Surat ur Raad

The Thunder

Surah: 13

Verses: 43

Ruku: 6

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الرَّعْد نام : آیت نمبر ۱۳ کے فقرے وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ مِنْ خِيْفَتِهٖ کے لفظ الرعد کو اس سورۃ کا نام قرار دیا گیا ہے ۔ اس نام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سورۃ میں بادل کی گرج کے مسئلے سے بحث کی گئی ہے ، بلکہ یہ صرف علامت کے طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ وہ س... ورۃ ہے جس میں لفظ الرعد آیا ہے ، یا جس میں رعد کا ذکر آیاہے ۔ زمانہ نزُول : رکوع ٤ اور رکوع٦ کے مضامین شہادت دیتے ہیں کہ یہ سورۃ بھی اسی دور کی ہے جس میں سورہ یونس ، ہود ، اور اعراف نازل ہوئی ہیں ، یعنی زمانہ قیام مکہ کا آخری دور ۔ انداز بیان سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے ایک مدت دراز گزر چکی ہے ، مخالفین زک دینے اور آپ کے مشن کو ناکام کر نے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلتے رہے ہیں ، مومنین بار بار تمنائیں کر رہے ہیں کہ کاش کوئی معجزہ دکھا کر ہی ان لوگوں کو راہ راست پر لایا جائے ، اور اللہ تعالی مسلمانوں کو سمجھا رہا ہے کہ ایمان کی راہ دکھانے کا یہ طریقہ ہمارے ہاں رائج نہیں ہے اور اگر شمنان حق کی رسی دراز کی جا رہی ہے تو یہ ایسی بات نہیں ہے کہ جس سے تم گھبرا اٹھو ۔ پھر آیت ۳۱ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کفار کی ہٹ دھرمی کا ایسا مظاہرہ ہو چکا ہے جس کے بعد یہ کہنا بالکل بجا معلوم ہوتا ہے کہ اگر قبروں سے مردے بھی اٹھ کر آجائیں تو یہ لوگ نہ مانیں گے بلکہ اس واقعے کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل کر ڈالیں گے ۔ ان سب باتوں سے یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ سورہ مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہوگی ۔ مرکزی مضمون : ”سورۃ کا مدعا پہلے ہی آیت میں پیش کر دیا گیا ہے ، یعنی یہ کہ جو کچھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں وہی حق ہے ، مگر یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ اسے نہیں مانتے ۔ ساری تقریر اسی مرکزی مضمون کے گرد گھومتی ہے ۔ اس سلسلے میں بار بار مختلف طریقوں سے توحید ، معاد اور رسالت کی حقانیت ثابت کی گئی ہے ، ان پر ایمان لانے کے اخلاقی و روحانی قوائد سمجھائے گئے ہیں ، ان کو نہ ماننے کے نقصانات بتائے گئے ہیں ، اور یہ ذہن نشین کیا گیا ہے کہ کفر سراسر ایک حماقت اور جہالت ہے ۔ پھر چونکہ اس سارے بیان کا مقصد محض دماغوں کو مطمئن کرنا ہی نہیں ، دلوں کو ایمان کی طرف کھینچنا بھی ہے ، اس لیے نرے منطقی استدلال سے کام نہیں لیا گیا ہے بلکہ ایک ایک دلیل اور ایک ایک شہادت کو پیش کرنے کے بعد ٹھہر کر طرح طرح سے تخویف ، ترہیب ، ترغیب ، اور مشفقانہ تلقین کی گئی ہے تاکہ نادان لوگوں کو اپنی گمراہانہ ہٹ دھرمی سے باز آجائیں ۔ دوران تقریر میں جگہ جگہ مخالفین کے اعتراضات کا ذکر کئے بغیر ان کے جوابات دیے گئے ہیں ، اور ان شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں پائے جاتے تھے یا مخالفین کی طرف سے ڈالے جاتے تھے ۔ اس کے ساتھ اہل ایمان کو بھی جو کئی برس کی طویل اور سخت جدوجہد کی وجہ سے تھکے جا رہے تھے اور بے چینی کے ساتھ غیبی امداد کے منتظر تھے ، تسلی دی گئی ہے ۔  Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

سورۃ الرعد تعارف یہ سورت بھی ہجرت سے پہلے نازل ہوئی تھی، اور اس کا بنیادی موضوع اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کا اثبات اور ان پر عائد کیے جانے والے اعتراضات کا جواب ہے۔ پچھلی سورت یعنی سورۃ یوسف کے آخر ( آیت نمبر ١٠٥) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ تع... الیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی وحدانیت کی بہت سی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن کفار ان کی طرف دھیان دینے کے بجائے ان سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ اب اس سورت میں کائنات کی ان نشانیوں کی کچھ تفصیل بیان فرمائی گئی ہے جو پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ جس قادر مطلق نے اس کائنات کا یہ محیر العقول نظام بنایا ہے، اسے اپنی خدائی قائم کرنے کے لیے کسی مددگار یا شریک کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر انصاف کے ساتھ غور کیا جائے تو اس کائنات کا ہر ذرہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی بھی گواہی دیتا ہے، اور اس بات کی بھی کہ یہ سارا نظام اس نے بے مقصد پیدا نہیں کردیا۔ اس کا یقینا کوئی مقصد ہے، اور وہ یہ کہ اس دنیوی زندگی میں کیے ہوئے ہر کام کا کسی دن حساب ہو، اور اس دن نیکیوں کا انعام اور برائیوں کی سزا دی جائے۔ اس سے خودبخود آخرت کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے۔ پھر نیکی اور برائی کا تعین کرنے کے ل یے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح ہدایات بندوں کو دی جائیں۔ ان ہدایات کا ذریعہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں جو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے احکام معلوم کر کے دنیا والوں تک پہنچاتے ہیں۔ لہذا اسی سے رسالت کا عقیدہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ کائنات کی جو نشانیاں اس سورت میں بیان کی گئی ہیں، ان میں بادلوں کی گرج چمک بھی ہے جس کا ذکر اس سورت کی آیت نمبر ١٣ میں آیا ہے۔ عربی میں گرج کو رعد کہا جاتا ہے۔ اسی پر اس سورت کا نام رعد رکھا گیا ہے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

سورة نمبر ١٣ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورۃ الرعد سورة نمبر 13، رکوع 6، آیات 43، الفاظ و کلمات 863 ، حروف 3614، مقام نزول مکہ مکرمہ سورۃ الرعد قیام مکہ کے اس آخری دور میں نازل ہوئی جب کفار و مشرکین مکہ نے اہل ایمان کا اس سر زمین پر رہنا دشوار کردیا تھا اور اپنے ظلم و ستم کی انتہا کردی تھی۔ فرمایا...  جا رہا ہے کہ اے اہل ایمان ! تم ان کفار کی پروانہ نہ کرو اور حق وصداقت کی شمع کو روشن کرتے چلے جاؤ۔ اس کائنات کو جس اللہ نے پیدا کیا ہے وہی اس کا خالق، مالک اور رزاق ہے وہ زبردست قوت طاقت کا مالک ہے اسی نے زمین و آسمان، چاند ، سورج، ستارے، پہاڑ، درخت، بادل بجلی کی گھن گھرج اور بہتے دریاؤں کو پیدا کیا ہے وہ اپنے ہر حکم کو عملی شکل دینے پر پوری قدرت رکھتا ہے وہ کسی قوم کو عذاب دینا چاہے تو اس کو کوئی روک نہیں سکتا۔ وہ کسی کو دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا کرنا چاہے تو کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتا اسی اللہ نے اپنے محبوب نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنا کلام نازل کیا ہے جو سراسر نور اور حق و صداقت کی شمع ہے۔ اسی میں سارے انسانوں کے لئے اطمینان قلب کی دولت موجزن ہے۔ اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ باطل کی قوت و طاقت سے نہ ڈریں نہ دبیں کیونکہ بظاہر باطل ایک قوت نظر آتا ہے درحقیقت اس کی حیثیت اس کوڑے کباڑ سے زیادہ نہیں ہے جو بارش کے پانی سے بہنے والے ندی نالوں کے اوپر نظر آتا ہے یا سونا چاندی تپانے کے وقت جو جھاگ سونے پر آجاتا ہے۔ فرمایا کہ کوڑے کباڑ کے نیچے بہتا رواں دواں صاف شفاف پانی اور سونے چاندی کی قیمت اور حیثیت ہوتی ہے جھاگ اور کوڑے کباڑ کو پھینک دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو نصیحت فرمائی ہے کہ وہ ان کفار کی باتوں کی پرواہ نہ کریں۔ کفار کبھی تو کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا بھی ہے پیتا بھی ہے اور بیوی بچے رکھتا ہے۔ اسی طرح وہ بہت سی باتوں کا مذاق اڑاتے ہیں فرمایا کہ کوئی شخص ان بےعقل اور نا سمجھوں سے پوچھے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے رسول اور نبی آئے ہیں کیا ان کے بیوی بچے اور بشری تقاضے نہیں تھے۔ اہل ایمان سے فرمایا کہ کفار و مشرکین مذاق اڑانے سے اور تمہیں جڑ و بنیاد سے اکھڑانے سے باز نہیں آئیں گے۔ تم اس اللہ پر مکمل یقین رکھو جو اس کائنات کا مالک ہے اور اسی نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس قرآن کریم کو نازل کیا ہے جو سرا سر ہدایت اور روشنی ہے جس پر عمل کرنے سے ہی زندگی کے اندھیرے دور ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کو بھی بتایا ہے کہ یہ دنیا دار العمل ہے عمل کرنے کا بہترین موقع ہے یہ وقت نکل گیا تو پھر عمل کرنے کا موقع نصیب نہ ہوگا ۔ دنیا اور آخرت کی کامیابی اسی میں ہے کہ اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر آخرت کی کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کرلی جائیں ورنہ دنیا اور آخرت دونوں برباد ہو کر رہ جائیں گے۔ ٭… یہ سورت قیام مکہ مکرمہ کے اس آخری دور میں نازل کی گئی ہے جب کفار کے ظلم و ستم کی انتہا ہوچکی تھی۔ ٭… دوسرے رکوع میں لفظ الرعد (بادل کی گرج چمک) آیا ہے۔ اسی سے علامت کے طو پر اس سورت کا نام رکھا گیا ہے۔ ٭… اس سورة میں اسلام کے بنیادی عقائد توحید، رسالت، وحی، آخرت جزا و سزا جنت و جہنم کا ذکر کیا گیا ہے۔ ٭… جگہ جگہ کفار و مشرکین کے اعتراضات کے جوابات دیئے گئے ہیں۔ ٭… اس سورة میں بتایا گیا ہے کہ انسان دن کے اجالے میں یا رات کی تاریکی میں کھل کر یا چھپ کر کوئی کام کرتا ہے تو اس کی اطلاع اور علم اللہ کو ہے۔ وہ ایسی ذات ہے جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔   Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

بسم اللہ الرحمن الرحیم تعارف سورة الرعد اس سورة کا نام اس کی آیت ١٣ سے لیا گیا ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ چمکنے اور کڑکنے والی آسمانی بجلی بھی اللہ کی تسبیح پڑھتی ہے۔ یہ سورة چھ رکوع اور ٤٣ آیات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان رات اور دن باغات اور نباتات کے حو... الے سے اپنی وحدت کا ثبوت دیتے ہوئے انسان کو یہ بات باور کروائی ہے کہ اے انسان ! اللہ تعالیٰ تجھے اس وقت سے جانتا ہے جب تو اپنی ماں کے رحم میں تھا۔ وہ رحم میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے بھی واقف ہے۔ اس کے سامنے غائب اور ظاہر دونوں برابر ہیں۔ وہ تیری جلوت اور خلوت کو نہ صرف جانتا ہے بلکہ اس نے ہر کسی پر نگران اور محافظ مقرر کر رکھے ہیں۔ سب کچھ جاننے اور ہر چیز پر قدرت رکھنے کے باوجودوہ لوگوں کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے آپ کو بدلنے کا عزم نہ کریں۔ اس نے انسان کو اپنی حالت بدلنے یا نہ بدلنے کے بارے میں اختیار دے رکھا ہے۔ انسان اس اختیار سے غلط فائدہ اٹھا کر اپنے رب کا نافرمان ہوجاتا ہے۔ حالانکہ انسان اس قدر کمزور ہے کہ وہ چمکنے اور کڑکنے والی بجلی کی تاب نہیں لاسکتا۔ بجلی کی جس آواز سے یہ کانپتا ہے حالانکہ وہ اپنی زبان میں اپنے رب کی حمد بیان کرتی ہے۔ توحید کے دلائل دینے کے بعد فرمایا کہ لوگوں تک حق پہنچ چکا ہے۔ خدا کے نافرمانوں کی حالت اس شخص کی مانند ہوچکی ہے۔ جو پانی پر کھڑا ہو کر ہاتھ پھیلا کر پانی کو آواز پر آواز دیتا ہے لیکن اس کے باوجود پانی اس کی زبان تک نہیں پہنچتا۔ یہی حالت خدا کے نافرمان اور مشرک کی ہوا کرتی ہے کہ اگر وہ خدا کی خدائی اور اس کی توحید کو سمجھنا چاہے تو ہر قسم کے دلائل اس کے سامنے موجود ہوتے ہیں۔ اگر نہ سمجھنا چاہے پانی کی طرح عقیدہ توحید کی عظیم نعمت خود اس تک نہیں پہنچ سکے گی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی قدرت قریب ہونے کے باوجود پھر بھی مشرک دوسروں کو پکارتا ہے۔ حالانکہ وہ نفع و نقصان پر کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ عقیدۂ توحید خالص سونے کی مانند ہے اور شرک جھاگ اور راکھ کے برابر ہے جس طرح جھاگ اور راکھ کا کوئی فائدہ نہیں اسی طرح شرک کرنے والے کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ جس طرح جھاگ اور راکھ کچھ مدت کے بعد اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں۔ اسی طرح مشرک اور کافر اپنے اچھے اعمال کا نتیجہ بھی کھوبیٹھیں گے۔ اس مثال کے بعد اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اور لوگوں کے ساتھ عہد کی وفا کا حکم دیا ہے۔ پھر یہ بات ارشاد فرمائی کہ صاحب ایمان لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اور ذکر پر سکون پاتے ہیں۔ سورت کے آخر میں قرآن مجید کی عظمت کا ذکر کیا گیا ہے۔   Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة رعد ایک نظر میں بارہا میں نے قرآنی آیات پر غوروفکر کرتے ہوئے یہ ڈر محسوس کیا ہے کہ میں قرآن کریم کی تفسیر نصوص قرآنی کو چھوڑ کر کسی دوسرے انسانی اسالیب کلام کے انداز میں کروں۔ کیونکہ قرآن کریم کا انداز بیان بےمثال اور لافانی ہے اور ہم اس کی جو تفسیر بھی کرتے ہیں اور اس کے لئے جو اسلوب بیان ... بھی اختیار کرتے ہیں وہ اس کے اسلوب سے فروتر ہے۔ یہ سورة بھی سورة انعام کے انداز اور اسلوب میں ہے۔ اس کا انداز بیان اس قدر صاف ، سادہ اور واضح ہے کہ میں خیال کرتا ہوں کہ اس کی کوئی تشریح نہ کی جائے ، اسے ۔۔۔۔ ہی نہ کیا جائے اور قاری اسے پڑھتا ہی چلا جائے۔ لیکن میں کیا کروں ، ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جس میں لوگ قرآن کریم سے بہت ہی دور ہوگئے ہیں ، لہٰذا اس بات کی ضرورت پڑتی ہے کہ عوام کو قرآن کے مقاصد ، اس کے مزاج ، اس کے نظام اور اس کے موضوع سخن سے آگاہ کیا جائے۔ دراصل لوگ اس ماحول سے بیخبر ہیں جس میں قرآن کریم نازل ہو۔ لوگوں نے وہ اغراض و مقاصد پس پشت ڈال دئیے ہیں جن کے لئے قرآن مجید نازل ہوا۔ اس لیے ان کے شعور و احساس سے قرآن مجید کے مفہومات اور اس کے حدود کار زائل اور محو ہوچکے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ یہ لوگ قرآنی اصطلاحات کا مفہوم بھی نہیں جانتے ، اس لیے کہ لوگ ایسی ہی جاہلیت میں ڈوبے ہوئے ہیں جس میں وہ لوگ ڈوبے ہوئے تھے جن پر یہ قرآن پہلی مرتبہ نازل ہوا۔ اب قرآن کو لے کر مسلمان جاہلیت کا مقابلہ نہیں کر رہے ، نہ انہوں نے قرآنی نظام کے قیام کے لیے کوئی تحریک برپا کر رکھی ہے ، جس طرح حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت قرآن کو ماننے والوں نے اقامت دین کے لیے ایک تحریک برپا کی تھی۔ قرآنی نظام کے قیام کی تحریک کے بغیر لوگ ان مقاصد ، مفاہیم اور مطالب کو سمجھ ہی نہیں سکتے جو قرآن کے پیش نظر تھے اور ہیں۔ ایک معطل اور بےعمل شخص مقاصد قرآن کو نہیں پاسکتا ، اس کی حقیقت سے روشناس وہی شخص ہو سکتا ہے جو قرآن کی روشنی میں ایک تحریک برپا کردے اور اسے لے کر جاہلیت کے مقابلے میں اتر آئے۔ لیکن ان حقائق کے باوجود میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ میں قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر کروں کیونکہ وہ خود بین اور واضح ہے۔ قرآن کریم کو پڑھ کر میرے پردہ احساس پر جو ارتعاش پیدا ہوتا ہے اسے میں الفاظ کے جامے میں منتقل نہیں کرسکتا۔ یہی ویہ ہے کہ میں اپنے اس احساس اور شعور کو پوری طرح ظلال القرآن میں الفاظ کی شکل میں منتقل نہیں کرسکتا۔ میں جو کچھ کر پاتا ہوں وہ کچھ اور ہے اور الفاظ ظلال کچھ اور ہیں۔ ہاں میں اس بات کو اچھی طرح سمجھ گیا ہوں کہ ہمارے معاشرے اور اس معاشرے میں ایک بنیادی فرق ہے جس کے اندر قرآن کریم پہلے اترا۔ ابتدائی لوگ ، صحابہ کرام براہ راست اس کے مخاطب تھے۔ وہ اپنے دل و دماغ کی تاروں پر براہ راست قرآن کی ضربات کو محسوس کرتے تھے۔ اس کے تصورات اور اس کی پرچھائیں اور اس کے اشارات اور اس کی ہدایات کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور وہ براہ راست اس سے متاثر ہو کر بدل جاتے تھے۔ فوراً براہ راست ۔ پھر وہ قرآنی تصورات کو عمل کا جامہ پہناتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ کے ایک مختصر عرصے میں انہوں نے انقلاب برپا کرنے کا وہ معجزہ دکھایا جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ہے۔ ایسا انقلاب ، جس نے ان کے تصورات ، ان کے شعور ، ان کے دل و دماغ اور ان کی پوری عملی زندگی کو بدل دیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے ماحول کے اندر بھی ایک عظیم انقلاب برپا کردیا۔ پھر انہوں نے پورے عالم انسانی کی قدریں بدل دیں۔ پھر انہوں نے آنے والی تاریخ کے دھارے بدل دئیے۔ یہ لوگ قرآن کے سر چشمے سے براہ راست سیراب ہوتے تھے اور ان کے احساس کی تاروں پر قرآنی آیات کی ضربات براہ راست پڑتی تھیں اور اس کی شعاعیں اور حرارت وہ براہ راست محسوس کرتے تھے۔ وہ اس کی کیفیات میں ڈھل جاتے تھے۔ قرآنی اقدار کو زندہ کرتے جاتے تھے اور قرآنی تصور ان کا تصور ہوتا تھا۔ لیکن ہمارا انداز فکربالکل مختلف ہے۔ ہم پہلے دوسرے مفکرین کی سوچ سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس کائنات کے بارے میں جاہلیت کے نظریات پڑھتے ہیں ، اجنبی اقدار پر ایمان لاتے ہیں ، غیروں کے طور طریقے اپناتے ہیں اور اپنے جیسے انسانوں کے فانی نظریات کو سینے سے لگاتے ہیں اور پھر قرآن پڑھتے ہیں۔ نیز ہم ان جاہلی اقوام کی ترقیات سے متاثر ہوتے ہیں ، جنہوں نے اس جہاں کو آباد کردیا ہے اور مادی ترقی میں ہم سے آگے ہیں اور پھر قرآن کی تفسیر ہم ان مقاصد کو پیش نظر رکھ کر کرتے ہیں۔ تفسیر قرآن میں ہم وہ منطق استعمال کرتے ہیں جو مادی ترقیات کی منطق ہے۔ اس طرح بھی ہم تفسیر قرآن میں غلطی کر جاتے ہیں اور ہمارے فہم قرآن سے غلط نتائج برآمد ہوتے ہیں ، اس لیے کہ مادی طور پر ترقی یافتہ معاشے ان تصورات سے مختلف تصورات کی تخلیق ہیں جو قرآن کے پیش نظر ہیں۔ میں ظلال القرآن کے قارئین کو متنبہ کرتا ہوں کہ وہ ظلال القرآن کو پڑھتے ہوئے ایسے مقاصد پیش نظر نہ رکھیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ قرآن کو اس لیے پڑھیں کہ وہ قرآن کریم کے قریب ہوں ، اسے حقیقت پسندانہ طور پر سمجھیں اور تمام غلط خیالات و تصورات کو جھاڑ کر دور پھینک دیں۔ یاد رہے کہ ہمارے قارئین اس ہدف کو اس وقت نہیں پاسکتے جب تک وہ اپنی پوری زندگی میں قرآنی مدلولات کو روبعمل نہ لائیں ، عملاً جاہلیت کے برخلاف کشمکش برپا نہ کردیں اور قرآنی اصول و قواعد کے جھنڈے اٹھانہ لیں۔ یہ تو تھیں تمہیدی باتیں ، اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ، میرے سامنے سورة رعد ہے ، میں نے اس سے قبل اسے بارہا پڑھا ہے ، بارہا اسے سنا ہے لیکن آج یوں نظر آتا ہے کہ میں اسے پہلی مرتبہ پڑھ رہا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم انسان کو اتنا ہی دیتا ہے جس قدر انسان قرآن کو دے۔ جب بھی آپ قرآن کو پڑھیں گے ، اس کا نور ، اس کی شعاعیں ، اس کے اشارات سے دل و دماغ کی تاروں پر اس کی جانب سے نئی ضربات لگیں گی۔ یوں نظر آئے گا کہ گویا آپ اسے آج ہی پڑھ رہے ہیں اور اس سے قبل آپ نے کبھی اس کا مطالعہ نہ کیا تھا ، نہ کبھی آپ نے اس پر غور وفکر کیا تھا۔ قرآن کریم کی سورتوں میں سے یہ ایک عجیب سورة ہے جو آغاز سے انجام تک ایک ہی سانس میں ، ایک ہی ٹون میں ، ایک ہی فضا میں اور ایک ہی رنگ و بو میں چلتی ہے۔ انسانی پردۂ احساس پر مختلف تصاویر ، مختلف سائے ، مختلف مناظر اور مختلف قسم کے خیالات آتے رہتے ہیں ، جن کا تعلق انسانی نفسیات کے مختلف پہلوؤں سے ہے۔ گویا ایک تصویری مقابلہ ہے ، انوار ، تاثرات اور تصورات کی ایک نمائش ہے۔ یہ انسانی غوروفکر کو وسیع تر کائنات کی سیر کراتی ہوئی روز و شب محدود دائرے سے لامکان کی طرف لے جاتی ہے۔ اس سورة کے درمیان انسان زندہ اور بیدار رہتا ہے اور وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے بہت کچھ اخذ کرتا ہے ۔ یہ سورة محض الفاظ کی کرشمہ سازی نہیں ہے اور نہ ہی صرف خوبصورت عبارات کا مرقع ہے۔ بلکہ یہ انسانی شعور کو جھنجھوڑنے والی ہے۔ انسانی پردۂ احساس کو قسم قسم کی نئی تصاویر دیتی ہے۔ اس سے ایک شعور ابھرتا ہے اور اس کی عبارت کے اندر ایک خاص ترنم ہے اور اس کے اندر جگہ جگہ خالص وجدانی اشارات ہیں۔ اس کا موضوع کیا ہے ؟ تمام مکی سورتوں کی طرح اس کا موضوع بھی اسلامی نظریہ حیات ہے۔ اسلامی عقیدۂ توحید اور اس کے متعلقہ مسائل ، حاکمیت میں توحید ، بادشاہت میں توحید ، دین اور شریعت میں توحید ، دنیا و آخرت میں توحید ، وحی الٰہی کے مسائل اور آخرت کے حساب و کتاب کے مناظر وغیرہ۔ اسلامی نظریہ حیات کا عقیدہ ایک ہے اور مسائل متعین ہیں۔ اس پر اس سورة اور دوسری مکی اور مدنی سورتوں میں قرآن کریم نے بار بار بحث کی ہے لیکن جب بھی اس موضوع پر قرآن کریم بحث کرتا ہے تو ایک نئے اسلوب سے بحث کرتا ہے۔ ہر جگہ ایک نئی روشنی ہوتی ہے ، ہر جگہ نیا تاثر ، نئے اشارات اور عقل و خرد کی تاروں پر نئی ضربات لگتی ہیں۔ پھر قرآن مجید ان مسائل اور موضوعات پر خشک منطقی اور فلسفیانہ انداز میں کلام نہیں کرتا کہ یہ صغریٰ ہے اور یہ کبریٰ بلکہ وہ ان مسائل کو اس کائنات کے ماحول میں رہ کرلیتا ہے۔ اس کائنات کے عجائبات کو ذہن انسانی کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اور یہ کوشش کرتا ہے کہ انسان اس پوری کائنات کے اندر موجود دلائل وبراہین پر غور کرتے ہوئے کھلی آنکھ کے ساتھ سمجھے۔ جس طرح اس کائنات کے عجائبات ختم نہیں ہوتے۔ اسی طرح اس قرآن کے عجائبات ختم نہیں ہوتے ۔ قرآن جتنی بار ان مسائل پر کلام کرتا ہے ، اتنی ہی بار نیا اسلوب سامنے آتا ہے۔ کیونکہ مومن کی ہر دن نئی شان نئی آن ہوتی ہے ، ہر دن انسانی ادراک آگے بڑھتا ہے اور ہر آن قرآنی عجائبات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ غرض جس طرح کائنات کے عجائبات ختم نہیں ہوتے اسی طرح قرآن عجائبات ختم نہیں ہوتے۔ چناچہ اسلامی نظریہ حیات پر جب بھی کلام ہوتا ہے ، نئے انداز سے ہوتا ہے۔ یہ سورة انسانی قوت ادراک کو لے کر اس کائنات کے طول و عرج میں اسے گھماتی ہے ، اس کی گہرائیوں اور بلندیوں تک اسے لے جاتی ہے۔ وہ انسانی عقل و ادراک کے سامنے اس کائنات کی وسعتیں پیش کرتی ہے۔ دیکھو ، آسمانوں کو کہ یہ بغیر کسی ستون اور سہارے کے کھڑے ہیں ، ذرا شمس و قمر کو دیکھو ، یہ کس طرح ایک نظام کے مطابق گردش کرر ہے ہیں ، دن رات کو ڈھانپ لیتی ہے۔ ذرا اس زمین ہی کو دیکھو کہ اس کے سینے پر پہاڑ کھڑے کر دئے گئے ہیں اور اس پر نہریں اور دریا جاری ہیں۔ اس کی سرسبزیوں اور شادابیوں پر نگاہ ڈالو ، باغات اور مختلف قسم اور رنگ برنگ سے پھل پھول اور فصلیں اور غلے ۔ ایک ہی زمین اور ایک ہی پانی اور رنگ مختلف اور ذائقہ بھی مختلف ہے۔ پھر نظام باد باراں ، کڑک و چمک کو دیکھو ، رعد تسبیح خواں ہے۔ ملائکہ اللہ کے ثناخواں ہیں۔ کسی پر بجلی گرتی ہے اور کسی پر باران رحمت ۔ بادلوں کو دیکھو ، پانیوں سے لدے ہوئے کسی وادی کے اوپر سے گزر جاتے ہیں اور دوسری پر جا برستے ہیں ۔ ندی نالے بہہ نکلتے ہیں اور جھاگ اور بےفائدہ مواد ختم ہوجاتا ہے اور جو مفید چیز ہوتی ہے وہ قائم رہتی ہے اس سورة میں غوروفکر کرتے ہوئے انسان جدھر جاتا ہے یہ اس کی راہنمائی کرتی ہے ، یہ بتاتی ہے کہ اللہ کا علم بہت ہی وسیع ہے ۔ وہ ہر آنے جانے والے کو بھی دیکھتا ہے ، دن کو چلنے والے اور رات کو چلنے والے دونوں اس کی نظر میں ہیں۔ وہ تمام زندہ انسانوں کے دلوں کے بھید بھی جانتا ہے۔ جو جہان انسانی نطقہ نظر سے غیب ہیں اللہ کے سامنے کھلے ہیں ، وہ ماں کے پیٹ میں بھی سب کچھ جانتا ہے۔ خصوصاً بچے کی نشوو نما اس کی نظر میں ہے ۔ یہ سورة کوشش کرتی ہے کہ اس کائنات کی حقیقت کبریٰ انسانی فہیم و ادراک کے قریب آجائے۔ وہ ذات جو ظاہر و پوشیدہ ہر شے کو جانتی ہے وہ ذات جو صغیرہ و کبیرہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ اس کے حوالے سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے جس کے تصور ہی سے دل کانپنے لگتا ہے۔ ان تمام مضامین کو ایسی مثالوں کے ذریعے فہم انسانی کے قریب لایا جاتا ہے جو زندگی سے بھر پور اور متحرک ہوتی ہیں اور ان میں تاثرات ، انفعالات بھر پور ہوتے ہیں ، خصوصاً قیامت کے مناظر ، حساب و کتاب اور جنت و دوزخ کے مناظر ، نفس انسانی اور اس کے خلجاتات ، سابق امم کے مناظر بربادی ، جن کو سنت الٰہیہ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ تھے اس سورة کے موضوعات و مسائل۔ اور یہ تھا اس دائرہ بحث یعنی یہ کائنات اور اس کی وسعتیں۔ ان کو نہایت ہی فصاحت و بلاغت اور فنی خوبیوں پر مشتمل سلیس عربی میں بیان کیا گیا۔ جس فریم ورک میں ان مسائل کو پیش کیا گیا ہے وہ یہ کائنات ہے۔ اس کائنات کے عجائبات کو خاص طور پر پیش نظر رکھا گیا۔ کائنات کے مختلف قدرتی مناظر اور خود نفس انسانی کے اندر موجود قدرتی عجائبات ، یہ فریم ورک ایک خاص فضا رکھتا ہے ، مثلاً : اس سورة میں قدرتی مناظر کی فضا پائی جاتی ہے۔ آسمان و زمین ، شمس وقمر ، لیل و نہار ، دھوپ اور چھاؤں ، اونچے پہاڑ اور بہتے دریا ، دریاؤں میں بےکار جھاگ اور مفید پانی ، پھر زمین کے اندر مختلف ٹکڑے ، زرخیز اور بنجر ، پھل دار اور غیر پھلدار درخت ، چناچہ ہر قسم کے مشاہدات اور معدنی ، اور مغمومات ہیں۔ حرکات و نتائج میں بھی ایک قسم کا حسین تقابل پوری سورة کا حصہ ہے۔ ایک طرف معنوی تقابل ہے تو دوسری طرف حسی تقابل ہے۔ چناچہ شمس و قمر کی تسخیر کے بالمقابل استواء علی العرش آتا ہے۔ پھر رحم مادر میں کمی کے معاملے میں بچے کی نشو ونما تربیت آتی ہے۔ جہری قول کے مقابلے میں قول خفی ، رات کے وقت چلنے کے مقابلے میں دن کا چلنا ، برق و باراں میں خوف کے مقابلے میں طمع ، اور رعد کی حمد کے مقابلے میں فرشتوں کی ثنا ، دعوت حق کے مقابلے میں شرک کی دعوت باطل۔۔۔۔ جہالت کے مقابلے میں بصیرت اور نزول قرآن کے وقت بعض لوگوں کی خوشی اور اس کے مقابلے میں بعض دوسروں کی کبیدگی خاطر۔ پھر کتاب اللہ میں محو و اثبات کا عمل۔ غرض بیشمار معانی باہم متقابل ، حرکات باہم متقابل اور رنگ کے مقابلے میں رنگ اور رجحان کے مقابلے میں رحجان ۔ اس سورة میں نہایت ہی موزوں ، مناسب اور سورة کی فضا اور مضامین کے مطابق ہے۔ بیان وادا کے فنی اور معنوی کمالات میں سے ایک اس سورة میں یہ بھی ہے کہ اس میں طبعی مناظر ، زمین و آسمان ، شمس و قمر ، رعد و برق ، کڑک اور بارش ، زندگی اور نباتا کی اس فضا میں ایک نہایت ہی حساس اور انسانی زندگی سے قریب تر حقیقت رحم مادر کی کمی بیشی کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ ما تغبض الارحام ومانزداد اور اس کا تناسق ، بارش اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نباتات سے ہے۔ اور الفاظ کے تناسب کے ساتھ مفہوم کے اندر بھی ایک خاص ہم آہنگی کو ملحوظ رکھنا قرآن کریم کا ایک خاص انداز گفتگو ہے۔ یہ ہیں وہ وجوہات جن کی وجہ سے میں نے اس سورة پر بھی طویل غور کیا جس طرح دوسری سورتوں پر غور کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ ممکن نہیں ہے کہ انسانی انداز کلام کے پیمانوں کے ذریعے اس پر کوئی تبصرہ کیا جاسکے۔ کیونکہ جس طرح انسان کا انداز کلام تغیرات سے پر ہے ، اسی طرح اس کے پیمانے بھی ناقص ہیں۔ یہ فانی ہیں اور قرآن لازوال ہے لیکن جس قدر گفتگو میں نے کی ہے ، یہ اس لیے کی ہے کہ دور جدید میں تعلیم یافتہ نسل کی یہ ضرورت ہے۔ اس لیے کہ جدید نوجوان قرآنی معاشرے اور قرآنی فضا سے نابلد ہے اور اپنے چاہتے ہیں کہ وہ قرآن کے قریب ہوجائے۔ اس معاملے میں ہم اللہ کی مدد چاہتے ہیں اور وہ حقیقی مددگار ہے۔   Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi