Commentary In the first of the fourteen verses cited above (7), a notice of warning has been served to the effect that the story of Yusuf, peace be on him, should not be taken as a common story - because, in it, there are great signs of the perfect power of Allah Ta’ ala, and His instructions, both for those who have asked and for those who would seek guidance through it. The statement made here could be explained by saying that the signs referred to here are for the Jews who had put the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to test by asking him to relate this story to them. When, according to a narration, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was in Makkah al-Mu` azzamah, the news about him reached Madinah. The Jews living there sent a group of their men to Makkah to make investigations and test his claim to prophethood. Therefore, the question they asked of him was put in a somewhat vague manner, that is, ` if you are a true prophet of Allah, tell us about the prophet one of whose sons was taken from Syria to Egypt, an event which had caused his father to become blind due to constant weeping during his absence. The Jews had chosen to ask about this event because it was not wide¬ly known, nor did anyone in Makkah was aware of it. That was a time when there was no member of the people of Book living in Makkah, one from whom some part of this story as appearing in the Torah and Injil could be ascertained. So, it was following this very question that the entire Surah Yusuf was revealed, a Surah which relates the whole story of Sayyidna Ya` qub and Yusuf (علیہما السلام) - and does it in such details as do not appear even in Torah and Injil. Therefore, when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) described it, it was an open miracle shown at his blessed hands. Alternately, this verse could also mean that this event in itself - aside from the question asked by the Jews - was full of great signs of the perfect power of Allah Ta’ ala and that, in it, there were major elements of Divine guidance, and instructions and injunctions. One could imagine the destiny of a child who was thrown in a pit when the power of Allah took over, carried him from one stage to the other guarding him all along, from his childhood to his youth. Then, Allah Ta’ ala has blessed him with a divine colour as He would do with His special servants for he stood steadfast as His servant against trials which would make obedi¬ence difficult. It is all the more difficult when one is young and chal¬lenged by opportunities. But, here is he, armed with the fear of Allah. He holds his ground, controls his self from desiring the undesirable and walks out clean from the stranglehold of temptation. Then, the story tells us how Allah rewards a person who takes to righteousness and fear of Allah as his conscious and determined way of life, how He makes him rise higher than his adversaries in power and recognition, and how they stand subdued before him finally. These are lessons and truths, all pointing to the great signs of the Divine power which can be realized by anyone who would care to look and find out. (Qurtubi & Mazhari) This verse mentions the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . The reference is to the twelve sons of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) ، including Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . Every son from among them had their children. Their families prospered. Since the title by which Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) was known was Isra&il, therefore, all these twelve families were identified as Bani Isra&il (the children of Isra&il). Out of these twelve sons, the eldest ten were from the first blessed wife of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) ، Sayyidah Layya, daughter of Layyan. After her death, Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) married her sister, Rahil (See editorial note on page 156. ) (Rach¬el). She became the mother of his two sons, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) and Benyamin (Benjamin). Therefore, Benyamin was the only real brother of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . The rest of the ten were his half-brothers from the father&s side. Ralil, the mother of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، had died during his childhood at the time of the birth of Benyamin. (Qurtubi)
خلاصہ تفسیر : یوسف (علیہ السلام) کے اور ان کے (علاتی) بھائیوں کے قصہ میں (خدا کی قدرت اور آپ کی نبوت کے) دلائل موجود ہیں ان لوگوں کے لئے جو (آپ سے ان کو قصہ) پوچھتے ہیں (کیونکہ یوسف (علیہ السلام) کو ایسی بےکسی اور بےبسی سے سلطنت و حکومت تک پہنچا دینا یہ خدا ہی کا کام تھا جس سے مسلمانوں کے لئے عبرت اور قوت ایمان حاصل ہوگی اور یہود جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آزمائش کے لئے یہ قصہ پوچھا تھا ان کے لئے اس میں دلیل نبوت مل سکتی) وہ وقت قابل ذکر ہے جبکہ ان (علاتی) بھائیوں نے (باہمی مشورہ کے طور پر) یہ گفتگو کی کہ (یہ کیا بات ہے کہ یوسف اور ان کا (حقیقی) بھائی (بنیامین) ہمارے باپ کو زیادہ پیارے ہیں حالانکہ (وہ دونوں کم عمری کی وجہ سے ان کی خدمت کے قابل بھی نہیں اور) ہم ایک جماعت ہیں (کہ اپنی قوت و کثرت کی وجہ سے ان کی ہر طرح کی خدمت بھی کرتے ہیں) واقعی ہمارے باپ کھلی غلطی میں ہیں (اس لئے تدبیر یہ کرنی چاہئے کہ ان دونوں میں بھی زیادہ پیار یوسف سے ہے اس کو کسی طرح ان کے پاس سے ہٹانا چاہئے جس کی صورت یہ ہے کہ) یا تو یوسف کو قتل کر ڈالو یا اس کو کسی (دوردراز) سر زمین میں ڈال آؤ تو (پھر) تمہارے باپ کا رخ خالص تمہاری طرف ہوجاوے گا اور تمہارے سب کام بن جاویں گے انہی میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ یوسف کو قتل نہ کرو (کہ وہ بڑا جرم ہے) اور ان کو کسی اندھیرے کنویں میں ڈال دو (جس میں اتنا پانی نہ ہو جس میں ڈوبنے کا خطرہ ہو کیونکہ وہ تو قتل ہی کی ایک صورت ہے البتہ بستی اور راہ گذر سے بہت دور بھی نہ ہو) تاکہ انکو کوئی راہ چلتا مسافر نکال لے جائے اگر تم کو (یہ کام) کرنا ہی ہے (تو اس طرح کرو اس پر سب کی رائے متفق ہوگئی اور) سب نے (مل کر باپ سے) کہا کہ ابا اس کی کیا وجہ ہے کہ یوسف کے بارے میں آپ ہمارا اعتبار نہیں کرتے (کہ کبھی کہیں ہمارے ساتھ نہیں بھیجتے) حالانکہ ہم اس کے (دل وجان سے) خیرخواہ ہیں (ایسا نہ چاہئے بلکہ) آپ اس کو کل ہمارے ساتھ (جنگل) بھیجئے کہ ذرا وہ کھاویں کھیلیں اور ہم ان کی پوری حفاظت رکھیں گے، یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ (مجھے ساتھ بھیجنے سے دو چیزیں مانع ہیں ایک حزن اور ایک خوف، حزن تو یہ کہ) مجھ کو یہ بات غم میں ڈالتی ہے کہ اس کو تم (میری نظروں کے سامنے سے) لے جاؤ اور (خوف یہ کہ) میں یہ اندیشہ کرتا ہوں کہ اس کو کوئی بھیڑیا کھا جاوے اور تم (اپنے مشاغل میں) اس سے بیخبر رہو (کیونکہ اس جنگل میں بھیڑئیے بہت تھے) وہ بولے اگر اس کو بھیڑیا کھالے اور ہم ایک جماعت کی جماعت (موجود) ہوں تو ہم بالکل ہی گئے گذرے ہوے (غرض کہہ سن کر یعقوب (علیہ السلام) سے یہ ان کو لے کر چلے) تو جب ان کو (اپنے ساتھ جنگل) لے گئے اور (قرار داد سابق کے مطابق) سب نے پختہ ارادہ کرلیا کہ ان کو کسی اندھیرے کنویں میں ڈال دیں (پھر اپنی تجویز پر عمل بھی کرلیا) اور (اس وقت یوسف (علیہ السلام) کی تسلی کے لئے) ہم نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ (تم مغموم نہ ہو ہم تم کو یہاں سے خلاصی دے کر بڑے رتبہ پر پہنچادیں گے اور ایک دن وہ ہوگا کہ) تم ان لوگوں کو یہ باتے جتلاؤ گے اور وہ تم کو (اس وجہ سے کہ غیر متوقع طور پر شاہانہ صورت میں دیکھیں گے) پہچانیں گے بھی نہیں (چنانچہ واقعہ اسی طرح پیش آیا کہ بھائی مصر پہنچنے اور آخرکار یوسف (علیہ السلام) نے ان کو جتلایا هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِيُوْسُفَ یوسف (علیہ السلام) کا تو یہ قصہ ہوا) اور (ادھر) وہ لوگ اپنے باپ کے پاس عشاء کے وقت روتے ہوئے پہنچے (اور جب باپ نے رونے کا سبب پوچھا تو) کہنے لگے ابا ہم سب تو آپس میں دوڑ لگانے میں (کہ کون آگے نکلے) لگ گئے اور یوسف کو ہم نے (ایسی جگہ جہاں بھیڑیا آنے کا گمان نہ تھا) اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا بس (اتفاقا) ایک بھیڑیا (آیا اور) ان کو کھا گیا اور آپ تو ہمارا کا ہے کو یقین کرنے لگے گو ہم کیسے ہی سچے ہوں اور (جب یعقوب (علیہ السلام) کے پاس آنے لگے تھے تو) یوسف (علیہ السلام) کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا لائے تھے (کہ کسی جانور کا خون ان کی قمیص پر ڈال کر اپنے قول کی سند کے لئے پیش کیا) یعقوب (علیہ السلام) نے (دیکھا تو کرتا کہیں سے پھٹا نہیں تھا ( کمارواہ الطبری عن ابن عباس تو) فرمایا (یوسف کو بھیڑیئے نے ہرگز نہیں کھایا) بلکہ تم نے اپنے دل سے ایک بات بنا لی ہے سو میں صبر ہی کروں گا جس میں شکایت کا نام نہ ہوگا (صبرجمیل کی یہ تفسیر کہ اس کے ساتھ کوئی حرف شکایت نہ ہو طبری نے مرفوع حدیث کے حوالہ سے بیان کی ہے) اور جو باتیں تم بتاتے ہو ان میں اللہ ہی مدد کرے (کہ اس وقت مجھے ان پر صبر آجائے اور آئندہ تمہارا جھوٹ کھل جائے بہرحال حضرت یعقوب (علیہ السلام) صبر کر کے بیٹھ رہے) اور (یوسف (علیہ السلام) کا یہ قصہ ہوا کہ اتفاق سے ادھر) ایک قافلہ آ نکلا (جو مصر کو جا رہا تھا) اور انہوں نے اپنا آدمی پانی لانے کے واسطے (یہاں کنویں پر) بھیجا اور اس نے اپنا ڈول ڈالا (یوسف (علیہ السلام) نے ڈول کو پکڑ لیا جب ڈول باہر آیا اور یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا تو خوش ہو کر) کہنے لگا بڑی خوشی کی بات ہے یہ تو بڑا اچھا لڑکا نکل آیا (قافلہ والوں کو خبر ہوئی تو وہ بھی خوش ہوئے) اور ان کو مال (تجارت) قرار دے کر (اس خیال سے) چھپالیا (کہ کوئی دعویدار نہ کھڑا ہوجائے تو پھر اس کو مصر لے جا کر بڑی قیمت پر فروخت کریں گے) اور اللہ کو ان سب کی کارگزاریاں معلوم تھیں (ادھر وہ بھائی بھی آس پاس لگے رہتے اور کنویں میں یوسف کی خبرگیری کرتے کچھ کھانا بھی پہنچاتے جس سے مقصد یہ تھا کہ یہ ہلاک بھی نہ ہوں اور کوئی آ کر انھیں کسی دوسرے ملک میں لے جائے اور یعقوب (علیہ السلام) کو خبر نہ ہو اس روز جب یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں نہ دیکھا اور پاس ایک قافلہ پڑا دیکھا تو تلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچنے یوسف (علیہ السلام) کا پتہ لگ گیا تو قافلہ والوں سے کہا کہ ہمارا غلام ہے بھاگ کر آگیا تھا اور اب ہم اس کو رکھنا نہیں چاہتے) اور (یہ بات بنا کر) ان کو بہت ہی کم قیمت پر (قافلہ والوں کے ہاتھ) بیچ ڈالا یعنی گنتی کے چند درہم کے بدلے میں اور (وجہ یہ تھی کہ) یہ لوگ کچھ ان کے قدر دان تو تھے ہی نہیں (کہ ان کو عمدہ مال سمجھ کر بڑی قیمت سے بیچتے بلکہ ان کا مقصد تو ان کو یہاں سے ٹالنا تھا) معارف و مسائل : سورة یوسف کی مذکور بالا آیتوں میں سے پہلی آیت میں اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ اس سورة میں آنے والے قصہ یوسف (علیہ السلام) کو محض ایک قصہ نہ سمجھو بلکہ اس میں سوال کرنے والوں اور تحقیق کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی بڑی نشانیاں اور ہدایتیں ہیں اس سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جن یہودیوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آزمائش کے لئے یہ قصہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا ان کے لئے اس میں بڑی نشانیاں ہیں روایت یہ ہے کہ جب آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ معظمہ میں تشریف فرما تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر مدینہ طیبہ میں پہنچی تو یہاں کے یہودیوں نے اپنے چند آدمی اس کام کے لئے مکہ معظمہ بھیجے کہ وہ جاکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آزمائش کریں اسی لئے یہ سوال ایک مبہم انداز میں اس طرح کیا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے سچے نبی ہیں تو یہ بتلائیے کہ وہ کونسا پیغمبر ہے جس کا ایک بیٹا ملک شام سے مصر لے جایا گیا اور باپ اس کے غم میں روتے روتے نابینا ہوگئے، یہ واقعہ یہودیوں نے اس لئے انتخاب کیا تھا کہ نہ اس کی کوئی عام شہرت تھی نہ مکہ میں کوئی اس واقعہ سے واقف تھا اور اس وقت مکہ میں اہل کتاب میں سے بھی کوئی نہ تھا جس سے بحوالہ تورات و انجیل اس قصہ کا کوئی جزء معلوم ہوسکتا ان کے اس سوال پر ہی پوری سورة یوسف نازل ہوئی جس میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور یوسف (علیہ السلام) کا پورا قصہ مذکور ہے اور اتنی تفصیل سے مذکور ہے کہ تورات و انجیل میں بھی اتنی تفصیل نہیں اس لئے اس کا بیان کرنا آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کھلا ہوا معجزہ تھا، اور اس آیت کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ قطع سوال یہود کے خود یہ واقعہ ایسے امور پر مشتمل ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی بڑی نشانیاں اور تحقیق کرنے والوں کے لئے بڑی ہدایتیں اور احکام و مسائل موجود ہیں کہ جس بچہ کو بھائیوں نے ہلاکت کے غار میں ڈال دیا تھا اللہ تعالیٰ کی قدرت نے اس کو کہاں سے کہاں پہنچایا اور کس طرح اس کی حفاظت کی اور اپنے خاص بندوں کو اپنے احکام کی پابندی کا کس قدر گہرا رنگ عطا فرمایا کہ نوجوانی کے زمانے میں تعیش کا بہترین موقع ملتا ہے مگر وہ خدا تعالیٰ کے خوف سے نفس کی خواہشات پر کیسا قابو پاتے ہیں کہ صاف اس بلا سے نکل جاتے ہیں اور یہ کہ جو شخص نیکی اور تقویٰ اختیار کرے اللہ تعالیٰ اس کو اپنے مخالفین کے مقابلہ میں کیسی عزت دیتے ہیں اور مخالفین کو اس کے قدموں میں لا ڈالتے ہیں یہ سب عبرتیں اور نصحیتیں اور قدرت الہیہ کی عظیم نشانیاں ہیں جو ہر تحقیق کرنے والے اور غور کرنے والے کو معلوم ہو سکتی ہیں (قرطبی ومظہری) اس آیت میں یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا ذکر ہے ان کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے یوسف (علیہ السلام) سمیت بارہ لڑکے تھے ان میں سے ہر لڑکا صاحب اولاد ہوا سب کے خاندان پھیلے چونکہ یعقوب (علیہ السلام) کا لقب اسرائیل تھا اس لئے یہ سب بارہ خاندان بنی اسرائیل کہلائے، ان بارہ لڑکوں میں دس بڑے لڑکے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی پہلی زوجہ محترمہ حضرت لیا بنت لیان کے بطن سے تھے ان کی وفات کے بعد یعقوب (علیہ السلام) نے لیّا کی بہن راحیل سے نکال کرلیا ان کے بطن سے دو لڑکے یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین پیدا ہوئے اس لئے یوسف (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی بنیامین تھے باقی دس علاتی یعنی باپ شریک تھے یوسف (علیہ السلام) کی والدہ راحیل کا انتقال بھی ان کے بچپن ہی میں بنیامین کی ولادت کے ساتھ ہوگیا تھا (قرطبی)