Surat Ibrahim

Abraham

Surah: 14

Verses: 52

Ruku: 7

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة اِبْرٰهِیْم نام : آیت ۳۵ کے فقرے وَاِذْ قَالَ اِبْرٰ ھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا لْبَلَدَ اٰ مِنًا ، سے ماخوذ ہے ۔ اس نام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سورہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سوانح عمری بیان ہوئی ہے ، بلکہ یہ بھی اکثر سورتوں کے ناموں کی طرح علامت کے طور پر ہے ۔ یعنی وہ سورہ جس میں ابراہیم علیہ السلام کا ذکر آیا ہے ۔ زمانہ نزول : عام انداز بیان مکہ کے آخری دور کی سورتوں کا سا ہے ۔ سورہ رعد سے قریب زمانہ ہی کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہے ۔ خصُوصًا آیت ۱۳ کے الفاظ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِھِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْ دُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا ( انکار کرنے والوں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ یا تو تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے ) کا صاف اشارہ اس طرف ہے کہ اس وقت مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم انتہا کو پہنچ چکا تھا اور اہل مکہ پچھلی کافر قوموں کی طرح اپنے ہاں کے اہل ایمان کو خارج البلد کر دینے پر تل گئے تھے ۔ اسی بنا پر ان کو وہ دھمکی سنائی گئی جو ان کے سے رویہ پر چلنے والی پچھلی قوموں کو دی گئی تھی کہ لَنُھْلِکَنَّ الظّٰلِمِیْنَ ( ہم ظالموں کو ہلاک کر کے رہیں گے ) اور اہل ایمان کو وہی تسلی دی گئی جو ان کے پیش روؤں کو دی جاتی رہی ہے کہ لَنُسْکِنَنَّکُمُ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِھِمْ ( ہم ان ظالموں کو ختم کر نے کے بعد تم ہی کو اس سر زمین میں آباد کریں گے ) ۔ مرکزی مضمون اور مُدّعا : جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے اور آپ کی دعوت کو ناکام کر نے کے لیے ہر طرح کی بدتر سے بدتر چالیں چل رہے تھے ان کی فہمائش اور تنبیہ ۔ لیکن فہمائش کی بہ نسبت اس سورہ میں تنبیہ اور ملامت اور زجر و توبیخ کا انداز زیادہ تیز ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تفہیم کا حق اس سے پہلے کی سورتوں میں بخوبی ادا کیا جا چکا تھا اور اس کے باوجود کفار قریش کی ہٹ دھرمی ، عناد ، مزاحمت ، شرارت اور ظلم وجود میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

سورۃ ابراہیم تعارف دوسری مکی سورتوں کی طررح اس سورت کا موضوع بھی اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات اور ان کا انکار کرنے کے خوفناک نتائج پر تنبیہ ہے۔ چونکہ عرب کے مشرکین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مانتے تھے، اس لیے سورت کے آخر سے پہلے رکوع میں ان کی وہ پر اثر دعا نقل فرمائی گئی ہے جس میں انہوں نے شرک اور بت پرستی کی صاف صاف برائی بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی ہے کہ انہیں اور ان کے بیٹوں کو بت پرستی سے محفوظ رکھا جائے۔ اسی وجہ سے اس سورت کا نام سورۃ ابراہیم ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورة نمبر 14 رکوع 7 آیات 52 الفاظ و کلمات 835 حروف 3601 مقام نزول مکہ مکرمہ اس سورة میں حضرت ابراہیم کا نام آیا ہے اور ان کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے اسی مناسبت سے اس سورة کا نام سورة ابراہیم رکھا گیا ہے۔ اس سورة میں بھی دوسری مکی سورتوں کی طرح بنیادی عقائد توحید و رسالت، ایمان، عمل صالح، قیامت اور آخرت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کا واضح فرق بتایا گیا ہے۔ اس سورة کے مضامین کی ابتداء نزول قرآن سے کی گئی جس میں ان لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی تعلیمات سے اپنا پہلو بچاتے ہیں اور شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا کر سمجھتے ہیں کہ اب ان کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہے اور وہ پوری طرح محفوظ ہیں۔ فرمایا گیا کہ اللہ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کیلئے بہت سے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا تھا اور اب آخر میں ایک ایسے عظیم نبی اور رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا گیا ہے جن کے ساتھ ایک کامل کتاب عظیم سیرت اور سچائی کے پیکر صحابہ رام ہیں جو ساری دنیا کے لئے قیامت تک رہبر و رہنما ہیں۔ ایسے رسول کی مکمل اطاعت و فرماں برداری ہی نجات کا ذریعہ ہے۔ فرمایا کہ قرآن کریم ہر شخص کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کہ وہ اس کائنات کے ذرہ ذرہ پر غور کر کے اس نتیجہ تک پہنچ سکتا ہے کہ اس پوری کائنات کا خلاق ومالک اور اس کو چلان والا اللہ ہی ہے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی اللہ کی اطاعت و فرماں برداری میں گذاری۔ انہوں نے ایثار و قربانی کی وہ اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں جن کی اداؤں کی نقل کرنا بھی عبادت کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے اللہ کے حکم سے اپنی بیوی حضرت ہاجرہ اور دودھ پیتے بچے حضرت اسماعیل کو حجاز کے لق و دق صحرا میں نتہا چھوڑ دیا۔ پھر اس بیت اللہ کی بنیادوں کو اٹھایا جو طوفان نوح میں گر گئی تھیں۔ دونوں نے اللہ سے اس گھر کی قبولیت اور مرکزیت اور یہاں کے رہنے والوں کے لئے ہر طرح کی نعمتوں کی درخواستیں کیں جو قبول کرلی گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے اپنی امت کے ہر فرد سے ایک ہی بات کہی ہے کہ اگر تم نے اللہ و رسول کی اطاعت نہ کی تو دنیا اور آخرت میں ہر طرح کے نقصان میں رہوگے۔ اللہ نے کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کے متعلق فرمایا کہ کلمہ طیبہ درحقیقت توحید و رسالت پر پختہ ایمان و یقین کا نام ہے وہ اس درخت کی طرح ہے جس کی جڑیں گہرائیوں میں اتری ہوئی ہیں اور اس کی شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ بہترین سایہ اور مزیدار پھلوں والا درخت ہے اس کے برخلاف کلمہ خبیثہ یعنی کفر و شرک اس بدنما، بدمزہ اور کمزور پودے کی طرح ہے جس کی جڑیں زمین کے اوپر ہی ہیں جسے اکھاڑ پھینکنا آسان ہوتا ہے۔ فرمایا کہ جو کلمہ طیبہ کو اختیار کرتا ہے وہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے جس کو اکھاڑنا مشکل ہے جب کہ کلمہ خبیثہ پر عمل کرنے والے لوگ انتہائی کمزور بنیادوں پر ہیں جن کو کہیں بھی مضبوط اور عظمت حاصل نہیں ہے۔ فرمایا گیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت وفرماں برداری انسان کے لئے دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ اگر ان کی اطاعت نہ کی گئی تو دنیا بھی گئی اور آخرت بھی۔ ٭… مکہ مکرمہ کے آخری دور کی سورتوں میں سے ایک سورة ہے۔ ٭… اس سورة میں خاص طور پر تین انبیاء کرام کا ذکر کیا گیا ہے حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ فرمایا کہ جنہوں نے ان کی اطاعت کی وہی کامیاب ہوئے لیکن وہ لوگ سخت ناکام ہوئے جنہوں نے انبیاء کرام کا راستہ اختیار کرنے سے اپنا پہلو بچایا۔ ٭… کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کا ایک بڑا واضح فرق ارشاد فرمایا۔ ٭… فرمایا کہ نجات ان ہی لوگوں کی ہوگی جو کلمہ طیبہ پر عمل کرنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ ابراہیم کا تعارف یہ سورة مبارکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے نام سے منسوب کی گئی ہے۔ جن کا اسم گرامی اس سورة کی آیت ٣٥ میں مذکور ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نام نامی قرآن مجید میں مجموعی طور پر ٦٢ مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ اس عظیم سورت کی ابتدا میں قرآن مجید کا ان الفاظ میں تعارف کروایا گیا ہے کہ اے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر قرآن مجید اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو ہر قسم کی تاریکیوں سے نکال کر دنیا اور آخرت کی تابناکیوں میں لاکھڑا کریں۔ یہ اس ذات کبریا کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے جو ہر اعتبار سے غالب رہنے والا اور لائق تعریف ہے۔ مگر لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ آخرت کی لامتناہی زندگی اور بیش بہا نعمتوں کے بدلے میں دنیا کو ترجیح دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ لوگ پرلے درجے کی گمراہی میں بھٹک چکے ہیں۔ آپ سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسی ہی کتاب اور فرض تفویض کیا گیا تھا۔ مگر فرعون اور اس کے ساتھیوں نے اسے یکسر طور پر مسترد کردیا۔ جس کے نتیجہ میں انھیں تباہی کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ دراصل کفار کے اعمال کی حیثیت ریت کے ذرّات کی طرح ہے۔ جس طرح آندھی کے مقابلے میں ریت کے ذرات کو ٹھہراؤ حاصل نہیں۔ اسی طرح کفار کے نظریات اور اعمال کی کوئی بنیاد نہ ہے۔ یہ لوگ شیطان کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ قیامت کے دن شیطان کی حالت یہ ہوگی کہ وہ اپنے پیچھے لگنے والوں کو یہ کہے گا کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا کیونکہ میری اپنی نجات کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اب ہمیں ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں رہنا ہے۔ اس کے بعد جنت کا تذکرہ ہے جس میں جنتیوں کے لیے ہمیشہ سلامتی ہوگی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کلمہ توحید کو ایک سدا بہار درخت کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ جو ہر موسم میں سدا بہار اور پھل دیتا ہے اس کے ساتھ شرک کو ناپاک درخت قرار دیا ہے۔ کلمہ طیبہ دنیا اور آخرت میں ایمانداروں کے لیے قرار اور ثبات کا ذریعہ ہے۔ شرک اور کفر مشرک اور کافر کے لیے دنیا اور آخرت میں تباہی کا سبب ہے۔ سورۃ ابراہیم کے آخر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس دعا کا ذکر ہے جب انھوں نے حضرت ہاجرہ [ اور اپنے نو نہال اسماعیل (علیہ السلام) کو بیت اللہ کے پاس چھوڑا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس دعا کے بعد حضرت ہاجرہ سے رخصت ہوئے۔ ” الٰہی ! انھیں نماز پڑھنے کی توفیق عنایت کرنا، لوگوں کے دل ان کی طرف پھیردینا اور انھیں رزق حلال عطا فرماتے ہوئے اپنا شکریہ ادا کرنے کی توفیق عنایت فرمانا۔ “ سورة کے اختتام میں جہنمیوں کی سزا کا ذکر ہوا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے کہ لوگو ! اگر تم جہنم سے بچنا چاہتے ہو تو ایک الٰہ کی عبادت کرو اور اس کی عبادت کے تقاضے پورے کرو۔ یہی عقل اور دانش مندی کا راستہ اور دنیا و آخرت میں مشکلات سے نجات پانے کا ذریعہ ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

١۔۔۔۔ تا۔۔۔۔ ٥٢ سورة ابراہیم ایک نظر میں سورة ابراہیم ایک مکی سورة ہے اور اس کا موضوع وہی ہے جو اکثر مکی سورتوں کا موضوع ہے۔ یعنی اسلامی نظریہ حیات کے بنیادی مسائل ، وحی و رسالت ، عقیدۂ توحید ، بعث بعد الموت اور حساب و کتاب اور جزاء و سزا۔ لیکن اس موضوع کو پیش کرنے اور اس کے بنیادی حقائق بیان کرنے کے سلسلے میں یہ سورة ایک خاص منہاج بحث وبیان اختیار کرتی ہے ، جس طرح قرآن کریم کی تمام سورتوں میں منفرد نہج کلام اختیار کیا جاتا ہے۔ ہر سورة کی اپنی قضا ، اپنا طریقہ ادا ، خاص رنگ اور روشنی ہوتی ہے جس کے مطابق وہ موضوع کے اساسی حقائق پیش کرتی ہے۔ اس سورة کے اساسی حقائق کا رنگ ڈھنگ موضوع کے اعتبار سے دوسری مکی سورتوں جیسا ہی ہے لیکن ان حقائق کو مخصوص زاویہ سے پیش کر کے اور مخصوص روشنی میں پیش کر کے اس کے اشارات و اثرات کو دو چند کردیا گیا ہے ۔ ان بنیادی حقائق کو بیان کرتے ہوئے یہ سورة اپنے طول و عرض اور ہر طرف وحال کے مطابق حقائق کے بعض اطراف میں کمی اور بعض میں بیشی کردیتی ہے ، یوں وہی حقائق یہاں جدید حقائق نظر آتے ہیں اور اس طرح یہ سورة فنی اعتبار سے شاہکار ادبی اقتباسات کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس سورة کے نام “ سورة ابراہیم ” سے اس کی مخصوص فضا نمایاں ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ابو الانبیاء تھے۔ وہ نہایت ہی مبارک ، اللہ کے شکر گزار اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے اور نہایت ہی عاجزی کے ساتھ عبادت کرنے والے تھے۔ ان صفات ابراہیمی کا پورا سایہ اس سورة پر چھایا ہوا ہے۔ ان تمام حقائق پر بھی ابراہیمی رنگ غالب ہے جو اس سورة میں بیان ہوئے ہیں۔ طرز ادا اور اس کے اثرات پر بھی ابراہیمی رنگ غالب ہے۔ اس سورة میں کئی نظریاتی حقائق بیان کئے گئے ہیں ، لیکن دو باتیں پوری سورة پر چھائی ہوتی ہیں اور یہ دونوں باتیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زیر سایہ ہیں۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ یہ سورة تمام رسالتوں اور تمام رسولوں کو ایک ہی حقیقت سمجھتی ہے اور یہ کہ تمام رسولوں کی دعوت ایک تھی۔ ان کا موقف ایک تھا ، ایک ہی امت تھی جو ہمیشہ جاہلیت کے مقابلے میں کھڑی ہوگئی۔ جاہلیت بھی ہمیشہ ایک ہی رہی ہے یعنی وہ قوت جو دین اللہ کی تکذیب کرتی تھی۔ اگرچہ زمانے مختلف تھے اور اگرچہ رسولوں کے علاقے مختلف تھے۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں پر بیشمار نعمتیں نازل کیں اور اگر بندے اللہ کا شکر ادا کریں تو ان انعامات الٰہیہ میں شکر کے ذریعے اضافہ ہوجاتا ہے اور اگر کوئی قوم کفر اور ناشکری کرے اور اکثر لوگ ایسا کرتے رہتے ہیں تو اللہ کا عذاب بھی آتا ہے۔ یہ دونوں حقائق یا یہ دونوں پر تو اور رنگ اگرچہ اپنی جگہ ہیں اور ساری سورة کے روح رواں ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ سورة میں دوسرے حقائق بھی موجود ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان دونوں حقائق کا سایہ اسی پوری سورة پر غالب ہے۔ یہاں اس نکتے کی طرف اشارہ ضروری تھا۔ سور کا آغاز اس بات سے ہوتا ہے کہ کسی رسول کا منصب رسالت ہوتا کیا ہے۔ اس کے بنیادی فرائض کیا ہوتے ہیں ؟ یہ کہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنیوں میں لانا ، یہ کام وہ اپنے شوق سے نہیں کرتے بلکہ اللہ کے حکم سے کرتے ہیں۔ الر کتب۔۔۔۔ العزیز (١٤ : ١) لہ ملک السموت والارض “ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تا کہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ، ان کے رب کی توفیق سے ، اس خدا کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔ اور زمین اور آسمانوں کی ساری موجودات کا مالک ہے ”۔ اس کا خاتمہ بھی اسی مضمون پر ہوتا ہے ۔ آخرت میں اسی عظیم حقیقت یعنی عقیدۂ توحید پر ہوا ہے۔ ھذا بلغ ۔۔۔۔ الالباب (١٤ : ٥٢) “ یہ ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لئے اور یہ بھیجا گیا ہے اس لیے کہ ان کو اس کے ذریعے خبردار کردیا جائے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں خدا بس ایک ہی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں وہ ہوش میں آجائیں ”۔ اس سورة میں بتایا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اسی پیغام کے ساتھ بھیجا گیا تھا جس کے ساتھ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجے گئے ہیں اور ان کی بعثت کے مقاصد بھی وہی تھے جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہیں۔ ان کے لئے قرآن کریم جو الفاظ استعمال کرتا ہے وہ بھی وہی ہیں جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے استعمال ہوئے۔ ولقد ارسلنا ۔۔۔۔۔ الی النور (١٤ : ٥) “ ہم اس سے قبل موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیج چکے ہیں۔ اسے بھی ہم نے حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لا ”۔ اس سورة میں بتایا جاتا ہے کہ رسولوں کا عمومی فریضہ یہ ہے کہ وہ اللہ کا پیغام لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کریں۔ وما ارسلنا ۔۔۔۔۔ لھم (١٤ : ٤) “ اور ہم نے اپنا پیغام دینے کے لئے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے ، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تا کہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے ”۔ رسولوں کے فرائض کے ساتھ ساتھ رسولوں کی شخصیت کی حقیقت بھی یہاں بیان کردی گئی ہے اور ان کی ذات کی قوت اور اختیارات ہی ان کے فرائض منصبی کی حدود کا تعین کرتے ہیں۔ یہ کہ ایک رسول محض مبلغ ، ناصح اور کھلا ڈرانے والا ہوتا ہے۔ وہ کوئی معجزہ از خود نہیں دکھا سکتا۔ اگر ان کے ہاتھوں کسی معجزے کا صدور ہوتا ہے تو وہ اللہ کے اذن سے ہوتا ہے اور جس وقت اللہ کی مشیت ہوتی ہے اس وقت صدور ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ جس وقت رسول چاہے یا اس کی قوم چاہے معجزے کا صدور ہوجائے۔ اسی طرح کسی بھی رسول کے اختیار میں یہ بات نہیں ہوتی کہ وہ کسی کو از خود ہدایت دے دے یا گمراہی میں چھوڑ دے۔ ہدایت اور ضلالت اللہ کی سنت کے مطابق لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ رسولوں کی بشریت پر ہمیشہ اہل جاہلیت نے اعتراض کیا ہے۔ اس سورة میں بھی اہل جاہلیت نے رسولوں کی بشریت پر ان الفاظ میں اعتراض کیا ہے۔ قالوا ان انتم۔۔۔۔۔۔ بسلطن مبین (١٤ : ١٠) “ انہوں نے کہا ، تم کچھ نہیں ہو مگر ویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں ، تم ہمیں ان ہستیوں کی بندگی سے روکنا چاہتے ہو ، جن کی بندگی ہمارے باپ دادا کے وقت سے ہوتی چلی آرہی ہے۔ اچھا تو لاؤ کوئی صریح سند ”۔ اسی طرح رسولوں نے بھی یک زباں ہو کر ان کے اس خیال کی تردید کی۔ قالت لھم ۔۔۔۔۔ فلیتوکل المومنون (١٤ : ١١) “ ان کے رسولوں نے ان سے کہا ، واقعی ہم کچھ نہیں ہیں مگر تم ہی جیسے انسان لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے ، نوازتا ہے اور یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے ، کہ تمہیں کوئی سند لا دیں۔ سند تو اللہ ہی کے اذن سے آسکتی ہے اور اللہ ہی پر اہل ایمان کو بھروسہ کرنا چاہئے ”۔ دوران مضمون یہ بتایا جاتا ہے کہ لوگوں کو اندھیروں سے نکالنا اور روشنیوں میں داخل کرنا بھی اللہ کے اذن ہی سے ہو سکتا ہے۔ جہاں تک رسولوں کا تعلق ہے ، ان کی ڈیوٹی صرف یہ ہے کہ وہ قوم کے سامنے پیغام کھول کر بیان کردیں۔ اس کے بعد یہ کام اللہ کا ہے۔ فیضل اللہ۔۔۔۔ العزیز الحکیم (١٤ : ٤) “ پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے۔ وہ بالادست اور حکیم ہے ”۔ ان باتوں سے رسولوں کی حقیقت کا تعین بھی ہوجاتا ہے اور ان کے فرائض کا تعین بھی ہوجاتا ہے اور ان کے فرائض کا تعین بھی ہوجاتا ہے۔ رسولوں کی بشری حقیقت اور صفات میں سے کوئی چیز بھی ذات الٰہی اور صفات الٰہیہ کے ساتھ مماثلت نہیں رکھتی۔ یوں اللہ کی ذات وصفات سے کسی قسم کی مماثلت کی نفی ہوجاتی ہے۔ اس سورة میں اہل ایمان کے ساتھ صاف صاف وعدہ کیا جاتا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یقیناً پورا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اہل ایمان کو دنیا میں بھی اللہ کی مدد حاصل ہوگی اور ان کو اس زمین پر اقتدار اعلیٰ اور خلافت فی الارض کا منصب دیا جائے گا اور آخرت میں تو وہ جنتوں اور نعمتوں میں ہوں گے اور مکذبین کو واصل جہنم کیا جائے گا۔ قرآن مجید اس حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے کہ تمام رسول یک زبان ہو کر یہ بات کہتے ہیں اور ان کی امتیں اور تمام اقوام بھی رسولوں کو یک زبان ہو کر یہی بات کہتی ہیں : وقال الذین ۔۔۔۔۔ الظلمین (١٣) ولنسکننکم الارض۔۔۔۔۔ وخاف وعید (١٤) واستفتحوا۔۔۔۔۔ جبار عنید (١٥) (١٤ : ١٣ تا ١٥) “ اور منکرین نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ یا تو تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے۔ تب ان کے رب نے ان پر وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ہلاک کردیں گے اور ان کے بعد تمہیں زمین میں آباد کریں گے۔ یہ انعام ہے ، اس کا جو میرے حضور جواب دہی کا خوف رکھتا ہو اور میری وعید سے ڈرتا ہو۔ انہوں نے فیصلہ چاہا تا ہر جبار دشمن حق نے منہ کی کھائی ”۔ یہ سورة معرکہ حق و باطل کی تصویر کشی مناظر قیامت میں بھی کرتی ہے۔ وہاں اہل ایمان کی حالت یہ ہوگی۔ و ادخل الذین۔۔۔۔ فیھا سلم (١٤ : ٢٣) “ جو لوگ دنیا میں ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے وہ ایسے باغوں میں داخل کئے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہاں وہ اپنے رب کے اذن سے ہمیشہ رہیں گے اور وہاں ان کا استقبال سلامتی کی مبارکباد سے ہوگا ”۔ اور کافروں کی حالت یوں ہوگی۔ وتری المجرمین۔۔۔ الاصفاد (٤٩) سرابیلھم ۔۔۔ وجوھم النار (٥٠) (١٤ : ٤٩ – ٥٠) “ اس دن تم مجرموں کو دیکھو گے کہ زنجیروں میں ان کے ہاتھ پاؤں جکڑے ہوں گے ، تارکول کے لباس پہنے ہوں گے اور آگ کے شعلے ان کے چہروں پر چھائے جا رہے ہوں گے ”۔ اس معرکے کو یہ سورة ضرب الامثال کی صورت میں بھی بیان کرتی ہے۔ اہل حق کی مثال یوں دی جاتی ہے۔ الم تر کیف ۔۔۔۔۔ السماء (٢٤) توتی اکلھا ۔۔۔۔ یتذکرون (٢٥) ومثل کلمۃ ۔۔۔۔ من قرار (٢٦) یثبت اللہ الذین ۔۔۔ ما یشاء (٢٧) ( ١٤ : ٢٤ تا ٢٧) “ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے ؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے اچھی ذات کا درخت ، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے۔ یہ مثال اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں اور کلمہ خبیثہ کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے ، اس کے لئے کوئی استحکام نہیں ہے۔ ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا و آخرت ، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے ، اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے۔ اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے ”۔ اور دوسری جگہ ہے : مثل الذین کفروا ۔۔۔۔۔ الضلل البعید (١٤ : ١٨) “ جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا دیا ہو۔ وہ اپنے کئے کا کچھ بھی پھل نہ پا سکیں گے۔ یہ پرلے درجے کی گم گشتگی ہے ”۔ اس سورة کی پوری فضا پر دو حقائق چھائے ہوئے ہیں اور یہ دونوں حقائق ابو الانبیاء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ حضرت ابراہیم عبد شکور تھے ، اللہ کی طرف یکسو ہونے والے ، اور اللہ کے سامنے گڑ گڑانے والے بندے تھے۔ ان دو حقائق میں سے ایک یہ ہے کہ تمام رسول اور تمام رسالتیں درحقیقت ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ تمام رسولوں کی دعوت ایک تھی ، تمام کی امت ایک ہی امت تھی اور تمام امتوں نے اپنے اپنے دور میں جاہلیتوں کا مقابلہ کیا۔ دوسری حقیقت اس پوری سورة کی فضا پر یہ چھائی ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت عام ہے۔ تمام انسانوں پر اور ان میں سے اپنے مختار بندوں پر سب سے زیادہ اللہ کا احسان ہے۔ ان دونوں نکات پر ہم ذرا تفصیل سے بات کریں گے۔ پہلی حقیقت کو اس سورة میں ایک منفرد طرز بیان میں ظاہر کیا گیا ہے لیکن یوں کہ ہر رسول انفرادی طور پر منظر پر آیا ہے ، اس نے اپنی دعوت پیش کی ہے ، اس نے اپنی قوم سے انفرادی طور پر خطاب کیا ہے۔ اس کے بعد دوسرا رسول آیا ہے ، پھر تیسرا آیا ہے اور سب نے ایک ہی بات کی ہے اور سب کو اس کی قوم نے ایک ہی جواب دیا ہے۔ پھر اللہ نے سب کے ساتھ ایک ہی سلوک کردیا ہے۔ بعض کو دنیا میں سزا دی ہے اور بعض کو آخرت کے لئے مہلت دے دی ہے۔ لیکن طرز ادا یہ تھی کہ ہر رسول اپنی باری پر اسٹیج پر آیا اور اپنی بات کی اور چلا گیا۔ جس طرح کوئی فلم چلتی ہے اور مختلف کردار آتے اور جاتے ہیں۔ سورة اعراف اور سورة ہود میں خصوصیت کے ساتھ یہ انداز اختیار کیا گیا تھا۔ لیکن سورة ابراہیم ، یعنی ابو الانبیاء کی سورة میں تمام نبیوں کو ایک ہی جمیعت کی صورت میں ایک ہی صف میں کھڑا کیا گیا ہے۔ سب کی کشمکش اکٹھی دکھائی گئی ہے اور وہ قوم سے یکبارگی مخاطب ہیں۔ اقوام بھی یکبارگی جواب دیتی ہیں اور یہ کشمکش قیامت تک چلتی دکھائی گئی ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ سب رسولوں کی امت ایک جگہ ہے۔ تمام امم جاہلیہ بھی ایک جگہ جمع ہیں۔ زماں و مکان کے فاصلے مٹا دئیے گئے ہیں۔ گویا ان کے بیان مکان و زمان کے فاصلے عارضی تھے جو الٹا دئیے گئے۔ یہاں صرف دو عظیم حقائق کی کشمکش دکھائی گئی ہے یعنی ایمان اور کفر۔ ایک طرف ایمان ہے اور دوسری طرف کفر اور اشخاص کے بجائے یہ دونوں حقائق ایک دوسرے سے مخاطب ہیں۔ ان کے مقابلے میں زمان و مکان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ الم یاتکم نبوا ۔۔۔۔۔ الیہ مریب (٩) قالت رسلھم ۔۔۔۔۔ بسلطن مبین (١٠) قالت لھم رسلھم ۔۔۔۔ ۔ المومنون (١١) وما لنا ۔۔۔۔۔ المتوکل المتوکلون (١٢) وقال الذین ۔۔۔۔۔ الظلمین (١٣) ولنسکننکم ۔۔۔۔۔۔ وخاف وعید (١٤) (١٤ : ٩ تا ١٤) “ کیا تمہیں ان قوموں کے حالات نہیں پہنچے جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ؟ قوم نوح (علیہ السلام) ، عاد ، ثمود اور ان کے بعد آنے والی بہت سی قومیں جن کا شمار اللہ ہی کو معلوم ہے ؟ ان کے رسول جب ان کے پاس صاف صاف باتیں اور کھلی کھلی نشانیاں لیے ہوئے آئے تو انہوں نے اپنے منہ میں ہاتھ دبا لیے اور کہا کہ “ جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ، ہم اس کو نہیں مانتے اور جس چیز کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو اس کی طرف سے ہم سخت خلجان آمیز شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے رسولوں نے کہا “ کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے۔ وہ تمہیں بلا رہا ہے تا کہ تمہارے قصور معاف کرے اور تم کو ایک مدت مقرر تک مہلت دے۔ انہوں نے جواب دیا “ تم کچھ نہیں ہو مگر ویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں ، تم ہمیں ان ہستیوں کی بندگی سے روکنا چاہتے ہو جن کی بندگی ہمارے باپ دادا سے ہوتی چلی آرہی ہے۔ اچھا تو لاؤ کوئی صریح سند ”۔ ان کے رسولوں نے ان سے کہا “ واقعی ہم کچھ نہیں ہیں مگر تم ہی جیسے انسان۔ لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے اور یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ تمہیں کوئی سند لا دیں۔ سند تو اللہ ہی کے اذن سے آسکتی ہے اور اللہ ہی پر اہل ایمان کو بھروسہ کرنا چاہئے۔ اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جب کہ ہماری زندگی کی راہوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے ؟ جو اذیتیں تم لوگ ہمیں دے رہے ہو ان پر ہم صبر کریں گے اور بھروسہ کرنے والوں کا بھروسہ اللہ ہی پر ہونا چاہئے۔ آخرکار منکرین نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ “ یا تو تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے ”۔ جب ان کے رب نے ان پر وحی بھیجی کہ “ ہم ان ظالموں کو ہلاک کردیں گے اور ان کے بعد تمہیں زمین میں آباد کریں گے۔ یہ انعام ہے اس کا جو میرے حضور جواب دہی کا خوف رکھتا ہو اور میری وعید سے ڈرتا ہو ”۔ واستفتحوا ۔۔۔ عنید (١٥) ومن ورائہ جھنم ۔۔۔۔۔ صدید (١٦) یتجرعہ ولا ۔۔۔۔ عذاب غلیظ (١٧) (١٤ : ١٥ تا ١٧) “ انہوں نے فیصلہ چاہا تھا (تو یوں ان کا فیصلہ ہوا) اور ہر جبار دشمن حق نے منہ کی کھائی ، پھر اس کے بعد آگے اس کے لئے جہنم ہے۔ وہاں اسے کچ لہو کا سا پانی پینے کو دیا جائے گا جسے وہ زبردستی حلق سے اتارنے کی کوشش کرے گا اور مشکل ہی سے اتار سکے گا۔ موت ہر طرف سے اس پر چھائی رہے گی مگر وہ مرنے نہ پائے گا اور آگے ایک سخت عذاب اس کی جان کا لاگو رہے گا۔ یہاں ان آیات میں نوح (علیہ السلام) سے لے کر تمام اقوام اور تمام رسولوں کا سوال و جواب ایک ایک کر کے دے دیا گیا۔ یہاں زمان و مکان کے فاصلے دور ہوجاتے ہیں ، ایک عظیم حقیقت سامنے آتی ہے ، یہ کہ آدم کے بعد نبی آخر الزمان تک تمام رسولوں کی رسالت اور دعوت ایک ہے اور اس دعوت پر تمام اہل جاہلیت کا اعتراض بھی ایک ہے ، اور یہ کہ تمام متکبرین ، منکرین کا انجام بھی ایک ہے کہ وہ آخر کار شرمندہ و ناکام رہیں گے اور وہ عذاب جو ان سب منکرین حق کا انتظار کر رہا ہے ، وہ بھی ایک ہے۔ نیز اللہ کی طرف سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا گیا : الر کتب انزلنہ ۔۔۔۔ الی النور (١٤ : ١) “ یہ کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تا کہ تم لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ ”۔ اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے میں نقل کرنا۔ ولقد ارسلنا۔۔۔۔۔ الی النور (١٤ : ٥) “ اور ہم نے موسیٰ کو رسول بنا کر بھیجا تھا اپنی نشانیوں کے ساتھ کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لاؤ۔ یہ دونوں احکام ایک ہی قسم کے ہیں۔ انبیاء ورسل اور اہل کفر کا یہ معرکہ یہاں ہی ختم نہیں ہوجاتا بلکہ یہ معرکہ میدان آخرت میں بھی برپا ہوتا ہے ۔ قیامت کے مختلف مناظر میں بھی اس معرکے کے کچھ نشانات ملتے ہیں اور اس سورة میں بھی اس کے چند نمونے موجود ہیں۔ وبرزوا للہ جمیعا ۔۔۔۔۔۔ من محیص (٢١) وقال الشیطن ۔۔۔۔ ۔ لھم عذاب الیم (٢٢) وادخل الذین ۔۔۔۔ فیھا سلم (٢٣) (١٤ : ٢١ تا ٢٣) “ اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بےنقاب ہوں گے تو اس وقت ان میں سے جو دنیا میں کمزور تھے وہ ان لوگوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے ، کہیں گے “ دنیا میں ہم تمہارے تابع تھے ، اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لئے بھی کچھ کرسکتے ہو ؟ ” وہ جواب دیں گے “ اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمہیں دکھا دیتے۔ اب تو یکساں ہے خواہ ہم جزع فزع کریں یا صبر ، بہرحال ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں ”۔ اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا “ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کئے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کئے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا۔ میرا تم پر کوئی زور نہیں تھا ، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو ، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری۔ اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا میں اس سے بری الذمہ ہوں ، ایسے ظالموں کے لئے تو درد ناک سزا یقینی ہے۔ بخلاف اس کے جو لوگ دنیا میں ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کئے ہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کئے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہاں وہ اپنے رب کے اذن سے ہمیشہ رہیں گے ، اور وہاں ان کا استقبال سلامتی کی مبارکباد سے ہوگا ”۔ ولا تحسبن اللہ۔۔۔۔۔ الابصار (٤٢) مھطعین ۔۔۔۔۔ ھواء (٤٣) ( ١٤ : ٤٢- ٤٣) “ اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں ، اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو ، اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے ، اس دن کے لئے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی پھٹی رہ گئی ہیں ، سر اٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں ، نظریں اوپر جمی ہوئی ہیں اور دل اڑے جا رہے ہیں ”۔ وقد مکروا مکرھم ۔۔۔۔۔۔ الجبال (٤٦) فلا تحسبن ۔۔۔۔ ۔ ذوانتقام (٤٧) یوم تبدل الارض۔۔۔۔ القھار (٤٨) وتری المجرمین۔۔۔۔۔ الاصفاد (٤٩) سرابیلھم ۔۔۔۔ وجوھم النار (٥٠) (١٤ : ٤٦ تا ٥٠) انہوں نے اپنی ساری چالیں چل دیکھیں مگر ان کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا۔ اگرچہ ان کی چالیں ایسی غضب کی تھی کہ پہاڑ ان سے ٹل جائیں۔ پس اے نبی ؐ تم ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ اللہ کبھی اپنے رسولوں سے کئے ہوئے وعدے کے خلاف کرے گا۔ اللہ زبردست ہے اور انتقام لینے والا ہے۔ ڈراؤ انہیں اس دن سے جبکہ زمین و آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دئیے جائیں گے اور سب کے سب اللہ واحد اور قہار کے سامنے بےنقاب حاضر ہوجائیں گے۔ اس دن تم مجرموں کو دیکھو گے کہ زنجیروں میں ان کے ہاتھ پاؤں جکڑے ہوں گے ، تارکول کے لباس پہنے ہوں گے اور آگ کے شعلے ان کے چہروں پر چھائے جا رہے ہوں گے ”۔ ان سب آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ہی معرکہ ہے جو دنیا میں شروع ہوتا ہے اور آخرت کے میدان میں اس معرکے کا اختتام ہوتا ہے۔ یوں دنیا اور آخرت باہم مل جاتے ہیں اور ان میں کوئی فاصلہ اور جدائی نہیں رہتی۔ یہ امثال جو دنیا سے شروع ہو کر میدان آخرت میں جا کر اختتام پذیر ہوتی ہیں ، ان کے ۔۔۔ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ فریقین کے درمیان اس طویل معرکے کے خدوخال کیا ہیں ، اس کی نوعیت کیا ہے اور اس معرکے کے آخری نتائج کیا ہیں ، مثلاً کلمہ طیبہ ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے۔ یہ پاکیزہ درخت نبوت کا درخت ہے ، یہ ایمان کا درخت ہے۔ یہ سچائی اور بھلائی کا درخت ہے۔ بری بات ایک برے درخت کی طرح ہوتی ہے اور یہ برا درخت کیا ہے ، جاہلیت کا درخت ہے۔ باطل کا درملت ہے ، تکذیب ، شر اور سرکشی کا درخت ہے۔ ٭٭٭ دوسری حقیقت کا تعلق نعمتوں اور شکر کے ساتھ ہے ، بےبہا نعمتوں اور ان کی ناشکری اور سرکشی کے ساتھ ہے۔ یہ حقیقت بھی اس سورة کی فضا پر چھائی ہوئی ہے۔ مختلف مقامات پر سیاق کلام میں جا بجا بکھری ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں پر اپنی نعمتیں گنواتے ہیں ، خواہ وہ مومن ہوں یا کافر ہوں ، صالح ہوں یا بدکار ہوں ، نیک ہوں یا فاجر ہوں اور مطیع فرمان ہوں یا نافرمان ہوں۔ یہ اللہ کی رحمت ، اس کی مہربانی اور اس کا فضل و کرم ہے کہ کافر ، فاسق اور فاجر کو بھی اس کرۂ ارض پر انعامات سے نوازا جائے۔ بعینہ اسی طرح جس طرح مومن ، نیک اور مطیع فرمان کے لئے انعامات ہیں تا کہ وہ شکر ادا کریں۔ اس نعمت کو جب پیش کیا جاتا ہے اس کائنات کے نہایت ہی عظیم میدان میں پیش کیا جاتا ہے اور اس عظیم کائنات کے وسیع فریم ورک میں اسے رکھا جاتا ہے۔ اللہ الذی خلق۔۔۔۔۔ لکم الانھر (٣٢) وسخرلکم الشمس۔۔۔۔۔ والنھار (٣٣) و اتکم من کل۔۔۔۔۔۔ لظلوم کفار (٣٤) (١٤ : ٣٣- ٣٤) ” اللہ وہی تو ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا ، پھر اس کے ذریعے سے تمہارے رزق کے لئے طرح طرح کے پھل پیدا کئے جس نے کشتی کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے اور دریاؤں کو تمہارے لیے مسخر کیا۔ اور اس نے سورج اور چاند کو تمہارے تابع کردیا اور رات اور دن کو تمہارے لئے مسخر کردیا۔ جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کر نہیں سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بےانصاف اور ناشکرا ہے “۔ اللہ نے رسولوں کو لوگوں کی ہدایت کے لئے روانہ کیا ، یہ بھی ایک نعمت ہے جو مذکورہ بالا نعمت کے برابر ہے یا اس سے زیادہ ہے۔ کتب انزلنہ ۔۔۔۔۔ الی النور (١٤ : ١) ” اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تا کہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ “۔ اور روشنی اللہ کی نعمتوں میں سے بڑی نعمت ہے۔ یہاں جس نور کا تذکرہ ہو رہا ہے وہ بہت ہی بڑا نور ہے۔ یہ وہ نور ہے جس کے ذریعہ انسان کی پوری شخصیت منور ہوجاتی ہے۔ یہی تھا تمام رسولوں کا فریضہ ان اقوام میں جن کی طرف انہیں بھیجا گیا اور یہی تھا فریضہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی قوم میں ۔ پھر تمام رسولوں نے بھی اللہ کے انعام کا یوں ذکر کیا۔ یدعوکم لیغفرلکم من ذنوبکم (١٤ : ١٠) ” وہ تمہیں بلاتا ہے تا کہ تمہارے گناہ بخش دے “۔ لوگوں کو خود بلانا اور ان کی غلطی معاف کرنا ایک بہت بڑی نعمت ہے جو نور کی نعمت کے برابر ہے۔ بلکہ اس کے قریب تر ہے۔ اللہ کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کے انعامات کی یوں یاد دہانی فرمائی۔ واذ قال موسیٰ ۔۔۔۔۔۔ من ربکم عظیم (١٤ : ٦) ” یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا ، اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا۔ اس نے تم کو فرعون والوں سے چھڑایا جو تم کو سخت تکلیفیں دیتے تھے ، تمہارے لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہارے عورتوں کو زندہ بچا رکھے تھے۔ اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی “۔ اسی فضا میں رسولوں کے ساتھ اللہ کے وعدے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ فاوحی الیھم۔۔۔۔۔۔ الظلمین (١٣) ولنسکننکم الارض ۔۔۔۔ وخاف وعید (١٤) (١٤ : ١٣- ١٤) ” ہم نے ان کی طرف وحی کی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کریں گے اور ان کے بعد یقیناً زمین میں تمہیں بسائیں گے۔ یہ ان لوگوں کے لئے وعید ہے جو مجھ سے ڈرتے ہیں اور میری وعید سے ڈرتے ہیں “۔ یہ بھی اللہ کی بڑی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ پھر کہا گیا کہ اگر تم شکر نعمت بجا لاؤ گے تو اللہ کی نعمتوں میں اضافہ ہوگا۔ واذ تاذن ربکم ۔۔۔۔۔ لشدید (١٤ : ٧) ” اور یاد رکھو جب تمہارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے “۔ وقال موسیٰ ان ۔۔۔۔۔ لغنی حمید (١٤ : ٨) ” اور اگر تم کفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہوجائیں تو اللہ بےنیاز ہے اور اپنی ذات میں محمود ہے “۔ اس سورة میں یہ بھی کہا گیا کہ انسان بالعموم اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا۔ وان تعدوا ۔۔۔۔۔۔۔ لظلوم کفار (١٤ : ٣٤) ” اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بےانصاف اور ناشکرا ہے “۔ جو لوگ آیات الٰہیہ پر تدبر کرتے ہیں تو ان کی بصیرت تیز ہوجاتی ہے وہ مصائب پر صبر کرتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ان فی ذلک ۔۔۔۔ شکور (١٤ : ٥) ” بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر صبر کرنے والے شکر گزار کے لئے “۔ اس سورة میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذات کو صبر اور شکر کے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ وہ اللہ کے سامنے عاجزی کے ساتھ کھڑتے ہوتے ہیں۔ بہت زاری کے ساتھ دعا کرتے ہیں جبکہ وہ مسجد الحرام کے پاس تعمیر بیت اللہ کے بعد کھڑے ہیں۔ اس وقت وہ پیکر حمد و ثنا ہیں اور صبر و شکر کا نمونہ ہیں۔ واذ قال ابراھیم ۔۔۔۔۔ الاصنام (٣٥) رب انھن ۔۔۔۔۔۔ غفور رحیم (٣٦) ربنا انی اسکنت ۔۔۔۔۔ لعلھم یشکرون (٣٧) ربنا ۔۔۔۔۔ فی السماء (٣٨) الحمد للہ الذی ۔۔۔۔۔ لسمیع الدعاء (٣٩) رب اجعلنی ۔۔۔۔۔ وتقبل دعاء (٤٠) ربنا اغفرلی ۔۔۔۔۔ الحساب (٤١) (١٤ : ٣٥ تا ٤١) ” یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم نے دعا کی تھی کہ ” پروردگار ، اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔ پروردگار ، ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے ، لہٰذا جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقے پر چلے تو وہ یقیناً درگزر کرنے والا مہربان ہے۔ پروردگار میں نے ایک بےآب وگیاہ وادی میں ، اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار ، یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں ، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے ، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں۔ پروردگار ، تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں اور واقعی اللہ سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے ، نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ، شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق جیسے بیٹے دئیے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا رب ضرور دعا کو سنتا ہے۔ اے میرے پروردگار مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی ، پروردگار ، میری دعا قبول کر ، پروردگار ، مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اس دن معاف کر دیجیو جبکہ حساب قائم ہوگا “۔ چونکہ نعمت اور اس کا شکر یا ناشکری اس سورة کا بنیادی مضمون ہے اس لیے اس میں جابجا ایسی تعبیرات بکثرت آتی ہیں جو اس سورة کے مضمون اور اس کے مباحث کی فضا سے مطابقت رکھتی ہیں۔ وارزقھم من الثمرات لعلھم یشکرون (١٤ : ٣٧) ” ان کو پھلوں کا رزق دے شاید کہ وہ شکر بجا لائیں “۔ ان فی ذلک لایت لکل صبار شکور (١٤ : ٥) ” بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لئے جو صبر کرنے والا اور شکر گزار ہے “۔ الم تر الی ۔۔۔۔۔ دار البوار (١٤ : ٢٨) ” کیا تو نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کی وجہ سے اللہ کی نعمت کو بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں جھونک دیا “۔ اذکروا نعمۃ اللہ علیکم (١٤ : ٦) ” اللہ کی جو نعمتیں تم پر کی گئی ہیں ان کو یاد کرو “۔ الحمد للہ الذی ۔۔۔۔ واسحق (١٤ : ٣٩) ” شکر ہے اس خدا کے لئے جس نے بڑھاپے کے باوجود مجھے اسماعیل اور اسحاق عطا کئے “۔ جب انبیاء نے جھٹلانے والوں کے اعتراضات کو رد کیا تو یوں کہا : ولکن اللہ یمن علی من یشاء من عبادہ (١٤ : ١١) ” لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان کرتا ہے “۔ یہاں اللہ کے احسانات کو بیان کیا جاتا ہے کیونکہ اس پوری سورة میں مضمون اور فضا اللہ کی نعمتوں ، احسانات اور ان پر اللہ کے شکر کی ہے یا نا شکری کی۔ یوں اس سورة میں انداز تعبیر بھی سورة کے مضامین کی مناسبت سے اختیار کیا گیا ہے اور یہ قرآن مجید کا انداز ہے کہ وہ الفاظ و معانی سورة کے موضوع اور مضمون کی مناسبت سے لاتا ہے۔ ٭٭٭ یہ پوری سورة دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں حقیقت رسالت ، شخصیت رسول ، دنیا و آخرت میں اہل حق اور اہل باطل کے درمیان معرکہ آرائی اور پھر حق و باطل کی مثال کلمہ طیبہ اور کلمہ ۔۔۔۔ کے ساتھ۔ دوسرے حصے میں انسانوں پر اللہ کے انعامات ، ان لوگوں کا انجام جنہوں نے ان انعامات کی تکفیر کی ، اور سرکشی اختیار کی۔ اہل ایمان اور ان کی شکر گزاری اور اہل ایمان اور اہل اسلام کے سرخیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، کافروں اور ظالموں کا انجام ، اور قیامت کے مناظر سب سے خوفناک اور نہایت ہی اچھے مناظر جن میں حرکت اور زندگی بھر پور نظر آتی ہے اور دوسرے مضامین۔ غرض سورة کا خاتمہ بھی آغاز کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ ھذا بلغ للناس ۔۔۔۔ الالباب (١٤ : ٥٢) ” یہ ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لئے اور یہ بھیجا گیا ہے اس لیے کہ ان کو اس کے ذریعے خبردار کردیا جائے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں خدا بس ایک ہی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں وہ خوش ہوجائیں “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi