Surat Yousuf

Surah: 12

Verse: 83

سورة يوسف

قَالَ بَلۡ سَوَّلَتۡ لَکُمۡ اَنۡفُسُکُمۡ اَمۡرًا ؕ فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ ؕ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّاۡتِـیَنِیۡ بِہِمۡ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۸۳﴾

[Jacob] said, "Rather, your souls have enticed you to something, so patience is most fitting. Perhaps Allah will bring them to me all together. Indeed it is He who is the Knowing, the Wise."

۔ ( یعقوب علیہ السلام نے ) کہا یہ تو نہیں بلکہ تم نے اپنی طرف سے بات بنا لی ، پس اب صبر ہی بہتر ہے قریب ہے کہ اللہ تعالٰی ان سب کو میرے پاس ہی پہنچا دے وہی علم و حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah's Prophet Yaqub receives the Grievous News Allah's Prophet Yaqub repeated to his children the same words he said to them when they brought false blood on Yusuf' shirt, قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ... He (Yaqub) said: "Nay, but your own selves have beguiled you into something. So patience is most fitting (for me). Muhammad bin Ishaq said, "When they went back to Yaqub and told him what happened, he did not believe them and thought that this was a repetition of what they did to Yusuf. So he said, بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ (Nay, but your own selves have beguiled you into something. So patience is most fitting (for me). Some said that; since this new development came after what they did before (to Yusuf), they were given the same judgement to this later incident that was given to them when they did what they did (to Yusuf). Therefore, Yaqub's statement here is befitting, بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ (Nay, but your own selves have beguiled you into something. So patience is most fitting (for me). He then begged Allah to bring back his three sons: Yusuf, Binyamin and Rubil to him." Rubil had remained in Egypt awaiting Allah's decision about his case, either his father's permission ordering him to go back home, or to secure the release of his brother in confidence. This is why Yaqub said, ... عَسَى اللّهُ أَن يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ ... May be Allah will bring them (back) all to me. Truly, He! Only He is All-Knowing, in my distress, ... الْحَكِيمُ the All-Wise, in His decisions and the decree and preordainment He appoints. Allah said next,

بھائیوں کی زبانی یہ خبر سن کر حضرت یعقوب علیہ السلام نے وہی فرمایا جو اس سے پہلے اس وقت فرمایا تھا جب انہوں نے پیراہن یوسف خون آلود پیش کر کے اپنی گھڑی ہوئی کہانی سنائی تھی کہ صبر ہی بہتر ہے ۔ آپ سمجھے کہ اسی کی طرح یہ بات بھی ان کی اپنی بنائی ہوئی ہے بیٹوں سے یہ فرما کر اب اپنی امید ظاہر کی جو اللہ سے تھی کہ بہت ممکن ہے کہ بہت جلد اللہ تعالیٰ میرے تینوں بچوں کو مجھ سے ملا دے یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کو بنیامین کو اور آپ کے بڑے صاحبزادے روبیل کو جو مصر میں ٹھر گئے تھے اس امید پر کہ اگر موقعہ لگ جائے تو بنیامین کو خفیہ طور نکال لے جائیں یا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ خود حکم دے اور یہ اس کی رضامندی کے ساتھ واپس لوٹیں ۔ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ علیم ہے میری حالت کو خوب جان رہا ہے ۔ حکیم ہے اس کی قضا وقدر اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔ اب آپ کے اس نئے رنج نے پرانا رنج بھی تازہ کر دیا اور حضرت یوسف کی یاد دل میں چٹکیاں لینے لگی ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں انا للہ الخ پڑھنے کی ہدایات صرف اسی امت کو کی گئی ہے اس نعمت سے اگلی امتیں مع اپنے نبیوں کے محروم تھیں ۔ دیکھئے حضرت یعقوب علیہ السلام بھی ایسے موقعہ پر آیت ( يٰٓاَسَفٰى عَلٰي يُوْسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيْمٌ 84؀ ) 12- یوسف:84 ) کہتے ہیں ۔ آپ کی آنکھیں جاتی رہی تھیں ۔ غم نے آپ کو نابینا کر دیا تھا اور زبان خاموش تھی ۔ مخلوق میں سے کسی شکایت وشکوہ نہیں کرتے تھے ۔ غمگین اور اندوہ گین رہا کرتے تھے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کی کہ لوگ تجھ سے یہ کہہ کر دعا مانگتے ہیں کہ اے ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے رب ، تو تو ایسا کر کہ ان تین ناموں میں چوتھا نام میرا بھی شامل ہو جائے ۔ جواب ملا کہ اے داؤد حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے اور صبر کیا ۔ تیری آزائش ابھی ایسی نہیں ہوئی ۔ اسحاق علیہ السلام نے خود اپنی قربانی منظور کر لی اور اپنا گلا کٹوانے بیٹھ گئے ۔ تجھ پر یہ بات بھی نہیں آئی ۔ یعقوب علیہ السلام سے میں نے ان کے لخت جگر کو الگ کر دیا اس نے بھی صبر کیا تیرے ساتھ یہ واقعہ بھی نہیں ہوا یہ روایت مرسل ہے اور اس میں نکارت بھی ہے اس میں بیان ہوا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق علیہ السلام تھے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے ۔ اس روایت کے راوی علی بن زید بن جدعان اکثر منکر اور غریب روایتیں بیان کر دیا کرتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ بہت ممکن ہے کہ احنف بن قیس رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت بنی اسرائیل سے لی ہو ، جیسے کعب وہب وغیرہ ۔ واللہ اعلم ۔ بنی اسرائیل کی ورایتوں میں یہ بھی ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف کو اس موقعہ پر جب کہ بنیامین قید میں تھے ۔ ایک خط لکھا تھا جس میں انہیں رحم دلانے کے لئے لکھا تھا کہ ہم مصیبت زدہ لوگ ہیں ۔ میرے دادا حضرت ابراہیم آگ میں ڈالے گئے ۔ میرے والد حضرت اسحاق علیہ السلام ذبح کے ساتھ آزمائے گئے ۔ میں خود فراق یوسف میں مبتلا ہوں ۔ لیکن یہ روایت بھی سندا ثابت نہیں ۔ بچوں نے باپ کا یہ حال دیکھ کر انہیں سمجھانا شروع کیا کہ ابا جی آپ تو اسی کی یاد میں اپنے آپ کو گھلا دیں گے بلکہ ہمیں تو ڈر ہے کہ اگر آپ کا یہی حال کچھ دنوں اور رہا تو کہیں زندگی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے انہیں جواب دیا کہ میں تم سے تو کچھ نہیں کہہ رہا میں تو اپنے رب کے پاس اپنا دکھ رو رہا ہوں ۔ اور اس کی ذات سے بہت امید رکھتا ہوں وہ بھلائیوں والا ہے ۔ مجھے یوسف کا خواب یاد ہے ، جس کی تعبیر ظاہر ہو کر رہے گی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے ایک مخلص دوست نے ایک مرتبہ آپ سے پوچھا کہ آپ کی بینائی کیسے جاتی رہی ؟ اور آپ کی کمر کیسے کبڑی ہو گئی ؟ آپ نے فرمایا یوسف کو رو رو کر آنکھیں کھو بیھٹا اور بنیامین کے صدمے نے کمر توڑ دی ۔ اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کے بعد کہتا ہے کہ میری شکایتیں دوسروں کے سامنے کرنے سے آپ شرماتے نہیں ؟ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اسی وقت فرمایا کہ میری پریشانی اور غم کی شکایت اللہ ہی کے سامنے ہے ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا آپ کی شکایت کا اللہ کو خوب علم ہے ۔ یہ حدیث بھی غریب ہے اور اس میں بھی نکارت ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

83۔ 1 حضرت یعقوب (علیہ السلام) چونکہ حقیقت حال سے بیخبر تھے اور اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے انھیں حقیقت واقعہ سے آگاہ نہیں فرمایا۔ اس لئے وہ یہی سمجھے کہ میرے ان بیٹوں نے اپنی طرف سے بات بنا لی ہے۔ بنیامین کے ساتھ انہوں نے کیا معاملہ کیا ؟ اس کا یقینی علم تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے پاس نہیں تھا، تاہم یوسف (علیہ السلام) کے واقعے پر قیاس کرتے ہوئے ان کی طرف سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں بجا طور پر شکوک شبہات تھے۔ 83۔ 2 اب پھر سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں تھا، تاہم صبر کے ساتھ امید کا دامن بھی نہیں چھوڑا یوسف علیہ السلام، بنیامین اور وہ بڑا بیٹا ہے جو مارے شرم کے وہیں مصر میں رک گیا تھا کہ یا تو والد صاحب مجھے اسی طرح آنے کی اجازت دے دیں یا پھر میں کسی طریقے سے بنیامین کو ساتھ لے کر آؤں گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٠] گمشدہ سامان کی برآمدگی سے چوری ثابت نہیں ہوجاتی :۔ یہ بعینہ وہی الفاظ ہیں جو سیدنا یعقوب نے اس وقت بھی کہے تھے جب برادران یوسف نے یوسف کو کنویں میں ڈالنے کے بعد رات کو روتے ہوئے باپ کے پاس آئے تھے اور ایک جھوٹا سا واقعہ بنا کر انھیں سنا دیا تھا۔ اب کی بار آپ نے بیٹوں سے پورا واقعہ سننے کے بعد جو انھیں تنبیہ کی تو اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ کیا تم یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ کسی شخص کے سامان سے کسی گم شدہ چیز کا برآمد ہونا اس بات کا یقینی ثبوت کب ہوتا ہے کہ اس شخص نے ضرور چوری کی ہے۔ ممکن ہے کسی دوسرے نے اس کے سامان میں وہ چیز رکھ دی ہو ؟ پھر تم نے یوسف پر چوری کا مزید الزام لگا کر بن یمین پر لگے ہوئے الزام کو پختہ تر بنادیا۔ اس تنبیہ سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے ایک یہ کہ سیدنا یعقوب کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ میرے یہ بیٹے چور نہیں ہوسکتے اور دوسرے یہ کہ برادران یوسف اپنے ان دونوں چھوٹے بھائیوں سے ہمیشہ بدگمان ہی رہتے تھے۔ [٨١] سب سے مراد یوسف بن یمین اور ان کا وہ بڑا بھائی ہے جو شرم و ندامت کے مارے مصر میں ہی رہ گیا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ ۔۔ : جب بڑے بھائی کی تجویز کے مطابق باقی بھائیوں نے کنعان پہنچ کر اپنے والد یعقوب (علیہ السلام) سے یہ سب کچھ بیان کیا تو انھوں نے کہا کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو اصل بات یہ نہیں بلکہ تمہارے دلوں نے تمہارے لیے ایک کام مزین کردیا ہے، اب میرا کام صبر جمیل ہے۔ وہی لفظ منہ سے نکلا جو یوسف کو بھیڑیے کے کھائے جانے کی خبر سن کر نکلا تھا۔ اللہ اپنے بندوں خصوصاً رسولوں کو کتنا بڑا حوصلہ دیتا ہے کہ جگر ٹکڑے ٹکڑے کردینے والی خبر سن کر بھی نہ شکوہ نہ شکایت، نہ جزع فزع نہ واویلا۔ پہلے ایک بیٹے کی خبر پر بھی صبر جمیل، اب مزید دو بیٹوں کی خبر پر بھی وہی صبر جمیل۔ پہلے بھی اللہ ہی سے مدد مانگی : (وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ ) [ یوسف : ١٨ ] اب بھی اسی کے سہارے پر دل میں امید کا چراغ روشن رکھا : (عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَنِيْ بِهِمْ جَمِيْعًا) امید ہے کہ اللہ ان تینوں کو میرے پاس لے آئے گا، یقیناً وہی علیم و حکیم ہے، وہ سب کچھ جانتا بھی ہے اور اس کی حکمتوں کی بھی کوئی انتہا نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹے کی سچی بات کا بھی اعتبار نہیں کیا جاتا۔ رہی یہ بات کہ یعقوب (علیہ السلام) کس طرح ان سب کی ملاقات کی امید ظاہر فرما رہے ہیں، تو ایک تو یہ کہ وہ اللہ کے نبی تھے اور دوسرے یہ کہ انھیں یوسف (علیہ السلام) کے خواب کی تعبیر سامنے آنے کا بھی یقین تھا، مگر پیارے بیٹے کی جدائی پھر لخت جگر کے حال سے بیخبر ی اور تعبیر کے ظہور کا وقت نامعلوم ہونے اور اب مزید دو بیٹوں کی گم شدگی کے پیہم صدمات اور انھیں دل ہی دل میں پی جانے کی کوشش نے یعقوب (علیہ السلام) کی طبیعت پر بہت ہی زیادہ اثر ڈالا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary After the detention of young Benyamin in Egypt, his brothers returned home and told Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) about what had happened there. They tried to assure him that they were telling the truth which can be confirmed from the people in Egypt, as well as, from the caravan they came with from Egypt to Canaan. From the later, he could also ascertain that Benyamin&s theft was apprehended and he was arrested for it. Since Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) knew that they had lied to him earlier in the case of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) ، therefore, he could not believe them this time too - though, in fact, this time they had told him no lie. And therefore, on this occasion as well, he said the same thing he had said at the time of the disappearance of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) : بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرً‌ا ۖ فَصَبْرٌ‌ جَمِيلٌ. (|"Rather, your inner desires have seduced you to something. So, patience is best), that is, this statement of yours is not correct. You have made it up yourself. But, even now, it is patience I choose to ob¬serve. Only that would be the best for me.& From this Al-Qurtubi has deduced: In whatever a Mujtahid says with his Ijtihad, there can be an error as well, so much so that it is pos¬sible that a prophet too, when he says something on the basis of his own Ijtihad, could make an error - though, only initially. This is what hap¬pened in this case when he declared the truth of his sons to be a lie. But, prophets have a special status and a personal exclusivity on the basis of which they are alerted over the mistake by the will of Allah, and removed away from it, and finally they find truth. Here, it is also possible that by his comment about &maneuvering so¬mething& mentioned above Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) intended to refer to what was made up in Egypt whereby Benyamin was arrested under a false charge of theft only to achieve a particular purpose, and the ulti¬mate result of which was to unfold later in a better form. There may, as well, be a hint toward it in the next sentence of this verse where it is said: عَسَى اللَّـهُ أَن يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا (Hopefully, Allah may bring them all together). In short, the outcome of the refusal of Sayyidna Ya` qub (علیہ السلام) to ac¬cept the statement of his sons this time was that there was no theft real¬ly, nor was Benyamin arrested, and the truth of the matter was to be found elsewhere. This was true in its place. But, whatever was said by his sons, as they knew it, was not wrong either.

خلاصہ تفسیر : یعقوب (علیہ السلام یوسف (علیہ السلام) کے معاملہ میں ان سب سے غیر مطمئن ہوچکے تھے تو سابق پر قیاس کر کے) فرمانے لگے (کہ بنیامین چوری میں ماخوذ نہیں ہوا) بلکہ تم نے اپنے دل سے ایک بات بنا لی ہے سو (خیر مثل سابق) صبر ہی کروں گا جس میں شکایت کا نام نہ ہوگا (مجھ کو) اللہ سے امید ہے کہ ان سب کو (یعنی یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین اور جو بڑا بھائی اب مصر میں رہ گیا ہے ان تینوں کو) مجھ تک پہنچادے گا (کیونکہ) وہ (حقیقت حال سے) خوب واقف ہے (اس لئے اس کو سب کی خبر ہے کہ کہاں کہاں اور کس کس حال میں ہیں اور وہ) بڑی حکمت والا ہے (جب ملانا چاہے گا تو ہزاروں اسباب و تدابیر درست کر دے گا) اور (یہ جواب دے کر بوجہ اس کے ان سے رنج پہنچا تھا) ان سے دوسری طرف رخ کرلیا اور (بوجہ اس کے کہ اس نئے غم سے وہ پرانا غم اور تازہ ہوگیا، یوسف (علیہ السلام) کو یاد کر کے) کہنے لگے ہائے یوسف افسوس ! اور غم سے (روتے روتے) ان کی آنکھیں سفید پڑگئیں (کیونکہ زیادہ رونے سے سیاہی آنکھوں کی کم ہوجاتی ہے اور آنکھیں بےرونق یا بالکل بےنور ہوجاتی ہیں) اور وہ (غم سے جی ہی جی میں) گھٹا کرتے تھے (کیونکہ شدت غم کے ساتھ جب شدت ضبط ہوگا جیسا کہ صابرین کی شان ہے تو کظم کی کیفیت پیدا ہوگی) بیٹے کہنے لگے بخدا (معلوم ہوتا ہے) تو ہمیشہ ہمیشہ یوسف کی یادگاری میں لگے رہو گے یہاں تک کہ گھل گھل کر جاں بہ لب ہوجاؤ گے یا یہ کہ بالکل مر ہی جاؤ گے (تو اتنے غم سے فائدہ کیا) یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم کو میرے رونے سے کیا بحث میں تو اپنے رنج وغم کی صرف اللہ تعالیٰ سے شکایت کرتا ہوں (تم سے تو کچھ نہیں کہتا) اور اللہ کی باتوں کو جتنا میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے (باتوں سے مراد یا تو لطف و کرم و رحمت اتم ہے اور بامراد الہام ہے ان سب سے ملنے کا جو بلا واسطہ ہو یا بواسطہ خواب یوسف (علیہ السلام) کے جس کی تعبیر اب تک واقع نہیں ہوئی تھی اور واقع ہونا اس کا ضرور ہے) اے میرے بیٹو (اظہار غم تو صرف اللہ کی جناب میں کرتا ہوں مسبب الاسباب وہی ہے لیکن ظاہری تدبیر تم بھی کرو کہ ایک بار پھر سفر میں) جاؤ اور یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی تلاش کرو (یعنی اس فکر و تدبیر کی جستجو کرو جس سے یوسف (علیہ السلام) کا نشان ملے اور بنیامین کو رہائی ہو) اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید مت ہو بیشک اللہ کی رحمت سے وہی لوگ ناامید ہوتے ہیں جو کافر ہیں، معارف و مسائل : یعقوب (علیہ السلام) کے چھوٹے صاحبزادے بنیامین کی مصر میں گرفتاری کے بعد ان کے بھائی وطن واپس آئے اور یعقوب (علیہ السلام) کو یہ ماجرا سنایا اور یقین دلانا چاہا کہ ہم اس واقعہ میں بالکل سچے ہیں آپ اس بات کی تصدیق مصر کے لوگوں سے بھی کرسکتے ہیں اور جو قافلہ ہمارے ساتھ مصر سے کنعان آیا ہے اس سے بھی معلوم کرسکتے ہیں کہ بنیامین کی چوری پکڑی گئی اس لئے وہ گرفتار ہوگئے یعقوب (علیہ السلام) کو چونکہ یوسف (علیہ السلام) کے معاملہ میں ان صاحبزادوں کا جھوٹ ثابت ہوچکا تھا اس لئے اس مرتبہ بھی یقین نہیں آیا اگرچہ فی الواقع اس وقت انہوں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا تھا اس لئے اس موقع پر بھی وہی کلمات فرمائے جو یوسف (علیہ السلام) کی گم شدگی کے وقت فرمائے تھے قال بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا ۭ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ یعنی یہ بات جو تم کہہ رہے ہو صحیح نہیں تم نے خود بات بنائی ہے مگر اب بھی صبر ہی کرتا ہوں وہی میرے لئے بہتر ہے، قرطبی نے اسی سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مجتہد جو بات اپنے اجتہاد سے کہتا ہے اس میں غلطی بھی ہو سکتی ہے یہاں تک کہ پیغمبر بھی جو بات اپنے اجتہاد سے کہیں اس میں ابتداء غلطی ہوجانا ممکن ہے جیسے اس معاملہ میں پیش آیا کہ بیٹوں کے سچ کو جھوٹ قرار دے دیا مگر انبیاء (علیہم السلام) کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کو منجانب اللہ غلطی پر متنبہ کر کے اس سے ہٹا دیا جاتا ہے اور انجام کار وہ حق کو پالیتے ہیں یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے ذہن میں بات بنانے سے مراد وہ بات بنانا ہو جو مصر میں بنائی گئی کہ ایک خاص غرض کے ماتحت جعلی چوری دکھلا کر بنیامین کو گرفتار کیا گیا جس کا انجام آئندہ بہترین صورت میں کھل جانے والا تھا اس آیت کے اگلے جملے سے اس طرف اشارہ بھی ہوسکتا ہے جس میں فرمایا عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَنِيْ بِهِمْ جَمِيْعًا یعنی قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو مجھ سے ملا دے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس مرتبہ جو صاحبزادوں کی بات کو تسلیم نہیں کیا اس کا حاصل یہ تھا کہ درحقیقت نہ کوئی چوری ہوئی ہے اور نہ بنیامین گرفتار ہوئے ہیں بات کچھ اور ہے یہ اپنی جگہ صحیح تھا مگر صاحبزادوں نے اپنی دانست کے مطابق جو کچھ کہا تھا وہ بھی غلط نہ تھا

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا ۭ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ ۭ عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَنِيْ بِهِمْ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ 83؀ سول والتَّسْوِيلُ : تزيين النّفس لما تحرص عليه، وتصویر القبیح منه بصورة الحسن، قال : بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْراً [يوسف/ 18] ( س و ل ) التسویل ۔ کے معنی نفس کے اس چیز کو مزین کرنا کے ہیں جس پر اسے حرص بھی ہو اور اس کے قبح کو خوشنما بناکر پیش کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْراً [يوسف/ 18] بلکہ تم اپنے دل سے ( یہ ) بات بنا لائے ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں جمیل الجَمَال : الحسن الکثير، وذلک ضربان : أحدهما : جمال يخصّ الإنسان في نفسه أو بدنه أو فعله . والثاني : ما يوصل منه إلى غيره . وعلی هذا الوجه ما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ اللہ جمیل يحبّ الجمال» «2» تنبيها أنّه منه تفیض الخیرات الکثيرة، فيحبّ من يختص بذلک . وقال تعالی: وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل/ 6] ، ويقال : جَمِيلٌ وجَمَال علی التکثير . قال اللہ تعالی: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف/ 83] ( ج م ل ) الجمال کے معنی حسن کثیر کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) وہ خوبی جو خاص طور پر بدن یا نفس یا عمل میں پائی جاتی ہے ۔ (2) وہ خوبی جو دوسرے تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے اسی معنی میں مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا (66) ان اللہ جمیل يحب الجمال ۔ کہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو محبوب رکھتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے خیرات کثیرہ کا فیضان ہوتا ہے لہذا جو اس صفت کے ساتھ متصف ہوگا ۔ وہی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوگا ۔ اور قرآن میں ہے :۔ وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل/ 6] اور جب شام کو انہیں جنگل سے لاتے ہو ۔۔ تو ان سے تمہاری عزت و شان ہے ۔ اور جمیل و جمال وجمال مبالغہ کے صیغے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف/ 83] اچھا صلہ ( کہ وہی ) خوب ( ہے ) عسی عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] ، أي : کونوا راجین ( ع س ی ) عسیٰ کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٣) یہ سن کر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا یہ بات ممکن نہیں بلکہ تم نے اپنے دل سے ایک بات نکال لی ہے لیکن میں صبر ہی کروں گا اور تم لوگوں سے کوئی شکایت نہیں کروں گا۔ مجھ کو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ یوسف، بنیامین اور یہودا کو مجھ تک پہنچا دے گا وہ اس بات سے خوب واقف ہے کہ وہ کہاں ہیں اور وہ ان سب کو مجھ سے ملانے میں بڑی حکمت والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٣ (قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا ۭ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ) حضرت یعقوب نے یہاں پر پھر وہی فقرہ بولا جو حضرت یوسف کی موت کے بارے میں خبر ملنے پر بولا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ حقیقت وہ نہیں ہے جو وہ بیان کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا : بہرحال میں اس پر بھی صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا۔ (عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَنِيْ بِهِمْ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ ) حضرت یعقوب کے لیے حضرت یوسف کا غم ہی کیا کم تھا کہ اب دیار غیر میں دوسرے بیٹے کے مصیبت میں گرفتار ہونے کی خبر مل گئی ‘ اور پھر تیسرے بیٹے یہودا کا دکھ اس پر مستزاد جس نے مصر سے واپس آنے سے انکار کردیا تھا مگر پھر بھی آپ صبر کا دامن تھامے رہے۔ رنج وا لم کے سیل بےپناہ کا سامنا ہے مگر پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ بس اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسا ہے اور اسی کی رحمت سے امید !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

That is, you readily believed that my son, whom I know to be of a noble character, had committed the theft of a cup. You have behaved in his case just as you behaved in the case of his elder brother. You made away with him and then pretended, without any pangs of conscience, that a wolf had devoured him and now, with the same ease, you tell me that the other brother has committed a theft.

٦٤ ۔ یعنی تمہارے نزدیک یہ باور کرلینا بہت آسان ہے کہ میرا بیٹا جس کے حسن سیرت سے میں خوب واقف ہوں ایک پیالے کی چوری کا مرتکب ہوسکتا ہے ۔ پہلے تمہارے لیے اپنے ایک بھائی کو جان بوجھ کر گم کردینا اور اس کے قمیص پر جھوٹا خون لگا کر لے آنا بہت آسان کام ہوگیا تھا ۔ اب ایک دوسرے بھائی کو واقعی چور مان لینا اور مجھے آکر اس کی خبر دینا بھی ویسا ہی آسان ہوگیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

53: چونکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یقین تھا کہ بنیامین چوری نہیں کرسکتا۔ اس لیے انہوں نے یہ سمجھا کہ اس مرتبہ بھی ان لوگوں نے کوئی بہانہ بنایا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٣۔ جب یوسف (علیہ السلام) کے سوتیلے بھائیوں نے کنعان پہنچ کر باپ سے بنیامین کا قصہ بیان کیا تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان کی بات کو سچا نہیں جانا اور سمجھے کہ جس طرح انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو علیحدہ کیا اسی طرح بنیامین کو بھی انہوں نے مجھ سے جدا کیا۔ اسی بنا پر کہا کہ یہ بات کوئی بھی ٹھیک نہیں ہے یہ سب من گھڑت تمہارے دل نے یہ سب افترا پردازی کی ہے اور تم نے خود یہ بات ویسے گھڑ لی ہے کہاں بنیامین اور کہاں چوری اس سے اور چوری سے کیا علاقہ یا مطلب بل سولت لکم انفسکم امرا سے یہ مراد ہے کہ تم بنیامین کو ملک مصر میں بغرض منفعت کے لے گئے تھے اور اس کے عوض مضرت حاصل کر لائے یا یہ مراد ہے کہ تم نے فتویٰ دے دیا کہ چور کو چوری کے عوض میں پکڑ کر رکھ لینا چاہیے۔ غرض کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) پبغمبر تھے۔ پیغمبر کی بات کبھی جھوٹ نہیں ہوتی انہوں نے اپنے بیٹوں سے جو یہ کہا کہ تمہارے دل نے یہ بات بنائی ہے واقعی یہی بات تھی کہ یوسف (علیہ السلام) بھی تو آپ کے بیٹے تھے انہوں نے چوری کی ترکیب خود نکالی تھی اور بنیامین کو اس تدبری سے اپنے پاس رکھ لیا اس لئے نبی کے دل نے چوری کے قصہ کو قبول کیا۔ بہر حال یعقوب (علیہ السلام) نے کہا خیر کوئی بات بھی ہو اب تو بخیر صبر کوئی چارہ نہیں۔ صبر جمیل کے معنے پہلے بیان ہوچکے ہیں کہ صبر جمیل وہ صبر ہے جس میں شکوہ و شکایت نہ ہو اور ساری باتیں خدا کی طرف سونپی جائیں۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ ١ ؎ سے انس بن مالک (رض) کی حدیث گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مصیبت کے پیش آتے ہی شروع صدمہ کے وقت آدمی صبر کرے تو اس کا بڑا اجر ہے۔ ورنہ رفتہ رفتہ مصیبت کا صدمہ کم ہوجانے سے آدمی کو خود صبر آجاتا ہے۔ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کی جدائی کے شروع صدمہ کے وقت جس طرح فصبر جمیل فرمایا وہی بنیامین کی جدائی کے شروع صدمہ کے وقت فرمایا اس لئے اللہ تعالیٰ نے علاوہ عقبی کے اجر کے دنیا میں بھی ان کے اس صبر کا یہ بدلہ انہیں دکھا دیا کہ ان کے بیٹوں کو خیریت کے ساتھ ان سے ملادیا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو پہلے تو فقط حضرت یوسف (علیہ السلام) کی جدائی کا رنج تھا جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے چھوٹے بھائی بنیامین بھی حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے جدا ہوگئے اور ان کی جدائی سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا رنج اور بڑھ گیا اور رنج کی کوئی حد باقی نہ رہی تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے جان لیا کہ دنیا میں عادت الٰہی ہمیشہ سے یوں ہی جاری ہے کہ دنیا کے ہر رنج کے ساتھ خوشی لگی ہوئی ہے۔ اسی واسطے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے دل کو تسکین فرمائی جس کا ذکر اس آیت میں ہے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خواب اور اس خواب کی تعبیر کے سبب سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے توقع تھی کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ہرگز بھیڑئیے نے نہیں کھایا اور اس خواب کی تعبیر تک ضرور یوسف (علیہ السلام) زندہ رہیں گے۔ آزمائش الٰہی کے طور پر کچھ عرصہ تک آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں پھر ضرور ملیں گے۔ اس لئے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یہ فرمایا کہ اللہ کی حکمت سے کچھ دور نہیں جو اللہ تعالیٰ روبیل یوسف بنیامین سب بچھڑے ہوؤں کو اکٹھا ملا دیوے آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی توقع کو پورا کیا اور سب بچھڑوں کو حسب مراد ملا دیا یہ روبیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے وہ بڑے بیٹے تھے جو بنیامین کے مصر میں رہ جانے کے بعد شرما کر کنعان نہیں آئے تھے اور مصر میں رہ گئے تھے۔ آیت ان مع العسر یسرا (٦: ٩٤) ۔ میں ہر رنج کے ساتھ خوشی کے لگے رہنے کا ایک ازلی وعدہ الٰہی ہے جس کا اثر یعقوب (علیہ السلام) کے دل پر تھا اور ہر ایماندار شخص کے دل پر بھی اس کا اثر ہونا چاہیے۔ یہ آیت اور اس مضمون کی روایتیں جو اوپر گزر چکی ہیں ٢ ؎ وہ گویا اس آیت کی تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے ازلی وعدہ کے بھروسہ پر یہ کہا کہ اللہ کے علم اور حکمت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے وہ اپنے علم و حکمت سے اس رنج کے بعد ضرور سامان خوشی کا کر دے گا اور شاید وہ سامان یہی ہو کہ وہ سب بچھڑوں کو ملادے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ١٧٤٤ ج ١ باب الصبر عند الصدمۃ الادلی۔ ٢ ؎ جلد ہذا ص ١٨٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ یعنی جب بڑے بھائی کی تجویز کے مطابق باقی بھائیوں نے کنعان پہنچ کر اپنے والد حضرت یعقوب ( علیہ السلام) سے یہ سب کچھ بیان یا تو انہوں نے کہا۔ (وحیدی) ۔ 2 ۔ یہ جو کہتے ہو کہ بنیامین نے چوری کی اور وس اس کی سزا میں گرفتار کرلیا گیا، صرف یہی بات نہیں ہے کہ بلکہ اس میں تمہاری تسویل نفسانی کو بھی کچھ دخل ہے۔ وہ یہ کہ تم نے بنیامین کے غلام بنائے جانے کا خود ہی فتویٰ دیا اور پھر اس کے بھائی پر بھی چوری کی تہمت لگائی وغیرہ۔ (از روح) ۔ 3 ۔ صبر جمیل (عمدہ صبر) سے مراد وہ صبر ہے جس میں انسان اللہ تعالیٰ کی مرضی پر مطمئن اور قانع ہو اور بندوں سے کوئی گلہ شکوہ نہ کرے اور نہ جزع و فزع سے کام لے۔ (دیکھئے آیت 81) ۔ 4 ۔ یعنی یوسف ( علیہ السلام) ، بنیامین اور بڑے بھائی کو جو شرمندگی کے مارے مصر میں رہ گیا تھا۔ (روح) 5 ۔ اب کی بار انہوں نے بیشک سچ کہا تھا مگر پہلے کی بےاعتباری کی وجہ سے حضرت یعقوب نے بیٹوں کا اعتبار نہ کیا مگر حضرت یعقوب ( علیہ السلام) اس میں سچے بھی تھے کہ بیٹوں کی بنائی ہوئی بات تھی حضرت یوسف ( علیہ السلام) بھی تو آخر بیٹے ہی تھے۔ (کذافی الموضح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 83 تا 87 سولت بنا لی ہے، گھڑ لی صبر جمیل ایسا صبر جس میں کوئی شکایت نہ ہو عسی شاید، امید ہے کہ ان یا تینی یہ کہ وہ لائے میرے پاس تولی اس نے منہ پھیرلیا یا سفی ہائے افسوس ابیضت سفید ہوگئی ( ہوگئیں) عینہ اس کی آنکھیں الحزن رنج و غم کظیم گھٹنے والا (غم برداشت کرنے والا) تذکر ذکر۔ یاد کرنا حرض کمزور ، بےجان اشکوا فریاد کرتا ہوں بثی میرا غم تحسوا تلاش کرو۔ کھوج لگاؤ لاتایئسوا تم مایوس نہ ہو روح اللہ اللہ کی رحمت تشریح : آیت نمبر 83 تا 87 گزشتہ آیات میں حضرت یعقوب کے گیارہ بیٹوں کا واقعہ بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ جب ایک بہانے سے حضرت یوسف نے اپنے سگے بھائی بن یا مین کو روک لیا اور وہ تمام بھائی جو اپنے والد حضرت یعقوب کو اس بات کا یقین دلا کر بن یا مین کو اپنے ساتھ لائے تھے کہ ہم ان کی ہر طرح حفاظت کریں گے وہ سخت ناکام ہوگئے تب انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام صورت حال سے اپنے والد کو مطلع کردیتے ہیں کہ ان کے بیٹے نے چوری کی ہے اور اب وہ بادشاہ مصر کا غلام بن چکا ہے۔ بڑے بھائی نے یہ کہہ کر مصر سے کنعان واپس جانے سے انکار کردیا کہ تم لوگ چلے جاؤ اور پوری صورتحال کی وضاحت کر دو میں یہیں رک جاتا ہوں۔ نو بھائی مصر سے کنعان پہنچے اور اپنے والد حضرت یعقوب کو یہ سارا واقعہ سنایا حضرت یعقوب نے فرمایا ایسا لگتا ہے کہ تم نے یہ بات اپنے دل سے گھڑ لی ہے ہر بحال میں صبر جمیل کرتا ہوں اور میں اللہ سے اس بات کی امید رکھتا ہوں کہ وہ سب کو میرے پاس لے آئے۔ اب اس امحتان میں اور کیا حکمتیں اور مصلحتیں پوشید ہیں وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اس کے بعد حضرت یعقوب نے سب سے رخ پھیرلیا اور حضرت یوسف کو یاد کر کے رونا شروع کردیا۔ ابھی تک تو صرف حضرت یوسف کی جدائی کا غم تھا اب حضرت یوسف ، بن یا مین اور تیسرے بیٹے کا غم بھی بڑھ گیا اور حضرت یوسف کی جدائی کا غم اتنا بڑھ گیا کہ غم پیتے پیتے اور آنسو بہاتے بہاتے آنکھیں بھی سفید ہوگئیں۔ جب والد کی یہ حالت دیکھی تو برادران یوسف نے کہا کہ اے ابا جان اللہ کی قسم ایسا لگتا ہے کہ یوسف کی یاد میں آپ یا تو شدید بیمار ہوجائیں گے یا اس طرح اپنی جان کو گھلا ڈالیں گے۔ حضرت یعقوب کا پیغمبرا نہ جواب تھا کہ میں اگر رو رہا ہوں یا گریہ وزاری کر رہا ہوں تو وہ صرف اپنے اللہ کی بارگاہ میں کر رہا ہوں وہی میری سننے والا ہے۔ مجھے وہ بہت کچھ معلوم ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں رونے اور مانگنے سے کیا کچھ نہیں مل جاتا۔ اس حقیقت سے میں اچھی طرح واقف ہوں تم اپنا کام کرو۔ مجھے یقین ہے کہ یوسف زندہ ہیں تم ان کو اور ان کے بھائی کو تلاش کرو میں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں حقیقت یہ ہے کہ اس کی رحمت سے تو صرف کفار و مشرکین اور اس کے نافرمان ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ اس لیے اس کو سب کی خبر ہے کہ کہاں کہاں اور کس کس حال میں ہیں۔ 3۔ وہ جب ملانا چاہے گا ہزاروں اسباب وتدابیر درست کردے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا اپنے بیٹوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے دو وجہ سے بنیامین پر چوری کے الزام اور اپنے بیٹوں کی باتوں کو مسترد کیا۔ پہلی و جہ یہ تھی کہ وہ بحیثیت باپ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ میرا بیٹا بنیامین چوری نہیں کرسکتا کیونکہ اس نے اس سے پہلے کبھی ایسی غلطی نہیں کی۔ ایسا نیک اور دیانتدار بچہ پردیس میں جاکر کس طرح غلطی کرسکتا ہے۔ پھر وہ وہاں رہنے کے لیے نہیں بلکہ مجبوری کے عالم میں غلہ لینے کے لیے گیا ہے۔ ایسی صورت میں چوری کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس لیے بھی اپنے بیٹوں کی باتوں پر اعتماد کا اظہار نہیں کیا کہ وہ جانتے تھے کہ یہ پہلے بھی یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں بھی زیادتی کرچکے ہیں۔ اس وجہ سے ان پر اعتماد نہ کرنا ایک فطری بات تھی۔ اسی و جہ سے انہوں نے یہ فرمایا کہ تم خواہ مخواہ ایک کہانی بنا کر میرے سامنے پیش کر رہے ہو جسے بنانا اور بیان کرنا تمہارے دل نے تمہارے لیے آسان کردیا ہے۔ میں صبر جمیل کے سوا اور کیا کرسکتا ہوں۔ تاہم مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرور تینوں کو میرے پاس لائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم اور فیصلہ میں حکمت ہوتی ہے۔ (قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنْفُسُکُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ )[ یوسف : ١٨] ” یعقوب (علیہ السلام) نے کہا بلکہ تم نے ایک بات کو بنا سنوار لیا ہے۔ خیر صبرہی بہتر ہے۔ “ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو یہ الفاظ اس وقت بھی کہے تھے جب انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص پر جھوٹا خون لگا کر کہا تھا۔ ابا جان ! جب ہم کھیل کود میں ایک دوسرے سے بہت آگے نکل گئے پیچھے سے بھیڑیے نے یوسف کو کھالیا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس وقت بھی فرمایا تھا جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس پر اللہ تعالیٰ میری مدد فرمائے گا۔ اللہ اللہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا کتنا بڑا حوصلہ اور ایمان ہے کہ دوسرے بڑے سانحہ اور یوسف (علیہ السلام) کی طویل جدائی کے باوجود پہلے سے بڑھ کر نہ صرف صبر کا مظاہرہ کیا بلکہ بےانتہا پریشانی کے وقت بھی فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ضرور ہمیں ہماری زندگی میں جمع فرمائے گا۔ مجھے جو عظیم صدمہ کے بعد دوبارہ بڑا صدمہ پہنچا ہے اس کی حکمت اللہ ہی جانتا ہے۔ انشاء اللہ میں اس پر صبر جمیل کروں گا۔ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ صبر جمیل سے مراد ایسا صبر جس میں کسی قسم کا گلہ شکوہ اور جزع فزع نہ پایا جائے۔ (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ ) [ رواہ مسلم : باب الْمُؤْمِنُ أَمْرُہُ کُلُّہُ خَیْرٌ] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کا عجیب معاملہ ہے اس کے تمام معاملات میں بھلائی ہی بھلائی ہے اور یہ سعادت کسی اور کے نصیبے میں نہیں اگر مومن کو خوشحالی ملے تو وہ شکر کرتا ہے تو وہ بھی اس کے لیے باعث خیر ہے اور اگر وہ پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرے تو وہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے۔ “ اولاد منہ زور ہوجائے تو والدین کو درج ذیل ہدایات پر عمل کرنا چاہیے : (یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ وَأَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَکُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ وَإِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَإِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللّٰہُ عِنْدَہُ أَجْرٌ عَظِیْمٌ )[ التغابن : ١٤۔ ١٥] ” اے ایمان والو ! تمہاری بیویوں میں سے اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں۔ ان سے ہوشیار رہو اور اگر تم معاف کرو اور درگزر کرو اور انہیں بخش دو تو اللہ یقیناً بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ یقیناً تمہارے مال اور اولاد آزمائش ہیں اور اللہ کے ہاں بہترین اجر ہے۔ “ مسائل ١۔ مومن کو صبر کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سے حالات بدلنے کی امید اور دعا کرنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر بات جاننے اور حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن صبر اور اس کا اجر : ١۔ صبر ہی بہتر ہے۔ (یوسف : ٨٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے اجردے گا۔ (الزمر : ١٠) ٣۔ صبر کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بہترین صلہ دیا جائے گا۔ (النحل : ٩٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ صبر کا بدلہ جنت اور ریشم کی صورت میں دے گا۔ (الدھر : ١٢) ٥۔ صبر کیجیے اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ (ھود : ١١٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٨٣ تمہارے نفوس نے بہت ہی بڑے گناہ کو سہل بنا دیا ہے۔ تم بھائیوں کے خلاف سازش کرتے ہو۔ میں اس پر صبر ہی کرسکتا ہوں۔ یہ الفاظ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کی گمشدگی کے وقت بھی کہے تھے۔ لیکن اس بار یہاں وہ ایک امید بھی ظاہر کرتے ہیں کہ شاید اللہ ان سب کو واپس دلادے۔ بیشک اللہ ہی علیم و حکیم ہے۔ وہ میرے حالات سے بھی واقف ہے اور پسران کے بیانات کی حقیقت بھی جانتا ہے۔ واقعات و امتحانات کی حقیقت بھی وہ جانتا ہے اور جب بھی اللہ کی حکمت کا تقاضا ہوگا تمام واقعات و حقائق سامنے آجائیں گے۔ امید کی یہ کرن اس بوڑھے کے دل میں کہاں سے آئی۔ یہ خدا تعالیٰ سے امید کی کرن تھی ، ذات باری سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ اللہ اور اس کی رحمت کے وجود کا پختہ یقین تھا۔ اور یہ یقین اللہ کے برگزیدہ بندوں کے قلوب میں صاف نظر آیا کرتا ہے۔ اور ان کے نزدیک یہ یقین اس قدر حساس ہوتا ہے کہ اس کے مقابلے میں حواسہ خمسہ کا احساس کم نظر آتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

برادران یوسف کا اپنے والد کو چوری کا قصہ بتانا اور ان کا یقین نہ کرنا اور فرمانا کہ جاؤ یوسف کو اور اس کے بھائی کو تلاش کرو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹوں نے جب سارا ماجرا سنایا اور بنیامین کے پکڑے جانے کا واقعہ بتایا تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یقین نہ آیا۔ انہوں نے وہی الفاظ دہرا دئیے جو حضرت یوسف کی گمشدگی کے موقع پر فرمائے تھے یعنی (بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًا) کہ میرے نزدیک ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا کہ بنیامین نے چوری کی ہو اور اسے وہیں دھر لیا گیا ہو میری سمجھ میں تو یہی آتا ہے کہ تمہارے نفسوں نے اپنے پاس سے بات بنا لی ہے جو مجھے سمجھا رہے ہو ‘ واقعہ کچھ اور ہے اور بیان کچھ اور فَصْبَرٌ جَمِیْلٌ میں صبر ہی کروں گا جس میں شکایت نہ ہو (اور کر بھی کیا سکتا ہوں) میرے دل کی تو یہی آواز ہے کہ انشاء اللہ ایک دن ایسا آئے گا کہ یوسف اور اس کا بھائی بنیامین اور تیرا بھائی (جو تمہارے ساتھ نہیں آیا) ان تینوں کو اللہ تعالیٰ میرے پاس پہنچا ہی دے گا اسے پورے حالات کا علم ہے اور ان سب واقعات کے پیش آنے میں حکمتیں ہیں یہ فرما کر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے لڑکوں کی طرف سے منہ پھیرلیا اور کہنے گے کہ یوسف کی جدائی پر افسوس ہے یوسف (علیہ السلام) کی جدائی پر روتے روتے ان کی آنکھیں سفید ہوگئی تھیں اور شدت غم کی وجہ سے اندر سے گھٹے ہوئے رہتے تھے ‘ ان کے بیٹوں نے کہا کہ اللہ کی قسم آپ یوسف کو بھولتے ہی نہیں اسے آپ برابر یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ گھل کر رہ جائیں گے یا بالکل ہی ہلاک ہوجائیں گے ‘ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تمہیں میرے رونے سے کیا بحث ہے میں اپنے رنج وغم کی شکایت اللہ تعالیٰ ہی سے کرتا ہوں مجھے اللہ کی طرف سے جو علم دیا گیا ہے وہ تمہیں نہیں دیا گیا ‘ میں تو یہی جانتا ہوں کہ یوسف اور اس کے بھائی سے ضرور ملاقات ہوگی اب تم میری بات مانو اور یوسف اور اس بھائی کو تلاش کرو انشاء اللہ ان سے ملاقات ہوجائے گی اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو ‘ جو لوگ کافر ہیں وہی اللہ کی رحمت سے ناامید ہوتے ہیں۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے جیسے یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں ان کے بھائیوں کی بات کی تصدیق نہ کی (جو انہوں نے کہا تھا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا) اسی طرح بنیامین کے بارے میں انہوں نے چوری اور چوری کی وجہ سے پکڑے جانے والی جو بات کہی تھی اس کو بھی سچا نہیں مانا۔ حالانکہ وہ بظاہر اس بیان میں سچے تھے ‘ جب کوئی شخص ایک مرتبہ جھوٹا ثابت ہوجائے تو اس کا اعتبار نہیں رہتا ‘ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے جو یہ فرمایا کہ اللہ کی طرف سے جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے اس علم کے بارے میں ایک قول تو یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جو خواب دیکھا تھا کہ مجھے گیارہ ستارے چاند اور سورج سجدہ کر رہے ہیں اس کی تعبیر اب تک پوری نہیں ہوئی تھی وہ جانتے تھے کہ ایسا ہونا ضروری ہے کہ یوسف موجود ہو اور گیارہ ستارے یعنی سارے بھائی (جن میں بنیامین بھی تھے اور وہ بڑا بھائی بھی تھا جو مصر میں رہ گیا تھا) اور ماں باپ سجدہ کریں گے لہٰذا نہ یوسف کو موت آئی ہے نہ اس کی ملاقات سے پہلے مجھے دنیا سے جانا ہے ‘ سب کو ایک دن جمع ہونا ہی ہے ‘ اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں الہام ہوگیا ہو یا بذریعہ وحی اطلاع دے دی گئی ہو واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے اسی علم و یقین کی بنیاد پر کہ یوسف دنیا میں زندہ موجود ہے اور اس گمان پر کہ یوسف کے بھائی بنیامین کے بارے میں جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں وہ درست نہیں ہے اپنے بیٹوں سے کہا کہ جاؤ یوسف کو اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ (اس میں تیسرے بھائی کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ وہ بھائیوں کے بیان کے مطابق مصر میں موجود تھا اور اپنے قصد و ارادہ سے وہاں رہ گیا تھا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

83 ۔ بڑے بھائی کو چھوڑ کر جب بھائی واپس کنعان پہنچے تو انہوں نے تمام واقعہ بیان کیا حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یہ سب قصہ سنا کر فرمایا نہیں بن یامین نے چوری نہیں کی بلکہ تمہارے دلوں نے تمہارے لئے ایک بات گھڑ لی ہے لہٰذا پہلے کی طرح اس واقعہ پر بھی صبر جمیل ہی میرا کام ہے مجھ کو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ ان سب کو مجھ تک پہنچا دے گا بیشک وہ بڑا علم والا اور بڑا حکمت والا ہے۔ چونکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ سے ان بھائیوں کی حرکات سے پوری طرح غیر مطمئن تھے۔ اس لئے فرماای بل سولت لکم صبر جمیل وہ ہے جس میں غیر خدا سے شکوہ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ سے شکایت صبر جمیل کے منافی نہیں اللہ تعالیٰ حقیقت حال سے بخوبی واقف ہے اور چونکہ وہ حکیم ہے اس لئے تاخیر میں بھی کوئی حکمت ہے سب کو لے آئے گا یعنی یوسف (علیہ السلام) بن یامین اور بڑا بھائی میں باوجود ان پے در پے واقعات کے بھی خدا تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ پہلی بار کی بےاعتباری سے اب کے بھی حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بیٹوں کا اعتبار نہ کیا لیکن نبی کا کلام جھوٹ نہیں بیٹوں کی بنائی ہوئی بات تھی ۔ خلاصہ ! یہ کہ لکم کا خطاب سب بیٹوں کو ہے جن میں یوسف (علیہ السلام) اور بن بامین بھی داخل ہیں اور یہ بالکل سچ ہے کہ اس دفعہ یوسف (علیہ السلام) اور بن یامین نے بات بنائی نہ یہ چوری تھی نہ بن بامین چوری میں مآخوذ ہوئے۔