وہ روزے کی وجہ سے اس پر قابو پا لیتا ہے اور یہ ایک طبعی چیز ہے۔ اس قسم کا خیال یوسف (علیہ السلام) کے دل میں آگیا ہو تو کچھ بعید نہیں مگر ” بُرْهَانَ رَبِّهٖ “ دیکھنے کی برکت سے یوسف (علیہ السلام) نے اسے جھٹک دیا۔ مگر دوسری تفسیر جس پر زیادہ اطمینان ہوتا ہے، وہ یہی ہے جو ترجمے سے ظاہر ہے اور قرآن مجید میں ” لَوْلَا “ شرط کی جزا اس سے پہلے آنے کی مثال بھی موجود ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے متعلق فرمایا : ( ۭاِنْ كَادَتْ لَتُبْدِيْ بِهٖ لَوْلَآ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰي قَلْبِهَا) [ القصص : ١٠ ] ” بیشک وہ قریب تھی کہ اسے ظاہر کر ہی دیتی اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ہم نے اس کے دل پر بند باندھ دیا تھا۔ “ اگر یوسف (علیہ السلام) ارادہ کرچکے ہوتے اور برہانِ رب کے ذریعے سے ان کو ہٹایا جاتا تو آیت کے الفاظ یہ نہ ہوتے : (كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْۗءَ وَالْفَحْشَاۗءَ ) ” اسی طرح ہوا، تاکہ ہم اس سے برائی اور بےحیائی کو ہٹا دیں “ بلکہ یہ ہوتے : ” کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَہُ عَنِ السُّوْٓءِ وَالْفَحْشَاءِ “ کہ اسی طرح ہوا، تاکہ ہم اسے برائی اور بےحیائی سے ہٹا دیں۔ پھر اس واقعہ سے تعلق رکھنے والے ہر شخص نے جس طرح یوسف (علیہ السلام) کی بےگناہی کی شہادت دی اس کا تقاضا بھی یہی ہے، مثلاً 1 خود اللہ تعالیٰ : (كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْۗءَ وَالْفَحْشَاۗءَ ) 2 یوسف (علیہ السلام) : (ھِیَ رَاوَدَتْنِی) 3 شاہد ” قمیص کا معائنہ “ 4 عزیز مصر : (اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِــِٕيْنَ ) 5 شاہ مصر : (اِذْ رَاوَدْتُّنَّ يُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِهٖ ) 6 زنان مصر : (مَا عَلِمْنَا عَلَیْہ مِنْ سُوْءٍ ) 7 اور خود عزیز کی بیوی : (وَاِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ ) 8 خود یوسف (علیہ السلام) نے بعد میں فرمایا : (وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّيْ كَيْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَيْهِنَّ وَاَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِيْنَ ) کہ اگر تو مجھ سے ان کے فریب کو نہ ہٹائے گا تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا، یہ صریح دلیل ہے کہ وہ مائل نہیں ہوئے تھے۔ سب کی شہادتیں ہمارے سامنے ہیں۔ رہے وہ مفسرین جو یوسف (علیہ السلام) کو بلا دلیل گناہ کے عین کنارے پر پہنچا کر پیچھے ہٹاتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کو خود جواب دہ ہوں گے اور جو مفسرین ان بند دروازوں میں ہونے والی گفتگو بھی بڑی تفصیل سے بیان کرتے ہیں وہ شاید وہاں چھپ کر سنتے رہے ہوں گے، یا ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی وحی آئی ہوگی، کیونکہ قرآن و حدیث اور عقل و فطرت میں سے تو کوئی چیز ان مکالموں کی تائید نہیں کرتی۔ لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ : وہ رب کی دلیل کیا تھی ؟ اس کی تعیین میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحت کے ساتھ کوئی چیز ثابت نہیں ہے، البتہ مفسرین نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں جو محض اقوال ہیں۔ ہمارے استاذ مولانا محمد عبدہ (رض) فرماتے ہیں : ” ہوسکتا ہے کہ ایک نبی کے اخلاق کی بلندی اس کی اجازت نہ دیتی ہو کہ زنا جیسے برے کام پر آمادہ ہوں اور اسی کو یہاں ” بُرْهَانَ رَبِّهٖ “ سے تعبیر فرمایا ہو۔ “ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ : ” اَلْمُخْلِصِیْنَ “ لام کے کسرہ کے ساتھ ہو تو اخلاص والے، نیک بخت بندے مراد ہوں گے اور ” الْمُخْلَصِيْنَ “ لام کے فتحہ کے ساتھ ہو تو معنی ہوگا وہ جنھیں چن لیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خالص کرلیا ہے۔ یہاں لام کے فتحہ کے ساتھ ہے، یعنی وہ لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے چنے جانے کا شرف حاصل ہوا۔ مخلص بندہ ہونا ان دونوں باتوں کی علت ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے برائی کا ارادہ بھی نہیں کیا اور یہ کہ ہم نے برائی و بےحیائی کو ان سے ہٹا کر رکھا، کیوں ؟ اس لیے کہ وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھے، جن کے متعلق شیطان نے خود اعتراف کیا تھا کہ میں انھیں گمراہ نہیں کرسکوں گا، اس نے کہا تھا : (ۙاِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ ) [ الحجر : ٤٠ ] ” مگر ان میں سے تیرے وہ بندے جو خالص کیے ہوئے ہیں۔ “ اس ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کی طہارت چار بار بیان کی ہے : 1 ” لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْۗءَ “ 2 ” وَالْفَحْشَاۗءَ “ 3 ” اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا “ 4 ” الْمُخْلَصِيْنَ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in the previous verse was the great trial and test of Sayy¬idna Yusuf (علیہ السلام) in that the wife of the ` Aziz of Misr bolted the doors and tried to invite him to sin assembling together in that effort all circum¬stantial temptations to attract and to make him become indulgent. But, Almighty Allah kept this righteous young person standing steadfast in such severe trial. The details of what transpired have been given in this verse. Said here is that Zulaikha was busy persuing her obsessive thought any way, but emerging in the heart of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) too, there was some non-voluntary tilt towards her as would be the natural consequence in such a situation. But, it was exactly at that time that Allah Ta` ala brought before Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . His argument and proof, because of which, that non-voluntary tilt, rather than increase, actually died out totally - and, beating the pursuit, he ran. In this verse, the word: ھَم (hamm : thought) has been attributed to Zulaikha and Sayyidna Yusuf علیہ السلام both as in: وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا (And she desired him. And he had desired her). And we know that the ` hamm& or thought of Zulaikha was that of sin. This could have raised a doubt that the ` thought& of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) may also have been of a similar na¬ture - and this is, based on the consensus of the entire Muslim Ummah, contrary to the great station of a Nabiyy (prophet) and Rasul. The rea¬son is that the majority of the Muslim Ummah holds the standard belief that the noble prophets, may peace be upon them all, are protected against all sorts of sins, minor or major. As for a major sin, it can neither be committed by them intentionally, nor is it possible through inadvertence or mistake. However, the probability that a minor sin could be com¬mitted through inadvertence or mistake does exist - but, on this too, the noble prophets, may peace be upon them all, are not allowed to remain - instead, they are warned and made to move away from it. (Musamarah) Besides the fact that this question of the ` Ismah of Anbiya& (the state of being under Divine protection with which prophets are blessed) stands settled and proved under the authority of the Qur&an and Sunnah, it is also necessary, rationally too - because, should there remain the pro¬bability of a committal of sin by the Anbiya& (علیہم السلام) ، there remains no way one could place trust in the Din (religion) and Way (revelation) brought by them, and that their very coming into the world with a Divine Book revealed to them becomes totally fruitless. Therefore, Allah Ta` ala has kept every prophet of His totally ma` sum from every sin (ma` sum: technically, sinless or infallible; literally, protected by Allah). So, speaking generally, it stands established that the ` thought& which crossed the mind of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) was not a thought to be counted in the degree of sin. For details, we should understand that the word: ھَمّ (hamm: thought) in the Arabic language is used to convey two meanings: (1) Intend and be determined to do something; (2) a simple scruple in the heart or the appearance of a thought beyond one&s control. In the first situation, it is included under sin, and is accountable. However, should someone, after having made the intention, were to leave off this sin at his own choice just because of the fear of Allah, then, accord¬ing to the Hadith, Allah Ta’ ala replaces the sin and enters a good deed in his or her Book of Deeds. And in the second situation - that is, in the event there comes a simple scruple and non-voluntary thought, without any intention to put the thought into practice, for instance, a normal turn of thought towards cool water during the fasts of summer which is natural and experienced by almost everyone, though there is no inten¬tion there to go about drinking water while fasting. So, a thought like that is neither within one&s control, nor is there any accountability and sin in it. In a Hadith of the Sahih of Al-Bukhari, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said: ` Allah Ta` ala has forgiven the scruple and thought of sin for my Ummah - if not put into practice.& (Qurtubi) And in the Sahihayn (the two Sahihs, that is, Al-Bukhari and Muslim), it has been reported on the authority of Sayyidna Abu Hurayrah (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: ` Allah Ta’ ala says to the angels: When My servant intends to do good, write a good deed in his or her Book of Deeds just be-cause of that intention. And when he or she has completed this deed, write down ten good deeds. And if a servant intends to do a sin, then leaves it off due to the fear of Allah, write one good deed in his or her Book of Deeds in lieu of that sin. And if he or she does fall into that sin, write it as one sin only.& (Ibn Kathlr) Al-Qurtubi has, in his Tafsir, proved the use of the word: ھَمّ (&hamm&: thought) covering both these meanings through evidences from Arab usage and poetry. This tells us that the word: ھَمّ ` hamm& appearing in this verse has been attributed to both Zulaikha and Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) but there is a big difference between the ھَمّ ` hamm& or thought of both. The former is included under sin while the other has the status of a non -voluntary scruple which is not included under sin. The descriptive style of the Holy Qur&an is itself a testimony to this - because, had their ھَمّ ` hamm& or thought been identical, it would have been sufficient to say it in a dual form, such as: وَلَقَدْ هَمَّا that is, the two of them desired, which was brief too. But, leaving this option aside, , the ` hamm& or thought of both was described separate from each other: هَمَّتْ بِهِ ۖ وَهَمَّ بِهَا (And she certainly desired him. And he had desired her). Then, added to the هَمَّ ` hamm& or thought of Zulaikha was the word of emphasis: لَقَدْ (laqad). With the هَمَّ ` hamm& or thought of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، the emphasis of the letters: لَام (lam) and: قَد (qad) is not there. This tells us that, through this particular expression, the purpose is to emphasize that the هَمَّ ` hamm& or thought of Zulaikha was of some other nature while that of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، of some other. According to a Hadith in the Sahih of Muslim, when this test was faced by Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، the angels submitted before Allah Ta ala: This sincere servant of Yours is thinking of sin, though he knows its curse fully well. Allah Ta ala said: You wait. If he commits this sin, write what he has done in his Book of Deeds. And if he abstains from commit¬ting it, do not record it a sin, instead, enter a good deed in his Book of Deeds - because, he has surrendered his desire only out of fear for Me (which is doing good at its best) (Qurtubi) To sum up, it can be said that the thought or tilt generated in the heart of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) was simply at the level of a non-voluntary scruple, which is not included under sin. Then, by acting against this scruple, his rank with Allah Ta ala rose much higher. At this stage, some commentators have also pointed out to another construction of the verse. According to them, the statement: لَوْلَا أَن رَّ‌أَىٰ بُرْ‌هَانَ رَ‌بِّهِ & Of (Had he not seen the proof from his Lord) which succeeds is really supposed to precede, in which case, the verse would mean that Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) would have also desired her had he not seen the proof from his Lord - but, because he had seen the proof from his Lord, he remained safe from this ھَمّ ` hamm& or thought. Thematically, this too is correct. But, some other commentators have declared this construction as contrary to the rules of the Arabic grammar. Thus, considering this aspect, the first Tafsir is weightier as it makes the Taqwa and chastity of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) rise to much higher levels since he, despite the human in¬stinct, managed to stay safe from sin. As for the statement: لَوْلَا أَن رَّ‌أَىٰ بُرْ‌هَانَ رَ‌بِّهِ & (Had he not seen the proof from his Lord) at the end, its principal clause is understood and it means: Had he not seen the proof from his Lord, he would have remained in¬dulged in that thought, but after having seen the proof from his Lord, that non-voluntary thought and scruple too was eliminated from his heart. The Holy Qur’ an does not clarify as to what was that بُرھَانَ ` burhan& or proof from his Lord which appeared before him. Therefore, statements of commentators differ in this matter. Sayyidna Abdullah ibn Said ibn Ju¬bayr (رض) ، Mujahid, Muhammad ibn Sirin, Hasan al-Basri رحمۃ اللہ علیہم and others have said that Allah Ta’ ala made the face of Sayyidna Yaqub (علیہ السلام) appear miraculously before him in that private quarter showing him with his finger in his mouth and warning him. Some commentators say that it was the face of the ` Aziz of Misr which was presented before him. Some others have said: When Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) looked towards the ceiling, he saw the following verse of the Qur’ an written there: لَا تَقْرَ‌بُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا that is, do not go (even) near adultery because it is a grave act of immodesty and a very evil way (for human society). Some other commentators have said that Zulaikha had an idol in her house. When she threw a curtain on this idol, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) asked the reason for it. She said: This is my object of worship. I cannot dare commit sin before it. Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) said: My Rabb, the object of my worship certainly deserves that far more modesty be shown before Him for no curtain can stop His seeing. Finally, there are commentators who have said that the station of the prophet he was on and the knowl¬edge of the Divine he had was itself the proof from his Lord. After reporting all these sayings, what has been said by the Imam of Tafsir, Ibn Jarir, has been adjudged authoritatively as most-favoured and doubt-free. And he has said: As much as the Holy Qur’ an has to tell should be what has to be considered sufficient. In other words, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) saw something which made the scruple in his heart go away. To determine this precisely, there could be all those probabilities men¬tioned by the commentators - but, none of these can be held as certain absolutely. (Ibn Kathir) At the end of the verse it was said: كَذَٰلِكَ لِنَصْرِ‌فَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِين (This We did to turn away from him evil and lewdness). Here, the word: السُّوءَ evil) means minor sin (Saghirah) and: الْفَحْشَاءَ (al-fahsha&: lewdness) means major sin (Kabirah). (Mazhari) Noteworthy here is that the text mentions ` turning away evil and lewdness from Sayyidna Yusuf& (علیہ السلام) - and not ` Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) from evil and lewdness.& The hint implied here is that Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) was, because of his great station of prophethood, already removed from this sin as far as he was personally concerned, but evil and immodesty had encircled him. So Allah broke that trap apart. These words of the Holy Qur’ an are also a testimony proving that Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) did not succumb to even the minor-most sin and the thought which went ac-cross his heart was not included under sin, otherwise the relevant ex¬pression would have been: ` We saved Yusuf (علیہ السلام) from sin& - and not: ` Turn away from him evil and lewdness.& Said in the last sentence is: إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِين (Surely, he is among Our chosen slaves). The word: مُخْلَصِين (mukhlasin) is the plural of mukhlas which means chosen. It means that Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) is among the chosen servants of Allah who has been appointed to the mis¬sion of prophethood to work for the betterment of the creation of Allah. Such people have Allah&s own security shield around them so that they would not fall a victim to any evil. The Shaytan has himself admitted that he cannot touch the chosen servants of Allah. He said: فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٨٢﴾ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِين That is, by Your honour and power, I shall put all those humans on the wrong track, except Your servants, the ones cho¬sen by You - 15:40. In some readings (Qira&at), this word has appeared as: مُخْلَصِين (mukh¬lsin) as well. Mukhlis means a person who obeys and worships Allah with Ikhlas (for which there is no word in English. The nearest is sincer¬ity which must be genuine, unalloyed, pure and totally honest). Ikhlas means that, in this obedience to Allah and in this worship of Him, there should be no intrusion of worldly or personal desires, interests, love of recognition and office and things like that. If so, the verse would mean: Whoever is mukhlis (absolutely sincere) in his ` Aural (deed) and ` Ibadah (worship), Allah Ta` ala will help him in remaining safe from sins. In this verse, Allah Ta` ala has chosen to use two words: سُّوءَ (su& ) and: فَحْشَاءَ (fahsha& ). Literally, su& means evil and it refers to minor (saghirah) sins. And fahsha& means lewdness or immodesty and refers to major (ka¬birah) sins. This tells us that Allah Ta` ala kept Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) protected from both kinds of sins, saghirah and kabirah. Also clarified here is that the ‘hamm’ or thought attributed to Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) in the Qur&an was simply a ` hamm& or thought at the level of non-voluntary scruple, which is included neither under Kabirah sin, nor under Saghirah - in fact, is excused.

خلاصہ تفسیر : اور اس عورت کے دل میں ان کا خیال (عزم کے درجہ میں) جم ہی رہا تھا اور ان کو بھی اس عورت کا کچھ کچھ خیال (امر طبعی کے درجہ میں) ہو چلا تھا (جو کہ اختیار سے باہر ہے جیسے گرمی کے روزہ میں پانی کی طرف میلان طبعی ہوتا ہے گو روزہ توڑنے کا وسوسہ تک بھی نہیں آتا، البتہ) اگر اپنے رب کی دلیل کو (یعنی اس فعل کے گناہ ہونے کی دلیل کو جو کہ حکم شرعی ہے) انہوں نے دیکھا ہوتا (یعنی ان کو شریعت کا علم مع قوت عملیہ کے حاصل نہ ہوتا) تو زیادہ خیال ہوجانا عجب نہ تھا (کیونکہ اس کے وداعی اور اسباب سب قوی جمع تھے مگر) ہم نے اسی طرح ان کو علم دیا تاکہ ہم ان سے صغیرہ اور کبیرہ گناہ کو دور رکھیں (یعنی ارادہ سے بھی بچا لیا اور فعل سے بھی کیونکہ) وہ ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھے، معارف و مسائل : پچھلی آیت میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا عظیم ابتلاء و امتحان مذکور تھا کہ عزیز مصر کی عورت نے گھر کے دروازے بند کر کے ان کو گناہ کی طرف بلانے کی کوشش کی اور اپنی طرف راغب کرنے اور مبتلا کرنے کے سارے ہی اسباب جمع کر دئیے مگر رب العزت نے اس نوجوان صالح کو ایسے شدید ابتلاء میں ثابت قدم رکھا اس کی مزید تفصیل اس آیت میں ہے کہ زلیخا تو گناہ کے خیال میں لگی ہوئی تھی ہی یوسف (علیہ السلام) کے دل میں بھی انسانی فطرت کے تقاضے سے کچھ کچھ غیر اختیاری میلان پیدا ہونے لگا مگر اللہ تعالیٰ نے عین اس وقت میں اپنی حجت وبرہان یوسف (علیہ السلام) کے سامنے کردی جس کی وجہ سے وہ غیر اختیاری میلان آگے بڑہنے کے بجائے بالکل ختم ہوگیا اور وہ پیچھا چھڑا کر بھاگے اس آیت میں لفظ ہم بمعنی خیال زلیخا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) دونوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ ۚ وَهَمَّ بِهَا اور یہ معلوم ہے کہ زلیخا کا ہم یعنی خیال گناہ کا تھا اس سے یوسف (علیہ السلام) کے متعلق بھی ایسے ہی خیال کا وہم ہوسکتا تھا اور یہ باجماع امت شان نبوت و رسالت کے خلاف ہے کیونکہ جمہور امت اس پر متفق ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) صغیرہ اور کبیرہ ہر طرح کے گناہ سے معصوم ہوتے ہیں کبیرہ گناہ تو نہ قصدا ہوسکتا ہے نہ سہوا وخطاء کی راہ سے ہوسکتا ہے البتہ صغیرہ گناہ و سہو وخطاء کے طور پر سرزد ہوجانے کا امکان ہے مگر اس پر بھی انبیاء (علیہم السلام) کو قائم نہیں رہنے دیا جاتا بلکہ متنبہ کر کے اس سے ہٹا دیا جاتا ہے (مسامرہ) اور یہ مسئلہ عصمت قرآن وسنت سے ثابت سے ثابت ہونے کے علاوہ عقلا بھی اس لئے ضروری ہے کہ اگر انبیاء (علیہم السلام) سے گناہ سرزد ہوجانے کا امکان احتمال رہے تو ان کے لائے ہوئے دین اور وحی پر اعتماد کا کوئی راستہ نہیں رہتا اور ان کی بعثت اور ان پر کتاب نازل کرنے کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہتا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر پیغمبر کو ہر گناہ سے معصوم رکھا ہے اس لئے اجمالی طور پر یہ تو متعین ہوگیا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جو خیال پیدا ہوا وہ گناہ کے درجہ کا خیال نہ تھا تفصیل اس کی یہ ہے کہ عربی زبان میں لفظ ہم ّدو معنی کے لئے بولا جاتا ہے ایک کسی کام کا قصد و ارادہ اور عزم کرلینا دوسرے محض دل میں وسوسہ اور غیراختیاری خیال پیدا ہوجانا پہلی صورت گناہ میں داخل اور قابل مواخذہ ہے ہاں اگر قصد و ارادہ کے بعد خالص اللہ تعالیٰ کے خوف سے کوئی شخص اس گناہ کو باختیار خود چھوڑ دے تو حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کی جگہ اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی درج فرما دیتے ہیں اور دوسری صورت کہ محض وسوسہ اور غیراختیاری خیال آجائے اور فعل کا ارادہ بالکل نہ ہو جیسے گرمی کے روزہ میں ٹھنڈے پانی کی طرف طبعی میلان غیر اختیاری سب کو ہوجاتا ہے حالانکہ روزہ میں پینے کا ارادہ بالکل نہیں ہوتا اس قسم کا خیال نہ انسان کے اختیار میں ہے نہ اس پر کوئی مواخذہ اور گناہ ہے، صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لئے گناہ کے وسوسہ اور خیال کو معاف کردیا ہے جبکہ وہ اس پر عمل نہ کرے (قرطبی) اور صحیحیں میں بروایت ابوہریرہ (رض) منقول ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ میرا بندہ جب کسی نیکی کا ارادہ کرے تو صرف ارادہ کرنے سے اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھ دو اور جب وہ یہ نیک عمل کرلے تو دس نیکیاں لکھو اور اگر بندہ کسی گناہ کا ارادہ کرے مگر پھر خدا کے خوف سے چھوڑ دے تو گناہ کے بجائے اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھ دو اور اگر وہ گناہ کر گذرے تو صرف ایک ہی گناہ لکھو (ابن کثیر) تفسیرقرطبی میں لفظ ہَمّ کا ان دونوں معنی کے لئے استعمال عرب کے محاورات اور اشعار کی شہادتوں سے ثابت کیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اگرچہ آیت میں لفظ ہم زلیخا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) دونوں کے لئے بولا گیا مگر ان دونوں کے ہم یعنی خیال میں بڑا فرق ہے پہلا گناہ میں داخل ہے اور دوسرا غیر اختیاری وسوسہ کی حیثیت رکھتا ہے جو گناہ میں داخل نہیں قرآن کریم کا اسلوب بیان بھی خود اس پر شاہد ہے کیونکہ دونوں کا ہم و خیال اگر ایک ہی طرح کا ہوتا تو اس جگہ بصیغہ تثنیہ وَلَقَدْ هَمَّا کہہ دیا جاتا جو مختصر بھی تھا اس کو چھوڑ کر دونوں کے ہم و خیال کا بیان الگ الگ فرمایا هَمَّتْ بِهٖ ۚ وَهَمَّ بِهَا اور زلیخا کے ہم و خیال کے ساتھ تاکید کے الفاظ لقد کا اضافہ کیا یوسف (علیہ السلام) کو یہ ابتلاء پیش آیا تو فرشتوں نے اللہ جل شانہ سے عرض کی کہ آپ کا یہ مخلص بندہ گناہ کے خیال میں ہے حالانکہ وہ اس کے وبال کو خوب جانتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انتظار کرو اگر وہ یہ گناہ کرلے تو جیسا کیا ہے وہ اس کے نامہ اعمال میں لکھ دو اور اگر وہ اس کو چھوڑ دے تو گناہ کے بجائے اس کے نامہ اعمال میں نیکی درج کرو کیونکہ اس نے صرف میرے خوف سے اپنی خواہش کو چھوڑا ہے (جو بہت بڑی نیکی ہے) (قرطبی) فیصل خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دل میں جو خیال یا میلان پیدا ہوا وہ محض غیر اختیاری وسوسہ کے درجہ میں تھا جو گناہ میں داخل نہیں پھر اس وسوسہ کے خلاف عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا درجہ اور زیادہ بلند ہوگیا، اور بعض حضرات مفسرین نے اس جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ کلام میں تقدیم و تاخیر واقع ہوئی ہے لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ جو بعد میں مذکور ہے وہ اصل میں مقدم ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) کو بھی خیال پیدا ہوجاتا اگر اللہ کی حجت وبرہان کو نہ دیکھ لیتے لیکن برہان رب کو دیکھنے کی وجہ سے وہ اس ہم اور خیال سے بھی بچ گئے مضمون یہ بھی درست ہے مگر بعض حضرات نے اس تقدیم و تاخیر کو قواعد زبان کے خلاف قرار دیا ہے اور اس لحاظ سے بھی پہلی ہی تفسیر راجح ہے کہ اس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی شان تقویٰ و طہارت اور زیادہ بلند ہوجاتی ہے کہ طبعی اور بشری تقاضہ کے باوجود وہ گناہ سے محفوظ رہے۔ اس کے بعد جو یہ ارشاد فرمایا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ اس کی جزا محذوف ہے اور معنی یہ ہیں کہ اگر وہ اپنے رب کی برہان اور حجت کو نہ دیکھتے تو اس خیال میں مبتلا رہتے مگر برہان رب دیکھ لینے کی وجہ سے وہ غیر اختیاری خیال اور وسوسہ بھی قلب سے نکل گیا، قرآن کریم نے یہ واضح نہیں فرمایا کہ وہ برہان ربی جو یوسف (علیہ السلام) کے سامنے آئی کیا چیز تھی اسی لئے اس میں حضرات مفسرین کے اقوال مختلف ہیں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ، مجاہد (رح)، سعید بن جبیر (رح) محمد بن سیرین (رح)، حسن بصری (رح)، وغیرہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ اس خلوت گاہ میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی صورت اس طرح ان کے سامنے کردی کہ وہ اپنی انگلی دانتوں دبائے ہوئے ان کو متنبہ کر رہے ہیں اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ عزیز مصر کی صورت ان کے سامنے دی گئی بعض نے فرمایا کہ یوسف (علیہ السلام) کی نظر چھت کی طرف اٹھی تو اس میں یہ آیت قرآن لکھی ہوئی دیکھی (آیت) لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا یعنی زنا کے پاس نہ جاؤ کیونکہ وہ بڑی بےحیائی (اور قہر خداوندی کا سبب) اور (معاشرہ کے لئے) بہت برا راستہ ہے بعض مفسریں نے فرمایا کہ زلیخا کے مکان میں ایک بت تھا اس نے اس بت پر پردہ ڈالا تو یوسف (علیہ السلام) نے وجہ پوچھی اس نے کہا کہ یہ میرا معبود ہے اس کے سامنے گناہ کرنے کی جرأت نہیں یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا معبود اس سے زیادہ حیا کا مستحق ہے اس کی نظر کو کوئی پردہ نہیں روک سکتا اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یوسف (علیہ السلام) کی نبوت اور معرفت آلہیہ خود ہی برہان رب تھی، امام تفسیر ابن جریر (رح) نے ان تمام اقوال کو نقل کرنے کے بعد جو بات فرمائی ہے وہ سب اہل تحقیق کے نزدیک نہایت پسندیدہ اور بےغبار ہے وہ یہ ہے کہ جتنی بات قرآن کریم نے بتلا دی ہے صرف اسی پر اکتفاء کیا جائے یعنی یہ کہ یوسف (علیہ السلام) نے کوئی ایسی چیز دیکھی جس سے وسوسہ ان کے دل سے جاتا رہا اس چیز کی تعیین میں وہ سب احتمال ہو سکتے ہیں جو حضرات مفسرین نے ذکر کئے ہیں لیکن قطعی طور پر کسی کو متعین نہیں کیا جاسکتا (ابن کثیر) (آیت) كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْۗءَ وَالْفَحْشَاۗءَ ۭ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ یعنی ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو یہ برہان اس لئے دکھائی کہ ان سے برائی اور بےحیائی کو ہٹا دیں برائی سے مراد صغیرہ گناہ اور بےحیائی سے کبیرہ گناہ ہے (مظہری) یہاں یہ بات قابل نظر ہے کہ برائی اور بےحیائی کو یوسف (علیہ السلام) سے ہٹا دینے کا ذکر فرمایا ہے یوسف (علیہ السلام) کو برائی اور بےحیائی سے ہٹانا نہیں فرمایا جس میں اشارہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) تو اپنی شان نبوت کی وجہ سے اس گناہ سے خود ہی ہٹے ہوئے تھے مگر برائی اور بےحیائی نے ان کو گھیر لیا تھا ہم نے اس کے جال کو توڑ دیا قرآن کریم کے یہ الفاظ بھی اس پر شاہد ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) کسی ادنی گناہ میں بھی مبتلا نہیں ہوئے اور انکے دل میں جو خیال پیدا ہوا تھا وہ گناہ میں داخل نہ تھا ورنہ یہاں تعبیر اس طرح ہوتی کہ ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو گناہ سے بچا دیا نہ یہ کہ گناہ کو ان سے ہٹا دیا، کیونکہ یوسف (علیہ السلام) ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے ہیں لفظ مخلصین اس جگہ بفتح لام مخلص کی جمع ہے جس کے معنی منتخب کے ہیں مراد یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے ان بندوں میں سے ہیں جن کو خود حق تعالیٰ نے اپنے کار رسالت اور اصلاح خلق کے لئے انتخاب فرمایا ہے ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظتی پہرہ ہوتا ہے کہ وہ کسی برائی میں مبتلا نہ ہو سکیں خود شیطان نے بھی اپنے بیان میں اس کا اقرار کیا کہ اللہ کے منتخب بندوں پر اس کا بس نہیں چلتا اس نے کہا قال فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ یعنی قسم ہے تیری عزت وقوت کی کہ میں ان سب انسانوں کو گمراہ کروں گا بجز ان بندوں کے جن کو آپ نے منتخب فرما لیا ہے، اور بعض قراءتوں میں یہ لفظ بکسر لام مُخْلَصِيْنَ بھی آیا ہے اور مخلص کے معنی یہ ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت و فرمانبرداری اخلاص کے ساتھ کرے اس میں کسی دنیاوی اور نفسانی غرض و شہرت وجاہ وغیرہ کا دخل نہ ہو اس صورت میں مراد اس آیت کی یہ ہوگی کہ جو شخص بھی اپنے عمل اور عبادت میں مخلص ہو اللہ تعالیٰ گناہوں سے بچنے میں اس کی امداد فرماتے ہیں ، اس آیت میں حق تعالیٰ نے دو لفظ سوء اور فحشاء کے استعمال فرمائے ہیں سوء کے لفظی معنی برائی کے ہیں اور مراد اس سے صغیرہ گناہ ہے اور فحشاء کے معنی بےحیائی کے ہیں اس سے مراد کبیرہ گناہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کبیرہ اور صغیرہ دونوں قسم کے گناہوں سے محفوظ رکھا ، اسی سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف قرآن میں جس ہمّ یعنی خیال کو منسوب کیا ہے وہ محض غیراختیاری وسوسہ کے درجہ کا ہمّ تھا جو یہ کبیرہ گناہ میں داخل ہے نہ صغیرہ میں بلکہ معاف ہے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہٖ۝ ٠ۚ وَہَمَّ بِہَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْہَانَ رَبِّہٖ۝ ٠ۭ كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْۗءَ وَالْفَحْشَاۗءَ۝ ٠ۭ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ۝ ٢٤ همم الهَمُّ الحَزَنُ الذي يذيب الإنسان . يقال : هَمَمْتُ الشّحم فَانْهَمَّ ، والهَمُّ : ما هممت به في نفسک، وهو الأصل، وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف/ 24] ( ھ م م ) الھم کے معنی پگھلا دینے والے غم کے ہیں اور یہ ھممت الشحم فا نھم کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے چربی کو پگھلا یا چناچہ وہ پگھل گئی اصل میں ھم کے معنی اس ارادہ کے ہیں جو ابھی دل میں ہو قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف/ 24] اور اس عورت نے ان کا قصد کیا وہ وہ اس کا قصد کرلیتے۔ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ بره البُرْهَان : بيان للحجة، وهو فعلان مثل : الرّجحان والثنیان، وقال بعضهم : هو مصدر بَرِهَ يَبْرَهُ : إذا ابیضّ ، ورجل أَبْرَهُ وامرأة بَرْهَاءُ ، وقوم بُرْهٌ ، وبَرَهْرَهَة «1» : شابة بيضاء . والبُرْهَة : مدة من الزمان، فالبُرْهَان أوكد الأدلّة، وهو الذي يقتضي الصدق أبدا لا محالة، وذلک أنّ الأدلة خمسة أضرب : - دلالة تقتضي الصدق أبدا . - ودلالة تقتضي الکذب أبدا . - ودلالة إلى الصدق أقرب . - ودلالة إلى الکذب أقرب . - ودلالة هي إليهما سواء . قال تعالی: قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة/ 111] ، قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء/ 24] ، قَدْ جاءَكُمْ بُرْهانٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ النساء/ 174] . ( ب ر ہ ) البرھان کے معنی دلیل اور حجت کے ہیں اور یہ ( رحجان وثنیان کی طرح فعلان کے وزن پر ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ برہ یبرہ کا مصدر ہے جس کے معنی سفید اور چمکنے کے ہیں صفت ابرہ مونث برھاء ج برۃ اور نوجوان سپید رنگ حسینہ کو برھۃ کہا جاتا ہے البرھۃ وقت کا کچھ حصہ لیکن برھان دلیل قاطع کو کہتے ہیں جو تمام دلائل سے زدر دار ہو اور ہر حال میں ہمیشہ سچی ہو اس لئے کہ دلیل کی پانچ قسمیں ہیں ۔ ( 1 ) وہ جو شخص صدق کی مقتضی ہو ( 2 ) وہ جو ہمیشہ کذب کی مقتضی ہو ۔ ( 3) وہ جو اقرب الی الصدق ہو ( 4 ) جو کذب کے زیادہ قریب ہو ( 5 ) وہ جو اقتضاء صدق وکذب میں مساوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة/ 111] اے پیغمبر ان سے ) کہدو کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء/ 24] کہو کہ اس بات پر ) اپنی دلیل پیش کرویہ ( میری اور ) میرے ساتھ والوں کی کتاب بھی ہے ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ فحش الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] ( ف ح ش ) الفحش والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ خلص الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه، وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] ( خ ل ص ) الخالص ( خالص ) خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة/ 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے ولقد ھمت بہ وھم بھا وہ اس کی طرف بڑھی اور یوسف بھی اس کی طرف بڑھا ۔ حسن سے مروی ہے کہ وہ یعنی عزیز مصر کی بیوی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف عزیمت یعنی پکے ارادے کے ساتھ بڑھی تھی اور حضرت یوسف اس کی طرف شہوت یعنی کشش کے تحت بڑھے تھے انہوں نے عزم نہیں کیا تھا۔ ایک قول کے مطابق طرفین ایک دوسرے کی طرف کشش کے تحت بڑھے تھے اس لیے کہ محاورے کے مطابق ہم بالشی کا مفہوم اس چیز کی قربت اختیار کرنا ہوتا ہے اس سے جا کر مل جانا نہیں ہوتا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا اس کی طرف بڑھنا عزم اور پکے ارادے کے تحت نہیں تھا بلکہ صرف کشش کی بنا پر تھا اس کی دلیل یہ قول باری ہے۔ معاذ اللہ انہ ربی احسن مثوی ۔ خدا کی پناہ ! میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی اور میں یہ کام کروں ! ! نیز یہ قول باری کذلک لنصرف عنہ السوء والفحشاء انہ من عبادنا المخلصین ایسا ہوا تا کہ ہم اس سے بدی اور بےحیائی کو دور کردیں ۔ در حقیقت وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔ آیت میں یہ خبر دی گئی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا دامن ارتکاب معصیت کے پختہ عزم سے پاک تھا۔ ایک قول کے مطابق آیت میں تقدیم و تاخیر ہے۔ مفہوم یہ ہے اگر وہ اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا تو اسکی طرف بڑھتا لیکن اس تاویل میں یہ قباحت ہے کہ حرف لولا کے جواب کا اس پر مقدم ہوجانا جائز نہیں ہوتا اس لیے کہ نحوییین اس فقرے کو درست قرار نہیں دیتے۔ قد اتیتک لولازید اس میں لولا کا جواب اس پر مقدم ہے تا ہم یہ ہوسکتا ہے کہ حرف لو لا کی تقدیم مقدرما ن لی جائے۔ برھان ربہ سے مراد قول باری ہے لولا ان را برھان ربہ اگر وہ اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا حضرت ابن عباس (رض) ، حسن بصری ، سعید بن جبیر اور مجاہد کے قول کے مطابق حضرت یوسف کو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا چہرہ نظر آیا، آپ نے دانتوں میں انگلیاں دبا رکھی تھیں ۔ قتادہ کے قول کے مطابق حضرت یوسف کے کانوں میں یہ آواز آئی ۔ یوسف تمہارا نام انبیاء کی فہرست میں درج ہے اور تم چلے ہو سفہاء و الاکام کرنے ! حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو فرشتے کی صورت نظر آ گئی تھی ۔ محمد بن کعب کے قول کے مطابق برہان سے مراد وہ تعلیم ہے جو زنا کی سزا کے متعلق انہیں ملی تھی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤) اور اس عورت کے دل میں ان کا خیال تو جم ہی رہا تھا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بھی کچھ کچھ خیال امر طبعی کے درجہ ہوچلا تھا اگر ان کے سامنے اپنے پروردگار کے گناہ دینے کا مشاہدہ نہ ہوتا جو کہ اس فعل پر لازم ہے، اور کہا گیا ہے کہ اس وقت انہوں نے اپنے والد حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی صورت کو دیکھا مگر ہم نے اسی طرح علم دیا تھا تاکہ ان سے صغیرہ اور کبیرہ گناہ کو دور رکھیں (کہ ارادہ سے بھی بچایا اور فعل سے بھی بچایا) کیوں کہ وہ ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھے۔ یعنی اس کام سے معصوم و محفوظ رہنے والوں میں سے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ ۚ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ ) حضرت یوسف جوان تھے اور ممکن تھا طبع بشری کی بنیاد پر آپ کے دل میں بھی کوئی ایسا خیال جنم لیتا مگر اللہ نے اس نازک موقع پر آپ کی خصوصی مدد فرمائی اور اپنی خصوصی نشانی دکھا کر آپ کو کسی منفی خیال سے محفوظ رکھا۔ یہ نشانی کیا تھی اس کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں البتہ تورات میں اس کی وضاحت یوں بیان کی گئی ہے کہ عین اس موقع پر حضرت یعقوب کی شکل دیوار پر ظاہر ہوئی اور آپ نے انگلی کا اشارہ کر کے حضرت یوسف کو باز رہنے کے لیے کہا۔ (كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْۗءَ وَالْفَحْشَاۗءَ ) یعنی ہم نے اپنی نشانی دکھا کر حضرت یوسف سے برائی اور بےحیائی کا رخ پھیر دیا اور یوں آپ کی عصمت و عفت کی حفاظت کا خصوصی اہتمام کیا۔ (اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ ) واضح رہے کہ یہاں لفظ مُخْلَص (لام کی زبر کے ساتھ) آیا ہے۔ مُخلِص اور مخلص کے فرق کو سمجھ لیجیے۔ مُخلِص اسم الفاعل ہے یعنی خلوص و اخلاص سے کام کرنے والا اور مخلص وہ شخص ہے جس کو خالص کرلیا گیا ہو۔ اللہ کے مخلص وہ ہیں جن کو اللہ نے اپنے لیے خالص کرلیا ہو ‘ یعنی اللہ کے خاص برگزیدہ اور چہیتے بندے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22. “Evidence of his Lord” means inspiration from Allah to rouse his conscience to the fact that it was not worthy of him to yield to the temptation by the woman. As regards to the question, “What was that evidence”, it has been stated in the preceding verse, that is: My Lord has shown much kindness towards me. Should I, then, misbehave like this? Such workers of iniquity never fare well. This was the divine evidence that saved Prophet Joseph in the prime of youth from that great temptation. The significance of “And he would have desired her, if it had not been that he saw the evidence (sign) of his Lord” is this: “Even a Prophet like Joseph could not have been able to save himself from sin, had not Allah guided him rightly with His evidence. Incidentally, this verse makes plain the nature of the immunity of Prophets from sin. It does not mean that a Prophet is infallible and incapable of committing any error, offense or sin or doing wrong or making a mistake. What it means is this: though a Prophet possesses passions, emotions, and carnal desires like other human beings, and is capable of committing a sin, he is so virtuous and God fearing that he never deliberately cherishes any evil intentions, for he is endowed with such great arguments from his Lord as do not allow the lusts of the flesh overpower the voice of his conscience. And if ever he succumbs inadvertently to any of the human weaknesses, Allah at once sends a revelation to him to set him on the right path. For the consequences of his error do not remain confined to his own person but react on the whole mankind, for even his slightest error might mislead the world to the most horrible sins. 23. “That We might turn away from him evil and lewdness” implies two things. First, it was because of Our grace that he could perceive Our evidence, and save himself from sin, for We willed to remove indecency and immodesty from Our chosen servant. The second meaning is rather deeper: This incident took place in the life of Joseph because this was essential for his spiritual training: It was Our will to pass him through this hard test so that he should become immune from indecency and immodesty, for he would have to apply all his powers of piety to withstand such a great temptation, and thus become really so strong as not to yield to such things in future as well. The importance and the need of such a hard training becomes quite obvious, if we keep in view the moral conditions of the Egyptian society of that period. We can have a glimpse of this from (Ayats 30-32). It appears that the women in general and the ladies of high society in particular, enjoyed almost the same sexual freedom as is rampant today in the civilized West and in the Westernized East. Allah made arrangements for the special training of Prophet Joseph in the house of his master because he had to perform his divine mission in a perverted society, and that too as a ruler and not as a common man. It is thus obvious from the behavior of those ladies of high rank, who did not feel any shame nor modesty in openly admiring the beauty of the young slave and from that of the lady of the house who was not ashamed of confessing openly that she did her best to tempt him and would continue to do so, that they would have done all they could to allure the young handsome ruler. Thus Allah not only made Prophet Joseph strong enough to resist such temptations in future by passing him through the hard test, but also filled the ladies with despair of gaining any success in this matter.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :22 برہان کے معنی ہیں دلیل اور حجت کے ۔ رب کی برہان سے مراد خدا کی سجھائی ہوئی دلیل ہے جس کی بنا پر حضرت یوسف علیہ السلام کی ضمیر نے ان کے نفس کو اس بات کا قائل کیا کہ اس عورت کی دعوت عیش قبول کرنا تجھے زیبا نہیں ہے ۔ اور وہ دلیل تھی کیا ؟ اسے پچھلے فقرے میں بیان کیا جاچکا ہے ، یعنی یہ کہ ”میرے رب نے تو مجھے یہ منزلت بخشی اور میں ایسا برا کام کروں ، ایسے ظالموں کو کبھی فلاح نصیب نہیں ہوا کرتی“ ۔ یہی وہ برہان حق تھی جس نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو اس نوخیز جوانی کے عالم میں ایسے نازک موقع پر معصیت سے باز رکھا ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ ” یوسف علیہ السلام بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا “ تو اس سے عصمت انبیاء کی حقیقت پر بھی پوری روشنی پڑجاتی ہے ۔ نبی کی معصومیت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس سے گناہ اور لغزش و خطا کی قوت و استعداد سلب کر لی گئی ہے حتی کہ گناہ کا صدور اس کے امکان ہی میں نہیں رہا ہے ۔ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی اگرچہ گناہ کرنے پر قادر ہوتا ہے لیکن بشریت کی تمام صفات سے متصف ہونے کے باوجود ، اور جملہ انسانی جذبات ، احساسات اور خواہشات رکھتے ہوئے بھی وہ ایسا نیک نفس اور خدا ترس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر کبھی گناہ کا قصد نہیں کرتا ۔ وہ اپنے ضمیر میں اپنے رب کی ایسی ایسی زبردست حجتیں اور دلیلیں رکھتا ہے جن کے مقابلہ میں خواہش نفس کبھی کامیاب نہیں ہونے پاتی ۔ اور اگر نادانستہ اس سے کوئی لغزش سرزد ہو جاتی ہے تو اللہ تعالی فورا وحی جلی کے ذریعہ سے اس کی اصلاح فرما دیتا ہے ، کیونکہ اس کی لغزش تنہا ایک شخص کی لغزش نہیں ہے ، ایک پوری امت کی لغزش ہے ۔ وہ راہ راست سے بال برابر ہٹ جائے تو دنیا گمراہی میں میلوں دور نکل جائے ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :23 اس ارشاد کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا دلیل رب کو دیکھنا اور گناہ سے بچ جانا ہماری توفیق و ہدایت سے ہوا کیونکہ ہم اپنے اس منتخب بندے سے بدی اور بے حیائی کو دور کرنا چاہتے تھے ۔ دوسرا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے ، اور یہ زیادہ گہرا مطلب ہے کہ یوسف علیہ السلام کو یہ معاملہ جو پیش آیا تو یہ بھی دراصل ان کی تربیت کے سلسلہ میں ایک ضروری مرحلہ تھا ۔ ان کو بدی اور بے حیائی سے اپک کرنے اور ان کی طہارت نفس کو درجہ کمال پر پہنچانے کے لیے مصلحت الہٰی میں یہ ناگزیر تھا کہ ان کے سامنے معصیت کا ایک ایسا نازک موقع پیش آئے اور اس آزمائش کے وقت وہ اپنے ارادے کی پوری طاقت پرہیزگاری و تقوی کے پلڑے میں ڈال کر اپنے نفس کے برے میلانات کو ہمیشہ کے لیے قطعی طور پر شکست دے دیں ۔ خصوصیت کے ساتھ اس مخصوص طریقہ تربیت کے اختیار کرنے کی مصلحت اور اہمیت اس اخلاقی ماحول کو نگاہ میں رکھنے سے بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے جو اس وقت کی مصری سوسائٹی میں پایا جاتا تھا ۔ آگے رکوع ٤ میں اس ماحول کی جو ایک ذرا سی جھلک دکھائی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے ”مہذب مصر“ میں بالعموم اور اس کے اونچے طبقے میں بالخصوص صنفی آزادی قریب قریب اسی پیمانے پر تھی جس پر ہم اپنے زمانے کے اہل مغرب اور مغرب زدہ طبقوں کو ”فائز“ پا رہے ہیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو ایسے بگڑے ہوئے لوگوں میں رہ کر کام کرنا تھا ، اور کام بھی ایک معمولی آدمی کی حیثیت سے نہیں بلکہ فرمانروائے ملک کی حیثیت سے کرنا تھا ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو خواتین کرام ایک حسین غلام کے آگے بچھی جا رہی تھیں ، وہ ایک جوان اور خوبصورت فرمانروا کو پھانسنے اور بگاڑنے کے لیے کیا نہ کر گزرتیں ۔ اسی کی پیش بندی اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمائی کہ ایک طرف تو ابتدا ہی میں اس آزمائش سے گزار کر حضرت یوسف علیہ السلام کو پختہ کر دیا ، اور دوسری طرف خود خواتین مصر کو بھی ان سے مایوس کر کے ان کے سارے فتنوں کا دروازہ بند کر دیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: یہاں ’’آقا‘‘ سے مراد اﷲ تعالیٰ بھی ہوسکتے ہیں، اور وہ عزیز مصر بھی ہوسکتا ہے جس نے اُنہیں اپنے گھر میں عزّت سے رکھا ہوا تھا، اور مطلب یہ ہوگا کہ تم میرے آقا کی بیوی ہو، اور میں تمہاری بات مان کر اُس کے ساتھ خیانت کیسے کرسکتا ہوں۔ 16: اس آیت کی تفسیر دو طریقے سے ممکن ہے۔ ایک یہ کہ اگر حضرت یوسف علیہ السلام اپنے رَبّ کی طرف سے ایک دلیل نہ دیکھ لیتے تو اُن کے دل میں بھی اُس عورت کی طرف جھکاو پیدا ہوجاتا، لیکن چونکہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اُنہیں ایک دلیل نظر آگئی (جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔) اس لئے ان کے دِل میں اُس عورت کے بارے میں کوئی بُرا خیال تک نہیں آیا۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شروع میں ان کے دِل میں بھی تھوڑا سا میلان پیدا ہوا تھا جو ایک بشری تقاضا ہے، مگر بقولِ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ اِس کی بہترین مثال ایسی ہے جیسے پیاس کی حالت میں روزہ دار کو ٹھنڈا پانی دیکھ کر طبعی طور پر اُس کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے، لیکن روزہ توڑنے کا بالکل ارادہ نہیں ہوتا، اسی طرح غیر اختیاری طور پر حضرت یوسف علیہ السلام کے دل میں بھی میلان پیدا ہوا، اور اگر وہ اپنے رَبّ کی دلیل نہ دیکھ لیتے تو یہ میلان آگے بھی بڑھ سکتا تھا، لیکن اپنے رَبّ کی دلیل دیکھنے کے بعد وہ غیر اختیاری جھکاؤ سے آگے نہیں بڑھا۔ زیادہ تر مفسرین نے اس دوسری تفسیر کو اس لئے اختیار کیا ہے کہ اوّل تو یہ عربی زبان کے قواعد کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہے، دوسرے اس سے حضرت یوسف علیہ السلام کے مقامِ بلند کا مزید اندازہ ہوتا ہے۔ اگر ان کے دل میں یہ غیر اختیاری خیال بھی پیدا نہ ہوتا تو گناہ سے بچنا اتنا مشکل نہیں تھا، لیکن اس جھکاو کے باوجود اپنے آپ کو بچانا زبردست اُولوالعزمی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دِل کے تقاضے کے باوجود اﷲ تعالیٰ کے خوف سے اپنے آپ پر قابو رکھنا اور گناہ سے بچنا بڑے اَجر و ثواب کا کام ہے۔ اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ وہ دلیل کیا تھی جسے اﷲ تعالیٰ نے ’’اپنے رَبّ کی دلیل‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے؟ اس سوال کا واضح اور بے غبار جواب یہ ہے کہ اس سے مراد اس عمل کے گناہ ہونے کی دلیل ہے جس کی طرف انہوں نے دھیان رکھا، اور گناہ سے محفوظ رہے۔ بعض روایات میں اس کی یہ تفسیر بھی آئی ہے کہ اُس وقت اُن کو اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام کی صورت دِکھا دی گئی تھی۔ واللہ سبحانہ اعلم۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٤۔ اس آیت کی تفسیر میں علمائے مفسرین نے بڑا اختلاف کیا ہے بعضے کہتے ہیں کہ قصد کی دو قسمیں ہیں ایک قصد مضبوط ہوتا ہے جس طرح زلیخا کا قصد تھا اور ایک قصد اوپرے دل سے ہوتا ہے۔ پہلے قصد پر مواخذہ ہے دوسرے قصد پر مواخذہ نہیں ہے چناچہ حضرت یوسف کا قصد دوسری قسم کا تھا بعضوں نے کہا ہے یہ معاملہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی نبوت سے پہلے کا ہے لیکن صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ حضرت یوسف قصد کرتے اگر خدا کی طرف کی ہدایت کو نہ دیکھتے اس قول پر بعضے لوگوں نے یہ جو اعتراض کیا ہے کہ لفظ لولا کا جواب مقدم نہیں آتا اس کا جواب یہ ہے کہ بعضے نحویوں کے نزدیک تو مقدم آتا ہے اور یہ بات سب نحویوں کے نزدیک مسلم ہے کہ جواب لولا کا محذوف کہا جاوے تو لفظ لولا سے پہلے جو کچھ بات مذکور ہے وہی محذوف کے قائم مقام گنی جاوے اسی تسلیم کی بنا پر آیت (ان کا دت لتبدی بہ لولا ان ربطنا علی قلبھا) کے معنے عام مفسرین یہی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے صبر دینے کے سبب سے حضرت موسیٰ کیں قصہ کو ظاہر نہیں کیا پھر یہاں یہ معنے کیوں نہ کئے جاویں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے دیکھنے کے سبب سے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے زلیخا کی طرف قصد نہیں کیا۔ اگر نحوی جھگڑے کے سبب سے اس قول کو صحیح نہ مانا جاوے تو پھر وہی قول صحیح قرار پاتا ہے کہ قصد کی دو قسمیں ہیں ایک مضبوط اور دوسرا اوپرے دل کا اس قول کی تائید میں ابوہریرہ (رض) کی روایت سے ایک حدیث قدسی بھی صحیح بخاری و مسلم میں ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ انسان کے فقط بدی کے قصد پر کوئی بدی نہ لکھی جاوے ١ ؎ غرض ان دو قولوں کے علاو حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) اور مجاہد کے جو قول ہیں ان کی سند معتبر نہیں ہے برھان ربہ کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا قول ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اس وقت حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی صورت اس طرح نظر آئی کہ گویا اس کام سے یعقوب (علیہ السلام) یوسف (علیہ السلام) کو منع کر رہے ہیں۔ ٢ ؎ حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ جب زلیخا نے بدفعلی کا قصد کیا تو اوپرے دل سے کچھ وسوسہ یوسف (علیہ السلام) کے دل میں بھی گزرا تھا لیکن یوسف (علیہ السلام) اللہ چنے ہوئے بندوں میں سے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی قدرت کی نشانی دکھا کر اس برائی اور بےحیائی کے کام سے روک دیا۔ برائی سے مقصود عزیز مصر کی خیانت ہے اور بےحیائی سے مقصود بدکاری ہے۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ٤٧٤ ج ٢ حافظ ابن کثیر (رح) نے اسی توجیہ کو پسند کیا ہے اور یہی تحقیق شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) کی ہے فتاوی ابن تیمیہ (ص ٢٨٥ ج ٢) ۔ ٢ ؎ لیکن اسرائیلیات سے ماخوذ معلوم ہوتی ہے (ع۔ ر)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:24) ھمت بہ۔ اس عورت نے اس مرد کا ارادہ کرلیا۔ الہم کا معنی پگھلادینے والے غم کے ہیں اور یہ ہممت الشحم فالہم کے محاورہ سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی ہیں : میں نے چربی کو پگھلایا چناچہ وہ پگھل گئی۔ اصل میں ہم کے معنی ارادہ کے ہیں جو ابھی دل ہی میں ہو۔ (راغب) ۔ ہم بالامر اذا قصدۃ وعزم علیہ۔ ہم کا معنی ہے کسی چیز کا قصد کرنا اور عزم کرنا۔ (الکشاف) الہم ھو المقاربۃ من الفعل من غیر دخول فیہ۔ ہم کے معنی ہیں کسی فعل سے مقدیت بغیر وہ فعل کئے کے۔ (الخازن) ہمت بہ وہم بھا۔ اس عورت نے اس مرد کا قصد کرلیا تھا ۔ اور وہ آدمی بھی اس عورت کا قصد کرلیتا ۔ لولا ان را برھان ربہ۔ اگر اس نے اپنے رب کی روشن دلیل کو نہ دیکھ لیا ہوتا۔ متذکرہ معنی کے لحاظ سے کلام میں تقدیم و تاخیر ہے۔ عام قاعدہ کے مطابق شرط پہلے اور جزاء بعد میں آنا چاہیے تھی۔ اور کلام یوں چاہیے تھا۔ لولا ان رابرھان ربہ ھم بھا۔ لیکن یہاں جزاء کو مقد لایا گیا ہے اور شرط کو بعد میں لایا گیا ہے۔ یہ طرز کلام شاذ نہیں ہے قرآن مجید میں اور جگہ بھی ایسا کیا گیا ہے مثلاً واصبح فؤاد ام موسیٰ فرغا۔ ان کا دت لتبدی بہ لولا ان ربطنا علی قلبھا (28:10) اور ام موسیٰ کا دل ایسا بیقرار ہوا کہ قریب تھا کہ وہ موسیٰ کا حال ظاہر کر دیتیں اگر ہم نے اس کے دل کو مضبوط و مربوط نہ کردیا ہوتا۔ یہاں بھی جزا مقدم ہے اور شرط مؤخر۔ تو گویا اس صورت میں آیت کا مطلب ہوا۔ اس عورت نے اس کا عزم بالجزم کرلیا تھا اور اگر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے رب کی روشن دلیل کو نہ دیکھ لیا ہوتا تو وہ بھی اس عورت کا قصد کرلیتے۔ (لیکن چونکہ انہوں نے اپنے رب کی روشن دلیل کو دیکھ لیا اس لئے ان کے ارادہ کو نوبت ہی نہ آئی) ۔ بعض کے خیال میں ہمت بہ وہم بھا۔ ایک مستقل جملہ ہے اور لولا ان را برھان ربہ نیا جملہ ہے جس کی جزاء محذوف ہے (تو ضرور اس کے دام تزویر میں پھنس جاتا) ۔ اس سورت میں مطلب یہ ہوگا کہ زلیخا نے اپنی خواہش رانی کا مصمم ارادہ کرلیا تھا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کا خیال بھی ہو چلا تھا۔ لیکن یہ خیال جس کی پشت پر کوئی عزم نہ تھا کوئی عیب نہیں ہے کہ یہ ایک امر طبعی ہے خلوت کی یکجائی میں جو ان تندرست مرد کا محض خیال اگر جوان حسین عورت کی طرف جائے خصوصاً جبکہ پیش قدمی اور تشویق (شوق دلانا) عورت کی طرف سے ہو رہی ہو تو یہ عیب نہیں ہے بلکہ دلیل ہے مرد کی صحیح اور تندرست ہونے کی۔ (ضیاء القرآن) مال الی مخالط تھا بمقتضی الطبیعۃ البشریۃ کمیل الصائم فی الیوم الحار الی الماء البارد۔ ومثل ذلک۔ لایکاد یدخل تحت التکلیف (روح المعانی) ۔ وہ مائل ہوئے بمقتضائے طبیعت بشر یہ جیسا کہ روزہ دار شدید گرمی کے دن کو ٹھنڈے پانی کی طرف مائل ہوتا ہے (لیکن نہ تو اس کی نیت پانی پینے کی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ پانی پینے کے لئے کوئی عملی قدم اٹھاتا ہے) اس قسم کا میلان قابل مؤاخذہ نہیں ہے۔ والمراد بھمہ (علیہ السلام) میل الطبع ومنازعۃ الشھوۃ لا القصد الاختیاری (بیضاوی) اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصد سے مراد فطری میلان طبیعت ہے اور تقاضائے شہوت ہے قصد اختیاری مراد نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ اپنے رب کی برہان واضح نہ دیکھ لیتے تو (ہو سکتا ہے کہ) وہ بھی اس کے دام میں پھنس جاتے۔ الکشاف میں ہے (لولا ان رابرھان ربہ) جو ابہ محذوف تقدیرہ لولا ان رابرھان ربہ لخالطھا۔ اس کے ساتھ خلط ملط ہوجاتا۔ (خالط جماع کرنا ) ۔ (الفرائد الدریہ) ۔ برھان ربہ۔ اپنے رب کی برہان ۔ البرھان کے معنی دلیل اور حجت کے ہیں ۔ رجحان کی طرح فعلان کے وزن پر ہے۔ بعض کے نزدیک یہ برہ یبرہ کا مصدر ہے جس کے معنی سفید اور چمکنے کے ہیں ۔ برھان دلیل قاطع کو کہتے ہیں جو تمام دلائل سے زور دار ہو اور ہر حال میں ہمیشہ سچی ہو۔ روشن دلیل۔ یہ برہان حالیہ سلسلہ میں کیا تھی اس کے متعلق متعدد اقوال ہیں :۔ (1) بعض کے نزدیک حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اس وقت اپنے باپ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نظر آئے جو اسے اس فعل قبیح سے منع کر رہے تھے۔ (2) بعض کے نزدیک انہیں عزیز مصر کے سامنے نظر آیا جس کے دیکھنے پر اسکے احسانات و شفقت یاد آگئی اور وہ اس فعل سے باز رہے (3) بعض کے نزدیک ان کو آیات قرآنی لکھی ہوئی نظر آئیں لا تقربوا الزنا انہ کان فاحشۃ وساء سبیلا (17:32) زنا کے پاس بھی مت جاؤ یقینا وہ بڑی بےحیائی اور بری راہ ہے۔ کذلک ایسے ہی۔ اسی کی طرح۔ (یعنی جس طرح ہم نے اس وقت ایک دلیل دکھا کر برائی سے بچا لیا ۔ اسی طرح اس کے اور کاموں میں بھی ہم اس کی مدد کرتے رہے۔ لنصرف۔ تاکہ ہم دور کریں۔ نصرف مضارع منصوب بوجہ عمل لام۔ جمع متکلم۔ الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا۔ صرف عنہ اس کی طرف سے پھیر دینا۔ السوئ۔ برائی ۔ برا فعل۔ گناہ ۔ عیب الفحشائ۔ افحش فحشاء فحش سے اسم تفضیل واحد مؤنث فحش مادہ۔ وہ قول یا فعل جس کی برائی کھلی ہوئی ہو۔ اور اس کا سننا یا کرنا برا لگے۔ بےحیائی کی بات۔ مخلصین۔ برگزیدہ۔ چنے ہوئے ۔ خالص۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ آیت کا یہ مطلب اگرچہ اکثر مفسرین (رح) نے بیان کیا ہے مگر انسب ترجمہ جسے بہت سے محقق مفسرین نے بیان کیا ہے یہ ہے ” اور یوسف (بھی) اس (عورت) کا قصد کرلیتا اگر وہ مالک کی (قدرت کی) نشانی نہ دیکھ لیتا۔ ” یہ “ برہان رب کیا چیز تھی اس کی تعیین میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحبت کے ساتھ کوئی چیز ثابت نہیں ہے البتہ مفسرین (رح) نے مختلف اقوال نقل کئے ہیں ہوسکتا ہے کہ ایک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق کی بلندی اس کی اجازت نہ دیتی ہو کہ زنا جیسے منکر فعل پر اقدام کرے اسی کو یہاں ” برہان ربی “ سے تعبیر فرمایا ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ امر طبعی کے درجہ میں جو کہ اختیار سے باہر ہے جیسا گرمی کے روزہ میں پانی کی طرف میلان طبعی ہوتا ہے گوروزہ توڑنے کا وسوسہ تک بھی نہیں آتا۔ 7۔ یعنی اس فعل کے گناہ ہونے کی دلیل کو کہ حکم شرعی ہے۔ 8۔ یعنی ان کو علم شریعت جو مقرون قوت عملیہ کے ساتھ ہے نہ ہوتا۔ 9۔ کیونکہ داعی اور اسباب ایسے ہی قوی تھے۔ 10۔ یعنی ارادے سے بھی بچایا اور فعل سے بھی بچایا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ پچھلی آیت میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے عظیم امتحان کا ذکر ہوا۔ اس آیت میں اس کی مزید تفصیل ہے کہ زلیخا تو گناہ کے خیال میں لگی ہوئی تھی۔ یوسف (علیہ السلام) کے دل میں بھی انسانی فطرت کے تقاضے سے کچھ کچھ غیر اختیاری میلان پیدا ہونے لگا مگر اللہ تعالیٰ نے عین اس وقت اپنی برہان یوسف (علیہ السلام) کے سامنے کردی جس کی وجہ سے غیر اختیاری میلان آگے بڑھنے کی بجائے ختم ہوگیا۔ اس آیت میں لفظ ” ہَمَّّ “ بمعنی خیال یوسف (علیہ السلام) اور زلیخا دونوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ یہ تو معلوم ہے کہ زلیخاکو گناہ کا خیال تھا۔ یوسف (علیہ السلام) کے متعلق بھی اسے ہی خیال کا وہم ہوسکتا تھا اور یہ باجماع امت شان نبوت کے خلاف ہے۔ کیونکہ جمہورعلماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ انبیاء کبیرہ، صغیرہ ہر قسم کے گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔ کبیرہ گناہ نہ تو قصدًا ہوسکتا ہے اور نہ سہواً ہوسکتا ہے۔ البتہ صغیرہ گناہ سہواً وخطا کے طور پر سرزد ہونے کا امکان ہے۔ مگر اس پر بھی انبیاء (علیہ السلام) کو قائم نہیں رہنے دیا جاتا۔ عربی زبان میں لفظ ” ہَمَّ “ دو معنوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ ١۔ کسی کام کا پختہ ارادہ اور عزم کرلینا۔ ٢۔ محض دل میں وسوسہ اور خیال کا پیدا ہونا جو انسان کے اختیار میں ہوتا نہ اس پر کوئی مواخذہ اور گناہ ہے۔ معلوم ہوا کہ اگرچہ آیت میں لفظ ” ہَمَّ “ زلیخا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) دونوں کے لیے بولا گیا مگر ان دونوں کے ” ہَمَّ “ میں بڑا فرق ہے۔ پہلاہَمَّ گناہ ہے اور دوسرا ہَمَّ غیر اختیاری وسوسہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد جو ارشاد فرمایا ” لولا ان لا برہان ربہ “ اس کی جزا محذوف ہے اور معنیٰ یہ ہے کہ اگر وہ اپنے رب کی برہان نہ دیکھتے تو اس خیال میں مبتلا ہوجاتے۔ قرآن کریم نے یہ واضح نہیں فرمایا کہ جو ” برہان ربی “ یوسف (علیہ السلام) کے سامنے آئی وہ کیا تھی ؟ اسی لیے اس کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) مجاہد، سعید بن جبیر، محمد بن سیرین، حسن بصری وغیرہ (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ اس خلوت گاہ میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی صورت اس طرح سامنے کی کہ وہ اپنی انگلی اپنے منہ میں دبائے ہوئے یوسف کو متنبہ کر رہے تھے۔ اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ عزیز مصر کی صورت ان کے سامنے کردی۔ بعض نے فرمایا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی نظر چھت پر پڑی جس پر لکھا ہوا تھا ” لَاتَقْرَ بُوْالزِنٰی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاءَ سَبِیْلاً “ بعض مفسرین نے فرمایا کہ زلیخا کے کمرہ میں ایک بت تھا۔ اس نے بت پر پردہ ڈالا تو یوسف (علیہ السلام) نے وجہ پوچھی اس نے کہا کہ یہ میرا معبود ہے۔ اس کے سامنے گناہ کرنے کی اجازت نہیں۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا معبود اس سے زیادہ کا مستحق ہے۔ اس کی نظر کو کوئی پردہ نہیں روک سکتا۔ بہر حال حضرت یوسف (علیہ السلام) نے برہان دیکھی جس سے ان کے دل سے وسوسہ جاتارہا۔ (کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوٓءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ )[ یوسف : ٢٤] ” یعنی ہم نے یوسف کو یہ برہان اس لیے دکھائی کہ ان سے برائی اور بےحیائی کو ہٹا دیں۔ کیونکہ یوسف (علیہ السلام) ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے ہیں۔ “ لفظ مخلصین اس جگہ بفتح لام مخلص کی جمع ہے۔ جس کے معنیٰ منتخب کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اصلاح خلق کے لیے انتخاب فرمایا ہے۔ ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظتی پہرہ ہوتا ہے کہ وہ کسی برائی میں مبتلا نہ ہوسکیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو لفظ سوء اور فحشاء کے استعمال فرمائے ہیں۔ سوء کے لفظی معنیٰ برائی کے ہیں۔ مراد اس سے صغیرہ گناہ ہے اور فحشاء کے معنی بےحیائی کے ہیں اس سے مراد کبیرہ گناہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کبیرہ اور صغیرہ دونوں قسم کے گناہوں سے محفوظ رکھا۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ جس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) کو یہ ابتلاء پیش آئی تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ آپ کا یہ مخلص بندہ گناہ کے خیال میں ہے حالانکہ وہ اس کے وبال کو خوب جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انتظار کرو۔ اگر وہ گناہ کرلے تو جیسا کرے۔ وہ اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دو اور اگر وہ اس کو چھوڑ دے تو اس کے نامۂ اعمال میں گناہ کے بجائے نیکی لکھ دو کیونکہ اس نے میرے خوف سے اپنی خواہش کو چھوڑدیا ہے۔ ( رواہ مسلم : باب اذا ہم العبد بحسنۃ ) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے گناہ کے وسوسہ اور خیال کو معاف کردیا ہے۔ جبکہ وہ اس پر عمل نہ کرے۔ (رواہ مسلم : تجاوز اللہ عن حدیث النفس والخواطر باتقلب اذالم تستقر) مسائل ١۔ عزیز مصر کی بیوی نے برائی کا ارادہ کرلیا تھا۔ ٢۔ یوسف (علیہ السلام) کو برہان کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے برائی سے بچالیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ پیغمبروں کو برائی اور بےحیائی سے دور رکھتا ہے۔ ٤۔ یوسف (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اور پیغمبر تھے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے مخلص بندے : ١۔ اللہ اپنے مخلص بندوں کو برائی اور بےحیائی سے بچاتا ہے۔ (یوسف : ٢٤) ٢۔ رسول اللہ کو مخلص لوگوں کے ساتھ رہنے کا حکم دیا گیا۔ (الکہف : ٢٨) ٣۔ تم خالص اللہ کو پکارو اگرچہ یہ بات کفار کو ناگوار گزرے۔ (المومن : ١٤) ٤۔ شیطان نے کہا تیرے مخلص بندوں کے سوا تمام کو گمراہ کروں گا۔ (الحجر : ٤٠) ٥۔ شیطان نے کہا تیری عزت کی قسم تیرے مخلص بندوں کے علاوہ سبھی کو گمراہ کروں گا۔ (ص : ٨٣) ٦۔ فرما دیجیے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خالصتاً اللہ کی عبادت کروں۔ (الزمر : ١١) ٧۔ جنھوں نے رسولوں کو جھٹلایا وہ دوزخ میں داخل کیے جائیں گے۔ اللہ کے خاص بندوں کے سوا۔ (الصٰفٰت : ١٢٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں قرآن اس بات کی تصریح کرتا ہے اور قطعیت کے ساتھ تصریح کرتا ہے کہ عورت کے اس ورغلانے کے عمل اور دروازے بند کرکے حضرت یوسف کو علانیہ دعوت گناہ دینے کو حضرت یوسف نے بغیر تامل کے رد کردیا انہوں نے حدود اللہ کو یاد کیا ، اللہ کے انعامات کو یاد کیا جبکہ قرآن نے اس کی دعوت گناہ کو بھی غلیظ الفاظ کے بجائے مہذب الفاظ میں بیان کیا یعنی وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ ۚ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ : " وہ اس کی طرف بڑھی اور یوسف بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا " یہ آخری مرحلہ تھا اور تمام مفسرین نے اس پر طویل کلام کیا ہے۔ قدیم مفسرین میں سے بعض لوگوں نے اسرائیلیات کا اتباع کیا ہے اور اس بارے میں متعدد روایات نقل کی ہیں۔ ان روایات میں یہ ذکر ہوا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) بھی ایک عام نوجوان کی طرح اس آخری فعل کے ارتکاب پر مائل تھے ، آگے بڑھ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ ان کو برہان پر برہان دکھا رہا تھا مگر وہ رک نہ رہے تھے۔ اس تنہا خانے میں حضرت یعقوب کی تصویر ظاہر ہوئی اور انہوں نے اپنی اگنلی دانتوں میں دبا رکھی تھی۔ اور ان کے سامنے ایک ایسی تختی اچانک آگئی جس کے اوپر آیات قرآنی مکتوب تھیں۔ قرآنی آیات ! جن میں یہ لکھا تھا کہ ایسے کام سے باز آجاؤ، لیکن وہ پھر بھی نہ رکے تو اللہ نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو بھیجا اور کہا کہ پہنچو میرا بندہ گرنے لگا ہے۔ وہ آئے اور انہوں نے حضرت یوسف کو سینے میں ایک ضرب لگائی۔ یہ اور ایسی دوسری روایات جو واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ یہ جعلی اور بناوٹی ہیں۔ رہے جمہور مفسرین ، تو انہوں نے یہ کہا ہے کہ عورت نے تو ارادہ گناہ کرلیا تھا اور حضرت یوسف نے بھی اس کے بارے میں سوچ لیا ہوتا ، اگر اس پر اللہ کا برہان روشن نہ ہوگیا ہوتا اور پھر انہوں نے اپنا ارادہ ترک کرلیا تھا۔ سید رشید رضا نے اپنی تفسیر المنار میں جمہور علماء کی اس تفسیر پر رد فرمایا ہے۔ اصل مفہوم یہ ہے کہ یہ جابر مالکہ تھی اور اس نے اسے دعوت گناہ دی اور اسے مارا پیٹآ کیونکہ اس نے انکار کرکے اس کی توہین کی تھی اور حضرت یوسف نے اس کی زیادتی کا جواب دیا۔ اور اس کے بعد انہوں نے بھاگنے میں عافیت سمجھی اور اس طرح اس نے اسے پکڑ کر قمیص پھاڑ دی۔ (ھم) کا مفہوم مارنا اور مارنے کا جواب دینا ایک ایسی تفسیر ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ یہ ایک کوشش سے پاک صاف ثابت کیا ہے۔ لیکن یہ تفسیر تکلف سے خالی نہیں ہے۔ اور نہ عربی الفاظ اس کے متحمل ہیں۔ ان نصوص پر غور کرنے کے بعد جو بات میری سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف اس پختہ کار عورت کے ساتھ ایک مکان میں رہ رہے تھے اور یہ ایک طویل عرصے تک رہ رہے تھے۔ علم و حکمت عطا ہونے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی موجود تھے۔ اس آیت سے میں جو سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ اس میں آخری مرحلے کو بیان کیا گیا ہے۔ اس عورت نے ایک طویل عرصہ ان کو ورغلانے کی سعی کی اور آپ نے انکار کیا ، اس عرصے میں حضرت یوسف ان مشکل حالات کا مقابلہ کرتے رہے اور قرآن اس آیت میں آخری مراحل کا ذکر کردیا کہ انہوں نے پاکیزگی اختیار کی اور اللہ کے برہان کو دیکھ لیا۔ اس کشاکش کو یہاں قرآن مجید نے نہایت ہی مختصراً بیان کیا ہے اور اسے مختصر جگہ دی ہے۔ اس کے لیے مناسب اور ضروری الفاظ استعمال کیے۔ کشاکش کے آغاز اور انجام کو ان الفاظ میں قلم بند کر ردیا کہ آغاز میں انہوں نے انکار کیا اور انتہا میں انہوں نے براہین الہیہ کو دیکھا لیکن ابتدائی اور آخری مرحلے کے درمیان ممکن ہے کہ کمزوری کے لمحات بھی آئے ہوں اور اس طرح حقیقت پسندانہ سچائی اور پاک فضا دونوں مکمل ہوئی ہوں۔ ان حالات و نصوص کا مطالعہ کرتے وقت میرے ذہن میں یہ بات آئی ہے۔ یہ بات انسانی مزاج اور طبیعت کے بھی قریب ہے اور منصب نبوت کے بھی ہم آہنگ ہے۔ حضرت یوسف بہرحال انسان تھے اور ایک برگزیدہ انسان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا نفسیاتی میلان بھی ختم ہوگیا اور وہ حالت اعتصام اور مکمل انکار کی طرف لوٹ آئے۔ علامہ زمخشری کشاف میں کہتے ہیں " سوال یہ ہے کہ ایک نبی کس طرح برائی کا " ھم " کرسکتا ہے اور کس طرح وہ ارادہ کرسکتا ہے کہ وہ یہ کام کرے۔ جواب یہ ہے کہ یہ ایک نفسیاتی میلان تھا ، جوانی کی خواہشات کا دباؤ ہر انسان پر ہوتا ہے۔ یہاں اسے ھم اور قصد سے تعبیر کیا ہے کیونکہ ایسے حالات می انسان پر سخت دباؤ ہوتا ہے اور عزم اور مدافعت کے ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے ، لیکن حضرت یوسف اللہ کے براہین کے ملاحظے کے بعد اس دباؤ کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اگر یہ میلان ہی نہ ہوتا اور جسمانی دباؤ نہ ہوتا تو حضرت یوسف اس کام سے رک کر قابل ستائش کس طرح ہوگئے۔ کیونکہ صبر ، برداشت اور ابتلا پر اجر تب ہی ہے کہ انسان کے اندر قوت اور میلان موجود ہو۔ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ : ایسا ہوا ، تاکہ اہم اس سے بدی اور بےحیائی کو دور کردیں ، در حقیقت وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دونوں کا دروازہ کی طرف دوڑنا اور اللہ تعالیٰ کا یوسف (علیہ السلام) کو بچانا اور عزیز کو دروازہ پر پانا ‘ اور اس کا اپنی بیوی کو خطا کار بتانا اور استغفار کا حکم دینا ان آیات میں عزیز مصر کی بیوی کی بد نیتی اور اس کے مطابق عزم مصمم کرنے کا ذکر ہے نیز یہ بھی فرمایا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتے تو وہ بھی ارادہ کرلیتے ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو بچایا اور ان کو برائی سے اور بےحیائی کے کام سے دور رکھا۔ عزیز مصر کی بیوی نے گناہ کرنے کا مضبوط ارادہ کرلیا تھا جو اس کے عمل سے صاف ظاہر ہے اس نے دروازے بند کر لئے اور صاف لفظوں میں ھَیْتَ لَکَ (آ جا میں تیرے لئے حاضر ہوں) کہہ دیا ‘ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سر فراز فرمایا تھا اور ساری امت کا اس پر اجماع ہے کہ نبی سے گناہ کا صدور نہیں ہوسکتا اور گناہ کا ارادہ کرنا بھی گناہ ہے لیکن قرآن مجید میں (وَلَقَدْ ھَمَّتْ بِہٖ ) کے ساتھ وَھَمَّ بِھَا بھی مذکور ہے اس وَھَمَّ بِھَا کا کیا مطلب ہے اس کے بارے میں بعض حضرات نے فرمایا ہے (وَھَمَّ بِھَا لَوْ لَا اَنْ رَّاٰ بُرْھَانَ رَبِّہٖ ) یہ ایک جملہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتے تو وہ بھی اس عورت کے ساتھ جوانی کا تقاضا پورا کرنے کا ارادہ کرلیتے لیکن چونکہ انہوں نے اپنے رب کی دلیل دیکھ لی اس لئے ارادہ نہیں کیا۔ ہم نے اوپر جو ترجمہ کیا ہے وہ اسی قول کے مطابق ہے اور ہمارے نزدیک یہی راجح ہے ‘ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ ھَمَّ بِھَا سے گناہ کا ارادہ کرنا مراد نہیں ہے بلکہ بشری طور پر جو ایسے موقع پر میلان طبعی ہوجاتا ہے وہ مراد ہے انہوں نے اس درجہ کا ارادہ نہیں کیا تھا جو معصیت کے درجہ میں ہو یوں ہی وسوسہ کے درجے میں خیال آگیا اس صورت میں لَوْ لَا کا جواب محذوف مانا جائے گا اور مطلب یہ ہوگا کہ اگر وہ اپنے رب کی طرف سے دلیل نہ دیکھ لیتے تو میلان طبعی کے مطابق کام کر گزرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں دلیل دکھائی جو اقدام کرنے سے مانع ہوگئی۔ وہ کون سی دلیل تھی جو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دیکھی ؟ اس کے بارے میں مفسرین نے کئی باتیں لکھی ہیں صاحب روح المعانی ص ٢١٤ ج ١٢ نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ اس موقع پر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی شبیہ ظاہر ہوگئی جس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سینہ پر ہاتھ مار دیا وذکرہ الحاکم ایضا فی المستدرک ج ٢ ص ٣٤٦ عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما قال مثل لہ یعقوب فضرب صدرہ فخرجت شھوتہ من اناملہ اور بحوالہ حلیہ ابی نعیم حضرت علی (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب اس عورت نے عمل بد کا ارادہ کیا تو اس نے بت کے اوپر کپڑا ڈال دیا جو گھر کے ایک کونے میں تھا حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تو یہ کیا کرتی ہے وہ کہنے لگی کہ میں اپنے معبود سے شرماتی ہوں کہ میں ایسا کام کروں اور یہ مجھے دیکھتا رہے ‘ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تو ایک بت سے شرما رہی ہے جو نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے ( یعنی بےجان ہے کچھ جانتا ہی نہیں) پھر بھلا میں اپنے رب سے کیوں نہ شرماؤں جو ہر شخص کے ہر عمل کو جانتا ہے تو مجھ سے اپنی مطلب براری نہیں کرسکتی ‘ اس بارے میں اور بھی بہت اقوال ہیں لیکن کوئی بھی صحیح سند سے ثابت نہیں ‘ بعض حضرت نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کو علم و حکمت سے نوازا تھا اور نبوت سے سر فراز فرمایا تھا بُرْھَانَ رَبِّہٖ سے وہی مراد ہے ‘ نبوت اور معرفت الٰہیہ ہی ایک ایسی دلیل تھی جس نے انہیں چونکا دیا اور گناہ سے بچا دیا ‘ یہ بات دل کو لگتی تو ہے لیکن اس صورت میں راٰی بمعنی عرف کیا جائے گا یعنی راٰی سے رؤیت بصری نہیں بلکہ رؤیت قلبی بمعنی علم و معرفت مراد ہوگی۔ حضرات انبیائے کرام (علیہ السلام) کی تو بڑی شان ہے عام طور پر اہل ایمان کو یہ بات حاصل ہوتی ہے کہ جب کوئی گناہ کی بات دل میں آئے تو دل کھٹک جاتا ہے اور ہر ایک مومن کے دل میں اللہ کا ایک واعظ بیٹھا ہوا ہے۔ حضرت نواس بن سمعان انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مثال بیان فرمائی اور وہ یہ کہ ایک سیدھا راستہ ہے اس کے دونوں جانب دودیواریں ہیں اور ان دیواروں میں دروازے ہیں جو کھلے ہوئے ہیں اور ان دروازوں میں سے کسی دروازہ کو کھولنا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ تجھ پر افسوس ہے اسے مت کھول اگر تو اس کو کھولے گا تو اس میں داخل ہوجائے گا (اور یہ تیرے حق میں اچھا نہ ہوگا) اس کے بعد آپ نے اس مثال کی توضیح فرمائی ‘ اور وہ یہ ہے کہ صراط مستقیم اسلام ہے ‘ اور دونوں طرف جو دیواریں ہیں یہ اللہ کی حدود ہیں ‘ اور جو دروازے کھلے ہوئے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں ‘ اور راستے کے شروع میں جو پکارنے والا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے ‘ اور اس کے اوپر جو پکارنے والا ہے وہ اللہ کا واعظ ہے جو ہر مسلم کے دل میں ہے (رواہ بیہقی فی شعب الایمان ص ٤٤٥ ج ٥) جب ہر مومن کے دل میں واعظ موجود ہے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) جیسے صدیق کے دل میں ہونا تو ضروری ہی ہے۔ (کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْْٓءَ وَالْفَحْشَآءِ ) مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ یہاں عبارت کا کچھ حصہ محذوف ہے صاحب روح المعانی نے ابن عطیہ سے یوں نقل کیا ہے کہ جرت افعالنا و اقدارنا کذالک لنصرف یعنی ہماری قضاء وقدر کے مطابق ایسا ہوا تاکہ ہم ان سے برائی اور بےحیائی کو ہٹا دیں قال صاحب الروح وقدر ابو البقاء نراعیہ کذلک والحوفی اریناہ البراھین کذلک وجوز الجمیع کونہ فی موقع رفع فقیل ای الامر او عصمتہ مثل ذالک ١ ھ۔ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں : ابو البقا نے یہاں نراعیہ مقدر مانا ہے اور حوفی نے کہا مقدر عبارت اس طرح ہے کہ اریناہ البراھین کذالک اور سب نے اس کا رفع کے مقام پر ہونا جائز رکھا ہے لہٰذا بعض نے کہا اصل یوں ہے کہ الامر مثل ذلک یا عصمتہ مثل ذلک۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ زلیخا چونکہ برے کام کا پختہ ارادہ کرچکی تھی اس لیے اس کے ارادے کو لام اور قد تاکید کے دو حرفوں کے ساتھ بیان کیا گیا لیکن حضرت یوسف نے فعل بد کا ارادہ ہی نہیں کیا کیونکہ انہوں نے عظمت خداوندی کا نشان دیکھ لیا تھا اسی لیے ان کے ارادے کو برہان پر معلق فرمایا یعنی زلیخا تو ارادہ کرچکی تھی اور یوسف (علیہ السلام) بھی اگر برہانِ رب نہ دیکھتے تو ارادہ کرلیتے۔ امام ابو عبیدہ فرماتے ہیں اس میں تقدیم وتاخیر ہے۔ ” لَوْلَا اَنْ رَّاٰ بُرْھَانَ رَبِّہٖ “ شرط مؤخر ہے اور ” ھَمَّ بِھَا “ جزاء مقدم ہے قال ابو عبیدۃ ھذا علی التقدیم والتاخیر کانہ ارادو لَقَدْ ھَمَّتْ بِہٖ ولولا ان را برھان ربہ لھم بھا (قرطبی ج 9 ص 166) ۔ 24:۔ برہان کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ زلیخا نے کونے میں رکھے ہوئے ایک بت پر پردہ ڈالا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس کا سبب پوچھا وہ بولی یہ میرا معبود ہے فعل بد کرتے ہوئے اس سے شرم آتی ہے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا تو اس بےحس و بےشعور خدا سے شرماتی ہے تو میں اپنے علیم وخبیر خدا سے کیوں نہ شرماؤں اس لیے انہوں نے برے کام کا ارادہ بھی نہ فرمایا (قرطبی) بعض نے لکھا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) متمثل ہو کر سامنے آگئے تھے۔ یہ بات کمزور اور بےدلیل ہے۔ حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں برہان سے استقامت اور ربط القلب مراد ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو صلاح وتقویٰ پر اس قدر محکم و مستقیم فرما دیا کہ ان کے دل میں گناہ کا ارادہ بھی پیدا نہ ہوا۔ 25:۔ ” لِنَصْرِفَ “ کا متعلق محذوف ہے ای کذلک ثبتناہ لنصرف یعنی ہم نے یوسف کو یوں ثابت قدم رکھا تاکہ اپنے آقا کی خیانت اور اپنے خالق کی معصیت سے اس کو محفوظ رکھیں کیونکہ وہ ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھا۔ ” اَلسُّوْءُ “ خیانت ” اَلْفَحْشَاء “ زنا (مدارک) ۔ ” اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ “ جملہ تعلیل برائے ماقبل۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

24 اور بلاشبہ اس عورت نے یوسف (علیہ السلام) کی جانب عزم اور پختہ قصد کیا اور یوسف (علیہ السلام) کا اس کی طرف غیر ارادی محض امر طبعی کے طورپر میلان ہوا اگر یوسف (علیہ السلام) نے اپنے رب کی دلیل کو نہ دیکھا ہوتا تو میلان بڑھ جانے کا اندیشہ تھا ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو اسی طرح ثابت قدم رکھا اور اسی طرح ان کو علم دیا تاکہ ہر قسم کی برائی اور بےحیائی سے یوسف (علیہ السلام) کو دور رکھیں بیشک وہ یوسف (علیہ السلام) ہمارے برگزیدہ اور چیدہ بندوں میں سے تھا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں نقل ہے کہ حضر ت یعقوب (علیہ السلام) کی صورت ان کو نظر آئی انگلی دانت میں باقی خیال گناہ گناہ نہیں اگر گناہ ہے تو کمتر سا اصل گناہ سے پیغمبر کو بچا لیا اللہ نے 12 حضرت یوسف (علیہ السلام) کو علم و حکمت سے نوازا گیا اور ان کو روحانی مراتب سے سرفراز کیا گیا اور جس طرح بڑے لوگوں کو مختلف امتحان و ابتلاء پیش آتے ہیں اسی طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) ایک اور امتحان میں مبتلا ہوئے کہ وہ ذلیخا جس کے گھر میں حضرت یوسف (علیہ السلام) مقیم تھے وہ ان کے حسن و جمال پر فریفتہ ہوگئی اور چاہا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اس کی خواہش پوری کردیں اس لئے ذلیخا نے کمروں کے دروازے بند کردئیے اور ان کو بلایا اور گناہ کے عزم کے ساتھ بلایا گو حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ایک طبعی میلان ہوا جیسے گرمی کے رمضان میں پانی کو دیکھ کر ایک روزہ دار کو بلا ارادہ ایک طبعی میلان ہوتا ہے لیکن روزہ توڑنے یا پانی پینے کا خیال تک نہیں ہوتا البتہ پیاس کی حالت میں پانی کو دیکھ کر ایک طبعی میلان ضرور ہوتا ہے اس سے زیادہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے میلان کی حقیت نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے دلیل کھائی اور دکھائی وہ دلیل یہی حکم شرعی جس کا اظہار فرمایا اور بدکاری کی ممانعت اور حرمت سامنے آگئی یا حضرت یعقوب کا نظر آجانا جیسا کہ مجاہد اور مقاتل کی روایت میں ہے۔ بہرحال دلیل کے سامنے آجانے سے گناہ کے مرتکب ہونے سے محفوظ رہے اگر ان کے رب کی دلیل سامنے نہ آجاتی تو یہ تقاضائے بشریت میلان بڑھ جاتا کیونکہ اسباب و دوامی اسقدر قومی تھے جہاں طبعی میلان میں اضافہ کا ہوجانا کچھ بعید نہ تھا۔ علماء نے تفسیر میں مختلف اقوال ذکر کئے ہیں لیکن ہم نے سب سے راحج قول اختیار کیا ہے سو اور فحشاء سے بعض حضرات نے صغیرہ اور کبیرہ دونوں گناہوں سے دور رہنا ظاہر کیا ہے اور یہ صحیح ہے کہ نہ صغیرہ کے حضرت یوسف (علیہ السلام) مرتکب ہوے اور نہ کبیرہ کے بلکہ طبعی میلان پر قابو پالینے اور گناہ سے بچ جانے پر ایک نیکی کے مستحق ہوئے زلیخا کی شہادت آگے آرہی ہے اللہ تعالیٰ نے خود ان کو بندگان مخلصین میں سے فرمایا ہے اور ظاہر ہے کہ شیطان اللہ تعالیٰ کے مخلصین بندوں پر قابو نہیں پاتا الا عباددک منھم المخلصین شہر کی عورتوں کا بیان آگے آئے گا۔ حاشا للہ ما علمنا علیہ من سوء ان تمام شہادتوں کے بعد اگر کوئی شخص کوئی شبہ کرتا ہے تو وہ انبیاء (علیہم السلام) کی عصمت پر حرف گیری کا مستحق ہوتا ہے اعاذنا للہ منہ