Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 35

سورة يوسف

ثُمَّ بَدَا لَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا رَاَوُا الۡاٰیٰتِ لَیَسۡجُنُنَّہٗ حَتّٰی حِیۡنٍ ﴿۳۵﴾٪  14

Then it appeared to them after they had seen the signs that al-'Azeez should surely imprison him for a time.

پھر ان تمام نشانیوں کے دیکھ لینے کے بعد بھی انہیں یہی مصلحت معلوم ہوئی کہ یوسف کو کچھ مدت کے لئے قید خانہ میں رکھیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yusuf is imprisoned without Justification Allah tells, ثُمَّ بَدَا لَهُم مِّن بَعْدِ مَا رَأَوُاْ الايَاتِ لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ Then it occurred to them, after they had seen the proofs (of his innocence), to imprison him for a time. Allah says, `Then it occurred to them that it would be in their interest to imprison Yusuf for a time, even after they were convinced of his innocence and saw the proofs of his truth, honesty and chastity.' It appears, and Allah knows best, that they imprisoned him after the news of what happened spread. They wanted to pretend that Yusuf was the one who tried to seduce the Aziz's wife and that they punished him with imprisonment. This is why when the Pharaoh asked Yusuf to leave jail a long time afterwards, he refused to leave until his innocence was ascertained and the allegation of his betrayal was refuted. When this was successfully achieved, Yusuf left the prison with his honor intact, peace be upon him.

جیل خانہ اور یوسف علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی کا راز سب پر کھل گیا ۔ لیکن تاہم ان لوگوں نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ کچھ مدت تک حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانہ مییں رکھیں ۔ بہت ممکن ہے کہ اس میں ان سب نے یہ مصلحت سوچی ہو کہ لوگوں میں یہ بات پھیل گئی ہے کہ عزیز کی بیوی اس کی چاہت میں مبتلا ہے ۔ جب ہم یوسف کو قید کر دیں گے وہ لوگ سمجھ لیں گے کہ قصور اسی کا تھا اسی نے کوئی ایسی نگاہ کی ہوگی ۔ یہی وجہ تھی کہ جب شاہ مصر نے آپ کو قید خانے سے آزاد کرنے کے لیے اپنے پاس بلوایا تو آپ نے وہیں سے فرمایا کہ میں نہ نکلوں گا جب تک میری برات اور میری پاکدامنی صاف طور پر ظاہر نہ ہو جائے اور آپ حضرات اس کی پوری تحقیق نہ کرلیں جب تک بادشاہ نے ہر طرح کے گواہ سے بلکہ خود عزیز کی بیوی سے پوری تحقیق نہ کر لی اور آپ کا بےقصور ہونا ، ساری دنیا پر کھل نہ گیا آپ جیل خانے سے باہر نہ نکلے ۔ پھر آپ باہر آئے جب کہ ایک دل بھی ایسا نہ تھا جس میں صدیق اکبر ، نبی اللہ پاکدامن اور معصوم رسول اللہ حضرت یوسف علیہ الصلواۃ والسلام کی طرف سے ذرا بھی بد گمانی ہو ۔ قید کرنے کی بڑی وجہ یہی تھی کہ عزیز کی بیوی کی رسوائی نہ ہو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 عفت و پاک دامنی واضح ہوجانے کے باوجود یوسف (علیہ السلام) کو حوالہ زنداں کرنے میں یہی مصلحت ان کے پیش نظر ہوسکتی تھی کہ عزیز مصر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنی بیوی سے دور رکھنا چاہتا ہوگا تاکہ وہ دوبارہ یوسف (علیہ السلام) کو اپنے دام میں پھنسانے کی کوشش نہ کرے جیسا کہ وہ ایسا ارادہ رکھتی تھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥] مصر کی عدالتوں پر بڑے لوگوں کا دباؤ :۔ یعنی پورے شہر کے رؤساء اور اعیان سلطنت پر یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ سیدنا یوسف بالکل بےقصور ہیں اور مجرم زلیخا ہے۔ اس کے باوجود اس ملک کی عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ یوسف ہی کو کسی نامعلوم مدت کے لیے قید میں ڈال دیا جائے۔ کیونکہ اب اصل مجرم صرف زلیخا نہ رہی تھی بلکہ اعیان سلطنت کی بیگمات بھی اس جرم میں اس کی ہم نوا اور برابر کی شریک بن چکی تھیں۔ اس واقعہ سے جہاں مردوں کی اپنی بیگمات کے سامنے بےبسی پر روشنی پڑتی ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی انصاف کرنے والی عدالتیں بھی && جس کی لاٹھی اس کی بھینس && کے اصول پر اپنے فیصلے کیا کرتی تھیں اور نامعلوم مدت اس لیے تھی کہ نہ تو کوئی فرد جرم لگ سکتی تھی اور نہ ہی یہ فیصلہ کیا جاسکتا تھا کہ اس بےگناہی کی سزا کتنی مدت ہوسکتی ہے، اور غالباً اس میں یہ مصلحت سمجھی گئی کہ جب تک لوگ اور بالخصوص عورتیں یہ واقعہ بھول نہ جائیں یوسف کو قید میں رہنے دیا جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ۔۔ : جب شہر میں ان واقعات کا چرچا ہوا اور عزیز مصر کی بیوی کی محبت میں دیوانگی اور یوسف (علیہ السلام) کی پاک دامنی پر استقامت کی شہرت پھیلی تو اہل حل و عقد اس نتیجے پر پہنچے کہ یوسف (علیہ السلام) کو ہر صورت کچھ وقت کے لیے قید کردیں، تاکہ ایک گھر میں رہنے کی وجہ سے میل ملاقات ختم ہوجائے اور آہستہ آہستہ اس واقعہ کی شہرت بھی ختم ہوجائے۔ اس فیصلے سے عزیز مصر پر اس کی بیوی اور دوسری عورتوں کا تسلط اور اس کی بےغیرتی اور دیوثی بھی صاف ظاہر ہوتی ہے کہ اس نے یوسف (علیہ السلام) کو تو قید میں ڈال دیا مگر عورتوں سے پوچھا تک نہیں کہ تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ اس سے اس وقت کے معاشرے کی اخلاقی حالت معلوم ہوتی ہے۔ موجودہ زمانے میں پہلے مغرب کے کفار کا یہ حال تھا اب مسلم ممالک کی اشرافیہ کا یہی رنگ ہے۔ (الا ما شاء اللہ) اور تمام کفار اور ان کے ایجنٹ سب مسلمانوں کو ایسا ہی بےغیرت بنانا چاہتے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ انھوں نے قید میں ڈالنے کے لیے ان کے کچھ جرائم تجویز کیے، جس طرح حکومتیں فرضی دفعات جرم لگا دیتی ہیں اور انھوں نے عزیز مصر کی بیوی کے الزام (عزیز کے اہل کے ساتھ برائی کے ارادہ) کی حقیقت جاننے کے باوجود اسی کو یوسف (علیہ السلام) کا جرم قرار دے دیا، یا ویسے ہی خاموشی سے انھیں قید میں ڈال دیا، جس کا لازمی نتیجہ اصل حقیقت نہ جاننے والوں کے لیے یہی تاثر تھا کہ آخر اس معاملے میں یوسف (علیہ السلام) کا کوئی قصور تو ہوگا جس کی وجہ سے انھیں جیل میں ڈالا گیا۔ یوسف (علیہ السلام) کو اپنے متعلق اس تاثر سے شدید قلق تھا، اس لیے آگے آپ دیکھیں گے کہ بادشاہ کے اپنے پاس بلانے کے پیغام کے باوجود یوسف (علیہ السلام) اس وقت تک قید خانے سے نہیں نکلے جب تک تمام متعلقہ عورتوں کو بادشاہ کے پاس حاضر کروا کے ان کی زبانی اپنی بےگناہی کی تصدیق نہیں کروائی۔ ایک مفسر نے لکھا ہے کہ اب اگر حکومت کسی داعی یا خطیب کو حق بیان کرنے کے جرم میں قید کر دے اور پھر اللہ کی مدد سے کوئی حاکم اسے جیل سے نکالنے کا حکم دے تو اسے جیل میں اڑ کر نہیں بیٹھنا چاہیے، کیونکہ اس پر کوئی ایسا الزام نہیں جو اس کی بدنامی کا باعث ہو۔ رہی حق کی دعوت و تبلیغ تو وہ کوئی جرم نہیں بلکہ اس کا فرض ہے جو اس نے بعد میں بھی ادا کرتے رہنا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود بھی معلوم ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے احسان، تقویٰ ، صبر، وفا، خدمت، پاک بازی، عبادت الٰہی اور دوسری بیشمار خوبیوں کی وجہ سے عزیز مصر کے دل میں ان کی محبت یقیناً موجود تھی جس کی وجہ سے اس نے قید پر اکتفا کیا، ورنہ وہ کسی حیلے سے انھیں غائب بھی کروا سکتا تھا، جیسا بھائیوں نے کیا تھا اور قتل بھی کروا سکتا تھا، جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا پہلا منصوبہ تھا، مگر ایک تو یوسف (علیہ السلام) کا تقویٰ اور صبر تھا اور دوسرا اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا جو سب پر غالب ہے۔ جس کی وجہ سے قید ہی کا فیصلہ ہوا جس میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں تھیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

So, said at the end of the verse (35) was: ثُمَّ بَدَا لَهُم مِّن بَعْدِ مَا رَ‌أَوُا الْآيَاتِ لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّىٰ حِينٍ Later on, even after having seen the signs, they [ the ` Aziz of Misr and his advisers ] deemed it proper [ or expedient ] to impri¬son him for a time. Thus, to the prison he was sent.

ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا رَاَوُا الْاٰيٰتِ لَيَسْجُنُنَّهٗ حَتّٰي حِيْنٍ یعنی پھر عزیز اور اس کے مشیروں نے مصلحت اس میں سمجھی کہ کچھ عرصہ کے لئے یوسف (علیہ السلام) کو قید میں رکھا جائے چناچہ جیل خانہ میں بھیج دئیے گئے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ بَدَا لَہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا رَاَوُا الْاٰيٰتِ لَيَسْجُنُنَّہٗ حَتّٰي حِيْنٍ۝ ٣٥ ۧ بدا بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] ( ب د و ) بدا ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ سجن السَّجْنُ : الحبس في السِّجْنِ ، وقرئ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف/ 33] ( س ج ن ) السجن ( مصدرن ) قید خانہ میں بند کردینا ۔ اور آیت ۔ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف/ 33] اے میرے پروردگار قید خانہ میں رہنا مجھے زیادہ پسند ہے ۔ حين الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] ( ح ی ن ) الحین ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٥) پھر عزیز کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قیمص کے پھٹنے اور لڑکے کے فیصلے سے یہی مناسب معلوم ہوا کہ چندسالوں تک ان کو قید میں رکھیں یا یہ کہ اتنے وقت تک قید میں رکھیں جب تک کہ لوگوں کی باتیں ختم نہ ہوجائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥ (ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا رَاَوُا الْاٰيٰتِ لَيَسْجُنُنَّهٗ حَتّٰي حِيْنٍ ) اس تقریب میں جو کچھ ہوا اس معاملے کو پوشیدہ رکھنا ممکن نہیں تھا چناچہ ارباب اختیار نے جب یہ سارے حالات دیکھے تو انہیں عافیت اور مصلحت اسی میں نظر آئی کہ حضرت یوسف کو وقتی طور پر منظر سے ہٹا دیا جائے اور اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ کچھ عرصے کے لیے انہیں جیل میں ڈال دیا جائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30. It occurred to them to imprison Prophet Joseph in order to save face after they had seen clear proofs of his innocence and of the guilt of their own women, for no other alternative was left, in their opinion, to undo the scandal that was spreading fast in the land. But it did not occur to them that in fact his imprisonment was his moral victory and the moral defeat of the rulers and the dignitaries of Egypt. By that time, Prophet Joseph had not remained an unknown person, for all and sundry had heard stories of his beauty and piety, and of the love the ladies had shown towards him. Therefore when those wise courtiers put into practice their plausible device to imprison him in order to reverse the doings of their ladies, the common people must have drawn their own conclusions for they knew Prophet Joseph to be a man of pure, strong and high character. So it was obvious to them that he had committed no crime to merit imprisonment, and that he had been imprisoned because it was an easier way of escape for the chiefs of Egypt than to keep their own ladies under control. Incidentally, this shows that imprisonment of innocent people without trial and due procedure of law is as old as civilization itself. The dishonest rulers of today are not much different from the wicked rulers who governed Egypt some four thousand years ago. The only difference between the two is that they did not imprison people in the name and for the cause of democracy but they committed unlawful acts without any pretext of law. On the contrary, their modern descendants make use of the specious pretenses of honesty when they are acting unjustly. They first enact the necessary unlawful laws to justify their unlawful practices and then lawfully imprison their victims. That is to say, the Egyptian rulers were honest in their dishonesty and did not hide the fact that they were imprisoning people to safeguard their own interests, and not those of the community. But these modern disciples of Satan cast innocent people into prison to ward off the danger they feel from them, but proclaim to the world that their victims are a menace to the country and the community. In short, they were mere tyrants but these are shameless liars as well.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :30 اس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کا قید میں ڈالا جانا درحقیقت ان کی اخلاقی فتح اور مصر کے پورے طبقہ امراء وحکام کی اخلاقی شکست کا اتمام و اعلان تھا ۔ اب حضرت یوسف علیہ السلام کوئی غیر معروف اور گمنام آدمی نہ رہے تھے ۔ سارے ملک میں ، اور کم از کم دارالسلطنت میں تو عام و خاص سب ان سے واقف ہو چکے تھے ۔ جس شخص کی دلفریب شخصیت پر ایک دو نہیں ، اکثر و بیشتر بڑے گھرانوں کی خواتین فریفتہ ہوں ، اور جس کے فتنہ روزگار حسن سے اپنے گھر بگڑتے دیکھ کر مصر کے حکام نے اپنی خیریت اسی میں دیکھی ہو کہ اسے قید کر دیں ، ظاہر ہے کہ ایسا شخص چھپا نہیں رہ سکتا تھا ۔ یقینا گھر گھر اس کا چرچا پھیل گیا ہوگا ۔ عام طور پر لوگ اس بات سے بھی واقف ہو گئے ہوں گے کہ یہ شخص کیسے بلند اور مضبوط اور پاکیزہ اخلاق کا انسان ہے ، اور یہ بھی جان گئے ہوں گے کہ اس شخص کو جیل اپنے کسی جرم پر نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اس لیے بھیجا گیا ہے کہ مصر کے امراء اپنی عورتوں کو قابو میں رکھنے کے بجائے اس بے گناہ کو جیل بھیج دینا زیادہ آسان پاتے تھے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی شخص کو شرائط انصاف کے مطابق عدالت میں مجرم ثابت کیے بغیر ، بس یونہی پکڑ کر جیل بھیج دینا ، بے ایمان حکمرانوں کی پرانی سنت ہے ۔ اس معاملہ میں بھی آج کے شیاطین چار ہزار برس پہلے کے اشرار سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں ۔ فرق اگر ہے تو بس یہ کہ وہ” جمہوریت“ کا نام نہیں لیتے تھے ، اور یہ اپنے ان کرتوتوں کے ساتھ یہ نام بھی لیتے ہیں ۔ وہ قانون کے بغیر اپنی غیر قانونی حرکتیں کیا کرتے تھے ، اور یہ ہر ناروا زیادتی کے لیے پہلے ایک” قانون “ بنا لیتے ہیں ۔ وہ صاف صاف اپنی اغراض کے لیے لوگوں پر دست درازی کرتے تھے اور یہ جس پر ہاتھ ڈالتے ہیں اس کے متعلق دنیا کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس نے ان کو نہیں بلکہ ملک اور قوم کو خطرہ تھا ۔ غرض وہ صرف ظالم تھے ۔ یہ اس کے ساتھ جھوٹے اور بے حیا بھی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: یعنی اگرچہ حضرت یوسف علیہ السلام کی بے گناہی اور پارسائی کے بہت سے دلائل ان لوگوں کے سامنے آچکے تھے، لیکن عزیزِ مصر نے اپنی بیوی کو بدنامی سے بچانے اور اس واقعے کا چرچا ختم کرنے کے لئے مناسب یہ سمجھا کہ کچھ عرصے تک انہیں قید خانے ہی میں بند رکھا جائے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٥۔ اوپر کی آیت میں اللہ پاک نے یوسف (علیہ السلام) کی دعا اور اس کے مقبول ہونے کا حال بیان فرما کر اب یہ کیفیت قید کی بیان فرمائی کہ جب اس بات کا چرچا ہر ایک رئیس و امیر کے گھر میں ہونے لگا اور ہر شخص کی زبان پر یہی مذکور تھا کہ زلیخا عزیز مصر کی بیوی اپنے شوہر کے غلام پر دل و جان سے فریفتہ ہے اور اس کی محبت میں دیوانی ہو رہی ہے اور اس نے آپ اپنی خواہش ان پر ظاہر کی۔ اس پر عزیز مصر اپنے صلاح کاروں کی صلاح اور مشورے سے اس بات پر آمادہ ہوا کہ یوسف (علیہ السلام) کو قید میں رکھنا چاہیے حالانکہ سارے لوگ جان چکے تھے اور کھلی کھلی شہادت اور نشانیاں موجود تھیں کہ اس مقدمہ میں یوسف (علیہ السلام) کا کوئی قصور نہیں ساری شرارت عورت کی ہے بےزبان بچے کی گواہی گزر چکی تھی کہ اگر کرتہ یوسف (علیہ السلام) کا پیچھے سے پھٹا ہو تو یوسف بےخطا ہیں اور خطا وار عورت ہے چناچہ کرتہ کے دیکھنے سے یوسف (علیہ السلام) کا بےقصور ہونا عزیز مصر کو اچھی طرح ثابت ہوگیا تھا اسی بنا پر یوسف (علیہ السلام) سے عزیز مصر نے یہ بات کہی تھی کہ یوسف ان باتوں سے درگزر کر اور اپنی عورتوں کو معذرت کے لئے کہا تھا کہ تو خطا وار ہے مگر پھر بھی سوائے اس بات کے اور کچھ بن نہ آیا کہ یوسف (علیہ السلام) کو قید میں رکھا جائے تاکہ لوگ جانیں کہ عورت بےقصور ہے اگر کچھ خطا ہے تو اسی مرد کی ہے دوسری مصلحت یہ تھی اگر ان کو قید نہ کیا جاوے اور دونوں ایک جگہ ہوں گے تو عورت کبھی باز نہ آئے گی کسی نہ کسی حیلہ سے ضرور یوسف (علیہ السلام) پر قابض ہوجائے گی اور ان کو اپنے پھندے میں پھانسے گی اس لئے ضروری ہے کہ ان کو قید ہی کردیا جائے کہ عورت کا پھر کچھ بس یوسف (علیہ السلام) کی طرف سے یہ بات شروع ہوئی ہے اور انہیں کی خطا ہے جس کی سزا میں جیل خانہ گئے ہیں اور مدت اس قید کی اتنی رکھی گئی تھی کہ اس عرصہ میں یہ قصہ رفع دفع ہوجائے اس قید میں اللہ پاک نے مدت نامعلوم رکھی ہے مگر بعض مفسروں نے اس کے متعلق یہ بیان کیا ہے کہ جب تک اس معاملہ کا چرچا موقوف نہ ہوجائے اس وقت تک کہ یہ قید تھی اور سعید بن جبیر (رح) نے سات سال کہا ہے اور کسی نے پانچ برس اور کسی نے چھ سال۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) تین مرتبہ مصیبت میں آئے اول مرتبہ تو اس مقدمہ میں قید میں گئے پھر جب قید خانہ میں اذکرنی عند ربک کہا تو اور کئی سال تک قید میں رہ گئے پھر تیسری دفعہ جب بھائیو سے یہ کہا کہ ایتھا العیر انکم لسارقون تو بھائیوں نے منہ در منہ یہ جواب دیا کہ ان یسرق فقد سرق اخ لہ من قبل صحیح مسلم ‘ ابوداؤد اور صحیح ابن خزیمہ میں جابر بن عبد اللہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی کو چاہیے کہ اپنی اولاد اور اپنے مال کے حق میں بددعا نہ کرے کیونکہ مقبولیت کے وقت میں وہ بددعا قبول ہوجاتی ہے جس سے آدمی کو ضرر پہنچ جاتا ہے ١ ؎ اوپر کی آیتوں اور اس آیت اور حدیث کے ملانے کا یہ مطلب قرار پایا کہ جب زلیخا نے یوسف (علیہ السلام) کو قید سے ڈرایا تو یوسف (علیہ السلام) کی زبان سے بھی بددعا کے طور پر قید کی خواہش نکل گئی اور اس بددعا کے قبول ہوجانے سے اس کے ظہور کا یہ سامان بہم پہنچ گیا کہ آخر عزیز مصر کی صلاح یوسف (علیہ السلام) کے قید کرنے پر جم گئی اور یوسف (علیہ السلام) جیل خانہ میں بھیج دئیے گئے اگر یوسف (علیہ السلام) فقط ان عورتوں کے مکر و فریب سے بچنے کی دعا کرتے اور وہ دعا قبول ہوجاتی تو اسی طرح کا کوئی انتظام غیب سے ہوجاتا مگر تقدیر الٰہی میں یوں ہی تھا کہ بت پرستوں کے ہاتھ سے ایک اللہ کے نبی جیل خانے جانے کی تکلیف اٹھا ویں گے۔ ١ ؎ الرتغیب ص ٣٠١ ج ١ باب الترھیب من دعاء الانسان علی نفسہ الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ۔ یعنی حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی عفت و نزاہت اور پاکدامنی کے نشان اور دلائل و شواہد۔ 9 ۔ یعنی غیر معین عرصہ تک۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ سبق اس قصے کی تیسر کڑی ہے اور حضرت یوسف کی مشکلات زندگی بھی تیسری اور آخری کڑی ہے۔ اس کڑی کے بعد حضرت یوسف کی زندگی کے مشکل دن ختم ہونے والے ہیں۔ اب آرام اور سکون ہی ہوگا۔ اب حضرت یوسف کی زندگی کا امتحان دوسرے انداز میں ہوگا۔ پہلے مصائب میں ان کی آزمائش تھی ، اب عیش و آرام اور اقتدار کی زندگی میں ان کی آزمائش ہوگ۔ اس کڑی میں ان کی آزمائش جیل جانے میں ہو رہی ہے یہ عجیب آزمائش ہے کہ وہ الزام سے بری ہوگئے ہیں پھر بھی جیل میں ہیں ، ایک گناہ گار تو صبر کرلیتا ہے کیونکہ اس کو علم ہوتا ہے کہ اس نے قصور کیا ہے لیکن ایک بےگناہ جب قید ہوتا ہے تو اس کے لیے سزا ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ اگرچہ دل میں اسے یہ سکون ہوتا ہے کہ وہ بےگناہ ہے۔ اس عرصے میں حضرت یوسف پر اللہ کے انعامات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اب ان کو تعبیر رویا کا علم لدنی عطا کردیا گیا ہے ، اسی طرح وہ تاویل احادیث میں ماہر ہوچکے ہیں ، واقعات کے آغاز ہی میں وہ معلوم کرلیتے ہیں کہ ان کے نتائج کیا ہوں گے اور اس کے بعد اب بادشاہ کے سامنے حضرت یوسف کی براءت کا بھی انتظام ہورہا ہے ، خود بادشاہ عورتوں کو بلا کر انکوائری کرتا ہے۔ اب حضرت یوسف کی خفیہ صلاحیتیں سامنے آرہی ہیں۔ وہ بادشاہ کے مقرب خاص ہوکر تمام اختیارات کے مالک اور مقتدر اعلی بن جاتے ہیں۔ اور جس مقام پر اللہ نے ان کو پہنچانا تھا وہ پہنچ جاتے ہیں۔ درس نمبر 108 تشریح آیات 35 ۔۔۔ تا۔۔۔ 52 ۔۔۔ محلات کی فضاؤں میں ، آمریت کی چھاؤں میں نوابوں کے درباروں میں جاہلیت کے نظاموں میں ایسے ہی فیصلے ہوتے ہیں۔ انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کی پاک دامنی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا ، انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ یہ عورت اس فرشتہ سیرت شخص کو عورتوں کی مجالس میں پیش کرتی ہے اور برملا دھمکیاں دیتی ہے ، تمام مصری عورتوں کو یقین تھا کہ یہ عورت اپنے غلام کی محبت میں اندھی ہو رہی ہے اور اپنی فریفتگی کا اعلان کرتی پھر رہی ہے۔ یوسف علیہ السالم پر ان عورتوں کا دباؤ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ اللہ سے استعانت طلب فرماتے ہیں۔ دوسری جانب یہ عورت بھی اس بات پر تلی ہوئی ہے اور اعلان کر رہی ہے کہ یوسف کو اس کی مراد پوری کرنا ہوگی یا اسے قید خانوں میں ذلیل و خوار ہونا ہوگا ، اب یا تو وہ حکم کی تعمیل کرے گا یا جیل جائے گا۔ ان حالات کے بعد یہ لوگ اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ ایک عرصے کے لیے یوسف کو قید کردیا جائے۔ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ یہ عورت اب مایوس ہوگئی ہوگی ، دوسری جانب چہ میگوئیاں عام ہوگئی ہوں گی اور اب ان نام نہاد اونچے گھرانوں کی عزت کا تحفظ اسی طرح ہوسکتا تھا کہ بےگناہ کو قید کردیا جائے۔ یہ کام تو ان کے لیے بہت ہی آسان ہے۔ اس نے چونکہ اس ترقی یافتہ عورت کی خواہشات کو پورا نہ کیا تھا لہذا اسے لازماً جیل جانا تھا کیونکہ وہ بیچار بدنام ہوگئی اور ہر طرف سے چہ میگوئیاں تھیں اور ہر محفل میں وہ موضوع سخن تھی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

35 پھر عزیر اور اس کے متعلقین کو باوجود صداقت کے نشان دیکھ لینے کے یہی مصلحت ہوئی کہ یوسف (علیہ السلام) کو ایک زمانہ خاص تک جیل خانہ میں رکھاجائے یعنی یوسف (علیہ السلام) کی پاک دامنی اور بےگناہی دیکھ لینے کے بعد پھر بھی سیاسی مصلحت یہی معلوم ہوئی کہ ایک بےگناہ کو جیل میں ڈال دیاجائے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اگرچہ نشان سب دیکھ چکے کہ گناہ عورت کا ہے تو بھی ان کو قید کیا تاکہ بد نامی خلق میں عورت سے اترے یا اس واسطے کہ اس کی نظر سے دور رہیں 12