Commentary After the detention of young Benyamin in Egypt, his brothers returned home and told Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) about what had happened there. They tried to assure him that they were telling the truth which can be confirmed from the people in Egypt, as well as, from the caravan they came with from Egypt to Canaan. From the later, he could also ascertain that Benyamin&s theft was apprehended and he was arrested for it. Since Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) knew that they had lied to him earlier in the case of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، therefore, he could not believe them this time too - though, in fact, this time they had told him no lie. And therefore, on this occasion as well, he said the same thing he had said at the time of the disappearance of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) : بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ. (|"Rather, your inner desires have seduced you to something. So, patience is best), that is, this statement of yours is not correct. You have made it up yourself. But, even now, it is patience I choose to ob¬serve. Only that would be the best for me.& From this Al-Qurtubi has deduced: In whatever a Mujtahid says with his Ijtihad, there can be an error as well, so much so that it is pos¬sible that a prophet too, when he says something on the basis of his own Ijtihad, could make an error - though, only initially. This is what hap¬pened in this case when he declared the truth of his sons to be a lie. But, prophets have a special status and a personal exclusivity on the basis of which they are alerted over the mistake by the will of Allah, and removed away from it, and finally they find truth. Here, it is also possible that by his comment about &maneuvering so¬mething& mentioned above Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) intended to refer to what was made up in Egypt whereby Benyamin was arrested under a false charge of theft only to achieve a particular purpose, and the ulti¬mate result of which was to unfold later in a better form. There may, as well, be a hint toward it in the next sentence of this verse where it is said: عَسَى اللَّـهُ أَن يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا (Hopefully, Allah may bring them all together). In short, the outcome of the refusal of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) to ac¬cept the statement of his sons this time was that there was no theft real¬ly, nor was Benyamin arrested, and the truth of the matter was to be found elsewhere. This was true in its place. But, whatever was said by his sons, as they knew it, was not wrong either.
خلاصہ تفسیر : یعقوب (علیہ السلام یوسف (علیہ السلام) کے معاملہ میں ان سب سے غیر مطمئن ہوچکے تھے تو سابق پر قیاس کر کے) فرمانے لگے (کہ بنیامین چوری میں ماخوذ نہیں ہوا) بلکہ تم نے اپنے دل سے ایک بات بنا لی ہے سو (خیر مثل سابق) صبر ہی کروں گا جس میں شکایت کا نام نہ ہوگا (مجھ کو) اللہ سے امید ہے کہ ان سب کو (یعنی یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین اور جو بڑا بھائی اب مصر میں رہ گیا ہے ان تینوں کو) مجھ تک پہنچادے گا (کیونکہ) وہ (حقیقت حال سے) خوب واقف ہے (اس لئے اس کو سب کی خبر ہے کہ کہاں کہاں اور کس کس حال میں ہیں اور وہ) بڑی حکمت والا ہے (جب ملانا چاہے گا تو ہزاروں اسباب و تدابیر درست کر دے گا) اور (یہ جواب دے کر بوجہ اس کے ان سے رنج پہنچا تھا) ان سے دوسری طرف رخ کرلیا اور (بوجہ اس کے کہ اس نئے غم سے وہ پرانا غم اور تازہ ہوگیا، یوسف (علیہ السلام) کو یاد کر کے) کہنے لگے ہائے یوسف افسوس ! اور غم سے (روتے روتے) ان کی آنکھیں سفید پڑگئیں (کیونکہ زیادہ رونے سے سیاہی آنکھوں کی کم ہوجاتی ہے اور آنکھیں بےرونق یا بالکل بےنور ہوجاتی ہیں) اور وہ (غم سے جی ہی جی میں) گھٹا کرتے تھے (کیونکہ شدت غم کے ساتھ جب شدت ضبط ہوگا جیسا کہ صابرین کی شان ہے تو کظم کی کیفیت پیدا ہوگی) بیٹے کہنے لگے بخدا (معلوم ہوتا ہے) تو ہمیشہ ہمیشہ یوسف کی یادگاری میں لگے رہو گے یہاں تک کہ گھل گھل کر جاں بہ لب ہوجاؤ گے یا یہ کہ بالکل مر ہی جاؤ گے (تو اتنے غم سے فائدہ کیا) یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم کو میرے رونے سے کیا بحث میں تو اپنے رنج وغم کی صرف اللہ تعالیٰ سے شکایت کرتا ہوں (تم سے تو کچھ نہیں کہتا) اور اللہ کی باتوں کو جتنا میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے (باتوں سے مراد یا تو لطف و کرم و رحمت اتم ہے اور بامراد الہام ہے ان سب سے ملنے کا جو بلا واسطہ ہو یا بواسطہ خواب یوسف (علیہ السلام) کے جس کی تعبیر اب تک واقع نہیں ہوئی تھی اور واقع ہونا اس کا ضرور ہے) اے میرے بیٹو (اظہار غم تو صرف اللہ کی جناب میں کرتا ہوں مسبب الاسباب وہی ہے لیکن ظاہری تدبیر تم بھی کرو کہ ایک بار پھر سفر میں) جاؤ اور یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی تلاش کرو (یعنی اس فکر و تدبیر کی جستجو کرو جس سے یوسف (علیہ السلام) کا نشان ملے اور بنیامین کو رہائی ہو) اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید مت ہو بیشک اللہ کی رحمت سے وہی لوگ ناامید ہوتے ہیں جو کافر ہیں، معارف و مسائل : یعقوب (علیہ السلام) کے چھوٹے صاحبزادے بنیامین کی مصر میں گرفتاری کے بعد ان کے بھائی وطن واپس آئے اور یعقوب (علیہ السلام) کو یہ ماجرا سنایا اور یقین دلانا چاہا کہ ہم اس واقعہ میں بالکل سچے ہیں آپ اس بات کی تصدیق مصر کے لوگوں سے بھی کرسکتے ہیں اور جو قافلہ ہمارے ساتھ مصر سے کنعان آیا ہے اس سے بھی معلوم کرسکتے ہیں کہ بنیامین کی چوری پکڑی گئی اس لئے وہ گرفتار ہوگئے یعقوب (علیہ السلام) کو چونکہ یوسف (علیہ السلام) کے معاملہ میں ان صاحبزادوں کا جھوٹ ثابت ہوچکا تھا اس لئے اس مرتبہ بھی یقین نہیں آیا اگرچہ فی الواقع اس وقت انہوں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا تھا اس لئے اس موقع پر بھی وہی کلمات فرمائے جو یوسف (علیہ السلام) کی گم شدگی کے وقت فرمائے تھے قال بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا ۭ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ یعنی یہ بات جو تم کہہ رہے ہو صحیح نہیں تم نے خود بات بنائی ہے مگر اب بھی صبر ہی کرتا ہوں وہی میرے لئے بہتر ہے، قرطبی نے اسی سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مجتہد جو بات اپنے اجتہاد سے کہتا ہے اس میں غلطی بھی ہو سکتی ہے یہاں تک کہ پیغمبر بھی جو بات اپنے اجتہاد سے کہیں اس میں ابتداء غلطی ہوجانا ممکن ہے جیسے اس معاملہ میں پیش آیا کہ بیٹوں کے سچ کو جھوٹ قرار دے دیا مگر انبیاء (علیہم السلام) کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کو منجانب اللہ غلطی پر متنبہ کر کے اس سے ہٹا دیا جاتا ہے اور انجام کار وہ حق کو پالیتے ہیں یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے ذہن میں بات بنانے سے مراد وہ بات بنانا ہو جو مصر میں بنائی گئی کہ ایک خاص غرض کے ماتحت جعلی چوری دکھلا کر بنیامین کو گرفتار کیا گیا جس کا انجام آئندہ بہترین صورت میں کھل جانے والا تھا اس آیت کے اگلے جملے سے اس طرف اشارہ بھی ہوسکتا ہے جس میں فرمایا عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَنِيْ بِهِمْ جَمِيْعًا یعنی قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو مجھ سے ملا دے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس مرتبہ جو صاحبزادوں کی بات کو تسلیم نہیں کیا اس کا حاصل یہ تھا کہ درحقیقت نہ کوئی چوری ہوئی ہے اور نہ بنیامین گرفتار ہوئے ہیں بات کچھ اور ہے یہ اپنی جگہ صحیح تھا مگر صاحبزادوں نے اپنی دانست کے مطابق جو کچھ کہا تھا وہ بھی غلط نہ تھا