Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 0

سورة الرعد

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.

شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الرَّعْد نام : آیت نمبر ۱۳ کے فقرے وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ مِنْ خِيْفَتِهٖ کے لفظ الرعد کو اس سورۃ کا نام قرار دیا گیا ہے ۔ اس نام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سورۃ میں بادل کی گرج کے مسئلے سے بحث کی گئی ہے ، بلکہ یہ صرف علامت کے طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ وہ ... سورۃ ہے جس میں لفظ الرعد آیا ہے ، یا جس میں رعد کا ذکر آیاہے ۔ زمانہ نزُول : رکوع ٤ اور رکوع٦ کے مضامین شہادت دیتے ہیں کہ یہ سورۃ بھی اسی دور کی ہے جس میں سورہ یونس ، ہود ، اور اعراف نازل ہوئی ہیں ، یعنی زمانہ قیام مکہ کا آخری دور ۔ انداز بیان سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے ایک مدت دراز گزر چکی ہے ، مخالفین زک دینے اور آپ کے مشن کو ناکام کر نے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلتے رہے ہیں ، مومنین بار بار تمنائیں کر رہے ہیں کہ کاش کوئی معجزہ دکھا کر ہی ان لوگوں کو راہ راست پر لایا جائے ، اور اللہ تعالی مسلمانوں کو سمجھا رہا ہے کہ ایمان کی راہ دکھانے کا یہ طریقہ ہمارے ہاں رائج نہیں ہے اور اگر شمنان حق کی رسی دراز کی جا رہی ہے تو یہ ایسی بات نہیں ہے کہ جس سے تم گھبرا اٹھو ۔ پھر آیت ۳۱ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کفار کی ہٹ دھرمی کا ایسا مظاہرہ ہو چکا ہے جس کے بعد یہ کہنا بالکل بجا معلوم ہوتا ہے کہ اگر قبروں سے مردے بھی اٹھ کر آجائیں تو یہ لوگ نہ مانیں گے بلکہ اس واقعے کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل کر ڈالیں گے ۔ ان سب باتوں سے یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ سورہ مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہوگی ۔ مرکزی مضمون : ”سورۃ کا مدعا پہلے ہی آیت میں پیش کر دیا گیا ہے ، یعنی یہ کہ جو کچھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں وہی حق ہے ، مگر یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ اسے نہیں مانتے ۔ ساری تقریر اسی مرکزی مضمون کے گرد گھومتی ہے ۔ اس سلسلے میں بار بار مختلف طریقوں سے توحید ، معاد اور رسالت کی حقانیت ثابت کی گئی ہے ، ان پر ایمان لانے کے اخلاقی و روحانی قوائد سمجھائے گئے ہیں ، ان کو نہ ماننے کے نقصانات بتائے گئے ہیں ، اور یہ ذہن نشین کیا گیا ہے کہ کفر سراسر ایک حماقت اور جہالت ہے ۔ پھر چونکہ اس سارے بیان کا مقصد محض دماغوں کو مطمئن کرنا ہی نہیں ، دلوں کو ایمان کی طرف کھینچنا بھی ہے ، اس لیے نرے منطقی استدلال سے کام نہیں لیا گیا ہے بلکہ ایک ایک دلیل اور ایک ایک شہادت کو پیش کرنے کے بعد ٹھہر کر طرح طرح سے تخویف ، ترہیب ، ترغیب ، اور مشفقانہ تلقین کی گئی ہے تاکہ نادان لوگوں کو اپنی گمراہانہ ہٹ دھرمی سے باز آجائیں ۔ دوران تقریر میں جگہ جگہ مخالفین کے اعتراضات کا ذکر کئے بغیر ان کے جوابات دیے گئے ہیں ، اور ان شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں پائے جاتے تھے یا مخالفین کی طرف سے ڈالے جاتے تھے ۔ اس کے ساتھ اہل ایمان کو بھی جو کئی برس کی طویل اور سخت جدوجہد کی وجہ سے تھکے جا رہے تھے اور بے چینی کے ساتھ غیبی امداد کے منتظر تھے ، تسلی دی گئی ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

سورۃ الرعد تعارف یہ سورت بھی ہجرت سے پہلے نازل ہوئی تھی، اور اس کا بنیادی موضوع اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کا اثبات اور ان پر عائد کیے جانے والے اعتراضات کا جواب ہے۔ پچھلی سورت یعنی سورۃ یوسف کے آخر ( آیت نمبر ١٠٥) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ ... تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی وحدانیت کی بہت سی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن کفار ان کی طرف دھیان دینے کے بجائے ان سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ اب اس سورت میں کائنات کی ان نشانیوں کی کچھ تفصیل بیان فرمائی گئی ہے جو پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ جس قادر مطلق نے اس کائنات کا یہ محیر العقول نظام بنایا ہے، اسے اپنی خدائی قائم کرنے کے لیے کسی مددگار یا شریک کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر انصاف کے ساتھ غور کیا جائے تو اس کائنات کا ہر ذرہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی بھی گواہی دیتا ہے، اور اس بات کی بھی کہ یہ سارا نظام اس نے بے مقصد پیدا نہیں کردیا۔ اس کا یقینا کوئی مقصد ہے، اور وہ یہ کہ اس دنیوی زندگی میں کیے ہوئے ہر کام کا کسی دن حساب ہو، اور اس دن نیکیوں کا انعام اور برائیوں کی سزا دی جائے۔ اس سے خودبخود آخرت کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے۔ پھر نیکی اور برائی کا تعین کرنے کے ل یے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح ہدایات بندوں کو دی جائیں۔ ان ہدایات کا ذریعہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں جو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے احکام معلوم کر کے دنیا والوں تک پہنچاتے ہیں۔ لہذا اسی سے رسالت کا عقیدہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ کائنات کی جو نشانیاں اس سورت میں بیان کی گئی ہیں، ان میں بادلوں کی گرج چمک بھی ہے جس کا ذکر اس سورت کی آیت نمبر ١٣ میں آیا ہے۔ عربی میں گرج کو رعد کہا جاتا ہے۔ اسی پر اس سورت کا نام رعد رکھا گیا ہے۔   Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi