Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 57

سورة يوسف

وَ لَاَجۡرُ الۡاٰخِرَۃِ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ کَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿۵۷﴾٪  1

And the reward of the Hereafter is better for those who believed and were fearing Allah .

یقیناً ایمان داروں اور پرہیزگاروں کا اخروی اجر بہت ہی بہتر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And We make not to be lost the reward of the good doers. And verily, the reward of the Hereafter is better for those who believed and had Taqwa. Allah states that what He has prepared for His Prophet Yusuf, peace be upon him, in the Hereafter is much greater, substantial and honored than the authority He gave him in this life. Allah said about His Prophet Suleiman (Solomon), peace be upon him, هَـذَا عَطَأوُنَا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابٍ وَإِنَّ لَهُ عِندَنَا لَزُلْفَى وَحُسْنَ مَـَابٍ "This is Our gift, so spend or withhold, no account will be asked of you." And verily, for him is a near access to Us, and a good (final) return (Paradise). (38:39-40) Yusuf, peace be upon him, was appointed minister of finance by Ar-Rayyan bin Al-Walid, king of Egypt at the time, instead of the Aziz who bought him and the husband of she who tried to seduce him. According to Mujahid, the king of Egypt embraced Islam at the hands of Yusuf, peace be upon him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٦] یعنی اللہ تعالیٰ اپنے مومن اور متقی بندوں کو دنیا میں بھی یقیناً اپنی رحمت سے نوازتا اور اچھا بدلہ دیتا ہے جیسا کہ سیدنا یوسف (علیہ السلام) کو دیا تھا تاہم ایسے لوگوں کو جو آخرت میں اجر ملے گا وہ اس دنیوی اجر سے بدرجہا بہتر ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Shun Sin, Have Faith, Keep Fearing Allah: The Reward of the Hereafter is Yours Too At the end, verse 57 declares: لَأَجْرُ‌ الْآخِرَ‌ةِ خَيْرٌ‌ لِّلَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ And the reward of the Hereafter is surely better for those who keep fearing Allah. It means that Allah had already blessed Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) with temporal power, wealth and an ideal state - waiting for him were the high ranks of the &Akhirah as well. Then, it has also been made clear that the rewards and ranks of the present world and the world-to-come were not restricted to Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . This was an open invitation to everyone who elects to believe, abstain from evil and keep fearing Allah. During his tenure of rule, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) had accomplished great projects designed to bring peace and comfort to the masses of his people. Their parallel would be hard to find. When, according to his inter¬pretation of the dream, seven years of prosperity passed by and the famine set in, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) abandoned eating to his fill. People said: You have the treasures of the land of Egypt in your possession, yet you go hungry? He said: I do this so that the feeling for the hunger of my common people does not disappear from my heart. He even took an ad¬ministrative step in this matter. The royal cooks were ordered to prepare only one meal a day, at lunch time, so that the residents of the royal pa-lace too could somehow share in the mass hunger of their people!

وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ یعنی اور آخرت کا اجر وثواب اس دنیا کی دولت و سلطنت اور مثالی حکومت تو عطا ہوئی ہی تھی اس کے ساتھ آخرت کے درجات عالیہ بھی ان کے لئے تیار ہیں اس کے ساتھ یہ بھی بتلادیا کہ یہ درجات دنیا و آخرت یوسف (علیہ السلام) کی خصوصیت نہیں بلکہ اصلائے عام ہے ہر اس شخص کے لئے جو ایمان اور تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرلے، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے زمانہ حکومت میں عوام کے راحت رسانی کے وہ کام کئے جن کی نظیر ملنا مشکل ہے جب تعبیر خواب کے مطابق سات سال خوش حالی کے گذر گئے اور قحط شروع ہوا تو یوسف (علیہ السلام) نے پیٹ بھر کر کھانا چھوڑ دیا لوگوں نے کہا کہ ملک مصر کے سارے خزانے آپ کے قبضہ میں ہیں اور آپ بھوکے رہتے ہیں تو فرمایا کہ میں یہ اس لئے کرتا ہوں تاکہ عام لوگوں کی بھوک کا احساس میرے دل سے غائب نہ ہو اور شاہی باورچیوں کو بھی حکم دے دیا کہ دن میں صرف ایک مرتبہ دوپہر کو کھانا پکا کرے تاکہ شاہی محل کے سب افراد بھی عوام کی بھوک میں کچھ حصہ لے سکیں

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ۝ ٥٧ۧ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٧) ایسے حضرات کو لیے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی تمام کتابوں اور تمام احکامات پر ایمان رکھتے ہوں اور کفر و شرک اور تمام بری باتوں سے بچتے ہوں آخرت کا ثواب دنیا کے ثواب سے کہیں زیادہ ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ ) اب یہاں سے آگے اس قصے کا ایک نیا باب شروع ہونے جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ آئندہ رکوع کے مضامین اور گزشتہ مضمون کے درمیان زمانی اعتبار سے تقریباً دس سال کا بعد ہے۔ اب بات اس زمانے سے شروع ہورہی ہے جب مصر میں بہتر فصلوں کے سات سالہ دور کے بعد قحط پڑچکا تھا۔ یہاں پر جو تفصیلات چھوڑ دی گئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف کی تعبیر کے عین مطابق سات سال تک مصر میں خوشحالی کا دور دورہ رہا اور فصلوں کی پیداوار معمول سے کہیں بڑھ کر ہوئی۔ اس دوران حضرت یوسف نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اناج کے بڑے بڑے ذخائر جمع کرلیے تھے۔ چناچہ جب یہ پورا علاقہ قحط کی لپیٹ میں آیا تو مصر کی حکومت کے پاس نہ صرف اپنے عوام کے لیے بلکہ ملحقہ علاقوں کے لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی اناج وافر مقدار میں موجود تھا۔ چناچہ حضرت یوسف نے اس غیر معمولی صورت حال کے پیش نظر ” راشن بندی “ کا ایک خاص نظام متعارف کروایا۔ اس نظام کے تحت ایک خاندان کو ایک سال کے لیے صرف اس قدرّ غلہ دیا جاتا تھا جس قدر ایک اونٹ اٹھا سکتا تھا اور اس کی قیمت اتنی وصول کی جاتی تھی جو وہ آسانی سے ادا کرسکیں۔ ان حالات میں فلسطین میں بھی قحط کا سماں تھا اور وہاں سے بھی لوگ قافلوں کی صورت میں مصر کی طرف غلہ لینے کے لیے آتے تھے۔ ایسے ہی ایک قافلے میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دس بھائی بھی غلہ لینے مصر پہنچے جبکہ آپ کا ماں جایا بھائی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ اس لیے کہ حضرت یعقوب اپنے اس بیٹے کو کسی طرح بھی ان کے ساتھ کہیں بھیجنے پر آمادہ نہیں تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

49. This is a warning against a misunderstanding that one might have had from the preceding verse that kingdom and power were the real ultimate rewards for virtue and righteousness, for the best reward that a believer should desire and strive for will be the one that Allah will bestow upon believers in the Hereafter.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :49 یعنی اب ساری سرزمین مصر اس کی تھی ۔ اس کی ہر جگہ کو وہ اپنی جگہ کہہ سکتا تھا ۔ وہاں کوئی گوشہ بھی ایسا نہ رہا تھا جو اس سے روکا جا سکتا ہو ۔ یہ گویا اس کامل تسلط اور ہمہ گیر اقتدار کا بیان ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کو اس ملک پر حاصل تھا ۔ قدیم مفسرین بھی اس آیت کی یہی تفسیر کرتے ہیں ۔ چنانچہ ابن زید کے حوالہ سے علامہ ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ ” ہم نے یوسف علیہ السلام کو ان سب چیزوں کا مالک بنا دیا جو مصر میں تھیں ، دنیا کے اس حصے میں وہ جہاں جو کچھ چاہتا کر سکتا تھا ، وہ سرزمین اس کے حوالہ کر دی گئی تھی ، حتی کہ اگر وہ چاہتا کہ فرعون کو اپنا زیر دست کر لے اور خود اس سے بالا تر ہوجائے تو یہ بھی کر سکتا تھا “ ۔ دوسرا قول علامہ موصوف نے مجاہد کا نقل کیا ہے جو مشہور ائمہ تفسیر میں سےہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ بادشاہ مصر نے یوسف علیہ السلام کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

36:: دُنیا میں حضرت یوسف علیہ السلام کو جو عزّت اور اقتدار ملا، اُس کے ذکر کے ساتھ قرآنِ کریم نے یہ بھی واضح فرمادیا کہ یہ اُس اَجرِ عظیم کے مقابلے میں بہت کم ہے جو اُن کے لئے اﷲ تعالیٰ نے آخرت میں تیار کر رکھا ہے، اس طرح ہر وہ شخص جس کو دُنیا میں کوئی عزّت اور دولت ملی ہو، اُسے یہ ابدی نصیحت فرمادی گئی ہے، اُس کو اصل فکر اس بات کی کرنی چاہئے کہ اِس دُنیا کی عزت ودولت کے نتیجے میں آخرت کا اَجر ضائع نہ ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ غرض یوسف (علیہ السلام) نے باختیار ہوکرغلہ کاشت کرانا اور جمع کرانا شروع کردیا اور سات برس کے بعد قحط شروع ہوا یہاں تک کہ دور دور سے یہ خبر سن کر کہ مصر میں سلطنت کی طرف سے غلہ فروخت ہوتا ہے جوق درجوق لوگ آنا شروع ہوئے اور کنعان میں بھی قحط ہوا تو یوسف (علیہ السلام) کے بھائی بجز بنیامین کے غلہ لینے مصر آئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولا جر الاخرۃ خیر للذین امنوا وکانوا یتقون (١٢ : ٥٧) “ اور آخرت کا اجر ان لوگوں کے لئے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لے آئے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے ”۔ لہٰذا ان کا بنیادی اجر بھی کم نہ ہوگا اگرچہ آخرت کا اجر دنیا کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہے بشرطیکہ انسان ایمان اور تقویٰ کی راہ پر گامزن ہوجائے اور اپنی سری اور ظاہری زندگی کو خدا ترسی کی راہ پر استوار کردے۔ یوں اللہ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی مشکلات دور کردیں ، انہیں زمین میں بلند مرتبہ دیا۔ آخرت میں ان کو خوشخبری دی ، صبر اور احسان کرنے والوں کی یہی مناسب جزاء ہے۔ ٭٭٭ زمانے کی گاڑی چلتی رہی۔ سر سبزی و شادابی کے سات سال گزر گئے۔ قرآن کریم نے ان سات سالوں کی تفصیلات کو حذف کردیا ہے تا کہ ان سالوں میں لوگ کیا کرتے رہے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان سالوں میں کیا تدابیر اختیار کیں۔ ملک کا نظم و نسق کس طرح چلایا ، کیونکہ ان امور نے تو بطریق احسن چلنا ہی تھا کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہہ دیا تھا۔ انی حفیظ علیم قرآن نے ملک میں قحط آنے کا تذکرہ کرنا بھی ضروری نہ سمجھا کہ ان میں لوگوں پر کیا گزری ، کس طرح خشک سالی آئی اور کس طرح گئی۔ کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تعبیر خواب نے یہ تفصیلات گویا بتا دی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں : ثم یاتی من بعد ذلک سبع ۔۔۔۔ ۔ مما تحصنون (١٢ : ٤٨) “ اس کے بعد سات سخت آئیں گی ، یہ کھا جائیں گے جو تم نے ان کے لئے جمع کر رکھا تھا ، مگر تھوڑا سا وہ جو تم نے بچایا ”۔ سیاق کلام میں اب نہ بادشاہ سامنے آتا ہے نہ کوئی اور شاہی کارندہ۔ گویا اب یوسف (علیہ السلام) ہی سب کچھ ہیں ، جو اس خوفناک دور میں پوری ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ اب اسٹیج پر صرف حضرت یوسف (علیہ السلام) ہیں ۔ ہر طرف سے روشنی کی زد میں ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے اس قصے میں فنی طور پر بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ جہاں تک خشک سالی کا تعلق ہے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کی آمد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خشک سالی سینائی سے اس طرف کنعان تک پھیل گئی ہے اس لئے یہ لوگ غلے کی تلاش میں مصر تک پہنچ گئے ہیں۔ اور علاقے میں مصری حکومت ہی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تدابیر کے نتیجے میں ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہے۔ تمام پڑوسی ممالک کی نظریں مصر پر ہیں ، تمام ممالک کے لئے مصر اب غلہ کا گودام ہے۔ ایسے حالات میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی کہانی میں اب ان کے بھائی نمودار ہوتے ہیں اور اس میں فنی خصوصیات کے ساتھ ساتھ اب دینی مقاصد بھی سامنے آتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

57 ۔ اور آخرت کا اجر وثواب اہل تقویٰ اور اہل ایمان کے لئے بد جہا بہتر اور کہیں بڑھ چڑھ کر ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ جواب ہو ان کے سوال کا کہ اولاد ابراہیم (علیہ السلام) اس طرح شام سے آئی مصر میں اور بیان ہوا کہ بھائیوں نے دورپھینکا تا کہ ذلیل ہو اللہ تعالیٰ نے زیادہ عزت دی اور ملک پر اختیار دیا ویسا ہی ہوا ہمارے حضر ت کو ۔ 12 اس کے بعد سا ت سال ارزانی ہوئی حضرت یوسف (علیہ السلام) اختیار کے ساتھ غلہ جمع کرتے رہے یہاں تک کہ قحط شروع ہوا اور متواتر چلتا رہا ۔ اطراف و جوانب میں قحط نمودار ہوا اور کنعان بھی قحط کی لپیٹ میں آگیا ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کنٹرول سے غلہ تقسیم کرتے رہے لوگ آتے رہے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کنٹرول ریٹ سے غلہ دیتے رہے یہاں تک کہ ان کے بھائی بھی غلہ لینے کے لئے مصر آئے۔