Allah and those who have Knowledge of the Scripture are Sufficient as Witness to the Message of the Prophet
Allah says,
وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ
...
And those who disbelieved, say:
Allah says, the disbelievers reject you and say,
...
لَسْتَ مُرْسَلً
...
You are not a Messenger. (from Allah),
...
قُلْ كَفَى بِاللّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ
...
Say: "Sufficient as a witness between me and you is Allah..."
meaning, say, `Allah is sufficient for me and He is the witness over me and you. He is witness that I (Muhammad) have conveyed the Message from Him and over you, O rejecters, to the falsehood that you invent.'
Allah said,
...
وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ
and those too who have knowledge of the Scripture.
This refers to Abdullah bin Salam, according to Mujahid.
However, this opinion is not plausible, since this Ayah was revealed in Makkah and Abdullah bin Salam embraced Islam soon after the Prophet emigrated to Al-Madinah.
A more suitable explanation is that narrated by Al-Awfi from Ibn Abbas that;
this Ayah refers to Jews and Christians.
Qatadah said that;
among them are, Abdullah bin Salam, Salman (Al-Farisi) and Tamim Ad-Dari.
The correct view is that this Ayah,
وَمَنْ عِندَهُ
(and those too who have. ..),
refers to the scholars of the People of the Scriptures who find the description of Muhammad in their Books and the good news of his advent that were conveyed to them by their Prophets.
Allah said in other Ayat,
وَرَحْمَتِى وَسِعَتْ كُلَّ شَىْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُوْتُونَ الزَّكَـوةَ وَالَّذِينَ هُم بِـَايَـتِنَا يُوْمِنُونَ
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِىَّ الاُمِّىَّ الَّذِى يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِى التَّوْرَاةِ وَالاِنجِيلِ
And My mercy embraces all things. That (mercy) I shall ordain for those who have Taqwa, and give Zakah; and those who believe in Our Ayat; Those who follow the Messenger, the Prophet who can neither read nor write whom they find written with them in the Tawrah and the Injil). (7:156-157)
and,
أَوَلَمْيَكُن لَّهُمْ ءَايَةً أَن يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِى إِسْرَءِيلَ
It is not a sign to them that the learned scholars of the Children of Israel knew it (as true). (26:197)
There are similar Ayat that affirm that the scholars of the Children of Israel know this fact from their divinely revealed Books.
This is the end of Surah Ar-Ra'd, and all praise is due to Allah and all favors are from Him.
رسالت کے منکر
کافر تجھے جھٹلا رہے ہیں ۔ تیری رسالت کے منکر ہیں ۔ تو غم نہ کر کہہ دیا کر کہ اللہ کی شہادت کافی ہے ۔ تیری نبوت کا وہ خود گواہ ہے ، میری تبلیغ پر ، تمہاری تکذیب پر ، وہ شاہد ہے ۔ میری سچائی ، تمہاری تکذیب کو وہ دیکھ رہا ہے ۔ علم کتاب جس کے پاس ہے اس سے مراد عبداللہ بن سلام ہیں رضی اللہ عنہ ۔ یہ قول حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا ہے لیکن بہت غریب قول ہے اس لئے کہ یہ آیت مکہ شریف میں اتری ہے اور حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تو ہجرت کے بعد مدینے میں مسلمان ہوئے ہیں ۔ اس سے زیادہ ظاہر ابن عباس کا قول ہے کہ یہود و نصاری کے حق گو عالم مراد ہیں ہاں ان میں حضرت عبداللہ بن سلام بھی ہیں ، حضرت سلمان اور حضرت تمیم داری وغیرہ رضی اللہ عنہم بھی ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے ایک روایت میں مروی ہے کہ اس سے مراد بھی خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ حضرت سعید رحمۃ اللہ علیہ اس سے انکاری تھے کہ اس سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام لئے جائیں کیونکہ یہ آیت مکیہ ہے اور آیت کو من عندہ پڑھتے تھے ۔ یہی قرأت مجاہد اور حسن بصری سے بھی مروی ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی قرأت ہے لیکن وہ حدیث ثابت نہیں ۔ صحیح بات یہی ہے کہ یہ اسم جنس ہے ہر وہ عالم جو اگلی کتاب کا علم ہے اس میں داخل ہے ان کی کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت اور آپ کی بشارت موجود تھی ۔ ان کے نبیوں نے آپ کی بابت پیش گوئی کر دی تھی ۔ جیسے فرمان رب ذی شان ہے آیت ( ورحمتی وسعت کل شیئی ) یعنی میری رحمت نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے میں اسے ان لوگوں کے نام لکھ دوں گا جو متقی ہیں ، زکوٰۃ کے ادا کرنے والے ہیں ، ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہیں ، رسول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے ہیں ، جس کا ذکر اپنی کتاب تورات وانجیل میں موجود پاتے ہیں اور آیت میں ہے کہ کیا یہ بات بھی ان کے لئے کافی نہیں کہ اس کے حق ہونے کا علم علماء بنی اسرائیل کو بھی ہے ۔ ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علمائے یہود سے کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ اپنے باپ ابراہیم و اسماعیل کی مسجد میں جا کر عید منائیں مکے پہنچے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہیں تھے یہ لوگ جب حج سے لوٹے تو آپ سے ملاقات ہوئی اس وقت آپ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے اور لوگ بھی آپ کے پاس تھے یہ بھی مع اپنے ساتھیوں کے کھڑے ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ آپ ہی عبداللہ بن سلام ہیں کہا ہاں فرمایا قریب آؤ جب قریب گئے تو آپ نے فرمایا کیا تم میرا ذکر تورات میں نہیں پاتے ؟ انہوں نے کہا آپ اللہ تعالیٰ کے اوصاف میرے سامنے بیان فرمائیے اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے آپ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور حکم دیا کہ کہو آیت ( قل ھو اللہ احد ) آپ نے پوری سورت پڑھ سنائی ۔ ابن سلام نے اسی وقت کلمہ پڑھ لیا ، مسلمان ہو گئے ، مدینے واپس چلے آئے لیکن اپنے اسلام کو چھپائے رہے ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینے پہنچے اس وقت آپ کھجور کے ایک درخت پر چڑھے ہوئے کھجوریں اتار رہے تھے جو آپ کو خبر پہنچی اسی وقت درخت سے کود پڑے ۔ ماں کہنے لگیں کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی آ جاتے تو تم درخت سے نہ کودتے ۔ کیا بات ہے؟ جواب دیا کہ اماں جی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت سے بھی زیادہ خوشی مجھے ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی یہاں تشریف آوری سے ہوئی ہے ۔