Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 11

سورة الرعد

لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖ یَحۡفَظُوۡنَہٗ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ؕ وَ اِذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِقَوۡمٍ سُوۡٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ ۚ وَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ وَّالٍ ﴿۱۱﴾

For each one are successive [angels] before and behind him who protect him by the decree of Allah . Indeed, Allah will not change the condition of a people until they change what is in themselves. And when Allah intends for a people ill, there is no repelling it. And there is not for them besides Him any patron.

اس کے پہرے دار انسان کے آگےپیچھے مقرر ہیں ، جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ کسی قوم کی حالت اللہ تعالٰی نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے اللہ تعالٰی جب کسی قوم کی سزا کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ بدلہ نہیں کرتا اور سوائے اس کے کوئی بھی ان کا کارساز نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللّهِ ... For him (each person), there are angels in succession, before and behind him. They guard him by the command of Allah. Allah states that there are angels who take turns guarding each servant, some by night and some by day. These angels protect each person from harm and accidents. There are also an... gels who take turns recording the good and evil deeds, some angels do this by day and some by night. There are two angels, one to the right and one to the left of each person, recording the deeds. The angel to the right records the good deeds, while the angel to the left records the evil deeds. There are also two angels that guard and protect each person, one from the back and one from in front. Therefore, there are four angels that surround each person by day and they are replaced by four others at night, two scribes and two guards. An authentic Hadith states, يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلَيِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلَيِكَةٌ بالنَّهَارِ وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلَةِ الصُّبْحِ وَصَلَةِ الْعَصْرِ فَيَصْعَدُ إِلَيْهِ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي فَيَقُولُونَ أَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ وَتَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّون Angels take turns around you, some at night and some by day, and all of them assemble together at the time of the Fajr and `Asr prayers. Then those who have stayed with you throughout the night, ascend to Allah Who asks them, and He knows the answer better than they about you, "How have you left My servants?" They reply, "As we have found them praying, we have left them praying." Imam Ahmad recorded that Abdullah said that the Messenger of Allah said, مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ وَقَدْ وُكِّلَ بِهِ قَرِينُهُ مِنَ الْجِنِّ وَقَرِينُهُ مِنَ الْمَلَايِكَة Verily, every one among you has his companion from the Jinn and his companion from the angels." They said, "And you too, O Allah's Messenger!" He said, وَإِيَّايَ وَلَكِنَّ اللهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَلَإ يَأْمُرُنِي إِلاَّ بِخَيْر And I too, except that Allah has helped me against him, so he only orders me to do good. Muslim collected this Hadith. Ibn Abi Hatim narrated that Ibrahim said, "Allah revealed to a Prophet from among the Children of Israel, `Say to your nation: every people of a village or a house who used to obey Allah but changed their behavior to disobeying Him, then He will take away from them what they like and exchange it for what they dislike." Ibrahim next said that this statement has proof in Allah's Book, ... إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ ... Verily, Allah will not change the (good) condition of a people as long as they do not change their state (of goodness) themselves. ... وَإِذَا أَرَادَ اللّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَ مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ But when Allah wills a people's punishment, there can be no turning it back, and they will find besides Him no protector.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 معقبات، ، معقبۃ۔ کی جمع ہے ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے، مراد فرشتے ہیں جو باری باری ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں۔ دن کے فرشتے جاتے ہیں تو شام کے آجاتے ہیں شام کے جاتے ہیں تو دن کے آجاتے ہیں۔ 11۔ 2 اس کی تشریح کے لئے دیکھئے سورة انفال آیت 53 کا حاشیہ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦] حفاظت کرنے والے فرشتے اور باطنی اسباب :۔ یعنی اس دنیا میں صرف ظاہری اسباب ہی کارفرما نہیں بلکہ بہت سے باطنی اسباب بھی ہیں جن کو انسان دیکھ نہیں سکتا اور اس بات کا تجربہ ہر انسان کو ہوتا رہتا ہے۔ بسا اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص کسی ایسے شدید حادثہ سے دوچار ہوتا ہے کہ بظاہر اس کا جانبر ہونا ... ناممکن نظر آتا ہے لیکن وہ اس حادثہ سے بالکل محفوظ رہتا ہے اور ایسے موقعوں پر بےاختیار ہماری زبانوں پر یہ الفاظ آجاتے ہیں۔ && جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے && انہی غیر مرئی اسباب کی اس آیت میں وضاحت کی گئی کہ یہ محض اتفاقات نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے مقررہ کردہ فرشتے ہوتے ہیں جو ایسے خوفناک موقعوں سے انسان کو محفوظ رکھتے ہیں اور اس مدت تک اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں جب تک اس کی موت کا وقت نہیں آجاتا اور جب موت کا وقت آجاتا ہے تو پھر انسان کی سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ [١٧] اس جملہ کی تشریح کے لیے دیکھئے سورة انفال کی آیت نمبر ٥٣ کا حاشیہ۔ [١٨] قوموں کے عروج وزوال کا قانون :۔ قوموں کے عروج وزوال کے قانون میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب مجموعی حیثیت سے کوئی قوم اخلاقی انحطاط کی انتہائی پستیوں تک پہنچ کر معاصی کے ارتکاب میں مبتلا ہوجاتی ہے تو اسی وقت سے اس کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ اگرچہ دنیوی لحاظ سے تہذیب و تمدن کے بلند درجہ تک پہنچ چکی ہو۔ اس کے بعد اگر وہ اپنی اصلاح کرلے تو خیر ورنہ آہستہ آہستہ اس دنیا سے نیست و نابود کردی جاتی ہے۔ پھر اسے اس کے زوال اور انحطاط سے کوئی طاقت بچا نہیں سکتی اور نہ ہی اسے کچھ مدت کے لیے اس عذاب کو ٹال سکتی ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ ۔۔ : ” مُعَقِّبٰتٌ“ (باری باری ایک دوسرے کے بعد آنے والے) یہ ملائکہ کی صفت ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی نگرانی و حفاظت کا جو انتظام کر رکھا ہے اس کی ایک جھلک دکھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے ہر انسان پر کتنے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں، کی... ونکہ دو فرشتے تو نیک و بدعمل لکھنے والے دائیں اور بائیں ہیں۔ (ق : ١٧، ١٨) حفاظت کرنے والوں کی تعداد یہاں بیان نہیں فرمائی جو چاروں طرف سے انسان کی ہر آفت و مصیبت سے حفاظت کرتے ہیں، سوائے اس مصیبت کے جو اللہ نے اس کے لیے لکھی ہے۔ فرشتوں کی ایک اور قسم کے متعلق عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ وَقَدْ وُکِّلَ بِہٖ قَرِیْنُہٗ مِنَ الْجِنِّ ، قَالُوْا وَ إِیَّاکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! ؟ قَالَ وَإِیَّايَ إِلاَّ أَنَّ اللّٰہَ أَعَانَنِيْ عَلَیْہِ فَأَسْلَمَ فَلاَ یَأْمُرُنِيْ إِلاَّ بِخَیْرٍ ) [ مسلم، صفات المنافقین، باب تحریش الشیطان۔۔ : ٢٨١٤ ]” تم میں سے جو بھی شخص ہے اس کے ساتھ اس کا ایک قرین (ساتھ رہنے والا) جنوں سے مقرر کیا گیا ہے اور ایک قرین فرشتوں سے۔ “ لوگوں نے پوچھا : ” یا رسول اللہ ! آپ کے ساتھ بھی (جن مقرر ہے) ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ”(ہاں) میرے ساتھ بھی، مگر اللہ نے اس کے مقابلے میں میری مدد فرمائی ہے تو وہ تابع ہوگیا ہے، سو وہ مجھے خیر کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا کہ باری والے فرشتے صبح اور عصر کے وقت تبدیل ہوتے ہیں، ان وقتوں میں آنے اور جانے والوں کی ملاقات ان دونوں نمازوں میں ہوتی ہے۔ [ بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر : ٥٥٥۔ مسلم : ٦٣٢ ] اس حقیقت کے اظہار کا مقصد یہ ہے کہ انسان ہر آن اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہتا ہے اور اس کی کوئی حرکت اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ ۔۔ : یعنی جب تک نیکی کے بجائے برائی اور اطاعت کے بجائے نافرمانی نہ کرنے لگیں، البتہ جب وہ ایسا کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ ان سے اپنی نعمت چھین لیتا ہے اور ان پر اپنا عذاب نازل کرتا ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کی مثال کے ساتھ سورة انفال (٥٣، ٥٤) میں بیان فرمائی۔ مزید مثال کے لیے دیکھیے سورة نحل (١١٢) اور سبا (١٥ تا ١٧) واضح رہے کہ یہاں قوموں کی تباہی کا قانون بیان کیا گیا ہے، افراد کا نہیں۔ کسی قوم کی اچھی یا بری حالت کا تعین اسی لحاظ سے کیا جائے گا کہ آیا اس میں اچھے لوگوں کا غلبہ ہے یا برے لوگوں کا ؟ رہے افراد تو ضروری نہیں کہ ایک شخص گناہ کرے تبھی اس پر عذاب نازل ہو، بلکہ ایک بےگناہ شخص دوسروں کے گناہ کی لپیٹ میں آسکتا ہے، جیسا کہ زینب بنت جحش (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے پوچھا : ( یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! أَنَھْلِکُ وَفِیْنَا الصَّالِحُوْنَ ، قَالَ نَعَمْ إِذَا کَثُرَ الْخَبَثُ ) [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قصۃ یأجوج و مأجوج : ٣٣٤٦ ] ” اے اللہ کے رسول ! کیا نیک لوگوں کے ہم میں موجود ہونے کے باوجود ہم ہلاک ہوجائیں گے ؟ “ فرمایا : ” ہاں ! جب خباثت (گناہ) زیادہ ہوجائے۔ “ وَاِذَآ اَرَاد اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا ۔۔ : ہم چاہے کتنی سائنسی تدبیریں اور حفاظت کا بندوبست کرلیں، یا کسی پیر، بزرگ، بت یا جن یا فرشتے کی پناہ پکڑ لیں، اللہ تعالیٰ کے ارادے کے مقابلے میں کسی کی کچھ پیش نہیں جاتی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ‌ اللَّـهِ For him there are angels replacing each other, before him and behind him, who guard him under the command of Allah - 11. The word: مُعَقِّبَاتٌ (mu’ aqqibat) is the plural form of mu’ aqqibah. A group which comes concurrently behind another group is called mu&aqqi¬bah or muta&aqqibah (hence, the tr... anslation: &replacing each other& ). The expression: مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ (min bayni yadayhi) literally means in between the two hands. It denotes the direction in front of a person. And: وَمِنْ خَلْفِهِ (wa min khalfihi) means &behind him.& The particle: مِنْ (min) in the state¬ment: مِنْ أَمْرِ‌ اللَّـهِ (min amrillah) has been placed here to serve as the ba& (بَاء) of causation. It has been used here in the sense of: بِاَمرِ اللہ (bi amrillah: under the command of Allah). In some readings (Qira&aat) of the Qur&an, this word has also been reported as: بِاَمرِ اللہ (bi amrillah). (Ruh al-Mani) The verse means that for all human beings - whether one conceals what one says, or discloses it; or, similarly, one wishes to hide one&s movement under the dark cover of the night, or goes about walking free¬ly and openly in broad daylight - there are groups of angels appointed from Allah who provide a security cordon for them from in front of them and from behind them. Their hours of service and duty keep changing, so they keep replacing each other one after the other. The assignment given to them under the command of Allah is that they should protect human beings. According to a Hadith of the Sahih of Al-Bukhari, there are two groups of angels who have been appointed to guard human beings, one for the day, and another for the night. These groups meet together dur¬ing the prayers of Fajr and ` Asr. The night guards depart after the Salah of Fajr and the daytime guards take over. Then, they leave after the Salah of&Asr and the night guards resume their duty. As reported by Sayyidna al-Murtada (رض) & in a Hadith of Abu Dawud, for every human being there are guardian angels appointed to pro¬tect him or her. It is their duty to keep guarding them lest a wall or so¬mething else falls over them, or they stumble into a ditch or cave, or some animal or man causes hurt or harm to them. However, when the will of Allah itself stands enforced against a person condemned to suffer from some hardship or calamity, the guarding angels move away from the site. (Ruh al-Ma` ani) From a narration of Sayyidna ` Uthman al-Ghani (رض) as in a Hadith of Ibn Jarir, we know that the duty of these guarding angels is not limit¬ed to protecting human beings from worldly discomforts and hardships only, instead, they also try to dissuade them from sins and do their best to keep them safe. They would go on infusing in their hearts the urge to do good and fear Allah, so that, through these, they would stay away from sinning. Now, if they still fall into sin by becoming neglectful of the angelic inspiration, they nevertheless pray for him and try that the sin¬ner would somehow hasten to repent and become cleansed of the sin. After that, if the sinner fails to take any warning and refuses to correct himself, then, they write down a sin in his Book of Deeds. In short, these guarding angels keep protecting human beings against the unwelcome happenings of both the present world and the world to come, all the time, awake or asleep. The well-known Tabi` i, Ka&b Al-Ahbar (رح) says: Should this protective Divine cordon be removed from around human beings, the Jinns would make their lives difficult. But, all these protective arrangements work only until such time as the Divine decree permits them to remain operative. Now, if Allah Ta` ala Himself wills to let a servant of His suffer, this arrange¬ment of protection stands dismissed. This has been elaborated in the next verse in the following manner: إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ‌ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُ‌وا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ وَإِذَا أَرَ‌ادَ اللَّـهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَ‌دَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ Surely, Allah does not change what is in a people until they change what is in themselves. And when Allah intends evil for a people, there is no way to turn it back, and for them there is no patron other than Him-11 It means that Allah Ta` ala does not change the state of peace and secur¬ity enjoyed by a people into a state of distress and instability until such time that those people themselves change their deeds and ways into evil and disorder. And when a whole people change to commit themselves and their surrounding conditions into rank contumacy and disobedience, then, Allah Ta` ala too changes His way with them. And it is obvious that, should Allah Ta` ala Himself intend evil and punishment for any-one, then, there is no way that could be averted and there is no one who can rise to help them out against the Divine decree. The outcome is that human beings remain actively protected by an-gels under the command of Allah Ta` ala, but should a people become ungrateful for His blessings and forsake being obedient to him only to take to evil doings and become contumacious in the end, then, the posse of protection posted by Allah Ta ala is called off duty. At that time, the wrath and punishment of Allah Ta` ala descends upon them and there remains no way they could escape from these. This explanation tells us that the &change& referred to in the cited verse means: When a people abandon gratitude and obedience and settle for a change to worse around them, then, Allah Ta` ala too brings about a change in His way of mercy and protection. According to a common explanation of this verse, no positive revolu¬tion appears among a people unless they themselves do not correct condi¬tions around them to bring about that positive revolution. There is a very popular Urdu couplet by poet Half which carries this very sense: اللہ نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا To this day, God has never changed the condition of a people Who have no plan of changing their condition themselves. What has been said here is, no doubt, correct to a certain extent. But, this is not the sense of the Verse cited here. And its being correct too has to be viewed in terms of a general principle, that is, for a person who has no intention of correcting himself, there is no promise of help and support from Allah Ta’ ala. Instead, this promise is valid under the condition that someone would himself think and do something about it - as we learn from the noble verse: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (that is, &those who strive in Us, them We do lead to Our paths - (29:69) & which tells us that the pathways of guidance from Allah Ta` a1a too open up only when the urge to have such guidance is present there. But, Divine blessings are not bound by this restriction. They would, at times, come even without it. Take our own existence and its countless blessings. These are not the outcome of our effort, nor had we ever prayed that we be given such a presence with eyes, nose, ears and rest of the most perfect body. These are wonderful blessings - and we have them without having to ask for them. However, the right to deserve blessings and to become worthy recipients of the fruits of the Divine promise cannot be received without making one&s own effort to earn it - and should a people keep waiting for Divine rewards without putting in the due effort and deed, it would amount to nothing but self-deception.  Show more

(آیت) لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ مُعَقِّبٰتٌ معقبۃ کی جمع ہے اس جماعت کو جو دوسری جماعت کے پیچھے متصل آئے اس کو معقبہ یا متعقبہ کہا جاتا ہے مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ کے لفظی معنی ہیں دونوں ہاتھ کے درمیان مراد انسان کے سامنے کی جہت اور سم... ت ہے وَمِنْ خَلْفِهٖ پیچھے کی جانب مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ میں من بمعنی باء سببیت کے لئے ہے بامر اللہ کے معنی میں آیا ہے بعض قراءتوں میں یہ لفظ بامر اللہ منقول بھی ہے (روح) معنی آیت کے ہیں کہ ہر شخص خواہ اپنے کلام کو چھپاتا ہے یا ظاہر کرنا چاہتا ہے اسی طرح اپنے چلنے پھرنے کو رات کی تاریکیوں کے ذریعہ مخفی رکھنا چاہے یا کھلے بندوں سڑکوں پر پھرے ان سب انسانوں کے لئے اللہ کی طرف سے فرشتوں کی جماعتیں مقرر ہیں جو ان کے آگے اور پیچھے سے احاطہ کئے رہتے ہیں جن کی خدمت اور ڈیوٹی بدلتی رہتی ہے اور یکے بعد دیگرے آتی رہتی ہیں ان کے ذمہ یہ کام سپرد ہے کہ وہ بحکم خداوندی انسانوں کی حفاظت کریں۔ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ فرشتوں کی دو جماعتیں حفاظت کے لئے مقرر ہیں ایک رات کے لئے دوسری دن کے لئے اور یہ دونوں جماعتیں صبح اور عصر کی نمازوں میں جمع ہوتی ہیں صبح کی نماز کے بعد یہ رخصت ہوجاتے ہیں دن کے محافظ کام سنبھال لیتے ہیں اور عصر کی نماز کے بعد یہ رخصت ہوجاتے ہیں رات کے فرشتے ڈیوٹی پر آجاتے ہیں ابوداؤد کی ایک حدیث میں بروایت علی مرتضی (رض) مذکور ہیں کہ ہر انسان کے ساتھ کچھ حفاظت کرنے والے فرشتے مقرر ہیں جو اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں کہ اس کے اوپر کوئی دیوار وغیرہ نہ گر جائے یا کسی گڑھے اور غار میں نہ گر جائے یا کوئی جانور یا انسان اس کو تکلیف نہ پہونچائے البتہ جب حکم الہی کسی انسان کو بلا و مصیبت میں مبتلا کرنے کے لئے نافذ ہوجاتا ہے تو محافظ فرشتے وہاں سے ہٹ جاتے ہیں (روح المعانی) ابن جریر کی ایک حدیث سے بروایت عثمان غنی (رض) یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان محافظ فرشتوں کا کام صرف دنیاوی مصائب اور تکلیفوں ہی سے حفاظت نہیں بلکہ وہ انسان کو گناہوں سے بچانے اور محفوظ رکھنے کی بھی کوشش کرتے ہیں انسان کے دل میں نیکی اور خوف خدا کے الہام سے غفلت برت کر گناہ میں مبتلا ہی ہوجائے تو وہ اس کی دعاء اور کوشش کرتے ہیں کہ یہ جلد توبہ کر کے گناہ سے پاک ہوجائے پھر اگر وہ کسی طرح متنبہ نہیں ہوتا تب وہ اس کے نامہ اعمال میں گناہ کا کام لکھ دیتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ محافظ فرشتے دین و دنیا دونوں کی مصیبتوں اور آفتوں سے انسان کی سوتے جاگتے حفاظت کرتے رہتے ہیں حضرت کعب احبار (رض) فرماتے ہیں کہ اگر انسان سے یہ حفاظت خداوندی کا پہرہ ہٹا دیا جائے تو جنات ان کی زندگی وبال کردیں لیکن یہ سب حفاظتی پہرے اسی وقت تک کام کرتے ہیں جب تک تقدیر الہی ان کی حفاظت کی اجازت دیتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ ہی کسی بندہ کو مبتلا کرنا چاہیں تو یہ حفاظتی پہرا ہٹ جاتا ہے۔ اسی کا بیان اگلی آیت میں اس طرح کیا گیا ہے : (آیت) اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَاد اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ یعنی اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت امن و عافیت کو آفت و مصیبت میں اس وقت تک تبدیل نہیں کرتے جب تک وہ قوم خود ہی اپنے اعمال و احوال کو برائی اور فساد میں تبدیل نہ کرلے اور جب جب وہ اپنے حالات کو سرکشی اور نافرمانی سے بدلتی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا طرز بدل دیتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ہی کسی کا برا چاہیں اور عذاب دینا چاہیں تو نہ پھر کوئی اس کو ٹال سکتا ہے اور نہ کوئی حکم ربانی کے خلاف ان کی مدد کو پہنچ سکتا ہے، حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی حفاظت کے لئے فرشتوں کا پہرہ لگا رہتا ہے لیکن جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر اور اس کی اطاعت چھوڑ کر بدعملی بدکرداری اور سرکشی ہی اختیار کرلے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا حفاظتی پہرہ اٹھا لیتے ہیں پھر خدا تعالیٰ کا قہر و عذاب ان پر آتا ہے جس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں رہتی۔ اس تشریح سے معلوم ہوا کہ آیت مذکورہ میں تغیر احوال سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی قوم اطاعت اور شکر گذاری چھوڑ کر اپنے حالات میں بری تبدیلی پیدا کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا طرز رحمت و حفاظت کا بدل دیتے ہیں اس آیت کا جو عام طور پر یہ مفہوم بیان کیا جاتا ہے کہ کسی قوم میں اچھا انقلاب اس وقت تک نہیں آتا جب تک وہ خود اس اچھے انقلاب کے لئے اپنے حالات کو درست نہ کرے اسی مفہوم میں یہ شعر مشہور ہے۔ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا یہ بات اگرچہ ایک حد تک صحیح مگر آیت مذکورہ کا یہ مفہوم نہیں اور اس کا صحیح ہونا بھی ایک عام قانون کی حیثیت سے ہے کہ جو شخص خود اپنے حالات کی اصلاح کا ارادہ نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اس کی امداد ونصرت کا وعدہ نہیں بلکہ یہ وعدہ اسی حالت میں ہے جب کوئی خود بھی اصلاح کی فکر کرے جیسا کہ آیت کریمہ والَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ہدایت کے راستے جب ہی کھلتے ہیں جب خود ہدایت کی طلب موجود ہو لیکن انعامات الہیہ اس قانون کے پابند نہیں بسا اوقات اس کے بغیر بھی عطا ہوجاتے ہیں داد حق را قابلیت شرط نیست بلکہ شرط قابلیت داد ہست خود ہمارا وجود اور اس میں بیشمار نعمتیں نہ ہماری کوشش کا نتجیہ ہیں نہ ہم نے کبھی اس کے لئے دعا مانگی تھی کہ ہمیں ایسا وجود عطا کیا جائے جس کی آنکھ ناک کان اور سب قوی واعضا درست ہوں یہ سب نعمتیں بےمانگے ہی ملی ہیں مانبودیم و تقاضا مانبود لطف تو ناگفتہ مامی شنود البتہ انعامات کا استحقاق اور وعدہ بغیر اپنی سعی کے حاصل نہیں ہوتا اور کسی قوم کو بغیر سعی وعمل کے انعامات کا انتظار کرتے رہنا خود فریبی کے مرادف ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ 11۝ تَّعْقيبُ : أن يأ... تي بشیء بعد آخر، يقال : عَقَّبَ الفرسُ في عدوه . قال : لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] ، أي : ملائكة يتعاقبون عليه حافظین له . وقوله : لا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ [ الرعد/ 41] ، أي : لا أحد يتعقّبه ويبحث عن فعله، ( ع ق ب ) العقب والعقیب التعقیب ایک چیز کے بعد دوسری لانا ۔ عقب الفرس فی عدوہ گھوڑے نے ایک دوڑ کے بعد دوسری دوڑ لگائی قرآن میں ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] اس کے آگے اور پیچھے خدا کے چوکیدار ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ [ الرعد/ 41] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے فیصلے کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا اور نہ اس پر بحث کرسکتا ہے ۔ خلف خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے چو کیدار ہیں ۔ تَّغْيِيرُ يقال علی وجهين : أحدهما : لتغيير صورة الشیء دون ذاته . يقال : غَيَّرْتُ داري : إذا بنیتها بناء غير الذي كان . والثاني : لتبدیله بغیره . نحو : غَيَّرْتُ غلامي ودابّتي : إذا أبدلتهما بغیرهما . نحو : إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا ما بِأَنْفُسِهِمْ [ الرعد/ 11] ( غ ی ر ) تغییر تغییر کا لفظ بھی دوطرح استعمال ہوتا ہے ایک صرف کسی چیز کی صورت کو بدلنا جیسے غیرت داری یعنی میں نے اپنے گھر کی شکل و صورت بدل دی۔ دوم کسی دوسری چیز سے تبدیل کرلینا جیسے غیرت غلامی وداتبی ویعنی میں نے اپنا غلام یا جانور دوسرے سے تبدیل گرلیا ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا ما بِأَنْفُسِهِمْ [ الرعد/ 11] خدا اس نعمت کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو نہ بدلیں ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ ولي والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١) ہر ایک شخص کی حفاظت کے لیے کچھ فرشتے بھی مقرر ہیں، جن کی تبدیلی ہوتی رہتی ہے کہ رات کے فرشتے چلے جاتے ہیں اور دن کے آجاتے ہیں اور دن کے چلے جاتے ہیں اور رات کے آجاتے ہیں کہ وہ خدا کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں تقدیر کے مطابق ان کی نگرانی کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب اور اس ... کی ہلاکت تجویز کرلیتا ہے تو پھر ان سے فیصلہ خداوندی کے ہٹنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی اور اللہ تعالیٰ کے سوا پھر کوئی ان سے عذاب خداوندی کو ہٹانے والا نہیں اور نہ اس کے علاوہ اور کوئی جائے پناہ ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١ (لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ) یہ مضمون اس سے پہلے ہم سورة الانعام (آیت ٦١) میں بھی پڑھ چکے ہیں : (وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً ) کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے تمہارے اوپر محافظ بھیجتا ہے۔ اللہ کے مقرر کردہ یہ فرشتے اللہ کی مشیت ک... ے مطابق ہر وقت انسان کی حفاظت کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ اس کی موت کا وقت آ پہنچتا ہے۔ (اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ) آپ اپنی باطنی کیفیت کو بدلیں گے ‘ اس کے لیے محنت کریں گے تو اللہ کی طرف سے بھی آپ کے معاملے میں تبدیلی کردی جائے گی۔ مولانا ظفر علی خان نے اس آیت کی ترجمانی ان خوبصورت الفاظ میں کی ہے : خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18. That is, Allah not only directly watches over whatever each person does, and is fully aware of everything he does, but He has also appointed such guardians as accompany him everywhere and keep a full record of all his deeds. This has been stated here to warn those people who live their lives under the delusion that they have been left absolutely free to do whatever they like and shall not be r... equired to render an account of what they did in this worldly life. The warning is that such people invite their own retribution. 19. This is to warn them further that they should not remain under any delusion that some holy person or saint or angel has the power to rescue them from divine retribution, for there is none who could defend them against Allah, even though they might have been paying homage and making offerings to their so called patrons and protectors in the hope that they would rescue them from punishment from Allah on the Day of Judgment.  Show more

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :18 یعنی بات صرف اتنی ہی نہیں کہ اللہ تعالی ہر شخص کو ہر حال میں براہ راست خود دیکھ رہا ہے اور اس کی تمام حرکات و سکنات سے واقف ہے ، بلکہ مزید برآں اللہ کے مقرر کیے ہوئے نگران کار بھی ہر شخص کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور پورے کارنامہ زندگی کا ریکارڈ محفوظ کرتے جاتے ہیں ۔ اس ح... قیقت کو بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ایسے خدا کی خدائی میں جو لوگ یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں کہ انہیں شتر بے مہار کی طرح زمین پر چھوڑ دیا گیا ہے اور کوئی نہیں جس کے سامنے وہ اپنے نامہ اعمال کے لیے جواب دہ ہوں ، وہ دراصل اپنی شامت آپ بلاتے ہیں ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :19 یعنی اس غلط فہمی میں بھی نہ رہو کہ اللہ کے ہاں کوئی پیر یا فقیر ، یا کوئی اگلا پچھلا بزرگ ، یا کوئی جن یا فرشتہ ایسا زور آور ہے کہ تم خواہ کچھ ہی کرتے رہو ، وہ تمہاری نذروں اور نیازوں کی رشوت لے کر تمہیں تمہارے برے اعمال کی پاداش سے بچا لے گا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: ’’نگراں‘‘ سے یہاں مراد فرشتے ہیں۔ اس آیت نے واضح فرما دیا کہ اﷲ تعالیٰ نے ہر اِنسان کی حفاظت کے لئے کچھ فرشتے مقرّر فرما رکھے ہیں جو باری باری اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں اصل لفظ ’’مُعَقِّبٰتْ‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ ہیں ’’باری باری آنے والے‘‘ اس کی تفصیل صحیح بخاری کی ایک...  حدیث میں آئی ہے کہ فرشتوں کی ایک جماعت دن کے وقت اِنسانوں کی نگرانی پر مأمور ہے، اور دوسری جماعت رات کے وقت ان کی حفاظت کرتی ہے۔ ابو داؤد کی ایک روایت میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ یہ فرشتے مختلف حادثات سے اِنسانوں کی حفاظت کرتے ہیں، البتہ جب اﷲ تعالیٰ کا حکم ہی یہ ہو کہ کسی شخص کو کسی تکلیف میں مبتلا کیا جائے تو یہ فرشتے وہاں سے ہٹ جاتے ہیں (تفصیل کے لئے دکھئے معارف القران)۔ 16: اِنسانوں کی حفاظت پر جو فرشتے مقرّر ہیں، اس سے کسی کو یہ غلط فہمی ہوسکتی تھی کہ جب اﷲ تعالیٰ نے حفاظت کا یہ انتظام کر رکھا ہے تو اِنسان کو بے فکر ہوجانا چاہئے۔ اور گناہ ثواب کی پروا بھی نہ کرنی چاہئے۔ کیونکہ یہ فرشتے حفاظت کرلیں گے۔ آیت کے اس حصے میں اس غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ یوں تو اﷲ تعالیٰ کسی قوم کی اچھی حالت کو بدحالی سے خود بخود نہیں بدلتا، لیکن جب وہ نافرمانی پر کمر باندھ کر اپنی حالت خود بدل ڈالیں تو پھر اﷲ تعالیٰ کا عذاب آتا ہے۔ اور اسے کوئی دور نہیں کرسکتا، چنانچہ وہ نگراں فرشتے بھی ایسی صورت میں کام نہیں دیتے۔   Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١۔ صحیحین میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر شخص کی حفاظت کے لئے رات اور دن کے الگ الگ فرشتے ہر انسان پر خدا کی طرف سے مقرر ہیں صبح کی نماز کے وقت دن کے فرشتے اور رات کے فرشتے آن کر چوکی بدلوا ١ ؎ دیتے ہیں۔ معتبر سند سے تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے...  کہ حفاظت کے فرشتے ان سب صدموں اور آفتوں سے آدمی کی حفاظت کرتے ہیں جن صدموں اور آفتوں سے اس کی قسمت میں بچنا لکھا ہے اور جب تقدیری کوئی آفت آنے والی ہوتی ہے جس سے حفاظت کرنے کا کوئی حکم اللہ کا نہیں ہوتا تو ایسے حالت میں فرشتے حفاظت چھوڑ دیتے ہیں تفسیر ابن جریر میں کنانہ عدوی کی روایت سے حضرت عثمان (رض) کا سوال اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب جو مذکورہ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ دس فرشتے دن کو اور دس رات کو ہر انسان پر تعینات ہیں دو نیکی بدی کے لکھنے والے اور دو تمام جسم کی حفاظت کرنے والے اور دو خاص درود شریف کا ثواب لکھنے والے دونوں ہونٹوں پر مقرر ہیں اور دو خاص آنکھوں کی نگرانی رکھتے ہیں اور ایک منہ پر تعینات ہے تاکہ سانپ بچھو یا اور کوئی موذی جانور منہ میں گھسنے نہ پاوے اور ایک فرشتہ ہر آدمی کی پیشانی پکڑے رہتا ہے جب تک آدمی انسانیت کے جامہ میں رہتا ہے اس وقت تک وہ فرشتہ کچھ نہیں کرتا اور جب آدمی انسانیت کے جامہ سے باہر ہو کر کوئی تکبر کرتا ہے تو وہی فرشتہ اس تکبر کرنے والے آدمی کی پیشانی پکڑ کر ایک پٹخنی دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مغرور آدمی کو ایک نہ ایک ذلت پہنچتی ہے اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ نیکی لکھنے والا فرشتہ بدی لکھنے والے پر سردار ہے جب کوئی آدمی برا نہ ایک ذلت پہنچتی ہے اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ نیکی لکھنے والا فرشتہ بدی لکھنے والے پر سردار ہے۔ جب کوئی آدمی برا کام کرتا ہے تو بدی لکھنے والا فرشتہ تین دفعہ نیکی کے فرشتہ سے اس بدی کے لکھنے کی اجازت چاہتا ہے وہ ہر دفعہ یہی کہتا ہے۔ ذرا اور ٹھہر جاؤ شاید یہ شخص توبہ و استغفار کرے جب یہ شخص گنا کرتے ہی توبہ و استغفار کرلیتا ہے تو وہ بدی نہیں لکھی جاتی ٢ ؎ حافظ عماد الدین ابن کثیر نے اس حدیث کو غریب کہا ہے ٣ ؎ لیکن ابن جریر نے جو سند اس حدیث کی بیان کی ہے اس سند میں کوئی راوی بالکل متروک نہیں ہے۔ اس لئے صحیحین کی حدیث میں جو مجمل طور پر فرشتوں کا ذکر ہے اس مجمل طور پر فرشتوں کا ذکر ہے اس مجمل ذکر کی صراحت اس حدیث کی جاوے تو کچھ حرج نہیں ہے۔ اسی واسطے حافظ ابن حجر (رض) نے فتح الباری میں ابن جریر کی اس روایت کو نقل کر کے اس کی سند پر کچھ اعتراض نہیں کیا۔ صحیح بخاری اور ابوداؤد میں ابو موسیٰ اشعری (رض) سے اور معتبر سند سے مسند امام احمد اور مستدرک حاکم میں عبد اللہ بن عمر اور انس بن مالک (رض) سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ عبادت الٰہی میں مصروف رہنے والا کوئی شخص جب بیمار ہوجاتا ہے اور بیماری کے سبب سے اس کی عبادت میں کمی ہوجاتی ہے تو نیکی لکھنے والے فرشتہ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے کہ بیماری کے زمانے تک اس بیمار آدمی کی عبادت اتنی لکھی جاوے جتنی عبادت یہ شخص تندرسستی کے زمانے میں کرتا تھا ٤ ؎ فرشتوں کی تعیناتی کے باب میں ابوہریرہ (رض) کی مجمل حدیث جو اوپر گزری ان روایتوں سے بھی اس کی یہ صراحت ہوسکتی ہے کہ ان فرشتوں میں نیکی بدی کے لکھنے والے فرشتے بھی ہیں۔ زیادہ تفصیل ان نیکی بدی کے فرشتوں کی { اذا السمآء انفطرت } میں آوے گی۔ اب آگے فرمایا کہ فرشتوں سے انسان کی حفاظت کا انتظام انسان کے رزق و صحت کا انتظام سوا اس کے انسان کے حق میں اللہ کی اور جو جو نعمتیں ہیں جب تک انسان کوئی ناشکری نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کو نہیں بدلتا اور کسی ناشکری کے سبب سے اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کو بدلنا چاہے تو سوا اللہ کے کسی دوسرے کی مدد سے وہ نعمتیں قائم اور بحال نہیں رہ سکتیں۔ اس آیت میں بھی منکرین حشر کو یہ تنبیہ ہے کہ یہ لوگ تو اپنی نادانی سے عقبیٰ کی سزا وجزا کے منکر ہیں لیکن انتظام الٰہی میں عقبیٰ کی سزا و جزا کے لئے ہر شخص کے ساتھ اللہ کے دو روز نامچہ نویس لگے رہتے ہیں جو انسان کا ہر قول و فعل رات دن لکھتے ہیں۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ١١٠٥۔ ٢ ؎ تفسیر ابن جریر ص ١١٥ ج ١٣ ٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٠٤ ج ٢۔ ٤ ؎ الترغیب ص ٢٦٧ ج ٢ الترغیب فی الصبر الخ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:11) لہ میں ضمیرہُ واحد مذکر غائب کا مرجع من ہے۔ ای من اسر القول۔ من جھر بہ ۔ من ھو مستخف باللیل۔ من ھو سارب بالنھار۔ معقبت۔ اسم فاعل۔ مؤنث ۔ جمع الجمع معقب واحد۔ معقبۃ جمع۔ تعقیب (تفعیل) مصدر۔ عقب مادہ۔ روزوشب میں باری باری آنے والے ملائکہ۔ ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے معقبت اصل میں معتقبت تھا۔...  ت کو ق میں مدغم کردیا گیا۔ جس طرح وجاء المعذرون من الاعراب (9:90) میں معذرون اصل میں معتذرون تھا۔ بین یدیہ۔ اس کے سامنے۔ یحفظونہ۔ مضارع جمع مذکر غائب ہٗ ضمیرمفعول واحد مذکر غائب۔ وہ اس کی حفاظت کرتے ہیں اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔ لا یغیر۔ مضارع منفی واحد مذکر غائب۔ تغییر (تفعیل) مصدر۔ وہ نہیں بدلتا ہے۔ ما بقوم۔ سے مراد کسی قوم کی اچھی حالت ہے۔ حتی یغیروا ما بانفسہم۔ جب تک کہ وہ خود اپنی خوشحالی کو (اپنے سوء اعمال سے ) نہیں بدل لیتے۔ اس تغییر کی نسبت فاعلی قوم کی طرف کر کے اس کا اظہار کردیا ہے کہ یہ تبدیلیاں قوم کے اپنے قصد۔ عمرواختیار سے ہوتی ہیں۔ باقی اگر کوئی تبدیلی کسی قوم میں کسی مجبوری یا اضطراب یا لاعلمی کے نتیجہ کے طور پر ہوجائے تو اس پر یہ گرفت نہیں اور یہ تبدیلی منجانب اللہ بوجوہ عمل میں آتی ہے۔ مرد۔ مصدر میمی ہے۔ فلا مرد لہ۔ تو اس کا کوئی رد نہیں۔ کوئی توڑ نہیں۔ اس کو کوئی موڑ نہیں سکتا۔ کوئی رد نہیں کرسکتا۔ کوئی روک نہیں۔ رد یرد مرد و مردود۔ پھرنا۔ واپس کرنا۔ مرد۔ ظرف زمان یا مکان بھی ہے۔ من دونہ۔ اللہ کے سوا۔ وال ۔ اسم فاعل۔ واحد مذکر۔ اصل میں والی تھا۔ ولایۃ مصدر (باب ضرب) مددگار حامی۔ مدد پر قادر۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 ۔ یعنی خدا نے حکم کی بنا پر اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ دو فرشتے دائیں بائیں اس کے نیک اور بد اعمال کا ریکارد جو انسان کی حفاظت و نگرانی پر مقرر ہیں۔ ان میں سے ایک اس کے آگے اور ایک اس کے پیچھے رہتا ہے۔ گویا کہ وہ ہر آن چار فرشتوں کے درمیان رہتا ہے۔ دن کے فرشتے اور ہوتے ہیں اور رات کے اور۔ صحیح حدیث ... میں ہے کہ ان فرشتوں کی باری صبح اور عصر کے وقت تبدیل ہوتی ہے۔ اس حقیقت کے اظہار سے مقصد یہ ہے کہ انسان ہر آن اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور حفاظت میں رہتا ہے اور اس کی کوئی حرکت اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ 14 ۔ یعنی جب تک نیکی کی بجائے برائی اور اطاعت کی بجائے نافرمانی نہ کرنے لگیں البتہ جب وہ ایسا کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ ان سے اپنی نعمت چھین لیتا ہے اور ان پر اپنا عذاب نارمل کرتا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں قوموں کی تباہی کا قانون بیان کیا گیا ہے افراد کا نہیں۔ کسی قوم کی چھپی یابری حالت کا تعین اس لحاظ سے کیا جائے گا کہ آیا اس میں اچھے لوگوں کا غلبہ ہے یا برے لوگوں کو ؟ رہے افراد تو یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک شخص گناہ کرے تبھی اس پر عذاب نازل ہو بلکہ ایک بےگناہ شخص دوسروں کے گناہ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ صحابہ (رض) نے عرض کیا ” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم نیک لوگوں کے رہنے کے باوجود ہلاک ہوسکتے ہیں۔ فرمایا :” ہاں جب برائی بہت ہوجائے۔ (از فتح تقدیر) ۔ 1 ۔ چاہے وہ کوئی پیر ہو یا بزرگ یا بت یا جن یا فرشتہ۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی وہ واقع ہو ہی جاتی ہے۔ 5۔ حتی کہ فرشتے بھی ان کی حفاظت نہیں کرتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے براہ راست بندے کی نگرانی کرنے کے علاوہ ہر انسان پر محافظ بھی مقرر کر رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انسان کی ابتدا اور انتہا، اس کے ظاہر اور باطن سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس نے ہر بات اپنے ہاں لوح محفوظ پر ثبت کر رکھی ہے۔ اس کے باو جود اس نے ہر انسان پر فرشتے تعینات کر رکھ... ے ہیں جو اس کے تمام امور کی نگرانی کرتے ہیں۔ جن میں محافظ فرشتوں کے ساتھ کراماً کاتبین بھی ہیں۔ جو صبح وشام انسان کی تمام حرکات و سکنات کا اندراج کرتے ہیں اور ان کے ساتھ محافظ فرشتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہر انسان کے آگے پیچھے رہتے ہیں اور ہر انسان کی حفاظت کرتے ہیں۔ لیکن جب اللہ کا حکم غالب آتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مقابلے میں پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اس طرح انسان پر اللہ کا لکھا غالب آجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا۔ جب تک وہ اپنی حالت خود نہیں بدلتی۔ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو برے اعمال کے بدلے اس کے برے انجام میں مبتلا کرتا ہے تو پھر اس کے عذاب کو ٹالنے اور اس قوم کو بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اس فرمان کے مفسرین نے دو مفہوم اخد کیے ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ اپنی عطا کر وہ نعمت کو اس وقت تک زحمت میں تبدیل نہیں کرتاجب تک کوئی قوم اپنے کردار کی وجہ سے اسے تبدیل نہ کرے۔ ٢۔ ” جب تک کوئی قوم اپنی حالت سنوار نے کی کوشش نہ کرے اللہ تعالیٰ بھی اس کی بری عادت کو نیکی میں تبدیل نہیں کرتا۔ کیونکہ اس کا اصول ہے کہ جو لوگ اس کے راستے میں کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لیے ضرور راستے کھول دیتا ہے یقیناً اللہ تعالیٰ نیک کام کرنے والوں کا ساتھی ہے۔ “ (الروم : ٦٩) اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے کہ ” ہم نے انسان کو کفر و شرک کا راستہ بتلا یا ہے یہ انسان کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے۔ “ (الدھر : ٣) اس فرمان سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے دلائل دیتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو اس وقت سے جانتا ہے جب یہ ماں کے رحم میں تھا اور اس سے انسان کی کوئی خفیہ اور ظاہر بات پوشیدہ نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ انسان کی راتوں اور دنوں سے واقف ہے۔ جس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ جب تک انسان عقیدہ توحید کے تقاضے پورے نہیں کرتا اس وقت تک اس کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ کرامًا کاتبین کی ڈیوٹی : (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَتَعَاقَبُوْنَ فِےْکُمْ مَلَآءِکَۃٌ باللَّےْلِ وَمَلَآءِکَۃٌ بالنَّھَارِ وَےَجْتَمِعُوْنَ فِیْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ ےَعْرُجُ الَّذِےْنَ بَاتُوْا فِےْکُمْ فَےَسْأَلُھُمْ رَبُّھُمْ وَھُوَ اَعْلَمُ بِھِمْ کَےْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْ فَےَقُوْلُوْنَ تَرَکْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ وَاٰتَےْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ ) [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ صَلاَۃِ الْعَصْر ] ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں رات اور دن کو آگے پیچھے فرشتے آتے ہیں۔ اور وہ فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں پھر رات والے فرشتے چلے جاتے ہیں تو ان سے پروردگار سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑ اوہ جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ نماز ادا کررہے تھے اور جب ہم ان سے واپس آئے تو وہ نماز ہی کی حالت میں تھے۔ *** انسان پر ایک فرشتہ اور ایک شیطان مقرر ہے : (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اِلَّا وَقَدْ وُکِّلَ بِہٖ قَرِےْنُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَ قَرِےْنُہٗ مِنَ الْمَلآءِکَۃِ قَالُوْا وَاِیَّاکَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ وَ اِیَّایَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ اَعَانَنِیْ عَلَےْہِ فَاَسْلَمَ فَلَا ےَاْمُرُنِیْ اِلَّا بِخَےْر)[ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب تحریش الشیطان وبعثہ سرایاہ لفتنۃ الناس ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک جن اور ایک فرشتہ مقرر کیا گیا ہے۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ کے ساتھ بھی ؟ فرمایا کیوں نہیں لیکن اللہ نے اس پر میری مدد فرمائی جس سے وہ میرے تابع ہوچکا ہے۔ وہ مجھے نیکی کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی حفاظت کے لیے فرشتے کو مقرر کیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ تب تلک کسی کے حالات نہیں بدلتا جب تک وہ خود تبدیل کرنے کا ارادہ نہ کرے۔ ٣۔ اللہ کے عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کوئی کسی کا مددگار نہیں ہوسکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا عذاب اور اس کا حکم کوئی نہیں ٹال سکتا : ١۔ جب اللہ کسی قوم پر مصیبت نازل کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے ہٹنے کی کوئی صورت نہیں اور نہ کوئی بچانے والا ہے۔ (الرعد : ١١) ٢۔ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (الرعد : ٣٤) ٣۔ اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑلیا اور انہیں کوئی بچانے والا نہیں تھا۔ ( المومن : ٢١) ٤۔ اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا مگر جس پر اللہ رحم فرمائے۔ (ہود : ٤٣) ٥۔ قوم لوط پر نہ ٹلنے والا عذاب آیا ہے۔ (ھود : ٧٦) ٦۔ اللہ کی گرفت بہت سخت ہوا کرتی ہے۔ (البروج : ١٢)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فرشتے بندوں کی حفاظت کرتے ہیں : (لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْم بَیِْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ ) کہ انسان کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرشتے مقرر فرمائے ہیں جو یکے بعد دیگرے آتے رہتے ہیں جو آگے سے اور پشت کے پیچھے سے انسان کی حفاظت کرتے ہیں اور ضرر دینے والی چیزوں سے...  بچاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اس کام پر لگایا ہے کہ وہ انسان کی حفاظت کریں۔ صاحب روح المعانی نے بحوالہ ابن ابی الدنیا وغیرہ حضرت علی (رض) سے نقل کیا ہے کہ ہر بندہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے حفاظت کرنے والے فرشتے مقرر فرما دیئے جو اس کی حفاظت کرتے ہیں تاکہ اس پر کوئی دیوار نہ گرجائے یا وہ کسی کنویں میں نہ گرپڑے یہاں تک کہ جب اللہ کی قضاء وقدر کے مطابق کوئی تکلیف پہنچنے کا موقع آجاتا ہے تو فرشتے علیحدہ ہوجاتے ہیں لہٰذا جو تکلیف پہنچنی ہوتی ہے پہنچ جاتی ہے۔ جب تک لوگ نافرمانی اختیار کر کے مستحق عذاب نہیں ہوتے اس وقت تک اللہ تعالیٰ ان کی امن و عافیت والی حالت کو نہیں بدلتا۔ اس کے بعد فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ) (بلاشبہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کو نہیں بدلتے) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی امن اور عافیت والی حالت کو مصائب اور آفات سے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود ہی تبدیلی نہ لے آئیں یعنی بد اعمالی اختیار کر کے وہ عذاب اور مصیبت کے مستحق نہ ہوجائیں جب وہ اپنے اچھے حالات کو سرکشی اور نافرمانی سے بدل دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی عافیت کو آفات اور بلیات سے بدل دیتا ہے اور ایسے موقع پر فرشتوں کا جو پہرہ ہے وہ بھی اٹھا لیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قہر اور عذاب آجاتا ہے آیت کا مضمون وہی ہے جو سورة نحل کی آیت کریمہ (ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً ) (الایۃ) میں بیان فرمایا ہے پھر فرمایا (وَاِذَا اَرَاد اللّٰہُ بِقَوْمٍ سُوْءً فَلَا مَرَدَّلَہٗ ) (اور جب اللہ کسی قوم کو تکلیف پہنچانے کا ارادہ فرمائے تو اسے کوئی واپس کرنے والا نہیں) یعنی جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی قوم پر کسی مصیبت کے بھیجنے کا فیصلہ ہوجائے تو وہ مصیبت آکر رہے گی اسے کوئی ہٹانے والا اور دفع کرنے والا نہیں (وَمَا لَھُمْ مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ ) اور ایسے وقت میں (جبکہ مصیبت آپہنچے) اللہ کے سوا کوئی ان کا والی نہیں ہوتا جو ان کی مصیبت کو رفع کرے اس وقت حفاظت کے فرشتے ہٹ جاتے ہیں اور مصیبت آکر رہتی ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ یہ تخویف دنیوی ہے۔ لَہٗ کی ضمیر کا مرجع مَنْ اَسَرَّ الخ ہے یعنی ہر انسان کی ھفاظت کے لیے محافظ فرشتے مقرر ہیں الضمیر راجع الی من تقدم ممن اسر بالقول و جھر بہ (روح ج 13 ص 111) ۔ یا ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے یعنی اللہ کے ایسے فرشتے بھی ہیں جو انسانوں کی حفاظت پر مقرر ہیں۔ ای للہ ملائکۃ یتع... اقبون بالیل والنھار (خازن و معالم ج 4 ص 7 و قرطبی ج 9 ص 291) ۔ ” مُعَقِّبٰتٌ“ معقبۃ کی جمع ہے مراد فرشتوں کی جماعتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی حفاظت کے لیے مقرر کی ہوئی ہیں۔ ” مِنْ اَمْرِ اللہِ “ میں من سببیہ ہے یعنی وہ اللہ کے حکم سے انسان کی حفاظت کرتے ہیں۔ ” و من للسببیۃ ای یحفظونہ من المضار بسبب امر اللہ تعالیٰ لھم بذلک “ (روح ج 13 س 113) یحفظونہ من اجل امر اللہ تعالیٰ ایمن اجل ان اللہ امرھم بحفظہ۔ (مدارک ج 2 ص 187 ۔ 13:۔ پہلے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے تمام اعمال سے واقف ہے پھر فرمایا اس نے بندوں پر محافظ فرشتے مقرر کر رکھے ہیں اب بندوں کو لزوم طاعت اور اجتناب از معصیت کی تنبیہ فرمائی اور ساتھ نافرمانی اور معصیت کے وبال سے آگاہ فرمادیا (روح) ۔ ” مَابقَوْمٍ “ میں مَا موصوفہ ہے اور مراد نعمت و عافیت ہے۔ ” مَابِاَنْفُسِھِمْ “ میں بھی مَا موصوفہ ہے اور مراد احوال صالحہ ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جس قوم کو کسی نعمت و برکت سے نوازا ہو اس وقت تک ان سے اس کو سلب نہیں کرتا جب وہ لوگ اپنی بد اعمالیوں اور معصیتوں کی وجہ سے خود اپنا ستحقاق ضائع نہ کردیں۔ اور جب کسی قوم کی بد اعمالیوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ اسے تباہ و برباد کرنے کا ارادہ فرما لے تو پھر اسے کوئی نہیں روک سکتا اور نہ ان کو اس کے عذاب سے کوئی بچا سکتا ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 1 ۔ ہر انسان کے لئے کچھ محافظ فرشتے اور پہرہ دار مقرر ہیں جو باری باری آتے جاتے رہتے ہیں اور ان کی بدلی ہوئی رہتی ہے وہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسان کے سامنے سے اور اس کے پیچھے سے اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں اور بلائو آفات سے انسان کو محفوظ رکھتے ہیں بلا شبہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں ... بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہیں بدل دیتے اور جب حضرت حق تعالیٰ کسی قوم پر برائی اور عذات کا ارادہ کرلیتا ہے تو پھر وہ برائی اور عذاب واپس نہیں ہوسکتا اور اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی مدد گار بھی نہیں ہوتا ۔ یعنی ہر شخص کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ فرشتے مقرر ہیں جو کراما ً کاتبین کی طرح بدلتے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق بندے کی حفاظت کرتے ہیں اور بلائو آفات سے بچاتے رہتے ہیں اور موذی جانوروں سے حفاظت کرتے ہیں اور چونکہ یہ محافظ قضاء قدر کے ماتحت ہیں ۔ فاذا جاء القدرخلوبینہ و بین القدر یعنی جب قدر الٰہی آجاتی ہے تو یہ فرشتے قدر الٰہی کے مقابلہ میں ہٹ جاتے ہیں خواہ ان فرشتوں کی تعداد بیس یا بیس سے زیادہ ہو۔ بہر حال ! کی فرد یا افراد کی نگہبانی اسی وقت تک ہوتی جب وہ قوم اپنی حالت کو نہیں بدلتی جب کوئی قوم کفران نعمت کرتی ہے تو نعمت سلب ہوجاتی ہے اور اس قوم کی حالت کو بدل دیا جاتا ہے یعنی ابتداء ً کسی قوم کی اچھی حالت کو نہیں بدلا جاتا البتہ جب وہ لوگ خود اپنے کو بدلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کو بدل دیتا ہے اور ان میں تبدیلی کردیتا ہے اور اپنے انعامات سلب کرلیتا ہے اور عذاب مسلط کردیتا ہے اور اس کا عذاب ٹالے سے ٹلتا نہیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ اپنی نگہبانی سے اور مہربانی سے محروم نہیں کرتا کسی قوم کو جو ہمیشہ اس کی طرف سے ہی ہے جس تک دے چال اپنی نہ بدلیں اللہ کے ساتھ ۔ 12  Show more