Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 42

سورة يوسف

وَ قَالَ لِلَّذِیۡ ظَنَّ اَنَّہٗ نَاجٍ مِّنۡہُمَا اذۡکُرۡنِیۡ عِنۡدَ رَبِّکَ ۫ فَاَنۡسٰہُ الشَّیۡطٰنُ ذِکۡرَ رَبِّہٖ فَلَبِثَ فِی السِّجۡنِ بِضۡعَ سِنِیۡنَ ﴿ؕ٪۴۲﴾  15

And he said to the one whom he knew would go free, "Mention me before your master." But Satan made him forget the mention [to] his master, and Joseph remained in prison several years.

اور جس کی نسبت یوسف کا گمان تھا کہ ان دونوں میں سے یہ چھوٹ جائے گا اس سے کہا کہ اپنے بادشاہ سے میرا ذکر بھی کر دینا پھر اسے شیطان نے اپنے بادشاہ سے ذکر کرنا بھلا دیا اور یوسف نے کئی سال قید خانے میں ہی کاٹے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yusuf asks the King's Distiller to mention Him to the King Allah tells: وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ And he said to the one whom he knew to be saved: "Mention me to your king." But Shaytan made him forget to mention it to his master. So (Yusuf) stayed in prison a few (more) years. Yusuf knew that the distiller would be saved. So discretely, so that the other man's suspicion that he would be crucified would not intensify, he said, اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ (Mention me to your King), asking him to mention his story to the king. That man forgot Yusuf's request and did not mention his story to the king, a plot from the devil, so that Allah's Prophet would not leave the prison. This is the correct meaning of, فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ (But Shaytan made him forget to mention it to his master), that it refers to the man who was saved. As was said by Mujahid, Muhammad bin Ishaq and several others. As for, `a few years', or, Bida` in Arabic, it means between three and nine, according to Mujahid and Qatadah. Wahb bin Munabbih said, "Ayub suffered from the illness for seven years, Yusuf remained in prison for seven years and Bukhtanassar (Nebuchadnezzar - Chaldean king of Babylon) was tormented for seven years."

تعبیر بتا کر بادشاہ وقت کو اپنی یاد دہانی کی تاکید جسے حضرت یوسف نے اس کے خواب کی تعبیر کے مطابق اپنے خیال میں جیل خانہ سے آزاد ہونے والا سمجھا تھا اس سے در پردہ علیحدگی میں کہ وہ دوسرا یعنی باورچی نہ سنے فرمایا کہ بادشاہ کے سامنے ذرا میرا ذکر بھی کر دینا ۔ لیکن یہ اس بات کو بالکل ہی بھول گیا ۔ یہ بھی ایک شیطانی چال ہی تھی جس سے نبی اللہ علیہ السلام کئی سال تک قید خانے میں ہی رہے ۔ پس ٹھیک قول یہی ہے کہ فانساہ میں ہ کی ضمیر کا مرجع نجات پانے والا شخص ہی ہے ۔ گویا یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ضمیر حضرت یوسف کی طرف پھرتی ہے ۔ ابن عباس سے مرفوعاً مروی ہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یوسف یہ کلمہ نہ کہتے تو جیل خانے میں اتنی لمبی مدت نہ گزارتے ۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور سے کشادگی چاہی ۔ یہ روایت بہت ہی ضعیف ہے ۔ اس لیے کہ سفیان بن وکیع اور ابراہیم بن یزید دونوں راوی ضعیف ہیں ۔ حسن اور قتادہ سے مرسلاً مروی ہے ۔ گو مرسل حدیثیں کسی موقع پر قابل قبول بھی ہوں لیکن ایسے اہم مقامات پر ایسی مرسل روایتیں ہرگز احتجاج کے قابل نہیں ہو سکتیں واللہ اعلم ۔ بضع لفظ تین سے نو تک کے لیے آتا ہے ۔ حضرت وہب بن منبہ کا بیان ہے کہ حضرت ایوب بیماری میں سات سال تک مبتلا رہے اور حضرت یوسف قید خانے میں سات سال تک رہے اور بخت نصر کا عذاب بھی سات سال تک رہا ابن عباس کہتے ہیں مدت قید بارہ سال تھی ۔ ضحاک کہتے ہیں چودہ برس آپ نے قید خانے میں گزارے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 بضع کا لفظ تین سے لے کر نو تک عدد کے لیے بولا جاتا ہے، وہب بن منبہ کا قول ہے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) آزمائش میں اور یوسف (علیہ السلام) قید خانے میں سات سال رہے اور بخت نصر کا عذاب بھی سات سال رہا اور بعض کے نزدیک بارہ سال اور بعض کے نزدیک چودہ سال قید خانے میں رہے۔ واللہ اعلم۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤١] لفظ ظن کے بعد جب ان کا لفظ آئے تو یہ یقین کا معنی دیتا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے مفردات القرآن از امام راغب اصفہانی) اور قرآن میں اس کی مثالیں اور بھی بہت ہیں۔ جیسے (الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ 46؀ ) 2 ۔ البقرة :46) یعنی جو لوگ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں) اور یوسف کو ساقی کے متعلق یہ یقین تھا کہ وہ قید سے رہا ہو کر اپنی سابقہ ملازمت پر بحال کردیا جائے۔ جب وہ قید خانہ سے جانے لگا تو یوسف نے اسے کہا کہ بادشاہ سے میرے متعلق بھی تذکرہ کرنا کہ ایک بےقصور آدمی مدت سے قید خانہ میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس کی طرف آپ کی توجہ کی ضرورت ہے۔ [٤٢] سیدنا یوسف کی قید کی مدت :۔ لیکن وہ رہا ہونے والا ساقی اپنی رہائی کی اور پھر ملازمت کی بحالی کی خوشخبری میں کچھ اس طرح مگن اور بےخود ہوا کہ اسے بادشاہ کے سامنے اپنے محسن سیدنا یوسف کا ذکر کرنا یاد ہی نہ رہا اور نسیان کی نسبت شیطان کی طرف اس لیے کہ گئی ہے کہ شیطان کسی بھی اچھے کام میں ممدو معاون نہیں ہوا کرتا۔ اس کے وساوس ایسے ہی ہوتے ہیں کہ یا تو کوئی کارخیر سرانجام ہی نہ پائے یا اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر جتنی بھی اس کار خیر میں زیادہ سے زیادہ تاخیر ہو وہی اس کا مقصود ہوتا ہے جیسے اللہ کے ذکر سے غفلت کی نسبت قرآن نے عموماً شیطان ہی کی طرف ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کئی سال مزید آپ کو قید میں ہی گزر گئے اور آپ کے معاملہ کی طرف توجہ کا کسی کو خیال تک نہ آیا۔ قرآن نے (بِضْعَ سِنِيْنَ 42؀ ) 12 ۔ یوسف :42) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کا اطلاق دس سے کم طاق اعداد پر ہوتا ہے اور مفسرین کے اقوال کے مطابق آپ کی قید کی مدت ٧ سال یا ٩ سال تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ لِلَّذِيْ ظَنَّ اَنَّهٗ ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ قید خانے میں رہنا جو بقول بعض زندوں کا قبرستان ہے، کس قدر تکلیف دہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) جیسے صابر شخص نے اس آدمی سے کہا جس کے متعلق انھوں نے سمجھا تھا کہ وہ رہا ہونے والا ہے کہ اپنے مالک کے پاس میرا ذکر کرنا کہ کس طرح ایک شخص بلاجرم قید میں بند ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مصیبت سے نکلنے کے لیے دنیا کے جو اسباب اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں انھیں اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں، جیسا کہ : (ۘوَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ ) [ المائدۃ : ٢ ] (نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو) سے ظاہر ہے اور جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : (3 مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ [ آل عمران : ٥٢ ] ” اللہ کی طرف میرے مددگار کون ہیں ؟ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف سے واپسی پر مطعم بن عدی کی طرف پیغام بھیجا، پھر اس کی پناہ میں مکہ میں داخل ہوئے، بلکہ مسلمان کو دنیا کا ہر جائز سبب اختیار کرنا چاہیے، فرمایا : (وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ ) [ الأنفال : ٦٠ ] یعنی ان کفار کے لیے جس قدر تمہاری استطاعت ہے تیاری رکھو، البتہ بھروسا اس کے بعد بھی اللہ ہی پر ہوگا۔ 3 شیطان نے اس ساقی کو اپنے مالک یعنی بادشاہ کے پاس یہ ذکر کرنا بھلا دیا، سو یوسف (علیہ السلام) کئی سال قید میں رہے۔ شیطان کی آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد سے دشمنی کا تو قرآن شاہد ہے : (اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ) [ البقرۃ : ١٦٨ ] ” بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ “ اور قرآن نے صراحت کی ہے کہ ساقی کو بھلانا شیطان کا کام تھا، اس کے باوجود بعض اہل علم نے ساقی کو بادشاہ کے پاس اپنا ذکر کرنے کے لیے کہنا یوسف (علیہ السلام) کی عزیمت اور شان پیغمبری کے خلاف قرار دیا ہے اور اتنے سال جیل میں رہنے کا باعث یہ قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ یوسف (علیہ السلام) کا دل اسباب پر نہ ٹھہرے۔ اس سلسلے میں یہ حضرات وہ روایت بھی پیش کرتے ہیں جو ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ بیان کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر یوسف (علیہ السلام) وہ بات نہ کہتے جو انھوں نے کہی تو اتنی لمبی مدت قید میں نہ رہتے، کیونکہ انھوں نے غیر اللہ کے ہاں سے مصیبت دور کروانا چاہی۔ “ حافط ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” یہ روایت نہایت ضعیف ہے، کیونکہ اس کا راوی سفیان بن وکیع ضعیف ہے اور (اس کا شیخ) ابراہیم بن یزید (الجوزی) اس سے بھی زیادہ ضعیف ہے۔ “ لَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِيْنَ : ” بِضْعَ “ کا لفظ تین سے لے کر نو تک کے لیے آتا ہے۔ قرآن و سنت میں اس مدت کی تعیین کہیں نہیں آئی۔ تابعین میں سے کسی نے سات سال کہا، کسی نے کم و بیش، مگر اب ان سے کون پوچھے کہ آپ کو کس نے یہ مدت بتائی، اگر بنی اسرائیل سے آئی ہے تو اس پر تو اعتبار ممکن نہیں، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق ہم نہ اسے سچا کہہ سکتے ہیں نہ جھوٹا۔ سو اصل یہی ہے کہ وہ مدت دس سال سے کم تھی اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی تھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After that, to the person about whom Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) had gath¬ered from the interpretation of his dream that he would be released, he said: When you are released from the prison, mention me before your master as the innocent person who is still languishing in the prison. But, once released, this person forgot about this message of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، as a result of which, his freedom was further delayed and he had to stay in prison for a few more years. The word used in the Qur’ an is: بِضْعَ سِنِينَ (bid&a sinin: a few years). This word holds good for a figure between three to nine. Some commentators have said that he had to live in the prison for a period of seven more years.

پھر جس شخص کے متعلق یوسف (علیہ السلام) تعبیر خواب کے ذریعہ یہ سمجھے تھے کہ وہ رہا ہوگا اس سے کہا کہ جب تم آزاد ہو کر جیل سے باہر جاؤ اور شاہی دربار میں رسائی ہو تو اپنے بادشاہ سے میرا بھی ذکر کردینا کہ وہ بےگناہ قید میں پڑا ہوا ہے مگر اس شخص کو آزاد ہونے کے بعد یوسف (علیہ السلام) کی یہ بات یاد نہ رہی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یوسف (علیہ السلام) کی آزادی کو اور دیر لگی اور اس واقعہ کے بعد چند سال مزید قید میں رہے یہاں قرآن میں لفظ بِضْعَ سِنِيْنَ آیا ہے یہ لفظ تین سے لے کر نو تک صادق آتا ہے بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس واقعہ کے بعد سات سال مزید قید میں رہنے کا اتفاق ہوا

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ لِلَّذِيْ ظَنَّ اَنَّہٗ نَاجٍ مِّنْہُمَا اذْكُرْنِيْ عِنْدَ رَبِّكَ۝ ٠ۡفَاَنْسٰىہُ الشَّيْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّہٖ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِيْنَ۝ ٤٢ۧ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ نسی النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ( ن س ی ) النسیان یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو لبث لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] ، ( ل ب ث ) لبث بالمکان کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔ بِضع بالکسر : المنقطع من العشرة، ويقال ذلک لما بين الثلاث إلى العشرة، وقیل : بل هو فوق الخمس ودون العشرة، قال تعالی: بِضْعَ سِنِينَ [ الروم/ 4] . بِضع البضع ( بکسرالبا ) عدد جو دس الگ کئے گئے ہیں یہ لفظ تین سے لے کر نو نک بولا جاتا ہے نعیض کہتے ہیں کہ پانچ سے اوپر اور دس سے کم پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ { بِضْعَ سِنِينَ } ( سورة يوسف 42) چند سال ۔ سِّنِينَ ( قحط سالي) وَلَقَدْ أَخَذْنا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ [ الأعراف/ 130] ، فعبارة عن الجدب، وأكثر ما تستعمل السَّنَةُ في الحول الذي فيه الجدب، يقال : أَسْنَتَ القوم : أصابتهم السَّنَةُ ، وَلَقَدْ أَخَذْنا آلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِينَ [ الأعراف/ 130] اور ہم نے فرعونیوں کو کئی سال تک قحط میں مبتلارکھا ۔ سنین کے مراد قحط سالی اور زیادہ تر سنۃ کا لفظ قحط سالی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ اسنت القوم لوگ قحط سالی میں مبتلا ہوگئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

فانساہ الشیطن کے دو مفہوم قول باری ہے وقال للذین ظن انہ تاج منھما اذکرنی عند ربک فانساہ الشیطن ذکر ربہ فلبث فی السجن بضع سنین ۔ پھر ان میں سے جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ رہا ہوجائے گا اس سے یوسف (علیہ السلام) نے کہا کہ اپنے رب شاہ مصر سے میرا ذکر کرنا۔ مگر شیطان نے اسے ایسا غفلت میں ڈالا کہ وہ اپنے رب شاہ مصر سے اس کا ذکر کرنا بھول گیا اور یوسف کئی سال قید میں پڑا رہا ۔ یہاں ظن یقین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اس لیے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خواب کی اس تعبیر کے وقوع پذیرہونے کا یقین تھا جو آپ نے اسے بتائی تھی ۔ یہاں ظن بمعنی یقین کے استعمال کی مثال یہ آیت ہے۔ انی ظنت انی ملاق حسابیہ مجھے یقین تھا کہ مجھے اپنے اعمال کے حساب و کتاب کا سامنا کرنا ہے۔ یہاں طننت بمعنیالقینت ہے یعنی مجھے یقین تھا۔ قول باری فانساہ الشیطان میں ضمیر مفعول حضرت ابن عباس (رض) سے مروی تفسیر کے مطابق حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے۔ حسن بصری اور ابن اسحاق کا قول ہے کہ اس قیدی کی طرف راجع ہے جو رہا ہو کر اپنے آقا شاہ مصر کو شراب پلانے والا تھا۔ آیت میں یہ بیان ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا کئی سالوں تک قید میں پڑے رہنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے رہا ہونے والے قیدی سے یہ کہا تھا کہ بادشا ہ کے پاس میرا تذکرہ کردینا ۔ آپ نے یہ بات ایک قسم کی غفلت کی بنا پر کہی تھی۔ اگر حضرت ابن عباس (رض) کی تاویل اختیار کی جائے کہ شیطان نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کیذہن سے اللہ کی یاد بھلا دی تھی جب کہ اس حالت قید میں اللہ کو یاد کرنا بہتر تھا، نیز اللہ کی یاد کو چھوڑ کر رہا ہونے والے قیدی سے یہ کہنا نہیں چاہیے تھا کہ اپنے آقا کے پاس میرا تذکرہ کرنا ۔ تو اس تاویل کی بنا پر ایسے وقت میں اللہ کی یاد سے غفلت اور بےتوجہی حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کئی سالوں تک قید میں پڑے رہنے کا سبب بن گئی ۔ اگر دوسری تاویل اختیار کی جائے جس کے مطابق شیطان نے رہا جانے والے قیدی کو جو اپنے آقا کا ساقی بننے والا تھا غفلت میں ڈال دیا تھا تو اسے اس پر محمول کیا جائے گا کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ساقی سے یہ کہا تھا تو ساقی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ کہنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے شیطانی وس اس و خیالات کے ساتھ تنہا چوڑ دیا جس کے نتیجے میں شیطان نے اس کے ذہن سے اپنے آقا کے سامنے یوسف (علیہ السلام) کے تذکرے کی بات نکال دی ۔ لفظ بضع کے متعق حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ یہ تین سے لے کر دس تک ہوتا ہے۔ مجاہد اور قتادہ کے قول کے مطابق نو تک ہوتا ہے۔ وہب کا قو ل ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) قید میں سات برس تک رہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٢) اور ساقی جس کے بارے میں قید اور قتل سے رہائی کا گمان تھا اس سے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اپنے آقا کے سامنے میرا بھی ذکر کرنا کہ میں مظلوم ہوں مجھ پر میرے بھائیوں نے زیادتی کرکے مجھے بیچ ڈالا اور حقیقت میں آزاد ہوں اور ناحق قید میں ہوں، چناچہ رہائی کے بعد شیطان نے اس ساقی آقا سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا تذکرہ کرنا بھلا دیا، یا یہ کہ شیطان نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنے پروردگار سے اس چیز کی دعا کرنا بھلا دیا۔ چناچہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ مخلوق کے سامنے اس چیز کا ذکر کیا۔ جس کی پاداش میں حضرت یوسف (علیہ السلام) سات سال تک اور قید خانہ میں قید رہے حالانکہ اس سے پہلے پانچ سال سے قید میں تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ (وَقَالَ لِلَّذِيْ ظَنَّ اَنَّهٗ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِيْ عِنْدَ رَبِّكَ ) یعنی تمہیں کبھی موقع ملے تو بادشاہ کو بتانا کہ جیل میں ایک ایسا قیدی بھی ہے جس کا کوئی قصور نہیں اور اسے خواہ مخواہ جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ (فَاَنْسٰىهُ الشَّيْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّهٖ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِيْنَ ) بِضْع کا لفظ عربی زبان میں دو سے لے کر نو تک (دس سے کم) کی تعداد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35. Some commentators have interpreted it like this: Satan made Prophet Joseph neglectful of his Lord, Allah, so he placed his confidence in a man rather than Allah and desired him to mention him to his lord, the king, for his release. So Allah punished him by letting him languish several years in the dungeon. In fact, such an interpretation is absolutely erroneous for as Allamah Ibn Kathir and some early commentators like Mujahid, Muhammad-bin- Ishaq and some others say, the pronoun him refers to that person who he thought would be released. Therefore it will mean: Satan made him (the would be free man) so neglectful that he forgot to mention him (Prophet Joseph) to his lord (the king). They also cite a tradition in support of their interpretation to this effect. The Prophet (peace be upon him) said: If Prophet Joseph had not said that what he said, he would not have remained in imprisonment for several years. But Allamah Ibn Kathir says: This Hadith cannot be accepted because all the ways in which it has been reported are weak. Moreover, two of the reporters, Sufyan-bin-Wakii and Ibrahim-bin-Yazid, are not trustworthy. Besides being weak on technical grounds, it is also against the dictates of common sense: if a wronged person adopted some measures for his release, he cannot be considered to be neglectful of God and guilty of the lack of trust in Allah.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :35 اس مقام کی تفسیر بعض مفسرین نے یہ کی ہے کہ ” شیطان نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے رب ( یعنی اللہ تعالی ) کی یاد سے غافل کر دیا اور انہوں نے ایک بندے سے چاہا کہ وہ اپنے رب ( یعنی شاہ مصر ) سے ان کا تذکرہ کر کے ان کی رہائی کی کوشش کرے ، اس لیے اللہ تعالی نے ان کو یہ سزا دی کہ وہ کئی سال تک جیل میں پڑے رہے“ ۔ درحقیقت یہ تفسیر بالکل غلط ہے ۔ صحیح یہی ہے ، جیسا کہ علامہ ابن کثیر ، اور متقدمین میں سے مجاہد اور محمد بن اسحاق وغیرہ نے کہا ہے کہ فَاَنْسٰىهُ الشَّيْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّهٖ کی ضمیر اس شخص کی طرف پھرتی ہے جس کے متعلق حضرت یوسف علیہ السلام کا گمان تھا کہ وہ رہائی پانے والا ہے ، اور اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ” شیطان نے اسے اپنے آقا سے حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر کرنا بھلا دیا “ ۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” اگر یوسف علیہ السلام نے وہ بات نہ کہی ہوتی جو انہوں نے کہی تو وہ قید میں کئی سال نہ پڑے رہتے“ ۔ لیکن علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ” یہ حدیث جتنے طریقوں سے روایت کی گئی ہے وہ سب ضعیف ہیں ۔ بعض طریقوں سے یہ مرفوعا روایت کی گئی ہے اور ان میں سفیان بن وکیع اور ابراہیم بن یزید راوی ہیں جو دونوں ناقابل اعتماد ہیں ۔ اور بعض طریقوں سے یہ مرسلا روایت ہوئی ہے اور ایسے معاملات میں مرسلات کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا“ ۔ علاوہ بریں روایت کے اعتبار سے بھی یہ بات باور کرنے کے قابل نہیں ہے کہ ایک مظلوم شخص کا اپنی رہائی کے لیے دنیوی تدبیر کرنا خدا سے غفلت اور توکل کے فقدان کی دلیل قرار دیا گیا ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

27: آقا سے مراد بادشاہ ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جس قیدی کے بارے میں یہ فرمایا تھا کہ وہ چھوٹ جائے گا اور واپس جا کر حسب معمول اپنے آقا کو شراب پلائے گا اس سے آپ نے یہ بات فرمائی کہ تم اپنے آقا یعنی بادشاہ سے میرا تذکلرہ کرنا کہ ایک شخص بے گناہ جیل میں پڑا ہوا ہے۔ اس کے معاملے پر آپ کوتوجہ کرنی چاہیے مگر جیسا کہ آگے بیان فرمایا گیا ہے اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ شخص بادشاہ سے یہ بات کہنا بھول گیا جس کی وجہ سے انہٰں کئی سال اور جیل میں رہنا پڑا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٢۔ یوسف (علیہ السلام) نے خواب کی تعبیر بتلا کر ساقی سے یہ کہا کہ تو اپنے بادشاہ سے میرا ذکر کیجیو کہ قید خانہ میں ایک غلام مظلوم بھی قید ہے اور پانچ برس اس کو قید میں گزر چکے ہیں وہ خواب کی تعبیر بہت اچھی بیان کرتا ہے مگر جب ساقی قید سے باہر نکلا تو شیطان نے اسے بھلا دیا اور اس نے یوسف (علیہ السلام) کا تذکرہ اپنے بادشاہ کے سامنے نہ کیا اور یوسف (علیہ السلام) اور تھوڑے عرصہ تک قید میں رہے مجاہد و محمد بن اسحاق وغیرہ نے { فانسہ الشیطان } الآیہ کی یہی تفسیر بیان کی ہے جو اوپر بیان کی گئی مگر اکثر مفسرین نے یہ تفسیر بیان کی ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کو شیطان نے خدا کی یاد بھلا دی کہ خدا کا بھروسہ چھوڑ کر انہوں نے ساقی سے یہ بات کہی کہ تو اپنے بادشاہ سے کہنا اس طرح پر ایک شخص جیل خانہ میں قید ہے اس بات پر یوسف (علیہ السلام) چند عرصہ تک اور قید میں رہے { بضع سنین } کے معنے مجاہد و قتادہ نے یہ بیان کئے ہیں کہ تین سے نو تک { بضع سنین } ہے وہب بن منبہ کا قول ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) بلا میں اور حضرت یوسف (علیہ السلام) زندان میں اور بخت نصر عذاب میں سات سات برس رہے۔ ضحاک کہتے ہیں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کل چودہ برس قید میں رہے ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بارہ برس رہے مصنف ابن ابی شیبہ زوائد مسند عبد اللہ بن احمد اور تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو وحی بھیجی کہ تجھ کو قتل سے کس نے بچایا جب تیرے بھائیوں نے تیرے مار ڈالنے کا ارادہ کیا تھا حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا اے رب تو نے پھر پوچھا کہ جب تیرے بھائیوں نے تجھ کو کنوئیں میں ڈال دیا تو کس نے تجھے نکالا حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا اے رب تو نے پھر پوچھا کہ جب عزیز مصر کی عورت نے بدکاری کا ارادہ کیا تو کس نے اس کے ہاتھ سے تجھے نجات دی فرمایا کہ اے رب تو نے اس پر اللہ پاک نے فرمایا کہ پھر کس طرح تو مجھ کو بھول گیا اور آدمی پر بھروسہ کیا حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا کہ گھبراہٹ میں یہ بات زبان سے نکل گئی فرمایا کہ مجھے اپنی عزت کی قسم ہے کہ چند سال اور میں تجھ کو قید خانہ میں رکھوں گا ١ ؎ چناچہ سات برس وہ قید میں اور رہے۔ طبرانی تفسیر ابن جریر وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ یوسف (علیہ السلام) ساقی ہے۔ { اذکرنی عند ربک } نہ کہتے تو اور زیادہ قید میں نہ رہتے۔ ٢ ؎ اگرچہ اس حدیث کی سند میں سفیان بن وکیع اور ابراہیم بن یزید راوی ضعیف ہیں ٣ ؎ لیکن انس بن مالک (رض) کی حدیث جو اوپر گزر چکی ہے اس سے اس روایت کو تقویت ہوجاتی ہے کیوں کہ اس حدیث کی ابن ابی حاتم کو سند معتبر ہے علاوہ اس کے تفسیر ابن ابی حاتم میں اسی مضمون کی ایک حدیث ابوہریرہ (رض) کی روایت سے بھی ہے یہ تو ایک جگہ گزر چکا ہے کہ تفسیر ابن ابی حاتم میں صحت روایت کی پابندی بہ نسبت ابن جریر اور مستدرک حاکم کے زیادہ ہے۔ ١ ؎ تفسیر فتح البیان ص ٥٢٠ ج ٢۔ ٢ ؎ فتح البیان ص ٥٢٠ ج ٢۔ ٣ ؎ اسی وجہ سے حافظ ابن کثیر نے اس کو مسترد کردیا ہے ابن ابی حاتم کو سند جب تک سامنے نہ ہو اس وقت تک اس سے تائید نہیں لی جاسکتی (ح۔ ح) ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:42) ناج۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ اصل میں ناجی تھا۔ نجاۃ مصدر (نصر) نجا ینجو نجاۃ ونجاء ونجایۃ۔ خلاصی پانا۔ نکات پانا۔ نجی مادہ۔ فانسہ الشیطن۔ شیطان نے اس کو (ذکر کرنا) بھلا دیا۔ یضع سنین۔ بضع۔ چند۔ کئی۔ بعض کے نزدیک 3 سے 9 تک بعض کے خیال میں 5 سے 9 تک کے عدد بضع میں داخل ہیں۔ بضع سنین کئی سال۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ کشفِ شدائد میں گو دوسروں سے مدد لینا جائز ہے جیسا کہ آیت وتعاونوا علی البر الخ “ سے بھی معلوم ہوتا ہے مگر یہ عزیمت اور شان پیغمبر کے خلاف ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس بات کی کوشش کی کہ میرا تذکرہ بادشاہ کے پاس کرنا مگر وہ بھول گیا تاکہ پیغمبر کا دل اسباب پر نہ ٹھہرے۔ (از موضح) ۔ 3 ۔ ” بضع “ (چند یا کئی) کا اطلاق عربی زبان میں تین سے نو تک مگر زیادہ ترسات پر ہوتا ہے اس لئے اکثر مفسرین : کا کہنا یہی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) سات سال تک جیل میں رہے۔ (معالم) بعض علمائے تفسیر (رح) نے فانساہ میں ” ہ “ کی ضمیر حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے لئے مانی ہے اور معنی یہ کئے ہیں کہ ” شیطان نے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو اپنے رب کی یاد بھلا دی “ اور اس کی تائید میں ایک ایک روایت بھی پیش کی ہے کہ ” اگر یوسف ( علیہ السلام) اللہ کو چھوڑ کر دوسروں پر رہائی کی امید نہ رکھتے تو تو اتنی لمبی مدت قید میں نہ ٹھہرے ‘ مگر یہ روایت نہایت ضعیف ہے لہٰذا یہ معنی صحیح نہیں ہیں۔ (ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ بضع کا اطلاق عربی میں تین سے دس تک آتا ہے اس کے درمیان جتنے عدد ہیں ہر عدد کا آیت میں احتمال ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جس نے رہائی پانی تھی، خواب کی تعبیر بتلاتے ہوئے اسے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اسے ایک پیغام دیا۔ جس کے بارے میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو یقین تھا کہ یہ رہا ہوجائے گا۔ اسے فرمایا کہ جب تم رہا ہو کر تم اپنی ڈیوٹی پر جاؤ تو اپنے آقا کے سامنے میرے بےگناہ ہونے کا معاملہ پیش کرنا۔ اسے بتلانا کہ ایک بےگناہ اور پردیسی شخص اس طرح جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے۔ جب وہ شخص رہا ہو کر اپنے منصب پر بحال ہوا تو وہ اس پیغام اور اپنے عہد کو اس طرح بھول گیا جیسے اس نے یہ بات سنی ہی نہ تھی کیونکہ اس کے ذہن سے شیطان نے اس بات کو بالکل فراموش کردیا۔ جس کے بارے میں قرآن مجید بتلاتا ہے کہ اسے یہ پیغام اور عہد شیطان نے بھلایا تھا۔ گویا کہ نسیان شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس طرح یوسف (علیہ السلام) کئی سال تک جیل میں قید رہے۔ بعض علماء نے ” فانساہ “ کی ضمیر کا مرجع حضرت یوسف (علیہ السلام) کو قرار دیا ہے لیکن درست نہیں، حضرت یوسف (علیہ السلام) جن کے شب و روز ذکر الٰہی میں بسر ہو رہے تھے بلکہ دوسروں کو بھی یاد الٰہی کی تلقین کرنے میں مصروف رہتے تھے وہ اپنے رب کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں۔ صحیح یہی ہے کہ اس کا مرجع وہ ساقی ہے جس کو یوسف (علیہ السلام) نے رہائی پانے اور اپنے منصب پر دوبارہ فائز ہونے کی خوشخبری دی تھی۔ ” سنین “ کا لفظ عربی گنتی کے اعتبار سے دس سال تک کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مفسرین کا خیال ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس قیدی کے رہا ہونے کے بعد سات سال جیل میں گزارے۔ اس طرح ان کی قید نو یا دس سال بنتی ہے۔ قرآن مجید نے رہائی پانے والے کے بارے میں فرمایا ہے کہ اسے شیطان نے بھلا دیا تھا۔ اس کی دو وجوہات میری سمجھ میں آتی ہیں۔ ١۔ اس سے بھولنے والے کی صفائی پیش کرنا مقصود ہے کہ اس نے اپنے آقا کے سامنے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ذکر جان بوجھ کر نہیں چھوڑا تھا بلکہ اس کو شیطان نے بھلا دیا تھا۔ ٢۔ شریعت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر قسم کی کوتاہی، غلطی اور کمزوری کا سبب شیطان ہوا کرتا ہے۔ اس لیے ہر قسم کی غلطی، کمزوری اور کوتاہی کی نسبت شیطان کی طرف کی جاتی ہے۔ اس شخص کے بھولنے کا سبب بیان کرتے ہوئے مستند مفسرین نے لکھا ہے۔ چونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اللہ کے نبی تھے اس لیے ان کے مرتبہ اور شان کے منافی تھا کہ وہ بادشاہ کی خدمت میں عام آدمی کی طرح پیغام بھیجتے۔ وہ اللہ کے نبی اور انبیاء کی اولاد تھے اور اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے مشکل مقامات میں ان کی مدد اور رہنمائی فرمائی تھی۔ اس لیے انہیں ایک عام آدمی کی طرح یہ کام نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس پاداش میں انہیں تقریباً سات، آٹھ، سال تک مزید جیل میں ہی رہنا پڑا۔ لیکن اس بات کے ساتھ اتفاق کرنا ضروری نہیں کیونکہ مصیبت سے نکلنے کے لیے تدبیر کرنا ہر کسی پر لازم ہے۔ جیسے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی تھی کہ مصر کے ایک ہی دروازے سے داخل ہونے کی بجائے مختلف دروازوں سے داخل ہونا۔ ( یوسف : ٦٧) مسائل ١۔ شیطان انسان کو بھول میں مبتلا کردیتا ہے۔ ٢۔ یوسف (علیہ السلام) جیل میں کئی سال رہے۔ تفسیر بالقرآن شیطان لوگوں کو پھسلاتا ہے : ١۔ شیطان نے قیدی کو حضرت یوسف کا تذکرہ کرنا بھلا دیا۔ (یوسف : ٤٢) ٢۔ شیطان نے آدم اور حو اکو پھسلا دیا۔ (البقرۃ : ٣٦) ٣۔ شیطان نے حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے درمیان اختلاف ڈلوا دیا۔ (یوسف : ١٠٠) ٤۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (یوسف : ٥) ٥۔ شیطان کو اپنا دشمن سمجھ کر اس کی شیطنت سے بچنا چاہیے۔ (فاطر : ٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یعنی میرے حالت ، میرا واقعہ اور میری حقیقت کا ذکر اپنے رب اور حاکم کے سامنے کرنا جس کے قانونی اور دستوری نظام کے تم تابع ہو۔ اور جس کے احکام کے تم مطیع ہو۔ ان معنوں میں ہی وہ تمہارا رب ہے۔ کیونکہ رب کے معنی ہی یہ ہیں کہ جو حاکم ، سردار اور قانون دہندہ ہو۔ اسلامی اصطلاح میں ربوبیت کا جو مفہوم ہے۔ یہاں اسے واضح کردیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہنا چاہیے کہ حضرت یوسف گڈریوں کے دور میں تھے اور گدرئیے بادشاہوں کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ وہ خود رب ہیں جس طرح فراعنہ کا عقیدہ تھا۔ نہ وہ فرعونوں کی طرح اپنے آپ کو الٰہ سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک ربوبیت کا مفہوم حاکمیت تھا ، یہاں لفظ رب صریح طور پر حاکم کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اب یہاں سیاق کلام یہ تفصیلات نہیں دیتا کہ قیدی ساتھیوں کا انجام اسی طرح ہوا جس طرح حضرت یوسف نے خواب کی تعبیر کی تھی۔ یہاں قصے میں خلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ قارئین خود معلوم کرلیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ لیکن جس شخص کے بارے میں حضرت یوسف کی تاویل یہ تھی کہ وہ نجات پائے گا ، اس نے حضرت یوسف کے بارے میں حضرت یوسف کی وصیت کو پورا نہ کیا۔ جب وہ شاہی محلات کی زندگی کی ہماہمی میں دوبارہ پہنچا تو وہ ان سرگرمیوں میں مدہوش ہوگیا ، اس نے درس توحید بھی بھلا دیا ، حضرت یوسف کے مسئلے کو بھی پیش نہ کیا۔ فلبث ۔ یہ آخری ضمییر (لبث) حضرت یوسف کی طرف عائد ہے۔ اللہ کی حکمت کی مشیت یہ تھی کہ حضرت یوسف تمام دنیاوی اسباب سے کٹ کر صرف اللہ پر بھروسہ کریں۔ مشیت ایزدی کے نزدیک یہ بات حضرت یوسف کے شایان شان نہ تھی کہ ان کی رہائی کسی دنیاوی اور انسانی ذریعے سے ہو۔ اللہ کے مخلص بندوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کے لیے خالص ہوجائیں۔ وہ صرف اس کو اپنی حاجات میں پکاریں اور دعا کریں کہ اللہ ان کو ثابت قدم رکھے۔ اور اگر کبھی ان بندوں سے کوتاہی ہوجائے تو پھر ان پر اللہ کا فضل ہوتا ہے۔ اور وہ اپنی حقیقی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ وہ از سر نو شوق ، محبت اور رضامندی سے اللہ کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ اور ان پر اس کا فضل و کرم پورا ہوجاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت یوسف (علیہ السلام) کا نجات پانے والے قیدی سے یہ فرمانا کہ تم اپنے آقا سے میرا تذکرہ کردینا اور آپ کا مزید چند سال جیل میں رہنا سیدنا حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دونوں جوانوں کے خواب کی تعبیر دے دی جن میں سے ایک شخص کے سولی دئیے جانے کا اور ایک شخص کے جرم سے اور جیل سے خلاصی پاجانے کا ذکر تھا جس شخص کے بارے میں اپنی تعبیر کے مطابق انہیں یہ خیال ہوا کہ اسے نجات ہوگی اس سے فرمایا کہ رہائی پا کر تم اپنے آقا کے پاس جاؤ تو اس سے میرا تذکرہ کردینا کہ جیل میں ایک ایسا شخص ہے۔ واقعہ مذکورہ میں قصور وار تو عزیز مصر کی بیوی تھی لیکن جیل میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بند کردیا گیا تھا جو بےقصور تھے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ ایسے جزوی معاملات کی سر براہ مملکت یعنی بادشاہ کو بھی اطلاع ہو اور اگر اسے خبر بھی ہو تو یہ ضروری نہیں کہ جسے جیل میں ڈالا گیا ہے اس کے بےقصور ہونے کا علم بھی ہو۔ اس لیے سیدنا حضرت یوسف (علیہ السلام) نے موقع مناسب جانا کہ بادشاہ کو اپنی شخصیت سے متعارف کرا دیں خواہ مخواہ جیل میں پڑا رہنا وہ بھی بغیر کسی قصور کے کوئی محبوب چیز نہیں ہے۔ تکوینی طور پر جو کوئی مصیبت آجائے اس پر صبر کرنا چاہئے لیکن اس مصیبت سے نکلنے کی کوشش کی جائے یہ بھی کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ اس لئے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جیل کی مصیبت سے چھٹکارے کا ایک ذریعہ ملا اسے استعمال فرما لیا یعنی جس شخص کے بارے میں یہ گمان ہوا کہ جیل سے رہائی پا کر اپنے آقا کی خدمت میں پھر لگا دیا جائے گا اس سے فرمایا کہ تو اپنے آقا سے میرا تذکرہ کردینا کہ جیل میں ایک ایسا شخص ہے۔ وہ شخص جیل سے رہا تو ہوگیا اور آقا کی خدمت میں بھی لگ گیا لیکن شیطان نے اسے بھلا دیا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا اپنے آقا سے ذکر کرے ‘ لہٰذا حضرت یوسف (علیہ السلام) مزید جیل میں رہے۔ قرآن مجید میں (فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِیْنَ ) فرمایا ہے کتنے سال جیل میں رہنا ہوا اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں صاحب روح المعانی نے سات سال اور بارہ سال کے اقوال لکھے ہیں لفظ بضع تین سے لے کرنو تک کے عدد پر دلالت کرتا ہے۔ واللہ اعلم بحقیقۃ الحال قرآن کے بیان سے بہرحال یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ خوابوں کی تعبیر دینے سے نجات پانے والے قیدی سے اپنی بات کہہ دینے کے بعد بھی چند سال جیل میں رہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

38:۔ ظن بمعنی علم و یقین ہے کیونکہ تعبیر ذریعہ وحی بیان کی گئی تھی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

42 ۔ اور ان دونوں میں سے جس کو یوسف (علیہ السلام) نے یہ سمجھا کہ وہ رہا ہونے والا ہے اس سے کہا کہ اپنے بادشاہ کے روبرو میرا تذکرہ کردیجئیو سو شیطان نے اس کو اپنے بادشاہ سے یوسف (علیہ السلام) کا ذکر کرنا بھلا دیا اور یوسف (علیہ السلام) کئی سال تک قید خانہ میں ہی رہا۔ اس تفسیر میں ظن بمعنی یقین ہے اس لئے کہ پیغمبر کی تعبیر ہے نیز وحی سے معلوم ہوا ہوگا چناچہ فرمایا تھا۔ قضی الامر الذی فیہ تستفتین معلوم ہوتا ہے قضائو قدر کا فیصلہ یوسف (علیہ السلام) کو معلوم ہوچکا تھا۔ کہتے ہیں کہ نان بائی نے کہا تھا کہ میرا خواب تو بناوٹی تھا لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا تو اپنے خواب کو جھوٹا کہہ یا سچا ہوگا یہی۔ دوسری بات یاد رکھنی چاہئے کہ فالسہ الشیطن میں دو قول ہیں ہم نے ایک قول کی بنا پر ترجمہ کیا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو شیطان نے بھلا دیا کہ انہوں نے بجائے اللہ تعالیٰ کے ساتھ رجوع کرنے کی دنیاوی بادشاہ کو یاد دلانے کے لئے کہا ۔ جیسا کہ ابی حاتم نے حضرت انس (رض) سے مفصل روایت کی ہے ہرچند کہ بضع کا لفظ تین سے دس تک بولا جاتا ہے لیکن یوسف (علیہ السلام) کی مدت قید میں حضرات مفسرین کا اختلاف ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں فرمایا ایک مارا جائے گا اس کو نہ کہا کہ تو ہے یہ خلق نیک ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ اس کو اٹکلا کہ یہ بچے گا ۔ معلوم ہوا کہ تعبیر خواب یقین نہیں اٹکل ہے مگر پیغمبر اٹکل کرے سو بیشک ہے ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اسباب کی سعی کہ میرا ذکر کرنا ۔ بادشاہ پاس وہ بھول گیا تاکہ پیغمبر کا دل اسباب پر نہ ٹھہرے کئی برس رہے قید میں اکثر لوگ کہتے ہیں سات برس ۔ 12