Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 55

سورة يوسف

قَالَ اجۡعَلۡنِیۡ عَلٰی خَزَآئِنِ الۡاَرۡضِ ۚ اِنِّیۡ حَفِیۡظٌ عَلِیۡمٌ ﴿۵۵﴾

[Joseph] said, "Appoint me over the storehouses of the land. Indeed, I will be a knowing guardian."

۔ ( یوسف ) نے کہا آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجئے میں حفاظت کرنے والا اور باخبر ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَايِنِ الاَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ (Yusuf) said: "Set me over the storehouses of the land; I will indeed guard them with full knowledge." Yusuf praised himself, for this is allowed when one's abilities are unknown and there is a need to do so. He said that he is, حَفِيظٌ (Hafiz), an honest guard, عَلِيمٌ (`Alim), having knowledge and wisdom about the job he is to be entrusted with. Prophet Yusuf asked the king to appoint him as minister of finance for the land, responsible for the harvest storehouses, in which they would collect produce for the years of drought which he told them will come. He wanted to be the guard, so that he could dispense the harvest in the wisest, best and most beneficial way. The king accepted Yusuf's offer, for he was eager to draw Yusuf close to him and to honor him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 خزائن خزانۃ کی جمع ہے خزانہ ایسی جگہ کو کہتے ہیں جس میں چیزیں محفوظ کی جاتی ہیں زمین کے خزانوں سے مراد وہ گودام ہیں جہاں غلہ جمع کیا جاتا ہے۔ اس کا انتظام ہاتھ میں لینے کی خواہش اس لئے ظاہر کی کہ مستقبل قریب میں (خواب کی تعبیر کی رو سے) جو قحط سالی کے ایام آنے والے ہیں، اس سے نمٹنے کے لئے مناسب انتطامات کئے جاسکیں اور غلے کی معقول مقدار بچا کر رکھی جاسکے، عام حالات میں اگرچہ عہدہ و منصب کی طلب جائز نہیں ہے، لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) کے اس اقدام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاص حالات میں اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ قوم اور ملک کو جو خطرات درپیش ہیں اور ان سے نمٹنے کی اچھی صلاحیت میرے اندر موجود ہیں جو دوسروں میں نہیں ہیں، تو وہ اپنی اہلیت کے مطابق اس مخصوص عہدے اور منصب کی طلب کرسکتا ہے علاوہ ازیں حضرت یوسف (علیہ السلام) نے تو سرے سے عہدا و منصب طلب ہی نہیں کیا، البتہ جب بادشاہ مصر نے انھیں پیشکش کی تو پھر ایسے عہدے کی خواہش کی جس میں انہوں نے ملک اور قوم کی خدمت کا پہلو نمایاں دیکھا۔ 55۔ 2 حَفِیْظ میں اس کی اس طرح حفاظت کروں گا کہ اسے کسی بھی غیر ضروری مصرف میں خرچ نہیں کروں گا عَلِیْم اس کو جمع کرنے اور خرچ کرنے اور اس کے رکھنے اور نکالنے کا بخوبی علم رکھتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٤] سیدنا یوسف نے شاہ مصر سے کس چیز کا مطالبہ کیا تھا :۔ اس کے جواب میں سیدنا یوسف نے کہا کہ پھر آپ مجھے ملک کے سیاہ وسفید کا مالک بنا دیجئے اور یہ بات تو آپ لوگ بھی سمجھ چکے ہیں کہ میں اس نظم و نسق کو پوری احتیاط کے ساتھ چلانے کی اہلیت رکھتا ہوں۔ بادشاہ سے آپ کے اس مطالبہ سے متعلق چند امور غور طلب ہیں : بعض مفسرین نے خزائن الارض کے مطالبہ سے یہ سمجھا کہ آپ نے محکمہ مال کے افسر اعلیٰ یا وزیرخزانہ کا عہدہ طلب کیا تھا۔ جو ملکی معیشت سے تعلق رکھتا تھا۔ کیونکہ آپ نے خواب کی جو تعبیر بتلائی تھی وہ اسی شعبہ سے تعلق رکھتی تھی اور آئندہ جو برادران یوسف کے مصر میں آنے کا ذکر ہے۔ وہ بھی اسی شعبہ سے تعلق ہے لیکن اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ آیا ایک نبی کسی کافرانہ حکومت کا کل پرزہ بن کر رہ سکتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ ایک نبی کے لیے کسی بھی صورت یہ شایان شان نہیں کہ وہ اس بات کو گوارا کرلے۔ لہذا یہاں خزائن الارض سے مراد مکمل اقتدار یا ملک کے سیاہ وسفید کا مختار ہونا ہے۔ بالخصوص اس لحاظ سے کہ ان الفاظ میں اس معنی کی بھی گنجائش موجود ہے اور اس لیے بھی کہ اس سے اگلی آیت میں واضح طور پر یہ الفاظ موجود ہیں۔ (وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ۚ يَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاۗءُ ۭ نُصِيْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَاۗءُ وَلَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِـنِيْنَ 56؀) 12 ۔ یوسف :56) لہذا عَلٰی خَزَائِنِ الاَرْضِ سے محض وزارت خزانہ یا شعبہ مالیات مراد لینا درست نہیں۔ طلب امارت کس صورت میں مذموم ہے ؟ دوسری بات یہ ہے کہ طلب امارت شرعاً ممنوع اور مذموم چیز ہے تو پھر سیدنا یوسف نے ایسا مطالبہ کیوں کیا تھا ؟ بالخصوص اس صورت میں جبکہ بادشاہ کافر بھی تھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ طلب امارت صرف اس صورت میں ممنوع اور مذموم ہے جبکہ اس کا جذبہ محرکہ یا مقصود صرف حب جاہ و مال ہو۔ لیکن جہاں ملک بھر کا انتظام درہم برہم ہو رہا ہو یا کسی بڑے مفسدہ کا خطرہ موجود ہو اور مطالبہ کرنے والے کو یہ بھی علم ہو کہ کوئی دوسرا اس کے سوا یہ بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں تو اس وقت معاملہ بالکل برعکس ہوجاتا ہے اور اس وقت مطالبہ نہ کرنا مذموم بن جاتا ہے۔ رہی یہ بات کہ سیدنا یوسف نے ایک کافر بادشاہ سے مطالبہ کیوں کیا تھا تو اس کا جواب پہلے گزر چکا کہ یہ مطالبہ محض طلب امارت کا نہ تھا بلکہ پورے اقتدار کا مطالبہ تھا۔ یعنی ملک کا پورے کا پورا اقتدار ہی سیدنا یوسف کے حوالہ کردیا جائے۔ چناچہ بادشاہ نے اپنے درباریوں سے اس مطالبہ کے متعلق مشورہ کیا۔ جس میں یہی طے ہوا کہ مکمل اقتدار سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے حوالہ کردیا جائے اس لیے کہ سات سالہ قحط پر کنٹرول اور ملکی معیشت کو تباہی سے بچانے کے لیے انھیں کوئی دوسرا آدمی نظر نہیں آرہا تھا۔ اور اس مشورہ پر عمل درآمد کے بعد بادشاہ صرف برائے نام بادشاہ رہ گیا تھا۔ جملہ اختیارات سیدنا یوسف (علیہ السلام) کی طرف منتقل ہوگئے تھے۔ لہذا یہ طلب امارت نہیں بلکہ حق کی فتح تھی۔ چناچہ بعد میں ملک بھر کا پورا انتظام سیدنا یوسف نے اپنی مرضی کے مطابق چلایا تھا اور قرآن نے بھی اس منتقلی اقتدار کے بعد بادشاہ کے لیے ملک کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ (نیز دیکھئے سورة بنی اسرائیل آیت نمبر ٨٢ کا حاشیہ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ ۔۔ : ” الْاَرْضِ “ میں الف لام عہد کا ہے ” اس زمین “ یعنی مجھے سرزمین مصر کے خزائن پر مقرر کردیجیے، کیونکہ میں ان کی پوری طرح حفاظت کرسکتا ہوں اور اس کام کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ ” خزائن “ ” خَزَانَۃٌ“ کی جمع ہے، اس سے مراد یا تو ان گوداموں کا نظام ہے جو خوش حالی کے سالوں کے لیے تعمیر کیے جائیں گے اور غلہ سنبھالیں گے اور قحط کے سالوں میں ان سے غلہ تقسیم کیا جائے گا، کیونکہ اس کے لیے بہت بڑی منصوبہ بندی، محنت و امانت اور حساب کتاب میں مہارت کی ضرورت ہے، یا مراد سلطنت کے تمام ذرائع آمدنی و پیداوار ہیں۔ قرآن میں ” خزائن “ کا لفظ عموماً اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے : ( وَلِلّٰهِ خَزَاۗىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) [ المنافقون : ٧ ] ” حالانکہ آسمانوں کے اور زمین کے خزانے اللہ ہی کے ہیں۔ “ اور دیکھیے سورة انعام (٥٠) ، بنی اسرائیل (١٠٠) ، صٓ (٩) ، طور (٣٧) اور حجر (٢١) اور یہی معنی یہاں صحیح ہے، کیونکہ خوش حالی کے سالوں میں گوداموں کی تعمیر، پھر سات سال تک پورے ملک کے لوگوں سے ضرورت سے زائد گندم خریدنا، حکومت کی آمدنی کے تمام ذرائع پر مکمل اختیار کے بغیر ممکن نہ تھا، تاکہ ملک بھی چلتا رہے اور جنس کی خریداری کے لیے رقم بھی مہیا ہو سکے اور گودام بھی تعمیر ہو سکیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب یوسف (علیہ السلام) نے دیکھا کہ بادشاہ کی نگاہ میں ان کی قدر و منزلت بڑھ گئی ہے اور وہ انھیں ہر طرح کے اختیارات سونپنے کو تیار ہے تو اپنی اہلیت پر اعتماد کرتے ہوئے یہ پیش کش مناسب سمجھی کہ سلطنت کے تمام ذرائع آمدنی و پیداوار میرے حوالے کردیے جائیں، بلکہ آئندہ آیات (١٠٠، ١٠١) سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آخر کار مصر میں یوسف (علیہ السلام) ہی تخت نشین ہوگئے تھے، یا کم از کم عملاً حکومت انھی کی تھی اور یہ پیش کش اس لیے بھی تھی کہ یوسف (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی تھے، اس ملک کے تمام اختیارات پر قبضہ ان کے لیے اس لیے بھی ضروری تھا کہ وہ توحید کی اشاعت اور شرک کا استیصال کرسکیں۔ 3 یہاں ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے خود عہدہ مانگا جب کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عہدہ مانگنے یا اس کی حرص رکھنے والے کے متعلق فرمایا : ( لاَ نَسْتَعْمِلُ عَلٰی عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَہٗ ) [ بخاری، الإجارۃ، باب استئجار الرجل الصالح۔۔ : ٢٢٦١ ]” ہم ایسے شخص کو ہرگز عہدہ نہیں دیں گے جو اس کا ارادہ رکھے۔ “ اس کے کئی جواب ہیں جن میں سے سب سے صحیح اور مضبوط جواب یہ ہے کہ بادشاہ نے یوسف (علیہ السلام) کو عہدے پر تو فائز کر ہی دیا تھا : ( اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ) [ یوسف : ٥٤ ] ” بلاشبہ تو آج ہمارے ہاں صاحب اقتدار، امانت دار ہے۔ “ جس طرح آج کل پہلے وزیر چن لیے جاتے ہیں اور پھر وہ اپنے لیے شعبے کا انتخاب خود کرتے ہیں، اسی طرح جب بادشاہ نے انھیں اپنے ہاں پوری طرح صاحب اقتدار اور امانت دار قرار دے دیا تو یوسف (علیہ السلام) جانتے تھے کہ اس منصب کے تقاضے خزانے پر مکمل اختیار کے بغیر پورے ہو ہی نہیں سکتے، سو ان کے لیے یہ اختیار طلب کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ خلاصہ یہ کہ انھوں نے عہدہ ہرگز نہیں مانگا، بلکہ انھیں جب عہدے سے نوازا گیا تو انھوں نے اس کی عملی صورت پیش فرمائی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر کسی کو اصرار ہو کہ انھوں نے عہدہ مانگا ہے تو ٹھیک ہے جو شخص یوسف (علیہ السلام) جیسے مقام پر فائز ہو وہ بیشک عہدہ مانگ لے، جو ان جیسے اوصاف رکھتا ہو، انسان کی سب سے منہ زور قوت (جنس) سمیت تمام بہیمانہ قوتوں مثلاً غصے، خیانت اور ظلم وغیرہ پر ان کی طرح قابو رکھتا ہو اور نبوت سے بھی سرفراز ہو، کیونکہ ایسی صورت میں نہ اس عہدے کی ذمہ داری کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے نہ خیانت کا۔ دوسرا شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر عمل کرے اور آرام سے رہے، خود اپنے آپ کو اس آزمائش میں نہ ڈالے جس کا انجام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں واضح طور پر بتادیا۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا مِنْ أَمِیْرِ عَشَرَۃٍ إِلاَّ یُؤْتٰی بِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَغْلُوْلاً لَا یَفُکُّہٗ إِلاَّ الْعَدْلُ أَوْ یُوْبِقُہُ الْجَوْرُ ) [ مسند أحمد : ٢؍٤٣١، ح : ٩٥٨٦۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٦؍٢٣٧، ح : ٢٦٢١ ]” کوئی بھی دس آدمیوں کا امیر ہو اسے طوق پہنا کر لایا جائے گا، عدل کے سوا کوئی چیز اسے نہیں چھڑائے گی، یا ظلم اسے ہلاک کر دے گا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Thereupon, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) said: اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْ‌ضِ ۖ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ that is, ` appoint me to the treasures of the land (which includes the produce of the land) for I am indeed a knowledgeable keeper (fully capable of conserving and guarding it, and aware of where to spend and how much to spend). (Qurtubi & Mazhari) In the two words appearing here (hafiz and alim), Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) has combined together all functional virtues a genuine Finance Minister should have. To make it simple, it can be said that the chief trustee and manager of a national treasury needs to do two things: (1) He should not allow government property to be wasted, in fact, should collect, conserve and protect it fully. Then, he should see to it that it is not spent on non-deserving people, or on false heads of expenditure. (2) Then, he should not fall short in spending what has to be spent and where it has to be spent and, at the same time, he should not spend more than the quantum of the need. Thus, the word: حَفِیظ (hafiz : keeper) is the full guarantee of the first need, and the word: عَلِیم (` alim : knowl¬edgeable), that of the second. Though the king of Egypt was personally attached to Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) because of his many excellences, honesty and wisdom, but he did not actually hand over the office of the Finance Ministry to him. Howev¬er, he did make him stay with him as his honoured guest for a year. After the passage of one year, not only that he appointed him to be the Finance Minister, but also entrusted to him the management of the rest of his state affairs. Perhaps, he thought that giving such major office to him without first getting acquainted with his manners, morals and habits by keeping him close to him at his house was not appropri¬ate. Some commentators have written, when Qitfir (Potiphar), the hus¬band of Zulaikha died during this period, the king of Egypt arranged her marriage with Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . Then, he said to her: Is it not better than what you had wished? Zulaikha confessed to her being at fault, giv¬ing her excuse for having done what she did. Allah jalla thana&uh granted them a life full of honour and comfort. According to historical narrations, they were also blessed with two sons, named Ifra&im and Mansha. According to some narrations, after the marriage, Allah Ta’ ala had put in the heart of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) more love for Zulaikha than she ever had for him. So much so that there came a time when Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) complained to her: Why is it that you do not love me as much as you did before? Zulaikha told him: Through you I am now blessed with the love of Allah Ta’ ala. With this in view, other relationships and thoughts seem to have dimmed out. This episode has been described, along with some other details, in Tafsir al-Qurtubi and Mazhari. Many teachings and guidelines which appear as part of the story of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، and are good for all human beings, have been talked about earlier. Some others are being mentioned as follows: Rulings and Guidelines 1. In the saying of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) (And I do not ab¬solve my inner self of blame - 53), there is good guidance for the servants of Allah who fear Him and are righteous, pious and abstaining. They should realize that they should not, when they have the Taufiq of re-maining safe from some sin, wax proud about it, never taking those in¬volved with sins as low and inferior. Instead of that, they should ponder over the saying of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، let it go into their heart and be-come its fixed response - that is, ` this is no personal achievement of ours; it is only Allah Ta` ala whose grace stopped our inner self, which incites to evil, overcome us - otherwise, this self of man would often pull him to-wards deeds which are evil.& Seeking a Government Office is Not Permissible - Except under particular Conditions 2. From: اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْ‌ضِ (Appoint me to (supervise) the treasures of the land - 54), we learn that the seeking of an office or position with the government is permissible under particular conditions - as was done by Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) when he sought to be appointed to supervise and manage the treasures of the land. But, in the light of details regarding this matter, when it is known about a particular office that no one else would be able to manage it well - and one&s honest self-assessment indicates that he will be able to dis¬charge the responsibilities of that office well enough, and that there is, in it, no danger of getting involved in some sin - then, this would be a sit-uation in which taking the initial step of seeking the office is also permis¬sible, subject to the condition that the reason for doing this should not be the love of recognition, power and wealth. Instead, the main purpose be-hind this should be to serve Allah&s creation genuinely and to carry to them their rights with justice and equity - as it was with Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) whose sole purpose was no other but this. But, wherever such a situation does not prevail, the Holy Prophet has prohibited the seek¬ing of any government office on one&s own. And he did not give an office to anyone who himself made a request for it. It appears in a Hadith of Sahih Muslim that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said to Sayyidna ` Abd-ur-Rahman ibn Samurah (رض) : Never seek an office (of authority or responsibility) because even if you get it by asking for it, the support of Allah Ta’ ala, through which you could stay safe from slips and errors, will not be there. And if you get an office without the asking and seeking, help and support of Allah Ta` ala will be there, because of which, you will be able to fulfill the rights of that office as due. Similarly, according to another Hadith of Sahih Muslim, someone requested the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that he be appointed to a certain office. To him, he said: اِنَّا لَن نَّستعمِلَ علی مَن اَرادَہ ` We would not give our office to a person who asks for it.& The Seeking of Office by Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) was based on a Wise and Benign Consideration But, the case of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) is different. He knew that the king of Egypt is a disbeliever. So is his staff. The country was going to be hit by a famine. At that time, selfish people would have no mercy for the creation of Allah and millions would die of hunger. There was no one around who could be relied upon to do justice with the rights of common people. Therefore, he himself made a request for that office of responsibil¬ity - though, he had to support his request by pointing out to some areas of his expertise, as a matter of necessity, of course, so that the king be-comes satisfied and entrusts the office with him. Even today, if someone feels that there is an office of government for which there is no one available, specially someone who would discharge the responsibilities of that office as due - and his honest self-assessment assures that he would be able to discharge the responsibilities of that of¬fice as due - then, it is permissible for him, in fact, it is obligatory (wajib) on him to seek that office. But, this will not be to satisfy his own desire for recognition, power or wealth. Instead, it has to be for the purpose of serving people, a mission which relates to the intention and plan in the heart, something which is all too open before Allah Ta ala. (Qurtubi) That the rightly-guided Khulafa&, may Allah be pleased with them all, assumed the responsibilities of the office of Khilafah was because they knew that no one else would be able to discharge that responsibility at that time as due. The differences attributed to Sayyidna ` Ali, Sayyidna Mu` awiyah, Sayyidna Husain, Sayyidna ` Abdullah ibn Zubayr (رض) and others 9 were all based on that conviction. Everyone of them thought that he would be the one to discharge the responsibilities of Khilafah at that time with more wisdom and strength and better than others. None of them was motivated to seek recognition, power or wealth as his principal aim. Is It Permissible to Accept an Office of a Kafir Government? 3. Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) accepted to serve under the king of Egypt, though he was a disbeliever. This tells us that accepting an office of government headed by a disbelieving or sinning ruler is permissible under particular conditions. But, Imam al-Jassas, while commenting on the verse: فَلَنْ أَكُونَ ظَهِيرً‌ا لِّلْمُجْرِ‌مِينَ (never shall I be a help to those who sin - 28:17), has written: In the light of this verse, it is not permissible to help the unjust and the dis¬believing. And it is obvious that, accepting an office in their government amounts to becoming a part of their function and providing help to them. Such help has been declared as Haram (forbidden) in many verses of the Holy Qur&an. As for the position of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) in this matter, not only that he accepted the office, in fact, asked for it. According to the re¬spected Tafsir authority, Mujahid, the reason for this was that the king of Egypt had become a believer, a Muslim, at that time. Since there is no proof in the Qur&an and Sunnah which could support this proposition, the majority of commentators have given another reason for his action. According to them, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) had already found out about the king of Egypt that he would not interfere in the performance of his du-ties. He will not compel him to enforce laws contrary to his faith. He will give him full rights to act in accordance with his discretion and in line with the law of truth. With such rights and powers in hand when one is not compelled to obey a law counter to his Shari` ah, it is possible that one may serve under someone unjust and disbelieving - though, the re¬pugnance of having to help and cooperate with that unjust and disbeliev¬ing person remains where it initially was. But, there are circumstances in which it is not possible to remove such a person from the office of power held by him. Then, on the other hand, if there be a strong appre¬hension that by not accepting the office under that person, rights of many servants of Allah will be wasted, or that they may be oppressed, then, this would be a situation of compulsion, and there is this much room for cooperation in the matter. This stands proved from the conduct of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) which is covered by the provision that one would not have to commit something which goes against the Shari` ah one be¬lieves in - because, this will not be helping him in his sin, though, it may do so as a remote cause. But, as for the remote causes of help, there is room in the Shari` ah under given conditions. Details have been described by Muslim jurists. Many righteous elders among the Sahabah and Tabi` in have faced such conditions and it stands proved that they, under such conditions, have accepted to work on offices given by oppressive rul¬ers. (Qurtubi & Mazhari) ` Allama Al-Mawardi, in his book about the political implications of re¬ligious law has said: Some commentators, on the basis of what Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) did in this matter, have ruled the accepting of office with rul¬ers who do not believe and are unjust as permissible, subject to the condi¬tion that one does not have to do anything against the Shari` ah. Other commentators have ruled that it is not permissible even with this condi¬tion attached, because this too supports and promotes people who are un¬just and oppressive. They give many interpretations of what Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) did. The substance is that this conduct of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) was particular to his person, or to his Shari` ah. Now, it is not per¬missible for others. However, the majority of Muslim scholars and jurists have gone by the first proposition and ruled it as permissible. (Qurtubi) According to Tafsir Al-Bahr Al-Muhit, when it is known that, should the learned and the righteous refuse to accept such office, rights of peo¬ple will be wasted and justice will not be done, then, accepting such of¬fice is permissible, in fact, it is an act of thawab - subject to the condition that, while working on it, one is not compelled to do things which are against the Shari` ah. A Functional Statement of Some Personal Ability is Not Included under Self-Sanctification prohibited by the Holy Qur’ an 4. The saying of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ (I am a knowledge-able keeper) proves that mentioning some personal qualities, expertise or ability when there is a need to do that is not included under self-sanc¬tification which has been prohibited in the Holy Qur’ an - of course, sub¬ject to the condition that such mentioning is not prompted by pride, arro¬gance or boastfulness.

اس پر یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) اِجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ یعنی ملک کے خزانے (جن میں زمین کی پیداوار بھی شامل ہے آپ میرے سپرد کردیں میں ان کی حفاظت بھی پوری کرسکتا ہوں اور خرچ کرنے کے مواقع اور مقدار خرچ کے اندازہ سے بھی پورا واقف ہوں (قرطبی ومظہری) ان دو لفظوں میں حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان تمام اوصاف کو جمع کردیا جو ایک وزیر میں ہونے چاہئیں کیونکہ پہلی ضرورت تو امین خزانہ کے لئے اس کی ہے کہ وہ سرکاری اموال کو ضائع نہ ہونے دے بلکہ پوری حفاظت سے جمع کرے پھر غیر لوگوں اور غلط قسم کے مصارف میں خرچ نہ ہونے دے اور دوسری ضرورت اس کی ہے کہ جہاں جس قدر خرچ کرنا ضروری ہے اس میں نہ کوتاہی کرے اور نہ مقدار ضرورت سے زائد خرچ کرے، لفظ حفیظ پہلی ضرورت کی پوری ضمانت ہی اور لفظ علیم دوسری ضرورت کی شاہ مصر اگرچہ یوسف (علیہ السلام) کے کمالات کا گرویدہ اور ان کی دیانت اور عقل کامل کا پورا معتقد ہوچکا تھا، مگر بالفعل وزارت خزانہ کا منصب ان کو سپرد نہیں کیا بلکہ ایک سال تک ایک معزز مہمان کی طرح رکھا سال بھر پورا ہونے کے بعد نہ صرف وزارت خزانہ بلکہ پورے امور مملکت ان کے سپرد کر دئیے شاید مقصد یہ تھا کہ جب تک گھر میں رکھ کر ان کے اخلاق و عادات کا پورا تجربہ نہ ہوجائے اتنا بڑا منصب سپرد کرنا مناسب نہیں جیسا کہ سعدی شیرازی (رح) نے فرمایا ہے، چو یوسف کسے درصلاح وتمیز بیک سال باید کہ گرددعزیز بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اسی زمانہ میں زلیخا کے شوہر قطفیر کا انتقال ہوگیا تو شاہ مصر نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے ان کی شادی کردی اس وقت یوسف (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ کیا یہ صورت اس سے بہتر نہیں ہے جو تم چاہتی تھیں زلیخا نے اعتراف قصورت کے ساتھ اپنا عذر بیان کیا اللہ تعالیٰ جل شانہ نے بڑی عزت وشان کے ساتھ ان کی مراد پوری فرمائی اور عیش ونشاط کے ساتھ زندگی گذری تاریخی روایات کے مطابق دو لڑکے بھی پیدا ہوئے جن کا نام افرائیم اور منشا تھا بعض روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شادی کے بعد یوسف (علیہ السلام) کے دل میں زلیخا کی محبت اس سے زیادہ پیدا کردی جتنی زلیخا کو یوسف (علیہ السلام) سے تھی یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان سے شکایت کی کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ تم مجھ سے اب اتنی محبت نہیں رکھتیں جتنی پہلے تھی زلیخا نے عرض کیا کہ آپ کے وسیلہ سے مجھے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوگئی اس کے سامنے سب تعلقات اور خیالات مضمحل ہوگئے یہ واقعہ بعض دوسری تفصیلات کے ساتھ تفسیر قرطبی اور مظہری میں بیان ہوا ہے، قصہ یوسف (علیہ السلام) کے ضمن میں جو عام انسانوں کی صلاح و فلاح کے لئے بہت سی ہدایات اور تعلیمات آئی ہیں ان کا ذکر کچھ پہلے ہوچکا ہے مذکور الصدر آیات میں مزید مسائل اور ہدایات حسب ذیل ہیں پہلامسئلہ : حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قول وَمَآ اُبَرِّئُ نَفْسِيْ میں نیک اور متقی پرہیزگار بندوں کے لئے یہ ہدایت ہے کہ جب ان کو کسی گناہ سے بچنے کی توفیق ہوجائے تو اس پر ناز نہ کریں اور اس کے بالمقابل گناہگاروں کو حقیر نہ سمجھیں بلکہ ارشاد یوسفی کے مطابق اس بات کو اپنے دل میں جمائیں کہ یہ ہمارا کوئی ذاتی کمال نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے نفس امارہ کو ہم پر غالب نہیں آنے دیا ورنہ ہر انسان کا نفس اس کو طبعی طور پر برے ہی کاموں کی طرف کھینچتا ہے حکومت کا کوئی عہدہ خود طلب کرنا جائز نہیں مگر چند شرائط کے ساتھ اجازت ہے : دوسرامسئلہ : اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ سے یہ معلوم ہوا کہ کسی سرکاری عہدہ اور منصب کو طلب کرنا خاص صورتوں میں جائز ہے جیسے یوسف (علیہ السلام) نے خزائن ارض کا انتظام اور ذمہ داری طلب فرمائی ، مگر اس میں یہ تفصیل ہے کہ جب کسی خاص عہدہ کے متعلق یہ معلوم ہو کہ کوئی دوسرا آدمی اس کا اچھا انتظام نہیں کرسکے گا اور اپنے بارے میں یہ اندازہ ہو کہ عہدہ کے کام کا خود طلب کرلینا بھی جائز ہے بشرطیکہ حُبّ جاہ ومال اس کا سبب نہ ہو بلکہ خلق اللہ تعالیٰ کی صحیح خدمت اور انصاف کے ساتھ ان کے حقوق پہنچانا مقصود ہو جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سامنے صرف یہی مقصد تھا اور جہاں یہ صورت نہ ہو تو حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکومت کا کوئی عہدہ خود طلب کرنے سے منع فرمایا ہے اور جس نے خود کسی عہدہ کی درخواست کی اس کو عہدہ نہیں دیا صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبدالرحمن بن سمرہ (رض) سے فرمایا کہ کبھی کوئی امارت طلب نہ کرو کیونکہ تم نے خود سوال کر کے عہدۃ امارت حاصل بھی کرلی تو اللہ تعالیٰ کی تائید نہیں ہوگی جس کے ذریعہ تم لغزشوں اور خطاؤں سے بچ سکو اور اگر بغیر درخواست اور طلب کے تمہیں کوئی عہدہ مل گیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید واعانت ہوگی جس کی وجہ سے تم اس عہدے کے پورے حقوق ادا کرسکو گے اسی طرح صحیح مسلم کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی عہدہ کی درخواست کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انَّا لن نَّستَعملَ عَلیٰ عَملنا مَن اَرَادَہٗ یعنی ہم اپنا عہدہ کسی ایسے شخص کو نہیں دیا کرتے جو خود اس کا طالب ہو، حضرت یوسف (علیہ السلام) کا طلب عہدہ خاص حکمت پر مبنی تھا : مگر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا معاملہ اس سے مختلف ہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بادشاہ مصر کافر ہے اس کا عملہ بھی ایسا ہی ہے اور ملک پر ایک طوفانی قحط آنے والا ہے اس وقت خود غرض لوگ عام خلق اللہ پر رحم نہ کھائیں گے اور لاکھوں انسان بھوک سے مر جائیں گے کوئی دوسرا آدمی ایسا موجود نہ تھا جو غریبوں کے حقوق میں انصاف کرسکے اس لئے خود اس عہدہ کی درخواست کی اگرچہ اس کے ساتھ کچھ اپنے کمالات کا اظہار بھی بضرورت کرنا پڑا تاکہ بادشاہ مطمئن ہو کر عہدہ ان کو سپرد کر دے، اگر آج بھی کوئی شخص یہ محسوس کرے کہ کوئی عہدہ حکومت کا ایسا ہے جس کے فرائض کو کوئی دوسرا آدمی صحیح طور پر انجام دینے والا موجود نہیں اور خود اس کو یہ اندازا ہے کہ میں صحیح انجام دے سکتا ہوں تو اس کے لئے جائز ہے بلکہ واجب ہے کہ اس عہدہ کی خود درخواست کرے مگر اپنے جاہ ومال کے لئے نہیں بلکہ خدمت خلق کے لئے جس کا تعلق قلبی نیت اور ارادہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ پر خوب روشن ہے (قرطبی) حضرات خلفائے راشدین کا خلافت کی ذمہ داری اٹھا لینا اسی وجہ سے تھا کہ وہ جانتے تھے کہ کوئی دوسرا اس وقت اس ذمہ داری کو صحیح انجام نہ دے سکے گا صحابہ کرام (رض) حضرت علی (رض) اور معاویہ (رض) و حضرت حسین (رض) اور عبداللہ بن زبیر (رض) وغیرہم کے جو اختلافات پیش آئے وہ سب اسی پر مبنی تھے کہ ان میں سے ہر ایک یہ خیال کرتا تھا کہ اس وقت فرائض خلافت کو میں اپنے مقابل سے زیادہ حکمت و قوت کے ساتھ پورا کرسکوں گا جاہ و مال کی طلب کسی کا مقصد اصلی نہ تھا کیا کسی کافر حکومت کا عہدہ قبول کرنا جائز ہے : تیسرا مسئلہ : یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بادشاہ مصر کی ملازمت قبول فرمائی حالانکہ وہ کافر تھا جس سے معلوم ہوا کہ کافر یا فاسق حکمران کا عہدہ قبول کرنا خاص حالات میں جائز ہے، لیکن امام جصاص (رح) نے آیت کریمہ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِيْرًا لِّلْمُجْرِمِيْنَ کے تحت لکھا ہے کہ اس آیت کی رو سے ظالموں کافروں کی اعانت کرنا ہے اور ایسی اعانت کو قرآن کریم کی بہت سے آیتوں میں حرام قرار دیا گیا ہے، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جو اس ملازمت کو نہ صرف قبول فرمایا بلکہ درخواست کر کے حاصل کیا اس کی خاص وجہ امام تفسیر مجاہد (رح) نے یہ قرار دی ہے کہ بادشاہ مصر اس وقت مسلمان ہوچکا تھا مگر چونکہ قرآن وسنت میں اس کی کوئی دلیل موجود نہیں اس لئے عام مفسرین نے اس کی وجہ یہ قرار دی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) بادشاہ مصر کے معاملہ سے یہ معلوم کرچکے تھے کہ وہ ان کے کام میں دخل نہ دے گا اور کسی خلاف شرع قانون جاری کرنے پر ان کو مجبور نہ کرے گا بلکہ ان کو مکمل اختیارات دے گا جس کے ذریعہ وہ اپنی صوابدید اور قانون حق پر عمل کرسکیں گے ایسے مکمل اختیار کے ساتھ کہ کسی خلاف شرع قانون پر مجبور نہ ہو کوئی کافر یا ظالم کی ملازمت اختیاکر لے تو اگرچہ اس کافر ظالم کے ساتھ تعاون کرنے کی قباحت پھر بھی موجود ہے مگر جن حالات میں اس کو اقتدار سے ہٹانا قدرت میں نہ ہو اور اس کا عہدہ قبول نہ کرنے کی صورت میں خلق اللہ کے حقوق ضائع ہونے یا ظلم وجور کا اندیشہ قوی ہو تو بمجبوری اتنے تعاون کی گنجائش حضرت یوسف (علیہ السلام) کے عمل سے ثابت ہوجاتی ہے جس میں خود کسی خلاف شرع امر کا ارتکاب نہ کرنا پڑے کیونکہ درحقیقت یہ اس کے گناہ میں اعانت نہیں ہوگی گو سبب بعید کے طور پر اس سے بھی اس کی اعانت کا فائدہ حاصل ہوجائے اعانت کے ایسے اسباب بعیدہ کے بارے میں بحالات مذکورہ شرعی گنجائش ہے جس کی تفصیل حضرات فقہاء نے بیان فرمائی ہے سلف صالحین صحابہ وتابعین میں بہت سے حضرات کا ایسے ہی حالات میں ظالم و جابر حکمرانوں کا عہدہ قبول کرلینا ثابت ہے (قرطبی، مظہری) علامہ مادردی نے سیاست شرعیہ سے متعلق اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ بعض حضرات نے یوسف (علیہ السلام) کے اس عمل کی بناء پر کافر اور ظالم حکمرانوں کا عہدہ قبول کرنا اس شرط کے ساتھ جائز رکھا ہے کہ خود اس کو کوئی کام خلاف شرع نہ کرنا پڑے اور بعض حضرات نے اس شرط کے ساتھ بھی اس کو اس لئے جائز نہیں رکھا کہ اس میں بھی اہل ظلم وجور کی تقویت اور تائید ہوتی ہے یہ حضرات یوسف (علیہ السلام) کے فعل کی مختلف توجیہات بیان کرتے ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ یہ عمل حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ذات یا ان کی شریعت کے ساتھ مخصوص تھا اب دوسروں کے لئے جائز نہیں مگر جمہور علماء فقہاء نے پہلے ہی قول کو اختیار فرما کر جائز قرار دیا ہے (قرطبی) تفسیر بحر محیط میں ہے جہاں یہ معلوم ہو کہ علماء صلحاء اگر یہ عہدہ قبول نہ کریں گے تو لوگوں کے حقوق ضائع ہوجائیں گے انصاف نہ ہو سکے گا وہاں ایسا عہدہ قبول کرلینا جائز بلکہ ثواب ہے بشرطیکہ اس عہدہ میں خود اس کو خلاف شرع امور کے ارتکاب پر مجبوری پیش نہ آئے، چوتھا مسئلہ : حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قول اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ سے یہ ثابت ہوا کہ ضرورت کے موقع پر اپنے کسی کمال یا فضیلت کا ذکر کردینا تزکیہ نفس یعنی پاکبازی جتلانے میں داخل نہیں جس کی قرآن کریم میں ممانعت آئی ہے بشرطیکہ اس کا ذکر کرنا کبر و غرور اور فخر و تعلی کی وجہ سے نہ ہو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ۝ ٠ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ۝ ٥٥ خزن الخَزْنُ : حفظ الشیء في الخِزَانَة، ثمّ يعبّر به عن کلّ حفظ کحفظ السّرّ ونحوه، وقوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر/ 21] ( خ زن ) الخزن کے معنی کسی چیز کو خزانے میں محفوظ کردینے کے ہیں ۔ پھر ہر چیز کی حفاظت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے جیسے بھیدہ وغیرہ کی حفاظت کرنا اور آیت :۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر/ 21] اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ حفظ الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] ( ح ف ظ ) الحفظ کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٥) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے مصر کے خزانوں پر مقرر کردیجیے میں اس کی مقدار وغیرہ کی حفاظت بھی رکھوں گا اور قحط سالی کے زمانہ وقوع سے بھی اچھی طرح واقف ہوں یا یہ کہ جو کام آپ میرے سپرد کریں گے میں اس کی حفاظت بھی کروں گا اور ان تمام لوگوں کی زبانوں سے بھی خوب واقف ہوں جو آپ کے پاس آتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ (قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ) حضرت یوسف جان چکے تھے کہ اس ملک پر بہت بڑی آفت آنے والی ہے اور اگر اس ممکنہ صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے بر وقت درست اور مؤثر اقدام نہ کیے گئے تو نہ صرف خود مصر ایک خوفناک قحط کی زد میں آجائے گا بلکہ آس پاس کے علاقوں کے لیے بھی بہت بھیانک حالات پیدا ہوجائیں گے۔ اس پورے خطے میں مصر ہی ایک ایسا ملک تھا جہاں غلہ اور دوسری اشیائے خوراک پیدا ہوتی تھیں۔ اس کے ہمسایہ میں چاروں طرف خشک صحرائی علاقے تھے اور اناج وغیرہ کے سلسلے میں ان علاقوں کا انحصار بھی مصر کی زراعت پر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے موقع دیکھا تو فوراً اپنی خدمات پیش کردیں کہ اگر خزانے اور خوراک و زراعت کا پورا انتظام و انصرام میرے پاس ہوگا تو میں اس آفت کا سامنا کرنے کے لیے جامع اور ٹھوس منصوبہ بندی کرسکوں گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

35: عام حالات میں حکومت کا کوئی عہدہ خود طلب کرنا شرعی اعتبار سے جائز نہیں ہے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی ممانعت فرمائی ہے ؛ لیکن جب کسی سرکاری عہدہ کے نااہلوں کے سپرد ہونے کی وجہ سے خلق خدا کی پریشانی کا قوی خطرہ ہو تو ایسی مجبوری کی حالت میں کسی نیک پارسا اور متقی آدمی کے لئے عہدے کا طلب کرنا جائز ہے، یہاں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اندیشہ تھا کہ قحط کا جو زمانہ آنے والا ہے اس میں لوگوں کے ساتھ ناانصافیاں ہوں گی، اس کے علاوہ اس ملک میں اللہ تعالیٰ کا قانون جاری کرنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) خود یہ ذمہ داری قبول فرمائیں، اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو نافذ فرمائیں، اس لئے آپ نے ملک کے خزانوں کا انتظام اپنے سر لے لیا، پھر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ بادشاہ نے حکومت کے سارے اختیارات انہی کے سپرد کردئے تھے اور وہ پورے ملک کے حکمران بن گئے تھے اور حضرت مجاہد (رح) کی روایت یہ ہے کہ بادشاہ ان کے ہاتھ پر مسلمان بھی ہوگیا تھا، لہذا حضرت یوسف (علیہ السلام) کا اس ذمہ داری کو قبول کرنا پورے ملک پر اللہ تعالیٰ کا قانون انصاف نافذ ہونے کا ذریعہ بن گیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ لفظ ” خزائن الارض “ (زمین کے خزانے) سے مراد روپیہ اور غلوں کے خزانے نہیں ہیں بلکہ سلطنت کے تمام ذرائع آمدنی و پیداوار ہیں۔ قرآن حکیم میں خزائن کا لفظ عموماً اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ ارشاد ہے ” وللہ خزائن السموات والارض “۔ مطلب یہ ہے کہ جب حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے دیکھا کہ بادشاہ کی نگاہ میں ان کی قدر و منزلت بڑھ گئی ہے اور وہ انہیں ہر طرح اختیارات سونپنے کو تیار ہے تو اپنی اہلیت پر اعتماد کرتے ہوئے یہ پیشکش مناسب سمجھی کہ سلطنت کے تمام ذرائع آمدنی و پیداوار میرے حولاے کر دئیے جائیں اور جب انسان کو اپنی اہلیت پر اعتماد و یقین ہو اور کوئی دوسراشخص قومی امانت کا بوجھ نہ اٹھا سکتا ہو تو اپنے آپ کو عہدہ کے لئے پیش بھی کرسکتا ہے۔ (ابن کثیر) ۔ بلکہ آئندہ آیات (100 ۔ 101) سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آخر کار مصر میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) ہی تخت نشین ہوگئے تھے اور پھر حضرت یوسف ( علیہ السلام) اللہ کے نبی و تھے اس لئے ملک کے تمام اختیارات پر قبضہ ان کے لئے ضروری تھا تاکہ توحید کی تبلیغ و اشاعت پر قبضہ ان کے لئے ضروری تھا تاکہ توحید کی تبلیغ و اشاعت اور شرک کا استیصال کرسکیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ چناچہ بجائے اس کے کہ ان کو کوئی خاص منصب دیتا مثل اپنے پورے اختیارات ہر قسم کے دے دیے گویا حقیقت میں بادشاہ یہی ہوگئے گوبرائے نام وہ بادشاہ رہا اور یہ عزیز کے عہدے سے مشہور ہوئے۔ فائدہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب کسی کام کی لیاقت اپنے اندرمنحصر دیکھے تو خود اس کی درخواست جائز ہے مگر مقصود نفع رسانی ہو نہ کہ نفس پروری۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

50:۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے سمجھ لیا کہ شاہ مصر اب لازمی طور پر حکومت کا کوئی محکمہ ان کے سپرد کرے گا اس لیے انہوں نے خود ہی اپنے کو ایک ایسے محکمہ کے لیے پیش کردیا جس کا براہ راست تعلق پبلک سے تھا تاکہ متوقع قحط کے زمانے میں مخلوقِ خدا سے پوری پوری ہمدردی ہوسکے اور ہر ایک کو اس کا حق مل جائے اور قحط کے زمانہ میں غلے کی حفاظت اور اس کے خرچ کا انتظام درست رہے۔ انہ (علیہ السلام) علم بالوحی انہ سیحصل القحط والضیق الشدید الذی ربما افضی الی ھلاک الخلق العظیم فلعلہ تعالیٰ امرہ بان یدبر فی ذلک ویاتی بطریق لاجلہ یقل ضرر ذلک القحط فی حق الخلق (کبیر ج 18 ص 161) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

55 ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بادشاہ سے کہا کہ مجھے اس ملک کے خزانوں پر مامور کر دے میں ایک اچھا نگہبان اور حساب و کتاب سے بخوبی واقف ہوں ۔ یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ دیکھا کہ آئندہ اس ملک میں قحط پڑنے والا ہے مصر کی حکومت سنبھال نہ سکے گی ملک میں ابتری پھیل جائیگی اور مخلوص بھوک سے مرجائے گی خلائق کی نفع رسانی کا خیال کرتے ہوئے انہوں نے یہ مطالبہ کیا اپنی جاہ پسندی ، ذاتی منفعت اور کنبہ پروری مقصود نہ تھی اور ایسی حالت میں کسی منصب کے طلب کرنے میں مضائقہ نہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ خلائق کے فائدے کی غرض سے انبیاء علہیم السلام مالیا ت کے قصوں میں پڑنے کو شان نبوت کیخلاف نہیں سمجھتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ انہوں نے آپ یہ خدمت طلب کی تا صحبت اہل دنیا سے دور رہیں اور خواب کی تعبیر اور کسی سے بن نہ آئی ۔ 12