Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 7

سورة يوسف

لَقَدۡ کَانَ فِیۡ یُوۡسُفَ وَ اِخۡوَتِہٖۤ اٰیٰتٌ لِّلسَّآئِلِیۡنَ ﴿۷﴾

Certainly were there in Joseph and his brothers signs for those who ask,

یقیناً یوسف اور اس کے بھائیوں میں دریافت کرنے والوں کے لئے ( بڑی ) نشانیاں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

There are Lessons to draw from the Story of Yusuf Allah says; لَّقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ ايَاتٌ لِّلسَّايِلِينَ Verily, in Yusuf and his brethren there were Ayat for those who ask. Allah says that there are Ayat, lessons and wisdom to learn from the story of Yusuf and his brothers, for those who ask about their story and seek its knowledge. Surely, their story is unique and is worthy of being narrated.

یوسف علیہ السلام کے خاندان کا تعارف فی الواقع حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات اس قابل ہیں کہ ان کا دریافت کرنے والا ان سے بہت سی عبرتیں حاصل کر سکے اور نصیحتیں لے سکے ۔ حضرت یوسف کے ایک ہی ماں سے دوسرے بھائی بنیامین تھے باقی سب بھائی دوسری ماں سے تھے ۔ یہ سب آپس میں کہتے ہیں ہے کہ واللہ ابا جان ہم سے زیادہ ان دونوں کو چاہتے ہیں ۔ تعجب ہے کہ ہم پر جو جماعت ہیں ان کو ترجیح دیتے ہیں جو صرف دو ہیں ۔ یقینا یہ تو والد صاحب کی صریح غلطی ہے ۔ یہ یاد رہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی نبوت پر در اصل کوئی دلیل نہیں اور آیت کا طرز بیان تو بالکل اس کے خلاف پر ہے ۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ اس واقعہ کے بعد انہیں نبوت ملی لیکن یہ چیز بھی محتاج دلیل ہے اور دلیل میں آیت قرآنی ( قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓى اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ڮ وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ ١٣٦؁ ) 2- البقرة:136 ) میں سے لفظ اسباط پیش کرنا بھی احتمال سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا ۔ اس لیے کہ بطون بنی اسرائیل کو اسباط کہا جاتا جاہے جیسے کہ عرب کو قبائل کہاجاتا ہے اور عجم کو شعوب کہا جاتا ہے ۔ پس آیت میں صرف اتنا ہی ہے کہ بنی اسرائیل کے اسباط پر وحی الٰہی نازل ہو گئی انہیں اس لیے اجمالاً ذکر کیا گیا کہ یہ بہت تھے لیکن ہر سبط برادران یوسف میں سے ایک کی نسل تھی ۔ پس اس کی کوئی دلیل نہیں کہ خاص ان بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے خلعت نبوت سے نوازا تھا واللہ اعلم ۔ پھر آپس میں کہتے ہیں ایک کام کرو نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔ یوسف کا پاپ ہی کاٹو ۔ نہ یہ ہو نہ ہماری راہ کا کانٹا بنے ۔ ہم ہی ہم نظر آئیں ۔ اور ابا کی محبت صرف ہمارے ہی ساتھ رہے ۔ اب اسے باپ سے ہٹانے کی دو صورتیں ہیں یا تو اسے مار ہی ڈالو ۔ یا کہیں ایسی دور دوراز جگہ پھینک آؤ کہ ایک کی دوسرے کو خبر ہی نہ ہو ۔ اور یہ واردات کر کے پھر نیک بن جانا توبہ کر لینا اللہ معاف کرنے والا ہے یہ سن کر ایک نے مشورہ دیا جو سب سے بڑا تھا اس کا نام روبیل تھا ۔ کوئی کہتا ہے یہودا تھا کوئی کہتا ہے شمعون تھا ۔ اس نے کہا بھئی یہ تو ناانصافی ہے ۔ بےوجہ ، بےقصور صرف عداوت میں آکر خون ناحق گردن پر لینا تو ٹھیک نہیں ۔ یہ بھی کچھ اللہ کی حکمت تھی رب کو منظور ہی نہ تھا ان میں قتل یوسف کی قوت ہی نہ تھی ۔ منظور رب تو یہ تھا کہ یوسف کو نبی بنائے ، بادشاہ بنائے اور انہیں عاجزی کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا کرے ۔ پس ان کے دل روبیل کی رائے سے نرم ہوگئے اور طے ہوا کہ اسے کسی غیر آباد کنویں کی تہ میں پھینک دیں ۔ قتادہ کہتے ہیں یہ بیت المقدس کا کنواں تھا انہیں یہ خیال ہوا کہ ممکن ہے مسافر وہاں سے گزریں اور وہ اسے اپنے قافلے میں لے جائیں پھر کہاں یہ اور کہاں ہم؟ جب گڑ دیئے کام نکلتا ہو تو زہر کیوں دو؟ بغیر قتل کئے مقصود حاصل ہوتا ہے تو کیوں ہاتھ خون سے آلود کرو ۔ ان کے گناہ کا تصور تو کرو ۔ یہ رشتے داری کے توڑنے ، باپ کی نافرمانی کرنے ، چھوٹے پر ظلم کرنے ، بےگناہ کو نقصان پہنچانے بڑے بوڑھے کو ستانے اور حقدار کا حق کاٹنے حرمت و فضلیت کا خلاف کرنے بزرگی کو ٹالنے اور اپنے باپ کو دکھ پہنچانے اور اسے اس کے کلیجے کی ٹھنڈک اور آنکھوں کے سکھ سے ہمیشہ کے لیے دور کرنے اور بوڑھے باپ ، اللہ کے لاڈلے پیغمبر کو اس بڑھاپے میں ناقابل برداشت صدمہ پہنچانے اور اس بےسمجھ بچے کو اپنے مہربان باپ کی پیار بھری نگاہوں سے ہمیشہ اوجھل کرنے کے درپے ہیں ۔ اللہ کے دو نبیوں کو دکھ دینا چاہتے ہیں ۔ محبوب اور محب میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں ، سکھ کی جانوں کو دکھ میں ڈالنا چاہتے ہیں ۔ پھول سے نازک بےزبان بچے کو اس کے مشفق مہربان بوڑھے باپ کی نرم و گرم گودی سے الگ کرتے ہیں ۔ اللہ انہیں بخشے آہ شیطان نے کیسی الٹی پڑھائی ہے ۔ اور انہوں نے بھی کیسی بدی پر کمر باندھی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی اس قصے میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اور نبی کریم کی نبوت کی صداقت کی بڑی نشانیاں ہیں۔ بعض مفسرین نے یہاں ان بھائیوں کے نام اور ان کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] قصہ یوسف اور سائلین یعنی کفار مکہ کے حالات میں مماثلت کی وجوہ :۔ یہ پوچھنے والے کفار مکہ تھے انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے جواب میں جو سیدنا یوسف اور ان کے بھائیوں کے حالات زندگی آئے ہیں وہ خود انھیں کے حالات پر منطبق ہونے والے ہیں کفار مکہ اور برادران یوسف کے تقابلی مطالعہ میں جو عبرت کی نشانیاں یا وجوہ مماثلت پائی جاتی ہیں ان کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَقَدْ كَانَ فِيْ يُوْسُفَ ۔۔ : یہاں سے یوسف (علیہ السلام) کے قصے کی تفصیل شروع ہوتی ہے۔ ” اٰيٰتٌ“ ” آیَۃٌ“ کی جمع ہے۔ یہاں آیات سے مراد وہ عبرتیں، نصیحتیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں جو اس واقعہ میں ذکر ہوئی ہیں، چونکہ وہ بہت سی ہیں اور بہت سے لوگوں سے متعلق ہیں، مثلاً ایک طرف بھائیوں کی نفرت، حسد، بدگمانی، اس زمانے کے لوگوں کے حالات، آزاد لوگوں کو غلام بنا لینا، ان کا انداز حکومت، ان کے قوانین، شیطان کا بہکانا، اپنوں کے ظلم، پیاروں سے جدائی، بےوطنی، غلامی کے صدمے، حسن کی وجہ سے آنے والی آزمائشیں، عزیز کی بیوی کے عشق کی شورش اور طغیانی اور یوسف (علیہ السلام) کی عفت کا امتحان، پھر قید خانے کی آزمائش ہے، دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کا اپنے کام پر غالب ہونے کا مظاہرہ ہے، یوسف (علیہ السلام) کا تمام دشمنوں، حاسدوں اور مخالفوں کی خواہش کے برعکس اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ کمالات علم و حکمت، اخلاص نیت، حسن عمل اور صبر و تقویٰ کی بدولت جیل اور غلامی سے نکل کر قرب شاہی اور حکومت کے وسیع اختیارات کا حصول ہے۔ جابر و ظالم بھائیوں کی ان کے سامنے بےبسی اور ان سے صدقے کے سوال پر مجبور ہونا ہے۔ پھر اس سارے عرصے میں یوسف (علیہ السلام) کا ہر زیادتی کرنے والے سے انتقام کے بجائے حسن سلوک، بےمثال صبر اور عفو و درگزر ہے اور آخر میں یوسف (علیہ السلام) کے خواب گیارہ ستاروں اور سورج و چاند کے ان کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی تعبیر کا ظہور ہے اور اس تمام عظمت و رفعت کے باوجود یوسف (علیہ السلام) کا آخرت کی فکر میں اللہ تعالیٰ سے اسلام پر موت اور صالحین کے ساتھ ملانے کی دعا ہے۔ غرض ایک ایک بات اپنے اندر بہت سی نشانیاں اور عبرتیں رکھتی ہے۔ لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ : یہ سوال کرنے والے کون تھے، اشرف الحواشی میں ہے : ” منقول ہے کہ قریش نے یہود کے اشارے پر امتحان کی غرض سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا وطن شام تھا تو بنی اسرائیل مصر میں کیسے آباد ہوگئے، حتیٰ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے دور میں فرعون سے نجات حاصل کی ؟ اس پر یہ سورت اتری اور فرمایا کہ سوال کرنے والوں کے لیے اس قصہ میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ انھوں نے ایک بھائی پر حسد کیا تو آخر کار اسی کے محتاج ہوئے، اسی طرح یہود حسد کر رہے ہیں اور قریش نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نکالا تو آخر کار آپ ہی کا عروج ہوا۔ (موضح) مگر یہ روایات اسرائیلی ہیں (اور مکہ میں یہود تھے بھی نہیں، نہ اہل مکہ کا ان سے خاص رابطہ تھا) حافظ ابن کثیر (رض) نے ایسی کسی روایت کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس کے بالمقابل دوسری ایک دو روایات بحوالہ ابن جریر بیان کی ہیں کہ صحابہ کے سوال پر یہ سورت نازل ہوئی۔ (مگر ابن عباس (رض) سے منقول یہ روایت بھی منقطع ہے، کیونکہ ابن عباس (رض) سے روایت کرنے والے راوی عمرو بن قیس نے انھیں پایا ہی نہیں۔ دیکھیے الاستیعاب فی بیان الاسباب) بہر حال اگر اسرائیلی روایات کو معتبر مان لیا جائے تو نشانیوں سے مراد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی نشانیاں ہیں اور پوچھنے والوں سے مراد یہودی یا کفار مکہ ہیں اور اگر ان کا اعتبار نہ کیا جائے تو آیات سے مراد وہ عبرتیں ہیں جو یوسف (علیہ السلام) کے قصے میں پائی جاتی ہیں اور پوچھنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی آیات کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ صاحب معالم نے ان عبرتوں کو خوب تفصیل سے لکھا ہے۔ “ ابن عاشور نے لکھا ہے کہ اہل عرب کی بلاغت کا یہ ایک اسلوب ہے کہ وہ متوجہ کرنے کے لیے سائل کا ذکر کرتے ہیں۔ مراد اس بات کو سننے کا شوق دلانا ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبٰرَكَ فِيْهَا وَقَدَّرَ فِيْهَآ اَقْوَاتَهَا فِيْٓ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ ۭ سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ )[ حٰآ السجدۃ : ١٠ ] ” اور اس نے اس میں اس کے اوپر سے گڑے ہوئے پہاڑ بنائے اور اس میں بہت برکت رکھی اور اس میں اس کی غذائیں اندازے کے ساتھ رکھیں، چار دن میں، اس حال میں کہ سوال کرنے والوں کے لیے برابر (جواب) ہے۔ “ اور جیسا کہ سموئل نے کہا ؂ سَلِیْ إِنْ جَھِلْتِ النَّاسَ عَنَّا وَ عَنْھُمْ فَلَیْسَ سَوَاءً عَالِمٌ وَ جَھُوْلُ ” اے مخاطبہ ! اگر تجھے معلوم نہیں تو لوگوں سے ہمارے اور ان کے متعلق سوال کرلے، کیونکہ جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہوتے۔ “ اور انیف بن زبان نے کہا ہے ؂ فَلَمَّا الْتَقَیْنَا بَیَّنَ السَّیْفُ بَیْنَنَا لِسَاءِلَۃٍ عَنَّا حَفِیٍّ سُؤَالُھَا ” تو جب ہم آپس میں مقابل ہوئے تو تلوار نے ہمارے درمیان واضح فیصلہ کردیا، اس سوال کرنے والی کے لیے جس کا سوال بہت اصرار کے ساتھ تھا۔ “ عرب شاعر عموماً سوال کرنے والی عورتوں کا ذکر کرتے ہیں، یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ اس نے یہ انداز بدل کر سوال کرنے والیوں کے بجائے مردوں کو سوال کرنے والے قرار دے کر جواب دیا۔ (التحریر والتنویر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the first of the fourteen verses cited above (7), a notice of warning has been served to the effect that the story of Yusuf, peace be on him, should not be taken as a common story - because, in it, there are great signs of the perfect power of Allah Ta’ ala, and His instructions, both for those who have asked and for those who would seek guidance through it. The statement made here could be explained by saying that the signs referred to here are for the Jews who had put the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to test by asking him to relate this story to them. When, according to a narration, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was in Makkah al-Mu` azzamah, the news about him reached Madinah. The Jews living there sent a group of their men to Makkah to make investigations and test his claim to prophethood. Therefore, the question they asked of him was put in a somewhat vague manner, that is, ` if you are a true prophet of Allah, tell us about the prophet one of whose sons was taken from Syria to Egypt, an event which had caused his father to become blind due to constant weeping during his absence. The Jews had chosen to ask about this event because it was not wide¬ly known, nor did anyone in Makkah was aware of it. That was a time when there was no member of the people of Book living in Makkah, one from whom some part of this story as appearing in the Torah and Injil could be ascertained. So, it was following this very question that the entire Surah Yusuf was revealed, a Surah which relates the whole story of Sayyidna Ya` qub and Yusuf (علیہما السلام) - and does it in such details as do not appear even in Torah and Injil. Therefore, when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) described it, it was an open miracle shown at his blessed hands. Alternately, this verse could also mean that this event in itself - aside from the question asked by the Jews - was full of great signs of the perfect power of Allah Ta’ ala and that, in it, there were major elements of Divine guidance, and instructions and injunctions. One could imagine the destiny of a child who was thrown in a pit when the power of Allah took over, carried him from one stage to the other guarding him all along, from his childhood to his youth. Then, Allah Ta’ ala has blessed him with a divine colour as He would do with His special servants for he stood steadfast as His servant against trials which would make obedi¬ence difficult. It is all the more difficult when one is young and chal¬lenged by opportunities. But, here is he, armed with the fear of Allah. He holds his ground, controls his self from desiring the undesirable and walks out clean from the stranglehold of temptation. Then, the story tells us how Allah rewards a person who takes to righteousness and fear of Allah as his conscious and determined way of life, how He makes him rise higher than his adversaries in power and recognition, and how they stand subdued before him finally. These are lessons and truths, all pointing to the great signs of the Divine power which can be realized by anyone who would care to look and find out. (Qurtubi & Mazhari) This verse mentions the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . The reference is to the twelve sons of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) ، including Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . Every son from among them had their children. Their families prospered. Since the title by which Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) was known was Isra&il, therefore, all these twelve families were identified as Bani Isra&il (the children of Isra&il). Out of these twelve sons, the eldest ten were from the first blessed wife of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) ، Sayyidah Layya, daughter of Layyan. After her death, Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) married her sister, Rahil (See editorial note on page 156. ) (Rach¬el). She became the mother of his two sons, Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) and Benyamin (Benjamin). Therefore, Benyamin was the only real brother of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . The rest of the ten were his half-brothers from the father&s side. Ralil, the mother of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، had died during his childhood at the time of the birth of Benyamin. (Qurtubi)

خلاصہ تفسیر : یوسف (علیہ السلام) کے اور ان کے (علاتی) بھائیوں کے قصہ میں (خدا کی قدرت اور آپ کی نبوت کے) دلائل موجود ہیں ان لوگوں کے لئے جو (آپ سے ان کو قصہ) پوچھتے ہیں (کیونکہ یوسف (علیہ السلام) کو ایسی بےکسی اور بےبسی سے سلطنت و حکومت تک پہنچا دینا یہ خدا ہی کا کام تھا جس سے مسلمانوں کے لئے عبرت اور قوت ایمان حاصل ہوگی اور یہود جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آزمائش کے لئے یہ قصہ پوچھا تھا ان کے لئے اس میں دلیل نبوت مل سکتی) وہ وقت قابل ذکر ہے جبکہ ان (علاتی) بھائیوں نے (باہمی مشورہ کے طور پر) یہ گفتگو کی کہ (یہ کیا بات ہے کہ یوسف اور ان کا (حقیقی) بھائی (بنیامین) ہمارے باپ کو زیادہ پیارے ہیں حالانکہ (وہ دونوں کم عمری کی وجہ سے ان کی خدمت کے قابل بھی نہیں اور) ہم ایک جماعت ہیں (کہ اپنی قوت و کثرت کی وجہ سے ان کی ہر طرح کی خدمت بھی کرتے ہیں) واقعی ہمارے باپ کھلی غلطی میں ہیں (اس لئے تدبیر یہ کرنی چاہئے کہ ان دونوں میں بھی زیادہ پیار یوسف سے ہے اس کو کسی طرح ان کے پاس سے ہٹانا چاہئے جس کی صورت یہ ہے کہ) یا تو یوسف کو قتل کر ڈالو یا اس کو کسی (دوردراز) سر زمین میں ڈال آؤ تو (پھر) تمہارے باپ کا رخ خالص تمہاری طرف ہوجاوے گا اور تمہارے سب کام بن جاویں گے انہی میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ یوسف کو قتل نہ کرو (کہ وہ بڑا جرم ہے) اور ان کو کسی اندھیرے کنویں میں ڈال دو (جس میں اتنا پانی نہ ہو جس میں ڈوبنے کا خطرہ ہو کیونکہ وہ تو قتل ہی کی ایک صورت ہے البتہ بستی اور راہ گذر سے بہت دور بھی نہ ہو) تاکہ انکو کوئی راہ چلتا مسافر نکال لے جائے اگر تم کو (یہ کام) کرنا ہی ہے (تو اس طرح کرو اس پر سب کی رائے متفق ہوگئی اور) سب نے (مل کر باپ سے) کہا کہ ابا اس کی کیا وجہ ہے کہ یوسف کے بارے میں آپ ہمارا اعتبار نہیں کرتے (کہ کبھی کہیں ہمارے ساتھ نہیں بھیجتے) حالانکہ ہم اس کے (دل وجان سے) خیرخواہ ہیں (ایسا نہ چاہئے بلکہ) آپ اس کو کل ہمارے ساتھ (جنگل) بھیجئے کہ ذرا وہ کھاویں کھیلیں اور ہم ان کی پوری حفاظت رکھیں گے، یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ (مجھے ساتھ بھیجنے سے دو چیزیں مانع ہیں ایک حزن اور ایک خوف، حزن تو یہ کہ) مجھ کو یہ بات غم میں ڈالتی ہے کہ اس کو تم (میری نظروں کے سامنے سے) لے جاؤ اور (خوف یہ کہ) میں یہ اندیشہ کرتا ہوں کہ اس کو کوئی بھیڑیا کھا جاوے اور تم (اپنے مشاغل میں) اس سے بیخبر رہو (کیونکہ اس جنگل میں بھیڑئیے بہت تھے) وہ بولے اگر اس کو بھیڑیا کھالے اور ہم ایک جماعت کی جماعت (موجود) ہوں تو ہم بالکل ہی گئے گذرے ہوے (غرض کہہ سن کر یعقوب (علیہ السلام) سے یہ ان کو لے کر چلے) تو جب ان کو (اپنے ساتھ جنگل) لے گئے اور (قرار داد سابق کے مطابق) سب نے پختہ ارادہ کرلیا کہ ان کو کسی اندھیرے کنویں میں ڈال دیں (پھر اپنی تجویز پر عمل بھی کرلیا) اور (اس وقت یوسف (علیہ السلام) کی تسلی کے لئے) ہم نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ (تم مغموم نہ ہو ہم تم کو یہاں سے خلاصی دے کر بڑے رتبہ پر پہنچادیں گے اور ایک دن وہ ہوگا کہ) تم ان لوگوں کو یہ باتے جتلاؤ گے اور وہ تم کو (اس وجہ سے کہ غیر متوقع طور پر شاہانہ صورت میں دیکھیں گے) پہچانیں گے بھی نہیں (چنانچہ واقعہ اسی طرح پیش آیا کہ بھائی مصر پہنچنے اور آخرکار یوسف (علیہ السلام) نے ان کو جتلایا هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِيُوْسُفَ یوسف (علیہ السلام) کا تو یہ قصہ ہوا) اور (ادھر) وہ لوگ اپنے باپ کے پاس عشاء کے وقت روتے ہوئے پہنچے (اور جب باپ نے رونے کا سبب پوچھا تو) کہنے لگے ابا ہم سب تو آپس میں دوڑ لگانے میں (کہ کون آگے نکلے) لگ گئے اور یوسف کو ہم نے (ایسی جگہ جہاں بھیڑیا آنے کا گمان نہ تھا) اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا بس (اتفاقا) ایک بھیڑیا (آیا اور) ان کو کھا گیا اور آپ تو ہمارا کا ہے کو یقین کرنے لگے گو ہم کیسے ہی سچے ہوں اور (جب یعقوب (علیہ السلام) کے پاس آنے لگے تھے تو) یوسف (علیہ السلام) کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا لائے تھے (کہ کسی جانور کا خون ان کی قمیص پر ڈال کر اپنے قول کی سند کے لئے پیش کیا) یعقوب (علیہ السلام) نے (دیکھا تو کرتا کہیں سے پھٹا نہیں تھا ( کمارواہ الطبری عن ابن عباس تو) فرمایا (یوسف کو بھیڑیئے نے ہرگز نہیں کھایا) بلکہ تم نے اپنے دل سے ایک بات بنا لی ہے سو میں صبر ہی کروں گا جس میں شکایت کا نام نہ ہوگا (صبرجمیل کی یہ تفسیر کہ اس کے ساتھ کوئی حرف شکایت نہ ہو طبری نے مرفوع حدیث کے حوالہ سے بیان کی ہے) اور جو باتیں تم بتاتے ہو ان میں اللہ ہی مدد کرے (کہ اس وقت مجھے ان پر صبر آجائے اور آئندہ تمہارا جھوٹ کھل جائے بہرحال حضرت یعقوب (علیہ السلام) صبر کر کے بیٹھ رہے) اور (یوسف (علیہ السلام) کا یہ قصہ ہوا کہ اتفاق سے ادھر) ایک قافلہ آ نکلا (جو مصر کو جا رہا تھا) اور انہوں نے اپنا آدمی پانی لانے کے واسطے (یہاں کنویں پر) بھیجا اور اس نے اپنا ڈول ڈالا (یوسف (علیہ السلام) نے ڈول کو پکڑ لیا جب ڈول باہر آیا اور یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا تو خوش ہو کر) کہنے لگا بڑی خوشی کی بات ہے یہ تو بڑا اچھا لڑکا نکل آیا (قافلہ والوں کو خبر ہوئی تو وہ بھی خوش ہوئے) اور ان کو مال (تجارت) قرار دے کر (اس خیال سے) چھپالیا (کہ کوئی دعویدار نہ کھڑا ہوجائے تو پھر اس کو مصر لے جا کر بڑی قیمت پر فروخت کریں گے) اور اللہ کو ان سب کی کارگزاریاں معلوم تھیں (ادھر وہ بھائی بھی آس پاس لگے رہتے اور کنویں میں یوسف کی خبرگیری کرتے کچھ کھانا بھی پہنچاتے جس سے مقصد یہ تھا کہ یہ ہلاک بھی نہ ہوں اور کوئی آ کر انھیں کسی دوسرے ملک میں لے جائے اور یعقوب (علیہ السلام) کو خبر نہ ہو اس روز جب یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں نہ دیکھا اور پاس ایک قافلہ پڑا دیکھا تو تلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچنے یوسف (علیہ السلام) کا پتہ لگ گیا تو قافلہ والوں سے کہا کہ ہمارا غلام ہے بھاگ کر آگیا تھا اور اب ہم اس کو رکھنا نہیں چاہتے) اور (یہ بات بنا کر) ان کو بہت ہی کم قیمت پر (قافلہ والوں کے ہاتھ) بیچ ڈالا یعنی گنتی کے چند درہم کے بدلے میں اور (وجہ یہ تھی کہ) یہ لوگ کچھ ان کے قدر دان تو تھے ہی نہیں (کہ ان کو عمدہ مال سمجھ کر بڑی قیمت سے بیچتے بلکہ ان کا مقصد تو ان کو یہاں سے ٹالنا تھا) معارف و مسائل : سورة یوسف کی مذکور بالا آیتوں میں سے پہلی آیت میں اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ اس سورة میں آنے والے قصہ یوسف (علیہ السلام) کو محض ایک قصہ نہ سمجھو بلکہ اس میں سوال کرنے والوں اور تحقیق کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی بڑی نشانیاں اور ہدایتیں ہیں اس سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جن یہودیوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آزمائش کے لئے یہ قصہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا ان کے لئے اس میں بڑی نشانیاں ہیں روایت یہ ہے کہ جب آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ معظمہ میں تشریف فرما تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر مدینہ طیبہ میں پہنچی تو یہاں کے یہودیوں نے اپنے چند آدمی اس کام کے لئے مکہ معظمہ بھیجے کہ وہ جاکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آزمائش کریں اسی لئے یہ سوال ایک مبہم انداز میں اس طرح کیا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے سچے نبی ہیں تو یہ بتلائیے کہ وہ کونسا پیغمبر ہے جس کا ایک بیٹا ملک شام سے مصر لے جایا گیا اور باپ اس کے غم میں روتے روتے نابینا ہوگئے، یہ واقعہ یہودیوں نے اس لئے انتخاب کیا تھا کہ نہ اس کی کوئی عام شہرت تھی نہ مکہ میں کوئی اس واقعہ سے واقف تھا اور اس وقت مکہ میں اہل کتاب میں سے بھی کوئی نہ تھا جس سے بحوالہ تورات و انجیل اس قصہ کا کوئی جزء معلوم ہوسکتا ان کے اس سوال پر ہی پوری سورة یوسف نازل ہوئی جس میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور یوسف (علیہ السلام) کا پورا قصہ مذکور ہے اور اتنی تفصیل سے مذکور ہے کہ تورات و انجیل میں بھی اتنی تفصیل نہیں اس لئے اس کا بیان کرنا آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کھلا ہوا معجزہ تھا، اور اس آیت کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ قطع سوال یہود کے خود یہ واقعہ ایسے امور پر مشتمل ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی بڑی نشانیاں اور تحقیق کرنے والوں کے لئے بڑی ہدایتیں اور احکام و مسائل موجود ہیں کہ جس بچہ کو بھائیوں نے ہلاکت کے غار میں ڈال دیا تھا اللہ تعالیٰ کی قدرت نے اس کو کہاں سے کہاں پہنچایا اور کس طرح اس کی حفاظت کی اور اپنے خاص بندوں کو اپنے احکام کی پابندی کا کس قدر گہرا رنگ عطا فرمایا کہ نوجوانی کے زمانے میں تعیش کا بہترین موقع ملتا ہے مگر وہ خدا تعالیٰ کے خوف سے نفس کی خواہشات پر کیسا قابو پاتے ہیں کہ صاف اس بلا سے نکل جاتے ہیں اور یہ کہ جو شخص نیکی اور تقویٰ اختیار کرے اللہ تعالیٰ اس کو اپنے مخالفین کے مقابلہ میں کیسی عزت دیتے ہیں اور مخالفین کو اس کے قدموں میں لا ڈالتے ہیں یہ سب عبرتیں اور نصحیتیں اور قدرت الہیہ کی عظیم نشانیاں ہیں جو ہر تحقیق کرنے والے اور غور کرنے والے کو معلوم ہو سکتی ہیں (قرطبی ومظہری) اس آیت میں یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا ذکر ہے ان کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے یوسف (علیہ السلام) سمیت بارہ لڑکے تھے ان میں سے ہر لڑکا صاحب اولاد ہوا سب کے خاندان پھیلے چونکہ یعقوب (علیہ السلام) کا لقب اسرائیل تھا اس لئے یہ سب بارہ خاندان بنی اسرائیل کہلائے، ان بارہ لڑکوں میں دس بڑے لڑکے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی پہلی زوجہ محترمہ حضرت لیا بنت لیان کے بطن سے تھے ان کی وفات کے بعد یعقوب (علیہ السلام) نے لیّا کی بہن راحیل سے نکال کرلیا ان کے بطن سے دو لڑکے یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین پیدا ہوئے اس لئے یوسف (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی بنیامین تھے باقی دس علاتی یعنی باپ شریک تھے یوسف (علیہ السلام) کی والدہ راحیل کا انتقال بھی ان کے بچپن ہی میں بنیامین کی ولادت کے ساتھ ہوگیا تھا (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَقَدْ كَانَ فِيْ يُوْسُفَ وَاِخْوَتِہٖٓ اٰيٰتٌ لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ۝ ٧ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧) یوسف (علیہ السلام) اور ان کے واقعہ میں سوال کرنے والوں کے لیے دلائل موجود ہیں، یہ آیت علماء یہود کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہوں نے اس کے متعلق سوال کیا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ ( لَقَدْ كَانَ فِيْ يُوْسُفَ وَاِخْوَتِهٖٓ اٰيٰتٌ لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ ) یعنی جن لوگوں ( قریش مکہ) نے یہ سوال پوچھا ہے اور جن لوگوں (یہود مدینہ) کے کہنے پر پوچھا ہے ان سب کے لیے اس قصے میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ اگر وہ صرف اس ایک قصے کو حقیقت کی نظروں سے دیکھیں اور اس پر غور کریں تو بہت سے حقائق نکھر کر ان کے سامنے آجائیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: یہ بظاہر ان کافروں کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال پوچھا تھا کہ بنو اسرائیل کس وجہ سے فلسطین چھوڑ کر مصر میں آباد ہوئے تھے؟ یعنی اگرچہ ان کے پوچھنے کا اصل مقصد تو اپنے خیال کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بے بس کرنا ہے، لیکن اگر ان میں ذرا بھی عقل ہو تو اس واقعے میں ان کے لیے بہت سی عبرتیں ہیں۔ اول تو یہ سبق ہی کیا کم ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک پر اس واقعے کا جاری ہونا آپ کی نبوت کی کھلی دلیل ہے۔ دوسرے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خلاف جتنی ساشیں کی گئیں، چاہے وہ ان کے بھائیوں نے کی ہوں، یا زلیخا اور اس کی سہیلیوں نے، آخر کار ان ساری سازشوں کا پول کھل گیا، اور عزت اور فتح تمام تر حضرت یوسف (علیہ السلام) ہی کے حصے میں آئی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

مسنگ

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:7) فی یوسف۔ یوسف ۔ بوجہ معرفہ و عجمہ غیر منصرف ہے۔ فی یوسف ای فی خبر یوسف۔ خبر (مضاف محذوف) یوسف۔ مضاف الیہ۔ السائلین۔ پوچھنے والے۔ جو ئندگان علم۔ طالبان حق۔ سوال کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 ۔ منقول ہے کہ قریش ہونے نے یہود کے اشارے پر۔ امتحاناً آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا کہ حضرت ابراہیم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وطن شام تھا تو بنی اسرائیل مصر میں کیسے آباد ہوگئے حتیٰ کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کے دور میں فرعون سے نجات حاصل کی۔ اس پر یہ سورت اتری اور فرمایا کہ سوال کرنے والے کیلئے اس قصہ میں بہت سی نشانیاں ہیں انہوں نے ایک بھائی پر حسد کیا تو آخر کا۔ اسی کے متحاج ہوئے۔ اسی طرح یہود و حسد کی رہے ہیں اور قریش نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وطن سے نکالا تو آخر کار اسی کا عروج ہوا۔ (کذافی الموضح) مگر یہ روایات اسرائیلی ہیں۔ حافط ابن کثیر (رح) نے ان کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس کے بالمقابل دوسری ایک دو روایت بحوالہ ابن جریر بیان کی ہیں کہ صحابہ (رض) کے سوال پر یہ سورت نازل ہوئی۔ بہرحال اگر اسرائیلی روایات کو معتبر مان لیا جائے تو نشانیوں سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نشانیاں ہیں اور پوچھنے والوں سے مراد یہودی یا کفار مکہ اور اگر ان کا اعتبار نہ کیا جائے تو آیات سے مراد وہ عبرتیں ہیں جو حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے قصے میں پائی جاتی ہیں۔ اور پوچھنے والوں سے مراد وہ لوگ جو اللہ کی آیات کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ صاحب عالم ان عبرتوں کو خوب تفصیل سے لکھا ہے۔ (ابن کثیر۔ معالم) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٧ تا ١٩ اسرار و معارف حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کا قصہ باعث نصیحت بھی ہے اور باعث عبرت بھی کہ اللہ اپنے مخلص بندوں کی کیسے کیسے حفاظت فرماتا ہے اور ان سے حسد کرنے والے کس طور ناکام ثابت ہوتے ہیں ۔ نیز اس کا ایک مربوط نظام ہے جسے نہ جاننے والے اتفاقات اور حادثات کا نام دیتے ہیں مگر دراصل ایسے تمام امورطے شدہ نظام کی کڑیوں کے طور پر کام کرتے ہیں اور اس طرح تفصیل سے واقعہ کی جزئیات بھی شامل کرکے درست بیان فرمانا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بہت بڑا معجزہ اور وحی الٰہی کی دلیل بھی ہے کہ سوال کرنے والے یہوددی تو مدینہ منورہ سے سوال بھیج رہے تھے مکہ میں تو کوئی یہودی عالم بھی اتنے وسیع مطالعہ کا مالک نہ تھا کہ اسے واقعہ کی کچھ خبرہوتی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اصلا اس سے واقف نہ تھے ۔ تو اب واقعہ ارشاد ہوتا ہے کہ برادران یوسف نے بھی خواب کی سن گن پالی اور اس بات پر بہت سیخ پا ہوئے ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اہلیہ کا نام مفسرین لیابنت لیان لکھا ہے جن سے ان کے دس بیٹے تھے ان کی وفات کے بعد انھوں نے اس کی بہن راحیل بنت لیا ن سے نکاح کرلیا اس میں سے بنیامین اور یوسف (علیہ السلام) دوبیٹے ہوئے جوبن یامین کی پیدائش پہ فوت ہوگئیں تو اس لحاظ سے بھی انھیں شفقت پدری زیادہ حاصل تھی یوسف (علیہ السلام) خوبصورت بھی بہت تھے۔ حتی کہ حدیث میں وارد ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شب معراج میں نے یوسف کو دیکھا تو آدھاحسن انہی اکیلے کو ملا ہے اور آدھا ساری دنیا کو اوکماقال علیہ السلا م۔ اور تیسرے ان کی جبین میں نور نبوت بھی تھا۔ یہ بھی ان سے باپ کی محبت کا سبب تھا کہ حدیث میں ارشاد ہے کریم ابن الکریم ابن الکریم ابن الکریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراھیم علیھم السلام ۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) میں یہ شان ابوبکرصدیق (رض) کی ہے کہ باپ صحابی خودصحابی اولاد صحابی اور نواسے اور پوتے صحابی (رض) اجمعین۔ چنانچہ انھوں نے باہم مشورہ کیا کہ یوسف اور ان کے بھائی تو والدبزرگوار کو بہت پیارے ہیں ۔ شایدان کا یہ گمان بھی ہو کہ یہ خواب میں بشارت ملنے کا سبب بھی والد گرامی ہی کی توجہ کا نتیجہ ہے اور عجیب بات ہے کہ یہ دوننھے بچے کہ مفسرین کے مطابق اس وقت یوسف (علیہ السلام) کی عمرسات برس کی تھی اور بنیامین ان سے چھوٹے تھے تو انھیں اس قدرتوجہ اور شفقت حاصل ہے حالانکہ ہم دس بھائی ہیں سارے جوان ہیں گھر بار کا ساراکام ہم کرتے ہیں اور ایک مضبوط جماعت ہیں ۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ والدہم پہ زیادہ توجہ کرتے مگر اس معاملے میں وہ سخت غلطی پر ہیں ۔ ضلال مبین سے ان کی مراد اپنے معاملہ میں حضرت کارویہ نہایت نامناسب ہونے کی تھی اور یہ ان کی رائے تھی۔ چناچہ سوچنے لگے کہ کوئی ایسی صورت ہو کہ یوسف نہ رہے اور والد کے سامنے ہم ہی رہ جائیں پھر ان کی ساری شفقت صرف ہمارے لئے ہوگی تو یوسف کو کسی طرح قتل کردیا جائے یا پھر کسی دورراز ایسے ملک پہنچا دیا جائے جہاں سے اس کی کوئی سن گن نہ آسکے اور پھر عذر معذرت کرکے معاملہ درست کرلو اور توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلو ! سب اس بات پہ متفق ہوگئے کہ صرف قتل ہی کیا جاسکتا ہے اس کی تدبیر کرنا چاہیے۔ دوسراکام تو اپنے بس کا نہیں ۔ مگر ان میں سب ایک نے کہا کہ قتل اور پھر بھائی کا قتل اور وہ بھی چھوٹے سے بچے کا ہرگز مناسب نہیں بہت بڑاجرم ہے قتل ہرگز نہ کرو ہاں ! کسی گہرے اور غیرآباد کنویں میں پھینک دو کہ ازخود ہلاک ہوجائے گا ۔ بھوک پیاس سے یا کسی زہریلے جانور کے ڈسنے سے یا پھر کوئی راستہ چلتا ہوا قافلہ ہی آکر اسے نکال لے اور کہیں دوردرازلے جائے تو تمہارا مقصدہرصورت پورا ہوجائے گا اور براہ راست قتل میں ملوث ہونے سے بھی بچ جاؤگے۔ نیکوں کی محبت کی برکا مفسرین نے یہاں عجیب بات لکھی ہے کہ ان کے جرم کا ایک سبب باپ کی محبت بھی تھی تو اللہ نے انھیں قتل سے بچنے کی توفیق بھی دی اور انجام کار توبہ کرکے معافی حاصل کرنے کی سعادت بھی بخشی کہ والد گرامی نے بھی اور بھائی نے بھی معاف فرمادیا۔ یہ قتل سے منع کرنے کا کام ان سب میں سے بڑے بھائی نے جس کا نام یہودا تھا ، کیا ۔ چنانچہ سب اسی پر متفق ہو کر باپ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہمارا خیال ہے کہ ہم باہر جائیں کچھ کھانا پینا بھی لے جائیں اور کھیلیں کو دیں تو کیا آپ یوسف کے معاملہ میں ہم پہ اعتبار نہیں کرتے کہ وہ بھی ہمارے ساتھ آئیں خوب کھائیں پئیں اور کھیلیں کو دیں اور ہم ان کی حفاظت ونگہداشت کے ذمہ دار ہیں ، آخرہمارابھائی ہے اور ہمیں بھی اس کی بہتری اور پرورش کا اور اسے خوش رکھنے کا خیال ہے ۔ آپ اسے ضرور ہمارے ساتھ روانہ فرمائیے۔ سیروتفریح اور کھیل کود جس میں کوئی امرخلاف شریعت نہ ہو جائز ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صحت مند سیروتفریح اور کھیل کود جائز ہے بشرطیکہ کوئی بات خلاف شریعت اختیار نہ کی جائے چناچہ مسابقت یعنی دوڑنا یانشانہ بازی یاگھڑدوڑیا کھیلوں کے ایسے مقابلے جن میں شرط نہ لگائی جائے سب جائز ہیں ان کا اہتمام یا ان پر انعام دینے میں حرج نہیں ۔ ہاں ! ریس کی طرح ان پر رقم لگائی جائے تو جو اہونے کے باعث حرام ہے ورنہ صحت مندتفریح سے کوئی ممانعت نہیں احادیث مبارکہ اور سیرت طیبہ میں بھی نہ صرف جواز بلکہ ان کی فضیلت تک ثابت ہے ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بھئی ! میں انھیں جدا بھی نہیں کرنا چاہتا اور دوسری بات یہ بھی بہت فکر مندی کی ہے کہ تم تو کھیل کو دمیں لگ جاؤاور اس نواح میں تو بھیڑیئے بہت ہیں انسانی بچہ تو وہ بہت خوش ہو کر کھاتے ہیں اگر اسے نقصان پہنچائیں یا پکڑلے جائیں تو کیا ہوگا ؟ کہنے لگے ، عجیب بات ہے ہم دس جوان آدمی ایک پورالشکر بنتے ہیں اور ہمارے ہوتے ہوئے اسے بھیڑیاکھالے گا۔ آپ کیسی بات کرتے ہیں اکر ایسا ہو تو پھر ہمارا ہونا کس کام ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ چناچہ ساتھ لے کر چلے کھانے پینے کی اشیاء لے لیں خوب اہتمام کیا اور انھیں کندھے پر اٹھا کر روانہ ہوگئے۔ یعقوب (علیہ السلام) نے بھی کچھ دور تک رخصت فرمایا مگر جب نظروں سے اوجھل ہوئے تو زمین پر پٹک دیا اور لگے طعنے دینے کہ اب اس چاندسورج کو اور گیارہ ستاروں کو بلاؤ جو تمہیں سجدہ کر رہے تھے ۔ نیز جس بھائی کی طرف بڑھتے وہ جھڑک دیتایاتھیڑماردیتا اور کم سنی کے باعث زیادہ چلنا بھی دشوار تھا لہٰذا مارکھاتے چلے جا رہے تھے کہ ایک ویران کنویں پر پہنچے اور سب اسی رائے پہ متفق ہوگئے کہ آپ کو کنویں میں پھینکا جائے ۔ چناچہ ہاتھ وغیرہ باندھ کر کنویں میں لٹکا دیا اور نصف میں پہنچنے پر اوپر سے رسی کاٹ دی تو فورا وحی آئی کہ اے یوسف ! بےفکر رہیئے ایک روزآئے گا کہ تیری عظمت شان کے سامنے یہ آنکھ نہ سکیں گے اور تجھے پہچان بھی نہ پائیں گے کہ تو انھیں اس واقعہ کی یاددلائے گا۔ مفسرین کے مطابق حضرت جبریل (علیہ السلام) نے کنویں میں گرنے سے پہلے تھام کر ایک چٹان پر بٹھان دیا جو آگے کو نکلی ہوئی تھی اور اللہ کی طرف سے آئندہ کے حالات منکشف ہوگئے کہ اگر کنویں کی اتھاہ گہرائی میں گرنا پڑاتو کوئی بات نہیں کہ واقعتا تو یہ راستہ تخت سلطنت مصرکوجاتا ہے اور ایک روز وہاں جلوہ افروزہوں گے جہاں آج کے بظاہرزبردست بھائی کا سہلئے درپہ کھڑے ہوں گے اور آپ انھیں یاددلائیں گے کہ میں وہ یوسف ہوں جسے تم نے کنویں میں پھینکا تھا۔ انبیاء (علیہم السلام) پر قبل نبوت اور غیرنبی پر بھی الہام ثابت ہے صاحب تفسیر مظہری (رح) فرماتے ہیں کہ یہ وحی نبوت کی نہ تھی بلکہ جیسے ام موسیٰ علیھا السلام کو کی گئی ویسی ہی تھی کہ انبیاء علیھم السلام کو نبوت کی شان کے لائق ولایت قبل نبوت بھی حاصل ہوتی ہے کہ نبوت تو چالیس برس کی عمر مبارک میں عطاہوئی جیسے ارشاد ہے فلما بلغ اشدہ اتینہ حکما و علما۔ لہٰذا ا نبی اء علیھم السلام پر قبل نبوت بھی الہام کا ہونا درست ہے اور اسی طرح اولیاء اللہ پر بھی جیسے ام موسیٰ یا حضرت مریم پر ثابت ہے نیز دونوں نے اس پر عمل بھی کیا ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ولی اپنے الہام کا خود تو مکلف ہے دوسرے لوگ مکلف نہیں جبکہ نبی کی وحی کی ساری امت مکلف ہوتی ہے اور دوسرے یہ کہ ولی کو غلطی لگ سکتی ہے نبی کو غلطی نہیں جبکہ مگر ولی کا الہام نبی کی وحی کا محتاج ہوتا ہے اگر اس کے مطابق ہے تو ٹھیک اگر اس کے خلاف ہے تو ولی کو سمجھنے میں غلطی رہی ہے۔ نیز یہ اللہ کی حکمت ہے کہ سارا معاملہ یوسف (علیہ السلام) پر منکشف فرمادیا مگر اسی واقعہ کی یعقوب (علیہ السلام) کی نگاہ سے پوشیدہ رکھا حتی کہ وہ برسوں روتے رہے اور بعض روایات کے مطابق یوسف (علیہ السلام) کی جنگل روانگی سے یعقوب (علیہ السلام) کی ملاقات تک چالیس برس گزرچکے تھے ۔ انبیاء (علیہم السلام) کے علوم بھی اللہ کی عطا کے محتاج ہوتے ہیں ۔ چاہے تو دوعالم منکشف فرمادے اور نہ چاہے تو سامنے کی بات پہ بھی حجاب ڈال دے ۔ مولوی رومی حمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے ؎ کسے پر سید آں گم کردہ فرزند اے روشن گہر ! پیرخرد مند زمصرش بوئے پیراہن شمیدی چرادر چاہ کنعانش ندیدی بگفت احوال مابرق جہاں است دم پیدادم دیگرنہاں است گہے برطارم اعلیٰ نشینم گہے برپشت پائے خود نہ بینم کہ کسی نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے پوچھا کہ آپ نے مصر سے قاصد کے روانہ ہونے پر پیراہن کی بوسونگھ لی مگر کنعان کے کنویں میں یوسف (علیہ السلام) کا پتہ نہ چلا سکے تو فرمایا ہمارا حال تو آسمانی بجلی کا سا ہے کہ کبھی عرش تک ہر ذرہ منکشف ہوجائے اور دوسرے لمحے اپنے پاؤں کی پشت بھی نظرنہ آئے ۔ یعنی جو اللہ دکھادیں وہ دیکھتے ہیں اور جس سے روک دیں وہ نظر نہیں آتا حتی کہ جیل کے بعد یوسف (علیہ السلام) کے پاس حکومت اور اختیار رات بھی تھے مگر اللہ نے والد کو اطلاع کرنے کی اجازت نہ دی تو انھوں نے مصر سے کرتہ روانہ کیا تو ہوانے خوشبو کنعان پہنچادی ۔ یہ سب اس کی قدرت کا ملہ کے کرشمے ہیں اور صرف اس کی ذات عالم الغیب والشہادہ ہے باقی ساری مخلوق اس کی بارگاہ میں محتاج ہے اور انبیاء اپنی ساری عظمت نبوت کے ساتھ دوسرے لوگوں سے کروڑوں درجہ زیادہ حق اطاعت ادا فرماتے ہیں ۔ چنانچہ یوسف (علیہ السلام) تین روز کنویں میں رہے ادھر بھائیوں نے آپ کا کرتہ اتار کر اسے بکرے کے خون میں تر کرلیا اور عشاء کے وقت روتے پیٹتے اپنے والدبزرگوار کی خدمت میں پہنچے جو بےتابی سے بیٹے کا انتظار فرما رہے تھے شورسن کر باہر تشریف لائے تو کہنے لگے کہ ہم تو مقابلہ میں دوڑلگا اور دورنکل گئے اور یوسف (علیہ السلام) سامان کے پاس بیٹھے تھے کہ انھیں بھیڑیئے نے کھالیا ۔ آپ کی یوسف (علیہ السلام) سے والہانہ محبت بھلاہماری بات پہ آپ کو کب یقین کرنے دے گی ۔ مگر اصل بات یہی ہے اور یہ دیکھئے خون آلود کرتہ جو ہم اٹھالائے ہیں ۔ بزرگوں کے آثار کی برکات آپ نے کرتہ کو ملاخطہ فرمایا تو وہ پھٹا ہوا نہ تھا ۔ آپ نے فرمایا عجیب بھیڑیا تھا کہ کوئی ہڈی پسلی یا بچاکھچا ٹکڑابدن کا نہ چھوڑا۔ اور سب کھا گیا مگر کرتے سے یوسف کو ایسنے نکالا کہ پھٹنے نہ دیا ۔ خون سے تو بھرگیا مگر رہا سالم ہی۔ یہ سب تمہارے نفس کی گھڑی ہوئی بات ہے کہ آثار بھی اس کے خلاف گواہی دے رہے ہیں ۔ یہاں صاحب معارف القرآن نے استدلال فرمایا ہے کہ قاضی کو آثار اور حالات سے بھی جانچناچاہیئے کہ کون فریق سچا ہے ۔ نیز یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ بزرگوں کے آثار میں کس قدربرکات ہوتی ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) کے کرتے نے تین مقامات پر عجیب کام کئے اول بھائیوں نے باپ کو دھوکہ دینا چاہا تو کرتے کی شہادت سے ان کا جھوٹ پکڑا گیا ۔ عزیز مصر کی بیوی نے تہمت لگائی تو آپ کے کرتہ کی شہادت سے جھوٹی ثابت ہوئی اور خوشخبری دینے والا آپ کا کرتہ لایا تو یعقوب (علیہ السلام) کی بنیائی واپس آگئی ایسے ہی سیدئہ کائنات حبیبہ حبیب کبریا حضرت عائشہ الصدیقہ (رض) کے دوپٹہ سے تین عظیم واقعات وابستہ ہیں کہ اسلام اور کفر کا اولین معرکہ جو اس کی قدرت کاملہ کے کرشمے ہیں ۔ دنیا میں کچھ بھی اتفاقا نہیں ہوتا اگرچہ ہماری نگاہ اس تک نہ پہنچ جائے چناچہ قافلے والے ادھرآنکلے کیمپ لگایا اور اپنا آدمی پانی لانے کو بھیجا وہ اسی ویران کنویں پر پہنچا مفسرین نے اس کا نام مالک بن وعبرلکھا ہے ۔ ادھر یہودا جو آپ کا بھائی تھا تین روز سے تھوڑابہت کھانا بھی کنویں پہ پہنچا دیتا اور حال کی اطلاع بھی رکھتا ادھر س نے ڈول ڈالا تو آپ اللہ کے حکم سے ڈول میں سوار ہوگئے ۔ اس نے بڑازور لگا کرکھینچا۔ حیران تھا کہ وزنی کیوں ہے ۔ ڈول اوپر آیا تو جمال یوسف سے پھر اس قدرخوبصورت بچہ تونری دولت ہے ۔ اسے تو کوئی باد شاہ ہی خرید سکے گا۔ اس نے فورا چھپالیا کہ قافلے میں بھی کسی کو پتہ نہ چلے اور نہ اس کے کوئی وارث جان سکیں ۔ مگر یہود انے بھائیوں کو خبر کی تو وہ بھی آگئے ۔ چناچہ قافلہ میں تحقیق کرکے برآمد کرلیا کہ یہ تو ہمارا بھاگا ہوا غلام ہے مگر ہمیں اب اس سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ زاہد ، زہد سے مشتق ہے کہ کوئی رغیبت نہ ہو۔ چناچہ انھوں نے بہت تھوڑے سے دراہم کے بدلے بیچ دیا کہ عرب چالیس تک کنتی کرتے تھے اگر اس سے زیادہ رقم ہوتی تو اس کا وزن شمار ہوتا تھا لہٰذا انھوں نے چالیس یا اس سے کم دراہم پربیچ دیا ۔ بعض روایات ہیں ہے کہ بیس دراہم پر بیچا اور دودرہم فی کس بانٹ لئے لیکن قافلے والے ہوں یا بھائی سب کے کردار سے اللہ کریم تو بخوبی واقف تھے ۔ قافلے والے سمجھ رہے تھے کہ ہم نے بہت نفع کمایا بھائیوں کا خیال تھا ہمارا مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہوگیا اور راستے کا یہ کانٹا نکل گیا ۔ مگر رب جلیل جانتے ہیں کہ اللہ کا نبی اور محبوب کس منزل کو رواں ہے کتنی روحانی بلندیاں اور کتنی دنیاوی عظمتیں اس کی راہ دیکھ رہی ہیں ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 7 تا 01 کان (ہے۔ تھا) السائلین (پوچھنے والے) احب (زیادہ محبوب ہے) عصبۃ (جماعت۔ قوت) ضلل (گمراہ۔ بھٹکنا) اقتلوا (قتل کردو) اطرحوا (ڈال دو ۔ پھینک دو ) یخل (خاص ہوجائے۔ خالی ہوجائے) وجھ (چہرہ) قائل (کہنے والا) القوہ (اس کو ڈال آؤ) غیبت (گہرا۔ اندھا) الجب (کنواں) یلتقت (اٹھا لے گا) السیارۃ (قافلہ) فعلین (کرنے والے) تشریح آیت نمبر 7 تا 01 دیکھا گیا ہے کہ ماں باپ اور دنیا کے دوسرے لوگوں کا رویہ بڑا مختلف ہوتا ہے۔ لوگ دنیا میں اس شخص کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں جو طاقت ور ہوتے ہیں لیکن ماں باپ اولاد میں سے ان بچوں کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں جو چھوٹے اور کمزور ہوں۔ حضرت یعقوب کے گھرانے میں بھی یہی فرق تھا۔ حضرت یعقوب نے سب سے پہلے حضرت لیا سے شادی کی جن کے بطن سے دس اولاد پیدا ہوئی حضرت لیا کے انتقال کے بعد حضرت یعقوب نے دوسری شادی کی جن سے حضرت یوسف اور ان کے چھوٹے بھائی بن یا مین پیدا ہوئے حضرت یعقوب کے دس بڑے بیٹے نہایت تنومند اور لمبے چوڑے تھے اور جوان ہوچکے تھے جب کہ حضرت یوسف اور بن یا مین بہت چھوٹے تھے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ ماں باپ کو ساری اولاد سے یکساں پیار ہوتا ہے مگر چھوٹے اور کمزور بچوں سے قدرتی لگاؤ ہوتا ہے جس کو دوسرے بھائی یہ محسوس کرتے ہیں کہ شاید ہمارے والد ہم سے محبت نہیں کرتے اور چھوٹے بچوں کو بہت چاہتے ہیں۔ حضرت یوسف کے بڑے سوتیلے بھائی ان سے حسد کرنے لگے۔ ایک دن آپس میں کہنے لگے کہ ہمارے والد کو جتنی محبت حضرت یوسف اور بن یا میں سے ہم سے نہیں ہے حالانکہ ہم ایک جتھا، طاقت اور قوت ہیں۔ ہماری تعداد بھی زیادہ ہے ہم جو راحت و آرام والدین کو پہناچا سکتے ہیں ہمارے چھوٹے بھائی نہیں پہنچا سکتے۔ اس تصور نے ان کے حسد کی آگ کو اور بھی بھڑکا دیا اور یہ مشروہ کیا کہ اگر ہم کسی طرح یوسف کو والد کی نگاہوں سے دور کردیں، ان کو قتل کردیں یا کہیں ایسی جگہ پھینک آئیں جہاں سے وہ واپس نہ آسکیں تو اس طرح ہم اپنے والد کی محبت کو اپنے لئے خاص کرلیں گے۔ کسی نے کہا کہ یوسف کو قتل کردیا جائے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ اس کو کسی ویرانے میں چھوڑ دیا جائے تاکہ وہاں سے واپس نہ آسکے۔ ایک بھائی نے مشورہ دیا کہ نہ تو حضرت یوسف کو قتل کیا جائے نہ کسی ویرانے میں چھوڑا جائے بلکہ کسی غیر آباد اندھے کنوئیں میں ڈالا جائے۔ اگر زندہ بچ گیا تو کوئی قافلہ اس کو اپنا غلام بنا کر دور دراز کے علاقے میں لے جائے گا۔ اسط رح کچھ دن کے بعد والد رو دھو کر صبر کرلیں گے۔ سب بھائیوں نے اس تجویز پر اتفاق کرلیا اور سب جمع ہو کر اپنے والد حضرت یعقوب کے پاس پہنچ گئے۔ اس کی تفصیل اس کے بعد کی آیات میں بیان کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حسد اتنی بڑی خرابی ہے جو انسان کو اس سے غافل کردیتی ہے کہ اس کے سامنے کون ہے۔ اس کی نگاہوں سے سگے سوتیلے کا فرق بھی مٹ جاتا ہے۔ اس لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اے لوگو ! حسد سے بچو ! حسد انسان کے نیک اعمال کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس برائی سے محفوظ فرمائے آمین۔ جس طرح برادران یوسف نے حسد کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت یوسف کو راستے سے ہٹانے کی تدبیروں پر غور و فکر کیا بالکل اسی طرح کفار مکہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بغض و حسد اور اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو راستے سے ہٹانے کے لئے باہمی مشورہ کیا اور طے کیا کہ کہ آپ کو (نعوذ باللہ) قتل کردیا جائے۔ حضرت عمر جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے انہوں نے یہ ذمہ لیا کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کردیں گے اس ارادے سے چل پڑے لیکن اللہ نے حضرت عمر فاروق کو ایمان کی دولت سے مالا مال فرما دیا اور وہ جس ارادے سے چلے تھے کہ دنیا سے آپ کو مٹا دیا جائے ایمان سے سرفراز ہونے کے بعد حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سب سے بڑے حامی بن گئے۔ بہرحال کفار مکہ نے برادران یوسف کی طرح آپ کو راستے سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی۔ ان آیات میں اللہ نے کفار مکہ کو یہ بتادیا کہ انسان ایک حد تک سوچ سکتا ہے لیکن جب اللہ کی خفیہ تدبیر ہوتی ہے تو انسان کے سارے ارادے خاک میں مل جاتے ہیں۔ جس بات اور عمل سے وہ دوسروں کو گرانے اور حسد کرنے کی کوشش کرتا ہے وہی اس کی سربلندی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یوسف (علیہ السلام) کو ایسی بےکسی اور بےبسی سے اس سلطنت و رفعت کو پہنچا دینا یہ خدا ہی کا کام تھا اس سے مسلمانوں کو جو کہ کسی قصہ کے خواہاں تھے عبرت اور قوت ایمان حاصل ہوگی اور یہود کو کہ انہوں نے خصوصیت کے ساتھ یہ قصہ پوچھا تھا دلیل نبوت مل سکتی ہے اگر غور کریں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اے اہل مکہ جس واقعہ کے بارے میں تم نے سوال کیا ہے۔ اس کو واقعہ برائے واقعہ کے طور پر سننے کی بجائے اسے سبق آموزی اور عبرت حاصل کرنے کے لیے سنو۔ اس سورة کے تعارف میں عرض کیا ہے کہ اہل مکہ نے حسب عادت رسول معظم کو لاجواب اور پریشان کرنے کے لیے سوال کیا تھا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کنعان میں رہائش پذیر تھے۔ ان کا بیٹا یوسف کس طرح مصر کا حکمران بنا۔ اور بنی اسرائیل کیونکہ مصر پہنچے ؟ اس سوال کا تفصیلی جواب دینے سے پہلے اہل مکہ کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے متعلق تم نے جو سوال کیا ہے۔ اگر تم اس کے جواب پر غور کرو تو تمہارے لیے اس واقعہ کی ایک ایک کڑی میں راہنمائی اور بےانتہا سامان عبرت موجود ہے۔ ١۔ جس طرح یوسف (علیہ السلام) کے بھائی سوتیلا پن اور اپنے بھائی یوسف کی صلاحیتوں کو دیکھ کر ان کے مخالف ہوئے تھے۔ اسی طرح تم حسد و بغض میں آکر اپنے بھائی یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت پر کمربستہ ہوچکے ہو۔ ٢۔ جس طرح یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کی مخالفت اور سازش اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی تھی ایسے ہی تمہاری مخالفت اور سازشیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گی۔ ٣۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں نے اپنی طرف سے ختم کرنے کی پوری کوشش کی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں مامون اور محفوظ فرمایا۔ اسی طرح تم بھی رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ختم کرنے کے درپے ہو جس میں تم کبھی کامیاب نہیں ہوپاؤ گے۔ ٤۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا گھر سے نکلنا ان کے عروج و اقبال کا ذریعہ بنا تھا۔ تم بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکالنا چاہتے ہو لیکن یاد رکھو یوسف (علیہ السلام) سے کئی گنا زیادہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت ان کے عروج و اقبال کا زینہ ثابت ہوگی۔ ٥۔ جس طرح یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے مجبور اور لاچار ہو کر یوسف (علیہ السلام) کے سامنے دست سوال پھیلایا تھا وقت آئے گا کہ تمہیں بھی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے دست سوال پھیلانا پڑے گا۔ ٦۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے بالآخر اس سے معافی کی درخواست کی تھی۔ یہ وقت بھی آکر رہے گا کہ تم رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے نہایت عاجزی کے ساتھ معافی کے خواستگار ہو گے۔ ٧۔ یوسف (علیہ السلام) ملک مصر کے حکمران بنے تھے۔ ان کے بعد ان کی اولاد یعنی بنی اسرائیل ایک مدت تک مصر میں حکمرانی کرتے رہے۔ جس رسول کی مخالفت میں تم ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہو عنقریب وقت آنے والا ہے کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متبعین کی پوری دنیا میں عزت اور حکمرانی کا پھریرا بلند ہوگا۔ فضول سوال سے بچنا چاہیے : سوال کرتے وقت اس چیز کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ فضول قسم کا سوال نہ کیا جائے اس سے اللہ تعالیٰ نے مومنین کو منع فرمایا ہے۔ (یَآأَیُّہَا الَّذِیْنَ اَمَنُوْا لَا تَسْأَلُوْا عَنْ أَشْیَآءَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوْا عَنْہَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَکُمْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہَا وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۔ قَدْ سَأَلَہَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ أَصْبَحُوْا بِہَا کَافِرِیْنَ )[ المائدۃ : ١٠١۔ ١٠٢] ” اے ایمان والو ! ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جب قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں گی۔ اللہ نے ان سے درگزر فرمایا اور اللہ خوب بخشنے والا نہایت بردبار ہے۔ تم سے پہلے ان کے بارے میں کچھ لوگ سوال کرچکے، پھر وہ ان سے منکر ہوگئے۔ “ مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے واقعہ میں نشانیاں ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے بیان کردہ واقعات سے عبرت حاصل کرنی چاہیے : ١۔ حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے قصہ میں پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (یوسف : ٧) ٢۔ انبیاء کے قصے برحق ہیں مومنین کے لیے اس میں نصیحت ہے۔ (ھود : ١٢٠) ٣۔ یہ قصے برحق ہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ (آل عمران : ٦٢) ٤۔ حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے قصے میں عقل مندوں کے لیے عبرت ہے۔ (یوسف : ١١١) ٥۔ انبیاء کے واقعات میں نبی کریم اور آپ کے تابع داروں کے لیے تسلی کا سامان ہے۔ ( ہود : ١٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب پردہ گرا ہے ، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ ایک دوسرا منظر سامنے آتا ہے۔ برادران یوسف اس میں متحرک نظر آتے ہیں۔ ان کی حرکات سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ اہم واقعات پیش آنے والے ہیں۔ لَقَدْ كَانَ فِيْ يُوْسُفَ الخ : حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے قصے میں بہت سی آیات اور نشانیاں ہیں اور ان کے ذریعہ انسان بڑے حقائق تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ افتتاحیہ کلمات قارئین کو متوجہ متنبہ اور بات کی اہمیت کی تحریک کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ کلمات اس طرح ہیں جس طرح اسٹیج پر سے پردہ گرا دیا جاتا ہے اور اسٹیج کے اوپر جو کچھ ہوتا ہے ، وہ سامنے نظر آنے لگتا ہے کیونکہ ان کلمات کے بعد متصلاً برادران یوسف بات کرتے نظر آتے ہیں اور وہ اس مکالمے میں یوسف کے خلاف سازش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کیا یہاں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کے سامنے اپنا خواب بیان کردیا تھا جیسا کہ کتاب عہد قدیم کہتی ہے یا نہیں ، یہاں سیاق کلام سے ایسی کوئی بات معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ان کا الزام یہ ہے کہ حضرت یعقوب یوسف اور ان کے سگے بھائی سے زیادہ محبت کیوں کرتے ہیں۔ اگر ان کو معلوم ہوتا کہ حضرت یوسف نے خواب دیکھا ہے تو ان کی زبان سے اس کا ذکر ضرور ہوجاتا۔ اور یوں وہ کینہ پروری اور حقد و حسد کے لیے معذور بھی ہوتے ، اس لیے کہ حضرت یعقوب نے یوسف کو خواب کو پوشیدہ رکھنے کا جو مشورہ دیا تھا تو محض اسی لیے دیا تھا کہ آپ کو دوسرے حالات کے پیش نظر معلوم تھا کہ وہ جل بھن اٹھیں گے اور اس حسد اور کینے واقع تو ہونا ہی تھا کیونکہ اس بھٹی سے گزر کر ہی حضرت یوسف نے اپنے مقررہ مقام تک پہنچنا تھا۔ ان کی زندگی کے حالات ، ان کے خاندانی حالات اور پھر ان کا حضرت یعقوب کے بڑھاپے میں پیدا ہونا ، چھوٹا ہونا ، کین کہ بڑھاپے میں چھوٹے بچوں کے ساتھ بہت پیار ہوتا ہے ، خصوصا جبکہ چھوٹے بچے سوتیلی اور چھوٹی ماں کے ہوں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9:۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے اس قصے میں سوال کرنیوالوں کے لیے عبرت اور اطمینان کی نشانیاں ہیں۔ سائلین سے یا تو وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے یہود مدینہ کے کہنے پرحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی آل و اولاد ملک شام سے مصر میں کس طرح منتقل ہوئی۔ اس طرح یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر بہت بڑی دلیل ہے کہ آپ نے وحی کے ذریعے یہ قصہ پورا پورا صحیح تفصیلات کے ساتھ بیان فرما دیا۔ یا سائلین سے معترضین مراد ہیں جو توحید پر اعتراض کرتے تھے اس قصے میں ان کے لیے بھی بہت بڑی عبرت و نصیحت ہے کیونکہ قصے کی ہر کڑی سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نبی، ولی یا فرشتہ عالم الغیب، متصرف و مختار اور کارساز نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

7 بلاشہ یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے قصے میں ان لوگوں کے لئے آپ کی نبوت کے بڑے دلائل ہیں جو اس واقعہ سے متعلق آپ سے سوال کرنیوالے اور پوچھنے والے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں نقل ہے کہ قریش نے یہود سے کہا کہ کچھ بتائو کہ ہم محمد (علیہ السلام) سے پوچھیں سچ آزمانے کو کہا کہ پوچھو کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا وطن شام ہے اس کی اولاد بنی اسرائیل مصر میں کیوں کر آئی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو فرکون سے قضیہ ہوا یہ سورت اتری فرمایا کہ پوچھنے والوں کو نشانیاں ہیں قریش کو یہ ! ایک بھائی کا حسد کیا اطاعت قبول نہ کی آخر اللہ نے اس کی طرف محتاج کیا اور اسی طرح یہود وحسد کرکے خراب ہوئے اور قریش نے بھائی کو وطن سے نکالا وہی اس کا عروج ہوا 12 خلاصہ ! یہ کہ یہود کے سکھانے سے قریش نے دریافت کیا اللہ نے مصر میں پہونچنے کے اسباب بتائے جس سے معلوم ہوا کہ حاسدوں کو اللہ تعالیٰ ذلیل کرتا ہے اور جو کام اس کو منظور ہوتا ہے وہ ہوکر رہتا ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر یہ سورت دلیل ہے اور آخر الزمان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر بھی اس لئے فرمایا ہے ایت للسائلین یعنی پوچھنے والوں کیلئے اس قصے میں بڑی نشانیاں ہیں۔