Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 78

سورة يوسف

قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الۡعَزِیۡزُ اِنَّ لَہٗۤ اَبًا شَیۡخًا کَبِیۡرًا فَخُذۡ اَحَدَنَا مَکَانَہٗ ۚ اِنَّا نَرٰىکَ مِنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۷۸﴾

They said, "O 'Azeez, indeed he has a father [who is] an old man, so take one of us in place of him. Indeed, we see you as a doer of good."

انہوں نے کہا اے عزیز مصر! اس کے والد بہت بڑی عمر کے بالکل بوڑھے شخص ہیں آپ اس کے بدلے ہم میں سے کسی کو لے لیجئے ، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ بڑے نیک نفس ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yusuf's Brothers offer taking One of Them instead of Binyamin as a Slave, Yusuf rejects the Offer When it was decided that Binyamin was to be taken and kept with Yusuf according to the law they adhered by, Yusuf's brothers started requesting clemency and raising compassion in his heart for them, قَالُواْ يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا ... They said, "O Aziz! Verily, he has an old father..." who loves him very much and is comforted by his presence from the son that he lost, ... فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ ... so take one of us in his place. instead of Binyamin to remain with you, ... إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ Indeed we think that you are one of the doers of good. the good doers, just, and accepting fairness.

جب بنیامین کے پاس سے شاہی مال برآمد ہوا اور ان کے اپنے اقرار کے مطابق وہ شاہی قیدی ٹھر چکے تو اب انہیں رنج ہونے لگا ۔ عزیز مصر کو پرچانے لگے اور اسے رحم دلانے کے لئے کہا کہ ان کے والد ان کے بڑے ہی دلدادہ ہیں ۔ ضعیف اور بوڑھے شخض ہیں ۔ ان کا ایک سگا بھائی پہلے ہی گم ہو چکا ہے ۔ جس کے صدمے سے وہ پہلے ہی سے چور ہیں اب جو یہ سنیں گے تو ڈر ہے کہ زندہ نہ بچ سکیں ۔ آپ ہم میں سے کسی کو ان کے قائم مقام اپنے پاس رکھ لیں اور اسے چھوڑ دیں آپ بڑے محسن ہیں ، اتنی عرض ہماری قبول فرما لیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھلا یہ سنگدلی اور ظلم کیسے ہو سکتا ہے کہ کرے کوئی بھرے کوئی ۔ چور کو روکا جائے گا نہ کہ شاہ کو ناکردہ گناہ کو سزا دینا اور گنہگار کو چھور دینا یہ تو صریح ناانصافی اور بدسلوکی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

78۔ 1 حضرت یوسف کو عزیز مصر اس لئے کہا کہ اس وقت اصل اختیارات حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ہی پاس تھے، بادشاہ صرف برائے نام فرمانروائے مصر تھا۔ 78۔ 2 باپ تو یقینا بوڑھے ہی تھے، لیکن یہاں ان کا اصل مقصد بنیامین کو چھڑانا تھا۔ ان کے ذہن میں وہی یوسف (علیہ السلام) والی بات تھی کہ کہیں ہمیں پھر دوبارہ بنیامین کے بغیر باپ کے پاس جانا پڑے اور باپ ہم سے کہیں کہ تم نے میرے بنیامین کو بھی یوسف (علیہ السلام) کی طرح کہیں گم کردیا۔ اس لئے یوسف (علیہ السلام) کے احسانات کے حوالے سے یہ بات کی کہ شاید وہ یہ احسان بھی کردیں کہ بنیامین کو چھوڑ دیں اور اس کی جگہ کسی اور بھائی کو رکھ لیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ اِنَّ لَهٗٓ اَبًا ۔۔ : اس کا باپ بہت بوڑھا ہے، وہ اس کی جدائی برداشت نہیں کرسکے گا، پہلے بھی آپ نے ہم پر بہت سے احسان کیے ہیں، بس اب اتنا احسان اور کردیں کہ ہم میں سے کسی ایک کو اس کے بجائے رکھ لیں، امید ہے کہ آپ ہمیں اپنے کرم سے مایوس نہیں کریں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 78, it was said: قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرً‌ا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ ۖ إِنَّا نَرَ‌اكَ مِنَ الْمُحْسِنِين . It means when the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) realized that nothing seems to be working here and they have no option left but to leave Benyamin behind, they started flattering the ` Aziz of Misr. They told him that Benyamin&s father was very old and weak (his separation will be unbearable for him). Therefore, they requested him that he should detain anyone from among them, in lieu of him. They also told him that they were making that request to him in the hope that he, as they feel, appears to be a very generous person - or, he has been gener-ous to them earlier too.

(آیت) قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ اِنَّ لَهٗٓ اَبًا شَيْخًا كَبِيْرًا فَخُذْ اَحَدَنَا مَكَانَهٗ ۚ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ برداران یوسف نے جب دیکھا کہ کوئی بات چلتی نہیں اور بنیامین کو یہاں چھوڑنے کے سوا چارہ نہیں تو عزیز مصر کی خوشامد شروع کی اور یہ درخواست کی کہ اس کے والد بہت بوڑھے ہیں اور ضعیف ہیں (اس کی مفارقت ان سے برداشت نہ ہوگی) اس لئے آپ اس کے بدلے میں ہم میں سے کسی کو گرفتار کرلیں یہ درخواست آپ سے ہم اس امید پر کر رہے ہیں کہ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ بہت احساس کرنے والے ہیں یا یہ کہ آپ نے اس سے پہلے بھی ہمارے ساتھ احسان کا سلوک فرمایا ہے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ اِنَّ لَهٗٓ اَبًا شَيْخًا كَبِيْرًا فَخُذْ اَحَدَنَا مَكَانَهٗ ۚ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ 78؀ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزۃ العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) شيخ يقال لمن طعن في السّنّ : الشَّيْخُ ، وقد يعبّر به فيما بيننا عمّن يكثر علمه، لما کان من شأن الشَّيْخِ أن يكثر تجاربه ومعارفه، ويقال : شَيْخٌ بيّن الشَّيْخُوخَةُ ، والشَّيْخُ ، والتَّشْيِيخُ. قال اللہ تعالی: هذا بَعْلِي شَيْخاً [هود/ 72] ، وَأَبُونا شَيْخٌ كَبِيرٌ [ القصص/ 23] . ( ش ی خ ) الشیخ کے معنی معمر آدمی کے ہیں عمر رسید ہ آدمی کے چونکہ تجربات اور معارف زیادہ ہوتے ہیں اس مناسب سے کثیر العلم شخص کو بھی شیخ کہہ دیا جاتا ہے ۔ محاورہ شیخ بین الشیوخۃ والشیخ ولتیشخ یعنی وہ بہت بڑا عالم ہے قرآن میں ہے : ۔ هذا بَعْلِي شَيْخاً [هود/ 72] یہ میرے میاں ( بھی بوڑھے ہیں وَأَبُونا شَيْخٌ كَبِيرٌ [ القصص/ 23] . ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٨) جب بھائیوں نے دیکھا کہ انہوں نے بنیامین کو روک لیا ہے تو خوشامد کرنے لگے کہ ان کا بوڑھا باپ ہے اگر بنیامین کو ہم لے جائیں گے تو وہ خوش ہوگا سو اس کی جگہ آپ ہم میں سے ایک کو بطور ضمانت رکھ لیجئے اگر آپ ایسا کرلیں تو ہم پر آپ کا بڑا احسان ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ ) یہ صورت حال ان لوگوں کے لیے بہت پریشان کن تھی۔ باپ کا اعتماد وہ پہلے ہی کھو چکے تھے۔ اس دفعہ اللہ کے نام پر عہد کر کے بن یامین کو اپنے ساتھ لائے تھے۔ اب خیال آتا تھا کہ اگر اسے یہاں چھوڑ کر واپس جاتے ہیں تو والد کو جا کر کیا منہ دکھائیں گے۔ چناچہ وہ گڑ گڑانے پر آگئے اور حضرت یوسف کی منت سماجت کرنے لگے کہ آپ بہت شریف اور نیک انسان ہیں ‘ آپ ہم میں سے کسی ایک کو اس کی جگہ اپنے پاس رکھ لیں مگر اس کو جانے دیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

62. The use of the title Al-Aziz, ruler of the land, with which they addressed Prophet Joseph has given rise to the confusion that he held the same office as the husband of Zuleikha held before him. Then this misunderstanding let the commentators to the invention of further comments, such as. Al-Aziz had died and Prophet Joseph was appointed in his place, and Zuleikha was rejuvenated by a miracle and was married to him by the king. They have not stopped at this. They have, somehow or other, discovered even the conversation that took place between Prophet Joseph and Zuleikha in the first night of their marriage. In fact, all this is mere fiction, for, as has already been pointed out, the word Al-Aziz was the Arabic translation or equivalent of some Egyptian title, and was not the designation of any particular office. It was merely a title used for the high ones in Egypt like “His Excellency” or “Your Excellency”, etc. As regards to the said marriage, this fiction has been built on the story of Prophet Joseph’s marriage in the Bible and the Talmud. According to these, he was married with Asenath, the daughter of Poti-pherah. As the name of the husband of Zuleikha was Potiphar, the two names got confused together. Accordingly, when the story was handed down from the traditions of the Israelites from one commentator to the other, the name Potiphar got interchanged with Poti-pherah because the two were so like each other in sound. Consequently, the daughter in the story was replaced by wife. Then Potiphar was killed in order to facilitate the marriage. Then the only remaining difficulty, that is, the disparity of their ages, was gotten over with the help of a miracle. She was rejuvenated so completely as to enable her to become the worthy wife of the ruler of the land.

٦۲ ۔ یہاں لفظ عزیز حضرت یوسف کے لیے جو استعمال ہوا ہے صرف اس کی بنا پر مفسرین نے قیاس کرلیا کہ حضرت یوسف اسی منصب پر مامور ہوئے تھے جس پر اس سے پہلے زلیخا کا شوہر مامور تھا پھر اس پر مزید قیاسات کی عمارت کھڑی کرلی گئی کہ سابق عزیز مرگیا تھا ، حضرت یوسف اس کی جگہ مقرر کیے گئے ، زلیخا ازسر نو معجزے کے ذریعہ سے جوان کی گئی ، اور شاہ مصر نے اس سے حضرت یوسف کا نکاح کردیا ۔ حد یہ ہے کہ شب عروسی میں حضرت یوسف اور زلیخا کے درمیان جو باتیں ہوئیں وہ تک کسی ذریعہ سے ہمارے مفسرین کو پہنچ گئیں ۔ حالانکہ یہ سب باتیں سراسر وہم ہیں ، لفظ عزیز کے متعلق ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ یہ مصر میں کسی خاص منصب کا نام نہ تھا بلکہ محض صاحب اقتدار کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے ۔ غالبا مصر میں بڑے لوگوں کے لیے اس طرح کا کوئی لفظ اصطلاحا رائج تھا جیسے ہمارے ملک میں لفظ سرکار بولا جاتا ہے ، اسی کا ترجمہ قرآن میں عزیز کیا گیا ہے ۔ رہا زلیخا سے حضرت یوسف کا نکاح ، تو اس افسانے کی بنیاد صڑف یہ ہے کہ بائیبل اور تلمود میں فوطیفرع کی بیٹی آسناتھ سے ان کے نکاح کی روایت بیان کی گئی ہے ۔ اور زلیخا کے شوہر کا نام فوطیفار تھا ، یہ چیزیں اسرائیلی روایات سے نقل در نقل ہوتی ہوئی مفسرین تک پہنچیں اور جیسا کہ زبانی افواہوں کا قاعدہ ہے ، فوطیفرع بآسانی فوطیفار بن گیا ، بیٹی کی جگہ بیوی کو مل گئی اور بیوی لا محالہ زلیخا ہی تھی ، لہذا اس سے حضرت یوسف کا نکاح کرنے کے لیے فوطیفار کو مار دیا گیا ، اور اس طرح یوسف زلیخا کی تصنیف مکمل ہوگئی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٨۔ ٧٩۔ جب یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے دیکھا کہ اب بنیامین کو عزیز مصر نہیں چھوڑے گا تو بہت گھبرائے کیونکہ باپ سے وعدہ کر کے آئے تھے کہ ہم ہرگز کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھیں گے جس طرح ہوگا بنیامین کو ضرور اپنے ساتھ واپس لائیں گے مگر یہاں معاملہ برعکس ہوا کہ بنیامین پر چوری ثابت ہوئی اور ان کے دین کے موافق بنیامین عزیز مصر کا ایک برس تک غلام ہوچکا اس لئے گڑ گڑانے لگے اور نہایت ہی عاجزی و منت سے کہا کہ اے عزیز مصر ہماری ایک بات سن لو ہمارے باپ بہت ہی بوڑھے ہیں اور کل لڑکوں میں اسی چھوٹے لڑکے کو زیادہ چاہتے ہیں اس کے بغیر انہیں آرام نہیں اس کی جدائی کی تاب وہ ہرگز نہیں لاسکتے اس واسطے اگر آپ اپنے کرم اور اخلاق سے ہم میں سے کسی ایک کو اس کی جگہ رکھ لیں اور اس کو چھوڑ دیں تو بہتر ہوگا اور بہت ہی بڑا احسان آپ کا ہمارے اوپر ہوگا اور ہم آپ کو نیکو کار مرد بزرگ دیکھتے ہیں ضرور ہمارے مدعا کو پورا کریں گے کیوں کہ ہمیں یقین ہے کہ ہم میں سے کسی ایک کی جدائی باپ کو اتنا رنج نہیں پہنچائے گی جتنا چھوٹے بھائی کے فراق سے انہیں غم اور ملال ہوگا یہ بات یوسف (علیہ السلام) نے سن کر یہ جواب دیا کہ یہ بڑے بےانصافی کی بات ہے کہ جس کے سامان میں پیمانہ نکلا ہے اس کی جگہ کسی اور کو رکھا جائے یوسف (علیہ السلام) نے یہاں پر پہلو بچا کر گفتگو کی یوں نہیں کہا کہ جس نے چوری کی ہے اس کو روک رکھیں گے بلکہ یوں کہا کہ جس کے سامان میں چوری کا برتن نکلا ہے اسی کو روک رکھیں گے یوسف (علیہ السلام) نے یہ پہلو اس لئے بچایا کہ ان کے سوتیلے بھائیوں کو تو چور کہا جاسکتا تھا کہ ان سوتیلے بھائیوں نے باپ کی چوری سے ایک بھائی کو بیچ ڈالا بنیامین کو چور کہنے کا کوئی سبب نہیں تھا کیوں کہ بنیامین کے کجاوہ میں وہ پیمانہ حیلہ کے طور پر خود یوسف (علیہ السلام) نے رکھوادیا تھا۔ معتبر سند سے ترمذی اور ابن ماجہ میں سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دنیا میں سب سے بڑھ کر مصیبت انبیاء پر پڑا کرتی ہے ١ ؎ تاکہ وہ اس مصیبت پر صبر کریں اور عقبی میں اس کا اجر پاویں اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) پر پہلے یوسف (علیہ السلام) کی جدائی کی اور پھر بنیامین کی جدائی کی مصیبت اس لئے پڑی کہ وہ اس مصیبت پر صبر کریں اور اس کا اجر عقبیٰ میں ان کو ملے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی حدیث گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ظلم اللہ تعالیٰ کو بہت ناپسند ہے اس لئے اس نے ظلم کو اپنی ذات پاک پر بھی حرام ٹھہرا لیا ہے اور اپنے بندوں کو بھی ظلم کی مناہی فرمائی ہے۔ ٢ ؎ یہ حدیث آخر آیت کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بنیامین کی جگہ کسی دوسرے بےقصور کو غلام بنا کر رکھ لینا ظلم تھا اور ظلم اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بری چیز ہے اس لئے یوسف (علیہ السلام) نے بنیامین کی جگہ دوسرے شخص بےقصور کر رکھ لینا پسند نہیں کیا بلکہ اس کو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنے کے قابل ایک کام قرار دیا ہے۔ ١ ؎ الترغیب ص ٢٦٤ ج ٢ الترغیب فی الصبر الخ۔ ٢ ؎ صحیح مسلم ص ٣١٩ بات حریم الظلم

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 ۔ اس کا باپ بوڑھا ہے وہ اس کی جدائی برداشت نہ کرسکے گا۔ پہلے بھی تم نے ہم پر بہترے احسانات کئے ہیں بس اب اتنا احسان اور کرو کہ ہم میں سے کسی ایک کو اس کی بجائے رکھ لو۔ امید ہے تم ہمیں اپنے کرم سے مایوس نہیں کرو گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

برادران یوسف (علیہ السلام) کا درخواست کرنا کہ بنیامین کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کا جواب دینا جب بنیامین کے کجا وہ سے پیالہ برآمد ہوگیا تو بھائیوں کو سخت ندامت ہوئی ‘ کچھ تو غصہ اور کچھ خفت مٹانے کا جذبہ کہنے لگے اگر اس نے چوری کی ہے تو کون سے تعجب کی بات ہے اس کا بھائی بھی اس سے پہلے چوری کرچکا ہے ‘ اس بھائی سے حضرت یوسف (علیہ السلام) مراد ہیں حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان لوگوں کی بات سن تو لی جس میں ان کی ذات پر حملہ تھا لیکن ان کی بات کا جو جواب دینا تھا اسے زبان پر نہ لائے البتہ اپنے دل میں کہا کہ تم اسے اور اس کے بھائی کو چور بتا رہے ہو حالانکہ تم چوری کے درجہ سے اور بھی زیادہ برے ہو ‘ ہم دونوں بھائیوں نے تو چوری کی ہی نہیں لیکن تم نے اتنا بڑا برا کام کیا کہ آدمی غائب کردیا۔ یعنی مجھے باپ سے چھڑا دیا اور بہانہ کر کے ان کے پاس سے لے آئے پھر ان کے پاس واپس نہ لے گئے اور چند درہم کے عوض آزاد کو غلام بنا کر بیچ دیا یہ تو دل میں کہا اور علانیہ طور پر فرمایا (وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ ) کہ اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے جو کچھ تم بیان کرتے ہو۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف جو ان کے بھائیوں نے چوری کی نسبت کی اس کے بارے میں صاحب روح المعانی نے پانچ قول نقل کئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دستر خوان سے کھانا لے کر چھپالیتے تھے اور فقراء کو دے دیتے تھے اسی کو بھائیوں نے چوری بنا لیا ممکن ہے ایسا کوئی واقعہ ہوا ہو ‘ اسرائیلی روایات ہیں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا علامہ قرطبی نے ص ٣٣٩ ج ٩ ایک قول یہ بھی نقل کیا ہے کہ چوری کا کوئی قصہ تھا ہی نہیں ان لوگوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں ایسی بات بالکل ہی جھوٹ کہی تھی۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے انہیں جو جواب دیا اور (اَنْتُمْ شَرٌّ مَّکَانًا) فرمایا یہ سب دل ہی دل میں تھا یکن برادران یوسف پہلے ہی اپنے والد سے شرمندہ تھے اور ان کے ایک چہیتے لڑکے کو گم کرچکے تھے اور اب یہ دوسرا واقعہ پیش آگیا کہ بڑے عہد و پیمان کے ساتھ ان کے دوسرے پیارے کو لائے تھے اب وہ بھی گرفتار کرلیا گیا اور روک لیا گیا ‘ حیران تھے اور پریشان تھے کہ والد کو کیا جواب دیں گے کیا کریں اور کیا نہ کریں پھر ایک تدبیر سوچی اور وہ یہ کہ عزیز سے عرض کریں کہ یہ جو ہمارا سوتیلا بھائی چوری کی وجہ سے پکڑا گیا یہ اس کے بوڑھے باپ کے لئے بہت زیادہ مصیبت کی بات ہوگی ان کو اس سے بہت زیادہ محبت اور انس ہے اور ان کی عمر بھی بہت زیادہ ہے اس کے واپس نہ بھیجنے سے ان کا برا حال ہوگا لہٰذا آپ ہم میں سے کسی بھی ایک کو اس کی جگہ رکھ لیجئے ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ احسان کرنے والوں سے ہیں لہٰذا آپ کرم فرمائیے اور ہماری یہ تجویز منظور کرلیجئے (اپنے والد کے سامنے شرمندہ ہونا ان کو اتنا زیادہ کھل رہا تھا کہ غلام بن کر رہنے کو تیار تھے) ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہم ایسا کیسے کرسکتے ہیں ‘ ہم اللہ سے اس بات کی پناہ چاہتے ہیں کہ ہم کسی غیر مجرم کو پکڑ لیں ‘ اگر ہم ایسا کریں گے تو ظالم ہوجاویں گے ہم تو صرف اسی کو پکڑیں گے ‘ جس کے پاس سے سامان پایا (حضرت یوسف (علیہ السلام) نے احتیاط سے کام لیا اور یوں نہیں فرمایا کہ جس نے ہمارا سامان چرایا ہم اسی کو رکھیں گے (کیونکہ چوری تھی ہی نہیں) بلکہ یوں فرمایا جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا ہے اسی کو رکھ سکتے ہیں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

67:۔ اب وہ عزیز مصر حضرت یوسف (علیہ السلام) سے درخواست کرنے لگے کہ نیامین کا باپ بہت بوڑھا ہے وہ بیٹے کی جدائی کا صدمہ برداشت نہیں کرسکے گا اس لیے آپ اسے چھوڑ دیں اور اس کی جہ ہم میں سے کسی ایک کو رکھ لیں آپ ہمیں نیکو کار اور محسن نظر آتے ہیں اس لیے امید ہے کہ آپ ہماری درخواست کو رد نہیں فرمائیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

78 ۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بن یامین کو روکا اور مآخوذ کرلیا تو ان بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) سے کہا کہ اے عزیز لیجئے ہم آپ کو نیک لوگوں میں سے دیکھتے ہیں ۔ یعنی آپ کو احسان کرنے والا پاتے ہیں یہ بات کی خدمت میں رہتا ہے وہ بوڑھا بہت ہے اس کو مملوک بنانے سے اس کو تکلیف ہو جائیگی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی یہ بیٹا بوڑھے باپ کا ہاتھ پکڑے پھرتا ہے۔ 12 ۔