Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 8

سورة يوسف

اِذۡ قَالُوۡا لَیُوۡسُفُ وَ اَخُوۡہُ اَحَبُّ اِلٰۤی اَبِیۡنَا مِنَّا وَ نَحۡنُ عُصۡبَۃٌ ؕ اِنَّ اَبَانَا لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنِۣ ۚ﴿ۖ۸﴾

When they said, "Joseph and his brother are more beloved to our father than we, while we are a clan. Indeed, our father is in clear error.

جب کہ انہوں نے کہا کہ یوسف اور اس کا بھائی بہ نسبت ہمارے باپ کو بہت زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم ( طاقتور ) جماعت ہیں ، کوئی شک نہیں کہ ہمارے ابا صریح غلطی میں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِذْ قَالُواْ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَى أَبِينَا مِنَّا ... When they said: "Truly, Yusuf and his brother are dearer to our father than we..." They swore, according to their false thoughts, that Yusuf and his brother Binyamin (Benjamin), Yusuf's full brother, ... أَحَبُّ إِلَى أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ ... dearer to our father than we, while we are `Usbah. meaning, a group. Therefore, they thought, how can he love these two more than the group, ... إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ Really, our father is in a plain error. because he preferred them and loved them more than us.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 ' اس کا بھائی ' سے مراد بنیامین ہے۔ 8۔ 2 یعنی ہم دس بھائی طاقتور جماعت اور اکثریت میں ہیں، جب کہ یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین (جن کی ماں الگ تھی) صرف دو ہیں، اس کے باوجود باپ کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہیں۔ 8۔ 3 یہاں ضلال سے مراد غلطی ہے جو ان کے زعم کے مطابق باپ سے یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین سے زیادہ محبت کی صورت میں صادر ہوئی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] یعنی باپ کی خدمت تو ہم کرتے ہیں۔ کما کر ہم لاتے ہیں۔ مشکل کے وقت کام ہم آتے ہیں اور شفقت اور پیار ہمارے بجائے یوسف اور اس کے بھائی پر ہوتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ باپ کی توجہ ہماری طرف ہوتی لیکن توجہ کا مرکز یہ دونوں بنے ہوئے ہیں اور یہ ہمارے باپ کی صریح غلطی ہے۔ لفظ ضلال مبین کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ ان حقائق کے باوجود ہمارا باپ انھیں دونوں کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَاَخُوْهُ ۔۔ : یعنی انھوں نے آپس میں کہا۔ دراصل انھوں نے اپنے ظلم کے جواز کے لیے یوسف (علیہ السلام) کا یہ جرم تجویز کیا، ورنہ اگر یہ جرم تھا تو والد کا تھا جو انھوں نے والد کو بھی معاف نہیں کیا، اس کا ذکر آگے آ رہا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید میں کہیں اشارہ بھی نہیں کہ اس میں یعقوب (علیہ السلام) کی کوئی غلطی تھی، اگر یہ غلطی ہوتی تو اللہ تعالیٰ یعقوب (علیہ السلام) کو ضرور اس سے آگاہ کردیتا، کیونکہ وہ نبی تھے۔ بعض مفسرین نے بھی یہ لکھ دیا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ باپ کو بیٹوں کے درمیان محبت میں بھی برابری رکھنی چاہیے، حالانکہ نہ ان حضرات نے خیال فرمایا، نہ برادران یوسف نے کہ والدین کے بعض اولاد کی طرف میلان کے کیا مراتب و اسباب ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمیشہ چھوٹے بچے والدین کی شفقت اور محبت زیادہ حاصل کرتے ہیں، جو یوسف (علیہ السلام) کے بڑے بھائیوں میں سے ہر ایک اپنی اس عمر میں حاصل کرچکا تھا، پھر اولاد کی طبیعت کی سرکشی اور اطاعت ماں باپ کی محبت کھینچنے میں فرق کا باعث بن جاتی ہے۔ اسی طرح بیمار بچے اور پردیس میں رہنے والے بچے کی طرف والدین کی توجہ زیادہ ہوتی ہے، جیسا کہ اس قدیم عرب نے کہا تھا جس سے پوچھا گیا کہ تمہیں اپنے بیٹوں میں سب سے پیارا کون ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : ” چھوٹا، یہاں تک کہ بڑا ہو، غائب یہاں تک کہ آجائے اور بیمار یہاں تک کہ تندرست ہوجائے۔ “ (شعراوی) اس لیے شریعت نے اولاد کے درمیان عطیے میں برابری اور بیویوں کے درمیان عدل کا حکم دیا ہے، دلی میلان اور محبت نہ بندے کے اختیار میں ہے اور نہ اس کے کم و بیش ہونے میں ماں باپ کا کوئی جرم ہے، نہ اولاد کا۔ یوسف (علیہ السلام) کے چھوٹے بھائی کا جرم بھی یہی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے چھوٹے بھائی کا نام بتایا نہ بڑوں کا، کیونکہ یہ بات قرآن کے مقصود سے خاص تعلق نہیں رکھتی۔ اب اگر ہم اہل کتاب سے سن کر چھوٹے کا نام بنیامین لکھیں یا بڑوں کا نام لکھیں تو جس بات کو ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق سچا یا جھوٹا نہیں کہہ سکتے، اس کا علم سے کیا تعلق ہے اور اس کا اعتبار ہی کیا ہے ؟ علم یقین کا نام ہے، شک کا نہیں۔ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ : یہ جملہ حالیہ ہے۔ لفظ ” عُصْبَةٌ“ ایک قوی جماعت پر بولا جاتا ہے، جو عموماً دس سے لے کر چالیس پر مشتمل ہوں۔ یہ ” عَصْبٌ“ سے مشتق ہے جو بمعنی ” شَدٌّ“ (باندھنا) ہے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کو قوت اور سہارا دیتا ہے، یعنی ہم تمام کام سنبھالنے والے اور وقت پر کام آنے والے ہیں، جب کہ یوسف اور اس کا بھائی کم عمر ہونے کی وجہ سے والد کے کسی کام نہیں آسکتے اور ہم ایک قوی جتھا ہیں جو اس بدوی ماحول میں وقت پر کام آسکتے ہیں۔ اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِ : یہاں انھوں نے باپ کو بھی نہیں بخشا۔ ” ضَلٰلٍ مُّبِيْنِ “ سے مراد رائے کی غلطی ہے جو دنیوی معاملات میں ہوتی ہے، یہاں ضلالت سے مراد دینی ضلالت یا عام گمراہی نہیں ہے، ایسا کہتے تو یہ لوگ کافر ہوجاتے۔ (قرطبی) بعض اوقات کسی خاص کام میں غلطی پر بھی یہ لفظ آجاتا ہے، جیسا کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہونے کی وجہ بتائی، فرمایا : (اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىھُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى ۭ ) [ البقرۃ : ٢٨٢ ] ”(اس لیے) کہ دونوں میں سے ایک بھول جائے تو ان میں سے ایک دوسری کو یاد دلا دے۔ “ دراصل وہ یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ آئندہ کیے جانے والے سلوک میں اپنے آپ کو بےقصور باور کروا کر ساری غلطی والد کے ذمے ڈالنا چاہتے تھے، جنھوں نے اولاد کی محبت میں فرق کیا تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

From the second verse (8), begins the story of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) which tells that the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) saw that their father, Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) loved Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) unusually more than them who were older than him. Therefore, this made them envy him. And it is also possible that they had somehow found out about the dream of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) which may have led them to become un¬comfortable at the prospect of his coming rise in status, and which may have made them envious of him. They talked about it among themselves: We see that our father loves Yusuf and his brother Benyamin much more than us, although we are ten of us and older than them. We have the ability and group strength to manage the affairs of the family while they both are small children who cannot do much. Our father should have noticed this and we are the ones he should have been loving more. But, what he is doing is open injustice. Therefore, you should either kill Yusuf, or throw him away into some far out spot of land from where he could not come back. In this verse, these brothers have referred to themselves as: عُصبَۃً (` usbah). This word is used in the Arabic for a group from five to ten. As for their remark about their father: إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (Surely, our father is in clear error), the word: ضَلَال (dalal) appearing here lexically means the error of straying. But, at this place, dalal ضَلَال or error does not mean relig¬ious error. If so, such a connotation would have made all of them Kafirs (disbelievers) - because, Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) is an exalted prophet of Allah Ta` ala and such a thought in his case is an absolute Kufr. And about the brothers of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، it has been men¬tioned in the Qur&an itself that they, later on, admitted their crime and requested their father to pray for their forgiveness which he accepted to do. This makes it obvious that their mistake was forgiven. Now, this can become possible only when all of them are believers - otherwise, the pray¬er for the forgiveness of a disbeliever is not permissible. This is the rea¬son why there is no difference of opinion about their being believers, although ` Ulama& do differ about these brothers being prophets. This tells us that the word: ضَلَال (dalal: error) has been uttered at this place in the sense that he does not treat brothers equally in the matter of their rights.

دوسری آیت میں یوسف (علیہ السلام) کا قصہ شروع ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے اپنے والد یعقوب (علیہ السلام) کو دیکھا کہ وہ یوسف (علیہ السلام) سے غیر معمولی محبت رکھتے ہیں جو ان کے بڑے بھائیوں کو حاصل نہیں اس لئے ان پر حسد ہوا اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی طرح ان کو یوسف (علیہ السلام) کا خواب بھی معلوم ہوگیا جس سے انہوں نے یہ محسوس کیا ہو کہ ان کی بڑی شان ہونے والی ہے اس سے حسد پیدا ہوا اور آپس میں گفتگو کی کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے والد کو بہ نسبت ہمارے یوسف اور اس کے حقیقی بھائی بنیامین سے زیادہ محبت ہے حالانکہ ہم دس ہیں اور ان سے بڑے ہیں گھر کے کام کاج سنبھالنے کی قوت رکھتے ہیں اور یہ دونوں چھوٹے بچے ہیں جو کچھ کام نہیں کرسکتے ہمارے والد کو اس کا خیال کرنا اور ہم سے زیادہ محبت کرنا چاہئے تھا مگر انہوں نے کھلی ہوئی بےانصافی کر رکھی ہے اس لئے یا تو تم یوسف (علیہ السلام) کو قتل ڈالو یا پھر کسی دور زمین میں پھینک آؤ جہاں سے واپس نہ آسکے۔ اس آیت میں ان بھائیوں نے اپنے متعلق لفظ (آیت) اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِ استعمال کیا ہے یہ لفظ عربی زبان میں پانچ سے لے کر دس تک کی جماعت کے لئے بولا جاتا ہے اور اپنے والد کے بارے میں جو یہ کہا کہ (آیت) وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ اس میں لفظ۔۔ کے لغوی معنی گمراہی کے ہیں مگر یہاں گمراہی سے مراد دینی گمراہی نہیں ورنہ ایسا خیال کرنے سے یہ سب کے سب کافر ہوجاتے کیونکہ یعقوب (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبرا ور نبی ہیں ان کی شان میں ایساخیال قطعی کفر ہے، اور یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے متعلق خود قرآن کریم میں مذکور ہے کہ بعد میں انہوں نے اپنے جرم کا اعتراف کر کے والد سے دعاء مغفرت کی درخواست کی جس کو ان کے والد نے قبول کیا جس سے ظاہریہ ہے کہ ان سب کی خطامعاف ہوئی یہ سب اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ یہ سب مسلمان ہوں ورنہ کافر کے حق میں دعاء مغفرت جائز نہیں اسی لئے ان بھائیوں کے انبیاء ہونے میں تو علماء کا اختلاف ہے مگر مسلمان ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں اس سے معلوم ہوا کہ لفظ ضلال اس جگہ صرف اس معنی میں بولا گیا ہے کہ بھائیوں کے حقوق میں برابری نہیں کرتے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَاَخُوْہُ اَحَبُّ اِلٰٓي اَبِيْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَۃٌ۝ ٠ ۭ اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِۨ۝ ٨ ۚۖ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ عُصْبَةُ والعُصْبَةُ : جماعةٌ مُتَعَصِّبَةٌ متعاضدة . قال تعالی: لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ [ القصص/ 76] ، وَنَحْنُ عُصْبَةٌ [يوسف/ 14] ، أي : مجتمعة الکلام متعاضدة، ( ع ص ب ) العصب العصبۃ وہ جماعت جس کے افراد ایک دوسرے کے حامی اور مدد گار ہوں ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ [ القصص/ 76] ایک طاقتور جماعت وٹھانی مشکل ہوتیں ۔ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ [يوسف/ 14] حالانکہ ہم جماعت کی جماعت ) ہیں ۔ یعنی ہم باہم متفق ہیں اور ایک دوسرے یکے یاروں مددگار ضَلل وإذا کان الضَّلَالُ تركَ الطّريق المستقیم عمدا کان أو سهوا، قلیلا کان أو كثيرا، صحّ أن يستعمل لفظ الضَّلَالِ ممّن يكون منه خطأ ما، ولذلک نسب الضَّلَالُ إلى الأنبیاء، وإلى الكفّار، وإن کان بين الضَّلَالَيْنِ بون بعید، ألا تری أنه قال في النّبي صلّى اللہ عليه وسلم : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی/ 7] ، أي : غير مهتد لما سيق إليك من النّبوّة . وقال في يعقوب : إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف/ 95] ، وقال أولاده :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 8] ، إشارة إلى شغفه بيوسف وشوقه إليه، وکذلك : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 30] ، وقال عن موسیٰ عليه السلام : فَعَلْتُها إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء/ 20] ، تنبيه أنّ ذلک منه سهو، وقوله : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة/ 282] ، أي : تنسی، وذلک من النّسيان الموضوع عن الإنسان . جب کہ ضلال کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں خواہ وہ ہٹنا عمدا ہو یا سہوا تھوڑا ہو یا زیادہ تو جس سے بھی کسی قسم کی غلطی سرزد ہوگی اس کے متعلق ہم ضلالت کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور کفار دونوں کی طرف ضلالت کی نسبت کی گئی ہے گو ان دونوں قسم کی ضلالت میں بون بعید پایا جاتا ہے ۔ دیکھئے آنحضرت کو آیت کریمہ : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی/ 7] میں ضالا میں فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں ک ہدایت نبوت کے عطا ہونے سے قبل تم اس راہ نمائی سے محروم تھے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں ان کی اولاد کا کہنا إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف/ 95] کہ آپ اسی پرانی غلطی میں مبتلا ) ہیں ۔ یا یہ کہنا :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 8] کچھ شک نہیں کہ اباصریح غلطی پر ہیں ۔ تو ان آیات میں ضلال سے مراد یہ ہے کہ وہ یوسف ( (علیہ السلام) ) کی محبت اور ان کے اشتیاق میں سرگردان ہیں اسی طرح آیت کریمہ : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 30] اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صریح گمراہی میں ہیں ۔ میں بھی ضلال مبین سے والہانہ محبت مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء/ 20] اور میں خطا کاروں میں تھا ۔ میں موسیٰ ٰ (علیہ السلام) نے اپنے ضال ہونے کا اعتراف کرکے اشارہ کیا ہے کہ قتل نفس کا ارتکاب مجھ سے سہوا ہوا تھا ۔ اور آیت : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة/ 282] اور اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی ۔ میں تضل کے معنی بھول جانا کے ہیں اور یہی وہ نسیان ہے جسے عفو قرار دیا گیا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے اذا قالوا لیوسف واخوہ احب الی ابینا منا ونحن عصبۃ ان ابانا لفی ضلال مبنی ۔ یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا یہ یوسف اور اس کا بھائی دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک پورا جتھا ہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابا جان بالکل ہی بہک گئے ہیں ۔ انہوں نے آپس میں یہ گفتگو کی اور اپنے اس حسد کا اظہار کیا جو وہ والد سے حضرت یوسف کے قریب اور وابستگی کی بنا پر اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے تھے ، یہ مرتبہ اور یہ وابستگی انہیں حاصل نہیں تھی ۔ انہوں نے اپنے والد کے اس طرز عمل پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ان ابا نا لفی ضلال مبین ان کا اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا یہ طرز عمل درست رائے پر مبنی نہ تھا اس لیے کہ حضرت یوسف ان سے چھوٹے تھے اور بھائیوں کا خیال یہ تھا کہ بڑے بھائی کا درجہ چھوٹے بھائی سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ اس لیے باپ کا قر ب انہیں حاصل ہونا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ بیٹوں کا ایک پورا جتھا صر ف ایک بیٹھے کی بہ نسبت شفقت و محبت کا زیادہ مستحق ہے ۔ قول باری ونحن عصبۃ کا یہی مفہوم ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی تھی کہ دنیاوی امور میں وہ حضرت یعقوب کے لیے حضرت یوسف سے بڑھ کر نفع مند تھے اس لیے کہ وہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے مال مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے تھے اس بنا پر ان کی رائے یہ تھی کہ باپ نے انہیں نظر انداز کرکے ایک بیٹے کو اپنی شفقت و محبت کا مرکز بنا لیا ہے نیز ان سب پر اسے مقدم رکھا ہے ، باپ کا یہ طرز عمل راہ صواب سے ہٹا ہوا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨) وہ وقت قابل ذکر ہے جب ان سوتیلے بھائیوں نے باہم مشورہ کیا کہ یوسف اور ان کے حقیقی بھائی بنیامین ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ عزیز ہیں اور ہم اس کی ایک جماعت ہیں واقعی ہمارے باپ یوسف (علیہ السلام) سے محبت کرنے اور ان کو ہم پر ترجیح دینے میں ایک فاش غلطی پر ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَاَخُوْهُ اَحَبُّ اِلٰٓي اَبِيْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ) برادران یوسف نے کہا کہ ہم پورے دس لوگ ہیں سب کے سب جوان اور طاقتور ہیں خاندان کی شان تو ہمارے دم قدم سے ہے (قبائلی زندگی میں نوجوان بیٹوں کی تعداد پر ہی کسی خاندان کی شان و شوکت اور قوت و طاقت کا انحصار ہوتا ہے) لیکن ہمارے والد ہمیں نظر انداز کر کے ان دو چھوٹے بچوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8. This brother was Benjamin. He was the real younger brother of Prophet Joseph, and was his junior by many years. Their mother had died at the birth of Benjamin. That is why Prophet Jacob paid special attention to these two motherless children. Besides, Joseph was the only son, in whom he had discerned signs of righteousness and capabilities. Accordingly, when Prophet Joseph narrated his dream to him, he was all the more convinced of his future greatness, and was perturbed at the idea lest his brothers conspired against him out of envy, if they came to know of his dream, which was self explanatory. For Prophet Jacob knew that his other ten sons were not of the right type, and this was proved by the subsequent events. Therefore, naturally he was not happy with them. It is, however, strange that the Bible gives a different reason for the envy his brothers bore against Prophet Joseph. They were filled with envy against him because Joseph gave unto his father their evil report. 9. In order to grasp the full significance of the grievance the ten sons had against their father for neglecting them, we should keep in view the conditions of the clannish life. As there was no established state, each clan led its own independent life side by side with other clans. It is obvious that the power of the head of the clan depended entirely on the number of sons and grandsons, and brothers and nephews he had to defend the life, honor and property of the family. Therefore, the one leading the clannish life naturally paid more attention to his own grown up sons, etc., than to children and women of the family. As Prophet Jacob was leading clannish life, these sons of his expected a preferential treatment from him, but the Prophet thought otherwise. So they remarked: Truly our father seems to have lost his balance of mind; otherwise he could not have neglected us, and loved our two younger brothers more than us, for we are strong young men and can stand him in good stead at the time of need while these youngsters are useless as they themselves stand in need of protection.

سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :8 اس سے مراد حضرت یوسف علیہ السلام کے حقیقی بھائی بنیامین ہیں جو ان سے کئی سال چھوٹے تھے ۔ ان کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت یعقوب علیہ السلام ان دونوں بے ماں کے بچوں کا زیادہ خیال رکھتے تھے ۔ اس کے علاوہ اس سے محبت کی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی ساری اولاد میں صرف ایک حضرت یوسف علیہ السلام ہی ایسے تھے جن کے اندر ان کو آثار رشد و سعادت نظر آتے تھے ۔ اوپر حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب سن کر انہوں نے جو کچھ فرمایا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس بیٹے کی غیر معمولی صلاحیتوں سے خوب واقف تھے ۔ دوسری طرف ان دس بڑے صاحبزادوں کی سیرت کا جو حال تھا اس کا اندازہ بھی آگے کے واقعات سے ہو جاتا ہے ۔ پھر کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ ایک نیک انسان ایسی اولاد سے خوش رہ سکے ۔ لیکن عجیب بات ہے کہ بائیبل میں برادران یوسف علیہ السلام کے حد کی ایک ایسی وجہ بیان کی گئی ہے جس سے الٹا الزام حضرت یوسف علیہ السلام پر عائد ہوتا ہے ۔ اس کا بیان ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام بھائیوں کی چغلیاں باپ سے کھایا کرتے تھے اس وجہ سے بھائی ان سے ناراض تھے ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :9 اس فقرے کی روح سمجھنے کے لیے بدویانہ قبائلی زندگی کے حالات کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ جہاں کوئی ریاست موجود نہیں ہوتی اور آزاد قبائل ایک دوسرے کے پہلو میں آباد ہوتے ہیں ، وہاں ایک شخص کی قوت کا سارا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ اس کے اپنے بیٹے ، پوتے ، بھائی ، بھتیجے بہت سے ہوں جو وقت آنے پر اس کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کے لیے اس کا ساتھ دے سکیں ۔ ایسے حالات میں عورتوں اور بچوں کی بہ نسبت فطری طور پر آدمی کو وہ جوان بیٹے زیادہ عزیز ہوتے ہیں جو دشمنوں کے مقابلہ میں کام آسکتے ہوں ۔ اسی بنا پر ان بھائیوں نے کہا کہ ہمارے والد بڑھاپے میں سٹیا گئے ہیں ۔ ہم جوان بیٹوں کا جتھا ، جو برے وقت پر ان کے کام آسکتا ہے ، ان کو اتنا عزیز نہیں ہے جتنے یہ چھوٹے چھوٹے بچے جو ان کے کسی کام نہیں آسکتے بلکہ الٹے خود ہی حفاظت کے محتاج ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ عمر اور طاقت میں بھی زیادہ ہیں اور تعداد میں بھی، چنانچہ ہم اپنے باپ کی قوت بازو ہیں۔ جب کبھی انہیں کسی مدد کی ضرورت پڑے، ہم ہی ان کی مدد کرنے کے لائق ہیں۔ اس لیے ہم سے محبت زیادہ ہونی چاہیے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

مسنگ

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(12:8) عصبۃ۔ عصب سے العصب کے معنی بدن کے پٹھے۔ جو جوڑوں کو تھامے ہوئے ہیں ۔ الاعصاب۔ پٹھے۔ مضبوطی کے ساتھ باندھنے کو عصب کہتے ہیں۔ مثلاً لاعصبتکم عصب السلمۃ میں تمہیں سلمہ درخت کی طرح باندھ کر چھوڑوں گا۔ فلان شدید العصب فلاں کے جوڑ مضبوط ہیں۔ وقال ھذا یوم عصیب (11:77) اور بولے یہ بہت سخت دن ہے۔ عصیب بمعنی فاعل اور مفعول دونوں طرح مستعمل ہے۔ العصبۃ۔ وہ جماعت جس کے افراد ایک دوسرے کے حامی اور مددگار ہوں۔ اور اس طرح طاقت اور مضبوطی کا سبب بنیں۔ دوسری جگہ قرآن میں ہے لتنوء بالعصبۃ اولی القوۃ ایک طاقت ور جماعت کو اٹھانا مشکل ہوتیں۔ ونحن عصبۃ (آیت ہذا) حالانکہ ہم ایک پوری جماعت کی جماعت ہیں۔ عصبۃ کی جمع عصب ہے جیسے غرفۃ کی جمع غرف ہے۔ علامہ زمخشری (رح) فرماتے ہیں عصبۃ وعصابۃ دس اور دس سے زیادہ اشخاص کو کہتے ہیں بعض چالیس تک بتاتے ہیں ان کا یہ نام اس واسطے پڑگیا کہ اتنے اشخاص سے سب کاموں میں قوت ہوجاتی ہے اور وقت پڑے یہ لوگ کافی سمجھے جاتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 ۔ یعنی آپس میں ایک دوسرے سے کہا۔ 1 ۔ یعنی ہم وقت پر کام آنے والے ہیں اور یہ لڑکے ہیں چھوٹے۔ ایک ان کا سگا بھائی تھا اور سب سوتیلے۔ (موضح) ۔ مطلب یہ ہے کہ یوسف اور اس کا بھائی چھوٹے ہونے کی وجہ سے اس کے کسی کام نہیں آسکتے اور ہم ایک جتھا ہیں۔ اس بدوسی ماحول میں وقت پر کام آسکتے ہیں۔ (روح۔ شوکانی) ۔ 2 ۔ یعنی رائے کی غلطی جو دنیوی معاملات میں ہوتی ہے۔ یہاں ضلالت سے دینی ضلالت مراد نہیں ہے ایسا کہتے تو یہ لوگ کافر ہوجاتے۔ (وحیدی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہونے کی وجوہ بیان کی گئی ہیں اقرب یہ ہے کہ فراست نبوت سے یعقوب (علیہ السلام) ان کو ہونہار دیکھتے تھے اور خواب سننے کے بعد یہ امرا اور زیادہ موکد ہوگیا تھا جیسا کہ ان کے ارشاد وکذالک یجتبیک۔ سے یہ امرمترشح ہوتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں حسد و بغض رکھنا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حسن و جمال، لیاقت و صلاحیت اور مستقبل میں ان کے نبی بننے کے آثار دیکھ کر ( جن کی نشاندہی خواب کی تعبیر میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کرچکے تھے۔ ) ان اوصاف حمیدہ کی بنیاد پر حضرت یعقوب کا دوسرے بیٹوں کی نسبت یوسف (علیہ السلام) سے زیادہ شفقت اور محبت کا اظہار کرتے تھے۔ بعض مفسرین نے ان سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی محبت کا سبب حضرت یوسف (علیہ السلام) کا چھوٹا ہونا بیان کیا ہے۔ یہ وجہ اس لیے لائق توجہ نہیں کہ عمر کے لحاظ سے حضرت بنیامین سب سے چھوٹے تھے۔ بہرحال یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی محبت کی وجہ سے یوسف (علیہ السلام) کے بھائی حسدو بغض کا شکار ہوئے۔ اور انہوں نے خفیہ مشاورت میں یہ بات طے کی کہ ہمارے والد واضح طور پر بھٹک چکے ہیں۔ کیونکہ وہ ہم سے زیادہ یوسف کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ حالانکہ ہم طاقتور ہیں۔ حسدو بغض اس قدر مہلک مرض ہے کہ جس شخص میں یہ پیدا ہوجائے وہ دوسرے کے بارے میں اس قدر منفی اور سطحی خیالات کا اظہار کرتا ہے جن کا کوئی معقول آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے صاحبزادوں نے اپنے عظیم اور مشفق باپ جو وقت کے نبی ہونے کے علاوہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے پوتے ہیں۔ ایسے عظیم المرتبت باپ کے بارے کہنے لگے کہ ہمارا باپ واضح طور پر بھٹک چکا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ بوڑھے باپ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے خدمت اور ان کی تابعداری کا رویہ اختیار کرتے اور اپنے منفی کردار پر نظر ثانی کرتے۔ اس کی بجائے انہوں نے اپنی طاقت اور جتھا بندی پر فخر کا اظہار کیا۔ اور اس کے لیے جائز طریقہ استعمال کرنے کے بجائے غلط طریقہ کار اختیار کیا۔ جس سے نہ صرف ان کے بوڑھے باپ اور چھوٹے بھائی کو تکلیفیں پہنچیں بلکہ ان کے اپنے دامن پر بھی دھبہ لگا۔ انہوں نے حسد میں آکر یہ بھی نہ سوچا کسی کی الفت اور محبت حاصل کرنے کے لیے طاقت نہیں، اس کے لیے عاجزی، احترام اور بڑوں کی خدمت کرنا پڑتی ہے۔ کیونکہ محبت اور الفت کسی منڈی کا مال نہیں کہ اسے سرمایہ یا طاقت کی بنیاد پر حاصل کیا جاسکے۔ یہ تو دل کا معاملہ ہے اور تمام انسانوں کے دل اللہ کے اختیار میں ہیں۔ اس واقعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اچھے کام کے لیے اچھا طریقۂ کار اختیار کرنا لازم ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ کہ اے رسول ! اگر آپ ساری زمین کے خزانے خرچ کردیتے تب بھی اپنے ساتھیوں کے دلوں میں محبت و الفت پیدا نہیں کرسکتے تھے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے کہ اس نے آپ کے اصحاب کے دلوں میں یکجہتی اور محبت پیدا فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔ ( الانفال : ٦٣) باہمی محبت کے لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (عَنْ أَبِیْ وَآءِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بِمِثْلِہٖ قَالَ وَکَانَ یُعَلِّمُنَا کَلِمَاتٍ وَلَمْ یَکُنْ یُعَلِّمُنَاہُنَّ کَمَا یُعَلِّمُنَا التَّشَہُّدَ اللَّہُمَّ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِنَا وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَاہْدِنَا سُبُلَ السَّلاَمِ وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّوْرِ وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَبَارِکْ لَنَا فِیْٓ أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوْبِنَا وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّاب الرَّحِیْمُ وَاجْعَلْنَا شَاکِرِیْنَ لِنِعْمَتِکَ مُثْنِیْنَ بِہَا قَابِلِیْہَا وَأَتِمَّہَا عَلَیْنَا )[ رواہ ابو داؤد، باب التشھد ] ” حضرت ابو وائل اور حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کلمات سکھلایا کرتے تھے جس طرح کہ آپ ہمیں تشہد کے کلمات سکھلاتے تھے۔ اے اللہ ہمارے معاملات درست فرما، ہمارے دلوں میں محبت پیدا فرما، ہمیں سیدھی راہ دکھا، ہمیں اندھیروں سے روشنی کی طرف رہنمائی عطا فرما اور ہمیں ظاہری اور باطنی فحاشی سے بچا۔ اے اللہ ہماری سماعت، بصارت، دلوں، بیویوں اور اولاد میں برکت عطا فرما اور ہم پر رجوع فرما۔ یقیناً تو توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر گزار اور اپنی تعریف کرنے والے بنا اور ہمیں اس کے قابل بنا اور انہیں ہم پر پورا فرما۔ “ مسائل ١۔ حسد بہت بری چیز ہے۔ ٢۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی اپنے باپ کو غلطی پر سمجھتے تھے۔ تفسیر بالقرآن برادران یوسف کا اپنے عظیم باپ کے بارے میں روّیہ : ١۔ بیشک ہمارا باپ بہک گیا ہے۔ (یوسف : ٨) ٢۔ واللہ تم تو یوسف کی یاد میں لگے رہو گے یہاں تک کہ ہلاک ہوجاؤ۔ (یوسف : ٨٥) ٣۔ حضرت یعقوب کے بیٹوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! آپ تو پرانے وہم میں مبتلا ہیں۔ (یوسف : ٩٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لَقَدْ كَانَ فِيْ يُوْسُفَ وَاِخْوَتِهٖٓ اٰيٰتٌ لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ ۔ اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَاَخُوْهُ اَحَبُّ اِلٰٓي اَبِيْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ ۭ اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِۨ: حقیقت یہ ہے کہ یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں ان پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا " یہ یوسف اور اس کا بھائی دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں ، حالانک کہ ہم پورا تجھا ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے اباجان بالکل بہک گئے ہیں "۔ یہ کہ ہم ایک مضبوط جتھا ہیں ، ہم اسلام اور خاندان کی مدافعت کرتے ہیں اور مفید ہیں۔ جبکہ ہمارے والد محترم ہمارے مقابلے میں ایک بچے اور ایک لڑکے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ، باوجود اس کے کہ ان کے مقابلے میں ہماری افادیت بھی زیادہ ہے اور تعداد بھی۔ ان کا غیظ و غضب اور کینہ جوش مارتا ہے ، عین اس وقت شیطان ان کے دلوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ اب وہ واقعات کا صحیح اندازہ نہیں کرپاتے۔ معمولی باتیں ان کو پہاڑ نظر آتی ہیں۔ عظیم جرائم ان و چھوٹے نظر آنے لگتے ہیں۔ ایک انسان کا قتل ان کے لیے اب ایک معمولی بات بن جاتی ہے۔ پھر ایک بچے کی وہ جان لینے کے درپے ہیں جو نہ جانتا ہے اور نہ اپنا دفاع کرسکتا ہے۔ پھر وہ ان کا بھائی بھی ہے اور اس کے باوجود کہ یہ ایک برگزیدہ نبی کے بیٹے ہیں۔ اگرچہ وہ خود نبی نہ تھے۔ ان کے لیے ان کے باپ کی زیادہ محبت ایک عظیم جرم بن گیا ہے ، یہاں تک کہ باپ کی زیادہ محبت کرنا قتل کے لیے جواز بن گیا ہے حالانکہ قتل شرک کے بعد سب سے بڑا جرم ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ یہ قصے کی دوسری کڑی ہے۔ براران یوسف نے آپس میں مشورہ کیا کہ یوسف اور بنیامین کو ہمارے والد بزرگوار ہم سے زیادہ چاہتے ہیں حالانکہ ہم ایک جماعت ہیں مگر اس کے باوجود محترم اباجان ہمیں اتنی اہمیت نہیں دیتے معلوم نہیں کہ وہ کس بھول میں ہیں۔ ” اُقْتُلُوْا یُوْسُفَ الخ “ اس لیے یوسف کو راستہ سے ہٹٓنے کے لیے یا تو اسے قتل کردیا جائے یا اسے کسی دور دراز علاقے میں چھوڑ دیا جائے جہاں سے اس کی کوئی خبر نہ آئے تاکہ ہم ہی والد بزرگوار کی محبت و شفقت کا مرکز بن جائیں اور بعد میں اس گناہ سے توبہ کرلیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

8 وہ وقت قابل ذکر جب یوسف (علیہ السلام) کے علاقی بھائیوں نے جن کی تعداد دس تھی اپس میں یہ گفتگو کی اور باہم یوں مشورہ کیا یہ بات کیا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اور ان کا حقیقی بھائی بن یامین ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ محبوب اور پیارے ہیں حالانکہ ہم ایک زور آور اور پوری جماعت ہیں یہ دونوں ابھی کم عمر ہیں کچھ شک نہیں کہ اس بارے میں ہمارے والد کھلی غلطی میں مبتلا ہیں یعنی محبت کی کمی زیادتی خدمت پر موقوف ہے جو بچے زیادہ قوی ہوں گے ظاہر ہے کہ وہ خدمت زیادہ انجام دے سکتے ہیں اور یہ دونوں ابھی کم عمر اور کم زور ہیں ان کی خدمت ہماری خدمت سے زیادہ قوی اور بہتر نہیں ہوسکتی اور چونکہ ہم تعداد میں بھی زیادہ اور قوت میں بھی زیادہ ہیں اس لئے محبت بھی ہم سے زیادہ ہونی چاہئے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ہم وقت پر کام آنے والے ہیں اور یہ لڑکے ہیں چھوٹے، ایک بھائی ان کا سگا تھا اور سب سوتیلے 12