Surat Ibrahim

Surah: 14

Verse: 4

سورة إبراهيم

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمۡ ؕ فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۴﴾

And We did not send any messenger except [speaking] in the language of his people to state clearly for them, and Allah sends astray [thereby] whom He wills and guides whom He wills. And He is the Exalted in Might, the Wise.

ہم نے ہر ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کر دے اب اللہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے راہ دکھا دے ، وہ غلبہ اور حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Every Prophet was sent with the Language of His People; Guidance or Misguidance follows the Explanation Allah says: وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ... And We sent not a Messenger except with the language of his people, in order that he might make (the Message) clear for them. Allah is Kind and Compassionate with His creation, sending Messengers to them from among them and speaking their language, so that they are able to understand the Message that the Messengers were sent with. Allah said next, ... فَيُضِلُّ اللّهُ مَن يَشَاء وَيَهْدِي مَن يَشَاء ... Then Allah misleads whom He wills and guides whom He wills. after the proof and evidence have been established for the people, Allah misguides whom He wills from the path of guidance and guides whom He wills to the truth, ... وَهُوَ الْعَزِيزُ ... And He is the All-Mighty, whatever He wills occurs and whatever He does not will never occurs, ... الْحَكِيمُ the All-Wise. in His decisions, misleading those who deserve to be misled and guiding those who deserve guidance. This is from Allah's wisdom with His creation, every Prophet He sent to a people spoke their language and everyone of these Prophets were only sent to their people. Muhammad bin Abdullah, Allah's Messenger, peace and blessings be upon him, was sent to all people. It is recorded in the Two Sahihs that Jabir said that the Messenger of Allah said, أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الاَْنْبِيَاءِ قَبْلِي نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ وَجُعِلَتِ لِيَ الاَْرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَايِمُ وَلَمْ تُحَلَّ لاِأَحَدٍ قَبْلِي وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّة I have been given five things which were not given to anyone else before me. Allah made me victorious by awe, (by His frightening my enemies) for a distance of one month's journey. The earth has been made for me (and for my followers) a place for worship and a purifier. The war booty has been made lawful for me and it was not lawful for anyone else before me. I have been given the right of Intercession (on the Day of Resurrection). Every Prophet used to be sent to his nation only, but I have been sent to all mankind. Allah said, قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا Say: "O mankind! Verily, I am sent to you all as the Messenger of Allah... (7:158)

ہر قوم کی اپنی زبان میں رسول یہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کی انتہائی درجے کی مہربانی ہے کہ ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا تاکہ سمجھنے سمجھانے کی آسانی رہے ۔ مسند میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نبی رسول کو اللہ تعالیٰ نے اس کی امت کی زبان میں ہی بھیجا ہے ۔ حق ان پر کھل تو جاتا ہی ہے پھر ہدایت ضلالت اللہ کی طرف سے ہے ، اس کے چاہنے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ۔ وہ غالب ہے ، اس کا ہر کام حکمت سے ہے ، گمراہ وہی ہوتے ہیں جو اس کے مستحق ہوں اور ہدایت پر وہی آتے ہیں جو اس کے مستحق ہوں ۔ چونکہ ہر نبی صرف اپنی اپنی قوم ہی کی طرف بھیجا جاتا رہا اس لئے اسے اس کی قومی زبان میں ہی کتاب اللہ ملتی تھی اور اس کی اپنی زبان بھی وہی ہوتی تھی ۔ آنحضرت محمد بن عبداللہ علیہ صلوات اللہ کی رسالت عام تھی ساری دنیا کی سب قوموں کی طرف آپ رسول اللہ تھے جیسے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجھے پانچ چیزیں خصوصیت سے دی گئی ہیں جو کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں مہینے بھر کی راہ کی دوری پر صرف رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے ، میرے لئے ساری زمین مسجد اور پاکیزہ قرار دی گئی ہے ، مجھ پر مال غنیمت حلال کئے گئے ہیں جو مجھ سے پہلے کسی پر حلال نہیں تھے ، مجھے شفاعت سونپی گئی ہے ہر نبی صرف اپنی قوم ہی کی طرف آتا تھا اور میں تمام عام لوگوں کی طرف رسول اللہ بنایا گیا ہوں ۔ قرآن یہی فرماتا ہے کہ اے نبی اعلان کر دو کہ میں تم سب کی جانب اللہ کا رسول ہوں صلی اللہ علیہ وسلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 پھر جب اللہ تعالیٰ نے اہل دنیا پر یہ احسان فرمایا کہ ان کی ہدایت کے لئے کتابیں نازل کیں اور رسول بھیجے، تو اس احسان کی تکمیل اس طرح فرمائی کہ ہر رسول کو قومی زبان میں بھیجا تاکہ کسی کو ہدایت کا راستہ سمجھنے میں دقت نہ ہو۔ 4۔ 2 لیکن اس بیان و تشریح کے باوجود ہدایت اسے ملے گی جسے اللہ چاہے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] قرآن کا بیان کیا چیز ہے ؟ یعنی رسول کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی قوم کو ہم زبان ہونے کے باوجود قرآن کا بیان بتائے یا سکھائے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بیان محض قرآن کے الفاظ کو دہرا دینے کا نام نہیں بلکہ بیان میں قرآن کے الفاظ کا صحیح صحیح مفہوم بتانا، اس کی شرح و تفسیر، اس کی حکمت عملی اور طریق امتثال بتانا سب کچھ شامل ہے قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے نازل کرنے والے اور جس پر نازل کیا گیا ہے دونوں کے نزدیک قرآن کے الفاظ کا مفہوم متعین ہو۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ زید (متکلم) بکر (مخاطب) سے کہتا ہے کہ پانی لاؤ، تو بکر زید کے حکم کی تعمیل صرف اس صورت میں کرسکے گا جبکہ متکلم اور مخاطب دونوں کے ذہن میں پانی، اور لانا، دونوں الفاظ کا مفہوم متعین ہو اور وہ ایک ہی ہو۔ اور اگر زید کوئی ذو معنی لفظ بولے گا تو جب تک اس کی مزید وضاحت نہ کرے گا بکر اس پر عمل نہ کرسکے گا اسی طرح اگر زید کا مخاطب کوئی ایسا شخص ہو جو اردو کو سمجھتا ہی نہ ہو تو بھی وہ اس کے حکم کی تعمیل نہ کرسکے گا۔ اور سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے صرف الفاظ ہی نازل نہیں فرمائے بلکہ ان کا مفہوم بھی مخاطب (رسول اللہ) کے ذہن میں القا کردیا تاکہ امتثال امر میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ یعنی مفہوم کو مخاطب کے ذہن میں متعین کردینا ہی قرآن کا بیان ہے۔ قرآن کا بیان کیوں ضروری ہے ؟:۔ نیز اللہ تعالیٰ نے سورة القیامۃ میں واضح طور پر فرمایا کہ قرآن کے ساتھ اس کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے اور قرآن اور بیان دونوں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے اور یہی بیان رسول اللہ نے امت کو سکھایا تھا۔ مثلاً قرآن میں بیشمار مقامات پر (اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ ) کا لفظ آیا ہے۔ اس آیت میں صلوٰۃ کو قائم کرنے کا حکم ہے اور جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ صلوۃ ہے کیا چیز، تب تک تعمیل ناممکن ہے۔ لغت میں اس کے معنی دیکھنے سے تو کام نہیں چلے گا۔ کیونکہ یہ ایک شرعی اصطلاح ہے جس کی لمبی چوڑی تفصیل کی ضرورت ہے۔ مثلاً نماز ادا کرنے کی ترتیب، کتنی رکعات پڑھی جائیں۔ اس سے پہلے طہارت کا حکم، نمازوں کے اوقات وغیرہ یہ سب کچھ امت کو بتانا رسول اللہ کا کام تھا اور یہی قرآن کا بیان ہے۔ یہی حال دوسری شرعی اصطلاحات کا ہے اور وہ بھی بکثرت ہیں۔ مثلاً الٰہ، دین، عبادت، صلوٰۃ، صوم، حج، مناسک حج، طواف، تلبیہ، رکوع، سجود، قیام، عمرہ، آخرت، معروف و منکر وغیرہ ان سب اصطلاحات کا وہی مفہوم معتبر سمجھا جائے گا جو اللہ کے رسول نے بیان فرمایا ہو۔ قرآن کا بیان آپ کی ذمہ داری ہے :۔ علاوہ ازیں کئی الفاظ کثیر المعانی ہوتے ہیں۔ کچھ محاورۃً استعمال ہوتے ہیں۔ کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کے عرفی معانی اور ہوتے ہیں اور لغوی اور۔ ان سب الفاظ کی تفسیر و تشریح کا نام قرآن کا بیان ہے۔ کتاب کا محض اس زبان میں اترنا ہی کافی نہیں ہوتا جو قومی زبان ہو۔ بلکہ بہت سے مقامات ایسے ہوتے ہیں جن کے بیان کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن کا بیان آپ کی ذمہ داری تھی اور اسی بیان کو سنت کہا جاتا ہے۔ [ ٥] یہ بات نہیں کہ چونکہ اللہ ہر چیز پر غالب ہے لہذا وہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے ہدایت دے دے۔ بلکہ وہ حکیم بھی ہے اور اس کی حکمت کا یہی تقاضا ہے کہ جو ہدایت کا طالب ہو اسے ضرور ہدایت دی جائے اور گمراہ صرف اسے کرتا ہے جو گمراہی کی راہ اختیار کرے اور حق بات سننے کے لیے تیار ہی نہ ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِيُبَيِّنَ لَهُمْ : تاکہ وہ ان کے لیے کھول کر بیان کرے اور وہ اچھی طرح سمجھ سکیں اور ان پر حجت قائم ہو سکے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے گئے وہ اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے، وہ پیغمبر اس قوم کا ایک فرد ہوتا تھا اور وہ انھی کی زبان بولتا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت گو عام ہے اور قیامت تک کے تمام جن و انس کے لیے ہے، لیکن آپ کی قوم، جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوئے اور جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولین مخاطب تھی، عربی زبان بولتی تھی، اس لیے طبعی ترتیب کے مطابق آپ نے ان کو اللہ کا پیغام عربی زبان میں پہنچایا، مقصد یہ تھا کہ پہلے یہ قوم اس پیغام کو سمجھے اور پھر اسے دوسروں تک پہنچانے اور سمجھانے کا ذریعہ بنے۔ اگر قرآن تمام زبانوں میں نازل کیا جاتا تو تنازع، اختلاف اور تحریف احکام کے دروازے کھل جاتے اور دعوت اسلام کے لیے کسی مقام پر بھی مرکزیت قائم نہ ہوسکتی۔ عربی زبان میں نازل ہونے کے بعد دوسری اقوام کا عربی سیکھنا (جو تمام زبانوں سے آسان ہے) یا اس کا دوسری زبانوں میں ترجمہ ہوجانا تمام اقوام کی ہدایت کے لیے کافی ہے، جیسا کہ الحمد للہ ہو رہا ہے۔ فَيُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۔۔ : یعنی گو ہر پیغمبر اپنی دعوت اسی زبان میں پیش کرتا ہے جسے ساری قوم سمجھتی ہے، تاہم ہدایت و ضلالت کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہی میں پڑا رہنے دیتا ہے۔ آج بھی بہت سی عجمی قومیں اسلام کی حامی اور مددگار نظر آتی ہیں اور عرب ممالک باوجود عربی زبان کی خدمت و اشاعت کے اسلام سے منحرف اور دور ہو رہے ہیں۔ (الا ما شاء اللہ)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in the first sentence of this verse is the particular bless¬ing and convenience granted by Allah Ta’ ala that whenever He has sent a messenger to a people, He has sent him speaking their language, in order that he would convey Divine injunctions to them in their language and usage whereby understanding these becomes easy on them. If the language of the messenger had been different from that of his addres¬sees, it is evident that his people would have to undergo the burden of having to translate the injunctions before they could understand them and, still, the understanding of injunctions correctly would have re¬mained doubtful. Therefore, when a messenger was sent to the speakers of the Hebrew language, the language of the messenger was also He-brew. The language of the messenger sent to the Persians was also Per¬sian. The language of the messenger to the Berbers was appointed to be Berberi. It is possible that a person who was assigned to be a messenger would be an individual from among the same people to whom he was sent and his mother tongue would have been the language of those peo¬ple, and it is also possible that the language into which he was born may have been other than that of the people he was sent to, but as Allah Ta` ala would have it, He had things arranged in a manner that the mes¬senger learnt the language of the people he was to work with - as it was in the case of Sayyidna Lut (علیہ السلام) . Actually, he was a citizen of ` Iraq where the language spoken was Persian. But, after his migration to Syr¬ia, he married among the people there and the language of the Syrians became his own language. Then, Allah Ta’ ala made him the prophet of a region of Syria. As for our noble Messenger (علیہ السلام) ، his mission is, in terms of the area of operation, for the whole world and, in terms of the time duration, it is universally applicable right upto the last day of Qiyamah. No nation or group of people in this world, no matter which country they belong to and what language they speak, could be outside the circle of his mission as a messenger and prophet. And every new nation and every new lan¬guage which comes into existence upto the day of Qiyamah shall all be counted among the community to which the Da&wah (call) of the Holy Prophet will reach. This is expressly mentioned by the Holy Qur&an: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَ‌سُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (0 people, I am the messenger of Allah [ sent ] to you all - 7:158). According to a narration of Sayyidna Jabir (رض) appear¬ing in the Sahih of Al-Bukhari and Muslim, the Holy Prophet 0, while pointing out to his five distinctions among the universal community of prophets, has said: Before me, every messenger and prophet was sent to his people and community. Allah Ta’ ala sent me to all peoples who are the children of Adam (on this earth). Allah Ta’ ala willed that humankind on this earth should originate from Sayyidna Adam (علیہ السلام) whom He made the first prophet of human be¬ings. Then, in proportion to the increase in human population in terms of its social and economic status, arrangements to convey the right guid¬ance to them through messengers and prophets kept being made by Allah Ta` ala. Injunctions, laws and religious codes relevant to every peri¬od of time and to the needs of every people continued coming. Finally, when the development of the human scene reached the stage of matur¬ity, Allah Ta` ala sent the foremost among the line of prophets, Sayyidna Muhammad al-Mustafa, sallallahu &alaihi wa sallam, as the Messenger of the whole world, and the Kitab and Shari` ah He gave to him was given in its most complete and workable form which was valid for the whole world and for all times right upto the Last Day of Qiyamah. It was said in the Qur&an: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (That is, ‘Today, I have perfected your religion and made My favour complete for you - 5:3). The religious codes of past prophets, may peace be on all of them, were also perfect and complete in terms of their time and region. They too cannot be called imperfect or wanting. But, the perfection of the Shari&ah brought by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is not restricted to any spec¬ified time and region. It is absolutely perfect (that is, without restric¬tions or exceptions in any respect, or circumstances) and seen from this angle, the perfection of religion is exclusive to this Shari` ah, and this is the reason why the chain of prophethood was discontinued after the ap¬pearance of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who is the Last among the blessed prophets, may peace be upon all of them. Why Was the Qur&an Revealed in the Arabic Language? When messengers who spoke the language of past communities were sent among them, they did not have to work hard on translating the message brought by prophets. Now, a question arises here as to why the Holy Prophet was sent to Arabia alone with the Arabic language? And why was it that his Book too was revealed in the Arabic language specifically? But, a little deliberation would make the answer very clear. Everyone can understand when the mission and call of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) became common for all peoples of the world speaking hundreds of different languages, then, there existed only two alternatives for the guidance of all of them. The first alternative was that the Qur&an be revealed separately into the language of every group of people, and the teachings and instructions of the Holy Prophet also be made available separately in the language of every community of people. In view of the most perfect power of Allah Ta` ala, managing something like that was not difficult at all. But, the great objective of sending one Rasul, one Kitab and one Shari’ ah for all peoples of the world, an objective which sought to forge a religious, moral and social unity and mutually shared orientation, despite the existence of thousands of differences among all these peoples, would have remained unrealized in the event that such an alternative was taken to. Then, there was the other alternative of letting the Qur&an and Hadith for every people and every country be available in their separate languages. If this was ever done in that manner, it would have thrown the gates of interpolation in the Qur&an wide open through which count-less inroads in it could have been made. Thus, the miraculous quality of the Glorious Qur&an, that its original words still remain perfectly pro¬tected, a quality which cannot be denied even by non-conformists and de¬niers of the Qur&an, would have not survived intact. at would have happened that despite there being one religion and one book, its adher¬ents would have been dispersed on so many different tracks that there would have remained no single rallying pivot of unity. We can have some idea of this problem if we recall the amount of differences that arose in the interpretation and exegesis of the Holy Qur&an despite that it was re¬vealed in the single Arabic language - though, these differences did re-main within permissible limits. As for differences engineered through false and impermissible means, they just have no limits. But, notwith¬standing all this, there is a viable unity and a sense of distinct identity still present among all those people who observe and practice what the Qur&an teaches, no matter in whatever degree it may be. In short, the assumption that the Qur&an could have come for every human group separately making the mission and teaching of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) universal is something even a person of ordinary intelligence would not find correct. Therefore, it becomes necessary that the Qur&an be sent in one single language and the language spoken by the prophet should also be the same language of the Qur&an, and then its translations into other languages be made and circulated. After the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، his deputies, the ` Ulama of the community, should spread out the teachings and rules of guidance left behind by him among their peoples and in their language. Therefore, Allah Ta’ ala chose the Arabic language over all languages of the world for a number of reasons. The Distinctions of Arabic First of all, the Arabic language is the official language of the heav¬ens. The language of angels is Arabic. The Preserved Tablet (al-Lawh al-Mahfuz ) is in the Arabic language as the Qur&an tells us بَلْ هُوَ قُرْ‌آنٌ مَّجِيدٌ ﴿٢١﴾ فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ ﴿٢٢﴾ (Rather, it is a glorious Qur’ an in the Preserved Tablet - 85:21, 22). Then, there is Jannah, the Paradise which is the real home of human beings and to where they have to return - and its language is also Arabic. In the Mu&jim of al-Tabarani, Mustadrak of al-Hakim and in Shu&ab al-&Iman of Al-Baihaqi, there is a narration from Sayyidna ` Abdul¬lah ibn ` Abbas& (رض) which reports that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: اَحِبُّوا العَرَبَ لِثلاثِ لِاَنِی عَرَبِی والْقرآن عَرَبِی وکَلَام اَھلِ الجَنَّۃِ عَرَبِی (That is, &Love Arabs for three rea¬sons: (1) That I am- an Arab; (2) and the Qur&an is in Arabic; (3) and the language of the people of Paradise is Arabic.& [ In Mustadrak, Hakim calls this narration &Sahih.& The same rating appears in al-Jami` a1-Saghir. However, some Hadith experts have called it weak and not authentic ]. According to Ibn Taymiyyah, the subject of this Hadith is proven and cannot be rated any lesser than &Hasan& or good (Fayd al-Qadir Sharh al-Jami` al-Saghir, p. 179, v. 1). There is a narration reported in Tafsir al-Qurtubi that the language of Sayyidna Adam (علیہ السلام) in Jannah was Arabic. When he was sent to the earth, and after his repentance was accepted, some changes in the Arab¬ic language itself gave birth to the Syriac language. This appears to support narrations which have been reported from Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas and others (رض) . They say that the original language of all books Allah Ta’ ala has revealed was Arabic. It was ar¬changel, Sayyidna Jibra&il al-Amin (علیہ السلام) who relayed it to the prophets by translating it to them while they conveyed it to their communities in their language. These narrations have been reported by ` Allamah Al-Suyuti in Al-Itqan and by most commentators of the Qur&an under their comments on this verse. The gist of these reports is that the origi¬nal language of all Scriptures is Arabic. But, with the exception of the Holy Qur&an, other books have been given as translated into the lan-guage of a country or people. Therefore, their meanings are all from Allah Ta’ ala, but there is a change in words. It happens to be the unique feature of the Qur&an alone that, like its meanings, the words too are but from Allah Ta’ ala. And perhaps, this is the reason why the Qur&an extended a challenge that even the combined force of the Jinns and human-kind of the whole world could not produce the likeness of a small Surah, rather of one Ayah of the Qur&an - because, in terms of its high status in word and meaning, it is the Word of Allah and a Divine attribute which cannot be imitated by anyone. Given their spiritual status, other Scrip¬tures too are the Word of Allah, but none of the other Scriptures made such a claim, perhaps because they were not in their original form in Arabic but were its translation. Otherwise, in terms of being the Divine Word like the Qur&an, the uniqueness and inimitability of every such book was certain. One major reason for the choice of the Arabic language is the inher¬ent treasure of capabilities of the language itself for it has countless forms and methods through which a sense could be expressed. And there is another reason too that Allah Ta` ala has naturally gifted Muslims with a certain affinity and congruity with the Arabic lan¬guage because of which everyone goes on to learn the language easily as needed. This is the reason why, in every country the Sahabah reached, it took very little time when, without any compulsion, the Arabic language came to be the language of the whole country. Take Egypt, Syria and Iraq. Arabic was not their language. Today, they are known as Arab countries. There is yet another reason for this phenomena. The Arabs were, though involved in serious evil practices, yet their capabilities, qualities and feelings can be called unmatched even under such circumstances. That is why Allah Ta` ala raised His greatest and the last messenger from among them, and chose his language to be the language of the Qur&an, and gave instructions to His prophet that they are the ones who should be the first to be guided and educated: وَأَنذِرْ‌ عَشِيرَ‌تَكَ الْأَقْرَ‌بِينَ (and warn your close relatives - 26:214) - and the very first step taken was that He assembled around His messenger the kind of individuals from among these very people, individuals who sacrificed their life, wealth and children, almost everything for the sake of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) taking his teachings to be dearer than what they had, even their lives. And it was the result of this pattern of behaviour that their personalities became so deeply coloured by his company and teaching that an ideal society rose in the world the like of which was never witnessed by humanity on this earth and under these skies. The Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم charged this unique group with the mission of spreading the teachings of the Qur&an and said: of بَلِّغُوا عَنِّی وَلَو آیَۃً that is, &Convey everything you hear from me to my peo¬ple, even though it is a short verse.& His Sahabah, alert and sacrificing as ever, took this order of their master so seriously that they fanned out far and wide around the world and made people become familiar with the Qur&an and its teachings. Not even twenty five years had passed after the departure of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) from this mortal world that the message of the Qur&an started reverberating through the East and West. On the other hand it was a wisdom of Allah&s creation and a wise ar¬rangement of His destination that He inculcated in the entire Ummah of da&wah (i.e. all those addressed by the call of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) * includ¬ing the mushriks and the Jews and the Christians), a special aptitude and zeal towards learning, teaching, writing and publishing books and promoting their respective ideas, a parallel of which is not found in the past history of the world. It was for this reason that the non-Arab na¬tions not only acquired the disciplines of the Holy Qur&an and Sunnah with a great enthusiasm, but the advances made by non-Arabs in the ac¬quirement of the Arabic language and its promotion and wider dissemi¬nation did not lag behind the Arabs. It is certainly an astonishing fact that, in our time, the number of books on Arabic language, usage and grammar present in the world hap-pen to have been written by non-Arabs. And their contribution to the ser¬vices rendered for the collection and documentation of the Qur&an and Sunnah, and in its exegesis and explication, has not been any lesser than Arabs. So, it was in this manner that the language of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the Book he was given, despite being Arabic, overtook the whole world. At least, for all practical purposes of Da&wah (Call) and Tabligh (Spreading of the Message), the difference of Arab and non-Arab was eliminated. In every country and community, and among peoples speaking non-Arab languages, rose such ` Ulama& who communicated to their own people the teachings of Qur&an and Sunnah through their indigenous languages, easily and effectively. Thus, the wisdom of sending a messenger speaking the language of the addressed people stood realized and proved. Toward the end of the verse it was said that it is for the convenience of people that Allah Ta’ ala has sent His messengers speaking their lan¬guage, so that they can explain His injunctions to them clearly and satis¬factorily. But, it is still beyond human control to bring someone onto the right path. The truth is that it lies in the power of Allah Ta’ ala alone. Whom He wills He lets go astray and whom He wills He would give guidance. He is Mighty, and Wise.

خلاصہ تفسیر : اور (اس کتاب کے منزل من اللہ ہونے میں جو بعض کفار کو یہ شبہ ہے کہ یہ عربی کیوں ہے جس سے احتمال ہوتا ہے کہ خود پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تصنیف کرلیا ہوگا عجمی زبان میں کیوں نہیں تاکہ یہ احتمال ہی نہ ہوتا اور قرآن دوسری کتب سماویہ سے عجمی ہونے میں متوافق بھی ہوتا تو یہ شبہ محض لغو ہے کیونکہ) ہم نے تمام (پہلے) پیغمبروں کو (بھی) انہی کی قوم کی زبان میں پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تاکہ (ان کی زبان میں) ان سے (احکام الہیہ کو) بیان کریں (کہ اصل مقصود واضح بیان ہے تو سب کتابوں کا ایک زبان میں ہونا کوئی مقصد نہیں) پھر (بیان کرنے کے بعد) جس کو اللہ تعالیٰ چاہے گمراہ کرتے ہیں (کہ وہ ان احکام کو قبول نہیں کرتا) اور جس کو چاہیے ہدایت کرتے ہیں (کہ وہ ان احکام کو قبول کرلیتا ہے) اور وہی (سب امور پر) غالب ہے (اور) حکمت والا ہے (پس غالب ہونے کے سبب سب کو ہدایت کرسکتا تھا مگر بہت سی حکمتیں اس کو مقتضی نہ ہوئیں ) معارف و مسائل : پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی اس نعمت اور سہولت کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب بھی کوئی رسول کس قوم کی طرف بھیجا ہے تو اس قوم کا ہم زبان بھیجا ہے تاکہ وہ احکام الہیہ انہی کی زبان اور انہی کے محاورات میں بتلائے اور ان کو اس کا سمجھنا آسان ہو اگر رسول کی زبان امت کی زبان سے مختلف ہوتی تو ظاہر ہے کہ اس کے احکام سمجھنے میں امت کو ترجمہ کرنے کرانے کی مشقت بھی اٹھانا پڑتی اور پھر بھی احکام کو صحیح سمجھنا مشکوک رہتا اس لئے اگر عبرانی زبان بولنے والوں کی طرف کوئی رسول بھیجا تو رسول کی زبان بھی عبرانی ہی تھی فارسیوں کے رسول کی زبان بھی فارسی، بربریوں کے رسول کی زبان بربری رکھی گئی خواہ اس صورت سے کہ جس شخص کو رسول بنایا گیا وہ خود اسی قوم کا فرد ہو اور مادری زبان اسی قوم کی زبان ہو یا یہ کہ اس کی پیدائشی اور مادری زبان اگرچہ کچھ اور ہو مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا فرمائے کہ اس نے اس قوم کی زبان سیکھ لی جیسے حضرت لوط (علیہ السلام) اگرچہ اصل باشندے عراق کے تھے جہاں کی زبان فارسی تھی لیکن ملک شام کی طرف ہجرت کرنے کے بعد انہی لوگوں میں شادی کی اور شامیوں کی زبان ہی ان کی زبان بن گئی تب اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک خطہ شام کا نبی بنایا۔ اور ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی بعثت مکان و مقام کے اعتبار سے پوری دنیا کے لئے اور زمانے کے اعتبار سے قیامت تک کے لئے عام ہے دنیا کی کوئی قوم کسی ملک کی رہنے والی کسی زبان کی بولنے والی آپ کے دائرہ رسالت ونبوت سے باہر نہیں اور قیامت تک جتنی قومیں اور زبانیں نئی پیدا ہوں گی وہ سب کی سب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت دعوت میں داخل ہوں گی جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے (آیت) يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا۔ یعنی اے لوگو ! میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف اور صحیح بخاری ومسلم میں بروایت جابر (رض) مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام انبیاء (علیہم السلام) کے درمیان اپنی پانچ امتیازی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھ سے پہلے ہر رسول و نبی خآص اپنی قوم و برادری کی طرف مبعوث ہوا کرتا تھا اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام اقوام بنی آدم کی طرف مبعوث فرمایا حق تعالیٰ نے اس عالم میں انسانی آبادی کو حضرت آدم (علیہ السلام) سے شروع فرمایا اور انہی کو انسانوں کا سب سے پہلا نبی اور پیغمبر بنایا پھر انسانی آبادی جس طرح اپنی عمرانی اور اقتصادی حیثت سے پھیلتی اور ترقی کرتی رہی اسی کی مناسبت سے رشد و ہدایت کے انتظامات بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف رسولوں پیغمبروں کے ذریعہ ہوتے رہے زمانہ کے ہر دور اور ہر قوم کے مناسب حال احکام اور شریعتیں نازل ہوتی رہیں یہاں تک کہ عالم انسانی کا نشوونما سن کمال کو پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے سید الاولین والآخرین امام الانبیاء محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس پوری دنیا کا رسول بنا کر بھیجا اور جو کتاب و شریعت آپ کو دی وہ پورے عالم اور قیامت تک کے پورے زمانے کے لئے کامل ومکمل کر کے دی اور ارشاد فرمایا (آیت) اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ ۔ یعنی میں نے آج تمہارے لئے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تمہارے لئے پوری کردی۔ پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتیں بھی اپنے وقت اور اپنے خطہ کے اعتبار سے کامل و مکمل تھیں ان کو بھی ناقص نہیں کہا جاسکتا لیکن شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام کا کمال کسی خاص وقت اور خاص خطہ کے ساتھ مخصوص نہیں یہ کامل علی الاطلاق ہے اسی حیثیت سے تکمیل دین اس شریعت کے ساتھ مخصوص ہے اور اسی وجہ سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلسلہ نبوت ختم کردیا گیا۔ قرآن کریم عربی زبان میں کیوں ہے : یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح پچھلی امتوں کے رسول ان کے ہم زبان بھیجے گئے ان کو ترجمہ کرنے کی محنت کی ضرورت نہ رہی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف عرب میں عربی زبان کے ساتھ کیوں مبعوث ہوئے ؟ اور آپ کی کتاب قرآن بھی عربی زبان ہی میں کیوں نازل ہوئی لیکن غور و فکر سے کام لیا جائے تو جواب صاف ہے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور دعوت تمام اقوام دنیا کے لئے عام ہوئی جن میں سینکڑوں زبانیں رائج ہیں تو ان سب کی ہدایت کے لئے دو ہی صورتیں ممکن تھیں ایک یہ کہ قرآن ہر قوم کی زبان میں جدا جدا ہوتیں اللہ کی قدرت کاملہ کے سامنے اس کا انتظام کوئی دشوار نہ تھا لیکن تمام اقوام عالم کے لئے ایک رسول ایک کتاب ایک شریعت بھیجنے کا جو ایک عظیم مقصد ان تمام اقوام عالم میں ہزاروں طرح کے اختلافات کے باوجود دینی، اخلاقی، معاشرتی وحدت اور یک جہتی پیدا کرنا ہے وہ اس صورت سے حاصل نہ ہوتا۔ اس کے علاوہ جب ہر قوم ہر ملک کا قرآن و حدیث الگ زبان میں ہوتے تو اس میں تحریف قرآن کے بیشمار راستے کھل جاتے اور قرآن کریم کے کلام کا محفوظ ہونا جو اس کی ایسی خصوصیت ہے کہ اغیار اور منکرین قرآن بھی اس کے تسلیم کرنے سے گریز نہیں کرسکتے یہ معجزانہ خصوصیت قائم نہ رہتی اور ایک ہی دین ایک ہی کتاب کے ہوتے ہوئے اس کے ماننے والوں کی اتنی مختلف راہیں ہوجاتیں کہ کوئی نقطہ وحدت ہی باقی نہ رہتا اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم کے ایک عربی زبان میں نازل ہونے کے باوجود اس کی تعبیر و تفسیر میں کس قدر اختلافات جائز حدود میں پیش آئے اور ناجائز و باطل طریقوں سے اختلاف کی تو کوئی حد نہیں لیکن ان سب کے باوجود مسلمانوں کی قومی وحدت اور ممتاز تشخص ان سب لوگوں میں موجود ہے جو قرآن پر کسی درجہ میں بھی عامل ہیں خلاصہ یہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت و بعثت کا پوری اقوام دنیا کے لئے عام ہونے کی صورت میں ان سب کی تعلیم و ہدایت کی یہ صورت کہ قرآن ہر قوم کی زبان میں الگ الگ ہوتا اس کو تو کوئی ادنیٰ سمجھ کا آدمی درست نہیں سمجھ سکتا اس لئے ضروری ہے کہ قرآن کسی ایک ہی زبان میں آئے اور رسول کی زبان بھی وہی قرآن کی زبان ہو پھر دوسری ملکی اور علاقائی زبانوں میں اس کے ترجمے پہونچائے اور پھیلائے جائیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نائب علماء ہر قوم ہو ملک میں آپ کی دی ہوئی ہدایات کو اپنی قوم وملک کی زبان میں سمجھائیں اور شائع کریں اس کے لئے حق تعالیٰ نے تمام دنیا کی زبانوں میں سے عربی زبان کا انتخاب فرمایا جس کی بہت سی وجوہ ہیں عربی کی خصوصیات : اول یہ کہ عربی زبان آسمان کی دفتری زبان ہے فرشتوں کی زبان عربی ہے لوح محفوظ کی زبان عربی ہے جیسا کہ (آیت) قرآن بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌ فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ سے معلوم ہوتا ہے اور جنت جو انسان کا وطن اصلی ہے اور جہان اس کو لوٹ کر جانا ہے اس کی زبان بھی عربی ہے طبرانی، مستدرک حاکم، شعب الایمان بہیقی میں بروایت حضرت عبداللہ بن عباس (رض) منقول ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : احبوالعرب لثلاث لانی عربی والقران عربی و کلام اہل الجنۃ عربی، (اس روایت کو حاکم نے مستدرک میں صحیح کہا ہے جامع صغیر میں بھی صحیح کی علامت بتاتی ہے بعض محدثین نے اس کو ضعیف و مجروح کہا ہے) حافظ حدیث ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ مضمون اس حدیث کا ثابت ہے درجہ حسن سے کم نہیں (فیض القدیر شرح جامع صغیر، ص ١٧٩ ج ١) معنی حدیث کے یہ ہیں کہ تم لوگ تین وجہ سے عرب سے محبت کرو ایک یہ کہ میں عربی ہوں دوسرے یہ کہ قرآن عربی ہے تیسرے یہ کہ اہل جنت کی زبان عربی ہے۔ تفسیر قرطبی وغیرہ میں یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی زبان جنت میں عربی تھی زمین پر نازل ہونے اور توبہ قبول ہونے کے بعد عربی ہی زبان میں کچھ تغیرات ہو کر سریانی زبان پیدا ہوگئی اس سے ان روایات کی بھی تائید وتقویت ہوتی ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس (رض) وغیرہ سے منقول ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں انبیاء (علیہم السلام) پر نازل فرمائی ہیں ان کی اصلی زبان عربی ہی تھی جبرئیل امین نے قومی زبان میں ترجمہ کر کے پیغمبروں کو بتلایا اور انہوں نے اپنی قومی زبان میں امتوں کو پہونچایا یہ روایات علامہ سیوطی نے اتقان میں اور آیت مذکورہ کے ذیل میں اکثر مفسرین نے نقل کی ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سب آسمانی کتابوں کی اصل زبان عربی ہے مگر قرآن کریم کے سوا دوسری کتابیں ملکی اور قومی زبانوں میں ترجمہ کرکے دی گئی ہیں اس لئے ان کے معانی تو سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں مگر الفاظ بدلے ہوئے ہیں یہ صرف قرآن کی خصوصیت ہے کہ اس کے معانی کی طرح الفاظ بھی حق تعالیٰ ہی کی طرف سے آئے ہوئے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے یہ دعوٰی کیا کہ سارا جہان جن وانس جمع ہو کر بھی قرآن کی ایک چھوٹی سورة بلکہ ایک آیت کی مثال نہیں بنا سکتے کیونکہ وہ معنوی اور لفظی حیثیت سے کلام الہی اور ایک صفت الہی ہے جس کی کوئی نقل نہیں اتار سکتا معنوی حیثیت سے تو دوسری آسمانی کتابیں بھی کلام الہی ہیں مگر ان میں شاید اصل عربی الفاظ کے بجائے ترجمہ ہونے ہی کی وجہ سے یہ دعوٰی کسی دوسری آسمانی کتاب نے نہیں کیا ورنہ قرآن کی طرح کلام الہی ہونے کی حیثیت سے ہر کتاب کی یکتائی اور بےمثال ہونا یقینی تھا عربی زبان کے انتخاب کی ایک وجہ خود اس زبان کی ذاتی صلاحیتیں بھی ہیں کہ ایک مفہوم کی ادائیگی کے لئے اس میں بیشمار صورتیں اور طریقے ہیں اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان کو اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر عربی زبان سے ایک مناسبت عطا فرمائی ہے جس کی وجہ سے ہر شخص بآسانی عربی زبان بقدر ضرورت سیکھ لیتا ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام (رض) اجمعین جس ملک میں پہنچنے تھوڑے ہی عرصہ میں بغیر کسی جبر واکراہ کے پورے ملک کی زبان عربی ہوگئی، مصر، شام، عراق سب میں کسی کی زبان بھی عربی نہ تھی جو آج عربی ممالک کہلاتے ہیں۔ ایک یہ وجہ بھی ہے کہ عرب لوگ اگرچہ اسلام سے پہلے سخت بداعمالیوں کے شکار تھے مگر اس قوم کی صلاحیتیں اور ملکات اور جذبات ان حالتوں میں بھی بےنظیر تھے یہی وجہ تھی کہ حق تعالیٰ نے اپنے سب سے بڑے اور آخری رسول کو ان میں پیدا فرمایا اور ان کی زبان کو قرآن کے لئے اختیار فرمایا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب سے پہلے انہی کی ہدایت وتعلیم کا حکم دیا (آیت) وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ اور سب سے پہلے اسی قوم کے ایسے افراد اپنے رسول کے گرد جمع فرما دیئے جنہوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی جان، مال، اولاد سب کچھ قربان کیا اور آپ کی تعلیمات کو جانوں سے زیادہ عزیز سمجھا اور اس طرح ان پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت وتعلیم کا وہ گہرا رنگ چڑھا کہ پوری دنیا میں ایک ایسا مثالی معاشرہ پیدا ہوگیا جس کی نظیر اس سے پہلے آسمان و زمین نے نہیں دیکھی تھی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بےمثال جماعت کو قرآنی تعلیمات کے پھیلانے اور شائع کرنے کے لئے کھڑا کردیا اور فرمایا : بلغوا عنی ولوا آیۃ، یعنی مجھ سے سنی ہوئی ہر بات کو امت تک پہنچا دو جاں نثار صحابہ نے اس ہدایت کو پلے باندھا اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچ کر قرآن اور اس کی تعلیمات کو جہان میں پھیلا دیا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر پچیس سال گذرنے نہ پائے تھے کہ قرآن کی آواز مشرق و مغرب میں گونجنے لگی۔ دوسری طرف حق تعالیٰ نے تقدیری اور تکوینی طور پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت دعوت جس میں دنیا کے مشرکین اور اہل کتاب یہود و نصاری سب داخل ہیں ان میں ایک خاص ملکہ اور جذبہ تعیلم و تعلم اور تصنیف و تالیف، تبلیغ و اشاعت کا ایسا پیدا فرما دیا کہ اس کی نظیر دنیا کی پچھلی تاریخ میں نہیں ملتی اس کے نتیجہ میں عجمی اقوام میں نہ صرف قرآن وسنت کے علوم حاصل کرنے کا قوی جذبہ پیدا ہوا بلکہ عربی زبان کو حاصل کرنے اور اس کی ترویج و اشاعت میں عجمیوں کا قدم عرب سے پیچھے نہیں رہا۔ یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ اس وقت عربی لغت اور محاورات اور اس کے قواعد نحو و صرف (گرامر) پر جتنی کتابیں دنیا میں موجود ہیں وہ بیشتر عجمیوں کی لکھی ہوئی ہیں، قرآن وسنت کی جمع و تدوین پھر تفسیر و تشریح میں بھی ان کا حصہ عربوں سے کم نہیں رہا۔ اس طرح رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اور آپ کی کتاب عربی ہونے کے باوجود پورے عالم پر محیط ہوگئی اور دعوت و تبلیغ کی حد تک عرب و عجم کا فرق مٹ گیا ہر ملک وقوم اور ہر عجمی زبان کے لوگوں میں ایسے علماء پیدا ہوگئے جنہوں نے قرآن وسنت کی تعلیمات کو اپنی قومی زبانوں میں نہایت سہولت کے ساتھ پہنچا دیا اور رسول کو قوم کی زبان میں بھیجنے کی جو حکمت تھی وہ حاصل ہوگئی۔ آخر آیت میں فرمایا کہ ہم نے لوگوں کی سہولت کے لئے اپنے رسولوں کو ان کی زبان میں اس لئے بھیجا کہ وہ ہمارے احکام ان کو اچھی طرح سمجھا دیں لیکن ہدایت اور گمراہی پھر بھی کسی انسان کے بس میں نہیں اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت میں ہے وہ جس کو چاہتے ہیں گمراہی میں رکھتے ہیں جس کو چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں وہی بڑی قوت اور حکمت والے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۭ فَيُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ۝ لسن اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر . ( ل س ن ) اللسان ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤) اور ہم نے تمام پیغمبروں کو ان ہی کی قوم کی زبان میں پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تاکہ ان ہی کی زبان میں ان سے احکام الہی کو بیان کردیں یا یہ کہ ایسی زبان میں جس کے سیکھنے پر وہ قادر ہوں پھر جو گمراہی کا مستحق ہوتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اپنے دین سے گمراہ کردیتے ہیں اور جو ہدایت کا اہل ہوتا ہے اسے اپنے دین کی ہدایت دیتے ہیں اور وہی اپنے ملک اور سلطنت میں جو ایمان نہ لائے، اسے سزادینے میں غالب ہے اور اپنے حکم اور فیصلہ میں اور گمراہ کرنے اور ہدایت عطا کرنے میں حکمت والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ) یعنی ہر قوم کی طرف مبعوث رسول پر وحی اس قوم کی اپنی ہی زبان میں آتی تھی تاکہ بات کے سمجھنے اور سمجھانے میں کسی قسم کا ابہام نہ رہ جائے ‘ اور ابلاغ کا حق ادا ہوجائے۔ جیسے حضرت موسیٰ کو تورات دی گئی تو عبرانی زبان میں دی گئی جو آپ کی قوم کی زبان تھی۔ (فَيُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ) اس کا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ گمراہ کرتا ہے اسے جو چاہتا ہے گمراہ ہونا اور ہدایت دیتا ہے اس کو جو چاہتا ہے ہدایت حاصل کرنا ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5. This implies two things: First, Allah sent down His message in the language of the people from among whom a Prophet was raised so that they might not have any excuse left that they could not understand the language of the message. Secondly, this ruled out the presumption that a Messenger was ever given the message in a different language merely for the sake of a miracle. For Allah considered it more important to make the people understand the message and guide them rightly than to satisfy their curiosity. Obviously the purpose could best be served only if the message was sent down to them in their own language by their Prophet and not in any other. 6. That is, although the Messenger conveys the message in the mother tongue of the people, which is understood by everyone of them, yet all of them are not guided aright. This happens because of the fact that all of those who understand a message do not necessarily accept it. For it is entirely with Allah to show guidance by means of His message to anyone He wills and to let go astray anyone in spite of it. 7. As Allah is All-Powerful, no one is able by oneself to get guidance or to go astray, for none is completely independent but is under the power of Allah. But as He is All-Wise, He does not use His power blindly so as to show guidance to anyone He wills and to let go astray anyone He desires without rhyme or reason. In fact, the one who gets guidance from Him gets it on merit and the one who is let go astray is deprived of guidance because he himself deliberately chooses deviation.

سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :5 اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ تعالی نے جو نبی جس قوم میں بھیجا ہے اس پر اسی قوم کی زبان میں اپنا کلام نازل کیا تا کہ وہ قوم اسے اچھی طرح سمجھے ، اور اسے یہ عذر پیش کرنے کا موقع نہ مل سکے کہ آپ کی بھیجی ہوئی تعلیم تو ہماری سمجھ ہی میں نہ آتی تھی پھر ہم اس پر ایمان کیسے لاتے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے محض معجزہ دکھانے کی خاطر کبھی یہ نہیں کیا کہ رسول تو بھیجے عرب میں اور وہ کلام سنائے چینی یا جاپانی زبان میں ۔ اس طرح کے کرشمے دکھانے اور لوگوں کی عجائب پسندی کو آسودہ کرنے کی بہ نسبت اللہ تعالی کی نگاہ میں تعلیم و تلقین اور تفہیم و تبیین کی اہمیت زیادہ رہی ہے جس کے لیے ضروری تھا کہ ایک قوم کو اسی زبان میں پیغام پہنچایا جائے جسے وہ سمجھتی ہو ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :6 یعنی باوجود اس کے کہ پیغمبر ساری تبلیغ و تلقین اسی زبان میں کرتا ہے جسے ساری قوم سمجھتی ہے ، پھر بھی سب کو ہدایت نصیب نہیں ہو جاتی ۔ کیونکہ کسی کلام کے محض عام فہم ہونے سے یہ لازم نہیں آجاتا کہ سب سننے والے اسے مان جائیں ۔ ہدایت اور ضلالت کا سر رشتہ بہرحال اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ وہی جسے چاہتا ہے اپنے اس کلام کے ذریعہ سے ہدایت عطا کرتا ہے ، اور جس کے لیے چاہتا ہے اسی کلام کو الٹی گمراہی کا سبب بنا دیتا ہے ۔ سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :7 یعنی لوگوں کا بطور خود ہدایت پالینا یا بھٹک جانا تو اس بنا پر ممکن نہیں ہے کہ وہ کاملا خود مختار نہیں ہیں ، بلکہ اللہ کی بالادستی سے مغلوب ہیں ۔ لیکن اللہ اپنی اس بالادستی کو اندھا دھند استعمال نہیں کرتا کہ یونہی بغیر کسی معقول وجہ کے جسے چاہے ہدایت بخش دے اور جسے چاہے خواہ مخواہ بھٹکا دے ۔ وہ بالادست ہونے کے ساتھ حکیم و دانا بھی ہے ۔ اس کے ہاں سے جس کو ہدایت ملتی ہے معقول وجوہ سے ملتی ہے ۔ اور جس کو راہ راست سے محروم کر کے بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے وہ خود اپنی ضلالت پسندی کی وجہ سے اس سلوک کا مستحق ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: کفارِمکّہ کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ قرآن عربی زبان میں کیوں اُتارا گیا ہے؟ اگر یہ کسی ایسی زبان میں ہوتا جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نہیں جانتے تو اس کا معجزہ ہونا بالکل واضح ہوجاتا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ہر رسول کو اُس کی قوم کی مادری زبان میں اس لئے بھیجا ہے کہ وہ اپنی قوم کو اُس کی اپنی زبان میں اﷲ تعالیٰ کے احکام سمجھا سکے۔ کسی اور زبان میں قرآن نازل کیا جاتا تو تم یہ اعتراض کرتے کہ اسے ہم کیسے سمجھیں ؟ چنانچہ یہی بات سورۃ حمٓ السجدہ (۴۱:۴۴) میں فرمائی گئی ہے۔ 3: یعنی جو کوئی حق کا طلب گار بن کر اُس کو پڑھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اُس کو ہدایت دے دیتے ہیں، اور جو شخص ضد اور عناد کے ساتھ پڑھتا ہے، اُسے گمراہی میں بھٹکتا چھوڑ دیتے ہیں۔ مزید دیکھئے پچھلی سورت (۱۳:۳۳)کا حاشیہ۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤۔ مشرکین حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتراض جو کرتے تھے کہ یہ قرآن خود ان کا بنایا ہوا ہے خدا کی طرف سے نہیں آیا اگر کسی اور زبان میں ہوتا تو ہم یقین کرتے یہ تو انہیں کی زبان میں ہے خود انہوں نے بنا لیا ہے اسی کے جواب میں یہ آیت اتری کہ یہ بہت بڑا خدا کا احسان ہے کہ جتنی قوم میں رسول اس نے بھیجے سب انہیں میں سے اور جتنی کتابیں اتاریں انہیں کی زبان میں، نہیں تو پھر لوگوں کو جو دقتیں پیش آتیں اس کا کچھ ٹھکانا نہیں۔ اپنی زبان ہونے پر تو یہ کفرو انکار ہے دوسری زبان ہوتی تو یہ عذر ہوتا کہ سمجھنے سے عاجز ہیں۔ اسی واسطے ہمیشہ یہی دستور رکھا گیا ہے کہ ہر پیغمبر کو اس کی قوم کی زبان میں کتاب بھیجی تاکہ آسانی سے وہ خدا کے احکام ان لوگوں تک پہنچا دیں باقی رہا ان کا ایمان لانا اور گمراہ رہنا تو وہ خدا کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہتا ہے اپنے علم ازلی کے موافق ان آسمانی احکام کے پابند ہونے کی توفیق دیتا ہے اور جس کا گمراہی کی حالت پر دنیا سے اٹھنا اس کے علم ازلی میں ٹھہر چکا ہے اس کو وہ اس کی حالت پر چھوڑتا ہے { وھو العزیز الحکیم } اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ وہ ایسا زبردست اور صاحب قدرت ہے کہ اگر وہ چاہے تو ان منکروں کو مجبور کر کے راہ راست پر لانا اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے چناچہ سورت الانعام میں گزر چکا ہے { ولو شاء اللہ ما اشرکوا } [٦: ١٠٧) جس کا مطلب یہ ہے کہ علم الٰہی میں جن لوگوں کا گمراہی کی حالت میں اٹھ جانا ٹھہر چکا ہے ایسے لوگوں کو مجبور کر کے راہ راست پر لانا اللہ کو منظور نہیں ہے کیونکہ اس کے سب کام حکمت کے ہیں انسان کو نیکی بدی کے کرنے کا اختیار دے کر دنیا کے پیدا کرنے میں نیک و بد کے جانچنے کی حکمت جو اس نے رکھی ہے مجبوری کی حالت میں وہ باقی نہیں رہتی حاصل کلام یہ ہے کہ یہ دنیا عالم اسباب ہے جس کا ہر ایک کام کسی نہ کسی سبب پر منحصر ہے لیکن اس اسباب میں تاثیر کا پیدا ہونا یہ اللہ تعالیٰ کے علم ارادہ اور حکم پر موقوف ہے جیسے مثلاً ایک ہی دوا کو دو مریض استعمال کرتے ہیں پھر جس مریض کا اس دوا سے شفا کا پانا اللہ کے علم اور ارادہ میں ٹھہر چکا ہے اس کے حق میں دوا کی تاثیر کا حکم ہوجاتا ہے نہیں تو نہیں اسی طرح رسولوں کا آنا آسمانی کتابوں کا نازل ہونا یہ ہدایت کے اسباب ہیں لیکن ان اسباب میں ہدایت کی تاثیر کا پیدا ہوجانا یہ اللہ تعالیٰ کے علم اور ارادہ ازلی کے موافق اسی کے ہاتھ ہے غرض { فیضل اللہ من یشاء ویھدی من یشآء } کی تفسیر اہل سنت کے مذہب کے موافق یہی ہے جو بیان کی گئی۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث گزر چکی ١ ؎ ہے۔ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے۔ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ علم الٰہی میں نیک ٹھہر چکے ہیں ان کے دل پر قرآن کی نصیحت کا ایسا ہی اثر پڑتا ہے جس طرح اچھی زمین پر مینہ کے پانی کا اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ علم الٰہی میں بد قرار پا چکے ہیں ان کے حق میں قرآن کی نصیحت ایسی رائیگاں جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم کے لوگ عرب تھے اس واسطے اس آیت کے موافق قرآن شریف عربی زبان میں نازل ہوا لیکن سورت الاعراف کی آیت { قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا } [٧: ٥٨] سے اور صحیح بخاری و مسلم کی جابر بن عبد اللہ (رض) اور مسلم کی اور ابوہریرہ (رض) کی اس مضمون کی حدیثوں سے جب کہ یہ معلوم ہوگیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کل مخلوق کے لئے ہے ٢ ؎ تو آیت کا یہ مطلب ہوا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرب کے لوگ کو قرآن کا مطلب عربی زبان میں سمجھا دیں اور ہر قوم کے عام لوگ اپنی زبان میں قرآن کا ترجمہ اور قرآن کی تفسیر کر کے باقی کے لوگوں کو سمجھا دیں تاکہ عام نبوت کا اثر سب لوگوں میں پھیل جاوے۔ ١ ؎ جلد ہذا ص ٢٢٨۔ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٢٢۔ ٥٢٣ ج ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(14:4) بلسان قومہ۔ اس کی قوم کی زبان کے ساتھ۔ یعنی جس کی زبان وہی ہو جو اس کی قوم کی زبان ہے۔ لسان کے لفظی معنی زبان کے ہیں اور مجازا کلام اور لغت کے لئے بھی بولتے ہیں۔ رجل لسن۔ وہ شخص جو اپنی بات وضاحت سے بیان کرسکے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ اور وہ چھی طرح سمجھ سکیں اور ان پر حجت قائم ہوسکے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل جتنے پیغمبر بھیجئے گئے وہ ایک ایک قوم کی طرف بھیجئے گئے اور ہر قوم کی طرف اسی قوم کا ایک فرد بھیجا گئے اور ہر قوم کی طرف اسی قوم کا ایک فرد بھیجا گیا جو اسی کی زبان بولتا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت گو عام تھی اور قیامت تک کے تمام انسانوں بلکہ تما جن و انس کے لئے تھی لیکن چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوئے اور جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولین مخاطب تھی عربی زبان بولتی تھی اس لئے طبعی ترتیب کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کا پیغام سب سے پہلے عربی زبان میں ان کو پہنچایا۔ مقصد یہ تھا کہ پہلے یہ قوم اس پیغام کو سمجھے اور پھر اسے دوسروں تک پہنچائے اور سمجھانے کا ذریعہ بنے۔ اگر قرآن تمام زبانوں میں نازل کیا جاتا تو تنازع اور اختلاف اور تحریف احکام کے دروازے کھل جاتے اور اسلامی دعوت کے لئے کسی مقام پر بھی مرکزیت قائم نہ ہوسکتی۔ (از روح) ۔ 5 ۔ یعنی گوہر پیغمبر اپنی دعوت اسی زبان میں پیش کرتا ہے جسے ساری قوم سمجھتی ہے تاہم ہدایت و ضلالت کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہی میں پڑا رہنے دیتا ہے۔ آج بھی بہت سی عجمی قومیں اسلام کی حامی اور مددگار نظر آتی ہیں اور عرب ممالک باوجود عربی زبان کی خدمت و اشاعت کے اسلام سے منحرف اور دور ہو رہے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ اوپر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا ذکر تھا آگے اس کی تائید کے لیے دوسرے رسل کا ذکر ہے جس سے یہ معلوم ہوجائے کہ رسالت کوئی انوکھی چیز نہیں کہ اس کا انکار کیا جائے پہلے بھی رسول ہوتے آئے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو گمراہی اور تاریکیوں سے نکالنے کے لیے جو آسانیاں عنایت فرمائی ہیں۔ ان میں ایک آسانی یہ ہے کہ جتنے پیغمبر مبعوث فرمائے وہ اپنی قومی زبان میں ہی وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے تاکہ لوگوں کو ان کی بات سمجھنے میں آسانی رہے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایات اور کرم فرمائیوں میں یہ بھی ایک عنایت اور کرم فرمائی ہے کہ اس نے جتنے پیغمبر مبعوث فرمائے وہ سب کے سب انسان تھے جو انسان ہونے کے ساتھ اپنی اپنی قوم کے فرد ہوا کرتے تھے۔ انہیں حکم تھا کہ وہ لوگوں کو انہی کی زبان میں اپنے رب کا پیغام پہنچائیں۔ لوگوں کی زبان میں بات کرنے کا معنی یہ ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کسی غیر زبان میں وعظ و نصیحت کرنے کی بجائے اپنی قوم کی زبان میں ہی وعظ کیا کرتے تھے۔ اس کا یہ بھی مفہوم ہے کہ وہ مرقع، مسجع، پر تکلف الفاظ اور انداز اختیار کرنے کی بجائے لوگوں کی فہم اور علمی لیاقت کے مطابق صاف اور سادہ انداز میں سمجھایا کرتے تھے تاکہ لوگوں کو دین سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ لیکن انبیاء (علیہ السلام) کی انتھک اور پر خلوص کوشش کے باوجود لوگوں کی اکثریت نے ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کو پسند کیا۔ اسی آیت کے پیش نظر خطبہ جمعہ بھی اپنی زبان میں ہونا چاہیے۔ ( تفصیل کے لیے دیکھیں روح الخطبہ از قلم شیخ عبدالعزیز نورستانی ) ۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو انہیں جبراً ہدایت پر جمع کرسکتا تھا لیکن اس کی حکمت یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے ہدایت واضح کر کے انہیں اختیار دیا جائے کہ وہ ہدایت اور گمراہی میں سے جس کا چاہیں انتخاب کریں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ انسان کی پسند کے مطابق ہی اسے انتخاب کی توفیق بخشتا ہے اس لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تکلف نہیں کرتے تھے : (قُلْ مَآأَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ إِنْ ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ لِلْعَالَمِیْنَ )[ ص : ٨٦۔ ٨٧] ” فرما دیجیے کہ میں تم سے اس قرآن پر کوئی معاوضہ نہیں چاہتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں یہ قرآن لوگوں کے لیے ایک نصیحت ہے۔ “ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مَسْعُوْدِ الْعَبَدِیِ قَالَ سَمِعْتُ سَلَمَانَ الْفَارَسِیَ (رض) یَقُوْلُ نَہَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ نَتَکَلَّفَ للضَّیْفِ )[ رواہ الحاکم فی المستدرک وہو حدیث صحیح ] ” حضرت عبدالرحمٰن بن مسعود العبدی کہتے ہیں کہ میں نے سلمان فارسی (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہمانوں کے لیے تکلف کرنے سے منع کیا تھا۔ “ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کُنَّا عِنْدَ عُمَرَ (رض) فَقَالَ نُہِیْنَا عَنِ التَّکَلُّفِ )[ رواہ البخاری : کتاب الاعتصام ] ” حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ہم حضرت عمر (رض) کے پاس تھے تو انہوں نے کہا کہ ہم تکلف کرنے سے منع کیے گئے تھے۔ “ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کو تکلف کرنے سے منع کرتے تھے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ فَانْظُرِ السَّجْعَ مِنَ الدُّعَآءِ فَاجْتَنِبْہُ ، فَإِنِّی عَہِدْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَأَصْحَابَہٗ لاَ یَفْعَلُوْنَ إِلاَّ ذٰلِکَ یَعْنِی لاَ یَفْعَلُونَ إِلاَّ ذٰلِکَ الاِجْتِنَابَ )[ رواہ البخاری کتاب الدعوات، باب مَا یُکْرَہُ مِنَ السَّجْعِ فِی الدُّعَآءِ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ دعا میں قافیہ بندی سے بچو۔ کیونکہ میں ایک عرصہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کے ساتھ رہا ہوں وہ اسی طرح نہیں کرتے تھے یعنی قافیہ بندی سے بچتے تھے۔ “ مسائل ١۔ تمام رسول اپنی زبان میں ہی وعظ و نصیحت کرتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن تمام انبیاء ( علیہ السلام) انسان تھے : ١۔ تمام رسولوں کو ان کی قوم میں انہی کی زبان میں بھیجا گیا۔ (ابراہیم : ٤) ٢۔ انبیاء اقرار کرتے تھے کہ ہم بشر ہیں۔ (ابراہیم : ١١) ٣۔ اللہ نے جتنے بھی رسول بھیجے وہ آدمی تھے۔ (یوسف : ١٠٩) ٤۔ اللہ نے آپ سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے وہ بشرہی تھے۔ (النحل : ٤٣) ٥۔ رسول اللہ کا اعتراف کہ میں تمہاری طرح بشرہوں۔ (الکہف : ١١٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنی قوموں کی زبان بولنے والے تھے : اس آیت میں ایک بہت اہم بات بیان فرمائی اور وہ یہ کہ ہم نے جتنے بھی رسول بھیجے ہیں وہ سب اپنی اپنی قوموں کی زبان میں ان سے بات کرتے تھے اور اپنی قوم کی زبان میں انہیں اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچاتے اور بیان فرماتے تھے ‘ حضرت آدم (علیہ السلام) دنیا میں تشریف لائے ان کی بیوی حوا بھی تشریف لائیں اور ان دونوں سے اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی بھاری تعداد میں مرد اور عورت پیدا فرمائے۔ (وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآءً ) حضرت آدم (علیہ السلام) کی ذریت بڑھتی رہی پھیلتی رہی قبیلے بنتے چلے گئے مختلف زبانیں پیدا ہوتی چلی گئیں یہ زبانوں اور صورتوں کا مختلف ہونا اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی بڑی نشانیاں ہیں سورة روم میں فرمایا (وَمِنْ اٰیَاتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوَاتِ وَاْلَارْضْ وَاخْتِلَافِ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّلْعٰلِمِیْنَ ) (اور اس کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں کا اور زمین کا پیدا فرمانا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا بیشک اس میں جاننے والوں کے لیے نشانیاں ہیں) ۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے نبوت اور رسالت کا سلسلہ بھی جاری فرمایا ہدایت دینے کے لیے انبیاء کرام اور رسل عظام ( علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا تعلیم و تبلیغ اور افادہ و استفادہ کا سب سے بڑا ذریعہ زبان ہی ہے جب زبانیں مختلف ہیں اور لوگوں کو ایمان کی دعوت دینا اور باری تعالیٰ شانہ کے احکام بیان کرنا اللہ تعالیٰ شانہ نے اپنے پیغمبروں کے سپرد فرمایا تو ظاہر ہے کہ ہر نبی کو وہی زبان بولنا ضروری ہوا جو زبان ان کے مخاطبین کی تھی (لِیُبَیِّنَ لَھُمْ ) میں اس بات کو بیان فرمایا کہ جو بھی نبی آیا اس نے اپنی قوم سے انہیں کی زبان میں باتیں کیں اور اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اپنے وطن سے ہجرت کر کے ملک شام آباد ہوگئے تھے ان کا وطن سابق بابل کے قریب تھا وہاں جو بھی زبان بولتے ہوں ہجرت کر کے جب شام میں تشریف لے آئے اور وہاں کے لوگوں میں شادی کرلی اور ان لوگوں کی زبان سیکھ لی تو نبوت سے سر فراز ہو کر انہی کی زبان میں تبلیغ فرماتے اور حق کی دعوت دیتے تھے ‘ مطلب یہ نہیں ہے کہ رسول اپنی قوم کی زبان کے علاوہ دوسری زبان نہیں جانتے تھے ‘ مطلب یہ ہے کہ جس قوم کی طرف بعثت ہوئی ان کی زبان جانتے تھے بعض لوگوں نے جو حضرت لوط (علیہ السلام) کے بارے میں اشکال کیا ہے کہ وہ دوسرے ملک سے آکر آباد ہوئے تھے پھر آیت کے عموم میں کیسے داخل ہوئے یہ اشکال کوئی وزن نہیں رکھتا کیونکہ جس قوم کی طرف مبعوث ہوئے ان کی زبان جاننا دعوت و تبلیغ کے لیے کافی ہے۔ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت عامہ اور عربی زبان میں قرآن نازل ہونے اور نماز و اذان مشروع ہونے کی حکمت : سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جو حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) مبعوث ہوئے وہ کسی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے تمام انسانوں کی طرف ان کی بعثت نہیں ہوتی تھی کما قال النبی وکان النبی یبعث الی قومہ خاصۃ و بعثت الی الناس عامۃ (صحیح بخاری) آپ کی بعثت سارے زمانوں کے لیے سارے جنات کیلئے اور سارے انسانوں کے لئے ہے چونکہ آپ کے مخاطبین اولین اہل عرب ہی تھے اس لیے آپ بھی اپنی قوم کی زبان میں خطاب فرماتے تھے اور قرآن مجید بھی عربی زبان میں نازل ہوا پھر عربی زبان کی بلاغت اور لطافت ایسی ہے جو دوسری کسی زبان میں نہیں ہے اس میں الفاظ بھی ثقیل نہیں ہیں جیسا کہ انگریزی اور سنسکرت وغیرہ میں ہیں اور اس زبان کا سیکھنا بھی آسان ہے اور معجزہ کی جو شان عربی زبان میں ہے وہ دوسری زبانوں میں نہیں ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے محمد عربی کو خاتم الانبیاء بنایا اور اپنی آخری کتاب بھی عربی زبان میں نازل فرمائی چونکہ سارے انسان خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت دعوت ہیں اس لیے امت کی وحدت قائم رکھنے کے لئے کسی ایک ہی زبان میں آخری کتاب کا نازل ہونا ضروری تھا اور اپنی لطافت فصاحت و بلاغت اور معجزہ ہونے کے اعتبار سے عربی زبان ہی کو برتری حاصل تھی اور اب بھی ہے اس لیے عربی ہی کو ساری امت کی مرکزی زبان قرار دیا گیا اگر ہر ہر علاقے کے رہنے والوں کی زبانوں میں الگ کتاب اللہ ہوتی تو پوری امت کی مرکزیت اور وحدت کی صورت نہ بنتی جیسا کہ قرآن مجید کے معانی کا جاننا اور سمجھنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا مطلوب ہے اسی طرح اس کے الفاظ کا یاد رکھنا پڑھنا پڑھانا تلاوت کرنا بھی مطلوب ہے جیسا اس کے احکام پر عمل کرنے سے ثواب ملتا ہے ایسا ہی اس کے الفاظ کی تلاوت کرنے پر بھی اجر ملتا ہے۔ زبان کی سلاست اور لطافت جو عربی زبان میں ہے وہ کسی دوسری زبان میں نہیں ہے چھوٹے چھوٹے بچے بھی اسے حفظ کرلیتے ہیں اور بوڑھے لوگ بھی یاد کرلیتے ہیں اس کے حروف بھی ایسے ہیں جنہیں سب ادا کرسکتے ہیں (اگرچہ بعض حروف کی ادائیگی میں ذرا محنت اور مشق کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ادا سب ہوجاتے ہیں) برخلاف اس کے بعض زبانوں کے حروف ایسے ہیں کہ دیگر علاقوں کے باشندوں سے ادا نہیں ہوتے مثلاً (ڑ) اور (ڈ) اہل عرب ادا نہیں کرسکتے اس لیے عربی زبان ہی کو اسلامی عربی زبان قرار دیا گیا قرآن بھی اسی زبان میں نازل ہوا نماز بھی اسی زبان میں پڑھی جاتی ہے اور اذان بھی اسی زبان میں دی جاتی ہے۔ پھر چونکہ اہل استطاعت پر حج کرنا بھی فرض ہے اس کے لیے مکہ معظمہ آنا پڑتا ہے اور یہاں اہل عرب سے واسطہ پڑنا ضروری ہے اس لیے بھی مسلمانوں کے لیے مرکزی عالمی زبان عربی ہی ہونا ضروری ہوا۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی ذمہ داری حق پہنچانے اور حق سمجھانے کی تھی رہا ہدایت دینا تو یہ اللہ جل شانہ کی قضاء وقدر اور ارادہ سے متعلق ہے اسی لئے فرمایا (فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ) یعنی حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنی قوموں کی زبانوں میں بیان فرماتے تھے اس کے بعد اللہ نے جس کو چاہا گمراہی پر باقی رکھا اور جس کو چاہا ہدایت دی قال صاحب الروح ص ١٨٢ ج ١٣ کانہ قیل فبینوا لھم فاضل اللہ تعالیٰ من شاء اضلا لہ وھدی من شاء ھدایتہ حسب ما اقتضتہ حکمتہ تعالیٰ البالغۃ۔ آیت کے ختم پر فرمایا (وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) اور وہ غالب ہے وہ جو چاہے وہی ہوگا اور وہ حکمت والا بھی ہے وہ اپنی حکمت کے موافق فیصلے فرماتا ہے اس کا کوئی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ یہ ابتداء سورت یعنی ” کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ “ سے متعلق ہے یعنی آپ سے پہلے بھی ہم قوموں میں ان کے ہم زبان رسول بھیجتے رہے تاکہ وہ مسئلہ توحید خوب واضح کر کے ان کو سمجھا سکیں اور ان سے پہلی سرکش قوموں کی تباہی کا حال ان کو سنائی تاکہ وہ اس نصیحت کو سیکھیں۔ ” فَیضِلُّ اللہُ الخ “ اللہ کے پیغمبر بیان کرتے ہیں لیکن ہدایت صرف وہی لوگ پاتے ہیں جن کے دلوں میں انابت ہو ضدی اور معاند لوگوں کو ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

4 ۔ اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ اسی کی قوم کی زبان میں پیغمبر بنا کر بھیجا تا کہ وہ اپنی قوم کے سامنے احکام الٰہیہ کو صاف صاف بیان کرے پھر اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بےراہ رکھتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا اور راہ دکھاتا ہے اور وہی کمال قوت اور کمال حکمت کا مالک ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کافر کہتے تھے کہ اور بولی میں قرآن اترتا یہ تو اس شخص کی بولی ہے۔ شاید آپ کہلاتا ہو اس کا جواب یہ ہے۔ 12 خلاصہ۔ یہ کہ غیر بولی کہ تم کیا سمجھتے اور بیان کا مقصد ہی فوت ہوجاتا اصل مقصد تو تبیین ہے اور وہ اسی بولی میں ہوسکتی ہے جو قوم کی بھی بولی ہو اور پیغمبر کی بھی ہوتا کہ تم سمجھ سکو آگے ہدایت و گمراہی اللہ کے ہاتھ ہے اور اس کی حکم و مصالح پر مبنی ہے۔