Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 27

سورة الرعد

وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ قُلۡ اِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ اَنَابَ﴿۲۷﴾ۖ ۚ

And those who disbelieved say, "Why has a sign not been sent down to him from his Lord?" Say, [O Muhammad], "Indeed, Allah leaves astray whom He wills and guides to Himself whoever turns back [to Him] -

کافر کہتے ہیں کہ اس پر کوئی نشانی ( معجزہ ) کیوں نازل نہیں کیا گیا؟ جواب دیجئے کہ جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے کر دیتا ہے اور جو اس کی طرف جھکے اسے راستہ دکھا دیتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Disbelievers ask for Miracles, Allah's Response to Them Allah tells: وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ... And those who disbelieved say: Allah says that the idolators said, ... لَوْلاَ ... Why is not, meaning, there should be, ... أُنزِلَ عَلَيْهِ ايَةٌ مِّن رَّبِّهِ ... a sign sent down to him from his Lord, The idolators also said, فَلْيَأْتِنَا بِـَايَةٍ كَمَأ أُرْسِلَ الاٌّوَّلُونَ Let him then bring us an Ayah like the ones (Prophets) that were sent before (with signs)! (21:5) We mentioned this subject several times before and stated that Allah is able to bring them what they wanted. There is a Hadith which mentions that the idolators asked the Prophet to turn Mount As-Safa into gold and, they also asked him for a spring to gush forth for them and to remove the mountains from around Makkah and replace them with green fields and gardens. Allah revealed to His Messenger: "If You wish, O Muhammad, I will give them what they asked for. However, if they disbelieve thereafter, I will punish them with a punishment that I did not punish any among the `Alamin (mankind and the Jinns). Or, if you wish, I will open for them the door to repentance and mercy." The Prophet said, بَلْ تَفْتَحُ لَهُمْ بَابَ التَّوبَةِ وَالرَّحْمَة Rather, open for them the door to repentance and mercy. This is why Allah said to His Messenger next, ... قُلْ إِنَّ اللّهَ يُضِلُّ مَن يَشَاء وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ Say: "Verily, Allah sends astray whom He wills and guides unto Himself those who turn to Him in repentance." Allah states that He brings misguidance or guidance whether the Messenger was given a sign (a miracle) according to their asking or not. Verily, earning the misguidance or the guidance are not connected to the miracles or the lack of them. Allah said in other Ayat, وَمَا تُغْنِى الايَـتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لاَّ يُوْمِنُونَ But neither Ayat nor warners benefit those who believe not. (10:101) إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُوْمِنُونَ وَلَوْ جَأءَتْهُمْ كُلُّ ءايَةٍ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الاٌّلِيمَ Truly, those, against whom the Word of your Lord has been justified, will not believe. Even if every sign should come to them, until they see the painful torment. (10:96-97) and, وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَأ إِلَيْهِمُ الْمَلَـيِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَى وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَىْءٍ قُبُلً مَّا كَانُواْ لِيُوْمِنُواْ إِلاَّ أَن يَشَأءَ اللَّهُ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ And even if We had sent down unto them angels, and the dead had spoken unto them, and We had gathered together all things before their very eyes, they would not have believed, unless Allah willed, but most of them behave ignorantly. (6:111) Allah said here, ... قُلْ إِنَّ اللّهَ يُضِلُّ مَن يَشَاء وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ Say: "Verily, Allah sends astray whom He wills and guides unto Himself those who turn to Him in repentance." meaning, He guides to Him those who repent, turn to Him, beg Him, seek His help and humbly submit to Him. The Believer's Heart finds Comfort in the Remembrance of Allah Allah said,

مشرکین کے اعتراض مشرکین کا ایک اعتراض بیان ہو رہا ہے کہ اگلے نبیوں کی طرح یہ ہمیں ہمارا کہا ہوا کوئی معجزہ کیوں نہیں دکھاتا ؟ اس کی پوری بحث کئی بار گزر چکی کہ اللہ کو قدرت تو ہے لیکن اگر پھر بھی یہ ٹس سے مس نہ ہوئے تو انہیں نیست و نابود کر دیا جائے گا ۔ حدیث میں ہے کہ اللہ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی کہ ان کی چاہت کے مطابق میں صفا پہاڑ کو سونے کا کر دیتا ہوں ، زمین عرب میں میٹھے دریاؤں کی ریل پیل کر دیتا ہوں ، پہاڑی زمین کو زراعتی زمین سے بدل دیتا ہوں لیکن پھر بھی اگر یہ ایمان نہ لائے تو انہیں وہ سزا دوں گا جو کسی کو نہ ہوتی ہو ۔ اگر چاہوں تو یہ کر دوں اور اگر چاہوں تو ان کے لئے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھلا رہنے دوں تو آپ نے دوسری صورت پسند فرمائی ۔ سچ ہے ہدایت ضلالت اللہ کے ہاتھ ہے وہ کسی معجزے کے دیکھنے پر موقوف نہیں بے ایمانوں کے لئے نشانات اور ڈراوے سب بےسود ہیں جن پر کلمہ عذاب صادق ہو چکا ہے وہ تمام تر نشانات دیکھ کر بھی مان کر نہ دیں گے ہاں عذابوں کو دیکھ تو پورے ایماندار بن جائیں گے لیکن وہ محض بیکار چیز ہے فرماتا ہے ولو اننا الخ ، یعنی اگر ہم ان پر فرشتے اتارتے اور ان سے مردے باتیں کرتے اور ہر چھپی چیز ان کے سامنے ظاہر کر دیتے تب بھی انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا ۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو اور بات ہے لیکن ان میں اکثر جاہل ہیں ۔ جو اللہ کی طرف جھکے اس سے مدد چاہے اس کی طرف عاجزی کرے وہ راہ یافتہ ہو جاتا ہے ۔ جن کے دلوں میں ایمان جم گیا ہے جن کے دل اللہ کی طرف جھکتے ہیں ، اس کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں ، راضی خوشی ہو جاتے ہیں اور فی الواقع ذکر اللہ اطمینان دل کی چیز بھی ہے ۔ ایمانداروں اور نیک کاروں کے لئے خوشی ، نیک فالی اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ ان کا انجام اچھا ہے ، یہ مستحق مبارک باد ہیں یہ بھلائی کو سمیٹنے والے ہیں ان کا لوٹنا بہتر ہے ، ان کا مال نیک ہے ۔ مروی ہے کہ طوبی سے مراد ملک حبش ہے اور نام ہے جنت کا اور اس سے مراد جنت ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جنت کی جب پیدائش ہو چکی اس وقت جناب باری نے یہی فرمایا تھا ۔ کہتے ہیں کہ جنت میں ایک درخت کا نام بھی طوبی ہے کہ ساری جنت میں اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں ، ہر گھر میں اس کی شاخ موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھ سے بویا ہے ، لولو کے دانے سے پیدا کیا ہے اور بحکم الہٰی یہ بڑھا اور پھیلا ہے ۔ اس کی جڑوں سے جنتی شہد ، شراب ، پانی اور دودھ کی نہریں جاری ہوتی ہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے طوبی نامی جنت کا ایک درخت ہے سوا سال کے راستے کا ۔ اسی کے خوشوں سے جنتیوں کے لباس نکلتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس نے آپ کو دیکھ لیا اور آپ پر ایمان لایا اسے مبارک ہو ؟ آپ نے فرمایا ہاں اسے بھی مبارک ہو ۔ اور اسے دوگنا مبارک ہو جس نے مجھے نہ دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا ۔ ایک شخص نے پوچھا طوبیٰ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا جنتی درخت ہے جو سو سال کی راہ تک پھیلا ہوا ہے جنتیوں کے لباس اس کی شاخوں سے نکلتے ہیں ۔ بخاری مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنت میں ایک درخت ہے کہ سوار ایک سو سال تک اس کے سائے میں چلتا رہے گا لیکن وہ ختم نہ ہو گا اور روایت میں ہے کہ چال بھی تیز اور سواری بھی تیز چلنے والی ۔ صحیح بخاری شریف میں آیت ( وظل ممدود ) کی تفسیر میں بھی یہی ہے ۔ اور حدیث میں ہے ستر یا سو سال اس کا نام شجرۃ الخلد ہے ۔ سدرۃ المنتہی کے ذکر میں آپ نے فرمایا ہے اس کی شاخ کے سائے تلے ایک سو سال تک سوار چلتا رہے گا اور سو سو سوار اس کی ایک ایک شاخ تلے ٹھیر سکتے ہیں ۔ اس میں سونے کی ٹڈیاں ہیں ، اس کے پھل بڑے بڑے مٹکوں کے برابر ہیں ( ترمذی ) آپ فرماتے ہیں ہر جنتی کو طوبیٰ کے پاس لے جائیں گے اور اسے اختیار دیا جائے گا کہ جس شاخ کو چاہے پسند کرے ۔ سفید ، سرخ ، زرد سیاہ جو نہایت خوبصورت نرم اور اچھی ہوں گی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں طوبٰی کو حکم ہو گا کہ میرے بندوں کے لئے بہترین لباس وغیرہ ۔ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اس جگہ ایک عجیب وغریب اثر وارد کیا ہے ۔ رہب رحمۃ اللہ عیہ کہتے ہیں کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کا نام طوبیٰ ہے جس کے سائے تلے سوار سو سال تک چلتا رہے گا لیکن راستہ ختم نہ ہوگا ۔ اس کی تروتازگی کھلے ہوئے چمن کی طرح ہے اس کے پتے بہترین اور عمدہ ہیں اس کے خوشے عنبریں ہیں اس کے کنکر یاقوت ہیں اس کی مٹی کافور ہے اس کا گارا مشک ہے اس کی جڑ سے شراب ، دودھ ، اور شہد کی نہریں بہتی ہیں ۔ اس کے نیچے جنتیوں کی مجلسیں ہوں گی ، یہ بیٹھے ہوئے ہوں گے جو ان کے پاس فرشتے اونٹنیاں لے کر آیئں گے ۔ جن کی زنجریں سونے کی ہوں گی ، جن پر یاقوت کے پالان ہوں گے جن پر سونا جڑاؤ ہو رہا ہوگا جن پر ریشمی جھولیں ہوں گی ۔ وہ انٹنیاں ان کے سامنے پیش کریں گے اور کہیں گے کہ یہ سواریاں تمہیں بھجوائی گئی ہیں اور دربار الہٰی میں تمہارا بلاوا ہے ، یہ ان پر سوار ہوں گے ، وہ پرندوں کی پرواز سے بھی تیز رفتار ہوں گی ۔ جنتی ایک دوسرے سے مل کر چلیں گے وہ خود بخود ہٹ جائیں گے کہ کسی کو اپنے ساتھی سے الگ نہ ہونا پڑے یونہی رحمن و رحیم رب کے پاس پہنچیں گے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے چہرے سے پردے ہٹا دے گا یہ اپنے رب کے چہرہ کو دیکھیں گے اور کہیں گے دعا ( اللہم انت السلام والیک السلام وحق لک الجلال والاکرام ) ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ رب العزت فرمائے گا دعا ( انا السلام ومنی السلام ) تم پر میری رحمت ثابت ہو چکی اور محبت بھی ۔ میرے ان بندوں کو مرحبا ہو جو بن دیکھے مجھ سے ڈرتے رہے میری فرماں برداری کرتے رہے جنتی کہیں گے باری تعالیٰ نہ تو ہم سے تیری عبادت کا حق ادا ہوا نہ تیری پوری قدر ہوئی ہمیں اجازت دے کہ تیرے سامنے سجدہ کریں اللہ فرمائے گا یہ محنت کی جگہ نہیں نہ عبادت کی یہ تو نعمتوں راحتوں اور مالا مال ہونے کی جگہ ہے ۔ عبادتوں کی تکلیف جاتی رہی مزے لوٹنے کے دن آ گئے جو چاہو مانگو ، پاؤ گے ۔ تم میں سے جو شخص جو مانگے میں اسے دوں گا ۔ پس یہ مانگیں گے کم سے کم سوال والا کہے گا کہ اللہ تو نے دنیا میں جو پیدا کیا تھا جس میں تیرے بندے ہائے وائے کر رہے تھے ۔ میں چاہتا ہوں کہ شروع دنیا سے ختم دنیا تک دنیا میں جتنا کچھ تھا مجھے عطا فرما ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے تو کچھ نہ مانگا اپنے مرتبے سے بہت کم چیز مانگی ، اچھا ہم نے دی ۔ میری بخشش اور دین میں کیا کمی ہے ؟ پھر فرمائے گا جن چیزوں تک میرے ان بندوں کے خیالات کی رسائی بھی نہیں وہ انہیں دو چنانچہ دی جائیں گی یہاں تک کہ ان کی خواہشیں پوری ہو جائیں گی ان چیزوں میں جو انہیں یہاں ملیں گی تیز رو گھوڑے ہوں گے ہر چار پر یاقوتی تخت ہو گا ہر تخت پر سونے کا ایک ڈیرا ہو گا ہر ڈیرے میں جنتی فرش ہو گا جن پر بڑی بڑی آنکھوں والی دو دو حوریں ہوں گی جو دو دو حلے پہنے ہوئے ہوں گی جن میں جنت کے تمام رنگ ہوں گے اور تمام خشبوئیں ۔ ان خیموں کے باہر سے ان کے چہرے ایسے چمکتے ہوں گے گو یا وہ باہر بیٹھی ہیں ان کی پنڈلی کے اندر کا گودا باہر سے نظر آ رہا ہو گا جیسے سرخ یاقوت میں ڈورا پرویا ہوا ہو اور وہ اوپر سے نظر آ رہا ہو ۔ ہر ایک دوسری پر اپنی فضیلت ایسی جانتی ہو گی جیسی فضیلت سورج کی پتھر پر اس طرح جنتی کی نگاہ میں بھی دونوں ایسی ہی ہوں گی ۔ یہ ان کے پاس جائے گا اور ان سے بوس وکنار میں مشغول ہو جائے گا ۔ وہ دونوں اسے دیکھ کر کہیں گی واللہ ہمارے تو خیال میں بھی نہ تھا کہ اللہ تم جیسا خاوند ہمیں دے گا ۔ اب بحکم الہٰی اسی طرح صف بندی کے ساتھ سواریوں پر یہ واپس ہوں گے اور اپنی منزلوں میں پہنچیں گے ۔ دیکھو تو سہی کہ رب وہاب نے انہیں کیا کیا نعمتیں عطا فرما رکھی ہیں ؟ وہاں بلند درجہ لوگوں میں اونچے اونچے بالا خانوں میں جو نرے موتی کے بنے ہوئے ہوں گے جن کے دروازے سونے کے ہوں گے ، جن کے منبر نور کے ہوں گے جن کی چمک سورج سے بالا تر ہو گی ۔ اعلیٰ علیین میں ان کے محل ہوں گے ۔ یاقوت کے بنے ہوئے ۔ نورانی ۔ جن کے نور سے آنکھوں کی روشنی جاتی رہے لیکن اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں ایسی نہ کر دے گا ۔ جو محلات یاقوت سرخ کے ہوں گے ان میں سبز ریشمی فرش ہوں گے اور جو زمرد و یاقوت کے ہوں گے ان کے فرش سرخ مخمل کے ہوں گے ۔ جو زمرد اور سونے کے جڑاؤ کے ہوں گے ان تختوں کے پائے جواہر کے ہوں گے ، ان پر چھتیں لولو کی ہوں گی ، ان کے برج مرجان کے ہوں گے ۔ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی رحمانی تحفے وہاں پہنچ چکے ہوں گے ۔ سفید یاقوتی گھوڑے غلمان لئے کھڑے ہوں گے جن کا سامان چاندی کا جڑاؤ ہو گا ۔ ان کے تخت پر اعلیٰ ریشمی نرم و دبیز فرش بچھے ہوئے ہوں گے یہ ان سواریوں پر سوار ہو کر بےتکلف جنت میں جائیں گے دیکھیں گے کہ ان کے گھروں کے پاس نورانی ممبروں پر فرشتے ان کے استقبال کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں وہ ان کا شاندار استقبال کریں گے ۔ ، مبارک باد دیں گے ، مصافحہ کریں گے ، پھر یہ اپنے گھروں میں داخل ہوں گے ۔ انعامات الہٰی وہاں موجود پائیں گے ، اپنے محلات کے پاس وہ جنتیں ہری بھری پائیں گے اور جو پھلی پھولی جن میں دو چشمے پوری روانی سے جاری ہوں گے اور ہر قسم کے جوڑ دار میوے ہوں گے اور خیموں میں پاک دامن بھولی بھالی پردہ نشین حوریں ہوں گی ۔ جب یہ یہاں پہنچ کر راحت وآرام میں ہوں گے اس وقت اللہ رب العزت فرمائے گا میرے پیارے بندو تم نے میرے وعدے سچے پائے ؟ کیا تم میرے ثوابوں سے خوش ہو گئے ؟ وہ کہیں گے اللہ ہم خوب خوش ہو گئے ؟ بہت ہی راضی رضامند ہیں دل سے راضی ہیں کلی کلی کھلی ہوئی ہے تو بھی ہم سے خوش رہ ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اگر میری رضامندی نہ ہوتی تو میں اپنے اس مہمان خانے میں تمہیں کیسے داخل ہونے دیتا ؟ اپنا دیدار کیسے کراتا ؟ میرے فرشتے تم سے مصافحہ کیوں کرتے ؟ تم خوش رہو باآرام رہو تمہیں مبارک ہو تم پھلو پھولو اور سکھ چین اٹھاؤ میرے یہ انعامات گھٹنے اور ختم ہونے والے نہیں ۔ اس وقت وہ کہیں گے اللہ ہی کی ذات سزا وار تعریف ہے جس نے ہم سے غم و رنج کو دور کر دیا اور ایسے مقام پر پہنچایا کہ جہاں ہمیں کوئی تکلیف کوئی مشقت نہیں یہ اسی کا فضل ہے وہ بڑا ہی بخشنے والا اور قدر دان ہے ۔ یہ سیاق غریب ہے اور یہ اثر عجیب ہے ہاں اس کے بعض شواہد بھی موجود ہیں ۔ چنانچہ صحیین میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے سے جو سب سے اخیر میں جنت میں جائے گا فرمائے گا مانگ جو مانگتا جائے گا اور اللہ کریم دیتا جائے گا یہاں تک کہ اس کا سوال پوار ہو جائے گا اور پائے گا ۔ اب اس کے سامنے کوئی خواہش باقی نہیں رہے گی تو اب اللہ تعالیٰ خود اسے یاد دلائے گا کہ یہ مانگ یہ مانگ یہ مانگے گا اور پائے گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ سب میں نے تجھے دیا اور اتنا ہی اور بھی دس مرتبہ عطا فرمایا ۔ صحیح مسلم شریف کی قدسی حدیث میں ہے کہ اے میرے بندو تمہارے اگلے پچھلے انسان جنات سب ایک میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے دعائیں کریں اور مانگیں میں ہر ایک کے تمام سوالات پورے کروں گا لیکن میرے ملک میں اتنی بھی کمی نہ آئے گی جتنی کسی سوئی کو سمندر میں ڈوبونے سے سمندر کے پانی میں آئے ، الخ ۔ خالد بن معدان کہتے ہیں جنت کے ایک درخت کا نام طوبیٰ ہے اس میں تھن ہیں جن سے جنتیوں کے بچے دودھ پیتے ہیں کچے گرے ہوئے بچے جنت کی نہروں میں ہیں قیامت کے قائم ہونے تک پھر چالیس سال کے بن کر اپنے ماں باپ کے ساتھ جنت میں رہیں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٦] ایک ہی نشانی سے ہدایت بھی اور گمراہی بھی :۔ منکرین حق کا یہی اعتراض اس سورة کی آیت ٧ میں بھی گزر چکا ہے وہاں جواب اور پہلو سے دیا گیا ہے اور یہاں ایک دوسرے پہلو سے دیا گیا ہے & جو یہ ہے کہ ایک ہی چیز سے مختلف ذہن رکھنے والے لوگ مختلف نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ مثلا قرآن ہو & یا قرآن کی آیات & کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی اللہ کی آیات ہوں یا حسی معجزات انہی چیزوں سے ہدایت کے طالب ہدایت حاصل کرلیتے ہیں اور ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے & مگر انہی چیزوں سے ہٹ دھرم لوگ انکار کردیتے ہیں۔ پھر یہی چیزیں ان کے انکار & عناد اور ہٹ دھرمی اور گمراہی میں اضافہ کا سبب بن جاتی ہے۔ لہذا اگر ان کا مطالبہ پورا کر بھی دیا جائے تب بھی ان کی گمراہی میں مزید اضافہ کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۔۔ : ایسی نشانی کیوں نہیں اتری جسے دیکھ کر ہم اسے اللہ کا رسول مان لینے پر مجبور ہوجاتے، مثلاً دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣) میں ان کی فرمائشیں۔ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ ۔۔ : یعنی نشانی کے اترنے سے کچھ نہیں ہوتا، کیونکہ تمہارے اب تک ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ تم نے کوئی نشانی نہیں دیکھی، نشانیاں تو بیحد و حساب موجود ہیں، مگر پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کمال حکمت والا ہے اور اپنی رحمت کا خود مالک ہے، جسے چاہے اپنی حکمت کی بنا پر اپنی رحمت و ہدایت سے محروم، یعنی گمراہ رکھے اور جسے چاہے اپنی رحمت و ہدایت سے نواز دے۔ دوسری بات یہ کہ تم اللہ کے راستے کی طرف آتے ہی نہیں، اگر تمہاری سیدھے راستے کی طرف آنے کی خواہش اور جستجو ہوتی تو تم صرف قرآن کی نشانی کو دیکھ کر راہ حق کو پالیتے، کیونکہ یہ کتاب واضح دلائل سے لبریز ہے۔ اب اگر تم اپنی خواہشات اور شیطان ہی کے پیچھے چلتے جاؤ اور اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف لوٹ کر آنے کی رغبت ہی نہ رکھو تو تمہیں اللہ کے راستے پر چلنا کیسے نصیب ہو، وہ تو اپنی طرف آنے کے راستے پر چلنے کی توفیق انھی کو دیتا ہے جو اس کی طرف رجوع رکھیں اور لوٹ کر آنا چاہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ اَنَابَ 27؀ ڻ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] ، وقوله : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمانِهِمْ [يونس/ 9] ، وقوله : وَالَّذِينَ جاهَدُوا فِينا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا [ العنکبوت/ 69] ، وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدىً [ مریم/ 76] ، فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 213] ، وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشاءُ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ البقرة/ 213] . الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] إلى قوله : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدانا لِهذا «1» . وهذه الهدایات الأربع مترتّبة، فإنّ من لم تحصل له الأولی لا تحصل له الثّانية بل لا يصحّ تكليفه، ومن لم تحصل له الثّانية لا تحصل له الثّالثة والرّابعة، ومن حصل له الرّابع فقد حصل له الثلاث التي قبلها، ومن حصل له الثالث فقد حصل له اللّذان قبله «2» . ثمّ ينعكس، فقد تحصل الأولی ولا يحصل له الثاني ولا يحصل الثالث، والإنسان لا يقدر أن يهدي أحدا إلّا بالدّعاء وتعریف الطّرق دون سائر أنواع الهدایات، وإلى الأوّل أشار بقوله : وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الشوری/ 52] ، يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ السجدة/ 24] ، وَلِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ [ الرعد/ 7] أي : داع، وإلى سائر الهدایات أشار بقوله تعالی: إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ [ القصص/ 56] وكلّ هداية ذکر اللہ عزّ وجلّ أنه منع الظالمین والکافرین فهي الهداية الثالثة، وهي التّوفیق الذي يختصّ به المهتدون، والرّابعة التي هي الثّواب في الآخرة، وإدخال الجنّة . نحو قوله عزّ وجلّ : كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْماً إلى قوله : وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ «3» [ آل عمران/ 86] وکقوله : ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَياةَ الدُّنْيا عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرِينَ [ النحل/ 107] ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں اور اسی سے ھدیتہ ( فعلیتہ ) ہے جس کے معنی اس تحفہ کے ہیں جو بغیر معاوضہ دیا جائے ۔ اور ھوادی الوحش جنگلی جانوروں کے پیش رو دستے کو کہتے ہیں جو گلے کا رہنما ہوتا ہے ،۔ عرف میں دلالت اور رہنمائی کے لئے ھدیت ( افعال ) استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے اھدیت الھدیتہ میں نے ہدیہ بھیجا اور اھدیت الی البیت میں بیت اللہ کی طرف ہدیہ بھیجی ۔ یہاں پر شبہ ہوسکتا ہے ۔ کہ اگر ھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ رہنمائی کرنے کے ہیں تو پھر کفار کو دوزخ کی طرف دھکیلنے کے لئے یہ لفظ کیوں استعمال ہوا ہے جیسا کہ ارشاد ہے : ۔ فَاهْدُوهُمْ إِلى صِراطِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 23] پھر ان کو جہنم کے راستے پر چلا دو ۔ وَيَهْدِيهِ إِلى عَذابِ السَّعِيرِ [ الحج/ 4] اور دوزخ کے عذاب کا رستہ دکھائے گا ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک ہدایت کے اصل بمعنی تو لطف وکرم کے ساتھ رہنمائی کے ہی ہیں لیکن یہاں کفار کے متعلق مبالغہ کے لئے بطور تیکم یہ لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِيمٍ [ آل عمران/ 21] تو ( اے پیغمبر ) انہیں عذاب الیم کی خوشخبری سنادو ۔ میں عذاب کے متعلق لفظ بشارت استعمال کیا ہے اور شاعر نے اپنے کلام ( 452 ) تحیتہ بینھم ضرب وجیع ان کا باہمی تحیہ تلوار کی دردناک ضرب ہے ) میں ضرب وجیع کے متعلق کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] اور جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمانِهِمْ [يونس/ 9] جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل ( بھی ) کئے ان کے ) ایمان کی برکت سے ان کو ان کا پروردگار ( نجات ) کا رستہ دکائیگا ۔ وَالَّذِينَ جاهَدُوا فِينا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا [ العنکبوت/ 69] اور جن لوگوں نے ہمارے دین ( کے کام ) میں کوشش کی ۔ ہم ( بھی ) ان کو ضرور اپنے رستے دکھائیں گے ۔ وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدىً [ مریم/ 76] اور جو لوگ راہ راست پر ہیں اللہ ان کو روز بروز زیادہ ہدایت دیتا چلا جاتا ہے ۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 213] تو خدا نے ( اپنی عنایت سے ) مسلمانوں کو راہ دکھا دی ۔ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشاءُ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ البقرة/ 213] جس کو چاہتا ہے ۔ ( دین کا ) سیدھا راستہ دکھا تا ہے ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا : ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدانا لِهذاخدا کا شکر ہے جس نے ہم کو یہاں کا رستہ دکھایا اور اگر خدا ہم کو رستہ نہ دکھاتا تو ہم رستہ نہ پاسکتے ۔ ہدایت کے یہ چاروں اقسام تر تیبتی درجات کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی جسے پہلے درجہ کی ہدایت حاصل نہ وہ ۔ وہ دوسرے درجہ ہدایت پر فائز نہیں ہوسکتا ، بلکہ وہ تو شرعا مکلف ہی نہیں رہتا ۔ علٰی اہزا لقیاس جسے دوسرے درجہ کی ہدایت حاصل نہ ہو وہ تیسرے اور چوتھے درجہ کی ہدایت سے بہرہ یاب نہیں ہوسکتا اور جسے چوتھے درجہ کی ہدایت حاصل ہو تو اسے پہلے تینوں درجات لازم حاصل ہوں گے ۔ اسی طرح تیسرے درجہ کی ہدایت کا حصول پہلے دو درجوں کی ہدایت کو مستلزم ہے اور اس کے بر عکس درجہ اولٰی کا حصول درجہ ثانیہ کو اور ثانیہ کا حصول ثالثہ کو مستلزم نہیں ہے ۔ ایہک انسان کسی دوسرے کو صرف دعوت الی الخیر اور رہنمائی کے ذریعہ ہی ہدایت کرسکتا ہے باقی اقسام ہدایت اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں لہذا جن آیات میں ہدائیت کی نسبت پیغمبر یا کتاب یا دوسرے انسانوں کی طرف کی گئی ہے وہاں صرف راہ حق کی طرف رہنمائی کرنا مراد ہے ، چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الشوری/ 52] اور بیشک ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) سیدھا رستہ دکھاتے ہیں ۔ يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ السجدة/ 24] جو ہمارے حکم سے ہدایت کیا کرتے تھے ۔ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ [ الرعد/ 7] اور ہر ایک قوم کے لئے رہنما ہوا کرتے ہیں ۔ اور جن آیات میں پیغمبروں یا دوسرے لوگوں سے ہدایت کی نفی کی گئی ہے وہاں باقی اقسام ہدایت مراد میں چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ [ القصص/ 56] ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تم جس کو دوست رکھتے ہو اسے ہدایت نہیں کرسکتے ۔ اور قرآن میں جہاں کہیں ظالموں اور کافروں کو ہدایت سے روک دینے کا ذکر آیا ہے ۔ وہاں یا تو ہدایت بمعنی ثالث ہے یعنی وہ توفیق خاص جو ہدایت یافتہ کو عطا ہوتی ہے ان سے سلب کرلی جاتی ہے اور یاہدایت معنی رابع ہے کہ اللہ انہیں آخرت میں ثواب کی طرف ہدایت نہیں دیگا اور نہ ہی انہیں جنت میں داخل کرے گا ۔ چناچہ آیت کے آخر میں دفرمایا ۔ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ «3» [ آل عمران/ 86] اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ۔ ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَياةَ الدُّنْيا عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرِينَ [ النحل/ 107] یہ اس لئے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں عزیز رکھا اور اس لئے کہ خدا کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ نوب النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( ن و ب ) النوب ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر/ 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم/ 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٧) اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے منکر یوں کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر انکی نبوت کی تصدیق کے لیے کوئی معجزہ کیوں نازل نہیں کیا گیا جیسا کہ سابقہ رسولوں پر معجزات نازل کیے گئے۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہیں اپنے دین سے بےپرواہ کردیں جو اسی چیز کا مستحق ہو اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو اسے اپنے دین کی ہدایت کردیتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ) مشرکین مکہ کی ہٹ دھرمی ملاحظہ ہو بار بار ان کی اسی بات اور اسی دلیل کا ذکر ہو رہا ہے کہ محمد رسول اللہ پر کوئی حسی معجزہ کیوں نہیں اتارا گیا ؟ (قُلْ اِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ اَنَابَ ) جو لوگ خود ہدایت کے طالب ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں وہ انہیں نعمت ہدایت سے سرفراز فرماتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

43. Please also keep in view the answer that has been given to this question in (Ayat 7). 44. This is the answer to their question. It is not due to the lack of signs that they were going astray, but it is the lack of any desire in them to seek right guidance. For Allah does not force one to follow the right way, if he deliberately turns away from it. He lets such persons wander on the wrong ways they choose to wander. Nay, even all those things that should serve as a means to guidance for a seeker of truth become the means of deviation for the one who seeks deviation. So much so that the light which helps show the way to the former, dazzles the eyes of the latter. This is how Allah leads astray a person. This answer to the demand of a sign is matchless in its eloquence. It says to them: O misguided people, it is not due to the lack of signs that you are not finding the right path, but it is due to the lack of any desire in you for it. You do not see any of the countless signs that are scattered all around you because you have no desire to go to the right way. How can then any sign be helpful to you? For you would not see any of those signs. However those, who seek the right way to Allah, see these signs and find the right way with their help.

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :43 اس سے پہلے آیت ۷ میں اس سوال کا جو جواب دیا جا چکا ہے اسے پیش نظر رکھا جائے ۔ اب دوبارہ ان کے اسی اعتراض کو نقل کر کے ایک دوسرے طریقے سے اس کا جواب دیا جا رہا ہے ۔ سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :44 یعنی جو اللہ کی طرف خود رجوع نہیں کرتا اور اس سے روگردانی اختیار کرتا ہے اسے زبردستی راہ راست دکھانے کا طریقہ اللہ کے ہاں رائج نہیں ہے ۔ وہ ایسے شخص کو انہی راستوں میں بھٹکنے کو توفیق دے دیتا ہے جن میں وہ خود بھٹکنا چاہتا ہے ۔ وہی سارے اسباب جو کسی ہدایت طلب انسان کے لیے سبب ہدایت بنتے ہیں ، ایک ضلالت طلب انسان کے لیے سبب ضلالت بنا دیے جاتےہیں ۔ شمع روشن بھی اس کے سامنے آتی ہے تو راستہ دکھانے کے بجائے اس کی آنکھیں خیرہ ہی کرنے کا کام دیتی ہے ۔ یہی مطلب ہے اللہ کے کسی شخص کو گمراہ کرنے کا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

26:: آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بہت سے معجزات دیئے گئے تھے، لیکن کفار مکہ اپنی طرف سے نت نئے معجزات کی فرمائش کرتے رہتے تھے۔ اور جب ان کا کوئی مطالبہ پورا نہ ہوتا تو وہ یہ بات کہتے تھے جو اس آیت میں مذکور ہے، اور پیچھے آیت نمبر : ۷ میں بھی گزری ہے، اس کا جواب آگے آیت نمبر ۱۳ میں آرہا ہے۔ یہاں اس کا جواب دینے کے بجائے یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ مطالبات اُن کی گمراہی کی دلیل ہیں۔ اﷲ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے، گمراہی میں پڑا رہنے دیتا ہے، اور ہدایت اسی کو نصیب ہوتی ہے، جو اﷲ تعالیٰ سے رجوع کرکے ہدایت مانگے، اور حق کی طلب رکھتا ہو۔ ایسا شخص ایمان لانے کے بعد اس کے حقوق ادا کرتا ہے، اور اﷲ تعالیٰ کی یاد میں سکون حاصل کرلیتا ہے۔ پھر اس کو اس قسم کے شکوک ا نہیں ستاتے، وہ ہرحال کو اﷲ تعالیٰ کی مشیت پر چھوڑ کر اس پر مطمئن رہتا ہے اگر اچھی حالت ہو تو اس پر شکر ادا کرتا ہے اور اگر کوئی تکلیف ہو تو اس پر صبر کرکے اﷲ تعالیٰ سے اس کے دور ہونے کی دعا کرتا ہے اور اس پر مطمئن رہتا ہے۔ اگر اچھی حالت ہو تو اس پر شکر اَدا کرتا ہے، اور اگر کوئی تکلیف ہو تو اِس پر صبر کرکے اﷲ تعالیٰ سے اِس کے دُور ہونے کی دُعا کرتا ہے، اور اِس بات پر مطمئن ہوتا ہے کہ جب تک یہ تکلیف ہے، اﷲ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت کے تحت ہے، اس لئے مجھے اس سے شکوہ نہیں ہے۔ اس طرح اسے تکلیف کے حالات میں بھی اطمینانِ قلب نصیب رہتا ہے۔ اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی بیماری دور کرنے کے لئے آپریشن کروائے تو آپریشن کی تکلیف کے باوجود اسے اطمینان رہتا ہے کہ یہ عمل عین حکمت کے مطابق ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٧۔ ٢٩۔ یہ وہی پرانا سوال ہے جو کفار مکہ حضرت سے کیا کرتے تھے کہ تم پر کوئی نشانی ایسی کیوں نہیں اتری جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا ملا تھا اور صالح (علیہ السلام) کو اونٹنی ملی تھی تم بھی صفا پہاڑ کو سونا بنا دو ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے سوال کا یہ جواب ملا کہ اے رسول تم کہہ دو خدا جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع ہوتا ہے اسے وہ ہدایت کرتا ہے اگر کل نشانیاں تمہاری فرمائش کے موافق بھی آجائیں تو بھی تم ایمان نہیں لاؤ گے ہدایت تو وہی شخص پاتا ہے جو خدا کی طرف مائل ہوتا ہے اور جس کا دل اس کی یاد سے ٹھنڈا ہوتا ہے علم الٰہی میں جو لوگ ایسے نہیں قرار پائے وہ کسی معجزہ کو دیکھ کر ایمان نہ لادیں گے۔ مفسروں نے ذکر اللہ سے قرآن مجید مراد لیا ہے کیونکہ اکثر جگہ خدا نے اپنے کلام میں ذکر کا لفظ ارشاد کیا ہے اور وہاں قرآن مجید سمجھا جاتا ہے جیسے { ھذا ذکر مبارک انزلناہ } (٢١: ٥) ۔ تو مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ ایماندار قرآن کو پڑھتے ہیں یا دوسروں کو پڑھتے ہوئے سنتے ہیں تو ان کے دل کو نہایت اطمینان ہوتا ہے کیوں کہ جن باتوں پر آدمی کو پورا یقین ہوجاتا ہے تو ان باتوں سے اس کا اطمینان ہوجاتا ہے اس لئے جن لوگوں کو قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا یقین نہیں قرآن کی باتوں سے ان کا اطمینان نہیں ہوسکتا یہاں ایک یہ شبہ ہوتا ہے کہ سورت انفال کی آیت ١ ؎ { انما المؤمنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبہم } میں ہے کہ خدا کے ذکر کے وقت مومنوں کے دل بھر آتے ہیں اور ڈر جاتے ہیں یہ اس آیت کے خلاف ہے کیوں کہ اس آیت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے وقت ایمانداروں کے دل میں اطمینان پیدا ہوجاتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ان دونوں آیتوں میں فرق معلوم کرلیا جائے سورت انفال کی آیت میں خدا کے عذاب کی یاد اور ذکر مراد ہے اور یہاں اس کی رحمت اور جنت و انعام کے وعدے مراد ہیں اس لئے اس آیت میں خوف کا ذکر کیا گیا اور اس آیت میں خوشی اور اطمینان کا بیان کیا گیا۔ پھر فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کئے ان کے لئے خوشی ہے اور اچھی جگہ ہے طوبیٰ کی تفسیر میں مفسروں کا اختلاف ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رحمت اور آنکھوں میں ٹھنڈک قتادہ کے نزدیک یہ معنے ہیں کہ آخرت میں ان کو بہتری ہوگی مگر راجح قول طوبیٰ کی تفسیر میں یہ ہے کہ طوبیٰ جنت میں ایک درخت ہے۔ معتبر سند سے مسند امام احمد تفسیر ابن ابی حاتم بیہقی وغیرہ میں عتبہ بن عبد سے ایک حدیث ہے کہ ایک اعرابی نے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آکر پوچا کہ کیا جنت میں میوے ہوں گے آپ نے فرمایا ہاں جنت میں ایک درخت ہے جس کا نام طوبیٰ ہے اس کے انگور کے خوشے بڑے بڑے ہیں ٢ ؎ صحیحین میں حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایہ میں سوار سو برس تک بھی چلا جائے تو سایہ ختم نہ ہو ٣ ؎ ابوہریرہ (رض) سے بھی ایسی ہی ایک حدیث صحیح بخاری و مسلم میں ہے۔ مکہ کے نواح میں جو میدان ہیں ان میں درخت نہیں ہیں اس واسطے اہل مکہ کو سایہ دار درختوں کی بڑی قدر ہے اس بنا پر میوہ کے ذکر کے ساتھ آپ نے طوبیٰ کے سایہ کا ذکر فرمایا صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص جنت میں جانے کے قابل کام کرے گا اور کون شخص دوزخ میں جانے کے قابل اس حدیث کو ان آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب قرار پایا کہ راہ راست پر آنا اور نہ آنا کچھ معجزوں کے دیکھنے اور نہ دیکھنے پر منحصر نہیں ہے بلکہ علم الٰہی میں جو لوگ جنت میں جانے کے قابل ٹھہر چکے ہیں نیک کاموں کی طرف وہ خود مائل ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو نیک کاموں کی توفیق بھی دیتا ہے اور جو لوگ علم الٰہی میں دوزخی ٹھہر چکے ہیں نہ ان کو کسی معجزہ سے ہدایت ہوسکتی ہے نہ قرآن کی نصیحت سے اور کسی کو مجبور کر کے راہ راست پر لانا انتظام الٰہی کے بر خلاف ہے اس لئے ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ { ان اللہ یضل من یشاء ویھدی الیہ من اناب } کا یہی مطلب ہے۔ ١ ؎ جامع ترمذی ص ٥٧ ج ٢ باب ماجاء ان فتنہ سمذہ الامتہ فیح المال والترغیب ص ٢٣٩ ج ٢ باب ایضاً ۔ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥١٢ ج ٢۔ ٣ ؎ صحیح بخاری ص ٧٢٤ ج ٢ باب قولہ و ظل محدود۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:27) اناب۔ اناب ینیب انابۃ (باب افعال) بار بار لوٹ کر آنا۔ اناب ماضی واحد مذکر غائب ۔ وہ رجوع ہوا۔ انایۃ الی اللہ کے معنی اخلاص عمل اور دل سے اللہ کی طرف رجوع ہونا۔ اور توبہ کرنا۔ النوب۔ کسی چیز کا بار بار لوٹ کر آنا۔ نوب ونوبۃ (باب نصر) مصدر۔ (13:28) الذین امنوا۔ اناب کا بدل ہے۔ یعنی جو لوگ ایمان لائے۔ وتطمئن قلوبہم بذکر اللہ۔ اور جن کے دل ذکر الٰہی سے اطمینان حاصل کرتے ہیں ان کو خداوند تعالیٰ اپنی طرف راہنمائی فرماتا ہے۔ (یھدی الیہ) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ۔ جسے دیکھ کر اسے ہم خدا کا رسول مان لینے پر مجبور ہوجاتے مثلاً یہ کہ مکہ کے پہاڑ سونے کے ہوجاتے یا کوئی فرشتہ سامنے آجاتا۔ 11 ۔ یعنی نشانی کے اترنے سے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ تمہارے اب تک ایمان نہ لانے کی یہ وجہ نہیں ہے کہ تم نے کوئی نشانی نہیں دیکھی۔ نشانیاں تو بےحد و حساب موجود ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ تم راہ حق کی جستجو نہیں رکھتے اگر تمہاری خواہش اور جستجو ہوتی تو صرف قرآن کی نشانی کو دیکھ کر راہ حق کو پالیتے کیونکہ یہ کتاب واضح دلائل سے لبریز ہے۔ (از ابن کثیر۔ روح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٤) اسرارومعارف پ ١٣ ع ١٠ ” ویقول الذین کفروا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٢٧ تا ٣١۔ کفار کا یہ کہنا کہ جو معجزہ ہم طلب کرتے ہیں وہ ان سے کیوں صادر نہیں ہوتا اور ان کا پروردگار ایسی نشانی ان پر نازل کیوں نہیں فرماتا حالانکہ آپ کی پوری حیات مبارکہ بہت بڑا معجزہ ہے ، قرآن حکیم بہت بڑا معجزہ ہے اور اس کے علاوہ اس قدر معجزات کا ظہور ہوا کہ انسانی شمار سے باہر ہیں ، ان سب کو یہ کوئی اہمیت نہیں دے رہے تو جس بات کا یہ مطالبہ کرتے ہیں اس کے پورا ہونے پر کب ایمان لائیں گے ، ان کا ایمان نہ لانا کسی معجزے کا محتاج نہیں بلکہ ان کے گناہوں کے سبب اللہ جل جلالہ نے ان پر ہدایت کا دروازہ بند کردیا ہے اور ہمیشہ کی گمراہی ان کا مقدر ہے کہ اللہ جل جلالہ ہدایت اسی کو عطا فرماتے ہیں جس کے دل میں انابت یعنی طلب پیدا ہوجائے جو ہدایت اور صداقت کو اپنانے کی آرزو تو کرے ورنہ تو زبردستی ہوگی پھر حساب کیسا ہاں انسان کائنات کو دیکھ اللہ جل جلالہ کے بندوں کو دیکھ کر ان کی دعوت سن کر از خود کم از کم یہ فیصلہ تو کرے کہ مجھے حق کو اختیار کرنا چاہئے تو اس کی تمنا پر اللہ جل جلالہ ہدایت کے اسباب مہیا فرما دیتے ہیں عقل و شعور اور قلب ونظر کی راہیں واہو جاتی ہے ۔ (قلب کا اطمینان کیا ہے) جیسے مومنین کو دیکھ لیجئے کہ پہلے اسی معاشرے کا حصہ تھے مگر ان کے دلوں کا قرار اللہ جل جلالہ کی یاد میں ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ دل اللہ جل جلالہ کی یاد ہی سے قرار پاتے ہیں مفسرین کرام کے مطابق ذکر اللہ سے مراد قرآن حکیم بھی ہے جسے کافر اور منکرین کوئی اہمیت دینے کو تیار نہ تھے بلکہ اپنے تجویز کردہ معجزات کے طالب تھے جن کا تذکرہ آگے آرہا ہے مگر دیاد رہے کہ نزول قرآن کو تو مسلسل تئیس برس لگے مگر اعلان نبوت کے ساتھ ہی اطمینان قلب اور ذکر اللہ کی دولت تقسیم ہونے لگ گئی بعثت عالی کے روز جسے ایمان نصیب ہوا جیسے حضرت خدیجۃ الکبری (رض) تو وہ شرف صحابیت سے مشرف ہوا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کا وصف قرآن حکیم میں بیان ہوا ہے کہ (آیت) ” ثم تلین جلودھم وقلوبھم الی ذکر اللہ “۔ کہ پھر کھال سے لے کر ان کے نہاں خانہ دل تک ذکر اللہ سے روشن ہوجاتے ہیں اور یہاں بھی صرف ایمان کو بنیاد قرار دے کر اس نعمت کا بیان ہے اور ایمان درحقیقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معرفت کا نام ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتبار ویقین کی دولت عطا کرے تو یہ نسبت فیضان وبرکات نبوت کے حصول کا سبب بنتی ہے اور برکات نبوت شرف صحابیت عطا کرتی ہیں اور یوں نہ صرف دل بلکہ سارا وجود ذاکر ہوجاتا ہے اور دل کو اطمینان نصیب ہوتا جو اللہ جل جلالہ کی واحد ذات پر اعتماد کا نام ہے کہ دل فرد کی ذاتی ضروریات و خواہشات کے لیے بیقرار رہتا ہے کبھی کسی سبب کے پیچھے لپکتا ہے تو کبھی کسی دروازے پہ جبہ سائی کرتا ہے ، مگر جب اسے اللہ جل جلالہ کی معرفت نصیب ہوتی ہے تو اسی ایک ذات کو اور اس کی تجلیات کو خود میں بسا لیتا ہے ، پھر کسی دوسرے دروازے کی حاجت نہیں رہتی اسی کو دل کا اطمینان کہا جاتا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے براہ راست حاصل کیا ، تابعین نے ان سے اور بعد والوں نے ان سے ان برکات کو پانا ہی صحبت شیخ کا حاصل اور اسی کا نام توجہ ہے اور اسی پر سلاسل تصوف کی بنیاد استوار ہے یاد رہے جنہیں یہ توجہ نصیب نہ ہوئی اور محض ایمان کی دولت ملی قرآن بھی پڑھا کئے عبادات ومجاہدات بھی کئے اطمینان پایا بھی مگر اس درجے کا نہ پا سکے جو حاملین صحبت کو نصیب ہوا۔ اس اطمینان کا پھل پھر ایمان ویقین کامل ہے کہ وہی اس کا تخم بھی ہے اور پھل بھی اسی سے ذکر الہی نصیب ہوتا ہے اور ذکر کرنے سے ایمان میں کمال حاصل ہوتا ہے جس کا اثر اعمال پر پڑتا ہے تو انہیں اتباع سنت کے سانچے میں ڈھال کر عمل صالح بنا دیتا ہے ارشاد ہوتا ہے مبارک ہیں ایسے لوگ اور مبارک ہے ایسے لوگوں کے لیے اور بہترین انجام اور شاندار دائمی ٹھکانہ ان کے لیے ہے ۔ کہ نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کوئی نئی بات نہیں کہ نہ ماننے والوں کو بہت عجیب لگی ہو بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے بہت سے انبیاء مختلف امتوں میں مبعوث ہوتے رہے جن کے حالات سے یہ لوگ بھی آگاہ ہیں ایسے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس امت میں مبعوث فرما دیا ۔ (وحی سننا بھی صرف نبی کا منصب ہے اور اس کا معنی بیان کرنا بھی فریضہ نبوت ہے) اللہ جل جلالہ کی طرف سے جو کلام بذریعہ وحی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوتا ہے وہ ان تک پہنچائیں بھی اور ان کو اس کا معنی ومفہوم سمجھائیں بھی کہ بغیر معنی بتائے محض کتاب پڑھنا تو وہ مقصد پورا نہیں کرتا جو نزول کتاب کا ہے ، لہذا معنی وہی معتبر ہوگا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین نے سمجھا اس پر عمل کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے عمل کی تصدیق حاصل کی اور یہ اللہ جل جلالہ کا بہت بڑا احسان تھا یوں بھی وہ بہت بڑا رحم کرنے والا ہے اور اس کے انعامات شمار وقطار سے باہر ہیں پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مبعوث فرمانا اپنا ذاتی کلام نازل کرنا اور اس کی طرف دعوت عام یہ صرف اسی کی رحمت کی وسعت کو سزا وار ہے مگر یہ بدبخت اتنے بڑے رحم کرنے والے پر ایمان لانے کو تیار نہیں ہوتے الٹا کفر کرتے ہیں تو انہیں کہہ دیجئے کہ تم یا تمہارا کفر مجھے کوئی گزند نہیں پہنچا سکتے اس لیے کہ یہی عظیم ہستی میری نگہبان ہے میرا پروردگار ہے اور میری ساری حاجات پوری کرنا اسی کا کام ہے وہ جو اکیلا عبادت کے لائق ہے اور جس کے علاوہ کوئی بھی عبادت کا مستحق نہیں میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں کہ بالاخر اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے لہذا میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔ مشرکین کا یہ مطالبہ کہ اگر قرآن حکیم اللہ کا کلام ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برحق رسول تو ذرا ان پہاڑوں کو مکہ سے پرے دھکیل دیں کہ جگہ کھلی ہوجائے یا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرح ہوا پر چل کر تھوڑے وقت میں بہت فاصلہ طے ہو کہ ہم دور دراز تجارت کرسکیں یا عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح مردوں کو زندہ کریں اور قصی بن کلاب کو اٹھائیں کہ ہم ان سے پوچھیں تو ارشاد ہوا کہ اگر قرآن حکیم سے یہ سب ہو بھی جائے پہاڑ ٹل جائیں یا فاصلے سمٹ جائیں یا مردے زندہ ہوجائیں تب کیا یہ مان لیں گے ہرگز نہیں کہ ماننے نہ ماننے کا مدار تو اللہ جل جلالہ کے حکم پر ہے کہ سب کام اسی کے حکم کے تابع ہیں اور اس نے انسان کو شعور عطا فرما کر اور دنیا کو اس کے گرد سجا دیا ہے اور ہدایت کی شرط وہ تمنا اور وہ تڑپ قرار دی ہے جو اس کی بارگاہ کے علاوہ انسان کے دست طلب کو کہیں رکنے نہ دے جب ان میں وہ طلب ہی نہیں تو یہ عجائبات انہیں نور ایمان کیسے عطا کردیں گے ، صاحب مظہری لکھتے ہیں کہ پہاڑوں کے ٹلنے سے بڑا معجزہ تو چاند کا شق ہونا تھا یا مردہ کے کلام کرنے سے بڑا معجزہ کنکریوں کا کلام کرنا تھا پھر کیوں ایمان نہ لائے کیونکہ اسباب کبھی موثر حقیقی نہیں ہوتے اختیار تو اللہ جل جلالہ کے پاس ہے ان کی اس بےجا ضد کو دیکھ کر بھی مسلمانوں کو ان سے خیر کی امید کیوں ہے کہ چاہتے ہیں یہ معجزات ظاہر ہوں تو شاید سارا مکہ مسلمان ہوجائے ہاں ! اللہ قادر ہے جو چاہے کرسکتا ہے اور اس نے زبردستی ہدایت نہ دینے کا فیصلہ فرمایا ہے لہذا ان کی اصلاح سے امیدیں نہ جوڑیں بلکہ کفر کے سبب ان پر کیا عذاب آتے ہیں وہ دیکھیں کہ کبھی ان پر کوئی وبا پڑتی ہے تو کبھی جنگ میں ہلاک اور تباہ ہوتے ہیں ، کبھی کسی قریبی بستی پہ مصیبت ٹوٹتی ہے جس سے ان پر خوف طاری ہوجاتا ہے یونہی لرزاں وترساں رہیں گے کہ اللہ جل جلالہ کا وعدہ پورا ہوگا یعنی مکہ مکرمہ فتح ہو کر اسلام کا قلعہ بن جائے گا جس کا اللہ جل جلالہ نے اپنے نبی سے وعدہ فرمایا ہے اور اللہ جل جلالہ کبھی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا نہ ایفائے عہد کے لیے وہ کسی کا محتاج ہے کہ یہ ایمان ہی لائیں تو وعدہ پورا کرسکے گا ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 27 تا 30 لولا انزل کیوں نازل نہیں کیا گیا ایۃ نشانی۔ معجزہ یضل وہ گمراہ کرتا ہے۔ بھٹکا دیتا ہے یھدی وہ ہدایت دیتا ہے۔ راہ پر لگا دیتا ہے اناب رجوع کیا۔ لوٹا تطمئن مطمئن ہوتے ہیں بذکر اللہ اللہ کی یاد سے طوبی خوش حالی ہے۔ خوش خبری ہے ماب ٹھکانا امم امتیں لتتلوا تاکہ تو پڑھے او حینا ہم نے وحی کی یکفرون وہ انکار کرتے ہیں۔ کفر کرتے ہیں متاب لوٹنے کی جگہ۔ ٹھکانا تشریح :- آیت نمبر 27 تا 30 جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لاتعداد معجزات عطا فرمائے ہیں البتہ سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جس کی موجودگی میں کسی دوسرے معجزے کا مطالبہ کرنا بڑی احمقانہ بات تھی لیکن کفار مکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کبھی آ کر یہ کہتے کہ : آپ کیسے نبی ہیں آپ کے ساتھ اللہ کے فرشتے کیوں نہیں ہیں جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے کبھی اس بات کا مطالبہ کرتے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر آپ سچے نبی ہیں تو مکہ کے چاروں طرف جو پہاڑ ہیں ان کو ہٹوا کر کھلا میدان بنوا دیجیے تاکہ ہم اس میدان میں کھیتی باڑی کرسکیں۔ کبھی کہتے کہ زمین کو پھاڑ کر اس میں چشمے اور نہریں جاری کرا دیجیے تاکہ ہمیں جو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے وہ دور ہو سکے۔ کبھی اپنے ان مردوں کو زندہ کرنے کی فرمائش کرتے جو مر کر مٹی ہوچکے ہیں اور کہتے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ان مردوں سے ہم باتیں کر کے سارے حالات معلوم کرسکیں۔ اسی طرح وہ ہر روز کوئی نہ کوئی فرمائش کرتے رہتے تھے۔ ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ ان کو ایمان لانا تھا بلکہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشان کرنے کے لئے یہ سب کچھ کہتے تھے کیونکہ جس کو ایمان لانا ہے وہ معجزات دیکھنے کا محتاج نہیں ہوتا۔ قرآن کریم حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے معجزات کا ذکر کر کے کہتا ہے کہ ان انبیاء کرام نے ایسے ایسے معجزات دکھائے جن کے سامنے ہر شخص عاجز ہو کر رہ گیا تھا۔ وہ کھلی آنکھوں سے معجزات کو دیکھ رہے تھے۔ لیکن ان میں سے کتنے لوگ ایمان لائے ؟ جس کو ایمان لانا تھا اور ایمان لے آیا اور جس نے گم راہی اختیار کرنی تھی وہ معجزات دیکھ کر بھی گم راہ ہی رہا۔ ان آیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کفار کے اسی مطالبہ کا ذکر کیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا کیوں نہ ہوا کہ آپ کا رب آپ پر کوئی معجزہ نازل کرتا تاکہ ہم اس کو دیکھ کر آپ پر ایمان لاتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ ارشاد فرمایا کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گم راہ کردیتا ہے۔ معجزہ ہونے یا نہ ہونے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ اللہ ان ہی لوگوں کو ہدایت عطا فرماتا ہے جو اس کے سامنے جھکے رہتے ہیں جو ایمان کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں اور اپنے دلوں کو اللہ کے ذکر سے مطمئن کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اطمینان، سکون اور چین اللہ کی یاد ہی میں ہے۔ فرمایا کہ وہ لوگ بہت ہی خوش نصیب ہیں جو ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار کرتے ہیں اور اپنے لئے بہتر انجام حاصل کرتے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جس طرح آپ اللہ کے رسول ہیں اسی طرح آپ سے پہلے بہت سے رسول اور ان کی امتیں گذر چکی ہیں ان سے بھی اسی طرح کے سوالات کئے گئے۔ ان کا مذاق اڑایا گیا اور ان کی نافرمانی کر کیا انہوں نے اپنی دنیا و آخرت کو خراب کرلیا۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان کفار کو اللہ کا کلام جو آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے پڑھ کر سنائیے۔ آپ اپنے اللہ کی طرف متوجہ رہئے اسی پر بھروسہ کیجیے اگر یہ رحمٰن اور اس کے کرم کا انکار کرتے ہیں تو کرنے دیجیے۔ آپ اپنی زبان مبارک سے پیہ پیغام ساری دنیا تک پہنچا دیجیے کہ ایک اللہ کے سوا دوسرا کوئی معبود نہیں ہے اسی پر میں بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کی طرف میں متوجہ ہوتا ہوں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عقیدۂ آخرت سے انحراف اور دنیا کے مال ومتاع پر اترانے کی وجہ سے منکرین حق کی ہٹ دھرمی۔ اس سورة مبارکہ کی پہلی آیت میں قرآن مجید کو من جانب اللہ قرار دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آفاق، جمادات اور نباتات کے حوالے سے اپنی ذات اور صفات کے بارے میں اتنے بھاری اور ٹھوس دلائل دیے ہیں کہ جن کا جواب دینا انسان کے تصور سے ماوراء ہے۔ یہ ایسے ٹھوس اور بھاری دلائل ہیں کہ ان کا انکار کرنے والے کو اندھا قرار دیا گیا ہے۔ اسی اندھے پن کا نتیجہ تھا کہ کفار ٹھوس اور واضح دلائل کو تسلیم کرنے کی بجائے ہر بار مطالبہ کرتے کہ کوئی نیا معجزہ نازل کیا جائے۔ یہاں کفار کی کوتاہ بینی اور ہٹ دھرمی کا صرف اتنا جواب دیا ہے کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے فرما دیں دلائل اور معجزات تو بہت آچکے مگر تم انہیں تسلیم کرنے کی بجائے انکار کی روش اختیار کیے ہوئے ہو۔ در حقیقت ہدایت اور گمراہی اللہ کے اختیار میں ہے جو شخص تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے حق کا انکار کرتا جائے۔ اسے اللہ تعالیٰ گمراہی میں کھلا چھوڑ دیتا ہے اور جو شخص ہدایت کی تمنا اور اس کی جستجو کرتا ہے اسے ہدایت عطا کی جاتی ہے۔ کیونکہ ہدایت اس قدر گراں مایہ نعمت ہے جو تمنا اور جستجو کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں انہیں ایمان کی دولت نصیب ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں۔ اے لوگو ! یاد رکھو کہ دل اللہ کے ذکر سے ہی سکون اور اطمینان پاتے ہیں۔ جو لوگ ایمان کے ساتھ صالح کردار اپناتے ہیں ان کے لیے ان کی موت کے بعد ہر قسم کی خوشحالی اور رہنے کا بہترین مقام ہوگا۔ ” الذکر “ سے مراد اللہ پر سچا ایمان لانا اس کی تسبیح پڑھنا، اس کی معرفت حاصل کرنا اور اس کے بتلائے ہوئے طریقے پر زندگی بسر کرنا ہے۔ اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کے موقعہ پر جمرات کو کنکریاں مارنا، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا اور بیت اللہ کے طواف کرنے کو اللہ کا ذکر قرار دیا ہے۔ ” اللہ “ کے ذکر سے مومن کا دل قرار اور سکون پا کر نیک اعمال کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ ایسے لوگوں کو جنت میں بہترین مکان اور مقام عطا کیے جائیں گے۔ ” طوبیٰ “ کا معنی ہر قسم کی خوشحالی اور یہ جنت کے ایک درخت کا نام ہے۔ جس کے طول وعرض کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّ رَجُلاً قَالَ لَہٗ یَا رَسُول اللّٰہِ طُوْبٰی لِمَنْ رَّآکَ وَآمَنَ بِکَ قَالَ طُوْبٰی لِمَنْ رَّآنِی وَآمَنَ بِیْ ثُمَّ طُوْبٰی ثُمَّ طُوْبٰی ثُمَّ طُوْبٰی لِمَنْ آمَنَ بِیْ وَلَمْ یَرَنِیْ قَالَ لَہٗ رَجُلٌ وَمَا طُوبٰی قَالَ شَجَرَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ مَسِیْرَۃُ ماءَۃِ عَامٍ ثِیَابُ أَہْلِ الْجَنَّۃِ تَخْرُجُ مِنْ أَکْمَامِہَا )[ رواہ أحمد وہو حدیث حسن ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے آپ سے عرض کی اے اللہ کے رسول ! اس آدمی کے لیے خوشخبری ہے جس نے آپ کو دیکھا اور آپ پر ایمان لایا۔ آپ نے فرمایا خوشخبری ہے اس کے لیے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا، پھر خوشخبری ہو، خوشخبری ہو، خوشخبری ہو اس شخص کے لیے جو مجھ پر ایمان لایا اور اس نے مجھے دیکھا نہیں۔ آدمی نے آپ سے پوچھا طوبیٰ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ جنت میں ایک درخت ہے جس کی مسافت سو سال ہے اس کے خوشوں سے جنتیوں کا لباس نکلتا ہے۔ “ ذکر کی اہمیت و فضیلت : ذکر روحانی و جسمانی بیماریوں کا علاج، قلب و نظر کا سکون اور اطمینان، مشکلات سے نکلنے کا آسان راستہ، اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی نصرت و حمایت کا ذریعہ، ذکر کرنے والے کا حریم کبریا میں تذکرہ اور فلاح و کامیابی کا زینہ ہے لہٰذا ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو کثرت کے ساتھ یاد کیجیے۔ ذکر دنیاوآخرت کی کامیابیوں کا ذریعہ ہے۔ بشرطیکہ الفاظ اور انداز قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق ہو۔ من گھڑت یا بزرگوں کے حوالے سے مصنوعی درودو وظائف سے ممکن ہے کہ مشکلات آسان ہوجائیں مگر قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ کی برکت اور سنت رسول سے محرومی اس کا مقدر ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَاءِ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَلاَ أُنِبِءُکُمْ بِخَیْرِ أَعْمَالُکُمْ وَأَزْکَاہَا عِنْدَ مَلِیْکِکُمْ وَأَرْفَعَہًا فِیْ دَرَجَاتِکُمْ وَخَیْرٌ لَّکُمْ مِنْ إِنْفَاق الذَّہَبِ وَالْوَرَقِ وَخَیْرُ لَّکُمْ مِنْ اأنْ تَلْقُوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضْرِبُوْا أَعْنَاقَہُمْ وَیَضْرِبُوْا أَعْنَاقَکُمْ ؟ قَالُوْا بَلٰی قَالَ ذِکْرَ اللّٰہِ تَعَالٰی فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ (رض) مَاشَیءٍ أَنْجٰی مِنْ عَذَاب اللّٰہِ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ )[ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی فضل الذکر ] ” حضرت ابو درداء (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا میں تم کو وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے سارے اعمال میں بہتر اور تمہارے درجات کو دوسرے اعمال سے زیادہ بلند کرنے والا ہے اور راہ خدا میں سونا اور چاندی خرچ کرنے اور اس جہاد سے بھی زیادہ تمہارے لیے بہتر ہے جس میں تم اپنے دشمنوں کی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں ؟۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا کیوں نہیں اللہ کے رسول ضرور بتلائیں فرمایا وہ اللہ کا ذکر ہے۔ حضرت معاذ بن جبل (رض) نے کہا اللہ کے ذکر سے بڑھ کر کوئی چیز اللہ کے عذاب سے بچانے والی نہیں ہے۔ “ مسائل ١۔ کفار معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے گمراہ رکھتا اور جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ ٣۔ اللہ کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔ ٤۔ ایمان دار اور صالح کر دار لوگ اللہ کے ہاں خوش وخرم ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن ذکر کا حکم اور فائدہ : ١۔ اللہ کے ذکر کے ساتھ دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔ (الرعد : ٢٨) ٢۔ صبح اور شام کثرت سے اللہ کا ذکر کیا کرو۔ (آل عمران : ٤١) ٣۔ اے ایمان والو ! کثرت سے اللہ کو یاد کرو۔ (الاحزاب : ٤١) ٤۔ اللہ کو کثرت کے ساتھ یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (الجمعۃ : ١٠ ) ٥۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ (الاحزاب : ٣٥) ٦۔ تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ (البقرۃ : ١٥٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٢٧ تا ٣٢ ان لوگوں کی تردید کا خلاصہ یہ ہے کہ دلوں کے اندر ایمان پیدا ہونے کا حقیقی سبب وقوع معجزات نہیں ہے۔ ایمان کے داعی اور اسباب خود کسی انسان کے نفس کے اندر موجود ہوتے ہیں اور انسان خود اپنی نفسیاتی کیفیات اور داخلی فطری دواعی کی وجہ سے ایمان لاتا ہے۔ قل ان اللہ۔۔۔۔۔ اناب (١٣ : ٢٧) ” کہو اللہ جسے چاہتا ہے ، گمراہ کردیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے “۔ لہٰذا اللہ صرف ان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو اس کی طرف میلان رکھتے ہوں اور ان کا یہ میلان اور انابت الی اللہ کا جذبہ ہی ہے جس نے ان کو اہل ایمان بنایا۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہوا کہ جو لوگ اللہ کی طرف میلان اور انابت نہیں رکھتے وہی گمراہ ہوتے ہیں ، لہٰذا اللہ بھی ان کو گمراہ کردیتا ہے۔ لہٰذا دلوں کے اندر ہدایت کی استعداد اور پھر طلب ہدایت اور اس راہ میں سعی کرنے سے ہدایت ملتی ہے۔ لیکن جو دل اللہ کی ہدایت کی استعداد ہی سے محروم ہوتے ہیں اور جو اس سمت میں حرکت ہی نہیں کرتے وہ اللہ سے اور ہدایت سے دور ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد مومن دلوں کی ایک نہایت ہی شفاف تصویر کشی کی جاتی ہے۔ یہ تصویر کشی نہایت ہی اطمینان وقرار ، انس و محبت اور مسرت اور بشاشت کے رنگوں میں رنگی ہوئی ہے۔ الذین امنوا وتطمئن قلوبھم بذکر اللہ (١٣ : ٢٨) ” وہ جنہوں نے نبی کی دعوت کو مان لیا ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے “۔ ان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب سے متعلق ہیں۔ وہ اللہ کے جوار رحمت میں ہیں اور اللہ کے ہاں مامون اور محفوظ ہیں۔ وہ تنہائی کی مشکلات سے بھی مطمئن ہوتے ہیں ، راہ حق کی پریشانیوں میں بھی مطمئن ہوتے ہیں۔ اور وہ تخلیق کائنات ، اس کے آغاز اور انجام کے بارے میں بھی شفاف سوچ رکھتے ہیں اس لیے مطمئن ہوتے ہیں ، وہ ہر ظلم ، ہر شر اور ہر زیادتی سے اپنے آپ کو اللہ کی پناہ میں سمجھتے ہیں اس لیے مطمئن ہوتے ہیں الایہ کہ اللہ کی مشیت سے کوئی مصیبت آجائے تو وہ اس پر بھی راضی ہوتے ہیں اور اسے ابتلا سمجھ کر اس پر صبر کرتے ہیں۔ ہدایت ، رزق ، دنیا و آخرت کی پردہ پوشی کے بارے میں بھی ان کو اللہ پر پورا بھروسہ ہوتا ہے اس لیے وہ مطمئن ہوتے ہیں۔ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب (١٣ : ٢٨) ” بیشک اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے “۔ اہل ایمان کے دلوں میں اللہ کے ذکر سے جو اطمینان پیدا ہوتا ہے اس کا صحیح علم صرف ان لوگوں کو ہوتا ہے جن کے دلوں میں ایمان کی بشاشت اور مٹھاس پیدا ہوجائے اور ان کو اللہ کا فضل حاصل ہوجاتا ہے ۔ ایسے لوگ اس ایمانی بشاشت اور طمانیت کو محسوس کرتے ہیں لیکن اس کی کیفیات ایسی ہوتی ہیں جن کو الفاظ کے ذریعہ دوسرے لوگوں تک منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ خصوصاً ایسے لوگوں تک جن کو یہ معرفت حاصل نہ ہو کیونکہ یہ حقائق الفاظ کی گرفت سے باہر ہوتے ہیں۔ یہ اطمینان دلوں میں سرایت کرتا ہے۔ ان کو سکون اور فرحت دیتا ہے ، ہمت دیتا ہے۔ وہ امن و سلامتی کا شعور پاتے ہیں۔ ایسے اہل معرفت محسوس کرتے ہیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں ، ان کو ایک پورا ماحول اپنا دوست اور یار نظر آتا ہے ۔ کیونکہ ان کے اردگرد اللہ کی صنعت کاریاں ہوتی ہیں جبکہ خود صاحب معرفت اللہ ہی کی حمایت میں ہوتا ہے۔ ان لوگوں سے بڑا بد بخت اس روئے زمین پر کوئی نہیں ہے جو تعلق باللہ کی وجہ سے اور ذکر الٰہی کی وجہ سے پیدا ہونے والے انس و محبت سے بیخبر ہوں۔ اس سے بڑا بد بخت کوئی نہیں ہے کہ وہ اس کرۂ ارض کے اوپر چلے پھرے اور اسے اپنے کائناتی ماحول سے کوئی انس و محبت نہ ہو۔ اس سے بڑا کوئی بدبخت نہ ہوگا جو اس دنیا میں چلے پھرے اور اسے معلوم نہ ہو کہ اس کا مقصد وجود کیا ہے ؟ وہ کیوں آیا ہے اور کدھر جا رہا ہے ؟ اور اس کے اوپر زندگی کا یہ بوجھ کیوں ڈالا گیا ہے ؟ اور اس سے بدبخت اور کون ہوگا جو اس کرۂ ارض پر چلتا پھرتا ہو اور وہ اپنے ماحول کی ہر چیز سے اس لیے بدکتا ہو۔ اسے معلوم ہو کہ اس کے اور ہر چیز کے درمیان ایک نہایت ہی لطیف تعلق ہے ؟ اس سے بدبخت اور کون ہوگا جو سفر حیات طے کر رہا ہے لیکن اکیلا ہے ، راندہ ہے ، گم کردہ راہ ہے اور پہاڑوں اور صحراؤں میں اکیلا پھر رہا ہے اور زندگی کا یہ کٹھن سفر وہ اکیلا بغیر گائیڈ کے ، بغیر انیس سفر کے اور بغیر ہادی و مددگار کے طے کر رہا ہے۔ اور اسے نشان منزل تک معلوم نہیں۔ یاد رکھو ! زندگی کے اس کٹھن سفر میں بعض لمحات ایسے بھی آتے ہیں ، نہایت ہی تاریک گھڑیاں جن کا مقابلہ صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو اللہ کا ہوگیا ہو ، جسے اللہ کی حمایت کا بھروسہ ہو ، ورنہ خواہ کوئی کس قدر طاقتور ، بہادر اور مستقل مزاج کیوں نہ ہو زندگی میں بعض ایسی تاریک گھڑیاں آتی ہیں کہ انسان کی تمام قوتیں جواب دے جاتی ہیں۔ آخری سہارا صرف تعلق باللہ کی قوت اور ذکر الٰہی سے حاصل ہوتا ہے۔ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب (١٣ : ٢٨) ” خبردار ! ذکر الٰہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے “۔ یہ لوگ جو اللہ کی طرف جھکنے والے ہیں اور اللہ کے ذکر کی وجہ سے مطمئن ہیں ، اللہ کے ہاں ان کا انجام بہت ہی اچھا ہوگا کیونکہ انہوں نے اچھا طرز عمل اختیار کیا اور وہ اللہ کے مطیع فرمان رہے۔ الذین امنوا۔۔۔۔۔۔ ماب (١٣ : ٢٩) ” جن لوگوں نے دعوت حق کو قبول کیا اور نیک عمل کئے وہ خوش نصیب ہیں اور ان کے لئے اچھا انجام ہے۔ طوبیٰ طاب یطیب سے ہے بوزن کبریٰ ۔ یہ صیغہ تفخیم اور تعظیم کے لئے آتا ہے یعنی ان کے لئے بہت بڑی خوشخبری ہے۔ ان کا اچھا انجام اس خدا کے ہاں ہوگا جس کے وہ اپنی زندگی میں مطیع فرمان رہے۔ وہ لوگ جو معجزات طلب کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کو ایمان اطمینان کا شعور حاصل نہیں ہوتا۔ وہ ذہنی خلجان میں مبتلا ہوتے ہیں اور اپنی اس ذہنی پریشانی کو دور کرنے کے لئے معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں اور اے پیغمبر آپ کسی قوم میں آنے والے پہلے رسول نہیں ہیں کہ ان لوگوں کے لئے یہ معاملہ ناقابل فہم ہوگیا ہے۔ اس سے قبل بھی کئی اقوام گزری ہیں اور کئی رسول گزرے ہیں۔ اگر یہ لوگ کفر پر تل گئے ہیں تو آپ اپنے منہاج پر کام کرتے رہیں اور اللہ پر بھروسہ کریں۔ کذلک ارسلنک ۔۔۔۔۔۔ والیہ متاب (١٣ : ٣٠) ” اے نبی اسی شان سے ہم نے تم رسول بنا کر بھیجا۔ ایک ایسی قوم میں جس سے پہلے بہت سی قومیں گذر چکی ہیں تا کہ تم ان لوگوں کو وہ پیغام سناؤ جو ہم نے تم پر نازل کیا ہے۔ اس حال میں کہ یہ اپنے نہایت ہی مہربان خدا کے کافر بنے ہوئے ہیں۔ ان سے کہو کہ وہی میرا رب ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی میرا طجا وماویٰ ہے “۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ رحمٰن کا کفر کرتے ہیں جس کی رحمت بہت ہی بڑی ہے۔ جس کے ذکر سے دل مطمئن ہوجاتے ہیں اور اس کی عظیم رحمت کا شعور ان میں پیدا ہوجاتا ہے۔ اے پیغمبر آپ کی ڈیوٹی تو صرف یہ ہے کہ جو وحی آپ کی طرف آتی ہے آپ ان لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں۔ آپ کے بھیجنے کا مقصد ہی یہ ہے ۔ اگر وہ کفر کے ارتکاب پر تل گئے ہیں تو اعلان کردیں کہ میرا بھروسہ تو صرف اللہ وحدہ پر ہے اور یہ کہ میں اسی کی طرف لوٹنے والا ہوں اور کسی اور کی طرف پناہ لینے کے لئے مجھے رجوع نہیں کرنا ہے۔ ہم نے آپ کو صرف یہ ڈیوٹی دی ہے کہ آپ قرآن کی دعوت لوگوں تک پہنچا دیں۔ یہ قرآن پڑھیں ، بذاب خود یہ کتاب اور یہ کلام بہت ہی عجائب اپنے اندر رکھتا ہے۔ اگر کسی قرآن کے ذریعہ پہاڑ چلائے جاتے ، یا زمین کے ٹکڑے کر دئیے جاتے ، یا اس کے ذریعہ مردے باتیں کرنے لگتے تو یہ باتین اس قرآن میں بھی ہوتیں اور اس کے ذریعے یہ مذکور معجزات ظہور پذیر ہوتے لیکن قرآن (ہر کتاب الٰہی) تو اس لیے نازل کیا جاتا ہے کہ عوام کو ان کی ڈیوٹیاں اور ان کے فرائض سے آگاہ کیا جائے ۔ اگر یہ مخاطبین اب کفر کرنے پر تل گئے ہیں اور ہرگز مان کر نہیں دیتے تو وقت آگیا ہے کہ مومنین ان سے مایوس ہوجائیں اور ان کو چھوڑ دیں کہ مکذبین کے ساتھ اللہ کا جو سلوک ہوتا ہے وہ آجائے۔ ولو ان قراناً ۔۔۔۔۔۔ یخلف المیعاد (١٣ : ٣١) ” اور کیا ہوجاتا اگر کوئی ایسا قرآن اتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے یا زمین شق ہوجاتی ، یا مردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے ؟ (اس طرح کی نشانیاں دکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے ) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ پھر کیا اہل ایمان (ابھی تک کفار کی طلب کے جواب میں کسی نشانی کے ظہور کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور وہ یہ جان کر ) مایوس نہیں ہوگئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا ؟ جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کر رکھا ہے ان پر ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہتی ہے ، یا ان کے گھر کے قریب کہیں نازل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پورا ہو۔ یقیناً اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا “۔ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے قرآن مجید کو قبول کیا اور اس کی کیفیات میں ڈوب گئے اس نے ان کے اندر اس قدر انقلاب برپا کردیا کہ پہاڑوں کے چلائے جانے ، زمین کے شق ہونے اور مردوں کے زندہ ہونے سے وہ بڑا معجزہ تھا۔ ان مذکور معجزات سے بھی ان لوگوں کی زندگیوں میں دور رس تبدیلی ہوئی اور بڑے معجزات رونما ہوئے۔ ان کی زندگی کی قدریں بدل دی گئیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں نے خود اس زمین کے چہرے کو بھی بدل کر رکھ دیا اور اسلام اور مسلمانوں نے اس کرۂ ارض کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ اس قرآن کی اثر آفرینی ، اس کی ذات اور طرز ادا میں ، اس کی دعوت اور فلسفے میں اس کے موضوعات کلام اور طرز کلام میں بذات خود ایک بڑا معجزہ ہے۔ اس کے اندر کسی بڑے سے بڑے معجزے کے مقابلے میں بہت بڑی تاثیر ہے۔ اور اس کی اس معجزانہ شان سے وہی شخص واقف ہے جو ان معالی اور فلسفوں اور انداز تعبیر اور اسالیب کلام سے واقف ہو۔ اور ان کو ان چیزوں کے سمجھنے کی ذہنی قوت مدرکہ حاصل ہو۔ جن لوگوں نے اسے سمجھا ، اس پر عمل کیا اور اس کی کیفیات اور اس کے انوار میں ڈوبے انہوں نے پہاڑوں کے چلانے سے بھی بڑے معجزے کر دکھائے۔ قرآن مجید کے اثرات کے نتیجے میں تو اقوام اور نسلوں کے حالات اور سوچ کے دھارے بدل گئے۔ انہوں نے ان چیزوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جو زمین کے مقابلے میں زیادہ سخت تھیں۔ فکری جمود اور رسم و رواج کا وہ جمود جو قرآن اور مسلمانوں نے توڑا وہ زمین اور پتھروں سے کہیں زیادہ سخت تھا۔ انہوں نے ایسی اقوام کو زندہ کیا جو مردوں سے زیادہ مردہ تھیں۔ زندہ ہو کر بھی مردہ تھیں ، وہ اقوام جن کی روح کو وہم اور گمان نے قتل کردیا تھا۔ وہ بتان وہم و گمان کے پجاری تھے۔ عربوں کے اندر جو انقلاب رونما ہوا ، ان کی زندگی کے اندر جو تبدیلی نمودار ہوئی اور اس میں شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں یہ کہ انقلاب صرف اور صرف قرآن کی وجہ سے آیا جس نے ان کی زندگی کا منہاج ہی بدل کر رکھ دیا تو کیا یہ انقلاب پہاڑوں کے چلنے ، زمین کے ٹکڑے ہونے اور مردوں کے گویا ہونے سے کوئی کم انقلاب تھا۔ بل للہ الامر جمیعاً (١٣ : ٣١) ” بلکہ سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے “۔ وہی ہے ، جو تحریک کی نوعیت کو اختیار کرتا ہے اور وہی ہے جو تحریک کے لئے وسائل اور ذرائع اختیار کرتا ہے۔ اگر اس قرآن کو سن کر بھی کسی قوم کے دلوں میں حرکت اور ولولہ پیدا نہیں ہوتا تو اہل ایمان جو ابھی ایسے دلوں کو حرکت میں لانے کی سعی کر رہے ہیں ان کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے مایوس ہوجائیں ۔ ان کے معاملے کو اللہ پر چھوڑ دیں۔ اگر اللہ چاہتا تو تمام لوگوں کے اندر ہدایت کی استعداد پیدا کردیتا۔ اور انسانوں کو بھی اسی طرح ہدایت کی جبلت پر تخلیق کردیتا جس طرح فرشتوں کو اس نے ہدایت پر پیدا کیا ہے۔ یا لوگوں کو مجبور کر کے ہدایت کی راہ پر چلا دیتا لیکن اللہ نے انسانوں کے بارے میں نہ خیر کی اسکیم تیار کی اور نہ فرشتوں جیسی جبلت ان کو دی ۔ کیونکہ اللہ نے انسان کو ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور اللہ کو معلوم تھا کہ انسان اس مقصد کے تقاضے کس طرح پورے کرسکتا ہے۔ لہٰذا چاہئے کہ لوگوں کو اب اللہ کے فیصلوں پر چھوڑ دیا جائے۔ اگر اللہ نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ ان اقوام عرب کو اس طرح نیست و نابود نہ کرے گا جس طرح بعض اقوام کو ہلاک کیا گیا تھا تو ان پر کوئی نہ کوئی مصیبت آتی ہی رہتی ہے۔ یا ان کے گھروں کے قریب آتی رہتی ہے ۔ اور یہ لوگ وقتاً فوقتاً اللہ کے عذابوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور ان میں سے بعض ان مصائب میں ہلاک بھی ہوجاتے ہیں۔ او تحل قریباً من دارھم (١٣ : ٣١) ” یا ان کے گھروں کے قریب نازل ہوتی ہے “۔ جس سے وہ خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور پھر وہ نہایت ہی قلق اور خوف سے انتظار کرتے ہیں کہ کہیں اس جیسی مصیبت دوبارہ نہ آجائے۔ بعض لوگ نرم بھی ہوجاتے ہیں ، ان میں ایک تحریک پیدا ہوتی ہے اور ان کو حقیقی زندگی مل جاتی ہے۔ حتی یاتیی وعداللہ (١٣ : ٣١) ” یقیناً اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا “۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے اور ہر شخص اس دن اس انجام سے دوچار ہونے والا ہے جس کا وعدہ اللہ نے کیا ہے۔ اس بات کی مثالیں انسانی تاریخ میں موجود ہیں کہ اللہ مہلت دیتا ہے لیکن مہلت اور انتظار کے بعد اللہ کی پکڑ بھی آجاتی ہے۔ ولقد استھزیء۔۔۔۔۔۔ عقاب (١٣ : ٣٢) ” اور تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے ، مگر میں نے ہمیشہ منکرین کو ڈھیل دی اور آخر کار ان کو پکڑ لیا ، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی “ ۔ یہ ایک سوال ہے جس کے جواب کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وہ عذاب ایسا رہا ہے کہ نسلیں اس کا چرچا کرتی رہیں۔ دوسرا مسئلہ شرکاء کا ہے۔ سورة کے حصہ اول میں بھی اسے چھیڑا گیا تھا۔ یہاں بھی ان بیچارون کا ذکر نہایت ہی حقارت آمیز انداز میں کیا جاتا ہے۔ یہاں اللہ کے ساتھ ان کا تقابل یوں کیا جاتا ہے کہ اللہ تو ہر تنفس پر قائم ہے ۔ وہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دنیا میں بھی دیتا ہے اور جو لوگ اللہ پر یہ افتراء باندھتے ہیں کہ اس کے شریک ہیں ان کو اس دنیا میں بھی سزا دی جاتی ہے اور آخرت میں بھی سزا دی جاتی ہے اور آخرت تو بہت ہی شدید ہے۔ جبکہ اہل تقویٰ کے لئے امن و سلامتی انتظار کر رہی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

28:۔ یہ ساتویں عقلی دلیل ہے۔ ساری کائنات کا روزی رساں اللہ تعالیٰ ہے۔ روزی کی کمی بیشی بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ اگر کسی کے پاس دولت وافر آجائے تو یہ اس کا کمال نہیں بلکہ محض اللہ کی دین ہے اس پر اسے مغرور نہیں ہونا چاہیے۔ ” وَ فَرِحُوْا الخ “ دنیوی مال و دولت کی وجہ سے وہ خوش ہیں اور دولت کے غرور میں حق کا انکار کر رہے ہیں اور اخرت کی پروا نہیں کرتے حالانکہ دنیوی ساز و سامان اور مال و متاع آخرت کے مقابلے میں نہیں حقیر اور قلیل ہے۔ مَتَاعٌ کی تنوین تقلیل و تحقیر ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

27 ۔ اور جن لوگوں نے کفر و انکار کی روش اختیار کر رکھی ہے وہ یوں کہتے ہیں کہ اس پیغمبر کے رب کی جانب سے کوئی ہمارا منہ مانگا اور فرمائشی نشان اور معجزہ کیوں نہیں نازل کیا گیا ۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے گمراہ رکھتا ہے اور وہ اس شخص کو اپنا راہ دکھاتا ہے اور اپنی جانب اس کی رہنمائی کرتا ہے جو اس کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یعنی قرآن شریف جس کی ہر آیت معجزہ اور ایک نشانی ہے تم کو جب کافی نہیں ہے تو فرمائشی معجزہ دکھانے سے کیا ہوگا ہدایت تو اس کو نصیب ہوتی ہے جو ہدایت کا خواہش مند ہو اور ہماری جانب رجوع کرے معاندانہ سرگرمیوں جاری کھتے ہوئے ہدایت میسر نہیں آسکتی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی حق تعالیٰ کو ضرور نہیں کہ سب کو راہ پر لا دے یا نشانیاں بھیج کر ہر طرح ہدایت دے بلکہ یہی منظور ہے کہ کوئی بچلے اور کوہ راہ پاوے سو جس کے دل میں رجوع آئی نشان ہے کہ اس کو سمجھانا چاہا ۔ 12 ۔ آگے رجوع ہونے والے اور کامیاب ہونے والوں کا بیان ہے۔