Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 33

سورة يوسف

قَالَ رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَیۡہِ ۚ وَ اِلَّا تَصۡرِفۡ عَنِّیۡ کَیۡدَہُنَّ اَصۡبُ اِلَیۡہِنَّ وَ اَکُنۡ مِّنَ الۡجٰہِلِیۡنَ ﴿۳۳﴾

He said, "My Lord, prison is more to my liking than that to which they invite me. And if You do not avert from me their plan, I might incline toward them and [thus] be of the ignorant."

یوسف علیہ ا لسلام نے دعا کی اے میرے پروردگار! جس بات کی طرف یہ عور تیں مجھے بلا رہی ہیں اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے ، اگر تو نے ان کا فن فریب مجھ سے دور نہ کیا تو میں ان کی طرف مائل ہو جاؤں گا اور بالکل نادانوں میں جا ملوں گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ... He said: "O my Lord! Prison is dearer to me than that to which they invite me..." (illegal sexual acts), ... وَإِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ ... Unless You turn away their plot from me, I will feel inclined towards them, Yusuf invoked Allah: If You abandon me and I am reliant on myself, then I have no power over myself, nor can I bring harm or benefit to myself, except with Your power and will. Verily, You are sought for each and everything, and our total reliance is on You Alone for each and everything. Please, do not abandon me and leave me to rely on myself, for then, ... أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ دعا اپنے دل میں کی۔ اس لئے کہ ایک مومن کے لئے دعا بھی ایک ہتھیار ہے۔ حدیث میں آتا ہے، سات آدمیوں کو قیامت والے دن عرش کا سایہ عطا فرمائے گا، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جسے ایک ایسی عورت دعوت گناہ دے جو حسن و جمال سے بھی آراستہ ہو اور جاہ و منصب کی حامل ہو۔ لیکن وہ اس کے جواب میں کہہ دے کہ میں تو ' اللہ ' سے ڈرتا ہوں (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٢] مصری تہذیب کی فحاشی کا نمونہ :۔ غور فرمائیے۔ یہ دور سیدنا یوسف کے لیے کس قدر ابتلاء کا دور تھا۔ پہلے ایک عورت پیچھے پڑی تھی۔ اب شہر بھر کے رؤسا کی حسین و جمیل بیگمات آپ کے پیچھے پڑگئیں جو زبانی تو سیدنا یوسف کو زلیخا کی بات مان لینے اور قید سے بچ جانے کی تلقین کر رہی تھیں مگر حقیقتاً ان میں سے ہر ایک انھیں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ آپ کا شہر میں آزادانہ چلنا پھرنا بھی مشکل ہوگیا تھا۔ اب آپ کے سامنے دو ہی راستے رہ گئے تھے۔ ایک یہ کہ ان عورتوں کی بات مان لیں اور دوسرے یہ کہ قید ہونا گوارا کرلیں۔ ضمناً اس واقعہ سے اس دور کی اخلاقی حالت پر بھی خاصی روشنی پڑتی ہے کہ بےحیائی کس قدر عام تھی اور اس فحاشی کے سلسلہ میں عورتوں کو کس قدر آزادی اور بےباکی حاصل تھی اور ان کے مقابلہ میں مرد کتنے کمزور تھے یا کس قدر دیوث تھے ؟ سیدنا یوسف کی دعا اور قید کو ترجیح :۔ یہ صورت حال دیکھ کر سیدنا یوسف نے اپنے آپ پروردگار سے ہی فریاد کی کہ اس دور ابتلاء میں تو ہی مجھے ثابت قدم رکھ سکتا ہے اور ان عورتوں کی مکاریوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے ورنہ ان طوفانوں کا مقابلہ کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ میں تو اس گندے ماحول سے یہی بہتر سمجھتا ہوں کہ قید کی مشقت گوارا کرلوں۔ [٣٣] عالم بےعمل جاہل :۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو عالم اپنے علم کے مطابق عمل نہ کرے وہ شرعی اعتبار سے جاہل ہے اور جاہل کے لفظ کا اس پر اطلاق ہوسکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَيَّ ً ۔۔ : یوسف (علیہ السلام) کے لیے یہ سخت امتحان کا وقت تھا، ان کے سامنے ایک طرف معصیت، یعنی اللہ کی نافرمانی ہے جس کے نتیجے میں ان کی ہر طرح ناز برداری ہوتی۔ دوسری طرف مصیبت ہے جو قید کی صورت میں ہے اور عزیز مصر کی بیوی قسم کھا کر (لام تاکید اور نون تاکید قسم کا فائدہ دیتے ہیں) اپنی حکم عدولی کی صورت میں قید کروانے کا عزم ظاہر کر رہی ہے۔ اس امتحان میں اللہ کے خاص بندے کبھی معصیت الٰہی کو ترجیح نہیں دیتے، بلکہ مصیبت قبول کرکے اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردیتے ہیں۔ ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( سَبْعَۃٌ یُظِلُّھُمُ اللّٰہُ فِيْ ظِلِّہِ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہُ : الإِْمَامُ الْْعَادِلُ ، وَ شَابٌّ نَشَأَ فِيْ عِبَادَۃِ رَبِّہِ ، وَ رَجُلٌ قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِی اللّٰہِ اجْتَمَعَا عَلٰی ذٰلِکَ وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْہُ امْرَأَۃٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَ جَمَالٍ فَقَالَ اِنِّيْ أَخَاف اللّٰہَ ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفَی حَتّٰی لاَ تَعْلَمَ شِمَالُہُ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہُ ، وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ )” سات آدمی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس (کے عرش) کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا : 1 عادل حکمران۔ 2 وہ نوجوان جس نے اللہ کی عبادت میں نشوو نما پائی۔ 3 وہ آدمی جس کا دل مسجدوں سے اٹکا ہوا ہے۔ 4 وہ دو آدمی جنھوں نے اللہ ہی کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کی، اسی پر جمع ہوئے اور اسی محبت پر جدا ہوئے۔ 5 وہ آدمی جسے کسی اثر و رسوخ اور حسن و جمال والی عورت نے اپنی طرف بلایا مگر اس نے کہا : میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ 6 وہ آدمی جس نے صدقہ کیا اور اس قدر چھپا کردیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوئی کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا دیا۔ 7 وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہ پڑے۔ “ [ بخاری، الأذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ۔۔ : ٦٦٠۔ مسلم : ١٠٣١ ] یا اللہ ! تو اپنے فضل سے ہمیں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل فرما۔ (آمین) ” يَدْعُوْنَنِيْٓ“ اور ” كَيْدَهُنَّ “ (جمع مؤنث کے صیغوں) سے پوری مجلس دعوت گناہ دینے کے لیے آراستہ کرنا ثابت ہوتا ہے، جیسا کہ بالتفصیل اوپر گزرا۔ ” اَصْبُ “ ” صَبَا یَصْبُوْ “ سے ہے جس کا معنی مائل ہونا ہے۔ اصل میں ” اَصْبُوْ “ تھا، ” وَاِلَّا تَصْرِفْ “ کا جواب ہونے کی وجہ سے واؤ گرگئی۔ اس آیت سے دو نہایت اہم سبق ملتے ہیں، ایک یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ مدد نہ کرے اور اس کی دستگیری نہ ہو تو کوئی شخص بھی اپنے آپ کو گناہ سے، خصوصاً عورتوں کے فتنے سے نہیں بچا سکتا، دوسرا یہ کہ جب کوئی شخص اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتا تو وہ اور جاہل برابر ہیں۔ یہ ہے یوسف (علیہ السلام) کی پیغمبرانہ شان، اپنی طہارت اور پاک دامنی کا قطعاً دعویٰ نہیں کیا، بلکہ اپنے آپ کو حالات کا مقابلہ کرنے سے عاجز قرار دیتے ہوئے یہی فرمایا کہ عفت و پاک دامنی پر ثابت قدم رکھنا اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، وہ اگر توفیق نہ دے گا تو میں نفس اور شیطان کے فریب میں آ کر گناہ کی طرف مائل ہوجاؤں گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

And some words of the Holy Qur&an which appear later (33) also support it, for example: يَدْعُونَنِي (yad unani: these women invite me) and: كَيْدَهُنَّ (kaidahunna: their guile) where the statement of some women has been mentioned in the plural form. When Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) saw that these women were also support¬ing Zulaikha and there remained no other visible way to stay safe against their guile, he turned to his ultimate resort, to Allah jalla tha¬na&uh, and before Him, he said: رَ‌بِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ۖ وَإِلَّا تَصْرِ‌فْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ My Lord, the prison is dearer to me than what these women in¬vite me to. And unless You turn their guile away from me, I shall get inclined towards them and shall be among the ignor¬ant. Here, the statement of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) that ` the prison is dearer to me& does not reflect any desire or wish to be detained in a prison, in-stead of that, it is an expression which shows that he would find it easier to face this temporal hardship as compared to that of falling in sin. Ac-cording to some narrations, when Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) was confined to the prison, a revelation from Allah Ta ala told him: You have put yourself into the prison by what you yourself had said: السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ (the pri¬son is dearer to me) and had you asked for wellbeing (&afiyah), you would have been blessed with perfect well-being. From here we come to know that, to stay safe from a major hardship, saying in prayer that one better be subjected to some minor hardship in lieu of it is not appropri¬ate. Instead of doing that, one should, when under the threat of any hardship, problem or distress, pray to Allah Ta` ala for nothing but ` afiyah (wellbeing). Therefore, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) prohibited a man from praying for sabr (patience) saying that sabr is done when one faces dis¬tress and hardship. So, rather praying to Allah for sabr, pray for ` afiyah. (Tirmidhi) The uncle of the Holy Prophet |", Sayyidna ` Abbs (رض) asked him: Teach me a prayer I should make. He said: Pray for ` afiyah (well-be¬ing) from your Rabb. Sayyidna ` Abbas* says when he, after a period of time, once again asked him to be advised of some du &he should be mak¬ing, he said: Pray to Allah Ta` ala for ` afiyah in dunya and &akhirah. (Mazhari from Tabarani) As for the saying of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) : ` And unless you do not turn their guile away from me, I shall get inclined towards them,& this is not contrary to the concept of the ` Ismah of prophethood (a prophet&s state of being Divinely protected from sin) - because the very outcome of ` Ismah is that Allah Ta ala would, by arranging to keep a person safe from sin as a creational imperative, protect him from falling into it. Though Sayy¬idna Yusuf (علیہ السلام) had this desired cover by virtue of his being a prophet, yet he was compelled to make this du& because of the great awe he had for Him in his heart. This also tells us that no one can, without the help and support of Allah Ta ala, stay safe from sin. And it also makes it clear that every act of sin is caused by ignorance (jahalah), the opposite of which is knowledge ( ‘ilm), and ` Ilm (knowledge) demands abstention from sins. (Qurtubi)

اور قرآن کریم کے بعض الفاظ جو آگے آتے ہیں ان سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے مثلا يَدْعُوْنَنِي اور كَيْدِكُنَّ جن میں چند عورتوں کا قول بصیغہ جمع ذکر کیا گیا ہے، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا کہ یہ عورتیں بھی اس کی موافقت اور تائید کر رہی ہیں اور ان کے مکر وکید سے بچنے کی ظاہری کوئی تدبیر نہ رہی تو پھر اللہ جل شانہ کی طرف ہی رجوع فرمایا اور بارگاہ رب العزت میں عرض کیا رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَيَّ مِمَّا يَدْعُوْنَنِيْٓ اِلَيْهِ ۚ وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّيْ كَيْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَيْهِنَّ وَاَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِيْنَ یعنی اے میرے پالنے والے یہ عورتیں مجھے جس کام کی طرف دعوت دیتی ہیں اس سے تو مجھے جیل خانہ زیادہ پسند ہے اور اگر آپ ہی ان کے داؤ پیچ کو مجھ سے دفع نہ کریں تو ممکن ہے کہ میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں اور نادانی کا کام کر بیٹھوں یوسف (علیہ السلام) کا یہ فرمانا کہ جیل خانہ مجھے پسند ہے کوئی قید و بند کی طلب یا خواہش نہیں بلکہ گناہ کے مقابلہ میں اس دنیوی مصیبت کو آسان سمجھنے کا اظہار ہے اور بعض روایات میں ہے کہ جب یوسف (علیہ السلام) قید میں ڈالے گئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ آپ نے قید میں اپنے آپ کو خود ڈالا ہے کیونکہ آپ نے کہا تھا السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَيَّ یعنی اس کی نسبت مجھ کو جیل خانہ زیادہ پسند ہے اور اگر آپ عافیت مانگتے تو آپ کو مکمل عافیت مل جاتی اس سے معلوم ہوا کہ کسی بڑی مصیبت سے بچنے کے لئے دعاء میں یہ کہنا کہ اس سے تو یہ بہتر ہے کہ فلاں چھوٹی مصیبت میں مجھے مبتلاکر دے مناسب نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ہر مصیبت اور بلاء کے وقت عافیت ہی مانگنی چاہئے اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبر کی دعاء مانگنے سے ایک شخص کو منع فرمایا کہ صبر تو بلاء و مصیبت پر ہوتا ہے تو اللہ سے صبر کی دعاء مانگنے کے بجائے عافیت کی دعاء مانگو (ترمذی) اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت عباس (رض) نے عرض کیا کہ مجھے کوئی دعاء تلقین فرما دیجئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنے رب سے عافیت کی دعاء مانگا کریں حضرت عباس (رض) فرماتے ہیں کہ کچھ عرصہ کے بعد پھر میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تلقین دعاء کا سوال کیا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے دنیا وآخرت کی عافیت مانگا کریں (مظہری ازطبرانی ) اور یہ فرمانا کہ اگر آپ ان کے مکر وکید کو دفع نہ کریں گے تو ممکن ہے کہ میں انکی طرف مائل ہوجاؤں یہ عصمت نبوت کے خلاف نہیں کیونکہ عصمت کا تو حاصل ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو گناہ سے بچانے کا تکوینی طور پر انتظام فرما کر اس کو گناہ سے بچا لیں اور گو بمقتضاء نبوت یہ مقصد پہلے ہی سے حاصل تھا مگر پھر بھی غایت خوف ادب سے اس کی دعاء کرنے پر مجبور ہوگئے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر گناہ کا کام جہالت سے ہوتا ہے علم کا تقاضا گناہوں سے اجتناب ہے (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَيَّ مِمَّا يَدْعُوْنَنِيْٓ اِلَيْہِ۝ ٠ ۚ وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّيْ كَيْدَہُنَّ اَصْبُ اِلَيْہِنَّ وَاَكُنْ مِّنَ الْجٰہِلِيْنَ۝ ٣٣ سجن السَّجْنُ : الحبس في السِّجْنِ ، وقرئ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف/ 33] ( س ج ن ) السجن ( مصدرن ) قید خانہ میں بند کردینا ۔ اور آیت ۔ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف/ 33] اے میرے پروردگار قید خانہ میں رہنا مجھے زیادہ پسند ہے ۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ صرف الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] ( ص ر ف ) الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ كيد الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] ( ک ی د ) الکید ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ جهل الجهل علی ثلاثة أضرب : - الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام . - والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه . - والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ج ھ ل ) الجھل ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔ ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٣) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا تو اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اے میرے پروردگار جس فضول کام کی طرف یہ مجھے بلارہی ہیں اس سے تو جیل میں جانا ہی مجھے بہتر ہے۔ اور اگر آپ انکے داؤ پیچ کو مجھ سے دفع نہ کریں گے تو ان کی صلاح کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور آپ کی نعمت سے نادان ہوجاؤں گا یا یہ کہ نادانی کا کام کر بیٹھوں گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28. In order to grasp the full significance of this prayer of Prophet Joseph, we should try to form a mental picture of the circumstances in which he was placed at that time. In the light of this passage the picture will be something like this. There is the handsome young man of twenty in the prime of his life, who has brought health and vigor of youth from the desert into Egypt, after passing through the ordeal of forced slavery and exile. Fortune has placed him in the house of one of the highest dignitaries in the capital of the most civilized country of the world at the time. There this handsome young man meets in the prime of life with a strange experience. The lady of the house in which he has to live day and night falls passionately in love with him and begins to tempt and seduce him. Then the fame of his beauty spreads all over the capital and the other ladies of the town also become enamored of him. Now this is the critical position. He is surrounded on all sides by hundreds of beautiful snares that have been spread to entrap and catch him unaware. All sorts of devices are employed to excite his passions and entice him: wherever he goes he encounters sin lying in ambush with all its charms and allurements and waiting for an opportune moment to make a surprise attack upon him. Such are the circumstances that are tempting him with sin, but the pious young man successfully passes through the ordeal, set for him by Satan, with the self control that is praiseworthy indeed. But it is all the more praiseworthy that he does not feel any pride for showing such extraordinary piety in such trying and tempting circumstances. On the other hand, he very humbly invokes his Lord to protect him from those traps of sin, for he is afraid of the common human weaknesses and cries out: My Lord, I am weak. I fear lest these temptations should overpower me, I would rather prefer imprisonment to doing such an evil thing into which they are tempting to ensnare me. In fact, that was the most important and critical period of Prophet Joseph’s training, and this hard ordeal helped to bring forth all his latent virtues of which he himself was unaware up to that time. Then he himself realized that Allah had endowed him with the high and extraordinary qualities of honesty, fidelity, piety, charity, righteousness, self control, balance of mind, and he made full use of these when he gained power in Egypt.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :28 یہ آیات ہمارے سامنے ان حالات کا ایک عجیب نقشہ پیش کرتی ہیں جن میں اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام مبتلا تھے ۔ انیس بیس سال کا ایک خوبصورت نوجوان ہے جو بدویانہ زندگی سے بہترین تندرستی اور بھری جوانی لیے ہوئے آیا ہے ۔ غریبی ، جلاوطنی اور جبری غلامی کے مراحل سے گزرنے کے بعد قسمت اسے دنیا کی سب سے بڑی متمدن سلطنت کے پایہ تخت میں ایک بڑے رئیس کے ہاں لے آئی ہے ۔ یہاں پہلے تو خود اس گھر کی بیگم یہ اس کے پیچھے پڑ جاتی ہے جس سے اس کا شب و روز کا سابقہ ہے ۔ پھر اس کے حسن کا چرچا سارے دارالسلطنت میں پھیلتا ہے اور شہر بھر کے امیر گھرانوں کی عورتیں اس پر فریفتہ ہو جاتی ہیں ۔ اب ایک طرف وہ ہے اور دوسری طرف سیکڑوں خوبصورت جال ہیں جو ہر وقت ہر جگہ اسے پھانسنے کے لیے پھیلے ہوئے ہیں ۔ ہر طرح کی تدبیر یں اس کے جذبات کو بھڑکانے اور اس کے زہد کو توڑنے کے لیے کی جارہی ہیں ۔ جدھر جاتا ہے یہی دیکھتا ہے کہ گناہ اپنی ساری خوشنمائیوں اور دلفریبیوں کے ساتھ دروازے کھولے اس کا منتظر کھڑا ہے ۔ کوئی تو فجور کے مواقع خود ڈھونڈھتا ہے ، مگر یہاں خود مواقع اس کو ڈھونڈ رہے ہیں اور اس تاک میں لگے ہوئے ہیں کہ جس وقت بھی اس کے دل میں برائی کی طرف ادنیٰ میلان پیدا ہو وہ فورا اپنے آپ کو اس کے سامنے پیش کر دیں ۔ رات دن کے چوبیس گھنٹے وہ اس خطرے میں بسر کر رہا ہے کہ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے ارادے کی بندش میں کچھ ڈھیل آجائے تو وہ گناہ کے ان بے شمار دروازوں میں سے کسی میں داخل ہو سکتا ہے جو اس کے انتظار میں کھلے ہوئے ہیں ۔ اس حالت میں یہ خدا پرست نوجوان جس کامیابی کے ساتھ ان شیطانی تر غیبات کا مقابلہ کرتا ہے وہ بجائے خود کچھ کم قابل تعریف نہیں ہے ۔ مگر ضبط نفس کے اس حیرت انگیز کمال پر عرفانِ نفس اور طہارت فکر کا مزید کمال یہ ہے کہ اس پر بھی اس کے دل میں کبھی یہ متکبرانہ خیال نہیں آتا کہ واہ رے میں ، کیسی مضبوط ہے میری سیرت کہ ایسی ایسی حسین اور جوان عورتیں میری گرویدہ ہیں اور پھر بھی میرے قدم نہیں پھسلتے ۔ اس کے بجائے وہ اپنی بشری کمزوریوں کا خیال کر کے کانپ اٹھتا ہے اور نہایت عاجزی کے ساتھ خدا سے مدد کی التجا کرتا ہے کہ اے رب ، میں ایک کمزور انسان ہوں ، میرا اتنا بل بوتا کہاں کہ ان بے پناہ ترغیبات کا مقابلہ کر سکوں ، تو مجھے سہارا دے اور مجھے بچا ، ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے قدم پھسل نہ جائیں ۔ درحقیقت یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی اخلاقی تربیت کا اہم ترین اور نازک ترین مرحلہ تھا ۔ دیانت ، امانت ، عفت ، حق شناسی ، راست روی ، انضباط ، اور توازن ذہنی کی غیر معمولی صفات جو اب تک ان کے اندر چھپی ہوئی تھیں اور جن سے وہ خود بھی بے خبر تھے ، وہ سب کی سب اس شدید آزمائش کے دور میں ابھر آئیں ، پورے زور کے ساتھ کام کرنے لگیں اور انہیں خود بھی معلوم ہوگیا کہ ان کے اندر کون کون سی قوتیں موجود ہیں اور وہ ان سے کیا کام لے سکتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

22: بعض روایات میں ہے ان عورتوں نے جو پہلے زلیخا کو ملامت کر رہی تھیں، حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھنے بعد اُلٹی حضرت یوسف علیہ السلام کو نصیحت کرنی شروع کردی کہ تمہیں اپنی مالکہ کا کہنا ماننا چاہئے اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان عورتوں میں بھی کچھ نے انہیں تنہائی میں نصیحت کے بہانے بلا کر گناہ کی دعوت دینی شروع کی۔ اس لئے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی دُعا میں صرف زلیخا کا نہیں، بلکہ تمام عورتوں کا ذکر فرمایا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:33) رب۔ ای یاربی۔ اے میرے رب۔ احب۔ افعل التفضیل کا صیغہ ۔ زیادہ پیارا۔ زیادہ عزیز۔ یدعوننی۔ یدعون مضارع جمع مؤنث غائب دعوۃ سے (باب نصر) فی ضمیر مفعول واحد متکلم ۔ وہ مجھے بلاتی ہیں۔ الا تصرف عنی۔ الا۔ ان لا۔ صرف عن۔ کسی کو کسی چیز سے پھیر دینا۔ ہٹا دینا۔ لاتصرف مضارع منفی واحد مذکر حاضر۔ الا تصرف عننی۔ اگر تو (ان کے چرتر کو) مجھ سے پھیر نہ دیگا ہٹا نہ دے گا ۔ یا دور نہ کر دے گا۔ اصب۔ صبا یصبوا (باب نصر) صبوۃ وصبو۔ کسی چیز کی طرف مائل ہونا۔ اصب مضارع واحد متکلم۔ میں مائل ہوجاؤں گا۔ اصب اصل میں اصبو تھا۔ جواب شرط کی وجہ سے واؤ حذف ہوگیا۔ اکن اصل میں اکون تھا۔ مضارع واح دمتکلم ۔ جواب شرط کی وجہ سے مجزوم ہوکر واؤ بوجہ اجتماع ساکنین گرگیا۔ میں ہوجاؤں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ ” یہاں صیغہ تفضیل (احب) اپنے اصلی معنی میں نہیں ہے بلکہ دو مصیبتوں میں سے ” اہوں “ کو اختیار فرما رہے ہیں۔ “ یہ ہے اصل تقویٰ ۔ حدیث میں ہے کہ سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا جس دن کہ اس کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔ عادل حکمران، وہ نوجوان جس نے اللہ کی عبادت میں نشوونماپائی۔ وہ شخص جو مسجد سے جب بھی باہر جاتا ہے اس کا دل مسجد میں اٹکا رہتا ہے یہاں تک واپس آجائے۔ وہ دو آدمی جنہوں نے اللہ ہی کی رضا جوئی کے لئے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کی، اسی محبت پر جمع ہوئے اور اسی محبت پر جدا ہوئے۔ وہ آدمی جس نے اپنا صدقہ اس قدر چھپا کردیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوئی کہ اس کے دائیں ہاتھ نہ کیا دیا۔ وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے اور وہ آدمی جسے کسی باثر و رسوخ خوبصورت عورت نے اپنی طرف بلایا مگر اس نے کہاَ ” انی اخاف اللہ “ کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (بخاری مسلم) ۔ 6 ۔ کیونکہ جب کوئی شخص اپنے علم مطابق عمل نہیں کرتا تو وہ اور جاہل برابر ہیں یا جہالت بمعنی سفاہت ہے۔ یہ ہے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی پیغمرانہ شان، اپنی طہارت اور پاک دامنی کا قطعاً دعویٰ نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کو حالات کا مقابلہ کرنے سے عاجز قرار دیتے ہوئے یہی فرمایا : کہ عفت و پاکدامنی پر ثابت قدم رکھنا للہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اگر توفیق نہ دے گا تو میں نفس اور شیطان کے فریب میں آکر گناہ کی طرف مائل ہوجائوں گا۔ (وحیدی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 33 تا 35 السجن (جیل، قید خانہ) احب (زیادہ محبوب ہے، زیادہ پسندیدہ ہے) الی (میری طرف، مجھے ) یدعون (وہ بلاتے ہیں ) الا تصرف (اگر تو نہیں پھیرتا ہے ) اصب میں مبتلا ہوجاؤں گا کان میں ہوجاؤں گا حین زمانہ، وقت تشریح : آیت نمبر 33 تا 35 زلیخا (عزیز مصر کی بیوی) صاف الفاظ میں کہہ چکی تھی کہ یوسف کو ہر حال میں میری بات ماننا پڑے گی۔ اگر اس نے میری ابت نہ مانی تو میں اس کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ضرور پہنچا دوں گی حضرت یوسف زلیخا اور بیگمات مصر کی بےتکی اور فضول باتوں سے بہت رنجیدہ تھے۔ آخر کار حضرت یوسف اللہ کی بارگاہ میں جھک گئے اور نہایت عزجزی کے ساتھ عرض کیا۔ الٰہی ! یہ عورتیں مجھے اپنی ہوس اور خواہش پر قربان کرنا چاہتی ہیں مجھے ان کی جھوٹی خواہشوں اور پرفریب حرکتوں سے محفوظ فرما۔ اے اللہ میری دستگیری فرمایئے کیونکہ انہوں نے میرے لئے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کردیئے ہیں۔ الٰہی مجھے ان عورتوں کے مکر و فریب اور خواہشات سے محفوظ فرما دے۔ مجھے جیل جانا پسند ہے لیکن کسی گناہ کے تصور سے بھی میں کانپ اٹھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کی دعا کو قبول فرمایا۔ ادھر اسباب یہ ہوئے کہ عزیز مصر اس بات سے سخت پریشان تھا کہ یوسف بیشک بےقصور ہیں اور ان کا کردار ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر ہے لیکن اس واقعہ کی اتنی شہرت ہوچکی ہے کہ گھر گھر میں اس کا چرچا ہو رہا تھا۔ اب دو ہی صورتیں تھیں کہ اس واقعہ پر خاموشی اختیار کی جائے یا اس واقعہ کا انکار کر کے لوگوں کو یقین دلایا جائے کہ ایسا سب کچھ نہیں ہے جیسا کہ لوگ سمجھ رہے ہیں۔ پہلی صورت میں دشواری یہ بھی کہ خاموش رہنے سے اس بات کے ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ دوسری صورت کا یہی حل تھا کہ حضرت یوسف کو قید کردیا جائے تاکہ لوگوں کی زبانیں بند ہوجائیں، شاہی خاندان کا وقار بھی بچ جائے اور لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہوجائیں کہ اس میں زلیخا (عزیز مصر کی بیوی) کا کوئی قصور نہیں ہے۔ بالاخر حضرت یوسف کو قید خانے بھیج دیا گیا۔ حضرت یوسف جیسے ہی قید خانے میں داخل ہوئے اور چند روز میں اعلیٰ سیرت و کردار کا مظاہرہ کیا تو ہر شخص آپ کا گرویدہ ہوگیا۔ قید خانے کے داروغہ نے تو قید خانے کے سارے اہم معاملات حضرت یوسف کے حوالے کردیئے تھے۔ حضرت یوسف کو دیکھ کر ہر شخص کو اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ حضرت یوسف کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ ان کو زبردستی قید خانے میں ڈالا گیا ہے۔ اللہ کے نیک بندوں کی بھی عجیب شان ہے کہ وہ آزاد ہوں یا قید میں ہر حال میں اپنی سیرت و کردار کا لوہا منوا لیتے ہیں چناچہ قید خانے کے ہر قیدی کے دل میں آپ کے علم و فضل اور اعلیٰ سیرت و کردار کا نقش جمتا چلا گیا اور وہی قید خانہ حضرت یوسف کے لئے عزت و سربلندی اور لوگوں کی محبت کا مرکز بن گیا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یوسف (علیہ السلام) کا یہ فرمانا الاتصرف عنی۔ منافی عصمت کے نہیں کیونکہ یہ عصمت بھی تو بدولت حفاظت خداوندی ہی کے ہے چونکہ انبیاء کی نظر اصلی موثر کی طرف ہوتی ہے اس لیے ان کو اپنی عصمت پر اعتماد اور ناز نہیں ہوتا اور یوسف کا یہ کہنا الاتصرف مقصود اس سے یہ ہے کہ اصرف عنی اس لیے اس کے بعد فاستجاب فرمایا اور اس استجابت کا بیان خود قرآن میں ہے فصرف عنہ۔ فائدہ۔ سجن میں جانا جزو استجابت نہیں جیسا کہ مشہور ہے کہ قید کی دعا کی اس لیے قید میں گئے کیونکہ قید کی درخواست تو نہیں کی صرف فعل قبیح کا سجن سے اقبح ہونا بیان کیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بےبسی کے عالم میں مانگی ہوئی دعا قبول ہوئی ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) زر خرید غلام اور غریب الوطن ہونے کی وجہ سے ہر طرف سے بےبس اور مجبور تھے۔ اگر فرار کا راستہ اختیار کرتے تو ان کے سامنے جیل خانہ یا موت تھی۔ دوسری طرف ایک نہیں کئی عورتیں بےحیائی کے چنگل میں پھنسانا چاہتی تھیں۔ یوسف (علیہ السلام) جائیں تو جائیں کہاں۔ مزید یہ کہ اس عورت نے ذلیل کرنے یا جیل کی کال کوٹھڑی میں ڈالنے کی دھمکی دی تھی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر اس کا اظہار کیا کہ جس بےشرمی اور بےحیائی کی تو مجھے دعوت دیتی ہے اور اس کے نہ کرنے پر مجھے جیل جانے کی دھمکی سنا رہی ہے۔ شرم و حیا کے لٹ جانے سے میرے لیے یہ بڑا آسان راستہ ہے کہ میں جیل کی کوٹھڑی قبول کرلوں۔ مقصد یہ تھا کہ جس میں انسان کی حیا رخصت ہوجائے ایسی آزادی اور عزت کو پرکاہ برابر نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان خیالات کے اظہار کے بعد یوسف (علیہ السلام) نے دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اپنے رب سے فریاد کی کہ اے رب کریم میں کب تک اس آزمائش میں پڑا رہوں گا۔ جس طرف یہ مجھے بلا رہی ہے۔ اے میرے رب اگر تو نے مجھے ان کے مکرو فریب سے نہ بچایا تو انسان ہونے کے ناتے ڈر ہے کہ کہیں میں ان کی طرف مائل ہو کر تیری بارگاہ میں جاہلوں میں شامل نہ ہوجاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کی فریاد قبول کی اور انہیں عورتوں کے مکرو فریب، بےشرمی اور بےحیائی سے محفوظ کردیا۔ کیونکہ اللہ اپنے بندوں کی فریادیں قبول کرنے والا اور ان کے دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔ مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) نے گناہ کے بجائے جیل کو ترجیح دی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سے برائی سے بچنے کی دعا کرنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعا قبول فرماتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو گناہ سے محفوظ فرمالیا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ سننے اور جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ دعا قبول کرنے اور دلوں کے بھید جاننے والا ہے : ١۔ اللہ نے اس کی دعا قبول فرمائی اور عورتوں کی تدبیر سے اسے دور رکھا بیشک وہ سننے اور جاننے والا ہے۔ (یوسف : ٣٤) ٢۔ اللہ دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہے۔ (البقرۃ : ١٨٦) ٣۔ اللہ فرماتا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ (المومن : ٦٠) ٤۔ بیشک میرا رب دعاؤں کو سننے والا ہے۔ (ابراہیم : ٣٩) ٥۔ بیشک اللہ دعاؤں کو سننے والا ہے۔ (آل عمران : ٣٨) ٦۔ نوح (علیہ السلام) نے پکارا اے میرے پروردگار میں مغلوب ہوں میری مدد فرما۔ (القمر : ١٠) ٧۔ کون ہے جو مجبور کی پکار کو سنتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٨۔ جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اللہ کی طرف جھکتے ہوئے اسے پکارتے ہیں۔ (الروم : ٣٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حضرت یوسف اب صرف عزیز کی بیوی کے خلاف دست بدعا نہیں بلکہ مصر کے اس اعلی طبقے کی عورتیں اب ان کے پیچھے پڑگئی ہیں ، اپنی حرکات اور اپنی باتوں کی وجہ سے تمام عورتیں ان پر بچھی جا رہی ہیں اب وہ اللہ کے سامنے دست بدعا ہوتے ہیں اور ان فتنوں کے مقابلے میں وہ اللہ کی نصرت طلب کرتے ہیں اور اس بات سے ڈرتے ہیں کہ انہیں ہر طرف سے ورغلایا جا رہا ہے اور کسی بھی وقت ان سے کمزوری ظاہر نہ ہونے اس لیے وہ ان حالات میں اور ایسی سخت آزمائش میں خوف کھا رہے ہیں۔ وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّيْ كَيْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَيْهِنَّ وَاَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِيْنَ : " یہ اس انسان کی پکار ہے جسے اپنی شریعت کا احساس ہے ، وہ جانتا ہے کہ انسان انسان ہے۔ وہ اگرچہ جمے ہوئے ہیں لیکن اپنی کمزوریاں بھی ان کی نظر میں ہیں۔ لہذا وہ اللہ کی حفاظت مزید چاہتے ہیں تاکہ وہ ان فتنوں کا مقابلہ اطمینان سے کرسکیں "

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت یوسف (علیہ السلام) کا دعا کرنا کہ اے میرے رب ان عورتوں کے مطالبہ کے مطابق عمل کرنے کی بجائے میرے لئے جیل بہتر ہے اس کے بعد جیل میں تشریف لے جانا پہلے معلوم ہوچکا کہ عزیز مصر کی بیوی نے اپنے شوہر کو دروازہ کے قریب دیکھ کر یہ مشورہ دے دیا تھا کہ اسے جیل میں ڈالا جائے یا درد ناک سزا دی جائے ‘ پھر جب شہر کی دوسری عورتیں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا حسن و جمال دیکھ کر مبہوت ہوگئیں اور عزیز مصر کی بیوی نے ان سے کہا کہ دیکھو تم مجھ پر طعن وتشنیع کر رہی تھیں خود تمہارا کیا حال بنا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اگر اس نے میری بات نہ مانی تو اس کو جیل جانا پڑے گا تو اب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سامنے بظاہر دو ہی راستے تھے اول یہ کہ حسب سابق اسی گھر میں رہتے رہیں جہاں اب تک تھے وہاں وہی عورت تھی جس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بد کر داری کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ کیا تھا اس کا ارادہ ختم نہیں ہوا تھا صاف کہہ دیا تھا کہ اگر اس نے میری بات نہ مانی تو اس کو جیل میں جانا پڑے گا وہ اپنے پھندہ میں پھنسانے کے لیے مصر تھی اس کے گھر میں رہنے سے اندیشہ تھا کہ مصیبت میں مبتلا ہوجائیں اور دوسرا راستہ یہ تھا کہ جیل میں چلے جائیں انہوں نے جیل میں جانے کو پسند کیا اور یہ مناسب جانا کہ عزیز مصر کا گھر چھوٹ جائے تاکہ خود عزیز کی بیوی اور دیگر عورتوں کی تدبیروں اور مکاریوں سے دور ہوجائیں ‘ چونکہ دوسری عورتیں بھی حسن و جمال دیکھ کر قائل ہوگئی تھیں اس لئے یہ بھی خطرہ تھا کہ وہ بھی عزیز مصر کی بیوی کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو گناہ میں استعمال کرنے کی تدبیریں بتانے لگیں یا حضرت یوسف (علیہ السلام) کو پھسلانے لگیں ‘ اس لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے یوں دعا کی کہ اے اللہ یہ عورتیں مجھے جس کام کی دعوت دے رہی ہیں یا آئندہ دعوت دیں گی مجھے اس میں مبتلا ہونے کی بہ نسبت یہ محبوب اور مرغوب ہے کہ جیل میں چلا جاؤں اور ساتھ ہی یہ بھی عرض کیا کہ یا اللہ آپ میری مدد فرمائیے اور عورتوں کے مکرو فریب کو دفع فرمائیے تاکہ میری حفاظت ہو اگر آپ نے ان کی چال بازیوں کو دفع نہ فرمایا اور مجھے ان سے نہ بچایا تو بتقا ضائے بشریت میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور جاہلوں میں شمار ہوجاؤں گا۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) گناہوں سے معصوم تھے اور ان کو معصوم رکھنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا عہدہ نبوت پر سرفراز ہوتے ہوئے معصیت صادر ہونے کا احتمال تو نہ تھا لیکن پھر بھی انہوں نے گناہ سے بچنے کے لیے مزید دعا کی اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ آپ ہی کی حفاظت مجھے محفوظ رکھ سکتی ہے اگر آپ نے میری حفاظت نہ فرمائی تو عورتوں کے اتنے زیادہ پیچھے پڑنے پر نفسانی اور شہوانی ابھار کے باعث ان عورتوں کی طرف مائل ہوجاؤں گا ان کی طرف مائل ہونا جاہلوں کا کام ہے جو گناہ کو گناہ جانتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ قال صاحب الروح ای الذین لا یعملون بما یعلمون لان من لاجدوی لعلمہ فھو ومن لا یعلم سواء صاحب روح المعانی فرماتے ہیں : مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنے علم پر عمل نہیں کرتے کیونکہ جو اپنے علم پر عمل نہیں کرتا وہ اور جو نہیں جانتا دونوں برابر ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور انہیں عورتوں کے مکرو فریب سے بچا دیا یعنی ایسی صورت پیدا فرما دی کہ انہیں جیل میں بھیج دیا گیا جس کی صورت یہ ہوئی کہ عزیز مصر اور اس کے مشورہ دینے والے سوچ بچار کرتے رہے کہ اس مسئلے کا کیا حل ہو آیات (یعنی نشانیاں) اور حالات سے تو یہ واضح ہو رہا ہے کہ یوسف بےگناہ ہے لیکن شہر میں جو چرچا ہوگیا اور باتیں عورتوں سے نکل کر مردوں تک پہنچ گئیں اس کے دبانے کے لئے یہی صورت سمجھ میں آتی ہے کہ ایک عرصہ تک یوسف (علیہ السلام) کو جیل میں رکھا جائے چناچہ انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جیل میں بھیج دیا۔ وہ کون سی آیات اور نشانیاں تھیں جنہیں دیکھ کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی برأت کا یقین کیا گیا تھا ان میں سے ایک تو یہی تھا کہ ان کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا تھا اور دوسرے گود کے بچے کا بولنا یہ بہت بڑی نشانی تھی بعض حضرات نے فرمایا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے جسم میں بھاگنے کے وقت کوئی خراش بھی آگئی تھی یہ بھی ایک نشانی تھی اور ممکن ہے اور بھی نشانیاں ہوں جو تذکرہ میں نہیں آئیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جو جیل میں جانے کی دعا کی اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لی اگر وہ مطلق حفاظت کی دعا کرتے تو جیل میں گئے بغیر دوسری طرح بھی ان کی حفاظت ہوسکتی تھی اللہ جل شانہ کو اس پر قدرت تھی کہ کسی دوسری صورت سے ان کی حفاظت کا انتظام ہوجاتا لیکن وقتی پریشانی کی وجہ سے ان کا ذہن اس طرف نہ گیا اور اپنی حفاظت کے لئے جیل میں جانے کی دعا کرلی، تفسیر قرطبی (ص ١٨٤ ج ٩) میں ہے کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ دعا کی کہ اے اللہ جیل مجھے پسند ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ اے یوسف تم نے خود اپنی جان کو قید میں رکھوانے کی دعا کرلی اگر تم عافیت کی دعا کرتے تو تم کو عافیت دی جاتی ‘ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہمیشہ عافیت کی دعا کرے اور کسی بھی مصیبت سے بچنے کے لیے اپنی طرف سے کوئی صورت تجویز نہ کرے مطلقاً مصیبت سے بچنے کے لیے دعا کرے پھر اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے محفوظ فرمائے اس طرح کے متعدد واقعات سنے گئے ہیں کہ بعض لوگوں نے اپنی طرف سے کوئی صورت تجویز کر کے دعا کرلی پھر جب اس دعا کا ظہور ہوا تو پشیمان ہوئے ‘ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مسلمان کی عیادت کی جو بہت زیادہ بیمار تھے ان کی آواز بہت زیادہ ضعیف تھی اور چوزہ کی طرح دبلے پتلے ہوگئے تھے آپ نے ان سے دریافت فرمایا کیا تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہے ہو انہوں نے عرض کیا کہ میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا تھا کہ مجھے آخرت میں جو عذاب دینا ہے تو اس کے بدلہ میں اسی دنیا میں تکلیف پہنچا دیجئے یہ سن کر آپ نے فرمایا سبحان اللہ تمہیں عذاب کی کہاں سہار ہے تم نے یہ دعا کیوں نہ کی (اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ ) ۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد اس شخص نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اسے شفا دے دی۔ (رواہ مسلم ص ٣٤٣ ج ٢) ایک اور صحابی نے دعا کی کہ اے اللہ مجھے صبر دیجئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تو نے مصیبت کا سوال کیا (کیونکہ صبر مصیبت پر ہوتا ہے) لہٰذا اب تو عافیت کا بھی سوال کرلے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٢١٤ از ترمذی) مومن بندوں کو ہمیشہ عافیت ہی کا سوال کرنا چاہئے حضرت ابوبکر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم اللہ سے معافی کا اور عافیت کا سوال کرو کیونکہ ایمان کی دولت کے بعد کسی کو کوئی ایسی چیز عطا نہیں کی گئی جو عافیت سے بہتر ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٢١٩ از ترمذی) البتہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی دعا سے یہ سبق ضرور ملتا ہے کہ گناہ سے بچنے کا مضبوط پختہ عزم و ارادہ رکھنا چاہئے گناہ سے بچنے کے سلسلے میں اگر کوئی تکلیف پہنچ جانے کا اندیشہ ہو تو بشاشت کے ساتھ قبول کرلے اور گناہ نہ کرے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

32:۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی، میرے آقا ! جس گناہ کی یہ مجھے دعوت دے رہی ہیں اس سے مجھے قید ہوجانا زیادہ پسند ہے، میرے اللہ ! اگر تو نے ان مکار عورتوں کے فریب سے مجھے نہ بچایا تو میرے دل میں ان کی رغبت پیدا ہوجائے گی اور میں نادانوں میں سے ہوجاؤں گا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) قادر و متصرف نہ تھے اسی لیے وہ گناہ سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور دستگیری کی محتاج تھے۔ ” فَا سْتَجَابَ لَہٗ رَبُّہٗ الخ “ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی اور عورتوں کے مکر سے ان کو بچا لیا۔ ” ثُمَّ بَدَا لَھُمْ الخ “ یہ ” فَصَرَفَ عَنْہُ کَیدَھُنَّ “ کا بیان ہے۔ عزیز مصر نے جب شہر کی ہوا دیکھی تو اس نے اپنی بدنامی سے بچنے کے لیے کچھ عرصہ تک حضرت یوسف (علیہ السلام) کو قید کردینے ہی میں مصلحت سمجھی۔ ” اَلْاٰیٰتِ “ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی براءت کے دلائل و شواہد یا شہری ماحول اور حالات۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) زلیخا کے کہنے کے مطابق قید تو کردئیے گئے مگر اللہ تعالیٰ نے قید خانے میں ان کو ذلت و رسوائی سے محفوط رکھا۔ وہ اپنی خداداد خوبیوں، محاسن اخلاق، ظاہری اور باطنی کمالات کی وجہ سے جیل میں بھی عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ داروغہ جیل نے ان سے کہہ دیا کہ میں آپ کو رہا کرنے کا اختیار نہیں رکھت اس کے علاوہ جو بھلائی بھی مجھ سے ہوسکے گی میں کروں گا اور جیل میں آپ پر کوئی پابندی نہیں آپ ہر جگہ آجاسکتے ہیں قال لہ عامل السجن یا فتی لو استطعت خلیت سبیلک ولکن ساحسن جو ارک فکن فی ای بیوت السجن شئت (روح ج 12 ص 240) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

33 حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار جس بری بات کی طرف یہ عورتیں مجھے بلاتی ہیں اس سے تو جیل خانہ جانہ ہی مجھ کو زیادہ پسند یدہ ہے اور اگر تو نے ان کی فریب کاریوں کو مجھ سے دفع نہ کیا اور نہ ان کے دائوں پیچ کو دور نہ رکھا تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ان کی طرف مائل نہ ہوجائو اور پھر میں جاہلوں میں سے ہوجائو یعنی ان عورتوں کے کید کو اگر مجھ سے دور نہ کیا تو میں نادانوں جاہلوں کا سا کام نہ کر بیٹھوں اگر مجھے قید خانے بھی جانا پڑے تو میں کسی معاصی کے مرتکب ہونے سے قیدکو بہتر سمجھتا ہوں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جو خطرہ ظاہر کیا وہ عصمت کے منافی نہیں ہے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے قید خانے جانے کی دعا نہیں کی بلکہ صرف گناہ کے مقابلہ میں قید خانے کو بہتر بتایا ہے۔