Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 50

سورة يوسف

وَ قَالَ الۡمَلِکُ ائۡتُوۡنِیۡ بِہٖ ۚ فَلَمَّا جَآءَہُ الرَّسُوۡلُ قَالَ ارۡجِعۡ اِلٰی رَبِّکَ فَسۡئَلۡہُ مَا بَالُ النِّسۡوَۃِ الّٰتِیۡ قَطَّعۡنَ اَیۡدِیَہُنَّ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ بِکَیۡدِہِنَّ عَلِیۡمٌ ﴿۵۰﴾

And the king said, "Bring him to me." But when the messenger came to him, [Joseph] said, "Return to your master and ask him what is the case of the women who cut their hands. Indeed, my Lord is Knowing of their plan."

اور بادشاہ نے کہا یوسف کو میرے پاس لاؤ جب قاصد یوسف کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا ، اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے؟ ان کے حیلے کو ( صحیح طور پر ) جاننے والا میرا پروردگار ہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The King investigates what happened between the Wife of the Aziz, the Women in the City, and Yusuf Allah narrates to us that when the king was conveyed the interpretation of his dream, he liked Yusuf's interpretation and felt sure that it was true. He realized the virtue of Prophet Yusuf, recognized his knowledge in the interpretation of dreams and valued his good conduct with his subjects in his country. وَقَالَ الْمَلِكُ ايْتُونِي بِهِ ... The king said: "Bring him to me. `Release him from prison and bring him to me.' ... فَلَمَّا جَاءهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ ... But when the messenger came to him, (Yusuf) said: "Return to your king, When the king's emissary came to Yusuf and conveyed the news of his imminent release, Yusuf refused to leave the prison until the king and his subjects declare his innocence and the integrity of his honor, denouncing the false accusation that the wife of the Aziz made against him. He wanted them to know that sending him to prison was an act of injustice and aggression, not that he committed an offense that warranted it. He said, ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ (Return to your lord (i.e. king...), The Sunnah of our Prophet praised Prophet Yusuf and asserted his virtues, honor, elevated rank and patience, may Allah's peace and blessings be on him. The Musnad and the Two Sahihs recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَال We are more liable to be in doubt than Ibrahim when he said, رَبِّ أَرِنِى كَيْفَ تُحْىِ الْمَوْتَى My Lord! Show me how You give life to the dead... (2:260) وَيَرْحَمُ اللهُ لُوطًا لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ مَا لَبِثَ يُوسُفُ لاََجَبْتُ الدَّاعِي And may Allah send His mercy on Lut! He wished to have powerful support! If I were to stay in prison for such a long time as Yusuf did, I would have accepted the offer. In another narration collected by Ahmad from Abu Hurayrah, the Prophet said about Yusuf's statement, ... فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ "...and ask him, `What happened to the women who cut their hands Surely, my Lord (Allah) is Well-Aware of their plot."' لَوْ كُنْتُ أَنَا لاََسْرَعْتُ الاِْجَابَةَ وَمَا ابْتَغَيْتُ الْعُذْر If it was me, I would have accepted the offer rather than await my exoneration first. Allah said (that the king asked),

تعبیر کی صداقت اور شاہ مصر کا یوسف علیہ السلام کو وزارت سونپنا خواب کی تعبیر معلوم کر کے جب قاصد پلٹا اور اس نے بادشاہ کو تمام حقیقت سے مطلع کیا ۔ تو بادشاہ کو اپنے خواب کی تعبیر پر یقین آ گیا ۔ ساتھ ہی اسے بھی معلوم ہو گیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام بڑے ہی عالم فاضل شخص ہیں ۔ خواب کی تعبیر میں تو آپ کو کمال حاصل ہے ۔ ساتھ ہی اعلیٰ اخلاق والے حسن تدبیر والے اور خلق اللہ کا نفع چاہنے والے اور محض بےطمع شخص ہیں ۔ اب اسے شوق ہوا کہ خود آپ سے ملاقات کرے ۔ اسی وقت حکم دیا کہ جاؤ حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانے سے آزاد کر کے میرے پاس لے آؤ ۔ دوبارہ قاصد آپ کے پاس آیا اور بادشاہ کا پیغام پہنچایا تو آپ نے فرمایا میں یہاں سے نہ نکلوں گا جب تک کہ شاہ مصر اور اسکے درباری اور اہل مصر یہ نہ معلوم کرلیں کہ میرا قصور کیا تھا ؟ عزیز کی بیوی کی نسبت جو بات مجھ سے منسوب کی گئی ہے اس میں سچ کہاں تک ہے اب تک میرا قید خانہ بھگتنا واقعہ کسی حقیقت کی بنا پر تھا ؟ یا صرف ظلم و زیادتی کی بناء پر؟ تم اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا کر میرا یہ پیغام پہنچاؤ کہ وہ اس واقعہ کی پوری تحقیق کریں ۔ حدیث شریف میں بھی حضرت یوسف علیہ السلام کے اس صبر کی اور آپ کی اس شرافت و فضیلت کی تعریف آئی ہے ۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ شک کے حقدار ہم بہ نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بابت زیادہ ہیں جب کہ انہوں نے فرمایا تھا میرے رب مجھے اپنا مردوں کا زندہ کرنا مع کیفیت دکھا ( یعنی جب ہم اللہ کی اس قدرت میں شک نہیں کرتے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام جلیل القدر پیغمبر کیسے شک کر سکتے تھے؟ پس آپ کی یہ طلب از روئے مزید اطمینان کے تھی نہ کہ ازرو ئے شک ۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے کہ آپ نے فرمایا یہ میرے اطمینان دل کے لیے ہے ۔ اللہ حضرت لوط علیہ السلام پر رحم کرے وہ کسی زور آور جماعت یا مضبوط قلعہ کی پناہ میں آنا چاہنے لگے ۔ اور سنو اگر میں یوسف علیہ السلام کے برابر جیل خانہ بھگتے ہوئے ہوتا اور پھر قاصد میری رہائی کا پیغام لاتا تو میں تو اسی وقت جیل خانے سے آزادی منظور کر لیتا ۔ مسند احمد میں اسی آیت فاضلہ کی تفسیر میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں ہوتا تو اسی وقت قاصد کی بات مان لیتا اور کوئی عذر تلاش نہ کرتا ۔ مسند عبدالرزاق میں ہے آپ فرماتے ہیں واللہ مجھے حضرت یوسف علیہ السلام کے صبر و کرم پر رہ رہ کر تعجب آتا ہے اللہ اسے بخشے دیکھو تو سہی بادشاہ نے خواب دیکھا ہے وہ تعبیر کے لیے مضطرب ہے قاصد آکر آپ سے تعبیر پوچھتا ہے آپ فوراً بغیر کسی شرط کے بتا دیتے ہیں ۔ اگر میں ہوتا تو جب تک جیل خانے سے اپنی رہائی نہ کرا لیتا ہرگز نہ بتلاتا ۔ مجھے حضرت یوسف علیہ السلام کے صبر و کرم پر تعجب معلوم ہو رہا ہے ۔ اللہ انہیں بخشے کہ جب ان کے پاس قاصد ان کی رہائی کا پیغام لے کر پہنچتا ہے تو آپ فرماتے ہیں ابھی نہیں جب تک کہ میری پاکیزگی ، پاک دامنی اور بےقصوری سب پر تحقیق سے کھل نہ جائے ۔ اگر میں انکی جگہ ہوتا تو میں تو دوڑ کر دروازے پر پہنچتا یہ روایت مرسل ہے ۔ اب بادشاہ نے تحقیق کرنی شروع کی ان عورتیں کو جنہیں عزیز کی بیوی نے اپنے ہاں دعوت پر جمع کیا تھا اور خود اسے بھی دربار میں بلوایا ۔ پھر ان تمام عورتوں سے پوچھا کہ ضیافت والے دن کیا گزری تھی؟ سب بیان کرو ۔ انہوں نے جواب دیا کہ ماشا اللہ یوسف پر کوئی الزام نہیں اس پر بےسروپا تہمت ہے ۔ واللہ ہم خوب جانتی ہیں کہ یوسف میں کوئی بدی نہیں اس وقت عزیز کی بیوی خود بھی بول اُٹھی کہ اب حق ظاہر ہو گیا واقعہ کھل گیا ۔ حقیقت نکھر آئی مجھے خود اس امر کا اقرار ہے ۔ کہ واقعی میں نے ہی اسے پھنسانا چاہا تھا ۔ اس نے جو بروقت کہا تھا کہ یہ عورت مجھے پھسلا رہی تھی اس میں وہ بالکل سچا ہے ۔ میں اس کا اقرار کرتی ہوں اور اپنا قصور آپ بیان کرتی ہوں تاکہ میرے خاوند یہ بات بھی جان لیں کہ میں نے اس کی کوئی خیانت دراصل نہیں کی ۔ یوسف کی پاکدامنی کی وجہ سے کوئی شر اور برائی مجھ سے ظہور میں نہیں آئی ۔ بدکاری سے اللہ تعالیٰ نے مجھے بچائے رکھا ۔ میری اس اقرار سے اور واقعہ کے کھل جانے سے صاف ظاہر ہے اور میرے خاوند جان سکتے ہیں کہ میں برائی میں مبتلا نہیں ہوئی ۔ یہ بالکل سچ ہے کہ خیانت کرنے والوں کی مکاریوں کو اللہ تعالیٰ فروغ نہیں دیا ۔ ان کی دغا بازی کوئی پھل نہیں لاتی ۔ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے بارہویں پارے کی تفسیر ختم ہوئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ۔ آمین ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 مطلب یہ ہے کہ جب وہ شخص تعبیر دریافت کر کے بادشاہ کے پاس گیا اور اسے تعبیر بتائی تو وہ اس تعبیر سے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بتلائی ہوئی تدبیر سے بڑا متاثر ہوا اور اس نے اندازہ لگا لیا کہ یہ شخص، جسے ایک عرصے سے حوالہ زنداں کیا ہوا ہے، غیر معمولی علم و فضل اور اعلٰی صلاحیتوں کا حامل ہے۔ چناچہ بادشاہ نے انھیں دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ 50۔ 2 حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ بادشاہ اب مائل بہ کرم ہے، تو انہوں نے اس طرح محض عنایت خسوانہ سے جیل سے نکلنے کو پسند نہیں فرمایا، بلکہ اپنے کردار کی رفعت اور پاک دامنی کے اثبات کو ترجیح دی تاکہ دنیا کے سامنے آپ کا کردار اور اس کی بلندی واضح ہوجائے۔ کیونکہ داعی الی اللہ کے لئے یہ عفت و پاک بازی اور رفعت کردار بہت ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] الزام کی بریت سے پہلے سیدنا یوسف کا قید سے باہر آنے سے انکار :۔ بادشاہ کو جب ساقی نے قید خانہ سے واپس جاکر یہ تعبیر، یہ تدبیر اور یہ بشارت سنائی تو وہ عش عش کر اٹھا۔ اس کے دل سے وحشت دور ہوگئی اور اطمینان حاصل ہوگیا۔ وہ سیدنا یوسف کے علم و فضل سے بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا کہ ایسے شخص کو میرے پاس لایا جائے تاکہ میں اس کی زیارت سے فیض یاب ہوسکوں اور اس کے مرتبہ اور اس کی قابلیت کے مطابق اس کی عزت و تکریم کروں۔ جب بادشاہ کا پیغامبر یہ پیغام لے کر قید خانہ میں سیدنا یوسف کے پاس پہنچا اور آپ کو بادشاہ کا پیغام اور قید سے رہائی کی خوشخبری سنائی تو بجائے اس کے کہ آپ اس پیغامبر پر خوش ہوتے آپ نے قید سے باہر آنے سے انکار کردیا اور پیغامبر سے کہا کہ واپس جاکر پہلے بادشاہ سے اس قضیہ کا فیصلہ کراؤ جس کی وجہ سے مجھے قید میں ڈالا گیا تھا۔ یعنی اس عورتوں والے قصے کی کیا صورت حال ہے جبکہ انہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے۔ بالفاظ دیگر آپ کا جواب یہ تھا کہ جب تک میرے اس جرم بےگناہی کی تحقیق نہ ہوجائے اور میری پوری طرح بریت نہ ہوجائے میں قید سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ پھر آپ نے اپنے مطالبہ میں اصل مجرم زلیخا کا نام عمداً نہ لیا کیونکہ اس کا خاوند آپ کا محسن اور انصاف پسند آدمی تھا آپ اسے بدنام نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ اجمالاً ان سب ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کا ذکر کردیا۔ کیونکہ وہ سب ہی اس جرم میں زلیخا کی ہمنوا بن گئی تھیں اور ان سب نے مل کر ہی آپ کو قید خانے میں ڈلوایا تھا۔ آپ نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ میرا پروردگار تو میری بےگناہی اور عفت کو جانتا ہے۔ مگر میں یہ چاہتا ہوں کہ کسی ناواقف حال کے دل میں بھی یہ شائبہ نہ رہے کہ شاید اس معاملہ میں یوسف کا بھی کچھ قصور ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖ : یعنی جب ساقی نے جا کر تعبیر بتائی تو بادشاہ نے کہا : ” اسے میرے پاس لاؤ۔ “ اس سے علم کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ حسن بےمثال قید اور مصیبت کا باعث بنا اور علم رہائی کا۔ دنیا میں جب یہ حال ہے تو آخرت میں علم نافع کی برکتوں کا آپ خود اندازہ فرما لیں۔ قَالَ ارْجِعْ اِلٰي رَبِّكَ ۔۔ : یوسف (علیہ السلام) نے قید سے نکل کر قاصد کے ساتھ جانے کے بجائے مطالبہ کیا کہ واپس جاؤ اور بادشاہ سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ تھا جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے، یقیناً میرا رب ان کے فریب کو خوب جاننے والا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یوسف (علیہ السلام) کا خیال تھا کہ شاید بادشاہ کو میرے قید میں بھیجے جانے یا عورتوں کے فریب کے معاملے کا علم ہی نہ ہو، دوسرے وزیروں نے ازخود ہی یہ سب کچھ کیا ہو، یا اگر علم ہو تو جس طرح بدنام کرکے قید کیا گیا اسی کے مطابق علم ہو۔ اسی طرح عام لوگوں میں بھی ممکن ہے کچھ لوگ ان کا قصور سمجھتے ہوں، اس لیے انھوں نے جب تک تحقیق کے ساتھ تہمت سے ہر طرح صفائی نہ ہو، قید سے نکلنے سے انکار کردیا۔ ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوسف (علیہ السلام) کے صبر کی تعریف فرمائی، چناچہ ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ مَا لَبِثَ یُوْسُفُ ثُمَّ أَتَانِي الدَّاعِيْ لَأَجَبْتُہٗ ) [ بخاری، التعبیر، باب رؤیا أہل السجون والفساد والشرک : ٦٩٩٢ ] ” اگر میں اتنی مدت قید خانے میں رہتا جتنی مدت یوسف (علیہ السلام) رہے، پھر میرے پاس بلانے والا آتا تو میں ضرور اس کی دعوت قبول کرتا۔ “ 3 یوسف (علیہ السلام) نے جو مطالبہ کیا کہ ” بادشاہ سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ تھا جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے، میرا رب ان کے فریب کو خوب جاننے والا ہے “ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اپنے ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کا یہ فعل (عزیز کی بیوی ہاتھ کاٹنے والیوں میں شامل نہیں تھی) یوسف (علیہ السلام) کے حسن سے بےخود ہو کر بےاختیاری میں نہیں ہوا، بلکہ یہ باقاعدہ ان کی سازش اور فریب تھا، جیسا کہ میں نے اس سے پہلے بھی ذکر کیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ (And the king said, &Bring him to me.& ). It means that the king gave the order that Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) be taken out of the prison and be produced before him in his court. So, some emissary of the king ar¬rived at the prison with the message of the king. Obviously, this was an occasion which should have been welcomed by Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . He had been in the prison for a long time, re¬stricted and helpless. He wished to be released. When the message of the king arrived at the prison that he was wanted by the king, he should have welcomed it and got himself ready to go. But, Allah Ta` ala bestows upon His Messengers a very high moral station which other people just cannot comprehend. The answer he gave to the emissary of the king was: قَالَ ارْ‌جِعْ إِلَىٰ رَ‌بِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَ‌بِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ &Go back to your lord and ask him, ` What about the women who cut their hands?& Surely, my Lord knows their guile well.& Here, by asking this question, the objective is to find out if he is still held in doubt about what had happened then and if he is still taken to be at some fault in that matter. Also noteworthy at this stage is that Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) is, in the present context, talking about the women who had cut their hands - he has not mentioned the wife of the ` Aziz who was the main cause of what had happened. In this conduct of his, there was consideration for the right of his master&s house where he lived and where he was brought up, something elementally respected by a person of natural gentleness in him. (Qurtubi) Then, not any less important was his real purpose, the need to be exonerated from blame conclusively. If proof was needed, it could have come from those women as well. And it would have not brought much of a disgrace on them. Had they confessed to what was the truth, they would have been, at the most, charged for having given false advice only. This would have been contrary to the case of the wife of the ` Aziz for, if she was made a target of the investigations, it would have proved far more disgraceful for her. And, along with this, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) said: إِنَّ رَ‌بِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ (Surely, my Lord knows their guile well). He said this so that the king too will get to know the truth of the matter - which is a delicate approach to register his innocence in it. On this occasion, reported in the Sahih of Al-Bukhari and the Jami& of Tirmidhi, following a narration of Sayyidna Abu Hurairah (رض) ، there is a Hadith of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in which he said: If I had been in a pri¬son for so long, as Yusuf (علیہ السلام) had been, and had I then been summoned for release, I would have accepted it immediately. And in a report from Imam al-Tabari, the words are: The patience, forbearance and many other noble traits of his character are astonish¬ing. When he was asked to give an interpretation of the dream of the king while still being in prison, had I been in his place, I would have, before giving the interpretation, placed a condition that I should be taken out of the prison before I could give an interpretation of that dream. Again, when the emissary of the king brought in the message of his re-lease, had I been in his place, I would have immediately started walking towards the gate of the prison. (Qurtubi) It should be noted that the purpose in this Hadith is to praise the pa¬tience, forbearance and the many noble traits of the character of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . But, by comparing the response of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) in the present situation which he supposedly attributed to himself, he seems to be saying that had he been there in his place, he would have not elected to delay his release. If this is taken to mean that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is calling the conduct of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) better and, in the case of his own august person, he is saying that had he been in his place, he would have not been able to match that preferred conduct, rath¬er, would have settled for the less preferred, it is obviously not upto the station of the one who is called the foremost among prophets, may peace be upon them all. To answer that, it may be said that he is, no doubt, the foremost among prophets, but the precedence of some other prophet in a certain part of his conduct would not be considered contrary to it. In addition to that, as said in Tafsir al-Qurtubi, it is also possible that the modus operandi employed by Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) is an outstanding proof of his patience, forbearance and noble traits of character - and is highly commendable at its place. But, the pragmatic method of doing things which the Holy Prophet attributed to himself was partic-ularly appropriate to and better for educating his community and offer¬ing to its teeming masses the best course of action likely to bring nothing but good to them. The reason in the present setting is that the tempera¬ment of kings changes. Placing trust in them is not a wise thing to do. On an occasion such as this, putting conditions or delaying the process is not the appropriate thing to do for common people. The probability remains that the king may change his opinion and one is left to rot in that prison, as it had long been the practice. As for Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، he is a prophet of Allah. As such, he could have been given to understand by Allah Ta ala that the delay he would cause would not go against his interest in any way. But, others do not enjoy that degree of closeness to Allah. The Holy Prophet was mercy for all the worlds. In his tempera¬ment and taste, he had an elemental rapport with the entire creation of Allah. He always preferred to make things easier and better for the great masses of people. To him this was more important. Therefore, he said: If he had the opportunity, he would have not delayed. Allah knows best.

وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖ یعنی بادشاہ نے حکم دیا کہ یوسف (علیہ السلام) کو جیل خانہ سے نکالا جائے اور دربار میں لایا جائے چناچہ بادشاہ کا کوئی قاصد بادشاہ کا یہ پیغام لے کر جیل خانہ پہونچا، موقع بظاہر اس کا تھا کہ یوسف (علیہ السلام) جیل خانہ کی طویل مدت سے عاجز آ رہے تھے، اور خلاصی چاہتے تھے جب بادشاہ کا پیغام بلانے کے لئے پہنچا تو فورا تیار ہو کر ساتھ چل دیتے مگر اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو جو مقام بلند عطا فرماتے ہیں اس کو دوسرے لوگ سمجھ بھی نہیں سکتے ہیں اس قاصد کو جواب یہ دیا (آیت) قَالَ ارْجِعْ اِلٰي رَبِّكَ فَسْـــَٔـلْهُ مَا بَال النِّسْوَةِ الّٰتِيْ قَطَّعْنَ اَيْدِيَهُنَّ ۭ اِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِهِنَّ عَلِيْمٌ یعنی یوسف (علیہ السلام) نے قاصد سے کہا کہ تم اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا کر پہلے یہ دریافت کرو کہ آپ کے نزدیک ان عورتوں کا معاملہ کس طرح ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے کیا اس واقعہ میں وہ مجھے مشتبہ سمجھتے ہیں اور میرا کوئی قصور قرار دیتی ہیں یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس وقت یوسف (علیہ السلام) نے ان عورتوں کا ذکر فرمایا جنہوں نے ہاتھ کاٹ لئے تھے عزیز کی بیوی کا نام نہیں لیا جو اصل سبب تھی اس میں اس حق کی رعایت تھی جو عزیز کے گھر میں پرورش پانے سے فطرۃ شریف انسان کے لئے قابل لحاظ ہوتا ہے (قرطبی) اور ایک بات یہ بھی ہے کہ اصل مقصود اپنی براءت کا ثبوت تھا وہ ان عورتوں سے بھی ہوسکتا تھا اور اس میں عورتوں کی بھی کوئی زیادہ رسوائی نہ تھی اگر وہ سچی بات کا اقرار بھی کرلیتیں تو صرف مشورہ ہی کی مجرم ٹھیراتیں بخلاف عزیز کی بیوی کے کہ اس کو تحقیقات کا ہدف بنایا جاتا تو اس کی رسوائی زیادہ تھی اور اس کے ساتھ ہی یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا اِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِهِنَّ عَلِيْمٌ یعنی میرا پروردگار تو ان کے جھوٹ اور مکر و فریب کو جانتا ہی ہے میں چاہتا ہوں کہ بادشاہ بھی حقیقت واقعہ سے واقف ہوجائیں جس میں ایک لطیف انداز سے اپنی براءت کا اظہار بھی ہے اس موقع پر صحیح بخاری اور جامع ترمذی میں بروایت حضرت ابوہریرہ (رض) ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد منقول ہے کہ اگر میں اتنی مدت جیل میں رہتا جتنا یوسف (علیہ السلام) رہے ہیں اور پھر مجھے رہائی کے لئے بلایا جاتا تو فوراً قبول کرلیتا، اور امام طبری (رح) کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) کا صبر و تحمل اور مکارم اخلاق قابل تعجب ہیں جب ان سے جیل میں بادشاہ کے خواب کی تعبیر دریافت کی گئی اگر میں ان کی جگہ ہوتا تو تعبیر بتلانے میں یہ شرط لگاتا کہ پہلے جیل کے دروازے کی طرف چل دیتا ( قرطبی) اس حدیث میں یہ بات قابل غور ہے کہ منشاء حدیث کا یوسف (علیہ السلام) کے صبر و تحمل اور مکارم اخلاق کی تعریف و مدح کرنا ہے مگر اس کے بالمقابل جس صورت حال کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف منسوب کر کے فرمایا کہ میں ہوتا تو دیر نہ کرتا اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت یوسف کے اس طرز عمل کو افضل فرما رہے ہیں اور اپنی شان میں فرماتے ہیں کہ میں ہوتا تو اس افضل پر عمل نہ کر پاتا بلکہ اس میں مفضول کو اختیار کرلیتا جو بظاہر افضل الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شایان شان نہیں تو اس کے جواب میں کہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلاشبہ تمام انبیاء (علیہم السلام) میں افضل ہیں مگر کسی جزوی عمل میں کسی دوسرے پیغمبر کی افضلیت اس کے منافی نہیں ، اس کے علاوہ جیسا تفسیر قرطبی میں فرمایا گیا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے طریق کار میں ان کے صبر و تحمل اور مکارم اخلاق کا عظیم الشان ثبوت ہے اور وہ اپنی جگہ قابل تعریف ہے لیکن رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس طریق کار کو اپنی طرف منسوب فرمایا تعلیم امت اور خیر خواہی عوام کے لئے مناسب اور افضل ہے کیونکہ بادشاہوں کے مزاج کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا ایسے موقع پر شرطیں لگانا یا دیر کرنا عام لوگوں کے لئے مناسب نہیں ہوتا، احتمال ہے کہ بادشاہ کی رائے بدل جائے اور پھر یہ جیل کی مصبیت بدستور قائم رہے، یوسف (علیہ السلام) کو تو بوجہ رسول خدا ہونے کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ علم بھی ہوسکتا ہے کہ اس تاخیر سے کچھ نقصان نہیں ہوگا، لیکن دوسروں کو تو یہ درجہ حاصل نہیں رحمۃ للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مزاج و مذاق میں عامہ خلائق کی بہبود کی اہمیت زیادہ تھی اس لئے فرمایا کہ مجھے یہ موقع ملتا تو دیر نہ کرتا، واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِہٖ۝ ٠ۚ فَلَمَّا جَاۗءَہُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِـــعْ اِلٰي رَبِّكَ فَسْـــَٔـلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ الّٰتِيْ قَطَّعْنَ اَيْدِيَہُنَّ۝ ٠ۭ اِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِہِنَّ عَلِيْمٌ۝ ٥٠ ملك) بادشاه) المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور وَالمِلْكُ ضربان : مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے . اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔ دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے بال البَال : الحال التي يکترث بها، ولذلک يقال : قال : كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ [ محمد/ 2] [ طه/ 51] ، أي : فما حالهم وخبرهم . ويعبّر بالبال عن الحال الذي ينطوي عليه الإنسان، فيقال : خطر کذا ببالي . ( ب ی ل ) البال اصل میں اس حالت کو کہتے ہیں جس کی فکر یا پرواہ کی جائے ۔ قرآن میں ہے ۔ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ [ محمد/ 2] ان سے ان کے گناہ دور کردیئے اور ان کی حالت سنواردی ۔ فَما بالُ الْقُرُونِ الْأُولی[ طه/ 51] تو پہلی جماعتوں کا کیا حال اور انسان کے دل میں گذرنے والے خیال کو بھی بال کہا جاتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ میرے دل میں یہ بات کھٹکی ۔ قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) القطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا كيد الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] ( ک ی د ) الکید ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے وقال الملک ائتونی بہ فلما جاء ہ الرسول قال ارجع الی ربک فاسئلہ ما بال النسوۃ الاتی قطعن ایدیھن ان ربی بکیلہ ھن علیہ۔ بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لائو ، مگر جب شاہی فرستادہ یوسف کے پاس پہنچا تو اس نے کہا : اپنے رب کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کر ان عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے میرا رب تو ان کی مکاری سے واقف ہی ہے۔ ایک قول کے مطابق حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فوری طور پر بادشاہ کے پاس جانے کو تسلیم نہیں کیا بلکہ شاہی قاصد کو یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ پہلے ان عورتوں سے ماملہ کی اصل حقیقت معلوم کرلی جائے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے تا کہ اس معاملہ میں آپ کی پاک دامنی واضح ہوجائے اور اس کے بعد جب آپ بادشاہ کے پاس جائیں تو اس کی نظروں میں آپ کی قدر و منزلت بڑھ جائے اور پھر آپ اسے توحید باری کی جو دعوت دیں نیز امور سلطنت میں اسے جو مشورے دے وہ انہیں آسانی سے قبول کرلے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٠) غرض کہ وہ شخص تعبیر لے کر دربار میں پہنچا اور بادشاہ کو مطلع کیا بادشاہ نے حک دیا یوسف (علیہ السلام) کو میرے پاس لاؤ چناچہ وہ ساق حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس آیا اور آکر اطلاع دی کہ بادشاہ آپ کو بلارہا ہے، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا کہ تو اپنے بادشاہ سے جاکر کہہ وہ ان عورتوں کو بلا کر جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے پوچھے کہ میرا رب ان عورتوں کے مکرو فریب کو خوب جانتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ (وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖ ) بادشاہ اپنے خواب کی تعبیر اور پھر اس کی ایسی اعلیٰ تدبیر سن کر یقیناً بہت متاثر ہوا ہوگا اور اس نے سوچا ہوگا کہ ایسے ذہین فطین شخص کو جیل میں نہیں بلکہ بادشاہ کا مشیر ہونا چاہیے۔ چناچہ اس نے حکم دیا کہ اس قیدی کو فوراً میرے پاس لے کر آؤ۔ (فَلَمَّا جَاۗءَهُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰي رَبِّكَ ) بادشاہ کا پیغام لے کر جب قاصد آپ کے پاس پہنچا تو آپ نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کردیا کہ میں اس طرح ابھی جیل سے باہر نہیں آنا چاہتا۔ پہلے پورے معاملے کی چھان بین کی جائے کہ مجھے کس جرم کی پاداش میں جیل بھیجا گیا تھا۔ اگر مجھ پر کوئی الزام ہے تو اس کی مکمل تفتیش ہو اور اگر میرا کوئی قصور نہیں ہے تو مجھے علی الاعلان بےگناہ اور بری قرار دیا جائے۔ چناچہ آپ نے اس قاصد سے فرمایا کہ تم اپنے بادشاہ کے پاس واپس جاؤ : (اِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِهِنَّ عَلِيْمٌ) بادشاہ تک یہ بات پہنچی تو اس نے سب بیگمات کو طلب کرلیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

42. There is no mention in the Bible and the Talmud of this most important part of the story that Prophet Joseph declined to quit the prison till his character was cleared. On the other hand, according to the Bible: Then Pharaoh sent and called Joseph, and they brought him hastily out of the dungeon; and he shaved himself, and changed his raiment, and came in unto Pharaoh. And the Talmud depicts even a more degrading picture of the event. It says: The king ordered that Joseph should be brought before him. But he commanded his officers to be careful not to frighten the lad, lest through fear he should be unable to interpret correctly. And the servant of the king brought Joseph forth from his dungeon, and shaved him and clothed him in new garments, and carried him before the king. The king was seated upon his throne, and the glare and glitter of the jewels which ornamented the throne dazzled and astonished the eyes of Joseph. Now the throne of the king was reached by seven steps, and it was the custom of Egypt for a prince or noble who held audience with the king, to ascend to the sixth step; but when an inferior or a private citizen of the land was called into his presence, the king descended to the third step and from there spoke with him. (The Talmud, H. Polano, pp. 87-88). A comparison of the degrading picture in the Talmud with this self respecting grand, and noble picture depicted in the Quran will convince every unbiased critic that the one in the Quran is worthy of a Prophet of God. Moreover the picture in the Talmud is open to a grave objection: Had Prophet Joseph behaved like a frightened and cringing lad who was so dazzled by the glitter and glare of the jewels of the throne that he bowed to the ground, how was it that the king and the courtiers were so impressed by him that they declared, “......the Hebrew has proved himself wise and skillful and through his wisdom shall our country be saved the pangs of want”? So much so that the king appointed him, without demur as governor over the land, second only to himself. All this shows that by that time he had proved his moral and mental superiority and had enhanced it by his refusal to quit the prison without proving his innocence. Otherwise, they would have never raised him to the highest rank in such a civilized and advanced country as Egypt. 43. He demanded an inquiry into the matter not because he himself had any doubt of his innocence, but because he was perfectly confident of this: My Lord has full knowledge of my innocence and of their cunning. But your lord should also make a thorough inquiry as to why I had been sent to prison, for I do not want to go before the public with any blemish or blot on my reputation. Therefore a public inquiry should be held to prove that I was an innocent victim of the injustice of the chiefs and nobles of the country, who had cast me into prison in order to cover up the guilt of their own ladies. The words in which the demand was made clearly show that the king was already fully acquainted with the details of the incident that had happened at the banquet of the wife of Al-Aziz. That is why a mere reference to it was enough. Another noteworthy thing in this demand was that Prophet Joseph did not in any way hint at the part the wife of Al- Aziz had played in the event. This is another proof of his noble character that he did not like to involve and entangle the wife of his benefactor in the matter, even though she had done him her worst.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :42 یہاں سے لے کر بادشاہ کی ملاقات تک جو کچھ قرآن نے بیان کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اس قصے کا ایک بڑا ہی اہم باب ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا کوئی ذکر بائیبل اور تلمود میں نہیں ہے ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ بادشاہ کی طلبی پر حضرت یوسف علیہ السلام فورا چلنے کے لیے تیار ہوگئے ، حجامت بنوائی ، کپڑے بدلے اور دربار میں جا حاضر ہوئے ۔ تلمود اس سے بھی زیادہ گھٹیا صورت میں اس واقعے کو پیش کرتی ہے ۔ اس کا بیان یہ ہے کہ ” بادشاہ نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ یوسف علیہ السلام کو میرے حضور پیش کرو ، اور یہ بھی ہدایت کر دی کہ دیکھو ایسا کوئی کام نہ کرنا کہ لڑکا گھبرا جائے اور صحیح تعبیر نہ دے سکے ۔ چنانچہ شاہی ملازموں نے یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے نکالا ، حجامت بنوائی ، کپڑے بدلوائے اور دربار میں لا کر پیش کر دیا ۔ بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا تھا ۔ وہاں زر و جواہر کی چمک دمک اور دربار کی شان دیکھ کر یوسف علیہ السلام ہکا بکا رہ گیا اور اس کی آنکھیں خیرہ ہونےلگیں ۔ شاہی تخت کی سات سیڑھیاں تھیں ۔ قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی معزز آدمی بادشاہ سے کچھ عرض کرنا چاہتا تو وہ چھ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جاتا اور بادشاہ سے ہم کلام ہوتا تھا ۔ اور جب ادنی طبقہ کا کوئی آدمی شاہی مخاطبہ کے لیے بلایا جاتا تو وہ نیچے کھڑا رہتا اور بادشاہ تیسری سیڑھی تک اتر کر اس سے بات کرتا ۔ یوسف علیہ السلام اس قاعدے کے مطابق نیچے کھڑا ہوا اور زمین بوس ہو کر اس نے بادشاہ کو سلامی دی ۔ اور بادشاہ نے تیسری سیڑھی تک اتر کر اس سے گفتگو کی“ ۔ اس تصویر میں بنی اسرائیل نے اپنے جلیل القدر پیغمبر کو جتنا گرا کر پیش کیا ہے اس کو نگاہ میں رکھیے اور پھر دیکھیے کہ قرآن ان کے قید سے نکلنے اور بادشاہ سے ملنے کا واقعہ کس شان اور کس آن بان کے ساتھ پیش کرتا ہے ۔ اب یہ فیصلہ کرنا ہر صاحب نظر کا اپنا کام ہے کہ ان دونوں تصویروں میں سے کونسی تصویر پیغمبری کے مرتبے سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔ علاوہ بریں یہ بات بھی عقل عام کو کھٹکتی ہے کہ اگر بادشاہ کی ملاقات کے وقت تک حضرت یوسف علیہ السلام کی حیثیت اتنی گری ہوئی تھی جتنی تلمود کے بیان سے معلوم ہوتی ہے ، تو خواب کی تعبیر سنتے ہی یکایک ان کو تمام سلطنت کا مختار کل کیسے بنا دیا گیا ۔ ایک مہذب و متمدن ملک میں اتنا بڑا مرتبہ تو آدمی کو اسی وقت ملا کرتا ہے جب کہ وہ اپنی اخلاقی و ذہنی برتری کا سکہ لوگوں پر بٹھا چکا ہو ۔ پس عقل کی رو سے بھی بائیبل اور تلمود کی بہ نسبت قرآن کا بیان زیادہ مطابق حقیقت معلوم ہوتا ہے ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :43 یعنی جہاں تک میرے رب کا معاملہ ہے ، اس کو تو پہلے ہی میری بے گناہی کا حال معلوم ہے ۔ مگر تمہارے رب کو بھی میری رہائی سے پہلے اس معاملہ کو پوری طرح تحقیق کر لینی چاہیے جس کی بنا پر مجھے جیل میں ڈالا گیا تھا ۔ کیونکہ میں کسی شبہہ اور کسی بدگمانی کا داغ لیے ہوئے خلق کے سامنے نہیں آنا چاہتا ۔ مجھے رہا کرنا ہے تو پہلے بر سر عام یہ ثابت ہونا چاہیے کہ میں بے قصور تھا ۔ اصل قصور وار تمہاری سلطنت کے کار فرما اور کار پرواز تھے جنہوں نے اپنی بیگمات کی بداطواری کا خمیازہ میری پاک دامنی پر ڈالا ۔ اس مطالبے کو حضرت یوسف علیہ السلام جن الفاظ میں پیش کرتے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شاہ مصر اس پورے واقعہ سے پہلے ہی واقف تھا جو بیگم عزیز کی دعوت کے موقع پر پیش آیا تھا ۔ بلکہ وہ ایسا مشہور واقعہ تھا کہ اس کی طرف صرف ایک اشارہ ہی کافی تھا ۔ پھر اس مطالبہ میں حضرت یوسف علیہ السلام عزیز مصر کی بیوی کو چھوڑ کر صرف ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کے ذکر پر اکتفا فرماتے ہیں ۔ یہ ان کی انتہائی شرافت نفس کا ایک اور ثبوت ہے ۔ اس عورت نے ان کے ساتھ خواہ کتنی ہی برائی کی ہو ، مگر پھر بھی اس کا شوہر ان کا محسن تھا اس لیے انہوں نے نہ چاہا کہ اس کے ناموس پر خود کوئی حرف لائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

32: یہاں پھر قرآنِ کریم نے واقعے کے وہ حصے حذف فرما دئیے ہیں جو خود سمجھ میں آسکتے ہیں۔ یعنی حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب کی جو تعبیر دی تھی وہ بادشاہ کو بتائی گئی، بادشاہ نے تعبیر سن کر ان کو قدر دانی کے طور پر اپنے پاس بلوانا چاہا، اور اس مقصد کے لئے اپنا ایک ایلچی بھیجا ۔اس موقع پر حضرت یوسف علیہ السلام نے چاہا کہ اپنی رہائی سے پہلے اُس جھوٹے الزام کی واضح طور پر صفائی کروائیں جو اُن پر لگایا گیا تھا۔ اِس لئے اس مرحلے پر انہوں نے ایلچی کے ساتھ جانے کے بجائے بادشاہ کو یہ پیغام بھجوایا کہ آپ پہلے اُن عورتوں کے معاملات کی تحقیق کریں جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے، چونکہ ان عورتوں کو ساری بات معلوم تھی، اور اُن کے ذریعے حقیقت کا معلوم کرنا زیادہ آسان تھا، اس لئے زلیخا کے بجائے ان کا حوالہ دیا۔ اور اگرچہ یہ تحقیق جیل سے رہا ہونے کے بعد بھی کی جاسکتی تھی، لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے شاید اس لئے یہ طریقہ اختیار فرمایا تاکہ بادشاہ اور عزیز مصر وغیرہ پر یہ بات واضح ہوجائے کہ اِن کو اپنی بے گناہی پر اتنا یقین ہے کہ وہ بے گناہی ثابت ہوئے بغیر جیل سے رہا ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ دوسرے حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کے انداز سے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ اِنہیں کوئی اعزاز دیں گے۔ اس اعزاز کے ملنے کے بعد تحقیقات کے غیر جانب دارانہ ہونے میں لوگوں کو شکوک اور شبہات ہوسکتے تھے۔ اس لئے آپ نے مناسب یہی سمجھا کہ جیل سے اُس وقت نکلیں جب غیر جانب دارانہ تحقیق کے نتیجے میں الزام کا ہر داغ دُھل چکا ہو۔ اﷲ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ بادشاہ کو حضرت یوسف علیہ السلام کی سچائی کا یقین ہوگیا، اور اُس نے جب ان عورتوں کو بلا کر اِن سے اس انداز میں سوال کیا جیسے اُسے ساری حقیقت معلوم ہے تو وہ حقیقت سے انکار نہ کرسکیں، بلکہ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی بے گناہی کی صاف لفظوں میں گواہی دی۔ اس مرحلے پر عزیزِ مصر کی بیوی زلیخا کو بھی یہ اقرار کرنا پڑا کہ اصل غلطی اُسی کی تھی۔ شاید اﷲ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اپنے جرم کے اقرار اور توبہ کے ذریعے وہ بھی پاک صاف ہوسکے،

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٠۔ ٥١۔ جب ساقی نے بادشاہ کی حضور میں یوسف (علیہ السلام) کی تعبیر کا حال بیان کیا تو بادشاہ مصر کو وہ تعبیر بہت پسند آئی اور یوسف (علیہ السلام) کے علم و فضل کو اس نے بخوبی پہچان لیا اور جان لیا کہ یہ شخص نہایت ہی صاحب کرامات ہے اس لئے پھر بادشاہ نے اپنا قاصد یوسف (علیہ السلام) کو بلانے کے واسطے بھیجا کہ ان کو قید خانہ سے نکال کر میرے دربار میں لاؤ جب قاصد یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچا تو آپ نے قید خانہ کے نکلنے سے انکار کیا اور کہا کہ جب تک بادشاہ اس بات کو تحقیق نہ کرلے کہ میں بےجرم قید خانہ میں داخل ہوا ہوں اور جو تہمت مجھ پر لوگوں نے دھری ہے اس سے جب تک میں بری نہ ثابت ہو لوں اور جب تک بادشاہ یہ بات بھی خوب اچھی طرح نہ جان لے کہ عزیز مصر کی بی بی نے مکرو فریب کر کے مجھ کو زبردستی قید کرایا اس وقت تک میں قید خانہ سے ہرگز نہ نکلوں گا اسی بنا پر یوسف (علیہ السلام) نے یہ بات کہی کہ پہلے ان عورتوں ہی سے اس بات کو دریافت کرنا چاہیے جن عورتوں کو میرے معاملے میں دخل ہے جس کے سبب سے ان عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے۔ چناچہ بادشاہ مصر نے ان عورتوں کو جمع کر کے یہ بات پوچھی کہ یہ کیا معاملہ ہے جب تم نے یوسف (علیہ السلام) پر اپنی خواہش ظاہر کی تھی کس طرح ہوا اور کیا ہوا اس وقت عورتوں نے ایک زبان ہو کر جواب دیا کہ حاش للہ یہ بات ہرگز نہیں ہے کہ یوسف کے دل میں کوئی برائی ہو وہ نہایت ہی پارسا آدمی ہیں اور عزیز مصر کی عورت زلیخا نے یہ بات کہی کہ اب حق بات ظاہر ہوگئی غرض اس دریافت سے بادشاہ کو کل حقیقت کی اطلاع ہوگئی کہ یوسف (علیہ السلام) کی اس میں کچھ خطا نہیں ہے اور وہ بالکل سچے ہیں قصور فقط زلیخا کا ہے کہ اس نے یوسف (علیہ السلام) سے بدفعلی چاہی اور یوسف (علیہ السلام) اس بات میں سچے ہیں کہ انہوں نے زلیخا کا کہنا نہ مانا اس لئے زلیخا کو آپ اپنے قصور کا اقرار ہے۔ { ان ربی بکیدھن علیم } اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اللہ کے علم سے کوئی بات باہر نہیں ہے اس کو خوب معلوم ہے کہ اس معاملہ میں سرتاپا عورتوں کے مکرو فریب سے مجھ پر یہ الزام قائم ہوا ہے جس سے میں بالکل بری ہوں لیکن دنیوی دریافت سے بادشاہ ووزیر کو بھی میرے بےقصوری کا حال معلوم ہوجاوے تو اچھی بات ہے معتبر سند سے مسند امام احمد مستدرک حاکم تفسیر ابن ابی حاتم اور تفسیر ابن جریر میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوسف (علیہ السلام) کے اس صبر و تحمل کی تعریف فرما کر یہ فرمایا ہے کہ اس موقع پر میں ہوتا تو بادشاہ کے قاصد کے ساتھ شاید فوراً چلا جاتا اور عورتوں کے مکرو فریب کی دریافت تک قید خانہ میں نہ رہتا ١ ؎ ایسے سخت موقع پر یوسف (علیہ السلام) نے جو صبرو تحمل کیا اس کے قابل اجر عظیم ہونے کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے مسند امام احمد کی سند ایک راوی محمد بن عمرو بن علقمہ کو اگرچہ بعضے علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن ابن معین نے محمد بن عمرو کو ثقہ کہا ہے اور نسائی نے اس کو معتبر ٹھہرایا ہے اسی واسطے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ٢ ؎ کیوں کہ نسائی کا کسی راوی کو معتبر ٹھہرانا اکثر علماء کے نزدیک بہت قابل قدر ہے۔ کسی قدر اختصار کے ساتھ یہ حدیث ابوہریرہ (رض) کی روایت ٣ ؎ سے صحیح بخاری و مسلم میں بھی ہے۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٨١ ج ٢۔ ٢ ؎ تہذیب التہذیب ص ٣٧٦۔ ٣٧٧ ج ٩۔ ٣ ؎ صحیح بخاری ص ٤٧٧ ج ١ کتاب الانبیاء و تفسیر ابن کثیر ٤٨١ ج ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:50) بال۔ حال ۔ خبر۔ جس حال کی پرواہ کی جائے وہ بال کہلاتا ہے اور کبھی جس حالت میں دل جمنے لگے اس کو بھی بال کہتے ہیں اور اسی اعتبار سے مجازاً اس کے معنی دل اور جی کے بھی آتے ہیں ۔ مابال النسوۃ (ان) عورتوں کی حقیقت حال کیا تھی ؟

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ یعنی جب ساقی نے جا کر تعبیر بتائی تو بادشاہ نے کہا۔ 6 ۔ وہی قصہ یاد دلایا جس سے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کا مقصد یہ تھا کہ بادشاہ کو میرے مقدمہ کی تحقیق کرنی چاہیے تاکہ سب کے سامنے میرا پاک دامن اور بےقصور ہنا پوری طرح واضح ہوجائے۔ معلوم ہوا کہ مواقع تہمت سے بچنا بھی واجب ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا، من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلا یقضن مواقف التھم۔ کہ جس شخص کا اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان ہے اسے اتہام کی جگہوں سے دور رہنا چاہیے۔ صحیح مسلم میں حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی کسی بیوی کے پاس کھڑے تھے کہ وہاں سے ایک شخص گزرا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بلا کر فرمایا :” یہ میری بیوی ہے “۔ اس نے عرض کی اللہ کے رسول ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بدگمانی کیسے ہوسکتی ہے ؟ اس پر آنحضرت نے فرمایا : ان الشیطان یجری من ابن ادم معجری الدم (روح) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی و نے (حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی بلند ہمتی اور عقلمندی کی داد دیتے ہوئے) تواضعا فرمایا : اگر میں اتنی مدت جیل میں ٹھہرتا جتنی مدت یوسف ( علیہ السلام) ٹھہرے تو بادشاہ کے بلانے پر چلنے کو تیار ہوجاتا۔ (ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٥٠ تا ٥٧ اسرار و معارف بہتان والزام سے بچنے کی کوشش کرنا چاہیئے چنانچہ اس نے حکم دیا کہ اس آدمی کو ہمارے روبرولایا جائے کہ ہم خود اس سے تعبیر سننا چاہتے ہیں ۔ شاہی ہر کارہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی رہائی کا حکم لے کر حاضر ہوا اور بادشاہ کے طلب فرمانے کی خبردی تو آپ نے فرمایا کہ بادشاہ سے کہو پہلے میرے معاملہ کی تحقیق کرے اور درباری امراء کی ان خواتین سے اسفسار کیا جائے جنہوں نے ہاتھ کاٹ لئے تھے کہ وہ سارے معاملہ سے بخوبی واقف ہیں ۔ جو کچھ ہوا تھا زلیخا نے بھی ان کے سامنے اقرار کرلیا تھا اور جو کچھ انھوں نے سوچا تھا یا سفارش کی تھی یا مجھے دیکھنے اور پانے کا حیلہ کیا تھا میرا پروردگار بھی اس سارے معاملہ سے خواب واقف ہے تو یہاں علماء نے لکھا ہے کہ اہل علم کو خصوصا ایسے مواقع سے بچنا چاہیئے ۔ جہاں تہمت لگنے کا اندیشہ ہو اور اگر ایسا ہوجائے تو اس کے ازالے کے لئے کوشش کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ دربار شاہی میں زلیخا سمیت سب کو طلب کرلیا گیا اور بادشاہ نے خود تفتیش کی کہ اب وہ ذاتی طور پر یوسف (علیہ السلام) کا معترف ہوچکا تھا چناچہ ان سب کو واقعہ کی اصل بتانے کو کہا تو سب نے بیک زبان کہا حاشا للہ یعنی وہ لوگ اللہ کے وجود کو مانتے تھے مگر اپنے خاص انداز میں ماننے کے باعث اسلام اور ایمان سے دور تھے ۔ تو کہنے لگیں ہمارے علم کے مطابق تو وہ شخص فرشتہ ہے اور اس میں کسی قصور کا پایا جانا تو کبھی ایسا ممکن نہیں ہم ایسی کوئی بات نہیں جانتیں تو معاملہ صاف ہوتا دیکھ کر عزیز مصر کی بیوی یعنی زلیخا پکار اٹھی کہ اب تو بات صاف ہوگئی اور جب سردربار پہنچی تو اب اس میں پردہ کیا ۔ نیز وہ دور گیا وہ بات گئی اب بڑھا پے نے کمرتوڑدی ہے بعض روایات کے تقریبا تیس ٢٣ برس جیل میں رہے اور گھر سے نکلنے اور سریرآرائے سلطنت ہونے اور پھر گھر والوں سے ملنے میں چالیس برس لگے تو زلیخا تو جوان اور شادی شدہ تھی جب آپ سات برس کے بچے بازار میں بک رہے تھے اب مزید چالیس برسوں کا اضافہ تو بڑھا پے میں لے گیا اور اس کا شوہر فوت بھی ہوچکا تھا ۔ وہ عہدہ بھی رخصت ہوچکا تھا۔ زلیخاکی دوسری بارشہادت چنانچہ اس نے کہا اب کیا پردہ ! اصل بات یہی تھی کہ میں نے یوسف کو ورغلانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ تو بہت ہی کھرے آدمی تھے ان میں تو ایسی کوئی خرابی ہی نہیں جاسکتی اور یہ زلیخا کی دوسری شہادت ہے پہلی بار اس نے زنا ن مصر کے سامنے اقرار کرتے ہوئے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو معصوم قرار دیا اور اب سردربار ان کا صادقین میں ہونا بیان کردیا اور ساتھ مزید کہا کہ یہ میں اس لئے کہہ رہی ہوں کہ ہزار غلطیوں کے باوجود یوسف کو یہ تو (رح) (رح) خبر رہے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اس سے خیانت نہیں کی اور اس کی ذات پر کوئی بہتان نہیں لگایا اور یہ میں اس وجہ سے بھی کہہ رہی ہوں کہ پہلے اس کے روبرو اپنے خاوند کے سامنے میں نے یوسف پہ الزام لگا کر تجربہ کرلیا اور مجھے یقین ہے کہ اللہ خیانت کرنے والوں کے فریب کا پردہ چاک کردیتا ہے ۔ یہ اقوال زلیخا کے ہیں یا یہ ارشادات یوسف (علیہ السلام) کے اور میں اپنے نفس کی برأت بیان نہ کروں گی کہ نفس انسانی تو ہمیشہ برائی کی طرف لے کرجاتا ہے سوائے اس کے کہ میراپروردگاررحم فرمائے اور ہدایت نصیب ہو کہ وما ابرء نفسی ۔ میرا پروردگار بہت بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے آیت نمبر ٥٢ اور ٥٣ جو ابھی بیان ہورہی ہیں ۔ اکثر مفسرین کرام نے انھیں یوسف (علیہ السلام) کا قول لکھا ہے لیکن جہاں تک اللہ کریم نے مجھے سمجھ بخشی ہے میرے نزدیک یہ قول زلیخا ہے اگرچہ اکثر مفسرین کرام نے اللہ ان سب پر رحم فرمائے اس کے خلاف لکھ کر ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ یہ زلیخا کا قول بھی ہوسکتا ہے ۔ مگر قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری (رح) نے جو تفسیر صرف سورة یوسف کی لکھی ہے اس میں انھوں نے بھی پوری قوت سے یہ لکھا ہے کہ یہ زلیخا کے اقوال ہیں ۔ کسی ایک بزرگ نے یوسف (علیہ السلام) کی طرف منسوب فرما دیا تو اکثرحضرات نقل فرماتے چلے گئے۔ یہاں کوئی روایت ایسی نہیں ملتی کہ جسے بنیاد کر یہ کہا جائے کہ یہ یوسف (علیہ السلام) کے ارشاد ات ہیں نہ ہی مضمون کتاب میں کوئی قرنیہ صارفہ ہے جو کلام کو یوسف (علیہ السلام) کی طرف پھیردے ۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ بادشاہ نے طلب کیا مگر آپ تشریف نہ لائے اور تحقیقات کرنے کو فرمایا اس نے زلیخا سمیت ان عورتوں کو بلایا ۔ یوسف (علیہ السلام) جیل میں ہیں بات دربار میں ہورہی ہے جب بات ختم ہوچکی تو ارشاد ہوتا ہے قال الملک ائتونی بہ کہ یوسف (علیہ السلام) کو میرے پاس لایا جائے تو یہ درمیان میں ان کا کلام کیسے ہوسکتا ہے۔ لطائف کا تذکرہ تیسری دلیل یہ ہے کہ صاحب تفسیر مظہری (رح) نے نفس کی تعریف میں لکھا ہے کہ نفس حیوانی عناصراربعہ سے مل کر بنا ہے لیکن یہ قلب روح وغیرہ لطائف عالم امر سے مرکب ہے اور ان لطائف کامرکز عرش سے اوپر ہے یعنی عالم امر میں ہے ۔ اب نفس کی تین حالتیں ہیں جو کتاب اللہ میں مذکور ہیں نفس امارہ نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ ۔ تفسیر مظہری نے نفس امارہ کے بارے لکھا ہے کہ یہ امارہ اس وجہ سے بنتا ہے کہ اس پر نفس حیوانی کا غلبہ ہو تو غضب اور کبروغیرہ آگ سے رذالت ودنائیت مٹی سے تلون اور بےصبری پانی سے لہو ولعب اور حرص وہوا کی تحریک ہوا سے لیتا ہے ۔ مگر نور ایمان لطائف قلب وروح میں جان پیدا کرے تو مومن کا نفس لوامہ بن جاتا ہے یعنی گناہ پر ملامت کرنے والا کہ گناہ کو گناہ ہی نہ جاننا تو کفر ہے ۔ ہاں ! نفس لوامہ کے درجے بیشمار ہیں اور ہر انسان کا اپنا مقام ہے پھر مجاہدے ریاضت اور عبادت سے ترقی کرکے یہی نفس مطمئنہ بن جاتا ہے ۔ اس کے بھی ہر ایک کے اپنے مدارج ہیں اور سب سے اعلیٰ درجہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا ہوتا ہے لہٰذ اللہ کے نبی کی طرف یہ قول منسوب کرنا درست نہیں کہ ان کا ارشاد ہو میرا نفس بھی امارہ ہے معاذ اللہ ہر مومن کا نفس بھی کسی نہ کسی درجہ میں لوامہ ہوتا ہے ۔ ہاں ! نفس کی پاکیزگی کے لئے نور ایمان اور برکات نبوت کا حصول ضروری ہے یہ برکات ہی مشائخ کی صحبت میں نصیب ہوتی ہیں ۔ تو انسان کی اصلاح کا سامان ہوتا ہے۔ جب یہ سب بات ہوچکی تو بادشاہ نے کہا کہ یہ آدمی تو میرا مشیرخاص ہونا چاہیئے جو اس قدر پاکباز ہے کہ یہ خواتین اس کے تقدس کی قسم کھاتی ہیں اتنا حسین کہ انھوں نے ہاتھ کاٹ لئے ۔ اس قدر صاحب علم اور فہم وذکاء کہ سلطنت کے سب نجوم سے واقفیت رکھنے والے یا دوسرے علوم کے ماہرین عاجز آگئے مگر اس نے تعبیر پالی اور اتنا صاحب عقل وخرد کہ اس مشکل کا بہترین حل بھی تجویز فرمادیا ۔ ذرا اسے لاؤ تو اس سے ہم بھی آنکھیں روشن کریں اور جب آپ تشریف لائے بادشاہ کو آپ سے شرف ہمکلامی نصیب ہواتو وہ ان پر فریفیتہ ہوگیا اور کہنے لگا کہ آپ کا مرتبہ میرے ہاں بہت بلند ہوا اور مجھے آپ پر اعتماد کلی نصیب ہوا۔ مفسرین کے مطابق آپ نے بہت سی وہ تفصیلات بھی بیان فرمادیں جو بادشاہ کو یادنہ رہی تھیں یا اس نے بیان نہ کی تھیں یہ سب کچھ وحی الٰہی سے آپ نے بیان فرمایا تو یہاں مفسرین نے یہ حکایت لکھی ہے کہ بادشاہ نے زلیخا سے آپ کا نکاح کردیا اور آپ کو اس سے بیحد محبت ہوگئی بلکہ آپ نے شکایت کی کہ تم میرے ساتھ وہ پہلی محبت ظاہر نہیں کرتی ہو تو کہنے لگی کہ مجھے آپ کی وساطت سے اللہ کی محبت مل گئی جس نے سب کچھ جلادیا ہے ۔ مگر یہ سب قصہ کہانی ہے اول یہ کہ آپ سات برس کی عمر میں گھر سے نکلے زلیخا اس وقت شادی شدہ خاتون تھی ۔ آپ اس کے ہاں جوان ہوئے پھر جیل گئے اور لگ بھگ تئیس برس وہاں گزارے تو کیا لیخا جو اس طرح ٧٠ ستر اور اسی ٨٠ برس کے ہاں کے درمیان عمر کو پہنچتی ہے شادی کے قابل رہ جاتی ہے ۔ رہی یہ بات کہ آپ کی دعا سے پھر سے جوان ہوگئی اس پر کوئی روایت مستند نظر نہیں آتی محض قصہ کہانی ہے جہاں آپ کے حسن آپ کے اخلاق اور آپ کے اطوار حکمرانی اور شان نبوت کی بات حدیث میں ہے اگر زلیخا کو دوبارہ جوانی ملتی تو اتنے بڑے معجزے کا تذکرہ حدیث پاک میں ضرور ہوتا نیز زلیخا کو یوسف وعلیہ السلام سے محبت ہی کب تھی ۔ وہ تو اپنی خواہش کی اسیر تھی جب کام نہ بنتا دیکھا تو ان کی ایذاء کے درپے ہوگئی ۔ یہ اس کی زبان سے اقرار تو رب یوسف نے کرادیا کہ اپنے نبی کی برأت کا اظہار مقصود تھا اور حق یہ کہ اس کردار کی خاتون حرم نبوی کی زینت بن سکتی یہ پہلے بھی لکھا جاچکا ہے ۔ اگر خلق خدا کی بہتری مقصود ہو تو اپنے کمالات کا اظہار اور عہدے کی طلب بھی جائز ہے آپ نے فرمایا کہ آپ مجھے خزانہ کی ذمہ داری دے دیجئے کہ میں امانت کی حفاظت کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہوں اور مجھے بخوبی علم ہے کہ کتنی رقم کہاں سے آنا چا ہیئے اور کتنی رقم کو نسی مد میں اور کب خرچ کی جانی چاہیئے ۔ آپ نے ان دوجملوں بلکہ دوانفاظ میں وزارت خزانہ کی شرائط اور وزیر کی استعداد کا نقشہ کھینچ دیا ہے کہ خائن نہ ہو اور آمد وخرچ کی مدات اور جائز وناجائز سے واقف بھی ہو۔ لیکن ہوا یہ کہ بادشاہ نے سال بھر تو آپ کو محض مہمان ہی رکھا اور دریں اثناء آپ کی صحبت اور ارشادات کی برکت سے اور ان جذبات محبت کے باعث جو نبی اللہ کے لئے اس کے دل میں پیدا ہوگئے تھے آپ پر ایمان لے آیا آپ سے بیعت ہوا اور ایک عظیم الشان جشن کا اہتمام کیا امراء ورؤساء کو جمع ک حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سرپہ تاج رکھا اور تمام سلطنت آپ کے قدموں میں ڈال دی ۔ سو ارشاد ہوتا ہے کہ اس طرح ہم نے سلطنت مصریوسف (علیہ السلام) کو عطا کردی جس کی ایک وزارت وہ طلب فرما رہے تھے ۔ اور اس طلب میں خواہش جاہ نہ تھی بلکہ آنے والے ہولناک قحط کے سالوں میں لوگوں کو اس کی مصیبت سے بچانے کا اہتمام مقصود تھا حدیث شریف میں جو ارشاد ہے کہ خواہشمند کو یا طلب کرنے والے کو عہد ہ نہ دیا جائے تو اس سے مراد عہدہ کی وساطت سے جاہ طلب کرنے سے ہے لیکن خاص شرائط کی بناء پر عہدہ کی طلب جائز ہے ۔ جیسے یہ دیکھے کہ کوئی دوسرالوگوں کو بچانہ سکے گا یا خود ان پر ظلم کرے گا تو آگے بڑھ کر خلق خدا کی بہتری کے لئے عہدہ حاصل کرے یا طلب کرے تو جائز ہے۔ چنانچہ یوسف (علیہ السلام) خود بادشاہ بن گئے اب جو چاہیں کریں اور انھوں نے ملک مصر میں انصاف کی مثال قائم کردی ۔ اللہ فرماتے ہیں ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت سے نواز تے ہیں کہ چاہیں تو باپ کی گود سے چاہ کنعان اور عزیز مصر کے گھر سے زندان میں ڈال دیں مگر اپنے بندوں سے یہ سلوک بھی رحمت کا تقاضاہی ہوتا ہے اور اس میں انہی کی بہتری ہوتی ہے اور جب چاہیں قید زندان سے نکال کر تخت سلطنت پہ رونق افروز کردیں ۔ کہ خلوص دل سے اطاعت کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کیا جاتا اور نیکی بہرحال غالب رہتی ہے اور باطل کو آخرمٹناپڑتا ہے ۔ یہ انعامات تو پھر دنیا کی نعمتیں ہیں پر ہیزگاروں کے لئے جو انعامات آخرت میں ہیں وہ اس سے بڑھ کر ہیں مگر ایمان اور تقوی یعنی عقیدہ اور عمل شرط ہے ۔ اللہ کریم ہمیں صاف ستھرا عقیدہ اور نیک عمل کی توفیق ارزاں فرمائے آمین۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 50 تا 53 (ائتونی : میرے پاس لاؤ) ( الرسول قاصد، بھیجا گیا) ( ارجع لوٹ جا) ( اسئل پوچھ ) (مابال کیا واقعہ) ( ما خطبکن تم کیا کہتی ہو ) (سوء برائی) ( آلئن اب) ( حصحص ظاہر ہوگیا ) (لم اخن میں نے خیانت نہیں کی) ( لایھدی وہ ہدایت نہیں دیتا) ( الخائنین خیانت کرنے والے) ( ما ابرئی میں بری نہیں کرتا) ( امارۃ حکم دینے والا ) (رحم ربی میرے رب نے رحم کردیا) تشریح آیت نمبر 50 تا 53 گزشتہ آیات میں تفصیل سے ارشاد فرمایا گیا تھا کہ جب بادشاہ کا ساقی حضرت یوسف کے پاس بادشاہ مصر کے خواب کی تعبیر پوچھنے گیا تو حضرت یوسف نے نہ صرف خواب کی وہ تعبیر بتائی جس سے بادشاہ کی دلی بےچینی دور ہوگئی بلکہ شدید قحط پڑنے کی صورت میں کیا کیا جائے اس کی تدبیر بھی ارشاد فرما دی۔ بادشاہ مصر حضرت یوسف کے علمی مقام اور ذہانت کو نس کر حیران رہ گیا اور ان سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان کو میرے پاس لاؤ تاکہ ان سے مل کر مزید باتیں اور مشورے کرسکوں۔ بادشاہ نے اس کام کے لئے جس قاصد کو بھجیا تھا حضرت یوسف نے اس سے فرمایا کہ میں اس وقت تک قید سے باہر نہیں آؤں گا جب تک میری بےگناہی ثابت نہیں ہوجاتی۔ ان عورتوں سے بلا کر پوچھا جائے جنہوں نے حیرت اور محویت کے عالم میں مجھے دیکھ کر اپنی انگلیاں زخمی کرلی تھیں۔ آپ نے یہ بھی فرما دیا کہ میرا رب تو ان حالات اور سچائی کو اچھی طرح جانتا ہے کہ ان عورتوں نے کیا فریب کیا اور کس طرح انہوں نے مجھے بےگناہ ہونے کے بوجود اس قید خانے تک پہنچا دیا تھا۔ اس موقع پر حضرت یوسف زلیخا کا نام لے کر کہہ سکتے تھے کہ یہ ساری شرارت عزیز مصر کی بیوی زلیخا کی ہے جس نے کمرے کے دروازے بند کر کے ان کو گناہ پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور پھر بدنامگی سے بچنے کے لئے حضرت یوسف جیسے پکا باز انسان پر تہمت لگانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں بیگمات مصر نے طعنے دینے شروع کئے اور زلیخا نے سب بیگمات کو دعوت دے کر بلایا جس میں وہ حضرت یوسف کو دیکھ کر ان کے حسن جمال سے اتنی متاثر ہوئیں کہ پھل کاٹتے کاٹتے انگلیاں زخمی کر بیٹھیں اور محویت کے عالم میں ان کو پتہ ہی نہیں چلا کہ ان کی انگلیوں سے خون بہہ رہا ہے۔ حضرت یوسف نے ان بیگمات کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا تاکہ عزیز مصر اور اس کی بیوی کا براہ راست نام نہ لیا جائے کیونکہ عزیز مصر نے حضرت یوسف کے ساتھ بہت شریفانہ برتاؤ کیا تھا۔ اس احسان کو مان کر عزیز مصر کی رسوائی کا خیال کر کے مصر کی بیگمات کا ذکر فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص پر کسی کا احسان ہو اس کو اس شخص کی عزت و آبرو کا خیال رکھنا چاہئے۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف نے قید سے اس وقت تک رہا ہونے سے انکار کردیا جب تک ان کی پوزیشن صاف نہ ہوجائے۔ بادشاہ مصر نے زلیخا کو اور ان تمام بیگمات کو طلب کرلیا۔ سب بیگمات اور زلیخا کے آنے کے بعد بادشاہ نے صرف اتنا سوال کیا کہ جب تم نے یوسف کو اپنے نفس کی طرف مائل کرنا چاہا تو تم نے ان کو کیسا پایا ؟ سچ تو سچ ہوتا ہے سب بیگمات نے ایک زبان ہو کر کہا کہ اللہ کی قسم ہم نے ان میں بدنیتی اور بدچلنی کا شائبہ تک نہیں پایا۔ یعنی وہ بےقصور، نیک ، پرہیز گار اور اعلیٰ ترین کردار کے مالک ہیں۔ تمام عورتوں کی گواہی کے بعد زلیخا اس تصور سے شرم و ندامت سے زمین میں گڑ گئی کہ یوسف کتنے بلند کردار اور اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں کہ انہوں نے زلیخا کا نام تک نہیں لیا۔ وہ چلا اٹھی کہ اب سچائی کھل کر سامنے آگئی ہے تو میں سب کے سامنے اس بات کا اقرار کرتی ہوں کہ یوسف بالکل بےگناہ ہیں۔ میں نے ہی ان کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا مگر انہوں نے میری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ واقعی یوسف سچائی کا پیکر ہیں۔ جب حضرت یوسف کے بےگناہ ہونے کی تمام گواہیاں سامنے آگئیں تو اس موقع پر حضرت یوسف نے کسی فخر و غرور کا مظاہرہ نہیں فرمایا بلکہ نہایت عاجزی سے دو باتیں فرمائیں۔ 1) پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے یہ سب کچھ اس لئے کیا ہے تاکہ عزیز مصر کو اس بات کا پختہ یقین ہوجائے کہ اس کی غیر حاضری میں، میں نے اس کی امانت میں خیانت نہیں کی یعنی اس کی آبرو کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا بلکہ اپنے محسن کی عزت و آبرو کا پورا پورا احترام کیا۔ اس موقع پر یہ اصول بھی ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کبھی راہ ہدایت عطا نہیں فرماتا جو مکر و فریب کے جال بن کر خیانت و بد دیانتی کرتے ہیں۔ 2) دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ ” نفس “ تو ہر انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ اگر پروردگار کا رحم و کرم نہ ہو تو کوئی بھی انسان نفس کی شرارتوں سے بچ نہیں سکتا۔ گویا آپ یہ فرما رہے ہیں کہ اللہ نے جس امتحان سے مجھے گذار کر سرخ رو فرمایا ہے اس میں میرا ذاتی کمال نہیں ہے بکلہ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کا رحم و کرم ہے۔ اگر اس کا رحم و کرم نہ ہوتا تو میرا نفس بھی مجھے لے ڈوبتا ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سبحان اللہ کتنی اعلیٰ ظرفی اور کردار کی بلندی کی بات ہے کہ اتنے بڑے کارنامے پر دنیا داروں کی طرح فخر اور ذاتی بڑائی نہیں کی ہے بلکہ اس کی نسبت اللہ کی طرف کر کے اپنی انتہائی عاجزی و انکساری کا اظہار فرما رہے ہیں۔ یہی شان پیغمبری اور ان کا اسوہ حسنہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسی طرح عاجزی و انکساری کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مطلب یہ تھا کہ ان کو بلا کر میرا حال متعلق اس واقعہ کے جس میں مجھ کو قید کی گئی تفتیش کیا جائے اور عورتوں کے حال سے مراد ان کا واقف یا ناواقف ہونا ہے حال یوسف (علیہ السلام) ہے اور ان عورتوں کی تخصیص شاید اس لیے کی ہو کہ ان کے سامنے زلیخا نے اقرار کیا تھا ولقد روادتہ عن نفسہ۔ فائدہ۔ یوسف کے اس اہتمام برات سے معلوم ہوا کہ رفع تہمت میں سعی کرنا امرمطلوب ہے حدیثوں میں اس کا مطلوب ہوناوارد ہے من جملہ اس کے فوائد کے یہ بھی ہے کہ لوگ غیبت سے بچیں گے اپناقلب بھی تشویش سے محفوظ رہے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ بادشاہ کا خوش ہو کر سرکاری اہلکار کو رہائی کا پیغام دے کر جیل میں یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں بھیجنا۔ سرکاری اہلکار حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے ” کہ اے الصدیق ! بادشاہ سلامت آپ کو طلب فرما رہے ہیں آپ کی رہائی کا حکم ہوچکا ہے۔ لہٰذا آپ میرے ساتھ تشریف لے چلیں۔ “ کوئی عام قیدی ہوتا تو اس کی خوشی سے باچھیں کھل جاتیں اور وہ بادشاہ کے اہلکار کے ساتھ چل دوڑتا مگر یوسف (علیہ السلام) فرماتے ہیں ” آپ اپنے بادشاہ کے پاس واپس جائیں۔ اور اس سے پوچھیں کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ ہے ؟ جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ میرا رب تو یقیناً ان کے مکرو فریب اور سازش کو جاننے والا ہے۔ “ حضرت یوسف (علیہ السلام) یہاں بھی اعلیٰ ظرف ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ عزیز مصر کی بیوی کا کیا معاملہ تھا۔ انہوں نے اس طرح کہنے کے بجائے عورتوں کے بارے میں جمع کا لفظ استعمال کیا۔ کیونکہ آپ ان کے گھر میں ایک عرصہ تک ٹھہرے تھے اس احسان مندی کی وجہ سے انہوں نے جمع کا لفظ استعمال کیا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے، کہ عزیز مصر نے اپنی بیوی کی وجہ سے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے اس وقت معذرت کرلی۔ (آیت ٣٩) لیکن جب عورتوں کے پراپیگنڈے کی وجہ سے معاملہ طول پکڑ گیا تو وہ یوسف (علیہ السلام) کو جیل بھیجنے پر مجبور ہوا۔ جس بنا پر حضرت یوسف (علیہ السلام) اس شخص کو فرماتے ہیں کہ واپس جا کر اپنے بادشاہ سے پوچھیے کہ ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کا کیا معاملہ ہوا ؟ یعنی جہاں تک میرے ” اللہ “ کا معاملہ ہے اسے تو پہلے ہی میری بےگناہی کا حال معلوم ہے مگر تمہارے رب (عزیز مصر) کو بھی میری رہائی سے پہلے اس معاملہ کی پوری تحقیق کر لینی چاہیے جس بنا پر مجھے جیل بھیجا گیا تھا۔ میں کسی شبہ اور بدگمانی کا داغ لیے ہوئے عوام کے سامنے نہیں آنا چاہتا، مجھے رہا کرنا ہے تو پہلے سر عام یہ ثابت کرنا ہوگا کہ میں بےقصور تھا۔ اصل قصوروار تمہاری سلطنت کے کارفرما تھے جنہوں نے اپنی بیگمات کی بداطواری کا خمیازہ، میری پاکدامنی پر ڈالا۔ اس مطالبے کو حضرت یوسف (علیہ السلام) جن الفاظ میں پیش کرتے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عزیز مصر اس پورے واقعہ سے پہلے ہی واقف تھا جو عزیز مصر کی بیوی کی دعوت کے موقع پر پیش آیا تھا بلکہ وہ ایسا مشہور واقعہ تھا کہ جس کی طرف اشارہ کرنا ہی کافی تھا۔ اس لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جوں کی توں حالت میں جیل سے نکلنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ اس فیصلہ سے ان کے کردار کی پختگی، پاک دامنی اور بصیرت کا پتا چلتا ہے۔ اگر وہ اسی طرح ہی جیل سے نکل کھڑے ہوتے تو ان کے دامن پاک پر لگے ہوئے جھوٹے دھبے کے کچھ نشان باقی رہ سکتے تھے۔ (عَنْ اَبُوْھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نَحْنُ اَحَقُّ بالشَّکِّ مِنْ اِبْرَاھِیْمَ اِذْقَالَ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی وَیَرْحَمُ اللّٰہُ لُوْطًالَقَدْکَانَ یَأْوِیْ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ وَلَوْ لَبِثْتُ فِیْ السِّجْنِ طُوْلَ مَا لَبِثَ یُوْسُفُ لَاَجَبْتُ الدَّاعِیَ ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ شک کا حق رکھتے ہیں جب ابراہیم نے التجا کی تھی ‘ اے میرے پروردگار مجھے دکھا کہ آپ کس طرح مردوں کو زندہ کرتے ہیں ؟ حضرت لوط (علیہ السلام) پر اللہ کی رحمتیں ہوں۔ وہ بڑی قوت والے کی پناہ میں تھے۔ اگر میں قید خانے میں ہوتا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) جتنا عرصہ رہے تو میں بلانیوالے کی دعوت فوراً قبول کرلیتا۔ “ مسائل ١۔ بادشاہ نے حالات سے مجبور ہوکرحضرت یوسف کو طلب کیا۔ ٢۔ حضرت یوسف بڑے حوصلے والے تھے اس لیے انہوں نے قاصد کو واپس کردیا۔ ٣۔ اعلیٰ ظرف لوگ کسی کی مجبوری سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ ٤۔ نازک معاملات میں آدمی کو جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ ہر کسی کے مکرو فریب سے بخوبی آگاہ ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب یہاں ہمارے سامنے ایک دوسرا منظر آتا ہے اور ان دونوں مناظر کے درمیان ایک خلا ہے۔ یہ خلا انسانی تخیل خود بھر دیتا ہے۔ اب ہم دوبارہ شاہی دربار میں ہیں۔ یہاں فرستادہ شاہی نے مکمل رپورٹ دے دی ہے۔ خواب کی تعبیر بتا دی گئی ہے۔ اب اس نے بادشاہ کو حضرت یوسف کی ناجائز سزا کے بارے میں بھی بتا دیا ہے۔ لیکن سیاق کلام میں یہ باتیں مذکور نہیں ہیں۔ ہمارے سامنے بادشاہ کی خواہش آتی ہے۔ وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖ : بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ۔ مزید تفصیلات ترک کردی جاتی ہیں۔ بادشاہ کا حکم ہے۔ ہر کا رہ خود حضرت یوسف کے پاس پہنچتا ہے۔ لیکن حضرت یوسف ہر کارے کو لوٹا دیتے ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ یہ ہر کا رہ وہی ساقی ہے یا کوئی اور ہے۔ شاہی اوامر کا نفاذ شاید کسی اور کے ذمے ہو۔ لیکن حضرت یوسف طویل قید کے بعد بھی قید خانے سے نکلنے میں جلدی نہیں فرماتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مقدمے کا صحیح فیصلہ ہو ، احقاق حق ہو اور غلط کار لوگوں کی سازشیں بےنقاب ہوں اور وہ باعزت طور پر بری ہوکر نکلیں۔ یہ اطمینان قلب اور یہ طمانیت صرف ربانی تربیت کے نتیجے میں آسکتی ہے۔ اب وہ اس قدر پختہ کار ہوگئے ہیں ان کے مزاج میں عجلت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ حضرت یوسف کی سنجیدگہ اور پختہ کاری اور طمانیت دونوں مواقف میں واضح ہوتی ہے ، پہلے انہوں نے ساقی کو صرف یہ کہا کہ اپنے رب کے پاس میرا تذکرہ کردے۔ اور دوسرے میں انہوں نے رہائی کے احکام کے باوجود یہ کہہ دیا کہ پہلے میرے مقدمے کی تحقیقات کرو ، لیکن پہلے موقف اور دوسرے موقف میں فرق ہے کیونکہ چند سالوں کی قید اور تربیت نے ان کو مزید پختہ کار بنا دیا ہے۔ حضرت یوسف نے رہائی کے شاہی احکام کو اس لیے مسترد کیا کہ بادشاہ کو صحیح طرح معلوم تو ہوجائے کہ ان کے معاملے کی حقیقت کیا ہے اور ان عورتوں کے الزامات کی حقیقت کیا ہے ؟ حضرت یوسف نے عورتوں کے واقعات کی طرف اشارہ کرکے گویا یہ کہہ دیا کہ تحقیقات ہونے پر وہ عورتیں اصل صورت حال بتا سکتی ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ یہ تحقیقات یوسف کی عدم موجودگی میں ہو تاکہ یوسف کی شاہی دربار میں موجودگی غیر جانبدارانہ تحقیقات کو متاثر نہ کردے۔ یہ سب اس لیے کہ حضرت یوسف کو اپنی بےگناہی کا یقین تھا اور وہ مطمئن تھے کہ نتیجہ لازما ان کے حق میں ہوگا۔ کیونکہ سچائی چھپ نہیں سکتی ، نہ اسے دیر تک چھپایا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زبان سے لفظ رب استعمال کرایا ہے اور اسے مخاطب کی طرف مضاف کیا ہے (ربک) اس لیے کہ حضرت یوسف کا رب تو اللہ ہے جبکہ اس فرستادے کا رب بادشاہ جس کے نظام حکومت کا وہ کارندہ ہے اس سے رب کا یہ مفہوم سامنے آتا ہے کہ حکمران بھی رب ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بادشاہ کا حضرت یوسف (علیہ السلام) کو طلب کرنا اور آپ کا تحقیق حال کے بغیر جیل سے باہر آنے سے انکار فرمانا جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بادشاہ کے خواب کی تعبیر دے دی اور جو شخص تعبیر پوچھنے کے لیے آیا تھا اس نے واپس جا کر تعبیر بتادی تو لوگوں کی سمجھ میں بات آگئی اور بادشاہ نے سمجھ لیا کہ واقعی یہ تعبیر بتانے والا کوئی صاحب علم ہے جو تعبیر خواب کے فن میں ماہر ہے۔ اس نے صرف تعبیر ہی نہیں دی بلکہ معیشت پر قابو پانے کا طریقہ بھی بتادیا کہ پہلے سات سال کی پیداوار کو محفوظ رکھنا اور دانوں کو بالوں کے اندر ہی رہنے دینا تاکہ اسے کیڑا نہ کھاجائے اس پر بادشاہ کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ملاقات کا شوق ہوا اور اس نے آدمی بھیجا جس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سامنے بادشاہ کی خواہش کا اظہار کردیا اور یوں کہا کہ بادشاہ نے آپ کو یاد کیا ہے اور طلب کیا ہے۔ اس پر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں اس وقت تک جیل سے نہ نکلوں گا جب تک یہ بات صاف نہ ہوجائے کہ مجھے جس واقعہ کی وجہ سے جیل میں ڈالا گیا ہے اس واقعہ میں کس کا قصور تھا۔ قاصد سے کہا کہ تو واپس جا اور بادشاہ سے تحقیق کر کہ جن عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے ان سے دریافت کرے کہ اس موقعہ پر اصل صورت حال کیا تھی ان کا قصور تھا یا میرا قصور تھا (عزیز مصر کی بیوی نے تو خواہش ظاہر کی ہی تھی دوسری عورتیں بھی حضرت یوسف (علیہ السلام) کا حسن و جمال دیکھ کر ان پر ریجھ گئی تھیں) بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنی طرف بلانے لگی اور دعوت دینے لگی تھیں (کما فی روح المعانی ص ٣٣٥ ج ١٢) ۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کی یہ بات سن کر قاصد واپس آیا اور اس نے بادشاہ سے حضرت یوسف کی بات نقل کردی تو اس نے عورتوں سے پوچھا کہ صحیح صورت حال بتاؤ وہ کیا واقعہ ہے جس میں تم یوسف کی طرف مائل ہو رہی تھیں اور انہیں پھسلا رہی تھیں ‘ ان عورتوں نے جواب دیا ہم نے یوسف میں ایسی کوئی بات نہیں دیکھی جس کی وجہ سے ان کی طرف کوئی برائی منسوب کرسکیں ‘ اگر ہم کوئی ایسی بات کہہ دیں جو حقیقت کے خلاف ہے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ ہم اپنی بات کو سچا بتانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر رہے ہیں کہ یہ بات اللہ کے علم میں بھی ہے اللہ کا علم تو صحیح ہے ہم ایسی بات کہہ کر غلط بات اللہ کے علم کی طرف کیسے منسوب کریں گی ؟ لفظ حاش للہ میں اسی مضمون کو بتایا ہے ‘ جب ان عورتوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی براءت ظاہر کردی تو عزیز مصر کی بیوی بول پڑی کہ اس وقت حق ظاہر ہوگیا یوسف بےقصور ہے میں قصور وارہوں میں نے ہی اسے اپنی طرف بلایا اور پھسلایا تھا یوسف نے جو یہ کہا (ھِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَّفْسِیْ ) ( کہ اس عورت نے مجھے پھسلایا) اس میں وہ سچا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جب اس بات کا علم ہوگیا کہ شاہی دربار میں میری برأت اور عفت و عصمت عورتوں کے اپنے اقرار سے ثابت ہوچکی ہے تو فرمایا (ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ بالْغَیْبِ ) کہ میں نے جو جیل سے نکلنے میں دیر لگائی اور صورت حال کی تحقیق کے لیے بادشاہ کو آمادہ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ عزیز مصر کو پتہ چل جائے کہ میں نے اس کے پیچھے اس کے گھر میں کوئی خیانت نہیں کی (وَاَنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ کَیْدَ الْخَآءِنِیْنَ ) اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کے فریب کو نہیں چلنے دیتا (چنانچہ عزیز مصر کی بیوی نے جو خیانت کی تھی تحقیق کرنے پر خود اس کے اپنے اقرار سے اس کا خائن ہونا ثابت ہوگیا) ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے مزید فرمایا کہ میں اپنے نفس کو بھی بری نہیں بتاتا نفس انسانی کا کام ہی یہ ہے کہ وہ بار بار برائی کا حکم دیتا ہے ‘ ہاں جس پر اللہ رحم فرمائے وہ نفس امارہ کے شر سے بچ سکتا ہے بلکہ اس کا نفس ہی برائی کا حکم نہیں دیتا (وھو شان الانبیاء (علیہ السلام) میرا کمال نہیں اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا۔ اس نے مجھے بچا لیا چونکہ اپنی تعریف اور اپنا تزکیہ اچھی بات نہیں ہے اس لئے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنی برأت ظاہر ہونے کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ میں اپنے نفس کو بری نہیں بتاتا ‘ سورة نجم میں ارشاد ہے (فَلَا تُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی) اپنے نفسوں کی پاک بازی بیان نہ کرو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کس نے تقویٰ اختیار کیا ہے۔ فائدہ : جب بادشاہ کا قاصد آیا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جیل سے نکلنے میں نکلنے میں جلدی نہیں بلکہ اس واقعہ کی تحقیق کرنے کی فرمائش کی جو عزیز مصر کے گھر میں پیش آیا تھا اور اس کی بیوی نے اپنی خطا کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سر منڈھنے کی کوشش کی تھی ‘ اس میں دو حکمتیں تھیں اول تو یہ کہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کا کام تبلیغ واصلاح کا تھا جس شخص پر تہمت لگائی گئی ہو جب تک وہ صاف نہ ہوجائے اور تہمت کا جھوٹا ہونا ظاہر نہ ہوجائے اس وقت تک لوگوں میں تبلیغ موثر نہیں ہوسکتی لوگ کہیں گے کہ واہ میاں تم ہمیں تبلیغ کرتے ہو اور تمہارا اپنا یہ حال ہے۔ یوں تو ہر مسلمان کو اپنی ذات کو گناہوں سے اور شکوک و شبہات سے دور رکھنا اور مواضع تہمت سے بچ کر رہنا چاہئے اور اگر کوئی تہمت لگ جائے تو جہاں تک ممکن ہو اپنی صفائی کی کوشش کی جائے کیونکہ مطعون اور متہم ہو کر رہنا کوئی کمال کی چیز نہیں ہے اور نہ کوئی محمود چیز ہے۔ خاص کر جو لوگ دین داری میں مشہور ہیں اور بالخصوص وہ لوگ جو دعوت کا کام کرتے ہیں تعلیم و تبلیغ کے ذریعے لوگوں کو خیر کی طرف بلاتے ہیں انہیں اپنی پوزیشن صاف رکھنی چاہئے اگر کوئی شخص تہمت لگا دے تو اس کی تردید کرے اور ایسی تدبیر کرے کہ لوگوں کے سامنے اس کی ذات مطعون اور متہم نہ بنی رہے۔ بہت سے لوگوں کو اس طرف توجہ نہیں رہتی وہ کہتے ہیں کہ اجی لوگوں کے کہنے سے کیا ہوتا ہے جھوٹا اپنے جھوٹ کی سزا پالے گا ‘ ہمیں تردید کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ ان لوگوں کی غلطی ہے کیونکہ اول تو عوام الناس کی خیر خواہی کے جذبہ کے خلاف ہے لوگوں کو غیبت اور تہمت میں مبتلا رکھنا یہ کوئی اچھی بات نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ مطعون اور متہم ہوتے ہوئے لوگوں کے پاس دینی بات لے کر جائیں گے تو وہ اثر نہ لیں گے اپنا فائدہ بھی اسی میں ہے کہ اپنی حیثیت کو صاف ستھرا رکھیں اور دوسروں کا بھی فائدہ اسی میں ہے تاکہ وہ غیبت سے محفوظ ہوجائیں اور انہیں داعی کی طرف سے جو بات پہنچے اسے قبول کرنے میں پس وپیش نہ کریں۔ حضرات معلمین مصلحین ‘ مرشدین ‘ مبلغین حضرات کو اس طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے اور دوسری حکمت یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اندازہ تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے ضرور بڑا مرتبہ عطا فرمائے گا خواب میں گیارہ ستاروں اور چاند وسورج کا ان کو سجدہ کرنا اور بھائیوں نے جب انہیں کنویں میں ڈال دیا تھا اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر یہ وحی آنا کہ یہ بات تم انہیں بتاؤ گے اس سے ظاہر تھا کہ انہیں دنیا میں بھی کوئی بڑا اعزاز ملے گا لیکن ساتھ ہی ان پر تہمت بھی لگ گئی تھی انہوں نے مناسب جانا کہ میری حیثیت کو جو دھبہ لگایا گیا ہے وہ دھبہ دور ہوجائے بادشاہ جو بلا رہا ہے یہ اعزاز ملنے کا پیش خیمہ معلوم ہوتا ہے لہٰذا جب موقعہ مل رہا ہے تو اپنی حیثیت کو صاف کردینا چاہئے تاکہ عہدہ ملنے کے بعد جن لوگوں سے واسطے پڑے ان کے دلوں میں یہ تکدر نہ آئے کہ اچھا یہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں ایسا ایسا مشہور ہے جب کسی عہدہ والے کے بارے میں اس طرح کی بات پھیلی ہوئی ہو تو صاحب عہد کے دل میں بھی تکدر رہتا ہے اور کار مفوضہ کے ادا کرنے میں بشاشت نہیں ہوتی۔ یہاں ایک حدیث کا مضمون بھی سامنے رکھنا چاہئے ‘ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں جیل میں اتنی مدت رہا ہوتا جتنی مدت یوسف جیل میں رہے پھر میرے پاس قاصد آتا تو میں اس کی بات مان لیتا (یعنی اسی وقت جیل سے نکل کر اس کے ساتھ چلا جاتا۔ ) (رواہ البخاری ج ١۔ ص ٤٧٨) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا کیوں فرمایا ؟ اس کے بارے میں بعض علماء نے فرمایا ہے کہ یہ علی سبیل التواضع ہے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہ فضیلت جزئی ہے حاشیہ بخاری (ج ١ ص ٤٧٩) میں شاہ اسحاق صاحب سے نقل کیا ہے کہ آپ نے تبلیغ کے شوق شدید میں ایسا فرمایا یعنی آپ کا مطلب یہ تھا کہ جیل سے جلدی نکل کر توحید کی دعوت میں اور احکام الٰہی کے پہنچانے میں لگ جاتا اور آگے پیچھے کچھ نہ دیکھتا۔ تمت بالخیر

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

43:۔ یہ پندرہ احوال میں سے نواں حال ہے ساقی نے جب شاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بتائی ہوئی تعبیر بیان کی اور ساتھ ہی غلے کو ذخیرہ کرنے کا جو طریقہ انہوں نے بتایا تھا اس سے ذکر کیا تو شاہ مصر نے محسوس کیا کہ اس کے قید خانے میں ایک ایسا صاحب علم و بصیرت شخص موجود ہے جو اس کے دربار کی رونق ہونا چاہئے اور اس کے علم و تدبر اور فہم و فراست سے ملکی معاملات میں استفادہ کرنا چاہئے اس لیے انہیں فوراً اپنے پاس حاضر کرنے کا حکم دیا ” وَاْتُوْنِی بِہٖ “ لما راٰی من علمہ و فضلہ واخبارہ عما لا یعلمہ الا اللطیف الخبیر (روح ج 12 ص 257 ۔ 44:۔ شاہ کا فرستادہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچا تو انہوں نے سمجھا کہ جب تک شاہ کے سامنے اور تمام پبلک کے سامنے ان کی براءت ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک وہ جیل سے باہر قدم نہ رکھیں۔ کیونکہ اس کے بغیر پبلک کے دلوں میں اور شاہ کے دل میں یہ وسوسہ باقی رہے گا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے اپنے آقا کی خیانت کی تھی اگرچہ زبان سے وہ اس کا اظہار نہ کریں۔ خشی ان یخرج و ینال من الملک مرتبۃ و یسکت عن امر ذنبہ صفحا فیراہ الناس بتلک العین ابدًا و یقولون ھذا الذی راود امراۃ مولاہ فاراد یوسف (علیہ الصلوۃ والسلام) ان یبین براء تہ ویحقق منزلتہ من العفۃ والخیر و حینئذ یخرج للاخطاء والمنزلۃ (قرطبی ج 9 ص 207) ۔ 45:۔ یعنی ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے مجھے گناہ میں پھنسانے کے لیے مکر کیے تھے وہ اب کیا کہتی ہیں۔ ” قَالَ مَاخَطْبُکُنَّ “ چناچہ شاہ نے ان عورتوں کو اور عزیز مصر کی بیوی کو بلا کر ان سے پوچھا کہ بتاؤ جب تم نے یوسف کو ورغلانے کی کوشش کی تھی تو کیا تم نے اپنی جانب اس کا کچھ میلان پایا تھا ھل وجدتن فیہ میلا الیکن (روح) ۔ ” قُلْنَ خَاشَ لِلّٰہِ الخ “ تو سب بول اٹھیں حاشا و کلا ہم نے یوسف میں کوئی برائی نہیں پائی اور اس نے ہماری طرف ادنی رغبت اور میلان بھی نہیں کیا۔ ” قَالَتِ امْرَاَۃُ الْعَزِیْزِ الخ “ اب زلیخا بھی بولی کہ اب تو حق بات واضح ہوچکی ہے اس لیے اب چھپانے سے کچھ نہیں بن سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ قصور میرا ہی تھا۔ میں ہی نے یوسف کو ورغلایا تھا وہ اپنی بات کا سچا اور کیریکٹر کا پختہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

50 ۔ غرض ! ساقی نے جیل خانہ سے واپس آ کر خواب کی تعبیر اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کا مشورہ دربار میں بیان کیا ۔ بادشاہ اس سے متاثر ہوا اور اس نے حکم دیا یوسف (علیہ السلام) کو میرے پاس لائو پھر جب شاہی قاصد یوسف (علیہ السلام) کی طلبی کا پیام لیکر پہنچا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا تو اپنے بادشاہ اور آقا کی طرف لوٹ جا اور اس سے دریافت کر کہ ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے عزیر مصر کی بیوی کے یہاں دعوت میں اپنے ہاتھ چھریوں سے کاٹے تھے ۔ بیشک میرا پروردگار ان عورتوں کی مکاریوں سے خوب واقف ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا مدعا یہ تھا کہ جس الزام کی بنا پر مجھ کو قید کیا گیا تھا اس معاملہ کی تحقیق کرلی جائے اور جن عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے ان سے دریافت کیا جائے کہ معاملہ کیا تھا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں وہی قصہ یاد دلایا کہ دے عورتیں شاہد ہیں بادشاہ پوچھے تو قصہ کھول دیں کہ تقصیر کس کی ہے۔ 12 ۔ بعض اہل تحقیق نے کہا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کید کو ان عورتوں کی طرف منسوب کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی زلیخاکے ساتھ ملی بھگ تھی اور وہ بھی مکر میں زلیخا کی حامی اور مد دگار تھیں ۔ واللہ اعلم