Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 19

سورة الرعد

اَفَمَنۡ یَّعۡلَمُ اَنَّمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ الۡحَقُّ کَمَنۡ ہُوَ اَعۡمٰی ؕ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿ۙ۱۹﴾

Then is he who knows that what has been revealed to you from your Lord is the truth like one who is blind? They will only be reminded who are people of understanding -

کیا وہ ایک شخص جو یہ علم رکھتا ہو کہ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو اتارا گیا ہے وہ حق ہے ، اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Believer and the Disbeliever are never Equal Allah says, أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَا ... Shall he then who knows that what, Allah says, `They could never be equal; those among people who know that what, ... أُنزِلَ إِلَيْكَ ... has been revealed unto you, (O Muhammad), ... مِن رَبِّكَ الْحَقُّ ... from your Lord is the truth, about which there is no doubt and in which there is no confusion, vagueness or contradiction. Rather, they believe that all of it is the truth, each part of it testifying to another. They believe that none of its parts contradicts the others, that all its information is true and that all its commandments and prohibitions are just, وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ صِدْقاً وَعَدْلاً And the Word of your Lord has been fulfilled in truth and in justice. (6:15) ... كَمَنْ هُوَ أَعْمَى ... be like him who is blind! It is accurate in its information and stories and just in what it orders. Therefore, the Ayah says, those who believe in the truth that you brought, O Muhammad, are not at all similar to those who are blind and cannot find guidance to what benefits them, which they cannot even comprehend. And even if they comprehend the guidance, they will not follow it, believe in it or abide by it.' Allah said in another Ayah, لااَ يَسْتَوِى أَصْحَـبُ النَّارِ وَأَصْحَـبُ الْجَنَّةِ أَصْحَـبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَأيِزُونَ Not equal are the dwellers of the Fire and the dwellers of the Paradise. It is the dwellers of Paradise that will be successful. (59:20) Allah said in this honorable Ayah, أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَى ... Shall he then who knows that what has been revealed unto you from your Lord is the truth, be like him who is blind! They are not equal. Allah said next, ... إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُواْ الاَلْبَابِ But it is only the men of understanding that pay heed. meaning, it is those who have sound minds who draw lessons, gain wisdom and understand. We ask Allah to make us among them.

ایک موازنہ ارشاد ہوتا ہے کہ ایک وہ شخص جو اللہ کے کلام کو جو آپ کی جانب اترا سراسر حق مانا ہو ، سب پر ایمان رکھتا ہو ، ایک کو دوسرے کی تصدیق کرنے والا اور موافقت کرنے والا جانا ہو ، سب خبروں کو سچ جانتا ہو ، سب حکموں کو مانتا ہو ، سب برائیوں کو جانتا ہو ، آپ کی سچائی کا قائل ہو ۔ اور دوسرا وہ شخص جو نابینا ہو ، بھلائی کو سمجھتا ہی نہیں اور اگر سمجھ بھی لے تو مانتا نہ ہو ، نہ سچا جانتا ہو ، یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے ۔ جیسے فرمان ہے کہ دوزخی اور جنتی برابر نہیں ۔ جنتی خوش نصیب ہیں ، یہی فرمان یہاں ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں ۔ باب یہ ہے کہ بھلی سمجھ سمجھ داروں کی ہی ہوتی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یعنی ایک وہ شخص جو قرآن کی حقانیت و صداقت پر یقین رکھتا ہو اور دوسرا اندھا ہو یعنی اسے قرآن کی صداقت میں شک ہوگیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ استفہام انکار کے لیے ہے یعنی یہ دونوں اسی طرح برابر نہیں ہوسکتے جس طرح جھاگ اور پانی یا سونا تانبا اور اس کی میل کچیل برابر نہیں ہو سکتے 19۔ 2 یعنی جن کے پاس قلب سلیم اور عقل صحیح نہ ہو اور جنہوں نے اپنے دلوں کو گناہوں کے زنگ سے آلودہ اور اپنی عقلوں کو خراب کرلیا ہو، وہ اس قرآن سے نصیحت حاصل نہیں کرسکتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٨] یعنی ایک شخص اللہ کی نازل کردہ ہدایات کو حق سمجھ کر اپنی پوری زندگی اس کے مطابق ڈھال لیتا ہے، حرام و حلال کی تمیز کرتا ہے۔ ظلم و زیادتی سے بچتا اور اللہ سے ڈرتا رہتا ہے اور دوسرا شخص محض اپنے مفادات کے پیچھے پڑا رہا ہے اور اس غرض کے لیے وہ ہر طرح کے جائز و ناجائز حربے اختیار کرتا، لوگوں کے حقوق غصب کرتا اور ان پر ظلم و زیادتی کرتا رہتا ہے۔ کیا یہ دونوں ایک جیسے ہوسکتے ہیں ؟ یا ان کا طرز عمل ایک جیسا ہوگا ؟ مگر یہ بات تو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو کچھ عقل و فکر سے کام لیتے ہیں اور خود اللہ کی بتائی ہوئی راہ پر گامزن ہیں :

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَمَنْ يَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ ۔۔ : یہاں یہ کہنے کے بجائے کہ کیا وہ شخص جو جانتا ہے اس شخص کی طرح ہے جو نہیں جانتا، یوں فرمایا کہ اس شخص کی طرح ہے جو اندھا ہے ؟ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اللہ کی طرف سے آنے والی نشانیاں آنکھوں سے نظر آرہی ہیں، جو ان کا علم اور یقین نہیں رکھتا درحقیقت وہ اندھا ہے اور اس کا یہ اندھا پن قیامت کو اچھی طرح ظاہر ہوجائے گا۔ دیکھیے سورة طہ (١٢٤ تا ١٢٦) یہ مومن اور کافر کی مثال ہے۔” اُولُوا “ ” ذُوْ “ کی جمع ہے، بمعنی والے۔ ” الْاَلْبَابِ “ ” لُبٌّ“ کی جمع ہے، ہر چیز میں سے جو خالص ہو، خالص عقل جو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہو۔ (مفردات) اس لیے ترجمہ ” عقل والوں “ کے بجائے ” عقلوں والے “ کیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ نصیحت صرف خالص اور پاکیزہ عقل والے حاصل کرتے ہیں، الٹے دماغ والے نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Truth and Falsehood were explained through parables in verses ap¬pearing previous to those cited above. Now, in the present verses, there is a description of the distinguishing marks and attributes of the people of Truth and the people of Falsehood, along with a description of their good and bad deeds, and their reward and punishment. The first verse (18) carries a description of the good return reserved for those who obey Divine injunctions and act in accordance with them, and conversely, of the severe punishment for those who disobey them and act negatively. In the second verse (19), the two groups have been identified as the sighted and the blind through a parable and, at the end, it was said: إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ‌ أُولُو الْأَلْبَابِ that is, &only the people of understanding respond to the advice.& It means what has been exemplified here is, though, fairly clear and obvious, yet it can only be understood and appreciated by those who have their essential reason intact with them. Those who have their fa¬culty of reason all impaired by heedlessness and disobedience cannot understand a difference so great. From the third verse (20) begins a description of particular deeds and marks which distinguish the two groups. Taken up first are the attrib¬utes of those who believe in and obey Divine injunctions. The initial at-tribute mentioned is:

معارف و مسائل : پچھلی آیتوں میں حق و باطل کو مثالوں کے ذریعہ واضح کیا گیا تھا مذکورہ آیات میں اہل حق اور اہل باطل کی علامات وصفات اور ان کے اچھے اور برے اعمال اور ان کے جزاء سزا کا بیان ہے۔ پہلی آیت میں احکام ربانی کی تعمیل و اطاعت کرنے والوں کے لئے اچھے بدلے کا اور نافرمانی کرنے والوں کے لئے عذاب شدید کا ذکر ہے دوسری آیت میں ان دونوں کی مثال بینا اور نابینا سے دی گئی ہے اور اس کے آخر میں فرمایا اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَاب یعنی اگرچہ بات واضح ہے مگر اس کو وہی سمجھ سکتے ہیں جو عقل والے ہیں جن کی عقلیں غفلت و معصیت نے بیکار کر رکھی ہیں وہ اتنے بڑے عظیم فرق کو بھی نہیں سمجھتے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَمَنْ يَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰى ۭ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ 19۝ۙ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا بخشنے والا پروردگار ،۔ عمی العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ( ع م ی ) العمی ٰ یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة/ 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے تَّذْكِرَةُ : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ التذکرۃ جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا لب اللُّبُّ : العقل الخالص من الشّوائب، وسمّي بذلک لکونه خالص ما في الإنسان من معانيه، كَاللُّبَابِ واللُّبِّ من الشیء، وقیل : هو ما زكى من العقل، فكلّ لبّ عقل ولیس کلّ عقل لبّا . ولهذا علّق اللہ تعالیٰ الأحكام التي لا يدركها إلّا العقول الزّكيّة بأولي الْأَلْبَابِ نحو قوله : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة/ 269] ( ل ب ب ) اللب کے معنی عقل خالص کے ہیں جو آمیزش ( یعنی ظن دوہم اور جذبات ) سے پاک ہو اور عقل کو لب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ انسان کے معنوی قوی کا خلاصہ ہوتی ہے جیسا کہ کسی چیز کے خالص حصے کو اس کا لب اور لباب کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لب کے معنی پاکیزہ اور ستھری عقل کے ہیں چناچہ ہر لب کو عقل کہہ سکتے ہیں لیکن ۔ ہر عقل لب ، ، نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام احکام کو جن کا ادراک عقول زکیہ ہی کرسکتی ہیں اولو الباب کے ساتھ مختض کیا ہے جیسے فرمایا : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة/ 269] اور جس کو دانائی ملی بیشک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لو گ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت سی آیات ہیں ؛

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩) جو شخص قرآن کریم کی حقانیات کی تصدیق کرتا ہو تو کیا یہ مومن کافر کی طرح ہوسکتا ہے، سو قرآن کریم سے نصیحت تو سمجھدار ہی لوگ قبول کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35. That is, as the attitude of the two in this world will be different from each other, so shall be their ultimate end in the Hereafter. 36. That is, those who listen to the message that has been sent down by Allah, and accept His Messenger, are really very wise people. This is why their conduct in this world is quite different from those foolish people who are blind to its merits: and so is their ultimate end in the Hereafter, as stated in the subsequent verses.

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :35 یعنی نہ دنیا میں ان دونوں کا رویہ یکساں ہوسکتا ہے اور نہ آخرت میں ان کا انجام یکساں ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :36 یعنی خدا کی بھیجی ہوئی اس تعلیم اور خدا کے رسول کی اس دعوت کو جو لوگ قبول کیا کرتے ہیں وہ عقل کے اندھے نہیں بلکہ ہوش گوش رکھنے والے بیدار مغز لوگ ہی ہوتے ہیں ۔ اور پھر دنیا میں ان کی سیرت و کردار کا وہ رنگ اور آخرت میں ان کا وہ انجام ہوتا ہے جو بعد کی آیتوں میں بیان ہوا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٩۔ اس آیت میں یہ ارشاد ہے کہ اللہ پاک نے جو کچھ اپنے نبی برحق پر اتارا ہے اس پر جو شخص ایمان لاتا ہے اور اس کی تصدیق کرتا ہے اور خدا کے سارے امر و نہی کو پورے عدل و انصاف پر سمجھتا ہے اس کے برابر کبھی وہ شخص نہیں ہوسکتا جو اس کو جھٹلاتا ہے اور اس کی پیروی نہیں کرتا۔ مفسروں نے بیان کیا ہے کہ یہ آیت حمزہ بن عبد المطلب و ابو جہل کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ حمزہ آپ پر ایمان لائے تھے وہ مومن تھے اور ابو جہل مرتے وقت تک کافر رہا۔ اللہ پاک نے انہی دونوں کے درمیان میں فرق بیان کیا کہ حمزہ (رض) راہ حق پر ہیں اور ابو جہل گمراہی میں ہے یہ دونوں کبھی برابر نہیں ہوسکتے مگر یہ آیت عام ہے اس لئے اس کا حکم بھی عام ہے ہر ایک مومن اور کافر کے واسطے اس کا فیصلہ قائم ہے۔ صحیح بخاری میں انس بن مالک (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن شہیدوں کو جب جنت کے اعلیٰ درجے ملیں گے تو وہ خواہش کریں گے کہ ان کو دوبارہ دنیا میں بھیجا جاوے تاکہ وہ پھر شہید ہوں اور اعلیٰ درجہ پاویں ١ ؎ معتبر سند سے طبرانی میں حضرت علی (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حمزہ بن المطلب (رض) کو شہیدوں کا سردار فرمایا ہے۔ ٢ ؎ اب یہ تو ظاہر ہے کہ جب اور شہیدوں کو وہ درجے ملیں گے جس کا ذکر انس بن مالک (رض) کی حدیث میں ہے تو شہیدوں کے سردار حضرت حمزہ (رض) کا مرتبہ قیامت کے دن کیا کچھ ہوگا ابو جہل کے انجام میں صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی روایتیں گزر چکی ہیں کہ ابو جہل اور اس کے ساتھیوں پر مرتے ہی عذاب شروع ہوگیا اور اللہ کے رسول نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدہ کو سچ پایا ٣ ؎ حاصل کلام یہ ہے کہ آیت کا حکم اگرچہ عام ہے لیکن حمزہ بن عبد المطلب (رض) اور ابو جہل کی حالت کے دو شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک برابر نہیں ہوسکتے ابو جہل کی حالت کے لوگوں کو عقبیٰ کی بھلائی برائی نظر نہیں آتی اس لئے ایسے لوگوں کو اندھا فرمایا۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٣٩٥ ج ١ باب تمنی المجاہد ان یرجع الی الدنیا۔ ٢ ؎ مجمع الزوائد ص ٢٦٨ ج ٩ باب ماجاء فی فضل حمزۃ الخ۔ ٣ ؎ جلد ہذا ص ٢٠٢، ٢٢٤٠٢٠٨۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:19) یتذکر۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ تذکر یتذکر تذکر (تفعل) نصیحت پکڑنا۔ یتذکر۔ وہ نصیحت پکڑتا ہے۔ (واحد بمعنی جمع آیا ہے۔ بیشک نصیحت وہی پکڑتے ہیں جو صاحب ِ فہم ہوں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ۔ یعنی ان دونوں کا یکساں ہونا قطعی ناممکن ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٣) اسرارومعارف مومن جسے یقین کی یہ دولت نصیب ہو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو کچھ اپنے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا حق ہے اس کی عظمت کو دل کے اندھے یعنی جو اس یقین سے محروم ہیں بھلا کب پا سکتے ہیں اگرچہ یہ بات بہت واضح ہے مگر سمجھنے کے لیے تو عقل ضروری ہے لہذٓ ٰٓسی بات بھی دانا لوگ ہی جان سکتے ہیں اور دانا وہ ہیں جو اپنے اللہ جل جلالہ سے کئے گئے وعدے کا پاس رکھتے ہیں اور اسے نباہتے ہیں جو ازل میں عہد کیا تھا کہ تو ہی ہمارا پروردگار ہے اور پھر کلمہ طیبہ پڑھ کر دوبارہ اس کی عظمت اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا اقرار کرکے اطاعت کا وعدہ کیا پھر نافرمانی کرکے اسے توڑتے نہیں ، تیسرا وصف ان کا یہ ہے کہ جن امور یا رشتوں کو اللہ جل جلالہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں توڑتے نہیں ان میں صلہ رحمی بھی شامل ہے مگر یاد رہے کہ اس کی بھی ایک حد ہے یعنی اللہ جل جلالہ کی نافرمانی پر ساتھ دینا درست نہیں ہاں دنیا کے معاملات میں درگذر کرنا صلہ رحمی ہے کہ آدمی اپنا نقصان بھی برداشت کرلے مگر قطع نہ کرے ، لیکن خلاف شریعت پر تعاون نہ کیا جائے اور جوڑنے سے مراد ایمان کے ساتھ اعمال صالح کو ملانا بھی ہے کہ اللہ جل جلالہ نے انہیں ملانے کا حکم دیا ہے مگر انسان نرے دعوے ایمان پر قناعت کرکے بیٹھ رہتا ہے اور عمل صالح کے لیے کوشش نہیں کرتا ایسا کرنا دانشمندی کے خلاف ہے اور اس سب کے باوجود اللہ جل جلالہ کی محبت اور اس کے قرب کی طلب میں اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ مبادا کوئی غلطی کر بیٹھیں اور اللہ جل جلالہ ناراض ہوجائیں خشیت ایسے ہی ڈر کو کہا جاتا ہے اور حساب کو سختی سے ڈرتے رہتے ہیں کہ کوئی بھی شخص کتنے ہی اعمال کرلے نجات کے لیے اللہ جل جلالہ کی رحمت ہی کا محتاج ہوگا کہ انسان سے کہیں نہ کہیں ایسی غلطی ہوجاتی ہے جو سب اعمال کو بیکار کرنے کے لیے کافی ہو نیز انسان پر اللہ جل جلالہ کے احسانات اس قدر ہیں کہ کبھی بھی غلطی نہ کرے جب بھی ان کا شکر ادا نہیں کر پاتا حتی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جنت میں جو بھی داخل ہوگا اللہ جل جلالہ کی رحمت سے ہوگا تو عرض کیا گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی یا رسول اللہ فرمایا ، بیشک میں بھی اور حساب کے لیے فرمایا کہ حساب یسیر کی دعا مانگا کرو کہ آسان حساب یہ ہے کہ پوچھا نہ جائے کہ تو نے ایسا کیوں کیا حضرت عائشہ (رض) کی روایت میں ہے کہ جس پر سوال ہوگیا کہ ایسا کیوں کیا تھا وہ ضرور عذاب میں گرفتار ہوگا ، لہذا دانشمندی یہ ہے کہ حساب کا ڈر ہر آن دل میں موجود رہے ۔ اگلا وصف ان کا یہ ہے کہ اپنے رب کی رضا مندی کو پانے کے لیے صبر کرتے ہیں اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ آج کا مسلمان اگر چند سجدے کر گزرے تو اس کا خیال یہ ہوتا ہے کہ دنیا کا ہر کام اس کی پسند سے ہونا چاہئے اور کوئی اس کی مرضی کے خلاف واقع نہ ہو ، حالانکہ اسلام اپنی پسند ، آرام اور خواہشات پر صبر کرنے کا نام ہے ، صبر سے مراد خود کو ضبط کرکے رکھنا ہے کہ خواہش ہو ضرورت ہو مگر اللہ کے حکم کے خلاف اسے پورا نہ کرے بلکہ اس پر صبر کرلے اور اللہ جل جلالہ کی اطاعت کو نہ چھوڑے تو یہ دو طرح کا صبر ہوگا ، اطاعت پہ قائم رہنا اور گناہ سے رک جانا ہاں اگر وہ مجبور ہے اور کسی وجہ سے ایسا کر ہی نہیں تو بھی گناہ سے تو بچ گیا مگر یہ غیر اختیاری کام صبر نہ کہلائے گا اس لیے یہ امید رکھنا کہ خطا کا کبھی موقع ہی نہ آئے یا نفس اور شیطان کی طرف سے کوئی داعیہ پیدا نہ ہو صحیح نہیں کہ ایسی حالت میں ہی اپنے کو خطا سے روکنا اور صرف اللہ جل جلالہ کی رضا کے لیے روکنا ہی تو صبر ہے ، دانشمندوں کی اگلی نشانی یہ ہے کہ نماز کو قائم کرتے ہیں ، اس کے دو طریقے ہیں اول اپنی نماز کو اس کی جملہ شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے ادا کرنا ، دوم جہاں تک ممکن ہو قیام صلوۃ کے لیے کوشش کرتے رہنا پھر ان کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اللہ جل جلالہ نے جو کمالات یا علم دولت انہیں بخشی ہے اسے اللہ جل جلالہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ، یعنی جو قوت انہیں حاصل ہے اس سے اللہ جل جلالہ کی عظمت ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور اپنی طاقتوں کو ذاتی اغراض کی تکمیل کا سبب نہیں بناتے یہ ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اللہ جل جلالہ کی نافرمانی اختیار کرے نیز موقع کی مناسبت سے پوشیدہ کوشش بھی کرتے ہیں اور ظاہر بھی یعنی جہاں جیسا موقع ہو اور جیسا کرنے سے دینی فائدہ کی زیادہ امید ہو یا صدقہ فرض ظاہر کرکے ادا کرنا اور نفلی کو خفیہ مگر وسیع تر مراد یہی ہے کہ اپنی قوتوں کے صرف سے ذاتی شہرت یا فائدے کے بجائے دین کی عظمت مقصود ہو اور موقع کے مناسب کام کیا جائے ۔ نیز وہ برائی کے مقابلے میں برائی نہیں کرتے بلکہ نیکی سے برائی کا دفعیہ کرتے ہیں کہ برائی کے مقابلے میں برائی سے تو بدی اور بڑھتی ہے ظلم زیادہ ہوتا ہے مگر اللہ جل جلالہ کے بندے بدی کے مقابل نیکی پھیلاتے ہیں اس سے یہ مراد نہ لی جائے کہ قاتلوں ، ڈاکوؤں اور چوروں کو معاف کردینا برائی کے مقابلے میں نیکی ہے یہ تو بہت بڑی برائی ہے ہاں نیکی یہ ہے کہ مجرم سے تو قصاص لیا جائے مگر اس کے بدلے دشمنی نہ پالی جائے اور اس کے لواحقین سے بہتر سلوک کیا جائے ، نیز عام معاشرے کی روش کو نہیں اپناتے جیسا کہ عام انسانی مزاج ہے بلکہ سب معاشرے بھی کسی برائی پر متفق ہوجائے تو بھی اللہ کے بندے یا صاحب خرد لوگ نیکی ہی کو اپنا شعار بناتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے آخرت کا گھر ہے ۔ rnّ (اللہ کے بندوں اور نیک لوگوں سے تعلق کا اثر) جنت عدن جس میں ان کے سبب ان کے متعلقین بھی داخل ہوں گے اگر وہ بھی دنیا سے ایمان کے ساتھ گئے ہوں اگرچہ ان کے اپنے اعمال جنت کے اس درجہ کو پانے کے قابل نہ بھی ہوں تو بھی ان کی بیویاں ، ان کے والدین اور ان کی اولاد صرف ان کی وجہ سے وہاں داخل ہوگی ، ایسے ہی ان کے دوست یا متعلقین اور ان سب کے لیے صرف ایمان شرط ہے کہ کفر پہ مرنے والا سارے رشتوں سے محروم ہوجاتا ہے اور مومن وکافر ہیں کوئی رشتہ نہیں رہتا صاحب تفسیر مظہری نے بیان فرمایا ہے کہ یہ آیت ازواج مطہرات اور خاندان نبی علی صا حبھا لصلوۃ والسلام کے بارے اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سب لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طفیل اعلی درجات پر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ ہوں گے ، خصوصا ازواج مطہرات کا ٹھکانہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا دولت کدہ ہوگا اور یہی نسبت نیچے تک چلے گی کہ رشتہ ایمان ہی نسبی رشتے کی بقا کا سبب بھی ہے کافر اس سے محروم رہے گا نیز اللہ جل جلالہ اپنے بندوں کو خوش کرنے کے لیے ان کے متعلق کو خواہ نسبی ہوں یا جہری یا دوستی کا رشتہ ہو بشرط ایمان ان کے ساتھ جگہ عطا فرمائے گا اور ہر ہر دروازے سے فرشتے داخل ہو کر انہیں مبارکباد اور ابدی سلامتی کا پیغام دیں گے اور کہیں کہ تم نے اللہ کی اطاعت پر صبر کیا تکالیف برداشت کرلیں مگر اطاعت الہی کو ہاتھ سے نہ دیا تو اس کا کتنا بہترین بدلہ پا رہے ہو اور یہ آخرت کا گھر کتنا عجیب ہے کہ اس کے حسن کا جواب نہیں ، نعمتوں کا کوئی حساب نہیں کسی دکھ کا نام نہیں اور ہمیشہ ہمیشہ رہنے والا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آخرت کی کامیابی اور درجات عالیہ کے لیے انسان کو دنیا میں صبر اختیار کرنا چاہئے ، اللہ کی اطاعت کے ساتھ بندوں کے حقوق کا پورا پورا لحاظ ضروری ہے جس پر صبر سب سے مشکل کام ہے ہاں اللہ ہی توفیق دینے والا ہے ۔ جو لو گ اللہ کے عہد کے پرواہ نہیں کرتے اس کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں یعنی اپنی امیدیں غیر اللہ سے وابستہ کرلیتے ہیں ، اور عہد شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں وہ پھر اللہ کے بندوں کے حقوق کی پرواہ بھی نہیں کرتے اور جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم ہے ایسے لوگ انہیں توڑنے کا سبب بنتے ہیں اور اس طرح زمین پر فساد بپا کرتے ہیں تو اس عارضی فرصت کے بعد جب ہمیشہ کے گھر میں یعنی آخرت میں پہنچتے ہیں اور انہیں اللہ جل جلالہ کی رحمت سے محرومی یعنی لعنت سے واسطہ پڑتا ہے اور بہت ہی بری اور تکلیف دہ جگہ ٹھکانہ ملتا ہے اور یوں تباہی اور ہمیشہ کے دکھ میں مبتلا ہوتے ہیں انہوں نے دنیا میں اللہ جل جلالہ کی نافرمانی کرکے دنیا کمانے کی ٹھانی تھی ، حالانکہ یہ بھی ان کی بھول تھی رزق تو خود اللہ جل جلالہ کی طرف سے ہوتا ہے جسے چاہے زیادہ عطا کر دے اور جس پر چاہے تنگی وارد کر دے اس میں انسان کا اختیار صرف اتنا ہے کہ وہ حصول رزق میں اللہ جل جلالہ کی اطاعت کی راہ اختیار کرتا ہے یا نافرمانی کرتا ہے ان بدنصیبوں کو دنیا میں چند روز کیا مل گئے کہ اسی پر ناز کرنے لگے ، حالانکہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 19 تا 26 افمن کیا پھر وہ شخص اعمی اندھا یتذکر دھیان دیتا ہے اولوالالباب عقل و فکر رکھنے والے یوفون پورا کرتے ہیں لا ینقضون وہ نہیں توڑتے ہیں المیثاق وہ پختہ عہد جس کو توڑا نہ جاسکے یصلون وہ ملاتے ہیں یخشون وہ ڈرتے ہیں یخشون وہ ڈرتے ہیں سوء الحساب بدترین حساب ابتغاء تلاش کرنا اقاموا انہوں نے قائم کیا انفقوا انہوں نے خرچ کیا سر چھپ کر علانیۃ کھلم کھلا یدرؤن وہ رد کرتے ہیں عقبی الدار آخرت کا گھر عدن راحت بھری جنت۔ رہنے کے باغات صلح درست کیا۔ اصلاح کرلی ازواج (زوج) ، بیویاں ، جوڑے ذریت (ذریتۃ) اولاد نعم بہترین یقطعون وہ کاٹتے ہیں ان یوصل یہ کہ وہ ملائیں یفسدون وہ فساد مچاتے ہیں۔ برباد کرتے ہیں یبسط وہ کھولتا ہے یقدر تنگ کردیتا ہے ۔ تشریح : آیت نمبر 19 تا 26 دنیا کا دستور یہ بن گیا ہے کہ جو شخص جتنی دولت اور دنیاوی مال و اسباب کمانے کی اہلیت رکھتا ہے اس کو معاشرہ میں انتہائی صاحب عقل و دانش سمجھ کر عزت کے مقام پر بٹھایا اجتا ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کے ذرائع آمدنی کیسے ہیں۔ یہ مال و دولت اس کو جنت میں لے کر جائیں گے یا اس کہ جہنم کا ایندھن بنا دیں گے۔ اس کے برخلاف وہ شخص جو انتہائی پرہیزگاری کی زندگی گذار رہا ہے حرام سے بچ رہا ہے وہ اعمال سر انجام دے رہا ہے جو اس کو اور اس کے گھر والوں کو جنت کی ابدی راحتوں سے ہم کنار کردیں گے، لیکن اس کے پاس مال و دولت کی کمی ہے دنیا والے اس کو ناعاقبت اندیش اور بےوقوفی کے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ قرآن کریم کی ان آیات میں اہل عقل و دانش اور بیوقوفوں کی تفصیل بتائی گئی ہے اللہ کے نزدیک کون عقل والا ہے اور کون بےعقل ہے ؟ فرمایا کہ وہ شخص جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے کلام نازل کیا گیا ہے وہ بالکل برحق اور سچ ہے لیکن اگر دوسرا وہ شخص جو ان سچائیوں سے آنکھیں بند کئے اندھوں کی طرح زندگی گذار رہا ہے اور اللہ کے کلام پر یقین بھی نہیں رکھتا ہے۔ اگر ان دونوں کا مقابلہ کیا جائے تو یہ دونوں برابر نہیں ہوس کتے۔ فرمایا کہ اہل عقل و دانش لوگ وہ ہیں : 1) جو اللہ سے کئے ہوئے ہر عہد اور وعدہ کو پورا کرتے ہیں۔ اللہ کے ان تمام احکامات کو دل و جان سے قبول کرلے اطاعت و فرماں برداری کرتے ہیں اور ہر اس چیز سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے اللہ کو پسند نہی ہے۔ وہ اللہ سے اور اس کے بندوں سے جو وعدہ کرتے ہیں اس پر پوری دیانت داری سے عمل کرتے ہیں۔ وہ ان منافقوں کی طرح نہیں ہوتے جو اپنے عہد و معاہدہ کا لحاظ نہی کرتے۔ کیونکہ منافق کی ایک علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ جب کسی سے وعدہ کرتا ہے تو اس کو پورا نہیں کرتا۔ اس لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ ” وہ صاحب ایمان نہیں ہو سکتا جو اپنے وعدے کو پورا نہیں کرتا “ قرآن کریم میں بھی بیس سے زیادہ مقامات پر عہد شکنی کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ 2) دوسری صفت یہ ہے کہ وہ ہر ایک کے ساتھ بہترین سلوک اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کرتا ہے یعنی اس کے نزدیک دوسروں سے بھلائی کرنا ہی اس کا مزاج بن جاتا ہے خواہ وہ دوست ہو یا دشمن، کافر ہو یا مسلم دور کا رشتہ دار ہو یا قریب کا ہر ایک سے حسن سلوک کرتا ہے۔ 3) تیسری صفت یہ ہے کہ وہ ہر وقت اپنے پروردگار سے اور اس بات سے ڈرتا رہتا ہے کہ قیامت کے دن اس سے جب پوری زندگی کا حساب کتاب لیا جائے گا تو کہیں اس کا انجام خراب نہ ہوجائے۔ 4) چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ حق و صداقت کی زندگی کو اختیار کرتا ہے اور پھر راہ حق میں اس کو جو بھی تکلیفیں پہنچتی ہیں انہیں وہ اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے برداشت کرتا ہے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ نہ وہ جذبات کی رو میں بہتا ہے اور نہ بڑے سے بڑا لالچ اس کے قدموں میں لرزش و لغزش پیدا کرتا ہے اس کا ہر کام صرف اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہوتا ہے۔ 5) پانچویں صفت یہ ہے کہ وہ نمازوں کو قائم کرتا ہے۔ اقامت صلوۃ یہ ہے کہ جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اقامت صلوۃ کا طریقہ ارشاد فرمایا ہے جس پر آپ کے صحابہ کرام اور امت چلتی آئی ہے اسی طرز پر نمازوں کو قائم کرتا ہے اور تمام نمازوں کو نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتا ہے اور مسجدوں میں نماز با جماعت کا اہتمام کرتا ہے اور ہر نماز کو اس کے وقت کے اندر پابندی سے ادا کرتا ہے۔ 6) چھٹی صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو جو کچھ عطا فرما رکھا ہے اس کو وہ محض اپنے آپ اور اپنے بال بچوں کی حد تک محدود نہیں رکھتا بلکہ عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر بھی خرچ کرتا ہے۔ یہاں یہی ہے کہ اللہ نے جو مال و دولت عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کیا جائے تو اس کا بےانتہا ثواب ہے لیکن اس کو اسی حد تک محدود نہ سمجھا جائے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس انسان کو جو بھی صلاحیت اور ہنر عطا فرمایا ہے وہ اس کو ہر شخص تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کی کسی طرح کی امداد و اعانت سے پیچھے نہیں رہتے۔ کھل کر یا چھپ کر جیسے ان سے بن پڑے وہ خرچ کرتے ہیں۔ 7) ساتویں صفت یہ ہے کہ اگر زندگی کے کسی مرحلے پر یا حق و صداقت کے راستے میں اس کیساتھ کوئی شخص بدسلوکی یا بےعزتی کرتا ہے تو وہ اس کا جواب کسی برائی سے نہیں دیتا بلکہ ہر برائی ظلم و ستم اور سختی کا بدلہ نیکیوں، معافی اور نرمی کے رویئے سے ادا کرتا ہے۔ فرمایا کہ جن لوگوں میں مذکورہ باتیں ہوں گی اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں، راحت و آرام اور سکون عطا فرمائے گا۔ وہ اس جنت کے مستحق بن جائیں گے جس میں راحتیں ہوں گی ایک نعمت یہ بھی ہوگی کہ والدین، اولاد اور بیویاں رشتہ دار سب اکٹھے ایک جگہ رہیں گے۔ ان کو عزت کا یہ مقام نصیب ہوگا۔ کہ ہر دروازے سے فرشتے ان کا استقلال سلام سے کریں گے اور کہیں گے کہ تمہارے اوپر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں کہ تم نے صبر اور برداشت سے کام لیا اس کے بدلے میں تمہیں وہ گھر دیا جا رہا ہے جس میں سلامتی، خوشی، مسرت اور دائمی راحت و آرام ہے۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جن کا مزاج یہ بن چکا تھا کہ انہوں نے اللہ سے جو بھی وعدے کئے تھے ان کو انہوں نے توڑ دیا تھا جن رشتوں کو ملانے کا حکم دیا تھا ان کو کاٹ دیا تھا اور زمین میں سوائے فساد ، تباہی اور برباد کے انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ فرشتے کہیں گے کہ ایسے لوگوں پر اللہ کی لعنت ہو اور ان کو بدترین ٹھکانا دیا جائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ کوئی اس گمان میں نہ رہے کہ نیکی کا راستہ اختیار کرنے والوں کو تنگ حالی اور فقر و فاقہ ہی ملتا ہے۔ فرمایا تو اللہ کا نظام قدرت ہے کہ وہ کسی پر رزق کے دروازے کھول دیتا ہے، خوشحالیاں اس کے قدم چومتی ہیں لیکن بعض لوگ وہ ہوتے ہیں کہ ان پر حالات کی سختی ہوتی ہے۔ فرمایا کہ رزق کی کمی بیشی، تنگی اور فراخی یہ اللہ کے نظام کا حصہ ہے وہ جس طرح چاہتا ہے دنوں کو لوگوں کے درمیان گھماتا رہتا ہے کبھی کی راتیں بڑی اور کبھی کے دن بڑے ہوتے ہیں۔ کوئی چیز کسی ایک حال پر نہیں رہتی۔ لیکن ایک بات ہر شخص کے ذہن میں رہنی چاہئے کہ دنیا کی زندگی میں کتنی بھی راحتیں آرام و سکون اور دولت کی فراوانی مل جائے وہ بالآخر کسی موڑ پر ختم ہوجانے والی ہیں لیکن جنہوں نے آخرت کی دولت جمع کی ہے وہ کبھی نہ ختم ہونے والی دولت ہے۔ دنیا کی دولت تو صرف وقتی گذارہ کی چیز ہے دائمی زندگی اور اس کی راحتیں آخرت ہی میں نصیب ہوں گی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی کافرو مومن برابر نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : تابعدار بندوں کا بہترین انجام بیان اور کافرو مشرک کے بدترین انجام کا ذکر کرنے کے بعد ایمان دار کا مرتبہ اور اس کا کردار بیان کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے آیت : ١٦ میں مشرک کو اندھا اور موحد کو بینا قرار دیا تھا۔ اب حق کی پیروی کرنے والے موحد کا مقام اور شان بیان کرتے ہوئے اجمالاً فرمایا ہے کہ ایسا شخص جو حق کو پہچانتا ہے وہ اندھے شخص جیسا ہوسکتا ہے ؟ اس مختصر اشارے میں عقل مندوں کے لیے بےانتہا عبرت اور نصیحت کا سامان ہے اس فرمان کی تفصیل سورة السجدۃ میں یوں بیان فرمائی۔ کیا مواحد، فرمانبردار اور نافرمان شخص برابر ہوسکتے ہیں ؟ (أَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لَا یَسْتَوُوْنَ أَمَّا الَّذِیْنَ آَمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ فَلَہُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوٰی نُزُلًامبِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ وَأَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَأْوٰہُمُ النَّارُ کُلَّمَا أَرَادُوْٓا أَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْہَا أُعِیْدُوْا فِیْہَا وَقِیْلَ لَہُمْ ذُوْقُوْا عَذَاب النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ ) [ السجدۃ : ١٨۔ ٢٠] ” مومن اور فاسق ہرگز برابر نہیں ہوسکتے۔ صاحب کردار مومن کے لئے جنت ہے اور اس میں ان کی اعلی مہمان نوازی ہوگی۔ اللہ کے نافرمانوں کے لیے جہنم ہے وہ جب بھی اس سے نکلنے کی کوشش کریں گے انہیں یہ کہتے ہوئے اسی میں پھینک دیا جائے گا کہ آگ کے عذاب میں ہمیشہ مبتلا رہو کیونکہ تم اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والے تھے۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلاَّمُؤْمِنٌ) [ رواہ البخاری : کتاب القدر ] ” حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔ “ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْمُوجِبَتَانِ مَنْ لَقِیَ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ لاَ یُشْرِکُ بِہٖ شَیْئاً دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَمَنْ لَقِیَ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ وَہُوَ مُشْرِکٌ دَخَلَ النَّارَ )[ رواہ أحمد ] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) نبی سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا دو چیزیں واجب کرنے والی ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملا کہ اس نے اس کے ساتھ شرک نہ کیا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے شرک کیا ہوگا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ “ (قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا ابْنَ الْخَطَّابِ اذْہَبْ فَنَادِ فِی النَّاسِ إِنَّہُ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلاَّ الْمُؤْمِنُونَ قَالَ فَخَرَجْتُ فَنَادَیْتُ أَلاَ إِنَّہُ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلاَّ الْمُؤْمِنُونَ )[ رواہ مسلم : باب غِلَظِ تَحْرِیمِ الْغُلُولِ وَأَنَّہُ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلاَّ الْمُؤْمِنُونَ ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ابن خطاب جاؤ لوگوں میں اعلان کر دو کہ بیشک مومنوں کے سوا کوئی جنت میں نہیں جائے گا حضرت عمر (رض) کہتے ہیں میں نکلا اور میں نے اس بات کا اعلان کیا کہ جنت میں صرف مومن ہی جائیں گے۔ “ مسائل ١۔ کتاب اللہ کو ماننے والا اور انکار کرنے والا برابر نہیں ہوسکتے۔ ٢۔ عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ ٣۔ تابع دار اور نافرمان برابر نہیں ہوسکتے۔ تفسیر بالقرآن مومن، کافر اور مشرک کے درمیان فرق : ١۔ کتاب اللہ پر ایمان لانے والا اور نہ لانے والا برابر نہیں ہوسکتے۔ (الرعد : ١٩) ٢۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہوسکتے۔ (السجدۃ : ١٨) ٣۔ اللہ مجرموں اور مومنوں کو برابر نہیں کرے گا۔ ( المومن : ٥٨) ٤۔ ایمان دار اور عمل صالح کرنے والا اور بدکار برابر نہیں ہوسکتے۔ (المومن : ٥٨) ٥۔ جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہوسکتے۔ (الحشر : ٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ١١٣ ایک نظر میں اس سورة کے حصہ اول میں موضوع تھا اس کائنات کے آفاق اور عالم غیب کی گہرائیاں اور نفس انسانی کے عجائبات اور گہری انسانی نفسیات اور ان پر غور۔ اس دوسرے حصے میں انسانی وجدان کے محسوسات ، انسانی عقل کے اخذ کردہ نتائج اور نہایت ہی لطیف اور گہری سوچ ، خصوصاً رسالت ، منصب رسالت اور وحی الٰہی کے بارے میں حقائق ، عقیدۂ توحید اور رد شرک ، لوگوں کی نادانی اور معجزات کا مطالبہ اور وقوع قیامت میں جلدی۔ مسائل وہی ہیں جو پہلے حصے میں تھے ، البتہ سفر ایک دوسری وادی میں ہے یعنی وادی عقل وخرد میں۔ اس حصے میں سفر کا آغاز وادی کفرو ایمان میں ہوتا ہے۔ کفر کی وادی میں اندھیری رات جیسی تاریکی ہے جبکہ وادی ایمان میں روز روشن کی طرح روشنی ہے۔ ایک میں علم ہے اور دوسری میں تاریکی اور جہالت ہے۔ اس کے بعد روئے سخن کافرین کی خصوصیات و علامات اور مومنین کی صفات اور مزاج کی طرف پھرجاتا ہے اور پھر مشاہد قیامت میں سے ایک منظر سامنے آتا ہے جس میں اہل جنت کے انعامات اور اہل جہنم کے عذاب کا ذکر ہے۔ درمیان میں رزق کی کشادگی اور رزق کی تنگی کے موضوع پر بھی بات ہوتی ہے اور دونوں حالات کسی کو اللہ کی مشیت کے مطابق پیش آتے ہیں۔ ایک محفل ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جن کے دل ذکر الٰہی کے ساتھ مطمئن ہیں۔ پھر قرآن کریم کے اوصاف اور اس کی قوت کا ذکر ، قریب ہے کہ اس سے متاثر ہو کر پہاڑ چل پڑیں ، قریب ہے کہ زمین مارے خوف کے پھٹ پڑے اور قریب ہے کہ مردے بھی بات کرنے لگیں۔ پھر وہ عذاب اور مصائب جو کفار کو درپیش ہوتے ہیں یا ان کے علاقوں کے قریب ہی دوسری اقوام پر نازل ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ عبرت نہیں لیتے۔ پھر مزاحیہ انداز کلام ان کے الہوں کے بارے میں ، پھر قدرے ان اقوام کی وادی میں سیر جن کو ہلاک کیا گیا اور جن کے مقامات اور مصارع ان کے پاس ہی ہیں۔ آخر میں ان کو اس انجام سے ڈرایا جاتا ہے جو ان کے لئے بےچینی سے انتظار کر رہا ہے کیونکہ وہ رسول برحق کی تکذیب کر رہے ہیں۔ اچھا چلو اس انجام معلوم کی طرف اگر نہیں مانتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حصہ اول میں عقل وخرد کو جھنجھوڑنے کے لئے جو ضربات لگائی گئی تھیں ، گویا اس دوسرے حصے میں اس کا خاطر خواہ اثر ہوا اور اب عقل نے سوچنا شروع کردیا ہے۔ انسانی عقل کے دروازے قدرے کھل گئے ہیں اور انسان نے دعوت اسلامی کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ لہٰذا سورة کے ان دونوں حصوں میں باہم ربط ہے۔ یعنی اس سورة کے دونوں حصے انسانی عقل و کرد کی تاروں کو چھیڑ رہے ہیں تا کہ انسانی احساس اور عقل کام کریں ۔ اس حصے میں پہلا مسئلہ ، مسئلہ وحی الٰہی ہے۔ اس سورة کے آغاز میں بھی اسے چھیڑا گیا تھا۔ یہاں دوبارہ اس پر غور کیا جاتا ہے ، نہایت ہی جدید انداز میں۔ آیت نمبر ١٩ یہاں ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اس بات پر یقین کرتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے جو کچھ نازل ہوتا ہے وہ حق ہے اور ان کے مقابلے میں وہ لوگ ہیں جو یقین نہیں کرتے جو جانتے نہیں بلکہ ان کے بالمقابل جو لوگ ہیں وہ اندھے ہیں۔ قرآن کریم کا یہ نہایت ہی پیارا ، موثر اور دل میں بیٹھ جانے والا انداز ہے کہ وہ کسی شخص یا کردار یا رویے کو مجسم شکل میں پیش کرتا ہے اور یہ حجیم اور تمثیل بجائے خود حقیقت ، سچی اور بلا مبالغہ بھی ہوتی ہے مثلاً یہاں مخالفین کو اندھا کہا گیا ہے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ اس واضح اور ظاہر و باطن حقیقت کو جو شخص نہیں دیکھتا وہ اندھا ہی ہو سکتا ہے۔ اس حقیقت کے سامنے اس کے حوالے سے لوگوں کی دو اقسام ہیں ۔ ایک گروہ دیکھنے والا ہے تو وہ سمجھتا ہے۔ دوسرا اندھوں کا گروہ ہے اور وہ جاہل ہے۔ بعض اندھے پن سے مراد آنکھوں کا اندھا نہیں ہے بلکہ دل کا اندھا ہے۔ مطلب اس شخص سے ہے جس کی قوائے مدرکہ بجھ گئی ہوں ، جن کے دلوں پر تالے پڑگئے ہوں اور جن کی روح آتش معرفت سے محروم ہوگئی ہو اور ان کے دلوں میں معرفت الٰہی کی آخری چنگاری بھی بجھ گئی ہو۔ انما یتذکر اولوا الالباب (١٣ : ١٩) “ نصیحت تو دانشمند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں ”۔ وہ لوگ جن کے دل و دماغ میں قوت ادراک ہو اور جن کو سچائی کی یاد دہانی کرائی جائے تو وہ اس یاد دہانی اور نصیحت کو قبول کریں اور اگر ان کے سامنے حق کے دلائل پیش کئے جائیں تو وہ ان پر غوروفکر کرتے ہوں۔ اولوا لالباب کی اعلیٰ اور اہم صفات یہ ہیں :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل ایمان کے اوصاف ‘ اور ان کے انعامات اور نقض عہد کرنے والوں کی بد حالی کا تذکرہ : یہ متعدد آیات ہیں پہلی آیت میں فرمایا کہ جس شخص کو اس بات کا علم ہے کہ جو کچھ آپ پر آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا وہ حق ہے کیا اس بات کا جاننے والا اندھے آدمی کے برابر ہوسکتا ہے جو علم کے اعتبار سے اندھا ہے اور آپ پر جو نازل کیا گیا ہے اسے نہیں جانتا (نہ جاننے میں یہ بھی داخل ہے کہ جانتے ہوئے مانتے نہیں) جاننے والا بینا ہے اور نہ جاننے والا نابینا ہے ‘ کیا بینا نابینا برابر ہوسکتے ہیں ؟ ہرگز برابر نہیں ہوسکتے ! پھر فرمایا (اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِِ ) (بس عقل والے ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں) قرآن مجید تو سبھی کے سامنے ہے جو بہت بڑا معجزہ ہے اور اس کی دعوت بھی عام ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے جن کے پاس قرآن کے مضامین پہنچتے ہیں ان میں سے جنہوں نے اپنی عقل کو بےکار نہیں کردیا اور اپنی فکر اور فہم کو قرآن کی دعوت حق کے سمجھنے سے معطل نہیں کردیا وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں ‘ اگر کسی کے پاس عقل ہے لیکن وہ عقل خیر کی طرف نہیں آنے دیتی امور دنیا میں سیاسیات میں ریاضیات میں فلکیات میں کام کرتی ہے لیکن جس ذات پاک نے ان کو عقل اور فہم دی ہے اس کو وحدہ لا شریک ماننے پر تیار نہیں اور اس کے بھیجے ہوئے دین کو قبول کرنے سے پرہیز کرتے ہیں ان کی عقلیں چونکہ ان کے حق میں مضر ہیں اس لیے یہ لوگ بےعقل ہونے کے درجہ میں ہیں پھر اولوا الْاَلْبَابِ (عقل والوں) کی چندصفات بیان فرمائیں جن سے وہ ایمان قبول کرنے کے بعد متصف ہوئے پہلی اور دوسری صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (اَلَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَھْدِ اللّٰہِ وَلَا یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَ ) کہ یہ لوگ اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور عہد کو توڑتے نہیں ہیں ‘ اللہ سے جو عہد کئے ان میں سے ایک عہد تو وہی ہے جس کا سورة اعراف میں ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی ساری ذریت کو ان کی پشت سے نکالا جو چھوٹی چیونٹیوں کی طرح تھے پھر ان سے عہد لیا اور سوال فرمایا (اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ) (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں) سب نے جواب میں عرض کیا بلٰی ہاں آپ ہمارے رب ہیں یہ وعدہ وادی نعمان میں عرفات کے قریب لیا گیا تھا (کما فی المشکوٰۃ ص ١٢٤ از مسند احمد) اس وقت سب نے یہ عہد کرلیا تھا پھر عہد کی یاد دہانی کے لیے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) تشریف لاتے رہے ‘ ہر شخص کا اپنا عہد الگ الگ بھی ہے جس نے دین اسلام کو اپنا دین بنا لیا اس نے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرلیا کہ میں آپ کے حکموں پر چلوں گا اور آپ کی فرماں برداری کروں گا یہ عہد تمام احوال اور اعمال سے متعلق ہے اللہ کی شریعت کے مطابق سب پر لازم ہے سورة نحل میں فرمایا (وَاَوْفُوْا بِعَھْدِ اللّٰہِ اِذَا عَاھَدْتُمْ ) (اللہ کے عہد کو پورا کرو جبکہ تم نے عہد کرلیا) پھر اولو الالباب کی تیسری صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَالَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَا اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ اَنْ یُّوْصَلَ ) (اور وہ لوگ اس چیز کو جوڑتے ہیں جس کو جوڑ رکھنے کا اللہ نے حکم دیا) صلہ رحمی کرنا اور اہل ایمان سے دوستی رکھنا اور ایمان باللہ کا جو تقاضا ہے اس کے مطابق مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنا اس میں یہ سب داخل ہے۔ (صلح رحمی کی فضیلت اور قطع رحمی کی مذمت جاننے کے لیے سورة نساء کے پہلے رکوع کی تفسیر کا مطالعہ کیجئے) ۔ (انوار البیان جلد اول) اولو الالباب کی چوتھی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا (وَیَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ ) (کہ وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں) اور پانچویں صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا (وَیَخَافُوْنَ سُوْءَ الْحِسَابِ ) (کہ یہ لوگ برے حساب سے ڈرتے ہیں) اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور اس بات کا خوف لگا رہنا کہ قیامت کے دن حساب ہوگا اس سے ایمان میں جلا پیدا ہوتی ہے اور ایمانی تقاضوں کے مطابق عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے حساب دو قسم کا ہے حساب یسیر (آسان حساب) اور حساب عسیر (سخت حساب) سخت حساب کو سوء الحساب سے تعبیر فرمایا اور سورة انبیاء میں فرمایا (وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْءًا وَّاِنْ کَان مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِھَا) (اور قیامت کے روز ہم میزان عدل قائم کریں گے سو کسی پر اصلاً ظلم نہ ہوگا اور اگر عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا تو ہم اس کو حاضر کردیں گے) حضرت عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حساب یسیر (آسان حساب) کیا ہے آپ نے فرمایا کہ آسان حساب یہ ہے کہ اعمالنامہ میں دیکھ کر در گزر کردیا جائے ‘ اے عائشہ جس سے مناقشہ کیا گیا یعنی چھان بین کی گئی (کہ یہ عمل کیوں کیا مثلاً ) تو وہ ہلاک ہوجائے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٤٧۔ مسند احمد) (اُولُوا الْاَلْبَابِ ) کی چھٹی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا (وَالَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْہِ رَبِّھِمْ ) (اور وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے صبر کیا) پہلے بتایا جا چکا ہے کہ صبر کا اطلاق تین چیزوں پر ہوتا ہے مصیبتوں پر صبر کرنا (یہی معنی زیادہ معروف ہے) نیکیوں اور فرماں برداریوں پر جما رہنا اور ثابت قدم رہنا تیسرے اپنے نفس کو گناہوں سے بچائے رکھنا تینوں قسم کے صبر کا بڑا اجر وثواب ہے اس دنیا کا یہ مزاج ہے کہ تکلیفوں کے بغیر اس میں گزارہ ہو ہی نہیں سکتا مومن اور کافر سب کو تکلیف پہنچتی ہے اور سب کو صبر کرنا پڑتا ہے لیکن مومن چونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کرنے کے لیے صبر کرتا ہے اس لیے اسے اس پر ثواب ملتا ہے ‘ سورة زمر میں فرمایا (اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ ) (صبر کرنے والوں کو ان کا صلہ بیشمار ہی ملے گا) ۔ وقت گزرنے پر تکلیف ہلکی ہوجاتی ہے اور صبر آ ہی جاتا ہے یہ ایک طبعی چیز ہے اس صبر پر کوئی ثواب نہیں ملتا صبر وہی معتبر ہے جو عین دکھ تکلیف اور مصیبت کے وقت ہو اور اللہ کی رضا کے لیے ہو ‘ اور یہ خاص مومن ہی کی شان ہے صبر کی فضیلت اور اہمیت جاننے کے لیے آیت کریمہ (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ) کی تفسیر (انوار البیان ج ١) ملاحظہ فرمائیے ‘ جس نے مصیبت اٹھائی اور صبر نہیں کیا یا صبر کیا مگر اللہ کے لیے نہ کیا وہ بڑے خسارہ میں ہے انما المصاب من حرم الثواب (واقعی مصیبت زدہ وہ ہے جسے تکلیف بھی پہنچی اور ثواب بھی نہ ملا) ۔ (اُولُوا الْاَلْبَابِ ) کی ساتویں صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ (وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ) (ان لوگوں نے نماز کو اس کے حقوق اور شرائط وآداب کے ساتھ قائم کیا) اور آٹھویں صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً ) (ان لوگوں نے ہمارے دئیے ہوئے مالوں میں سے پوشیدہ طور پر اور ظاہری طور پر خرچ کیا) اس میں فرض زکوٰۃ صدقات واجبہ ‘ تبرعات وتطوعات ‘ سب داخل ہوگئے (سِرًّا وَّعَلاَنِیَۃً ) فرما کر یہ بتادیا کہ کبھی پوشیدہ طور پر خرچ کرنے کی فضیلت ہوتی ہے اور کبھی ظاہری طور پر خرچ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ‘ حسب موقع اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کیا جائے جب اللہ کی رضا مقصود ہوگی تو لوگوں کے سامنے خرچ کرنے میں بھی کچھ حرج نہ ہوگا کیونکہ ریا کاری اور اللہ کی رضا جوئی دونوں جمع نہیں ہوسکتے ‘ جب اللہ کی رضا مقصود ہوگی تو لوگوں کے سامنے عمل کرنا کچھ مضر نہیں ہوگا۔ (اُولُوا الْاَلْبَابِ ) کی نویں صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَیَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَۃِ السَّیِّءَۃَ ) (کہ یہ لوگ حسن سلوک کے ذریعہ بد سلوکی کو دفع کرتے ہیں) دنیا میں جب انسان آیا ہے تو اس کا اچھوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے اور برے لوگوں سے بھی ‘ جن لوگوں کو اخلاق حسنہ نہیں سکھائے گئے اور جن کے مزاج میں کمینہ پن اور گناہ گاری اور ایذاء رسانی ہوتی ہے ان سے اہل خیر کو اور حسن اخلاق والوں کو تکلیفیں پہنچتی رہتی ہیں ‘ جس کسی نے کوئی تکلیف پہنچائی اس کا بدلہ لینا بس اسی قدر جائز ہے جتنی تکلیف پہنچائی ہے لیکن بدلہ نہ لینا ‘ معاف کرنا ‘ درگزر کرنا اور اس سے آگے بڑھ کر برائی سے پیش آنے والے کے ساتھ اچھائی سے پیش آنا اور اس کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرنا یہ بہت بڑی فضیلت اور ہمت کی بات ہے۔ سورة شوریٰ میں فرمایا (وَجَزَاءُ سَیِّءَۃٍ سَیِّءَۃٌ مِّثْلُھَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ ) (اور برائی کا بدلہ برائی ہے ویسی ہی پھر جو شخص معاف کر دے اور اصلاح کرے تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے واقعی اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا) نیز فرمایا (وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَاِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ) (اور جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے یہ البتہ بڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے) ۔ سورة حم سجدہ میں فرمایا (وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّءَۃُ اِدْفَعْ بالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ) (اور نیکی اور برائی برابر نہیں ہوتی آپ نیک برتاؤ سے ٹال دیا کیجئے پھر یکایک آپ میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہوجائے گا جیسا کوئی دلی دوست ہوتا ہے) ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی پر عمل فرماتے تھے در گزر فرماتے تھے ‘ معاف فرماتے تھے ‘ بدسلوکیوں کا بدلہ خوش اخلاقی سے دیتے تھے جب مکہ معظمہ فتح فرما لیا تو وہاں کے رہنے والوں سے (جنہوں نے آپ کو بڑی بڑی تکلیف دے کر مکہ معظمہ چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا) درگزر فرمایا اور فرمایا (لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ) آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ یا اللہ آپ کے بندوں میں آپ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو قدرت ہوتے ہوئے معاف کر دے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٣٤ از بیہقی فی شعب الایمان) (اُولُوا الْاَلْبَابِ ) کی صفات بیان کرنے کے بعد ان کو خوشخبری دی اور ان کے لیے آخرت کی نعمتوں کا وعدہ فرمایا اول تو یوں فرمایا (اُولٰءِکَ لَھُمْ عُقْبَی الدَّارِ ) ان لوگوں کے لیے آخرت میں اچھا انجام ہے (جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا) ان کے اعمال کا یہ نتیجہ اور انجام کی خوبی اس طرح ظاہر ہوگی کہ یہ لوگ باغیچوں میں رہیں گے جن میں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ نہ صرف یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے بلکہ ان کے باپ دادوں میں اور ان کی بیویوں میں اور ان کی اولاد میں جو بھی جنت میں داخل ہوجائیں گے اپنے بڑوں اور چھوٹوں اور بیویوں کو جنت میں دیکھ کر خوشی دوبالا ہوگی اور فرحت پر فرحت حاصل ہوگی۔ بعض مفسرین نے آیت کا یہ مطلب بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰکے فضل سے نیک بندوں کو جنت میں جو مقام اور مرتبہ ملے گا اللہ تعالیٰ وہی درجہ ان کی رعایت فرماتے ہوئے ان کے متعلقین کو بھی عطاء فرما دے گا جس کا آیت میں ذکر ہے ‘ بعض حضرات نے اباءھم کے عموم میں ماؤں کو بھی داخل کیا ہے جیسا کہ صاحب روح المعانی نے لکھا ہے پھر فرمایا (وَالْمَلٰءِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ ) (فرشتے ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے) (سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ ) اور یوں کہیں گے کہ دنیا میں جو تم نے صبر کیا اس کے عوض تم دکھ تکلیف اور مصیبت سے محفوظ رہو گے ہمیشہ تمہارے لیے سلامتی ہے (فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ ) سو اس جہان میں اچھا انجام ہے ‘ دنیا والے گھر میں ایمان اور اعمال صالحہ کو اختیار کیا تو اس کے عوض اس جہاں میں بہترین عیش اور آرام نصیب ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ یہ بشارت اور تخوف مذکورہ پر لف و نشر مرتب متفرع ہے۔ یعنی جو شخص یقین رکھتا ہو کہ اللہ کی طرف سے جو کچھ نازل ہوا ہے وہ سراپا حق ہے۔ یہ بشارت پر متفرع ہے کیا وہ اس شخص کی مانند ہوسکتا ہے جو دل کا اندھا اور مشرک ہو۔ یہ تخویف پر متفرع ہے۔ استفہام انکاری ہے۔ یعنی یہ دونوں شخص ہرگز برابر نہیں ہوسکتے۔ عقلمند اور بصیرت والے لوگ خوب سمجھتے ہیں کہ وہ برابر نہیں ہوسکتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

19 ۔ وہ شخص جو یہ یقین رکھتا ہو کہ جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے وہ برحق ہے بھلا کیا یہ شخص اس کی مثل ہوسکتا ہے جو اندھا ہے ان باتوں سے تو بس وہی لوگ نصیحت قبول کرتے ہیں جو صاحبان عقل و خرد ہیں ۔ یعنی قرآن کریم کے برحق ہونے کا یقین کرنے والا اور اندھا برابر نہیں اعمی فرمایا منکر حق کو ۔