Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 68

سورة يوسف

وَ لَمَّا دَخَلُوۡا مِنۡ حَیۡثُ اَمَرَہُمۡ اَبُوۡہُمۡ ؕ مَا کَانَ یُغۡنِیۡ عَنۡہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ اِلَّا حَاجَۃً فِیۡ نَفۡسِ یَعۡقُوۡبَ قَضٰہَا ؕ وَ اِنَّہٗ لَذُوۡ عِلۡمٍ لِّمَا عَلَّمۡنٰہُ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿٪۶۸﴾  2

And when they entered from where their father had ordered them, it did not avail them against Allah at all except [it was] a need within the soul of Jacob, which he satisfied. And indeed, he was a possessor of knowledge because of what We had taught him, but most of the people do not know.

جب وہ انہیں راستوں سے جن کا حکم ان کے والد نے انہیں دیا تھا گئے ۔ کچھ نہ تھا کہ اللہ نے جو بات مقرر کر دی ہے وہ اس سے انہیں ذرا بھی بچا لے ۔ مگر یعقوب ( علیہ السلام ) کے دل میں ایک خیال ( پیدا ہوا ) جسے اس نے پورا کر لیا بلاشبہ وہ ہمارے سکھلائے ہوئے علم کا عالم تھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَمَّا دَخَلُواْ مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللّهِ مِن شَيْءٍ إِلاَّ حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ... "Verily, the decision rests only with Allah. In Him, I put my trust and let all those that trust, put their trust in Him." And when they entered according to their father's advice, it did not avail them in the least against (the will of) Allah; it was but a need of Yaqub's inner self which he discharged, as a precaution against the evil eye, ... وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ ... And verily, he was endowed with knowledge because We had taught him, According to Qatadah and Ath-Thawri, he had knowledge that he implemented. Ibn Jarir said that this part of the Ayah means, he has knowledge that We taught him, ... وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ but most men know not.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

68۔ 1 یعنی اس تدبیر سے اللہ کی تقدیر کو ٹالا نہیں جاسکتا تھا، تاہم حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے جی میں جو (نظر بد لگ جانے کا اندیشہ تھا، اس کے پیش نظر انہوں نے ایسا کہا۔ 68۔ 2 یعنی یہ تدبیر وحی الٰہی کی روشنی میں تھی اور یہ عقیدہ بھی حذر (احتیا طی تدبیر) قدر کو نہیں بدل سکتی، اللہ تعالیٰ کے سکھلائے ہوئے علم پر مبنی تھا، جس سے اکثر لوگ بےبہرہ ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٦] یعنی سیدنا یعقوب (علیہ السلام) کے دل کا ارمان یہ تھا کہ یہ سب بھائی بخیر و عافیت مصر جائیں اور وہاں سے غلہ لے کر بخیروعافیت واپس پہنچ جائیں۔ سیدنا یعقوب کی تدبیر اور ان کا بھروسہ اس اندیشے میں تو کام آگیا کہ انھیں نظر نہیں لگی۔ لیکن ان کے دل کا ارمان پورا نہ ہوسکا۔ کیونکہ اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ لہذا ان کی یہ تدبیر اللہ کی اس تقدیر کے مقابلہ میں کچھ کام نہ آسکی۔ جس کے متعلق انھیں خیال تک بھی نہیں آسکتا تھا۔ [٦٧] سیدنا یعقوب کی بیٹوں کو نصیحت اور اللہ کی تقدیر :۔ وہ تعلیم جو اللہ تعالیٰ نے سیدنا یعقوب کو دی تھی یہ تھی کہ محض ظاہری تدبیر پر ہی بھروسہ نہ کر بیٹھنا چاہیے بلکہ ظاہری تدابیر اختیار کرنے کے بعد بھی بھروسہ اللہ ہی پر کرنا چاہیے اور یہی تعلیم وہ اپنے بیٹوں کو دے رہے تھے۔ مگر اکثر لوگ اس تعلیم سے واقف نہیں، وہ صرف ظاہری اسباب پر ہی بھروسہ کرلیتے ہیں یا پھر کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ محض اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں اور ظاہری اسباب اختیار نہیں کرتے یا ان کی پروا نہیں کرتے۔ یہ دونوں باتیں غلط اور اللہ کی دی ہوئی تعلیم کے خلاف ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَمَّا دَخَلُوْا ۔۔ : ” حَاجَةً “ ” خواہش “ کیونکہ انسان اس کا محتاج ہوتا ہے۔ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ : یعنی اکثر لوگ اس سرّ الٰہی (تقدیر) کی حقیقت کو نہیں جانتے اور اپنی تدبیر پر نازاں رہتے ہیں، یا پھر اللہ پر بھروسا کرنے کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ سرے سے کوئی تدبیر اختیار ہی نہ کی جائے، جیسا کہ اکثر صوفیوں کا حال یا دعویٰ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یعقوب (علیہ السلام) نے تدبیر اور توکل کے صحیح مفہوم کو سمجھ کر اپنے بیٹوں کو نصیحت کی تھی تو وہ دراصل ہماری اس تعلیم کا نتیجہ تھا جو ہم نے اسے دی تھی، یعنی بذریعہ وحی۔ شاہ عبدالقادر (رض) لکھتے ہیں : ” تقدیر پھر بھی ان پر آگئی، دفع نہ ہوئی، سو جن کو علم ہے ان کو تقدیر کا یقین اور اسباب کا بچاؤ دونوں ہوسکتے ہیں اور بےعلم سے ایک ہو تو دوسرا نہ ہو۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

This subject has been taken up in the succeeding verse where it is said that the sons carried out the instructions of their father and entered the city from different gates. When they did so, the desire of their father stood fulfilled - though, this measure taken by him could not avert anyth¬ing already destined by Allah. But, as for the paternal love and concern of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) for his sons, this he did demonstrate to his heart&s content. Towards the end of the verse, Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) has been praised in the following words: وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (He was a man of knowledge, because We had taught him, but most of the people do not know - 68). It means that his knowledge was not acquired. It did not come from books. Instead, it was directly a Divine gift. Therefore, he did employ physical means, something legally required, and commendable. But, he did not place his total trust in it. However, the truth is that most of the people do not know the reality behind it. Thus unaware, they would fall in doubts about Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) thinking that the em¬ployment of these means did not match the station of a prophet. Some commentators have said that the first word: عِلم : knowl¬edge) means acting in accordance with the dictate of ` ilm (knowledge). The translation in this case will be: |"He was a man of action according to the knowledge We gave him|". Therefore, he did not place his trust in ma¬terial means, in fact, it was Allah alone he relied on and trusted in.&

اسی مضمون کا بیان اس کے بعد کی آیت میں اس طرح آیا کہ صاحبزادوں نے والد کے حکم کی تعمیل کی شہر کے متفرق دروازوں سے مصر میں داخل ہوئے تو باپ کا ارمان پورا ہوگیا ان کی یہ تدبیر اللہ کے کسی حکم کو ٹال نہ سکتی تھی مگر یعقوب (علیہ السلام) کی پدرانہ شفقت و محبت کا تقاضا تھا جو انہوں نے پورا کرلیا، اس آیت کے آخر میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی مدح ان الفاظ میں کی گئی ہے وَاِنَّهٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰهُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ یعنی یعقوب (علیہ السلام) بڑے علم والے تھے کیونکہ ان کو ہم نے علم دیا تھا مطلب یہ ہے کہ عام لوگوں کی طرح ان کا علم کتابی اور اکتسابی نہیں بلکہ بلا واسطہ عطاء خداوندی اور وہبی علم تھا اسی لئے انہوں نے ظاہری تدبیر جو شرعا مشروع اور محمود ہے وہ تو کرلی، مگر اس پر بھروسہ نہیں کیا مگر بہت سے لوگ اس بات کی حقیقت کو نہیں جانتے اور ناواقفیت سے یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں ایسے شبہات میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ یہ تدبیریں پیغمبر کی شان کے شایان نہ تھیں، بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ پہلے لفظ علم سے مراد علم کے مقتضیٰ پر عمل کرنا ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہم نے جو علم ان کو عطا کیا وہ اس پر عامل اور اس کے پابند تھے اسی لئے ظاہری تدبیروں پر بھروسہ نہیں فرمایا بلکہ اعتماد اور بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ ہی پر فرمایا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا دَخَلُوْا مِنْ حَيْثُ اَمَرَہُمْ اَبُوْہُمْ۝ ٠ۭ مَا كَانَ يُغْنِيْ عَنْہُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ شَيْءٍ اِلَّا حَاجَۃً فِيْ نَفْسِ يَعْقُوْبَ قَضٰىہَا۝ ٠ۭ وَاِنَّہٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰہُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٦٨ۧ حيث حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة/ 149] . ( ح ی ث ) حیث ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] اور تم جہاں ہوا کرو قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ علم ( تعلیم) اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٨) چناچہ مصر پہنچ کر جس طرح کہ ان کے والد نے ان کو حکم دیا تھا اسی طرح داخل ہوئے اور اس تدبیر سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا ان سے حکم الہی کا ٹالنا مقصود نہیں تھا لیکن حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں اس تدبیر کے بارے میں ایک خیال آیا تھا جس کو انہوں نے اپنے بیٹوں پر ظاہر کردیا۔ اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) بیشک بڑے عالم (اور حدود شرعیہ کے) بڑے پاس رکھنے والے تھے کیوں کہ ہم نے ان کو احکام حدود قضا وقدر تمام باتوں کا حکم دیا تھا اور وہ بخوبی جانتے تھے کہ حکم تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کا چلتا ہے مگر مصر والے نہ اس چیز کو جانتے تھے اور نہ اس کی تصدیق کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(مَا كَانَ يُغْنِيْ عَنْهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ اِلَّا حَاجَةً فِيْ نَفْسِ يَعْقُوْبَ قَضٰىهَا) حضرت یعقوب کے دل میں ایک کھٹک تھی جسے دور کرنے کے لیے آپ نے یہ تدبیر اختیار کی کہ اپنے بیٹوں کو ہدایت کردی کہ وہ ایک دروازے سے داخل ہونے کی بجائے مختلف دروازوں سے داخل ہوں لیکن آپ کی یہ تدبیر اللہ کے کسی فیصلے پر اثر انداز نہیں ہوسکتی تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

54. “Most of mankind do not know” how Prophet Jacob was able to hold the balance between trust in Allah and adoption of precautionary measures. This was because Allah had favored him with the real knowledge. That was why he took all those measures which were dictated by common sense, deep thinking and experience. He admonished them for their ill treatment with their brother Joseph so that they should not dare repeat it in the case of Benjamin. He took a solemn pledge from them in the name of Allah that they would take good care of the safety of their step brother. Then he advised them to be on their guard against the dangerous political situation and to enter the capital by different gates so as not to give cause for alarm and suspicion. In short, as far as it was humanly possible, he took all the precautionary measures to avoid every possible risk. On the other hand, he always kept this thing in view and expressed it that no human precautionary measure could avert the enforcement of Allah’s will. And that the real protection was Allah’s protection, and that one should not rely on the precautionary measures but on the favor of Allah. Obviously only that person who has the real knowledge can keep such a balance in his words and deeds, who knows what kind of efforts are demanded of his human faculties bestowed by Allah for the solution of worldly problems, who also realizes that it is Allah alone Who has the power to make them a success or a failure. This is what most people do not understand. Some of them rely merely on their efforts and measures and discard trust in Allah, while there are others who rely merely on trust in Allah and do not adopt any practical measure to solve their problem.

۵٤ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تدبیر اور توکل کے درمیان یہ ٹھیک ٹھیک توازن جو تم حضرت یعقوب کے مذکورہ بالا اقوال میں پاتے ہو ، یہ دراصل علم حقیقت کے اس فیضان کا نتیجہ تھا جو اللہ تعالی کے فضل سے ان پر ہوا تھا ، ایک طرف وہ عالم اسباب کے قوانین کے مطابق تمام ایسی تدبیریں کرتے ہیں جو عقل و فکر اور تجربہ کی بنا پر اختیار کرنی ممکن تھیں ، بیٹوں کو ان کا پہلا جرم یاد دلا کر زجر و تنبیہ کرتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ ویسا ہی جرم کرنے کی جرات نہ کریں ، ان سے خدا کے نام پر عہد و پیمان لیتے ہیں کہ سوتیلے بھائی کی حٖفاظت کریں گے اور وقت کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے جس احتیاطی تدبیر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اسے بھی استعمال کرنے کا حکم دیتے ہیں تاکہ اپنی حد تک کوئی خارجی سبب بھی ایسا نہ رہنے دیا جائے جو ان لوگوں کے گھر جانے کا موجب ہو ، مگر دوسری طرف ہر آن یہ بات ان کے پیش نظر ہے اور اس کا بار بار اظہار کرتے ہیں کہ کوئی انسانی تدبیر اللہ کی مشیت کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتی ، اور اصل حفاظت اللہ کی حفاظت ہے ، اور بھروسا اپنی تدبیروں پر نہیں بلکہ اللہ ہی کے فضل پر ہونا چاہیے ، یہ صحیح توازن اپنی باتوں میں اور اپنے کاموں میں صرف وہی شخص قائم کرسکتا ہے جو حقیقت کا علم رکھتا ہو ، جو یہ بھی جانتا ہو کہ حیات دنیا کے ظاہری پہلو میں اللہ بنائی ہوئی فطرت انسان سے کس سعی و عمل کا تقاضا کرتی ہے اور اس سے بھی واقف ہو کہ اس ظاہر کے پیچھے جو حقیقت نفس الامری پوشیدہ ہے اس کی بنا پر اصل کار فرما طاقت کونسی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے اپنی سعی و عمل پر انسان کا بھروسا کس قدر بے بنیاد ہے ، یہی وہ بات ہے جس کو اکثر لوگ نہیں جانتے ، ان میں سے جس کے ذہن پر ظاہر کا غلبہ ہوتا ہے وہ توکل سے غافل ہوکر تدبیر ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے اور جس کے دل پر باطن چھا جاتا ہے وہ تدبیر سے بے پروا ہوکر نرے توکل ہی کے بل پر زندگی کی گاڑی چلانا چاہتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

44: یعنی بہت سے لوگ یا تو اپنی ظاہری تدبیروں کو ہی موثر حقیق سمجھ بیٹھتے ہیں، یا ان پر اتنا بھروسہ کرلیتے ہیں کہ انہیں کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ جب تک اللہ تعالیٰ ان تدبیروں میں تاثیر پیدا نہ فرمائیں ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔ لیکن حضرت یعقوب (علیہ السلام) ایسے نہیں تھے۔ انہوں نے جب اپنے صاحبزادوں کو نظر بد سے بچنے کی تدبیر بتائی تو ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ یہ محض ایک تدبیر ہے لیکن نفع اور نقصان پہنچانے کا اختیار اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے چنانچہ ان کی یہ تدبیر نظر بد سے حفاظت کی حد تک تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے کام آئی لیکن اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے یہ بھائی ایک اور مشکل میں گرفتار ہوئے جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٨۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو جس طرح تعلیم کی تھی کہ علیحدہ علیحدہ تم ایک ایک دروازے سے شہر میں داخل ہونا وہ اسی طرح شہر میں گئے مگر یہ تدبیر ان کی کچھ بھی کار آمد نہیں ہوئی اور ذرا بھی حکم قضا و قدر کو روک نہیں سکے جس بات کا انہیں خوف تھا وہی ہو کر رہی فرمایا کہ یعقوب کچھ غیب داں نہیں تھے ہم نے انہیں یہ ساری باتیں سکھلائی تھیں ورنہ انہیں کب معلوم ہوسکتا تھا کہ ٹوک کو کیوں کر روکا جاوے لیکن اکثر لوگ ان باتوں کو نہیں جانتے کہ کسی کا مقدور نہیں کہ وہ مقدر کو پھیر سکے یہ شان تو فقط خدائے جل جلالہ کی ہے کہ اگر وہ چاہے تو تقدیر مقررہ کو پھیر دے اور اسی کو غیب دانی بھی سزاوار ہے حاصل مطلب یہ ہے کہ جب یوسف (علیہ السلام) کے بھائی جدا جدا دروازوں سے شہر مصر میں داخل ہوئے تو جو تدبیر یعقوب (علیہ السلام) نے بتلائی تھی وہ سود مند نہ ہوئی بلکہ انہیں چوری کی تہمت لگائی گئی اور بنیامین کو اس جرم میں ایک سال تک روک رکھا گیا اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) پر دوہری مصیبت آئی غرض تدبیر سے حکم قضا و قدر نہیں پھر سکتا۔ یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں جو شفقت و محبت بچوں کی تھی اس کے تقاضے سے انہوں نے یہ بات ظاہر کردی تھی مگر وہ اس کے کچھ معتقد نہ تھے کہ اس تدبیر سے تقدیر دفع ہوجائے گی۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) سے اور صحیح مسلم میں جابر بن عبد اللہ (رض) سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آدمی کی تقدیر میں جو کچھ لکھا جانا تھا وہ لکھا بھی گیا اور قلم خشک بھی ہوگیا۔ یہ حدیث { ما کان یغنی عنھم من اللہ من شئی } مکی گویا تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ تدبیر سے تقدیر کا لکھا نہیں ٹل سکتا لیکن انسان کو تقدیر کا حال معلوم نہیں جس طرح مثلاً یعقوب (علیہ السلام) نے ٹوک نہ لگنے کی تدبیر کی اور تقدیر کا یہ حال معلوم نہ تھا کہ تقدیر میں چوری کا الزام لکھا ہے اس لئے انسان کو چاہیے کہ دنیا عالم اسباب میں تدبیر کو کام میں لاوے اور اصل بھروسہ تقدیر الٰہی پر رکھے چناچہ اسی کے موافق یعقوب (علیہ السلام) نے عمل کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس عمل کی تعریف فرمائی اور فرمایا کہ بہت سے آدمی اس عمل کو نہیں جانتے جس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے آدمی ظاہر اسباب کے پابند ہو کر تقدیر الٰہی کو بھول جاتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:68) ما کان یغنی عنہم من اللہ من شیئ۔ میں یغنی کا فاعل حضرت یعقوب کی رائے ہے یا ان کا متفرق طور پر مصر میں داخل ہونا۔ یعنی حضرت یعقوب کی رائے یا ان کا علیحدہ علیحدہ ہو کر شہر مصر میں داخل ہونا ان کو تقدیر الٰہی سے نہ بچا سکا۔ الاحاجۃ۔ استثناء منقطع۔ سوائے اس کے کہ یہ ایک خواہش تھی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دل کی۔ حاجۃ۔ خواہش ۔ ارمان۔ ضرورت۔ غرض۔ اس کی جمع حاجات وحوائج۔ قضہا۔ ماضی واحد مذکر غائب ہا ضمیر مفعول برائے حاجۃ۔ قضی یقضی (ضرب) قضاء مصدر۔ پورا کرنا۔ حاجت پوری کرنا۔ فیصلہ کرنا ۔ حکم دینا وغیرہ۔ قضہا۔ جس کو اس نے پورا کیا۔ انہ لذو علم لما علمنہ۔ جو علم ہم نے اس کو دیا تھا اس کی وجہ سے وہ صاحب علم تھے۔ یعنی خوب جانتے تھے کہ انسانی تدبیر قضائے الٰہی کو ٹال نہیں سکتی لیکن مقصد کے حصول کے لئے اسباب کا مہیا کرنا ہر شخص پر فرض ہے نتیجہ تقدیر ایزدی پر منحصر ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ یعنی اس سر الٰہی (تقدیر) کی حقیقت کو نہیں جانتے اور اپنی تدبیر پر نازاں رہتے ہیں۔ یا پھر اللہ پر بھروسا کرنے کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ سرے سے کوئی تدبیر اختیار ہی نہ کی جائے جیسا کہ بعض متاخرین متصوفہ سے منقول ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے اگر تدبیر اور توکل کے مفہوم کو صحیح طور پر سمھے کر اپنے بیٹوں کو نصیحت کی تھی تو وہ دراصل ہماری اس تعلیم کا نتیجہ تھا جو ہم نے اسے دی تھی یعنی بذریعہ وحی کے۔ (کذافی الروح) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں : تقدیر پھر بھی ان پر آگئی۔ دفع نہ ہوئی، سو جن کو علم ہے ان کو تقدیر کا یقین اور اسباب کا بچائو دونوں ہوسکتے ہیں۔ اور بےعلم سے ایک ہی تو دوسرا نہ ہو۔ (۔۔ )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے ان کے بیٹوں کا مختلف دروازوں سے شہر میں داخل ہونا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے صاحبزادے اپنے والد کی تجویز کے مطابق شہر کے مختلف دروازوں سے داخل ہوئے۔ یہ تو ان کی احتیاطی تدبیر تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی تعلیم کی بدولت حضرت یعقوب (علیہ السلام) بڑے صاحب علم تھے۔ جبکہ اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔ پہلے واقعہ کے پیش نظر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بیٹوں کو رخصت کرتے ہوئے ان سے حلف لیا تاکہ انھیں پہلی غلطی کا احساس اور آئندہ کے لیے فکر مندی ہو کہ ہم نے پہلے جیسا جرم نہیں کرنا۔ اس کے ساتھ ہی احتیاط کے طور پر ایک تدبیر بتلائی۔ اس تدبیر کے باوجود کئی دفعہ فرمایا کہ بیٹو اپنے رب پر پوری طرح توکل رکھنا اور میرا بھی اس کی ذات پر توکل ہے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی احتیاطی تدبیر اور اللہ پر توکل کرنے کی سوچ و فکر اور علم کے بارے میں ارشادہوا ہے کہ یہ ہم نے ہی یعقوب (علیہ السلام) کو علم اور سوچ عطا کی تھی۔ جسے اکثر لوگ نہیں جانتے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت دنیا کے اسباب اور اپنے علم و ہنر پر ہی بھروسہ کرتی ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اسباب و وسائل کو اختیار کیے بغیر اللہ پر توکل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ حالانکہ توکل کا حقیقی معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اس پر بھروسہ کیا جائے۔ تدبیر کی اہمیت : (عَنْ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ (رض) یَقُوْلُ قَالَ رَجُلٌ یَّا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَعْقِلُہَا وَأَتَوَکَّلُ أَوْ أُطْلِقُہَا وَأَتَوَکَّلُ قَالَ اِعْقِلْہَا وَتَوَکَّلْ )[ رواہ الترمذی : باب اعقل و توکل ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول ! میں سواری کو باندھوں اور توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ دوں اور توکل کروں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھو پھر توکل کرو۔ “ مسائل ١۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے ان کے حکم کے مطابق شہر میں داخل ہوئے۔ ٢۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) بڑے صاحب علم تھے۔ ٣۔ لوگوں کی اکثریت حقائق سے آگاہ نہیں ہوتی۔ تفسیر بالقرآن لوگوں کی اکثریت کا حال : ١۔ اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٢۔ لوگوں کی اکثریت شکر نہیں کرتی۔ (یوسف : ٣٨) ٣۔ آپ کے چاہنے کے باوجود لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی۔ (یوسف : ١٠٣) ٤۔ یہ آپ کے رب کی طرف سے برحق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ (ھود : ١٧) ٥۔ اہل کتاب میں سے کچھ لوگ مومن ہیں اور ان کی اکثریت نافرمان ہے۔ (آل عمران : ١١٠) ٦۔ وہ اللہ پر جھوٹ باندھتے اور ان کی اکثریت بےعقل ہے۔ (المائدۃ : ١٠٣) ٧۔ اللہ کی منشا کے بغیر کوئی ایمان نہیں لاتا لیکن لوگوں کی اکثریت جاہل ہے۔ (الانعام : ١١١) ٨۔ اللہ کے احسان کو پہچانتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور ان میں سے بیشتر لوگ ایسے ہیں جو حق کو نہیں مانتے۔ (النحل : ٨٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

غرض اب یہ قافلہ چلتا ہے اور وہ اپنے والد کی وصیت پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ آیت نمبر ٦٨ ترجمہ : سوال یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان کو یہ وصیت کیوں فرمائی۔ اس موقعہ پر ان کے باپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ متفرق ابواب سے داخل ہونا۔ روایات اور تفاسیر نے اس سلسلے میں دور دراز کی باتیں کی ہیں جبکہ ان کی سرے سے ضرورت ہی نہ تھی۔ بعض مفسرین نے تو ایسی باتیں بھی لکھی ہیں جو سیاق قرآن کے خلاف ہیں۔ قرآن کریم اگر اس کا کوئی سبب بنانا چاہتا تو ضرور بتا دیتا لیکن قرآن مجید نے تو صرف اس قدر کہا۔ الا حاجۃ فی نفس یعقوب قضھا (١٢ : ٦٨) “ یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں ایک کھٹک تھی اسے دور کرنے کی انہوں نے اپنی سی کوشش کی ”۔ لہٰذ مفسرین کو چاہئے تھا کہ بس وہ اسی بات پر توقف کرتے جو قرآن کریم نے کہہ دی۔ اور اپنی رائے کو اس ماحول اور فضا تک محدود کرتے جس میں یہ وصیت کی گئی اور جس ماحول میں یہ بات ہو رہی تھی اس میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنے بیٹوں کی سلامتی کے بارے میں خدشات رکھتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر یہ متفرق دروازوں سے غیر محسوس طور پر داخل ہوگئے تو جس خطرے کے بارے میں وہ سوچتے تھے وہ شاید ٹل جاتا لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہہ دیا کہ میں اللہ کی مشیت سے تم کو نہیں بچا سکتا۔ حکم اس کے سوا کسی کا نہیں چلتا۔ صرف اسی پر بھروسہ ہونا چاہئے۔ البتہ ان کے دل میں ایک کھٹک تھی اور ان کا وجدان کسی خطرے کو محسوس کر رہا تھا اور اس کا فیصلہ انہوں نے اس وصیت کے ذریعے کیا ۔ لیکن وہ جانتے تھے کہ اللہ کا ارادہ نافذ ہونے والا ہے اور یہ بات ان کو اللہ نے سمجھائی تھی اور یہ ان کے پیغمبرانہ علم میں تھی۔ ولکن اکثر الناس لا یعلمون (١٢ : ٦٨) “ مگر اکثر لوگ معاملہ کی حقیقت کو جانتے نہیں ”۔ اب اس کا حقیقی سبب کیا تھا ؟ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ان کو حاسدوں کی آنکھوں سے بچانا چاہتے تھے یا یہ بات بھی ہو سکتی تھی کہ اگر وہ جتھے کی شکل میں جاتے تو مصر کی مملکت اپنے لئے اس کو سیکورٹی کا مسئلہ بنا لیتی۔ یا ان کو اس کی شان و شوکت سے داخل ہونے سے غیرت آجاتی۔ یا یہ کہ ان کو کوئی ڈاکو نہ سمجھے یا جو بھی ہو ، یہاں اس کی وضاحت وصراحت سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ہاں ایک قاری اور مفسر کو یہ نقصان ضرور ہوتا کہ وہ اصل قرآنی موضوع اور غرض وغایت سے ذرا ہٹ کر ان اسباب پر کلام کرتا اور قال و قیل کا سلسلہ چل نکلتا۔ اس قسم کے قال و قیل پر مشتمل مباحث بسا اوقات بحث کو خالص قرآنی فضا اور موضوع سے دور لے جاتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہ گیارہ بھائی جب ملک مصر پہنچے تو جس شہر میں ان کو جانا تھا اس میں اپنے والد کے فرمان کے مطابق مختلف دروازوں سے داخل ہوئے ان کا یہ جدا جدا دروازوں سے داخل ہونا اللہ کی کسی قضا اور قدر کو ٹالنے والا نہ تھا بس اتنی سی بات تھی کہ یعقوب (علیہ السلام) دل میں جو ایک حاجت تھی وہ پوری ہوگئی یعنی انہوں نے نظر بد سے بچنے کا ایک نسخہ بتایا تھا اس پر عمل ہوگیا اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا۔ (وَاِنَّہٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰہُ ) (اور بلاشبہ وہ علم والے تھے اس وجہ سے کہ ہم نے انہیں علم عطا فرمایا تھا) وہ یہ سمجھتے تھے کہ تدبیر ایک ظاہری سبب ہے ‘ موثر حقیقی ‘ فاعل حقیقی صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ (وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ) (اور لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے) یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی جہالت سے اپنی تدبیر کو موثر حقیقی سمجھ لیتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

59:۔ یہ گیارہواں حال ہے۔ لَمَّا کا جواب محذوف ہے۔ ای وقع ما قضی اللہ مختلف دروازوں سے ان کا داخل ہونا ان کے لیے کوئی فائدہ مند نہ تھا یہ محض حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دل کی ایک خواہشت تھی جو انہوں نے ظاہر کردی۔ ” اِلَّا حَاجَۃً “ مستثنیٰ منقطع ہے۔ اِلَّا بمعنی لٰکن ہے اور حاجۃ سے پہلے فعل اظھر مقدر ہے۔ ” قَضٰھَا “ ای اظھرہا فوصی بھا۔ (مظہری ج 5 ص 48) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

68 ۔ اور جب یہ لڑکے مصر پہنچ کر شہر میں اسی طرح داخل ہوئے جس طرح سے ان کے باپ نے ان کو کہہ دیا تھا تو یہ احتیاطی تدبیر حکم الٰہی میں سے کسی شے کو بھی ان لڑکوں پر سے ٹال نہیں سکتی تھی مگر ہاں یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں ایک خواہش تھی اور ایک ارمان تھا جس کو اس نے اپنے لڑکوں کو تدبیر بتا کر پورا کرلیا اور بلا شبہ یعقوب (علیہ السلام) بڑا عالم تھا کیونکہ ہم نے اس کو تعلیم دی تھی اور ہم نے ان کو علم سکھایا تھا لیکن اکثر لوگ تدبیر اور تقدیر کے فرق کو نہیں جانتے ۔ یعنی تدبیر کو موثر حقیقی سمجھ لیتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جس طرح کہا داخل ہوئے تو اگرچہ ٹوک نہ لگی لیکن تقدیر اور طرف سے آئی تقدیر دفع نہیں ہوتی سو جن کو علم ہے ان کو تقدیر کا یقین اور اسباب کا بچائو دونوں ہوسکتے ہیں اور بےعلم سے ایک ہو تو دوسرا نہ ہو ۔ 12 ۔