Surat ur Raad

Surah: 13

Verse: 43

سورة الرعد

وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَسۡتَ مُرۡسَلًا ؕ قُلۡ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًۢا بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ۙ وَ مَنۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ الۡکِتٰبِ ﴿٪۴۳﴾  12

And those who have disbelieved say, "You are not a messenger." Say, [O Muhammad], "Sufficient is Allah as Witness between me and you, and [the witness of] whoever has knowledge of the Scripture."

یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول نہیں ۔ آپ جواب دیجئے کہ مجھ میں اور تم میں اللہ گواہی دینے والا کافی ہے اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah and those who have Knowledge of the Scripture are Sufficient as Witness to the Message of the Prophet Allah says, وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ... And those who disbelieved, say: Allah says, the disbelievers reject you and say, ... لَسْتَ مُرْسَلً ... You are not a Messenger. (from Allah), ... قُلْ كَفَى بِاللّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ... Say: "Sufficient as a witness between me and you is Allah..." meaning, say, `Allah is sufficient for me and He is the witness over me and you. He is witness that I (Muhammad) have conveyed the Message from Him and over you, O rejecters, to the falsehood that you invent.' Allah said, ... وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ and those too who have knowledge of the Scripture. This refers to Abdullah bin Salam, according to Mujahid. However, this opinion is not plausible, since this Ayah was revealed in Makkah and Abdullah bin Salam embraced Islam soon after the Prophet emigrated to Al-Madinah. A more suitable explanation is that narrated by Al-Awfi from Ibn Abbas that; this Ayah refers to Jews and Christians. Qatadah said that; among them are, Abdullah bin Salam, Salman (Al-Farisi) and Tamim Ad-Dari. The correct view is that this Ayah, وَمَنْ عِندَهُ (and those too who have. ..), refers to the scholars of the People of the Scriptures who find the description of Muhammad in their Books and the good news of his advent that were conveyed to them by their Prophets. Allah said in other Ayat, وَرَحْمَتِى وَسِعَتْ كُلَّ شَىْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُوْتُونَ الزَّكَـوةَ وَالَّذِينَ هُم بِـَايَـتِنَا يُوْمِنُونَ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِىَّ الاُمِّىَّ الَّذِى يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِى التَّوْرَاةِ وَالاِنجِيلِ And My mercy embraces all things. That (mercy) I shall ordain for those who have Taqwa, and give Zakah; and those who believe in Our Ayat; Those who follow the Messenger, the Prophet who can neither read nor write whom they find written with them in the Tawrah and the Injil). (7:156-157) and, أَوَلَمْيَكُن لَّهُمْ ءَايَةً أَن يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِى إِسْرَءِيلَ It is not a sign to them that the learned scholars of the Children of Israel knew it (as true). (26:197) There are similar Ayat that affirm that the scholars of the Children of Israel know this fact from their divinely revealed Books. This is the end of Surah Ar-Ra'd, and all praise is due to Allah and all favors are from Him.

رسالت کے منکر کافر تجھے جھٹلا رہے ہیں ۔ تیری رسالت کے منکر ہیں ۔ تو غم نہ کر کہہ دیا کر کہ اللہ کی شہادت کافی ہے ۔ تیری نبوت کا وہ خود گواہ ہے ، میری تبلیغ پر ، تمہاری تکذیب پر ، وہ شاہد ہے ۔ میری سچائی ، تمہاری تکذیب کو وہ دیکھ رہا ہے ۔ علم کتاب جس کے پاس ہے اس سے مراد عبداللہ بن سلام ہیں رضی اللہ عنہ ۔ یہ قول حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا ہے لیکن بہت غریب قول ہے اس لئے کہ یہ آیت مکہ شریف میں اتری ہے اور حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تو ہجرت کے بعد مدینے میں مسلمان ہوئے ہیں ۔ اس سے زیادہ ظاہر ابن عباس کا قول ہے کہ یہود و نصاری کے حق گو عالم مراد ہیں ہاں ان میں حضرت عبداللہ بن سلام بھی ہیں ، حضرت سلمان اور حضرت تمیم داری وغیرہ رضی اللہ عنہم بھی ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے ایک روایت میں مروی ہے کہ اس سے مراد بھی خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ حضرت سعید رحمۃ اللہ علیہ اس سے انکاری تھے کہ اس سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام لئے جائیں کیونکہ یہ آیت مکیہ ہے اور آیت کو من عندہ پڑھتے تھے ۔ یہی قرأت مجاہد اور حسن بصری سے بھی مروی ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی قرأت ہے لیکن وہ حدیث ثابت نہیں ۔ صحیح بات یہی ہے کہ یہ اسم جنس ہے ہر وہ عالم جو اگلی کتاب کا علم ہے اس میں داخل ہے ان کی کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت اور آپ کی بشارت موجود تھی ۔ ان کے نبیوں نے آپ کی بابت پیش گوئی کر دی تھی ۔ جیسے فرمان رب ذی شان ہے آیت ( ورحمتی وسعت کل شیئی ) یعنی میری رحمت نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے میں اسے ان لوگوں کے نام لکھ دوں گا جو متقی ہیں ، زکوٰۃ کے ادا کرنے والے ہیں ، ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہیں ، رسول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے ہیں ، جس کا ذکر اپنی کتاب تورات وانجیل میں موجود پاتے ہیں اور آیت میں ہے کہ کیا یہ بات بھی ان کے لئے کافی نہیں کہ اس کے حق ہونے کا علم علماء بنی اسرائیل کو بھی ہے ۔ ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علمائے یہود سے کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ اپنے باپ ابراہیم و اسماعیل کی مسجد میں جا کر عید منائیں مکے پہنچے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہیں تھے یہ لوگ جب حج سے لوٹے تو آپ سے ملاقات ہوئی اس وقت آپ ایک مجلس میں تشریف فرما تھے اور لوگ بھی آپ کے پاس تھے یہ بھی مع اپنے ساتھیوں کے کھڑے ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ آپ ہی عبداللہ بن سلام ہیں کہا ہاں فرمایا قریب آؤ جب قریب گئے تو آپ نے فرمایا کیا تم میرا ذکر تورات میں نہیں پاتے ؟ انہوں نے کہا آپ اللہ تعالیٰ کے اوصاف میرے سامنے بیان فرمائیے اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے آپ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور حکم دیا کہ کہو آیت ( قل ھو اللہ احد ) آپ نے پوری سورت پڑھ سنائی ۔ ابن سلام نے اسی وقت کلمہ پڑھ لیا ، مسلمان ہو گئے ، مدینے واپس چلے آئے لیکن اپنے اسلام کو چھپائے رہے ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینے پہنچے اس وقت آپ کھجور کے ایک درخت پر چڑھے ہوئے کھجوریں اتار رہے تھے جو آپ کو خبر پہنچی اسی وقت درخت سے کود پڑے ۔ ماں کہنے لگیں کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی آ جاتے تو تم درخت سے نہ کودتے ۔ کیا بات ہے؟ جواب دیا کہ اماں جی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت سے بھی زیادہ خوشی مجھے ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی یہاں تشریف آوری سے ہوئی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 پس وہ جانتا ہے کہ میں اس کا سچا رسول اور اس کے پیغام کا داعی ہوں اور تم جھوٹے ہو۔ 43۔ 2 کتاب سے مراد جنس کتاب ہے اور مراد تورات اور انجیل کا علم ہے۔ یعنی اہل کتاب میں سے وہ لوگ جو مسلمان ہوگئے ہیں، جیسے عبد اللہ بن اسلام، سلمان فارسی اور تمیم داری وغیرہم (رض) یعنی یہ بھی جانتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ عرب کے مشرکین اہم معاملات میں اہل کتاب کی طرف رجوع کرتے اور ان سے پوچھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی فرمائی کہ اہل کتاب جانتے ہیں، ان سے تم پوچھ لو۔ بعض کہتے ہیں کہ کتاب سے مراد قرآن ہے اور حاملین علم کتاب، مسلمان ہیں۔ اور بعض نے کتاب سے مراد لوح محفوظ لی ہے۔ یعنی جس کے پاس لوح محفوظ کا علم ہے یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ ، مگر پہلا مفہوم زیادہ درست ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٥] یعنی تمہارے جھٹلانے سے کیا بنتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ میری نبوت پر شاہد ہے۔ اور تمہیں میری صداقت کے کئی نشان دکھا چکا ہے اور دکھا رہا ہے اور اہل کتاب میں بھی منصف مزاج لوگ میری رسالت کی گواہی دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کی کتابوں میں میرے متعلق کئی بشارتیں موجود ہیں پھر ان میں سے بعض اسلام بھی لاچکے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَسْتَ مُرْسَلًا : ” مُرْسَلًا “ کی تنوین کی وجہ سے ترجمہ ” کسی طرح رسول “ کیا گیا ہے۔ وَمَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ : یعنی یہود و نصاریٰ کے علماء جیسے عبداللہ بن سلام، سلمان فارسی، تمیم داری (رض) اور ان میں سے دوسرے ایمان لانے والے۔ اہل کتاب کے علماء کی طرف رجوع کا حکم اس لیے دیا کہ مشرکین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملے میں عموماً انھی کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان کے علماء آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات اور آپ کے متعلق بشارتوں سے آپ کے سچا رسول ہونے کو خوب سمجھتے تھے، جیسے فرمایا : (يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُمْ ) [ البقرۃ : ١٤٦ ] ” وہ آپ کو پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ “ مزید دیکھیے سورة اعراف (١٥٧) اور شعراء (١٩٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا ۭ قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ ۙ وَمَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ 43؀ۧ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ كفى الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل . ( ک ف ی ) الکفایۃ وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔ كتب) حكم) قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] ، وقوله : إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ [ التوبة/ 36] أي : في حكمه . ويعبّر عن الإيجاد بالکتابة، وعن الإزالة والإفناء بالمحو . قال : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] ، يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد/ 39] نبّه أنّ لكلّ وقت إيجادا، وهو يوجد ما تقتضي الحکمة إيجاده، ويزيل ما تقتضي الحکمة إزالته، ودلّ قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] علی نحو ما دلّ عليه قوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وقوله : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد/ 39] ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ اور نحو سے کسی چیز کا زائل اور فناکر نامراد ہوتا ہے چناچہ آیت : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] میں تنبیہ ہے کہ کائنات میں ہر لمحہ ایجاد ہوتی رہتی ہے اور ذات باری تعالیٰ مقتضائے حکمت کے مطابق اشیاء کو وجود میں لاتی اور فنا کرتی رہتی ہے ۔ لہذا اس آیت کا وہی مفہوم ہے ۔ جو کہ آیت كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے اور آیت : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد/ 39] میں اور اس کے پاس اصل کتاب ہے کا ہے اور آیت : وَما کانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتاباً مُؤَجَّلًا[ آل عمران/ 145] اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مرجائے ( اس نے موت کا ) وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے ۔ میں کتابا موجلا سے حکم الہی مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٣) اور یہود وغیرہ یوں کہہ رہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اللہ تعالیٰ کے رسول نہیں ورنہ ہمارے پاس اپنی نبوت کے لیے کوئی گواہ لے کر آؤ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ اور جس کے پاس کتاب آسمانی کا علم ہے یعنی حضرت عبداللہ بن سلام اور اس کے ساتھی تو وہ میری رسالت اور اس قرآن کریم کے کلام خداوندی ہونے کے لیے کافی گواہ ہیں۔ اور یا یہ کہ عبداللہ بن سلام کے علاوہ اس سے آصف بن برخیامراد ہیں کیوں کہ جس کے پاس اللہ کی طرف سے کتاب آسمانی کا علم ہوگا تو یقینی طور پر اس میں قرآن کریم کا ذکر اور بیان ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(قُلْ كَفٰى باللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ ) اللہ جانتا ہے کہ میں اس کا رسول ہوں اور اس کا جاننا میرے لیے کافی ہے۔ (وَمَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ ) میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ میں اس کا رسول ہوں اور پھر ہر اس شخص کی گواہی جو کتاب آسمانی کا علم رکھتا ہے۔ اللہ تو جانتا ہی ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور میرا معاملہ اسی کے ساتھ ہے۔ اس کے علاوہ یہ اہل کتاب بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اہل کتاب کے اس معاملے کو البقرۃ : ١٤٦ اور الانعام : ٢٠ میں اس طرح واضح فرمایا گیا ہے : (یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَ ہُمُ ) کہ یہ آپ کو بحیثیت رسول ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

62. That is, everyone who has the knowledge of the divinely revealed Books will bear witness to the fact that my teachings are the same that were imparted by the former prophets.

سورة الرَّعْد حاشیہ نمبر :62 یعنی ہر وہ شخص جو واقعی آسمانی کتابوں کے علم سے بہرہ ور ہے اس بات کی شہادت دے گا کہ جو کچھ میں پیش کر رہا ہوں وہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء علیہم السلام لے کر آئے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

41: یعنی تم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی رسالت کا انکار کررہے ہو اس سے کیا ہوتا ہے؟ تمہارے انکار سے حقیقت نہیں بدل سکتی، اللہ تعالیٰ بذات خود آپ کی رسالت کا گواہ ہے اور ہر وہ شخص جسے آسمانی کتابوں کا علم ہے اگر انصاف کے ساتھ اس علم کی روشنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حالات کا جائزہ لے گا تو وہ بھی یہ گواہی دئے بغیر نہیں رہ سکے گا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٣۔ اس آیت میں اللہ جل شانہ نے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی خبر دی کہ کفار مکہ جو تمہیں یہ کہا کرتے ہیں کہ یہ خدا کے رسول نہیں اگر ہوتے تو ہمارے سوال کو پورا کرتے تم ان سے کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان میں خدا ہی گواہ ہے کہ میں نے اس کا پیغام تمہیں پہنچا دیا اور تم نے اس کو نہیں مانا مجھے جھٹلائے ہی گئے اور پھر یہ بھی فرمایا کہ پہلے آسمانی کتابوں کے پیرو علماء یہود و نصاریٰ کو بھی خوب معلوم ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں کیونکہ ان کی کتابوں میں بھی خدا نے میری رسالت کی خبر دی ہے۔ یہی قول حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا ہے نبوت کا ثبوت میں اللہ تعالیٰ کی گواہی کا ذکر جو آیت میں کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طرح طرح کے معجزے دے کر نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پہلے رسولوں کی طرح مدد فرمائی ہے یہ ان کے سچے ہونے پر اللہ تعالیٰ کی گویا گواہی ہے کیونکہ ناحق بات کی مدد اللہ کی شان سے بعید ہے پھر فرمایا یہ مشرکین مکہ تو ان پڑھ ہیں جہاں اور باتیں یہ لوگ اہل کتاب سے پوچھتے رہتے ہیں وہاں یہ بھی پوچھ لیویں کہ پہلے رسولوں کو اسی طرح معجزات کی مدد غیب سے ہوئی ہے یا نہیں اور تورات و انجیل میں نبی آخر الزمان کے اوصاف موجود ہیں یا نہیں۔ سورت بقرہ میں گزر چکا ہے کہ تورات میں نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف پڑھ کر یہود لوگ نبی آخر الزمان کو ایسا پہچانتے تھے جس طرح ہر ایک باپ اپنے بیٹے کو پہچانتا ہے اس لئے ان لوگوں کو نبی آخر الزمان کا زمانہ آنے والا ہے اس وقت ہم اس نبی کے ساتھ ہو کر تم سے دل کھول کر لڑیں گے حاصل کلام یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور یہودی کچھ مخالفت نہیں تھی۔ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے اس مکی آیت میں یہود کو آپ کی نبوت کا گواہ قرار دیا تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ میں تشریف لائے تو مدینہ کے گردونواح میں بنی قیقاع، بنی نضیر، بنی قریظہ یہود کے یہ تین قبیلے رہتے تھے۔ بنی قینقاع میں مثلاً جیسے الخاص رفاعہ بن زید بنی نضیر میں کعب بن الاشرف ابو یاسر بن حطیب بنی قریظہ میں زبیر بن باطیا شمویل بن زید یہ لوگ سردار کہلاتے تھے شیطان نے ان سرداروں کے دل میں یہ وسوسہ ڈال دیا کہ اگر یہ لوگ نبی آخر الزمان کے تابع ہوجاویں گے تو ان کی سرداری کو بٹہ لگ جاوے گا ان تینوں قبیلوں میں جو عالم لوگ تھے وہ اس وسوسہ میں پھنس گئے کہ اگر وہ نبی آخر الزمان کے تابع ہوجاویں گے تو قبیلہ کے عام لوگ بھی ادھر کو رجوع ہوجاویں گے جس سے ہماری آمدنی اور آؤ بھگت میں خلل پڑجاوے گا۔ جب یہ سردار اور عالم لوگ اسلام سے رک گئے تو انہوں نے ہر ایک قبیلے کے عام لوگوں کو بھی بہکایا۔ ہجرت سے پہلے مشرکین مکہ یہود کی گواہی پر اگر فیصلہ کا مدار رکھتے تو ضرور یہود لوگ نبی آخر الزمان کے سچے رسول ہونے کی گواہی ادا کرتے۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) سے جو روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر یہود میں سے دس آدمی دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے تو سارے یہود پر اسلام کا اثر پڑجاتا۔ ١ ؎ اس حدیث کا مطلب یہی ہے کہ ان تینوں قبیلوں کے سرداروں اور عالموں میں سے دس شخص بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے تو ہر ایک قبیلے کے عام لوگوں پر بڑا اثر پڑتا۔ یہ بات آپ نے اس لئے فرمائی کہ ہر ایک قبیلے کے عام لوگوں میں سے اگرچہ دس سے زیادہ آدمی مسلمان ہوچکے تھے لیکن ان کے اسلام کا اثر کچھ دوسروں پر نہیں پڑتا تھا۔ ان تینوں قبیلوں کے سرداروں میں سے تو کوئی شخص آخر تک دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوا۔ ہاں علمائے بنی قنیقاع میں سے عبد اللہ بن سلام (رض) کو یہ شرف حاصل ہوا۔ عبد اللہ بن سلام (رض) کے سوا عبد اللہ بن سوریا کے اسلام اور پھر مرتد ہونے کا حال جو بعضے علماء نے لکھا ہے اس کا پتہ کسی صحیح روایت سے نہیں لگتا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(13:43) مرسلا۔ اسم مفعول ۔ واحد مذکر منصوب۔ ر س ل۔ مادّہ ۔ بھیجا ہوا۔ پیغامبر پیغمبر رسول۔ کفی ۔ ماضی۔ واحد مذکر غائب۔ (باب ضرب) صیغہ ماضی کا ہے لیکن مراد استمرار ہے۔ کفایۃ مصدر۔ اور اسم مصدر بھی ہے الکفایۃ ہر وہ چیز جس سے ضرورت پوری ہوجائے۔ اور مراد حاصل ہوجائے اور مزید حاجت نہ رہے۔ کفی باللہ شھیدا (گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے) میں ب زائدہ ہے۔ بغیر باء کے انہی معنوں میں قرآن مجید میں ہے وکفی اللہ المؤمنین القتال (33:5) اور خدا مؤمنوں کے لئے جنگ کی ضروریات کے سلسلے میں کافی ہوا۔ اور انا کفینک المستھزء ین (15:95) ہم تمہیں ان لوگوں کے شرّ سے بچانے کے لئے جو تم سے استہزاء کرتے ہیں کافی ہیں۔ ومن عندہ دلم الکتاب۔ وائو حرف عطف ۔ من اسم موصول عندہ علم من الکتب۔ صلہ۔ صلہ وموصول مل کر معطوف۔ اللہ معطوف علیہ۔ (اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم یعنی اللہ تعالیٰ ) الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے۔ اس کے متعلق علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض کے نزدیک من عندہ علم من الکتب سے مراد علمائے اہل کتاب ہیں۔ اور الکتاب سے مراد توریت و انجیل ہے بعض کے مطابق مومنین ہیں جو قرآن حکیم کا علم رکھتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں من عندہ سے مراد جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 ۔ یعنی یہود و نصاریٰ کے علما جیسے حضرت عبد اللہ بن سلام، سلمان فارسی (رض) اور تمہیم داری (رض) اور ان میں سے دوسرے ایمان لانے والے اہل کتاب کے علما کی طرف رجوع کا حکم اس لئے دیا کہ مشرکین آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملے میں عموماً انہی کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان کے علما آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت اور آپ کے متعلق بشارتوں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کو خوب سمجھتے تھے جیسے فرمایا : یعرفونہ کما یعرفون ابناھ ھم (ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ مراد اس سے علماء اہل کتاب ہیں جو منصف تھے اور نبوت کی پیشن گوئی دیکھ کر ایمان لائے تھے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٤٣ یہ سورة ختم ہوتی ہے ، اس نے انسانی دل کو پوری کائنات کی سیر کرائی اور نفس انسانی کی دنیا میں بھی گھمایا ، اور اس پر نہایت ہی گہرے اور وسیع اثرات ڈالے اور پھر دل مومن کو اس دلیل پر لا کر کھڑا کردیا کہ قرآن جو کچھ کہہ رہا ہے اس پر اللہ گواہ ہے اور یہ اللہ کی شہادت سورة کے آغاز میں بھی لائی گئی اور اختتام پر بھی لائی گئی۔ اللہ کی شہادت کے بعد کسی دعویٰ کے ثبوت کے لئے اور کیا شہادت درکار ہوگی۔ اللہ کی شہادت پر تو بات ختم ہوجاتی ہے۔ اس سورة کے خاتمہ پر یہ بات کہنا ضروری ہے کہ اس سورة میں اسلامی نظریہ حیات اور جس منہاج پر قرآن نے اس نظریہ کو پیش کیا ہے اس پر غور کرنا ضروری ہے ، حق تو یہ تھا کہ جن آیات میں اس کو بیان کیا گیا ہے ، ہم وہاں ہی یہ تفصیل دے دیتے لیکن ہم نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ آیات کی تفسیر کے درمیان میں ایک تفصیلی بحث لا کر آیات کی روانی کو ختم کردیں۔ اس لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ اس موضوع کو سورة کے آخر تک موکر کردیں۔ اسلامی نظریہ حیات اور اس کے منہاج کی طرف آیات کے ذیل میں ہم نے اشارات بہرحال کیے ہیں۔ یہاں سورة کے اختتام کے بعد اب مناسب ہے کہ قدرے مفصل بات رکھی جائے۔ واللہ المستعان ! اس سورة کا آغاز کلام ، اس کے موضوعات ، اور اس کے اندر دی جانے والی اکثر ہدایات یہ بتاتی ہیں کہ یہ سورة مکی ہے ، اور جس طرح بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ مدنی ہے ، درحقیقت یہ مدنی نہیں ہے۔ جس طرح بعض مصاحف میں بھی اسے مدنی لکھا گیا ہے ، ان کے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورة مکہ کے اس دور میں نازل ہوئی جس میں لوگ دعوت اسلامی سے سخت منہ موڑے ہوئے تھے۔ وہ جھٹلاتے تھے بلکہ دعوت اسلامی کو چیلنج دے رہے تھے۔ مثلاً یہ سورة بتاتی ہے کہ مشرکین بار بار معجزات طلب کرتے تھے ، اور یہ مطالبہ کرتے تھے کہ جس عذاب سے انہیں ڈرایا جا رہا ہے وہ ان پر جلدی نازل کیوں نہیں ہوتا۔ اس لیے اس بات کی ضرورت تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے مٹھی بھر ساتھیوں کو یہ مشورہ دیا جاتا کہ وہ گھبرائیں نہیں اور جس حق پر وہ ہیں اس پر جم جائیں۔ ان کے پاس جو دعوت ہے وہ چونکہ بلند دعوت ہے ، اس لیے اس کے ذریعہ وہ اس اعراض ، تکذیب اور اس چیلنج کا مقابلے کریں اور صرف اللہ سے دعا کریں کہ وہ ان کی مشکلات کو دور کر دے اور کھل کر اعلان کریں کہ اللہ وحدہ حاکم اور خالق ورب ہے ، اور اس موقف پر جم جائیں اور یہ عقیدہ رکھیں کہ یہی حق ہے اگرچہ مشرکین اس کی تکذیب کریں۔ یہ سورة مشرکین کے سامنے یہ دلائل بھی رکھتی ہے جو اس کائنات میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں اور وہ دلائل بھی جو خود ان کے نفسوں میں ہیں۔ پھر تاریخ انسانیت اور اس کے اہم واقعات میں ہیں۔ غرض یہ اور اس قسم کے بیشمار دلائل ہیں جو اس سورة میں نہایت ہی موثر انداز میں پیش کئے گئے ہیں جن کے اثرات قلب پر گہرے پڑتے ہیں اور جن سے انسانی فکر کو بہت زیادہ غذا ملتی ہے۔ مثلاً اس سورة میں بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب ہی حق ہے اور یہی سچائی ہے ، اگرچہ لوگ اس سے منہ موڑیں ، اس کو جھٹلائیں ، اسے چیلنج دیں ، اور اسے قبول کرنے میں دیر کریں۔ اس راہ کی مشکلات اس بات پر دلیل نہیں ہیں کہ یہ کتاب سچ نہیں ہے۔ المر تلک۔۔۔۔۔ یومنون (١٣ : ١) ” یہ کتاب الٰہی کی آیات ہیں اور جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ عین حق ہے ۔ مگر اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے “۔ کذلک یضرب اللہ۔۔۔۔۔ الامثال ( ١٣ : ١٧) ” اسی مثال سے اللہ حق و باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے ، جو جھاگ ہے وہ اڑ جاتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لئے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے “۔ افمن یعلم۔۔۔۔۔۔۔ الالباب (١٣ : ١٩) ” بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے رب کی اس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے حق جانتا ہے ، اور وہ شخص جو اس حقیقت سے اندھا ہے ، دونوں یکساں ہوجائیں۔ نصیحت تو دانشمند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں “۔ ویقول الذین۔۔۔۔۔۔ تطمئن القلوب (١٣ : ٢٧ – ٢٨) ” یہ لوگ جنہوں نے (رسالت محمدی کو ماننے سے ) انکار کردیا ہے۔ کہتے ہیں : ” اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اترتی “۔ کہو ، اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے ، اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اس کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔ ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنہوں نے (دعوت اسلامی) کو مان لیا ہے ، اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے “۔ کذلک ارسلنک ۔۔۔۔۔۔ والیہ متاب (١٣ : ٣٠) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اسی شان سے ہم نے تم کو رسول بنا کر بھیجا ہے ایک ایسی قوم میں جس سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں ، تا کہ تم ان لوگوں کو وہ پیغام سناؤ جو ہم نے تم پر نازل کیا ہے ، اس حال میں کہ یہ اپنے نہایت مہربان خدا کے کافر بنے ہوئے ہیں۔ ان سے کہو کہ وہی میرا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی میرا ملجا وماویٰ ہے “۔ والذین اتینھم ۔۔۔۔۔۔ من ولی ولا واق (١٣ : ٣٦- ٣٧) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی ، وہ اس کتاب سے جو ہم نے تم پر نازل کی ہے ، خوش ہیں اور مختلف گروہوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے۔ تم صاف کہہ دو کہ ” مجھے تو صرف اللہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک ٹھہراؤں ، لہٰذا میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے “۔ اسی ہدایت کے ساتھ ہم نے یہ فرمان عربی تم پر نازل کیا ہے۔ اب اگر تم نے اس علم کے باوجود جو تمہارے پاس آچکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمہارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے “۔ وان ما نرینک۔۔۔۔۔ الحساب (١٣ : ٤٠ ) ” اور اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، جس برے انجام کی دھمکی ہم ان لوگوں کو دے رہے ہیں اس کا کوئی حصہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم تمہیں اٹھالیں ، بہرحال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے “۔ ویقول الذین۔۔۔۔۔ علم الکتب (٤٣) ” یہ منکرین کہتے ہیں کہ تم خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہو۔ کہو ، ” میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے اور پھر اس شخص کی گواہی جو کتاب آسمانی کا علم رکھتا ہے “۔ ذرا ان آیات پر غور کیجئے ، ان سے محسوس ہوتا ہے کہ مشرکین مکہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور اس قرآن کا کس طرح مقابلہ اور مزاحمت کر رہے تھے۔ اور ان حالات میں اللہ تعالیٰ اور قرآن کریم نے مشرکین مکہ کے اس سخت موقف کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرنے کا حکم دیا۔ ان آیات میں جو بات کھل کر اور واضح طور پر کہی گئی ہے وہ یہ ہے ، کہ لوگوں کے منہ موڑنے ، جھٹلانے ، ۔۔۔ کرنے ، مزاحمت کرنے اور دعوت کو نہایت سست رفتاری سے قبول کرنے اور دعوت کی راہ میں بےپناہ مشکلات کھڑی کرنے کی اس مشرکانہ پالیسی کے بالمقابل اللہ نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صاف صاف ہدایت دی کہ آپ ان سے دو ٹوک انداز میں بات کریں اور جو سچائی آپ پر نازل کی گئی ہے وہ صاف صاف بتائیں۔ دعوت اسلامی کے بنیادی نکات یہ ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ اور خالق نہیں ، اس کے سوا کوئی حاکم اور قانون ساز نہیں ہے ، اس کے سوا کوئی بندگی اور اطاعت کے لائق نہیں ، وہی واحد اور قہار ہے ، سب لوگوں نے اس کے پاس جانا ہے یا جنت میں یا آگ میں ، اور یہی وہ نکاتے تھے جن کا مشرکین مکہ انکار کرتے تھے اور ان کی مزاحمت کرتے تھے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا کہ آپ اس سچائی میں سے بعض چیزوں کو چھپا کر یا بعض کے اعلان میں تاخیر کر کے ان مشرکین کی خوشنودی حاصل کرنے کی سعی نہ کریں۔ اس سلسلے میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھلی دھمکی دی گئی کہ اگر آپ نے ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی تو آپ کے لئے بھی اللہ کے ہاں سزا ہے ، کوئی آپ کو بچا نہیں سکے گا۔ یہ کھلا اشارہ ، بلکہ اعلان ان لوگوں کو صاف صاف بتاتا ہے ، جو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں ، کہ اس دعوت کا یہی منہاج ہے اور اس میں کسی اجتہاد کی ضرورت نہیں ہے ، نہ اس میں کوئی خاص حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ داعیوں کو چاہئے کہ وہ اس دعوت کے بنیادی نکات کا اعلان صاف صاف کریں۔ ان میں سے کسی نکتے کو حذف نہ کریں۔ نہ اس کو موخر کریں۔ ان بنیادی حقائق اور نکات میں سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ چونکہ الٰہ ، حام اور رب اور قانون ساز صرف اللہ ہے اس لیے اللہ کے سوا کسی اور شخص یا ارادے کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔ حالات جیسے بھی ہوں ، مخالف قوتیں جس قدر بھی طاقتور اور سخت ہوں ، اس نکتے کا اعلان ضروری ہے۔ اگرچہ لوگ نہ مانتے ہوں ، منہ موڑتے ہوں ، یا راہ میں سخت سے سخت مشکلات حائل ہوں ، اور نہایت ہی خطرناک حالات ہوں۔ یہ بات نہ حکمت کے ضمن میں آتی ہے اور نہ موعظہ حسنہ کے ضمن میں آتی ہے کہ دعوت اسلامی کے کچھ نکات کو چھپا دیا جائے یا موخر کردیا جائے محض اس لیے کہ ملک کے اندر موجود طاغوتی قوتیں اس بات کو پسند نہیں کرتیں ، یا کارکنوں پر تشدد کرتی ہیں ، اعراض کرتی ہیں۔ یا داعیوں کے خلاف سازشیں کرتی ہیں ، کیونکہ ان وجوہات کی بنا پر داعیان حق کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اسلام کے ان اساسی نکات میں سے کسی کو ترک کردیں یا موخر کردیں۔ داعیان حق کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایسے شعائر ، اخلاق اور اطوار اپنائیں یا روحانی اور اخلاقی اصلاح کی راہ اختیار کریں اور اللہ کی وحدانیت اور حاکمیت کا صاف اعلان ترک کردیں اور اس کے نتیجے میں صرف اسلامی نظام کی اطاعت کی دعوت اس لئے چھوڑ دیں کہ وہ ان طاغوتی قوتوں کے غضب اور انتقام سے بچ جائیں۔ یہ بات یاد رہے کہ اللہ نے اسلامی نظریہ حیات کے پیش کرنے کا منہاج یہی اور صرف یہی بتایا ہے ، اور یہی منہاج ہے جس پر اللہ کے حکم کے مطابق حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری زندگی میں چلتے رہے۔ نیز کسی بعد میں آنے والے داعی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس طریق کار کو ترک کر دے یا کوئی دوسرا طریق کار اختیار کرے۔ اللہ خود اپنے دین کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ وہ داعیوں کے بچانے کا بھی ذمہ دار ہے۔ اور خود سرکشوں کی ریشہ دوانیوں سے نمٹ لینے والا ہے۔ قرآن کریم نے دعوت اسلامی کا جو اسلوب اختیار کیا ہے اس میں وہ احکام اور ہدایات و دلائل بھی ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل فرمائے ہیں اور اس میں وہ دلائل ، شواہد اور اشارات بھی ہیں جو اس کائنات کی کھلی کتاب میں موجود اور مشاہد ہیں۔ قرآن کریم اس پوری کائنات کو انسانی شخصیت کے لئے موضوع غوروفکر قرار دیتا ہے اور یہ حکم دیتا ہے کہ اس کائنات کے اشارات کو اخذ کرو ، کیونکہ اس کائنات میں ایسے دلائل موجود ہیں جو اللہ کی تدبیر اور تقدیر کی طرف اشارات کرتے ہیں۔ پھر قرآن مجید وحی متلو اور کتاب کائنات کے ساتھ ، انسانی تاریخ کے اہم واقعات کو بھی ماخذ علم و ہدایت قرار دیتا ہے ۔ انسانی تاریخ میں دست قدرت کی تدبیر و تقدیر کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ چناچہ قرآن انسان کو تاریخ کے سامنے بھی پیش کرتا ہے اور یہ حکم دیتا ہے کہ انسان اپنے حس و شعور اور قوت مدرکہ کو تاریخ پر غور کرنے کے لئے استعمال کرے۔ اب لیجئے اس کائنات کی کھلی کتاب کو ، یہ سورة اس کے کئی صفحات کو پیش کرتی ہے۔ اکثر مقامات پر آیات الٰہیہ قرآنیہ پیش کرنے کے بعد کتاب کائنات کو پیش کیا جاتا ہے۔ بعض نمونے ملاحظہ ہوں : المر تلک ایت۔۔۔۔۔ یومنون (١٣ : ١) ” یہ کتاب الٰہی کی آیات ہیں اور جو کچھ رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ عین حق ہے مگر اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے “۔ اللہ الذی۔۔۔۔ توقنون (٢) وھو الذی ۔۔۔۔۔ یتکفرون (٣) وفی الارض۔۔۔۔۔ یعقلون (٤) (١٣ : ٢ تا ٤) ” وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمان کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں ، پھر وہ اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرماہوا۔ اس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا۔ اس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقت مقرر تک کے لئے چل رہی ہے اور اللہ ہی اس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے۔ وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو ، اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے۔ اس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہا دئیے ہیں۔ اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کر دئیے ہیں اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے۔ ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں۔ ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر سے کام لیتے ہیں۔ اور دیکھو زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں ، جو ایک دوسرے سے متصل واقعہ ہیں ، انگور کے باغ ہیں ، کھیتیاں ہیں ، کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دہرے ، سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے ، مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں اور کسی کو کمتر۔ ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں “۔ چناچہ اس پوری سورة میں اس کائنات سے ایسے مناظر پیش کئے جاتے ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اللہ اس کا خالق ، مالک اور حاکم ہے اور اس پوری کائنات کو وہ چلا رہا ہے۔ اور اس کے اندر اس کا نظام تقدیر چل رہا ہے ۔ اس کے بعد پھر قرآن کریم لوگوں کو نصیحت کرتا ہے۔ وہ ان تمام مشاہد ومناظر کو اچھی طرح دیکھتے ہیں اور پھر اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ اللہ دوبارہ تخلیق کرے گا۔ وحی کا انکار اس بنا پر کرتے ہیں کہ یہ قرآن بعث بعد الموت کا مدعی ہے۔ وان تعجب فعجب۔۔۔۔۔ خلدون (١٣ : ٥) ” اگر تمہیں تعجب کرنا ہے تو تعجب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ ” جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کئے جائیں گے “۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہوں گے۔ یہ جہنمی ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے “۔ ھو الذی یریکم۔۔۔۔۔ الثقال (١٢) ویسبح الرعد۔۔۔۔ من یشاء (١٣) (١٣ : ١٢- ١٣) ” وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے ، جنہیں دیکھ کر تمہیں اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں اور امیدیں بھی بندھتی ہیں۔ وہی تو ہے جو پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھاتا ہے ، بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے ، اور فرشتے اس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے تسبیح کرتے ہیں۔ وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے اور بسا اوقات انہیں جس پر چاہتا ہے ، گرا دیتا ہے “۔ اللہ اس کائنات کے صفحات ان لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں اور اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں ، حالانکہ وہ اللہ کی ربوبیت کے آثار رات دن مشاہدہ کرتے ہیں۔ اللہ کی قدرت اور اس کی سلطنت کے آثار ہر وقت دیکھتے رہتے ہیں ، یہ دیکھتے ہیں کہ یہ پوری کائنات اس کی مطیع فرمان ہے۔ وہ اس کائنات کے اندر اپنے بندوں کی بھلائی کے لئے تصرفات کرتا ہے اور اس کائنات میں اس کے سوا کوئی کسی قسم کا تصرف ، اور تدبیر و تقدیر نہیں کرسکتا۔ وھم یجادلون ۔۔۔۔۔۔ المحال (١٣) لہ دعوۃ الحق۔۔۔۔۔ فی ضلل (١٤) وللہ یسجد من ۔۔۔۔۔۔ والاصال (١٥) السجدہ ، قل من رب ۔۔۔۔۔۔ الواحد القھار (١٦) (١٣ : ١٣ تا ١٦) ” لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں ، فی الواقع اس کی چال بڑی زبردست ہے۔ اسی کو پکارنا برحق ہے۔ رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں ، وہ ان کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔ انہیں پکارنا ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اس سے درخواست کرے کہ تو میرے منہ تک پہنچ جا ، حالانکہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں۔ بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیرے ہدف ! وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعاً و کرھاً سجدہ کر رہی ہے اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اس کے آگے جھکتے ہیں۔ ان سے پوچھو ، آسمان و زمین کا رب کون ہے ؟ کہو ، اللہ۔ پھر ان سے کہو کہ حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھہرا لیا جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے ؟ کہو ، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے ؟ کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں ؟ اور اگر ایسا نہیں تو کیا ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اس کی وجہ سے ان پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہوگیا ؟ کہو ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے ، سب پر غالب ! “ یوں یہ کائنات دلائل قدرت اور اشارات ایمان کی ایک بھر پور نمائش گاہ بن جاتی ہے۔ یہ انسانی فطرت کو نہایت گہری اور جامع منطق اور سوچ عطا کرتی ہے۔ اور یہ کائنات پوری انسانی شخصیت سے مخاطب ہوتی ہے۔ اس کے تمام قوائے مدرکہ سے ہمکلام ہوتی ہے ، اور یہ مکالمہ عجیب ہے اور نہایت منطقی اور مرتب ہے۔ اس کے بعد قرآن کریم انسان کے غوروفکر کے لئے انسانی تاریخ کو پیش کرتا ہے ، انسان کو قرآن کریم یہ سکھاتا ہے کہ اس کی پوری زندگی اور اس کا بہاؤ، اللہ کے دست قدرت میں ہے ، اللہ حاکم ، قاہر ، مدبر اور مکمل کنٹرول کرنے والا ہے۔ ویستعجلونک بالسیئۃ۔۔۔۔۔۔ لشدید العقاب (١٣ : ٦) ” یہ لوگ بھلائی سے پہلے برائی کے لئے جلدی مچا رہے ہیں ، حالانکہ ان سے پہلے عبرت ناک مثالیں گزر چکی ہیں اور بیشک تیرا رب بخشش والا ہے انسانوں کے لئے ان کے ظلم پر اور وہ سخت سزا دینے والا بھی ہے “۔ اللہ یعلم ۔۔۔۔۔ بمقدار (٨) علم الغیب ۔۔۔۔۔ المتعال (٩) سواء منکم ۔۔۔۔ بالنھار (١٠) لہ معقبت ۔۔۔۔۔ من وال (١١) (١٣ : ٨ تا ١١) ” اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے ، جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے۔ ہر چیز کے لئے اس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے۔ وہ پوشیدہ اور ظاہر ، ہر چیز کا عالم ہے۔ وہ بزرگ ہے اور ہر حال میں بالا تر رہنے والا ہے۔ تم میں سے کوئی شخص خواہ زور سے بات کرے یا آہستہ ، اور کوئی رات کی تاریکی میں چھپا ہوا ہو یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو ، اس کے لئے سب یکساں ہیں۔ ہر شخص کے آگے اور پیچھے اس کے مقرر کئے ہوئے نگراں لگے ہوئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل لیتی اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی ، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہو سکتا ہے “۔ اللہ یبسط الرزق۔۔۔۔۔۔ الا متاع (١٣ : ٢٦) ” اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے۔ یہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں ، حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاع قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ولا یزال۔۔۔۔۔ المیعاد (١٣) ولقد استھزئ۔۔۔۔۔ کان عقاب (٣٢) (١٣ : ٣١- ٣٢) ” جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ ان پر ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہتی ہے یا ان کے گھر کے قریب کہیں نازل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پورا ہو۔ اور اللہ یقیناً اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے ، مگر میں نے ہمیشہ منکرین کو ڈھیل دی اور آخر کار ان کو پکڑ لیا ، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی “۔ اولم یروا۔۔۔۔ سریع الحساب (٤١) وقد مکر ۔۔۔۔ عقب الدار (٤٢) (١٣ : ٤١-٤٢) ” کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم اس سرزمین پر چلے آرہے ہیں اور اس کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آتے ہیں ؟ اللہ حکومت کر رہا ہے۔ کوئی اس کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے اور اسے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ ان سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں وہ بھی بڑی بڑی چالیں چل چکے ہیں ، مگر اصل فیصلہ کن چال تو پوری کی پوری اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کون کیا کچھ کمائی کر رہا ہے ، اور عنقریب یہ منکرین حق دیکھ لیں گے کہ انجام کس کا بخیر ہوتا ہے “۔ یوں قرآن کریم اپنے منہاج کے مطابق انسانی تاریخ سے شواہد اور بصیرت افروز دلائل پیش کرتا ہے اور ان کو اس قدر موثر بنا دیتا ہے کہ وہ مجموعی طور پر انسانی فطرت کو اپیل کرتے ہیں اور یہ دلائل نہایت منظم اور مرتب انداز میں پیش کئے جاتے ہیں۔ مذکورہ بالا تصریحات سے ہمیں ایک نشان راہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ دعوت اسلامی کا اہم نشان ہے۔ وہ یہ کہ قرآن کریم انسانی شخصیت کو ہمہ جہت اور ہمہ پہلو خطاب کرتا ہے۔ قرآن انسانی شخصیت کے کسی ایک پہلو کو خطاب نہیں کرتا مثلاً فکرو ذہن کا پہلو یا الہام و بصیرت کا پہلو ، یا احساسات اور شعور کا پہلو۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم قرآن کریم کو دعوت اسلامی کی گائیڈ بک بنا لیں۔ داعی ہر مسئلہ کی تلاش تمام دوسرے ذرائع سے پہلے قرآن سے کرے ، اور قرآن سے معلوم کرے کہ وہ لوگوں کو دعوت کس اسلوب اور کس طریقے سے دے اور کس طرح مردہ دلوں کی زندگی دے اور کس طرح وہ بجھی ہوئی روحوں میں آگ لگائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس اللہ نے قرآن کو اتارا وہی خالق انسان ہے۔ وہ جانتا ہے کہ انسان کا مزاج کیسا ہے اور اس کی ساخت کیسی ہے۔ وہ انسانی نفسیات کے نشیب و فراز سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ان حضرت میں کہاں کہاں ٹیٹرھ ہے۔ پھر داعیوں کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ اپنی دعوت کا آغاز اللہ کی وحدت الوہیت اور وحدت حاکمیت کے مسئلے سے کریں۔ اور یہ دعوت دیں کہ انسان پر اللہ کی بادشاہت کا قیام ضروری ہے اور ان داعیوں کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ لوگوں کو رب تعالیٰ سے متعارف کرانے کا وہی طریقہ اختیار کریں جو قرآن نے اپنایا ہے اور یہی طریقہ حق اور سچ ہے۔ ان لوگوں کو اللہ کے دین اور نظام حیات پر لے آئیں اور ان سے تسلیم کرائیں کہ اللہ بھی وہی ہے اور ایک ہے اور رب بھی وہی ہے اور حاکم ہے اور نظام اور قانون بھی اسی کا چلے گا جو شریعت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت کرانے کے لئے اور شرک کے ہر قسم کے شبہات کی مکمل نفی کے لئے قرآن کریم یہ تدبیر اختیار کرتا ہے کہ لوگوں کے سامنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حقیقت بیان کردی جائے اور منصب رسالت کی صحیح تعریف پیش کردی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام سے پہلے اہل کتاب کے درمیان حقیقت الوہیت کو حقیقت نبوت کے درمیان خلط ملط کر کے فکری انحراف پیدا ہوگیا تھا۔ عیسائیوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ذات میں ذات باری کے خصائص اور حاکمیت الٰہیہ کے خصائص کا اضافہ کردیا تھا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے لاہوتی اور ناسوتی مباحث نے عیسائیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا تھا۔ ایک عرصہ تک کئی فرقے دست و گریبان ہوتے رہے۔ یہ اختلاط صرف عیسائیوں کے ہاں ہی نہ ہوا بلکہ اس میدان میں بیشمار بت پرستانہ مذاہب کو دھوکہ ہوا۔ نبوت کے تصورات ناقابل فہم ہوگئے۔ بعض لوگوں نے نبیوں کو جادوگروں سے جوڑ دیا۔ بعض نے نبی اور کشفی فلاسفہ کو ایک قرار دیا۔ بعض نے نبیوں اور جنوں کے درمیان رشتہ قائم کیا اور بعض نے نبیوں کو خفیہ ارواح کے ساتھ جوڑ دیا۔ عرب بت پرستوں میں ان میں سے اکثر باتیں پائی جاتی تھیں۔ اس لیے بعض لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مطالبہ کرتے تھے کہ آپ غیب کے بارے میں ہمیں بتائیں۔ بعض یہ مطالبہ کرتے تھے کہ ہمیں خارق عادت معجزات دکھائیں۔ بعض متعین مطالبے بھی تھے۔ بعض آپ پر جادوگر ہونے کا الزام لگاتے تھے اور بعض لوگ یہ کہتے تھے کہ آپ پر جنوں کا اثر ہوگیا ہے اور آپ مجنون ہیں۔ بعض کا مطالبہ یہ تھا کہ آپ کے ساتھ فرشتے ہوں۔ غرض اس قسم کے چیلنج اور مطالبے وہ کرتے تھے اور الزامات لگاتے تھے۔ یہ سب مطالبات اس لئے تھے کہ وہ نبوت کے بارے میں بت پرستانہ جاہلی تصور رکھتے تھے۔ چناچہ قرآن کریم نے نبی اور منصب نبوت کی اصلیت پر طویل کلام کیا اور یہ بتایا کہ رسول کی طبعی حیثیت کیا ہے اور رسالت کی ماہیت کیا ہے اور الوہیت کی حقیقت کیا ہے ؟ جو اللہ وحدہ لا شریک کی ذات میں ہے ، اور بندگی اور عبودیت کی حقیقت کیا جو ان تمام انواع و اقسام مخلوقات میں پائی جاتی ہے۔ یہ بندگی اور عبودیت انبیاء (علیہم السلام) کی شخصیات میں بھی ممثل ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) بھی اللہ کے صالح بندے ہیں۔ وہ بشر کے علاوہ کوئی اور مخلوق نہیں ہیں۔ ان کے اندر ان صفات میں سے کوئی صفت نہیں ہے جو الٰہی صفات ہیں اور ان کو جنات اور کسی اور خفیہ مخلوق کے ساتھ کوئی تعلق و نسبت نہیں ہے۔ بس فقط ان پر اللہ کی وحی آتی ہے اور اس اسلامی وحی کے ساتھ بھی ان کو کسی خارق عادت معجزہ کو ظاہر کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اگر کوئی معجزہ صادر ہوتا ہے تو وہ اللہ کے اذن سے ہوتا ہے ، وہ انسانوں میں سے انسان ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اللہ نے ان کو منصب رسالت کے لئے منتخب کرلیا ہے اور نبی اور رسول منتخب ہونے کے بعد بھی وہ بشر اور بندے ہی رہے۔ چناچہ اس سورة میں کئی مقامات پر مقام رسالت اور طبیعت نبی کی وضاحت کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا کہ نبی اور رسول کے حدود کیا ہیں ، چناچہ بت پرستیوں نے نبی کی ذات کے ساتھ جن غلط تصورات و افکار کو وابستہ کردیا تھا ان کو صاف کیا گیا اور نبیوں کی طرف جن قصوں اور دیو مالائی کہانیوں کی نسبت کی جاتی تھی اس کی مکمل نفی کردی گئی۔ جن کی وجہ سے خصوصاً اہل کتاب کے افکار و عقائد میں فساد پیدا ہوا۔ چناچہ اس سورة نے ان اداروں کے اندر داخل شدہ بت پرستانہ اوہام اور کہانیوں کو مکمل طور پر صاف کردیا۔ یہ مباحث قرآن نے محض لاہوتی اور ناسوتی فلاسفی کے طور پر نہیں چھیڑے۔ نہ کسی فلسفیانہ علمی بحث کے طور پر ، بلکہ یہ مباحث اس وقت کے معاشرے میں اٹھنے والے عملی سوالات کے جواب میں آئے ہیں۔ اس لیے یہ جوابات عملی چیلنج کے جواب میں ایک رد عمل اور تحریک کے طور پر آئے ہیں اور یہ اس وقت برپا جہاد میں سے ایک عملی جہاد تھا ، مثلاً : ویقول الذین ۔۔۔۔ قوم ھاد (١٣ : ٧) ” یہ لوگ جنہوں نے تمہاری بات ماننے سے انکار کردیا ہے کہتے ہیں کہ ” اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتری ؟ تم محض خبردار کردینے والے ہو اور ہر قوم کے لئے ایک راہنما ہے “۔ ویقول الذین ۔۔۔۔ من اناب (١٣ : ٢٧) ” یہ لوگ جنہوں نے انکار کردیا ، کہتے ہیں ” اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتری “۔۔۔۔ کہو ، اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اس کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے “۔ کذلک ارسلنک ۔۔۔۔۔ والیہ متاب (١٣ : ٣٠) ” اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اسی شان سے ہم نے تم کو رسول بنا کر بھیجا ہے ، ایک ایسی قوم میں جس سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں ، تا کہ تم ان لوگوں کو وہ پیغام سناؤ جو ہم نے تم پر نازل کیا ہے اس حال میں کہ وہ اپنے نہایت مہربان خدا کے کافر بنے ہوئے ہیں۔ ان سے کہو کہ وہی میرا رب ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی میرا ملجا و ماویٰ ہے “۔ ولقد ارسلنا۔۔۔۔۔ اجل کتاب (١٣ : ٣٨) ” تجھ سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں ، اور ان کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا ، اور کسی رسول کو بھی یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نشانی خود لا دکھاتا۔ ہر دور کے لئے ایک کتاب ہے “۔ وان ما نرینک ۔۔۔۔۔ وعلینا الحساب (١٣ : ٤٠) ” اے نبی جس برے انجام کی دھمکی ہم ان لوگوں کو دے رہے ہیں ، اس کا کوئی حصہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم تمہیں اٹھا لیں بہرحال تمہارا کام صرف پیغام دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ رسالت کے منصب کی نوعیت اور رسول کے اختیارات کی حدود کو ان آیات میں نہایت اچھی طرح واضح کردیا جاتا ہے کہ رسول تو صرف ڈرانے والے ہیں ، اس کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ جو پیغام آپ تک آیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دے اور جو وحی آتی ہے اس کی تلاوت کرے۔ وہ کوئی معجزہ اللہ کے حکم کے بغیر نہیں پیش کرسکتا۔ وہ اللہ کے بندے ہیں ، اللہ ان کے بھی رب ہیں اور آپ نے بھی اللہ ہی کے سامنے جانا ہے۔ آپ دوسرے انسانوں کی طرح انسان ہیں۔ آپ نے شادی کی اور آپ کی اولاد ہوئی اور آپ نے اپنی انسانیت اور بشریت کو اپنے تمام تقاضوں کے ساتھ برتا۔ جس طرح آپ نے اللہ کی عملاً بندگی کی اور بندگی کے تمام حقوق ادا کئے۔ قرآن نے مکمل صفائی کے ساتھ دنیا کی فضا سے منصب نبوت اور ذات انبیاء کے ساتھ وابستہ اوہام و خرافات کو صاف کیا اور یہ ابر آلود مطلع صاف ہوگیا۔ کلیسا نے نبی اور نبوت کے ساتھ اور مسیح اور ان کی والدہ کے ساتھ جو خود ساختہ عقائد متعلق کر دئیے تھے قرآن کریم نے ان کی نفی کردی۔ یا جس طرح دوسرے بت پرستانہ عقائد نے نبیوں کے ساتھ جو ادہام و خرافات وابستہ کر دئیے تھے قرآن نے ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ عیسائیت کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے تو ایک سچے آسمانی دین کے رنگ میں پاک و صاف پیش کیا گیا تھا مگر ایک ہی صدی کے اندر عیسائیت ایک مکمل بت پرستانہ دین بن گیا حالانکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو صرف اللہ کے بندے کے طور پر پیش کیا تھا۔ اس نکتے پر بحث کے خاتمے سے قبل درج ذیل آیت پر غور کرنا ضروری ہے۔ وان مانرینک۔۔۔۔۔ الحساب (١٣ : ٤٠) ” اور اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جس برے انجام کی دھمکی ہم ان لوگوں کو دے رہے ہیں اس کا کوئی حصہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم تمہیں اٹھالیں ، بہرحال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے “۔ یہ بات اس نبی سے کہی جا رہی ہے جس پر یہ قرآن وحی ہو کر نازل ہوا ہے۔ آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ خود یہ بات لوگوں کو بتائیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ دعوت دین کا انجام آپ کے اپنے اختیار میں نہیں ہے اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ خود آپ کے ہاتھوں ہی سے دین غالب ہو اور پھیل جائے۔ آپ کا فریضہ اس حد تک محدود ہے کہ آپ تبلیغ کریں ، ہدایت دینا یا نہ دینا اللہ کا کام ہے۔ اب یہ کام آپ کے جیتے جی ہوجائے یا اس سے پہلے آپ کو موت اپنی آغوش میں لے لے یہ امور آپ کے فرائض میں شامل نہیں۔ آپ کا فریضہ صرف یہ ہے کہ آپ یہ دعوت لوگوں تک پہنچا دیں۔ اس کے بعد حساب لینا اللہ کا کام ہے۔ اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کچھ اختیارات لے لیے گئے اور آپ کی دعوت کو محدود کردیا گیا۔ کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض ہی محدود ہیں اور فیصلہ کرنا صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آپ فرما دیجئے کہ میرے رسول ہونے پر اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے : (وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا) (اور کافر کہتے ہیں کہ آپ پیغمبر نہیں ہیں) (قُلْ کَفٰی باللّٰہِ شَھِیْدًا بَیْنِیْ وَ بَیْنَکُمْ ) (آپ فرما دیجئے کہ میرے تمہارے درمیان گواہ ہونے کے لیے اللہ کافی ہے) (وَ مَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْکِتٰبِ ) (اور وہ لوگ بھی گواہی کے لیے کافی ہیں جن کے پاس کتاب ہے) تم اگر نہ مانو تو تمہارے انکار کی کوئی پرواہ نہیں ‘ نیز اہل کتاب کے علماء کی گواہی بھی میرے لئے کافی ہے جو اپنی کتابوں میں میری نبوت کی پیشین گوئی پڑھتے آئے ہیں اور ان کے جذبہ انصاف نے انہیں مومن بنا دیا انہوں نے میری تصدیق کی اور مجھ پر ایمان لے آئے اہل علم کی گواہی کے بعد جاہلوں کا انکار بےحیثیت ہے۔ واللہ المستعان وعلیہ التکلان ولقد ثم تفسیر سورة الرعد والحمد للہ

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46:۔ یہ شکوی ہے۔ کفار مکہ محض عناداً و مکابرۃً کہتے کہ آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں حالانکہ وہ آپ کی صداقت کے دلائل قاہرہ اور آپ کی رسالت و نبوت پر معجزات واضحہ کا مشاہدہ کرچکے تھے۔ ” قُلْ کَفٰی بِاللہِ شَھِیْدًا الخ “۔” وَ مَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْکِتٰبِ “ سے علماء اہل کتاب (یہود و نصاریٰ ) مراد ہیں جو اسلام لا چکے تھے۔ ان کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ مشرکین مکہ ان پر اعتماد کرتے تھے۔ ” کانت شھادتھم قاطعۃ لقول الخصوم وھوم مؤمنوا اھل الکتب کعبداللہ بن سلام و سلمان الفارسی و تمیم الداری والنجاشی و اصحابہ قالہ قتادۃ و سعید بن جبیر “ (قرطبی ج 19 ص 335) ۔ یعنی اگر مشرکین مکہ آپ کی رسالت کا انکار کرتے ہیں تو آپ فرما دیں تمہارے انکار سے کیا ہوتا ہے میری صداقت پر خداوند تعالیٰ شاہد ہے اور اہل کتاب کے وہ علماء جن کی باتوں پر تم اعتماد کرتے ہو وہ بھی میری رسالت و نبوت کے شاہد عدل ہیں۔ اس لیے اب تمہارے انکار کی کوئی گنجائش نہیں تم محض ضد اور عناد کی وجہ سے انکار کر رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ کی شہادت یہ ہے کہ اس نے قرٓان میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کے واضح دلائل نازل فرما دئیے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا ” لٰکِنِ اللہُ یَشْھَدُ بِمَا اَنْزَلَ اِلَیْکَ اَنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ الایۃ “ (نساء ع 23) ۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین۔ سورة رعد میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات 1 ۔ ” اَللہُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلُّ اُنْثی “۔ تا۔ ” سَارِبٌ بِالنَّھَارِ “۔ نفی علم غیب از غیر اللہ۔ 2 ۔ ” وَ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہٖ “ تا ” وَھُوَ شَدِیْدُ الْمِحَال “ (رکوع 2) ۔ نفی شرک فی التصرف۔ 3 ۔ ” لہٗ دَعْوَۃُ الْحَقِّ “ تا ” وَ مَا دُعاءُ الْکٰفِرین اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ “ (رکوع 2) ۔ نفی شرک اعتقادی (شرک فی التصرف و شرک فی الدعاء) 4 ۔ وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ تا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصال (رکوع 2) ۔ نفی شرک فی التصرف 5 ۔ ” قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ “۔ تا۔” وَھُوَ الْوَاحِدُ الْقَھَارِ “ (رکوع 6) نفی شرک فی التصرف۔ 6 ۔ ” اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاءُ وَ یَقْدِرُ “ (رکوع 3) نفی شرک فی التصرف 7 ۔ ” قُلْ اِنَّمَا اُمِرْتُ “ تا ” وَاِلَیْہِ مَاٰب “ (رکوع 5) نفی شرک اعتقادی (شرک فی الدعاء) 8 ۔ ” وَمَاکَانَ لِرَسُوْلٍ “ تا ” لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ“ (رکوع 6) ۔ نفی تصرف و اختیار از رسل علیہم السلام۔ 9 ۔ اس سورت میں اس پر تنبہات مذکور ہیں کہ عالم الغیب اور کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لیے حاجت و مشکلات میں صرف اسی کو پکارو۔ 10 ۔ اللہ کے سوا جن کو مشرکین کارساز سمجھ کر پکارتے ہیں ان کو پکارنا بےسود ہے جیسا کہ پانی کو اپنے پاس آنے کو کہا جائے۔ 11 ۔ مسئلہ توحید کا ہر پہلو واضح دلائل کے ساتھ ثابت اور روشن ہوچکا ہے لیکن ضدی اور معاند لوگ ہرگز نہیں مانیں گے۔ اگرچہ پہاڑ لا کر ان کے سامنے رکھ دئیے جائیں۔ وہ الٹے عناد کی وجہ سے بےت کے اور بےڈھنگے سوالا کریں گے۔ 12 ۔ مسئلہ توحید کو صرف وہی لوگ مانیں گے جن کے دلوں میں انابت اور تلاش حق کا جذبہ موجود ہو۔ سورة رعد ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

43 ۔ اور اے پیغمبر یہ لوگ جو دین حق کے منکر ہیں یوں کہتے ہیں کہ آپ خدا کے فرستادہ نہیں ہیں اور آپ پیغمبر نہیں ہیں ۔ آپ فرما دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ اور وہ شخص جس کے پاس کتب آسمانی کا علم ہے گواہی کو کافی ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کافر ستادہ ہوں اور وہ خدا گواہ ہے اور کتب آسمانی میں میری پیشین گوئیاں موجود ہیں ان کتابوں کی میں تصدیق کرنے والا ہوں اس لئے ان کتابوں کا علم رکھنے میرے گواہ ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اللہ گواہ یوں ہے کہ سچ کو بڑھا دے اور جھوٹ کو مٹا دے اور گواہ ہیں پہلی کتاب جاننے والے کہ آگے بھی اسی طرح اتری ہے کتاب ۔ لم سورة رعد۔